• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث حدیث پراجیکٹ میں اصلاحات کی نشاندہی

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
116
آج سے پندر سولہ سال پہلے جب دارالسلام نے (الکتب الستۃ ) یعنی صحاح ستہ ایک جلد میں شائع کی تھی
اس نسخہ کی تحقیق و تصحیح کرنے والے علماء میں سرفہرست شیخ مکرم زبیر علی زئیؒ اور شیخ صفی الرحمن مبارکپوری ؒ تھے
تو شیخ مکرم زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے تعلق کے سبب ہم نے بھی اسی وقت یہ نسخہ خریدا تھا ،
آج دجال کی اسی زیر بحث حدیث جس کے ساتھ ابواسحاق کا قول نتھی کرنے کی مہم چل رہی اس نسخہ میں دیکھی
تو اس میں ۔۔ ابو اسحاق کا قول :
يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام
نہیں ہے ، سکین دیکھیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
19075 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
19076 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
محترم اس کا پی ڈی ایف مل سکتا ہے؟
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
محدث احادیث کے سافٹ ویئر سے ایک حدیث جو دجال کے بارے میں ہے - اس میں کچھ عربی جملوں کا ترجمہ نہیں کیا گیا- شائد غلطی سے رہ گیۓ ہوں گے - حدیث یہ ہے -


7373 . حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ قَاضِي حِمْصَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَقَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمْ اللَّهُ مِنْهُ فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ لَتَكْفِي الْقَبِيلَةَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ لَتَكْفِي الْفَخِذَ مِنْ النَّاسِ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ

حکم : صحیح

ابو خیثمہ زہیر بن حراب اور محمد بن مہران رازی نے مجھے حدیث بیان کی۔الفاظ رازی کے ہیں۔کہا: ہمیں ولید بن مسلم نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نے یحییٰ بن جابرقاضی حمص سے انھوں نے عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر ہے۔ انھوں نےاپنے والد جبیر بن نفیرسے اور انھوں نے حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا۔ آپ نے اس (کے ذکر کے دوران) میں کبھی آواز دھیمی کی کبھی اونچی کی۔ یہاں تک کہ ہمیں ایسے لگا جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈمیں موجود ہے۔جب شام کو ہم آپ کے پاس (دوبارہ) آئے تو آپ نے ہم میں اس (شدید تاثر)کو بھانپ لیا۔ آپ نے ہم سے پوچھا "تم لوگوں کو کیا ہواہے؟"ہم نے عرض کی اللہ کے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !صبح کے وقت آپ نے دجال کا ذکر فرمایاتو آپ کی آوازمیں (ایسا)اتارچڑھاؤتھا کہ ہم نے سمجھاکہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مجھے تم لوگوں (حاضرین )پر دجال کے علاوہ دیگر(جہنم کی طرف بلانے والوں)کا زیادہ خوف ہےاگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لیے)دلائل دینے والا میں ہوں گااور اگر وہ نکلا اور میں موجودنہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والاخود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان )ہوگا ۔وہ گچھے دار بالوں والاایک جوان شخص ہے اس کی ایک آنکھ بے نور ہے۔ میں ایک طرح سے اس کو عبد العزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں تم میں سے جو اسے پائے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا ۔وہ دائیں طرف بھی تباہی مچانے والا ہو گا اور بائیں طرف بھی۔ اے اللہ کے بندو!تم ثابت قدم رہنا ۔"ہم نے عرض ۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہو گی؟آپ نے فرمایا:"بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو۔وہ ایک قوم کے پاس آئے گا انھیں دعوت دے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے۔ تو وہ آسمان (کے بادل )کو حکم دے گا۔وہ بارش برسائے گا اور وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائےگی۔شام کے اوقات میں ان کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اونچےاور تھن انتہائی زیادہ بھرے ہوئے اور کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی۔پھر ایک (اور) قوم کے پاس آئے گا اور انھیں (بھی) دعوت دے گا۔وہ اس کی بات ٹھکرادیں گے۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا تووہ قحط کا شکار ہو جائیں گے۔ ان کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کےہاتھ میں نہیں ہوگی۔وہ (دجال)بنجر زمین میں سے گزرے گا تو اس سے کہےگا اپنے خزانے نکال تو اس (بنجر زمین )کے خزانے اس طرح (نکل کر) اس کے پیچھےلگ جائیں گے۔جس طرح شہد کی مکھیوں کی رانیاں ہیں پھر وہ ایک بھر پور جوان کو بلائے گا اور اسے تلوار ۔مار کر( یکبارگی)دوحصوں میں تقسیم کردے گا جیسے نشانہ بنایا جانے والا ہدف (یکدم ٹکڑے ہوگیا)ہو۔ پھر وہ اسے بلائے گا تو وہ (زندہ ہوکر دیکھتےہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔ وہ (دجال )اسی عالم میں ہو گا جب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہ السلام کو معبوث فرمادے گا۔ وہ دمشق کے حصے میں ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو قطرے گریں گے۔اور سر اٹھائیں گے تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی۔ کسی کافر کے لیے جو آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔اس کی سانس (کی خوشبو)وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔آپ علیہ السلام اسے ڈھونڈیں گے تو اسے لُد (Lyudia)کےدروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔ پھر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنھیں اللہ نے اس (دجال کےدام میں آنے)سے محفوظ رکھا ہو گاتووہ اپنے ہاتھ ان کے چہروں پر پھیریں گے۔اور انھیں جنت میں ان کے درجات کی خبردیں گے۔وہ اسی عالم میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائےگا میں نے اپنے (پیدا کیے ہوئے )بندوں کو باہر نکال دیا ہے ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں۔آپ میری بندگی کرنے والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ یاجوج ماجوج کو بھیج دے گا،وہ ہر اونچی جگہ سے امڈتے ہوئے آئیں گے۔ان کے پہلے لوگ (میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل )بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس میں جو(پانی)ہوگا اسے پی جائیں گے پھر آخری لوگ گزریں گے تو کہیں گے۔"کبھی اس (بحیرہ )میں (بھی)پانی ہوگا۔ اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی محصورہوکر رہ جائیں گے۔حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بیل کا سراس سے بہتر (قیمتی)ہوگا جتنےآج تمھارے لیے سودینارہیں۔ اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی گڑ گڑاکر دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (یاجوج ماجوج )پر ان کی گردنوں میں کپڑوں کا عذاب نازل کر دے گا تو وہ ایک انسان کے مرنے کی طرح (یکبارگی)اس کا شکار ہوجائیں گے۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اترکر (میدانی)زمین پر آئیں گے تو انھیں زمین میں بالشت بھر بھی جگہ نہیں ملے گی۔جوان کی گندگی اور بد بو سے بھری ہوئی نہ ہو۔اس پرحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کے سامنے گڑگڑائیں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کے جیسی لمبی گردنوں کی طرح (کی گردنوں والے )پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا جاپھینکیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش بھیجے گا جس سے کو ئی گھر اینٹوں کا ہو یا اون کا (خیمہ )اوٹ مہیا نہیں کر سکے گا۔وہ زمین کو دھوکر شیشےکی طرح (صاف) کر چھوڑےگی۔پھر زمین سے کہاجائے گا۔اپنے پھل اگاؤاوراپنی برکت لوٹالاؤ تو اس وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائےگی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں (اتنی )برکت ڈالی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہو گا اور گائے کاایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلےکو کافی ہو گا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا۔وہ اسی عالم میں رہ رہے ہوں گے۔کہ اللہ تعالیٰ ایک عمدہ ہوا بھیجے گا وہ لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی۔اور ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے وہ وہ گدھوں کی طرح (برسرعام)آپس میں اختلاط کریں گےتو انھی پر قیامت قائم ہوگی۔"


------------

اب اس حدیث میں ان الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا گیا

يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ


یہ الفاظ ترمزی میں حدیث نمبر ٢٢٤٠ ابن ماجہ حدیث نمبر ٤٠٧٥ ابو داوود حدیث نمبر ٤٣٢١ میں موجود ہیں اور وہاں ان الفاظ کا ترجمہ کیا گیا ہے - لیکن صحیح مسلم کی اوپر والی حدیث میں ترجمہ نہیں کیا گیا -

ایسا کیوں ہوا یہ تو @ابن داود بھائی یا @مظاہر امیر بھائی بتا سکتے ہیں -

موسوعة القرآن و الحديث سافٹ ویئر میں یہ پوری حدیث موجود ہے اور اس کا پورا ترجمہ ہوا ہے -
حدثنا ابو خيثمة زهير بن حرب ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثني عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، حدثني يحيى بن جابر الطائي قاضي حمص، ‏‏‏‏‏‏حدثني عبد الرحمن بن جبير ، عن ابيه جبير بن نفير الحضرمي ، انه سمع النواس بن سمعان الكلابي . ح وحدثني محمد بن مهران الرازي واللفظ له، ‏‏‏‏‏‏حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، عن يحيى بن جابر الطائي ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، عن ابيه جبير بن نفير ، عن النواس بن سمعان ، قال:‏‏‏‏ ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال ذات غداة، ‏‏‏‏‏‏فخفض فيه ورفع حتى ظنناه في طائفة النخل، ‏‏‏‏‏‏فلما رحنا إليه عرف ذلك فينا، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ " ما شانكم؟ "، ‏‏‏‏‏‏قلنا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏ذكرت الدجال غداة، ‏‏‏‏‏‏فخفضت فيه ورفعت حتى ظنناه في طائفة النخل، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ " غير الدجال اخوفني عليكم إن يخرج، ‏‏‏‏‏‏وانا فيكم فانا حجيجه دونكم، ‏‏‏‏‏‏وإن يخرج ولست فيكم، ‏‏‏‏‏‏فامرؤ حجيج نفسه والله خليفتي على كل مسلم إنه شاب قطط عينه طافئة كاني اشبهه بعبد العزى بن قطن، ‏‏‏‏‏‏فمن ادركه منكم، ‏‏‏‏‏‏فليقرا عليه فواتح سورة الكهف إنه خارج خلة بين الشام والعراق، ‏‏‏‏‏‏فعاث يمينا وعاث شمالا، ‏‏‏‏‏‏يا عباد الله فاثبتوا " قلنا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏وما لبثه في الارض؟، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " اربعون يوما يوم كسنة، ‏‏‏‏‏‏ويوم كشهر، ‏‏‏‏‏‏ويوم كجمعة وسائر ايامه كايامكم "، ‏‏‏‏‏‏قلنا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏فذلك اليوم الذي كسنة اتكفينا فيه صلاة يوم؟، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ لا اقدروا له قدره "، ‏‏‏‏‏‏قلنا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏وما إسراعه في الارض؟، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " كالغيث استدبرته الريح، ‏‏‏‏‏‏فياتي على القوم، ‏‏‏‏‏‏فيدعوهم فيؤمنون به ويستجيبون له، ‏‏‏‏‏‏فيامر السماء فتمطر، ‏‏‏‏‏‏والارض فتنبت، ‏‏‏‏‏‏فتروح عليهم سارحتهم اطول ما كانت ذرا واسبغه ضروعا، ‏‏‏‏‏‏وامده خواصر ثم ياتي القوم، ‏‏‏‏‏‏فيدعوهم فيردون عليه قوله فينصرف عنهم، ‏‏‏‏‏‏فيصبحون ممحلين ليس بايديهم شيء من اموالهم ويمر بالخربة، ‏‏‏‏‏‏فيقول:‏‏‏‏ لها اخرجي كنوزك، ‏‏‏‏‏‏فتتبعه كنوزها كيعاسيب النحل ثم يدعو رجلا ممتلئا شبابا، ‏‏‏‏‏‏فيضربه بالسيف فيقطعه جزلتين رمية الغرض ثم يدعوه، ‏‏‏‏‏‏فيقبل ويتهلل وجهه يضحك فبينما هو كذلك إذ بعث الله المسيح ابن مريم، ‏‏‏‏‏‏فينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق بين مهرودتين، ‏‏‏‏‏‏واضعا كفيه على اجنحة ملكين إذا طاطا راسه قطر، ‏‏‏‏‏‏وإذا رفعه تحدر منه جمان كاللؤلؤ، ‏‏‏‏‏‏فلا يحل لكافر يجد ريح نفسه إلا مات ونفسه ينتهي حيث ينتهي طرفه، ‏‏‏‏‏‏فيطلبه حتى يدركه بباب لد، ‏‏‏‏‏‏فيقتله ثم ياتي عيسى ابن مريم قوم قد عصمهم الله منه، ‏‏‏‏‏‏فيمسح عن وجوههم ويحدثهم بدرجاتهم في الجنة، ‏‏‏‏‏‏فبينما هو كذلك إذ اوحى الله إلى عيسى إني قد اخرجت عبادا لي لا يدان لاحد بقتالهم، ‏‏‏‏‏‏فحرز عبادي إلى الطور، ‏‏‏‏‏‏ويبعث الله ياجوج وماجوج وهم من كل حدب ينسلون، ‏‏‏‏‏‏فيمر اوائلهم على بحيرة طبرية، ‏‏‏‏‏‏فيشربون ما فيها ويمر آخرهم، ‏‏‏‏‏‏فيقولون:‏‏‏‏ لقد كان بهذه مرة ماء، ‏‏‏‏‏‏ويحصر نبي الله عيسى، ‏‏‏‏‏‏واصحابه حتى يكون راس الثور لاحدهم خيرا من مائة دينار لاحدكم اليوم فيرغب نبي الله عيسى واصحابه فيرسل الله عليهم النغف في رقابهم، ‏‏‏‏‏‏فيصبحون فرسى كموت نفس واحدة، ‏‏‏‏‏‏ثم يهبط نبي الله عيسى واصحابه إلى الارض، ‏‏‏‏‏‏فلا يجدون في الارض موضع شبر إلا ملاه زهمهم ونتنهم، ‏‏‏‏‏‏فيرغب نبي الله عيسى واصحابه إلى الله، ‏‏‏‏‏‏فيرسل الله طيرا كاعناق البخت، ‏‏‏‏‏‏فتحملهم فتطرحهم حيث شاء الله ثم يرسل الله مطرا لا يكن منه بيت مدر، ‏‏‏‏‏‏ولا وبر فيغسل الارض حتى يتركها كالزلفة، ‏‏‏‏‏‏ثم يقال للارض:‏‏‏‏ انبتي ثمرتك وردي بركتك، ‏‏‏‏‏‏فيومئذ تاكل العصابة من الرمانة ويستظلون بقحفها، ‏‏‏‏‏‏ويبارك في الرسل حتى ان اللقحة من الإبل لتكفي الفئام من الناس، ‏‏‏‏‏‏واللقحة من البقر لتكفي القبيلة من الناس، ‏‏‏‏‏‏واللقحة من الغنم لتكفي الفخذ من الناس، ‏‏‏‏‏‏فبينما هم كذلك إذ بعث الله ريحا طيبة، ‏‏‏‏‏‏فتاخذهم تحت آباطهم، ‏‏‏‏‏‏فتقبض روح كل مؤمن وكل مسلم ويبقى شرار الناس يتهارجون فيها تهارج الحمر، ‏‏‏‏‏‏فعليهم تقوم الساعة "

سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے) یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال ان درختوں کے جھنڈ میں آ گیا۔ جب ہم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شام کو آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہے؟“ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا یہاں تک کہ ہم کو گمان ہو گیا کہ دجال ان درختوں میں کھجور کے جھنڈ میں موجود ہے (یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ کو دجال کے سوا اور باتوں کا خوف تم پر زیادہ ہے (فتنوں کا، آپس میں لڑائیوں کا) اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کو الزام دوں گا اور تم کو اس کے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مرد مسلمان اپنی طرف سے اس کو الزام دے گا اور حق تعالیٰ میرا خلیفہ اور نگہبان ہے ہر مسلمان پر۔ البتہ دجال تو جوان گھونگریالے بالوں والا ہے، اس کی آنکھ میں ٹینٹ ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت دیتا ہوں عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ (عبدالعزیٰ ایک کافر تھا)۔ سو جو شخص تم میں سے دجال کو پائے اس کو چاہیے کہ سورۂ کہف کے شروع کی آیتیں اس پر پڑھے۔ مقرر وہ نکلے گا شام اور عراق کی راہ سے تو خرابی ڈالے گا داہنے اور فساد اٹھائے گا بائیں۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔“ اصحاب بولے:
یا رسول اللہ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس دن تک۔ ایک دن ان میں سے ایک سال کے برابر ہو گا اور دوسرا ایک مہینے کے اور تیسرا ایک ہفتے کے اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں۔“ (تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے چودہ دن تک رہے گا)۔ اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا اس دن ہم کو ایک ہی دن کی نماز کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں تم اندازہ کر لینا اس دن میں بقدر اس کے یعنی جتنی دیر کے بعد ان دنوں میں نماز پڑھتے ہو اسی طرح اس دن بھی اندازہ کر کے پڑھ لینا .“ (اب تو گھڑیاں بھی موجود ہیں ان سے وقت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ نووی رحمہ اللہ کہا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں صاف نہ فرماتے تو قیاس یہ تھا کہ اس دن صرف پانچ نمازیں پڑھنا ہی کافی ہوتیں کیونکہ ہر دن رات میں خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں مگر یہ قیاس نص سے ترک کیا گیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ عرض تسعین میں جو خط استواء سے نوے درجہ پر واقع ہے اور جہاں کا افق معدل النہار ہے چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے تو ایک دن رات سال بھر کا ہوتا ہے پس اگر بالفر‌ض انسان وہاں پہنچ جائے اور جئیے تو سال میں پانچ نمازیں پڑھنا ہوں گی) اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی چال زمین میں کیونکر ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جیسے وہ مینہ جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے سو وہ ایک قوم کے پاس آئے گا تو ان کو کفر کی طرف بلائے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے تو آسمان کو حکم کرے گا وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا وہ ان کی گھاس اور اناج اگائے گی۔ تو شام کو گورو (جانور) آئیں گے پہلے سے زیادہ ان کے کوہان لمبے ہوں گے تھن کشادہ ہوں گے کوکھیں تنی ہوئیں (یعنی خوب موٹی ہو کر) پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا۔ ان کو بھی کفر کی طرف بلائے گا لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے۔ تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں میں سے کچھ نہ رہے گا اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا: اے زمین! اپنے خزانے نکال۔ تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں بڑی مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار سے مارے گا اور دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسا نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے۔ پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا: سو وہ جوان سامنے آئے گا۔ چہرہ دمکتا ہوا اور ہنستا ہوا دجال اسی حال میں ہو گا کہ ناگاہ حق تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا۔ عیسٰی علیہ السلام سفید مینار کے پاس اتریں گے دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے۔ جب عیسٰی علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا۔ اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اس کو ان کے دم کی بھاپ لگے گی وہ مر جائے گا اور ان کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسٰی علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ پائیں گے اس کو باب لد پر (لد شام میں ایک پہاڑ کا نام ہے) سو اس کو قتل کریں گے۔ پھر عیسٰی علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ نے دجال سے بچایا۔ سو شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو خبر کریں گے ان درجوں کی جو بہشت میں ان کے رکھے ہیں۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسٰی علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں تو پناہ میں لے جا میرے مسلمان بندوں کو طور کی طرف اور اللہ بھیجے گا یاجوج اور ماجوج کو اور وہ ہر ایک اونچائی سے نکل پڑیں گے۔ ان میں کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور جتنا پانی اس میں ہو گا سب پی لیں گے۔ پھر ان میں کے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے البتہ ہم زمین والوں کو قتل کر چکے۔ آؤ اب آسمان والوں کو بھی قتل کریں۔ تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا وہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے۔ (یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے، اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے۔) اور اللہ کے پیغمبر عیسٰی علیہ السلام اور ان کے اصحاب گھرے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر افضل ہو گا سو اشرفی سے آج تمہارے نزدیک (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی) پھر اللہ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے۔ سو اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا۔ ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین میں اتریں گے توزمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی) پھر اللہ تعالیٰ کے رسول عیسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو حق تعالیٰ چڑیوں کو بھیجے گا بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر۔ وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور ان کو پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ کوئی گھر مٹی کا اور بالوں کا اس پانی سے باقی نہ رہے گا سو اللہ تعالیٰ زمین کو دھو ڈالے گا یہاں تک کہ زمین کو مثل حوض یا باغ یا صاف عورت کے کر دے گا پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بناکر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی یہاں تک کہ دو دھار اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دو دھار گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دو دھار بکری ایک جدی لوگوں کو کفایت کرے گی۔ سو اسی حالت میں لوگ ہوں گے کہ یکایک حق تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا کہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی۔ تو ہر مؤمن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور برے بدذات لوگ باقی رہ جائیں گے۔ آپس میں بھڑیں گے گدھوں کی طرح ان پر قیامت قائم ہو گی۔“

ترقيم فواد عبدالباقي: 2937

امید ہے کہ انتظامیہ توجہ دے گی - شکریہ
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
محدث احادیث کے سافٹ ویئر میں صحیح مسلم کی حدیث نمبر ٧٢٧٨ کا ترجمہ یہ ہوا ہے -

حدیث یہ ہے
7278 . حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ فَإِذَا تَصَافُّوا قَالَتْ الرُّومُ خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ لَا وَاللَّهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا فَيُقَاتِلُونَهُمْ فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ إِذْ صَاحَ فِيهِمْ الشَّيْطَانُ إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ فَيَخْرُجُونَ وَذَلِكَ بَاطِلٌ فَإِذَا جَاءُوا الشَّأْمَ خَرَجَ فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ إِذْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّهُمْ فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللَّهِ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ

حکم : صحیح

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت قائم نہیں ہو گی ،یہاں تک کہ رومی (عیسائی) اعماق (شام میں حلب اور انطاکیہ کے درمیان ایک پر فضا علاقہ جو دابق شہر سے متصل واقع ہے) یا دابق میں اتریں گے۔ان کے ساتھ مقابلے کے لیے (دمشق )شہر سے(یامدینہ سے) اس وقت روئے زمین کے بہترین لوگوں کا ایک لشکر روانہ ہو گا جب وہ (دشمن کے سامنے) صف آراءہوں گے تو رومی (عیسائی )کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جنھوں نے ہمارے لوگوں کو قیدی بنایا ہوا ہے ہم ان سے لڑیں گے تو مسلمان کہیں گے۔اللہ کی قسم!نہیں ہم تمھارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ چنانچہ وہ ان (عیسائیوں )سے جنگ کریں گے۔ان(مسلمانوں )میں سے ایک تہائی شکست تسلیم کر لیں گے اللہ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں فرمائے گا اور ایک تہائی قتل کر دیے جائیں گے۔وہ اللہ کے نزدیک افضل ترین شہداء ہوں گے اور ایک تہائی فتح حاصل کریں گے ۔وہ کبھی فتنے میں مبتلا نہیں ہوں گے۔(ہمیشہ ثابت قدم رہیں گے)اور قسطنطنیہ کو(دوبارہ) فتح کریں گے ۔(پھر) جب وہ غنیمتیں تقسیم کر رہے ہوں گے اور اپنے ہتھیار انھوں نے زیتون کے درختوں سے لٹکائے ہوئے ہوں گے تو شیطان ان کے درمیان چیخ کر اعلان کرے گا۔ مسیح(دجال)تمھارےپیچھے تمھارے گھر والوں تک پہنچ چکا ہے وہ نکل پڑیں گے مگر یہ جھوٹ ہو گا۔جب وہ شام(دمشق )پہنچیں گے۔تووہ نمودار ہو جا ئے گا ۔اس دوران میں جب وہ جنگ کے لیے تیاری کررہے ہوں گے۔صفیں سیدھی کر رہے ہوں گے تو نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی
اس وقت حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے تو ان کا رخ کریں گے پھر جب اللہ کا دشمن (دجال)ان کو دیکھے گاتو اس طرح پگھلےگا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے اگر وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) اسے چھوڑ بھی دیں تو وہ پگھل کر ہلاک ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے ان (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) کے ہاتھ سے قتل کرائے گااور لوگوں کو ان کے ہتھیارپر اس کا خون دکھائےگا۔


لیکن موسوعة القرآن و الحديث سافٹ ویئر میں اس حدیث کا ترجمہ یہ ہوا ہے
حدیث نمبر: 7278

حدثني زهير بن حرب ، حدثنا معلى بن منصور ، حدثنا سليمان بن بلال ، حدثنا سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " لا تقوم الساعة حتى ينزل الروم بالاعماق او بدابق، ‏‏‏‏‏‏فيخرج إليهم جيش من المدينة من خيار اهل الارض يومئذ، ‏‏‏‏‏‏فإذا تصافوا، ‏‏‏‏‏‏قالت الروم:‏‏‏‏ خلوا بيننا وبين الذين سبوا منا نقاتلهم، ‏‏‏‏‏‏فيقول المسلمون:‏‏‏‏ لا والله لا نخلي بينكم وبين إخواننا، ‏‏‏‏‏‏فيقاتلونهم، ‏‏‏‏‏‏فينهزم ثلث لا يتوب الله عليهم ابدا، ‏‏‏‏‏‏ويقتل ثلثهم افضل الشهداء عند الله، ‏‏‏‏‏‏ويفتتح الثلث لا يفتنون ابدا، ‏‏‏‏‏‏فيفتتحون قسطنطينية فبينما هم يقتسمون الغنائم قد علقوا سيوفهم بالزيتون، ‏‏‏‏‏‏إذ صاح فيهم الشيطان إن المسيح قد خلفكم في اهليكم، ‏‏‏‏‏‏فيخرجون وذلك باطل، ‏‏‏‏‏‏فإذا جاءوا الشام خرج فبينما هم يعدون للقتال يسوون الصفوف إذ اقيمت الصلاة، ‏‏‏‏‏‏فينزل عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم فامهم، ‏‏‏‏‏‏فإذا رآه عدو الله ذاب كما يذوب الملح في الماء، ‏‏‏‏‏‏فلو تركه لانذاب حتى يهلك، ‏‏‏‏‏‏ولكن يقتله الله بيده فيريهم دمه في حربته ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہ قائم ہو گی یہاں تک کہ روم کے نصاریٰ کا لشکر اعماق میں یا دابق میں اترے گا (یہ دونوں مقام شام میں ہیں حلب کے قریب) پھر مدینہ میں ایک لشکر نکلے گا ان کی طرف جو ان دنوں تمام زمین والوں میں بہتر ہو گا۔ جب صف باندھیں گے دونوں لشکر تو نصاریٰ کہیں گے: تم لوگ الگ ہو جاؤ ان لوگوں سے (یعنی ان مسلمانوں سے) جنہوں نے ہماری جورو لڑکے پکڑے اور لونڈی غلام بنائے ہم ان سے لڑیں گے۔ مسلمان کہیں گے: نہیں اللہ کی قسم! ہم کبھی اپنے بھائیوں سے الگ نہ ہوں گے۔ پھر لڑائی ہو گی تو مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر بھاگ نکلے گا ان کی توبہ کبھی اللہ تعالیٰ قبول نہ کرے گا اور تہائی لشکر مارا جائے گا وہ سب شہیدوں میں افضل ہوں گے۔ اللہ کے پاس اور تہائی لشکر کی فتح ہو گی۔ وہ عمر بھر کبھی فتنے اور بلا میں نہ پڑیں گے۔ پھر قسطنطینیہ کو فتح کریں گے (جو نصاریٰ کے قبضہ میں آ گیا ہو گا۔ اب تک یہ شہر مسلمانوں کے قبضہ میں ہے) تو وہ لوٹ کے مالوں کو بانٹ رہے ہوں گے اور اپنی تلواروں کو زیتون کے درختوں میں لٹکا دیا ہو گا، اتنے میں شیطان آواز کر دے گا کہ دجال تمہارے پیچھے تمہارے بال بچوں میں آ پڑا تو مسلمان وہاں سے نکلیں گے حالانکہ یہ خبر جھوٹ ہو گی۔ جب شام کے ملک میں پہنچیں گے تب دجال نکلے گا سو جس وقت مسلمان لڑائی کے لیے مستعد ہو کر صفیں باندھتے ہوں گے نماز کی تیاری ہو گی۔
اسی وقت عیسٰی بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور امام بن کر نماز پڑھائیں گے پھر جب اللہ کا دشمن دجال عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا تو اس طرح (ڈر سے) گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے اور جو عیسیٰ علیہ السلام اس کو یونہی چھوڑ دیں تب بھی وہ خود بخود گل کر ہلاک ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو قتل کرے گا۔ عیسٰی علیہ السلام کے ہاتھوں پر اور اس کا خون لوگوں کو دکھلائے گا عیسیٰ علیہ السلام کی برچھی میں۔“

ترقيم فواد عبدالباقي: 2897

اب ایک جگہ ترجمہ ہے کہ

اس وقت حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے تو ان کا رخ کریں گے

جبکہ دوسری جگہ ترجمہ ہے کہ

اسی وقت عیسٰی بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور امام بن کر نماز پڑھائیں گے


صحیح ترجمہ کیا ہے - @مظاہر امیر بھائی آپ کیا کہیں گے -
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
یہ زیادہ ہے ۔ عربی عبارت میں نہیں ہے ۔

میں نے پوچھا ہے کہ

ایک جگہ ترجمہ ہے کہ

اس وقت حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے تو ان کا رخ کریں گے

جبکہ دوسری جگہ ترجمہ ہے کہ

اسی وقت عیسٰی بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور امام بن کر نماز پڑھائیں گے


صحیح ترجمہ کیا ہے -

@ابن داود بھائی آپ کیا کہیں گے یہاں - صحیح ترجمہ کیا ہے -
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عربی عبارت کے حساب سے محدٹ والا ترجمہ درست ہے۔ عربی تو آپ بھی جانتے ہیں تو کیوں پوچھ رہے ہیں بار بار۔
 
Top