ہدایت صرف اسکو ملتی ہے جو حق کا طلبگار ہو
ہدایت صرف اس کو ملتی ہے اللہ نے جس کے نصیب میں ہدایت لکھ دی ہو۔ وگرنہ ایسے لوگ موجود ہیں جو حق کی طرف نہیں آنا چاہتے تھے اور بجائے طلبگار حق کے حق سے بھاگنا چاہتے تھے لیکن اللہ نے انہیں ہدایت دی۔
نہیں شاہد بھائی! اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غَیُّور ہیں۔ جو اللہ سے دور جاتا ہے، اللہ بھی اس سے دور جاتے ہیں، لیکن جو اللہ کے قریب آتا ہے اللہ اس کی طرف بھاگ کر آتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بات طے ہے کہ ہدایت صرف اسے ہی ملتی ہے جو ہدایت کا طلبگار ہو۔ البتہ ہدایت کے متلاشی کیلئے رستہ ہدایت آسان کر دیا جاتا ہے اور باغی کیلئے مشکل:
(كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ ۔۔۔ حديث)
وگرنہ پھر جسے اللہ کی طرف سے ہدایت نہ ملی ہو اس کا یہ اعتراض بالكل بجا ہو گا کہ فلاں کو تو اس کے نا چاہنے کے باوجود اللہ نے ہدایت دی، اس کیلئے جنات النعیم کیوں؟ مجھے اللہ نے ہدایت کیوں نہیں دی، میرے لئے عذابِ جہنم کیوں؟؟ درجِ ذیل آیات میں اسی مسئلے کو واضح کیا گیا ہے:
﴿ مَن كانَ يُريدُ العاجِلَةَ عَجَّلنا لَهُ فيها ما نَشاءُ لِمَن نُريدُ ثُمَّ جَعَلنا لَهُ جَهَنَّمَ يَصلىٰها مَذمومًا مَدحورًا ١٨ وَمَن أَرادَ الـٔاخِرَةَ وَسَعىٰ لَها سَعيَها وَهُوَ مُؤمِنٌ فَأُولـٰئِكَ كانَ سَعيُهُم مَشكورًا ١٩ ﴾ ۔۔۔ سورة الإسراء
جس کا اراده صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں، جس قدر، جس کے لئے چاہیں، سردست دیتے ہیں
بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا (
18) اور
جس کا اراده آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہیئے، وه کرتا بھی ہو اور وه با ایمان بھی ہو، پس
یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی (
19)
یہ الگ بات ہے کہ مواقع ہر نیک وبد کو ملتے ہیں۔ (سیدنا عمرؓ کو موقع اللہ نے دیا اپنی بہن اور بہنوئی سے قرآن سننے کا، لیکن اسلام قبول کرنے کا بنیادی فیصلہ انہوں نے ہی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے یہ راستہ مزید آسان فرما دیا۔ اسی طرح ایک موقع نبی کریمﷺ کے چچا ابو طالب کو بھی ملا تھا جب ان کی وفات کے قریب نبی کریمﷺ نے ان سے کہا تھا کہ آپ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں، جس کی بیس پر میں اللہ سے کچھ بات کر سکوں گا۔ لیکن وہ ابو جہل وغیرہ کے کہنے میں آکر اس قیمتی موقع سے فائدہ نہ اُٹھا سکے) لوگ غفلتوں میں ہوتے ہیں، انہیں اللہ رب العٰلمین کی طرف سے جھنجھوڑا جاتا ہے۔ لیکن ہدایت اسے ہی ملتی ہے جو ٹھوکر لگنے پر غفلت کی نیند سے جاگ اٹھے لیکن جس کا دل پتھر سے بھی سخت ہو چکا ہو تو یہ جھنجھوڑنا اس کیلئے ہدایت کی بجائے مزید اللہ سے دوری کا باعث بنتا ہے، تو اللہ ایسے شخص کو کبھی ہدایت نہیں دیتے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَقَد أَرسَلنا إِلىٰ أُمَمٍ مِن قَبلِكَ فَأَخَذنـٰهُم بِالبَأساءِ وَالضَّرّاءِ لَعَلَّهُم يَتَضَرَّعونَ ٤٢فَلَولا إِذ جاءَهُم بَأسُنا تَضَرَّعوا وَلـٰكِن قَسَت قُلوبُهُم وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطـٰنُ ما كانوا يَعمَلونَ ٤٣ ﴾ ۔۔۔ سورة الأنعام
اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا تاکہ وه اظہارِ عجز کرسکیں (
42)سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار کی؟ لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا (
43)
بقول اقبال:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں۔
راہ دکھلائیں کسے، کوئی راہ رو منزل ہی نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!