• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث بک

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,138
پوائنٹ
412
محترم جناب @محمد نعیم یونس صاحب

میں بھی بقول شیخ خضر حیات صاحب حفظہ اللہ کہتا ھوں کہ سلسلہ جاری رکھیں:

و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

خوب سلسلہ ہے یہ ، جاری رکھیں ، بعد میں ’’ چہل قدمیاں ‘‘ کے نام سے چھپوایا جاسکتا ہے ۔ ابتسامہ ۔
مسکراہٹوں کے ساتھ.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,586
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
محترم جناب @محمد نعیم یونس صاحب

میں بھی بقول شیخ خضر حیات صاحب حفظہ اللہ کہتا ھوں کہ سلسلہ جاری رکھیں:

مسکراہٹوں کے ساتھ.
جزاک اللہ خیرا محترم عمر بھائی!
دراصل ہر بندے کے ساتھ کئی ایسے حقیقی واقعات پیش آتے ہیں کہ جس میں لطیف باتیں موجود ہوتی ہیں ۔۔گویا کہ حقیقی لطائف۔۔یا پھر سبق آموز باتیں وغیرہ ۔۔پھر بھی لوگ نجانے کیوں جھوٹے لطیفے بنا بنا کر عوام کو ہنساتے ہیں؟ یا پھر جھوٹے واقعات گھڑ کےمن چاہا نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں یا پھر اپنی آپ بیتاں کسی نامعلوم کے ذمے لگا دیتے ہیں۔۔۔ابتسامہ!
اللہ تعالی ہمیں ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق دے۔ آمین!
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,138
پوائنٹ
412
آمین. تقبل یا رب العالمین.

بالکل بجا فرمایا آپ نے جناب.
یقینا ھر کسی کی زندگی میں ایسے مواقع پیش آتے ھیں ایسے حالات پیش آتے ھیں.
خیر زیادہ لکھوں گا تو قیلولہ نہیں کر پاؤں گا. اور قیلولہ نہ ھوا تو شام اور رات کی پڑھائ گول ھو جاۓ گی. اور امتحان سر پر ھے. اس لۓ کوئ سمجھوتا نہیں.

دعا کی نہیں دعاؤں کی گزارش.
بہت سی مسکراہٹوں کے ساتھ.
والسلام
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
گلی میں کھیلنے والے بچوں کو وہ بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا۔اس نے دیکھا کہ ایک بچے نے دوسرے بچے کو مارا تو مار کھانے والا روتا ہوا اپنے گھر کی طرف بھاگا لیکن تھوڑی ہی دیر میں پھر آ موجود ہوا۔ اب اس کے چہرے پر حد درجہ اطمینان تھا۔ جس بچے سے اس کی لڑائی ہوئی تھی، اس کو اس نے کہا ” میں نے اپنی ماما سے کہہ دیا ہے ”اور یہ کہہ کر وہ دوبارہ کھیل میں شامل ہو گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ اس بچے کو حد درجہ اطمینان کس چیز نے دیا ہے ۔اس کی ‘ماما’ نہ تو موقع پرآئی ہے ، نہ اس نے دوسرے بچے کو کچھ کہا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی پیغام بھیجا ہے مگر اس کا بیٹا پھر بھی مطمئن ہے ۔غور و فکر سے اس پر واضح ہوا کہ اس کا اطمینان در اصل اس یقین کا نتیجہ تھا جو اس کو اپنی ماں پر تھا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی ماں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اس کی بے عزتی کا بدلہ لے سکے اور یہ کہ وہ لازماً ایسا کرے گی۔مگر یہ کہ، وہ کب ایسا کرے گی، کس طریقے سے کرے گی ، کتنا کرے گی، یہ سب کچھ اس نے اپنی ماں پر چھوڑ دیا تھا۔اور یہ بھی اس کا یقین تھا کہ وہ یقیناً بہتر ہی کرے گی۔
تفویض اور اپنے معاملات کو ایک مشفق اور طاقتور ہستی کے سپرد کرنے کا یہ عمل اسے بہت بھایا اور ساتھ ہی وہ بہت شرمندہ بھی ہوا جب اسے یہ احساس ہوا کہ اس کا تو اپنے مالک سے اتنا بھی تعلق نہیں جتنا کہ اس بچے کا اپنی ماں سے ہے ۔ اس نے یاد کیا کہ اس کی زندگی میں کتنے مواقع ایسے ہیں کہ جب اس نے سجدے میں سر رکھ کر یہ کہا ہو کہ مالک میرے بس میں جو تھا وہ تو میں نے کر لیا اب معاملہ تیرے سپرد ہے اور یہ کہہ کر وہ اس بچے کی طرح مطمئن ہو گیا ہو۔ اور جب تہی دامنی کی احساس نے اسے بالکل ہی سرنگوں کر دیا تو اس نے حساب لگایا کہ اصل میں گڑ بڑ دو جگہ پر ہے ۔ اول تو اسے مالک کی طاقت ، قدرت اور عظمت کا کامل استحضار ہی نہیں اور اگر ہے تو پھر اس کی حکمت پہ شاید کامل ایمان نہیں۔ وگرنہ یہ ممکن نہ تھاکہ تفویض کے بعد اسے اطمینان حاصل نہ ہو جاتا۔ اور پھر اس نے افوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد کہہ کر یہ عہد کیا کہ آئند ہ وہ تفویض کا یہ عمل بچوں سے سیکھے گا اور ہر اہم موقع پر یہ کہہ کر اپنے ایمان کی تربیت کرے گا کہ میں نے اپنے اللہ سے کہہ دیا ہے

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ایک وقت مقررہ اللہ تعالی نے ہمیں دیا ہے ، میں کہتی ہوں کہ ایک وقت مقررہ ہمیں خود کو بھی دینا چاہیئے۔اپنے آپ کو آگے آنے والے دس دن دیں کہ ان دس دن میں کوئی نیک کام ضرور سر انجام دینا ہے!!!
باذن اللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,803
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

((وہی انسان دانش مند ہےجو))

دنیا میں سب سے قیمتی اثاثہ انسان کی عمر(زندگی) ہے ، اگر انسان نے اِس کو آخرت کی بھلائی کے لئے استعمال کیا ، تو یہ تجارت اس کے لئے نہایت ہی مفید ہے اور اگر اِسے فسق وفجور میں ضائع کردیا اور اِسی حال میں دنیا سے چلا گیا تو یہ بہت بڑا نقصان ہے ، وہ شخص دانش مند ہے جو اللہ تعالیٰ کے حساب لینے سے پہلے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کر لے اور اپنے گناہوں سے ڈر جائے ، قبل اس کے کہ وہ گناہ ہی اُسے ہلاک اور تباہ و برباد کردیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,803
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

موت !


پوچھا کون ہو تم ؟ کہا میں ہوں موت
نہ آنے سے پہلے بتاتی ہوں
نہ مہلت دیتی ہوں


---- آؤ چلیں ----
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
تیری عظمتوں سے هوں بےخبر،
یہ میری نظر کا قصور هے.
تیری راه گزر میں قدم قدم،
کهیں عرش هے کهیں طور هے.
یہ بجا هے مالک دوجهاں،
میری بندگی میں قصور هے.
یہ خطا هے میری خطا مگر،
تیرا نام بهی تو غفور هے.
یہ بتا تجه سے ملوں کهاں،
مجهے تجه سے ملنا ضرور هے.
کهیں دل کی شرط نہ ڈالنا،
ابهی دل گناهوں سے چور هے.
تو بخش دے میرے سب گناه،
تیری ذات رحيم و غفور هے.

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
اکنامکس کا ایک قانون ہے جو
"Law of Opportunity Cost"
کہلاتا ہے۔
جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرائع کی کمی کی وجہ سے ایک ہی وقت میں دو کام نہیں کیئے جاسکتے
جیسے کوئی طالب علم صبح اٹھے تو اس کے سامنے دو آپشن ہوتے ہیں 1) نیند 2) سکول یا کالج
اب یہ بندے بندے پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ اس کے نزدیک کیا چیز قیمتی ہے؟
وہ کس کو اختیار کرتا ہے۔
جس کو اختیار کرتا ہے وہ چیز "اوپرچونٹی" کہلاتی ہے۔
جس کو چھوڑ دیتا ہے وہ "کوسٹ" کہلاتی ہے۔
اسی طرح اگر آپ کو کہیں جانا ہو تو ایک آپشن پبلک ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے دوسرا رکشہ کا ہوتا ہے یا ٹیکسی وغیرہ۔
آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ کو کیا اختیار کرنا ہے؟ بس یا رکشہ، ٹیکسی؟
ایسا نہیں ہوسکتا کہ آُپ ایک ہی وقت میں دونوں میں سفر کرلیں!!!
چلیں ایک اور مثال لیں۔
میٹرک کے بعد آپ کے پاس دو چوائس ہیں
میڈیکل یا انجینرنگ
دونوں میں سے ایک چیز لینی ہوگی
ایسا نہیں کہ ایک ہی وقت میں ڈاکٹر بھی بن جائیں اور انجینئر بھی
بالکل سیدھی سی بات ہے۔
اب میں آگے چلتا ہوں۔
دین اسلام کی واجبی معلومات حدیث کے مطابق ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
لیکن اگر اسلام کو گہرائی کے ساتھ سیکھا اور پڑھا جائے تو اس کیلیئے ایک عمر بھی ناکافی ہے۔
جو لوگ اسلام کو گہرائی سے پڑھتے ہیں وہ اسی
"Law of Opportunity Cost"
کی وجہ سے سائنس یا ٹیکنالوجی میں گہرائی کے ساتھ غوطہ خوری نہیں کرپاتے۔
(واضح ہو کہ مسلمان سائنس دانوں کی بڑی دھوم رہی ہے لیکن علمی حلقوں میں ان سائنس دانوں کے فتاویٰ جات وغیرہ موجود نہیں ہیں۔)
اسی طرح جو سائنسی ماہرین ہیں وہ اسلامی معلومات کا احاطہ اتنا نہیں کرسکتے جتنا ایک معتبر مفتی کرتا ہے۔
ہمارے لوگ مولوی کو سائنس دان بنانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں
لیکن سائنس دان کو مولوی بنانے کی کوشش نہیں کرتے؟
ارے بھائی فرق کو سمجھو!
مولوی کا کام ہے قران و سنت میں غور وخوض، لوگوں کو جدید مسائل کا شرعی حل بتانا وغیرہ، اس کو اپنا کام کرنے دو۔
اور جو مسلمان اسلام کی فرض معلومات حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کی کامیابی وترقی کیلیئے سائنس ہر کام کرہے ہیں انہیں بھی کام کرنے دیا جائے۔
اگرچہ امور کے لحاظ سے لوگوں کی انکی صلاحیتوں اور مصروفیتوں کی حساب سے تقسیم ہوگی
جو کہ فطری بات ہے
لیکن یہ لوگ آپس میں انٹر کنیکٹڈ ہونگے۔
سائنس دان ، مولوی کے ساتھ، مولوی ڈاکٹر کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔
جیسی تقسیم کار کی طرف سورہ مزمل کی آخری آیت میں بھی اشارہ ہے۔


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
چار سیب
۔۔۔۔۔۔
ڈئیر سٹوڈنٹس! آج آپ کی نفسیات کا آسان سا ٹیسٹ ہے۔یہ میز پر چارسیب پڑے ہوئے ہیں۔نمبر ۱ جو شکل سے ہی ٹھیک معلوم نہیں ہورہا۔نمبر ۲،نمبر ۳اور نمبر ۴سیب کی شکل ایک جیسی ہے،لال سرخ۔لیکن ان کا فرق میں آپ کو واضح کردوں۔نمبر ۲ سیب اندر سے بالکل گلا ہوا ہے اور نمبر تین سیب ٹھیک ہے لیکن اس کا ذائقہ میٹھا نہیں۔جبکہ نمبر ۴ سیب بالکل میٹھا اور خوشبو دار ہے۔
آپ کا امتحان یہ ہے کہ اس میں سے آپ نے اپنی پسند کے دو سیب شیٹ پر لکھنے ہیں۔پہلے وہ جو سب سے زیادہ پسند ہے اور پھر جو دوسرے نمبر پر پسند ہے،رول نمبر لکھ کر شیٹ جمع کروا دیں۔آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔
تمام سٹوڈنٹس نے فوراً ہی شیٹس جمع کروا دیں۔
کل اس کا رزلٹ سنایا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے خوشی ہے کہ تمام سٹوڈنٹس نے ایک ہی جواب دیااور وہ بھی درست۔
نمبر ۴ سیب سب سے پہلے پسند کیا گیا اور نمبر ۳ سیب دوسرے نمبر پر۔
آپ تمام طلباء یہ نفسیاتی ٹسٹ پاس کر چکے ہیں۔
لیکن سر!اس میں کیا مشکل بات تھی؟یہ تو ہر انسان بتا سکتا ہے۔
ایک طالب علم نے سوال کیا۔اور یہی سوال تمام طلباء کے چہروں پر عیاں تھا۔
چلیں میں آپ کی الجھن دور کرتا ہوں۔ہمارے معاشرے میں دین کے حوالے سے یہ بحث بہت عام ہے۔باطن ٹھیک ہونا چاہئے یا ظاہر۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ظاہر کی ضرورت نہیں،باطن ٹھیک ہونا چاہئے۔
اس تناظر میں چاروں سیبوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
سیب نمبر ۱:اس کا ظاہر ہی ٹھیک نہیں تھا تو آپ سب نے اس کو فوراً لسٹ سے نکال دیا۔گویا ظاہر ٹھیک نہ ہونا اتنی ہلکی بات نہیں ہے۔
سیب نمبر ۲:اس کا ظاہر ٹھیک تھا لیکن باطن گلا ہوا تھا،آپ نے اسے بھی منتخب نہیں کیا،اس کا مطلب ہے کہ محض ظاہر بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔
سیب نمبر ۳:ظاہر ٹھیک ہے،اندر بھی ٹھیک ہے لیکن مٹھاس نہیں،اس کا مطلب ہے کہ اس سیب کو کھاد،دھوپ،پانی یا زمین کی زرخیزی نہیں ملی۔اسی طرح جو انسان دین کے راستے پر ہوں ان کو صحبتِ صالحین اور نیک ماحول کی ضرورت ہوتی ہے،تب ان میں تقویٰ کی مٹھاس پیدا ہوگی۔
سیب نمبر ۴: آپ سب کی مشترکہ پسند،یہ اس انسا ن کی مانند ہے جس کا ظاہر بھی ٹھیک ہے اور باطن بھی اور اسے ہم قرآنی اصطلاح میں نفسِ مطمئنہ کہتے ہیں۔
پیارے طلباء!آپ نے عملی زندگی میں قدم رکھنا ہے،آپ بتائیں کہ آپ کون سے سیب کی مانند بننا پسند کریں گے۔
سیب نمبر ۴،سب طلباء کی ایک ہی آواز تھی۔
جی قارئین!آپ کونسے سیب کی مانند بننا پسند کریں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 
Top