وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
الله آپ کو جزایۓ خیر دے - امینالسلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی @عبدالرحمن حمزہ کی بات صحیح ہے ، اور اوپر ترجمہ بھی درست ہے ،
یہ محض ام المومنین سیدہ کی تواضع و انکساری تھی ، رضی اللہ عنہا
علامہ ابن حجر ؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں :
قوله لا أزكى بضم أوله وفتح الكاف على البناء للمجهول أي لا يثنى علي بسببه ويجعل لي بذلك مزية وفضل وأنا في نفس الأمر يحتمل أن لا أكون كذلك وهذا منها على سبيل التواضع۔۔۔ الخ
یعنی سیدہ کے اس ارشاد (لاَ أُزَكَّى بِهِ أَبَدًا» جو بر بنائے مجہول کے صیغہ میں ہے جس میں پہلا حرف پیش کے ساتھ اور کاف زَبَر کے ساتھ ہے ، (اردو ترجمہ ہے : میں نہیں چاہتی کہ میری تعریف ہوا کرے )
اس کا مطلب ہے کہ یہاں دفن ہونے میری مدح و ثنا نہ ہونے لگے ، اور یہ میرے لئے امتیازی شان اور فضیلت کا سبب نہ بن جائے ، جس کی ہوسکتا ہے میں حامل نہ ہوں، (ابن حجر ؒ فرماتے ہیں ) سیدہ صدیقہ ؓ کے یہ کلمات از راہ تواضع ہی تھے ‘‘ فتح الباری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور (تزکیہ ) کا معنی ہے پاک ،صاف ،سچا ،عادل ہونے کا اظہار کرنا،
قرآن مجید میں ارشاد ہے :
هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ ۚ فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (سورۃ النجم32 )
وہ تمہاری اس حالت کو بھی خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس حالت کو بھی جب تم اپنی ماؤں کے بطنوں میں جنین تھے لہذا تم اپنے پاک ہونے کا دعویٰ نہ کرو۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کون پرہیزگار ہے۔
اس حدیث کا ایک اور بھی طرق ہے - اور وہاں بھی یہی ترجمہ کیا گیا ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل علم کو اتفاق پر رغبت دلانے کا بیان، اور اس امر کا بیان جس پر حرمین (مکہ اور مدینہ کے علماء) متفق ہوجائیں، اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین اور انصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متبرک مقامات ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور قبر کا بیان۔
راوی: عبید بن اسمعیل , ابواسامہ , ہشام , عروہ , عائشہ
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ادْفِنِّي مَعَ صَوَاحِبِي وَلَا تَدْفِنِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَيْتِ فَإِنِّي أَکْرَهُ أَنْ أُزَکَّی
عبید بن اسماعیل، ابواسامہ، ہشام، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے عبداللہ بن زبیر کو وصیت کی کہ مجھے میری سوکنوں کے پاس دفن کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حجرے میں دفن نہ کرنا، اس لئے کہ میں ناپسند کرتی ہوں کہ میری تعریف کی جائے،
اب یہاں الفاظ یہ ہیں
فَإِنِّي أَکْرَهُ أَنْ أُزَکَّی
میں ناپسند کرتی ہوں کہ میری تعریف کی جائے،راوی: عبید بن اسمعیل , ابواسامہ , ہشام , عروہ , عائشہ
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ادْفِنِّي مَعَ صَوَاحِبِي وَلَا تَدْفِنِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَيْتِ فَإِنِّي أَکْرَهُ أَنْ أُزَکَّی
عبید بن اسماعیل، ابواسامہ، ہشام، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے عبداللہ بن زبیر کو وصیت کی کہ مجھے میری سوکنوں کے پاس دفن کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حجرے میں دفن نہ کرنا، اس لئے کہ میں ناپسند کرتی ہوں کہ میری تعریف کی جائے،
اب یہاں الفاظ یہ ہیں
فَإِنِّي أَکْرَهُ أَنْ أُزَکَّی
اب ان عربی الفاظ کا اگر یہ مطلب ہے - پھر ان کا بھی یہی مطلب ہو گا
لَا أُزَكَّى بِهِ أَبَدًا
میں یہ نہیں چاہتی کہ ان کے ساتھ میری بھی تعریف ہوا کرے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فَإِنِّي أَکْرَهُ أَنْ أُزَکَّی
اور
لَا أُزَكَّى بِهِ أَبَدًا دونوں کا مطلب ایک ہی ہے - کچھ سمجھ نہیں آیا
یہ ایک حدیث جس میں ترجمہ کیا گیا
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَمَّتِهِ سَلْمَى، عَنْ أَبِي رَافِعٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >طَافَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى نِسَائِهِ يَغْتَسِلُ عِنْدَ هَذِهِ، وَعِنْدَ هَذِهِ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلَا تَجْعَلُهُ غُسْلًا وَاحِدًا؟ قَالَ: هَذَا أَزْكَى وَأَطْيَبُ وَأَطْهَر. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَحَدِيثُ أَنَسٍ أَصَحُّ مِنْ هَذَا.
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک بار ) اپنی ازواج کے پاس آئے اور ہر ایک کے ہاں غسل کیا ۔ ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ ( آخر میں ) ایک ہی غسل نہیں کر لیتے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” یہ زیادہ پاکیزہ ، عمدہ اور طہارت کا باعث ہے ۔ “ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ( جو اوپر ذکر ہوئی ) اس سے زیادہ صحیح ہے ۔