"آپ عبایا نہیں اتاریں گی؟"اس نے پوچھا تھا۔
"نہیں!"میں نے مختصر جواب دیا۔
"اف۔۔۔۔یہ بے اعتباری!!"مجھے علم تھا کہ وہ منہ دوسری طرف پھیر کر ضرور یہ بولی ہو گی۔"میم!آج تو پارٹی تھی۔۔آج تو۔۔۔۔"منہ ادھر کر کے۔
"دین پارٹی اور غیر پارٹی کے لیے مختلف نہیں ہوتا۔میں عبایا نہیں اتاروں گی۔لیکن کسی دن صرف سٹاف کی پارٹی ہوئی تو میں ضرور عبایا اتاروں گی۔"میں نے مسکرا کر بتایا۔
وہ لق دق پلٹ گئی۔کوآرڈینیٹر کی باتوں نے اسے غصہ ضرور دلایا تھا لیکن وہ اعتراض نہیں کر سکی۔مجھے پہلے ہی نقاب نہ کرنے کا افسوس تھا۔ہمارے گھر میں دس سالہ بچے کو اندر آنے کی جازت نہیں تھی لیکن یہاں دن بھر کی بھاگم دوڑ کی وجہ سے میں بارہ تیرہ سالہ بچوں سے پردہ نہیں کر سکی تھی۔میں چاہتی تھی کہ والد محترم مجھے ٹوک دیں لیکن علم نہیں کہ انہوں نے مجھے کیوں نہیں ٹوکا۔میں نے بارہا اظہار افسوس بھی کیا اور اپنے تئیں اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش بھی کی کہ ابو جی!میں عبائے میں ہی رہتی ہوں۔اگلے سیشن میں،میں یہ کلاسز بھی نیچے شفٹ کروا دوں گی۔چھ ماہ ہی کی تو بات تھی لیکن احساس جرم۔اگلے سیشن میں سٹاف کو بھی عبائے کا پابند کرنا تھا۔مجھے کچھ تسلی ہوئی۔
"میم کو دیکھو ذرا۔۔۔بچے ہیں چھوٹے چھوٹے۔۔۔تیار ہو آتیں بھلا۔۔کیا کہیں گے یہ بچے انہیں؟؟ہم بھی تو تیار ہوئے ہیں۔۔"بھانت بھانت کی بولیاں تھیں۔مجھے وہ دن یاد آ گیا کہ میں عبایا بدل کر اور سکارف کی جگہ رنگین ڈوپٹہ اوڑھ کر چلی گئی۔سب بچے مجھے دیکھے گئے کہ میم کو آج کیا ہوا ہے؟پڑھائی سے زیادہ ان کی توجہ میرے جوتوں پر تھی۔حالانکہ ان فلیٹ جوتوں میں مجھے کبھی کشش محسوس نہیں ہوئی،بس ویسے ہی بند جوتے اتار کر انہیں پہن گئی تھی۔میں خجل سی پیریڈ جلد ختم کر کے آفس آ گئی۔"میرا بھی دل کرتا ہے تیار ہونے کا،لیکن یہ بچے؟۔۔۔اللہ معافی"پھر آئندہ کبھی حلیہ تبدیل نہیں ہوا۔سٹاف ہنستا رہا،باتیں بنتی رہیں،پارٹیز ہوتی رہیں لیکن میری توجہ صرف کام پر مرکوز رہی۔لمحے بیتے،سال گزرے۔ایک اندوہ ناک واقعہ پیش آ گیا۔استاد شاگرد کا مقدس رشتہ پامال ہو گیا۔میں ششدر رہ گئی۔اس دن پیریڈ لینے کی بھی ہمت نہ ہوتی تھی۔معصوم بچے کیا جانتے کہ کیا بیتا ہے؟وہ تسلی سے اپنی کارگزاریاں سنا رہے تھے۔۔وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔جانتے صرف ہم تھے۔ہم اساتذہ۔۔۔جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے تغافل برتا تھا۔ہم سے کہیں بھول ہوئی تھی۔آفس میں گرما گرم بحث جاری تھی۔میں بولنا نہیں چاہتی تھی لیکن جذبات اس قدر تھے کہ میں بات کاٹے بولے گئی۔مجھے لگ رہا تھا کہ میں رو دوں گی۔سارا سٹاف سر جھکائے تھا۔جب میں بول بول کر تھک چکی تو ایک سینیئر ٹیچر مخاطب ہوئیں"میم!آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ہم ہی ٹھیک نہیں کرتے ناں۔"
سال گزرتے رہے،میں نے سکول چھوڑ دیا تھا۔نئی زندگی،نئے کام۔۔واقعات ہوتے رہے لیکن میں نے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا تھا،مجھے کیا علم ہوتا؟آج بھی ایک واقعہ ہوا ہے۔میں ششدر ہوں۔ملزم تلاشتی ہوں۔ملزم کئی نکلتے ہیں۔کس پر مقدمہ دائر کروں؟اس میڈیا پر کہ ایسے حیا باختہ ڈرامے کیونکر چلاتا ہے؟پیمرا پر کہ ذمہ داری کیوں نہیں نبھاتا؟والدین پر کہ تربیت کیوں نہیں کرتے؟بچوں کے دکھ درد کے ساتھی کیوں نہیں بنتے؟ٹیچر پر کہ سکول پڑھانے آتی تھی۔سولہ سنگھار کرنے اور خوش گپیاں اڑانے نہیں۔بچے پر کہ اسے معمار بننا تھا۔وہ کن کاموں میں الجھ کر رہ گیا؟
اسلام آباد کے اسکول میں پڑھتا بچہ جس انگریزی لکھائی اچھی تھی نہ درست۔۔جسے اردو لکھنا مشکل لگتا تھا۔۔۔عشق میں جان ہارنا سیکھ گیا!!