• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرمات : حرام امور جن سے بچنا ضروری ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
درخت یا پتھر سے برکت حاصل کرنا
حضرت واقد اللّیثی بیان فرماتے ہیں :
اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ لَمَّا خَرَجَ اِلٰی حُنَیْنٍ مَرَّ بِشَجَرَةٍ لِلْمُشْرِکِیْنَ یُقَالُ لَھَا ذَاتُ اَنْوَاطٍ یُعَلِّقُوْنَ عَلَیْھَا اَسْلِحَتَھُمْ فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ اَنْوَاطٍ کَمَا لَھُمْ ذَاتُ اَنْوَاطٍ' فَقَالَ النَّبِیُّ ۖ : ((سُبْحَانَ اللّٰہِ ھٰذَا کَمَا قَالَ قَوْمُ مُوْسٰی: اجْعَلْ لَنَا اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ آلِھَة ' وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَتَرْکَبُنَّ سُنَّةَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ)) (٦)
''رسول اللہۖ جب غزوئہ حنین کے لیے نکلے تو (دورانِ سفر) مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے' جسے ''ذاتِ انواط'' کہا جاتا تھا۔ وہ (حصولِ برکت کی غرض سے) اس پراپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ بعض حضرات (جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے) کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ۖ !ہمارے لیے بھی مشرکین کے ذاتِ انواط کی طرح کوئی درخت مقرر کر دیں۔ اللہ کے رسول ۖ نے فرمایا: ''سبحان اللہ! یہ وہی خواہش ہے جس کا اظہار بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰd سے کیا تھاکہ'' ہمارے لیے بھی ان کے معبودوں کی مانند ایک معبود مقرر کردیجیے۔''اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے'تم بھی یقینا پچھلی اُمتوں کے طور طریقوں پر چلو گے۔''
اس حدیث میں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ کسی قبر' مزار' مسجد' پہاڑ کی چوٹی پر نصب شدہ پتھریا درخت وغیرہ سے برکت حاصل کرنا اور اپنی مراد پانے کے لیے اس کے ساتھ کپڑے' دھاگے یا رسیوں کی ڈوریاں وغیرہ لٹکانا ایسا شرک ہے جو پچھلی اُمتوں سے چلا آ رہا ہے۔ لہٰذا دور جاہلیت کی ایسی تمام رسوم سے اجتناب کرنا چاہیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بیماری یا تکلیف وغیرہ دور کرنے کے لیے کڑا' تعویذ یا گنڈا پہننا
حضرت عمران ابن حصین سے مروی ہے :
اَنَّ النَّبِیَّ ۖ اَبْصَرَ عَلٰی عَضُدِ رَجُلٍ حَلْقَةً اُرَاہُ قَالَ مِنْ صُفْرٍ فَقَالَ: ((وَیْحَکَ مَا ہٰذِہ؟)) قَالَ مِنَ الْوَاہِنَةِ' قَالَ : ((اَمَا اِنَّھَا لَا تَزِیْدُکَ اِلاَّ وَھْنًا انْبِذْھَا عَنْکَ فَاِنَّکَ لَوْ مِتَّ وَہِیَ عَلَیْکَ مَا اَفْلَحْتَ اَبَدًا)) (٧)
''نبی اکرمۖ نے ایک شخص کے بازو پر پیتل کا ایک کڑا دیکھاتوآپۖ نے اس سے دریافت فرمایا :''یہ کیا ہے؟'' اس نے جواب دیا کہ میں نے کمزوری سے نجات پانے کے لیے اسے پہنا ہے۔ آپۖ نے فرمایا :'' یہ تمہاری کمزوری ہی میں اضافے کا باعث بنے گا' اسے اتار دے اور اگر اسے پہنے ہوئے تجھے موت آ گئی تو تُو کبھی نجات نہ پا سکے گا۔''

اسی طرح حضرت عقبہ بن عامرسے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسولۖ کو فرماتے سنا:
((مَنْ تَعَلَّقَ تَمِیْمَةً فَلَا اَتَمَّ اللّٰہُ لَہ وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدْعَةً فَلَا وَدَعَ اللّٰہُ لَہ))(٨)
''جس نے کوئی تعویذ لٹکایا اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے اور جس نے کوئی کوڑی یا گھونگا وغیرہ گلے میں لٹکایا اللہ اس کو آرام نہ دے۔''

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((اِنَّ الرُّقَی وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْک)) (٩)
''یقینا منتر' تعویذ اور محبت کے عملیات سب شرک ہیں ''۔
تمائم '' تمیمہ'' کی جمع ہے جس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو بچوں کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے ان کے گلے میں باندھی جاتی ہے۔ یہاں پر تعویذ سے مراد ایسا تعویذ ہے جو کہ قرآنی آیات پر مشتمل نہ ہو ' مثلاً ایسا تعویذ جس میں شرکیہ کلام ہو'کسی پیر' ولی یا بزرگ سے مدد مانگی گئی ہو یا وہ نہ سمجھ آنے والے اعداد و شمار( گنتی) پر مشتمل ہو ۔قرآنی آیات کے ذریعے دم کرنا مسنون اور ان سے تعویذ بنانا مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ اس قسم کے تعویذات میں چونکہ قرآن کی بے حرمتی بہت زیادہ ہوتی ہے' بعض اوقات چھوٹے بچے ناپاکی میں' عورتیں حیض و نفاس کی حالت میں اور مرد حضرات باتھ روم' ٹوائلٹ وغیرہ میں جاتے وقت بھی ان تعویذات کو پہنے رکھتے ہیں' لہٰذا احتیاط کاتقاضا یہی ہے کہ قرآنی آیات کے دَم کے ذریعے ہی علاج پر اکتفا کیاجائے اور آیاتِ قرآنیہ کو تعویذ بنا کر گلے یا بدن کے ساتھ نہ لٹکایا جائے۔

تِوَلَة سے مراد جادو ٹونے کے وہ اعمال ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بیوی، خاوند سے اور خاوند، بیوی سے ایسی اندھی محبت کرنے لگ جائے'جس سے شریعت کی حدود بھی پامال ہونے لگیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بزرگوں کی قبروں کا حد سے زیادہ احترام کرنا اور ان پر چراغ جلانا
اس میں کوئی شک نہیں کہ قبر وں کی زیارت کرنا سنت ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسولۖ کا ارشادہے :
((قَدْ کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُوْرِ' فَقَدْ اُذِنَ لِمُحَمَّدٍ (ۖ) فِیْ زِیَارَةِ قَبْرِ اُمِّہ ' فَزُوْرُوْھَا فَاِنَّھَا تُذَکِّرُ الْآخِرَةَ))(١٠)
''میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا 'پھر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت دی گئی' پس اب تم قبروں کی زیارت کیا کرو' بے شک یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں''۔

واضح رہے کہ زیارتِ قبور کا مقصد حدیث میں جو بتایا گیا ہے وہ آخرت کی یاد ہے نہ کہ ان پر چراغاں کرنا یا میلے اور عرس وغیرہ منعقد کرنا۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے:
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِۖ زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْھَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ (١١)
''اللہ کے رسولۖنے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور چراغ جلانے والوں پر بھی لعنت فرمائی۔''

امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی موطأ میں تذکرہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
(اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنًا یُّعْبَدُ' اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ اتَّخَذُوْا )
''اے اللہ تعالیٰ! میری قبر کو بُت نہ بنانا کہ جس کی عبادت کی جائے۔ اُس قوم پر اللہ تعالیٰ کا بہت شدید غضب ہے جس نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔''

بزرگان دین کی قبروں کو چھونا' ان کے ساتھ اپنے جسم کو مَس کرنا ' ان کو چومنا یا ان کی مٹی یا پتھروں کو اپنے جسم پر ملنا 'تا کہ بیماری ' تکلیف اور مصیبت وغیرہ سے نجات ملے'بالکل ایک غیر شرعی اور حرام فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة الشعراء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل کیاہے' جب کہ ان کی قوم کے لوگ ان سے اپنے معبودوں کے بارے میں بحث مباحثہ کر رہے تھے۔
(فَاِنَّہُمْ عَدُوّ لِّیْ اِلاَّ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِ وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ) (الشُّعراء)
''بے شک وہ ( تمہارے معبود) میرے دشمن ہیں سوائے ربّ العالمین کے' جس نے مجھے پیدا کیا 'پس وہی مجھے ہدایت دے گا' اور وہی ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے'اور جب میں بیما رہوتاہوں تو مجھے شفا دیتا ہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یا اولیاء اللہ کی تعریف میں مبالغہ کرنا
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسول ۖ کی تعظیم و تکریم ہمارے ایمان کا حصہ اور آپۖ' کی تعریف و توصیف باعث اجر و ثواب اور رفع درجات ہے' لیکن آپۖ' کی نعت گوئی میں حد درجہ مبالغہ آرائی کرتے ہوئے آپۖ' کو معاذاللہ' اللہ عز وجل کے برابر لا کھڑا کرنا یا آپ ۖکے رتبے کو اللہ تعا لیٰ سے بھی بڑھا دینا شرک ہے اور آپۖ نے اپنی احادیث مبارکہ میں اس کی سختی سے نفی فرمائی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِیِّۖ یَاسَیِّدَنَا وَابْنَ سَیِّدِنَا وَیَاخَیْرَنَا وَابْنَ خَیْرِنَا فَقَالَ النَّبِیُّ ۖ : (( یَا اَیُّھَا النَّاسُ قُوْلُوْا بِقَوْلِکُمْ وَلَا یَسْتَھْوِیَنَّکُمُ الشَّیْطَانُ' اَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ' وَاللّٰہِ مَا اُحِبُّ اَنْ تَرْفَعُوْنِیْ فَوْقَ مَا رَفَعَنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ)) (١٣)
'' ایک شخص نے اللہ کے رسول ۖ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : اے وہ جو ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں اور ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے زیادہ بہتر کے بیٹے ہیں ۔ آپۖ نے فرمایا: ''اے لوگو! اس طرح کی باتیں (میری تعریف میں) کہہ لو 'لیکن دیکھنا شیطان تم کو بہکا نہ دے۔ میں محمدبن عبداللہ ہوں' اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں' اور اللہ کی قسم میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تم( میری تعریف کر کے)مجھے میرے اس مقام اور مرتبے سے بلند کرو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے۔''

حضرت عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:
((لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَاِنَّمَا اَنَا عَبْدُہ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہ)) (١٤)
''میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرو جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا ۔میں تو صرف اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں' پس مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔''

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخیافی ( ماں جائے) بھائی حضرت طفیل سے روایت ہے' وہ کہتے ہیں :
رَاَیْتُ فِیْمَا یَرَی النَّائِمُ کَاَنِّیْ اَتَیْتُ عَلٰی نَفَرٍ مِّنَ الْیَھُوْدِ قُلْتُ : اِنَّکُمْ لَاَنْتُمُ الْقَوْمُ لَوْ لَا اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ ۔ قَالُوْا وَاِنَّکُمْ لَاَنْتُمُ الْقَوْمُ لَوْ لَا اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ مَا شَآء اللّٰہُ وَمَا شَاء مُحَمَّد۔ ثُمَّ مَرَرْتُ بِنَفَرٍ مِّنَ النَّصَارٰی فَقُلْتُ اِنَّکُمْ لَاَنْتُمُ الْقَوْمُ لَوْ لَا اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ۔ قَالُوْا وَاِنَّکُمْ لَاَنْتُمُ الْقَوْمُ لَوْ لَا اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ مَا شَاء اللّٰہُ وَمَا شَاء مُحَمَّد۔ فَلَمَّا اَصْبَحْتُ اَخْبَرْتُ بِھَا مَنْ اَخْبَرْتُ' ثُمَّ اَتَیْتُ النَّبِیَّ ۖ فَاَخْبَرْتُہ قَالَ: ((ھَلْ اَخْبَرْتَ بِھَا اَحَدًا؟)) قُلْتُ نَعَمْ' قَالَ: فَحَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((اَمَّا بَعْدُ: فَاِنَّ طُفَیْلًا رَآی رُؤْیًا اَخْبَرَھَا مَنْ اَخْبَرَ مِنْکُمْ وَاِنَّکُمْ قُلْتُمْ کَلِمَةً کَانَ یَمْنَعُنِیْ کَذَا وَکَذَا اَنْ اَنْھَاکُمْ عَنْھَا فَلَا تَقُوْلُوْا : مَا شَاء اللّٰہُ وَشَاء مُحَمَّد وَلٰکِنْ قُوْلُوْا : مَا شَاء اللّٰہُ وَحْدَہ))(١٥)
''میں نے خواب میں دیکھا کہ میں یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس آیا اور میں نے کہا :'' تم لوگ بہت اچھے ہوتے اگر تم حضرت عزیرd کو اللہ کا بیٹا نہ کہتے'' تو انہوں (یہودیوں ) نے کہا تم( مسلمان ) بھی اچھے ہوتے اگر تم مَا شَآئَ اللّٰہُ وَمَا شَائَ مُحَمَّد(جو اللہ نے اور محمد ۖ نے چاہا) نہ کہا کرتے۔پھر میرا نصاریٰ کی ایک جماعت پر سے گزر ہوا تو میں نے کہا: ''تم لوگ بہت اچھے ہوتے اگر تم حضرت عیسٰی کو اللہ کا بیٹا نہ کہتے۔'' انہوں ( عیسائیوں )نے کہا اور تم ( مسلمان) لوگ بھی بہت اچھے ہوتے اگر تم مَا شَآئَ اللّٰہُ وَمَا شَائَ مُحَمَّدنہ کہتے ۔ جب میں نے صبح کی تو میں نے کچھ لوگوں کو یہ خواب سنایا'پھر میں نبی کریمۖ کے پاس آیا اور میںنے آپۖ' کو اس خواب کے بارے میں بتلایا۔آپ ۖنے پوچھا :''کیا تم نے اس خواب کے بارے میں کسی کو خبر دی ہے ؟''تو میں نے اثبات میں جواب دیا۔راوی کہتے ہیں کہ آپۖ نے (خطبہ دینے کی غرض سے) اللہ کی حمد و ثناء بیان کی 'پھر اس کے بعد کہا: ''طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے جو انہوں نے تم میں کچھ لوگوں کو بیان بھی کیا ہے۔ بے شک تم ایک ایسی بات کہتے تھے ( جو مجھے ناپسند تھی)لیکن فلاں فلاں وجوہات کی بنیاد پر میں تمہیں اس بات سے منع کرنے سے رُکا رہا۔پس اب تم مت کہو '' مَا شَاء اللّٰہُ وَشَاء مُحَمَّد '' ( جو اللہ اور محمد ۖ چاہیں) بلکہ تم کہو '' مَا شَاء اللّٰہُ وَحْدَہ'' ( جو اکیلا اللہ چاہے) ۔''
ان احادیث سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ نعت گوئی میں انتہائی احتیاط کے پہلو کو مد نظر رکھنا چاہیے اور نعت خواں حضرات کے لیے لازمی قرار دیا جائے کہ وہ نعت کہنے سے پہلے کسی اچھے عالم سے اس کی تصدیق کروا لیا کریں' مباداکہ آپۖ' کی تعریف و تو صیف کے بجائے آپۖ کے احکامات کی نافرمانی ہو جائے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
٢۔ شرکِ اصغر
اس سے مراد ریا کاری ہے۔ جب کو ئی شخص اپنی شہرت یا ناموری کے لیے کوئی نیک عمل کرتا ہے' تا کہ معاشرے میںاس کا چرچا ہو اور لوگ اس کے اس فعل کی تعریف کریں تو یہ شخص بھی شرک کا مرتکب ہے ' لیکن اس کا شرک' شرکِ اصغر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(( اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِمَا ھُوَ اَخْوَفُ عَلَیْکُمْ عِنْدِیْ مِنَ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ؟)) قَالَ ' قُلْنَا: بَلٰی۔ فَقَالَ: (( الشِّرْکُ الْخَفِیُّ اَنْ یَقُوْمَ الرَّجُلُ یُصَلِّیْ فَیُزَیِّنُ صَلَا تَہ لِمَا یَرٰی مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ)) (١٦)
''میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوفناک ہے؟'' صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں! آپۖ نے فرمایا:''وہ شرکِ خفی ہے ۔یعنی جب کوئی شخص نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو صرف اس لیے اس نماز کو اچھی طرح سے ادا کرتا ہے کہ کوئی شخص اس کو دیکھ رہا ہے۔''
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ًروایت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
((اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ فَمَنْ عَمِلَ لِیْ عَمَلًا اَشْرَکَ فِیْہِ غَیْرِیْ فَاَنَا مِنْہُ بَرِیْئ وَھُوَ لِلَّذِیْ اَشْرَکَ )) (١٧)
''میں ان تمام شریکوں( جن کو میرا شریک فرض کر لیا جاتا ہے) میں سے شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز اور بیزار ہوں' جو کوئی میرے لیے عمل کرتا ہے اور اس میں میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا لیتا ہے تو میں اس سے بری ہوں اور وہ عمل اس نے اس کے لیے کیا جس کو اس نے میرا شریک ٹھہرایا ۔''

اگر کوئی شخص نیک نیتی سے کوئی عمل شروع کر تا ہے' بعد میں شیطان آکر اس عمل میں وسوسے ڈالتا ہے اور وہ اس کے وساوس کو ناپسند کرتے ہوئے ان کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسا شخص اس حکم سے مستثنیٰ ہے' لیکن اگر وہ اس کے وساوس کو دور کرنے کے بجائے ان سے راحت حاصل کرتا ہے اور اس کا نفس ان سے سکون حاصل کرتا ہے تو جمہور علماء کے نزدیک ایسا عمل بھی اللہ کے ہاں باطل ہو جاتا ہے۔

شرک کے حوالے سے آخری بات ہم اپنے قارئین سے یہی کہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے خطاب کرتے ہوئے سورة الزمر میں ارشاد فرمائی ہے:
(اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ ) (الزمر:٣٦)
''کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟'' (جاری ہے)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
١) اقتضا ء الصراط المستقیم'ابن تیمیہ'ج ١'ص١٤٢
و رواہ البرقانی فی صحیحہ بحوالہ کتاب التوحید' محمد بن عبدالوہاب التمیمی' باب ما جاء ان بعض ھذہ الامة یعبد الاوثان۔
٢) تفسیر ابن کثیر ' ج١' ص ٥٧۔
٣) رواہ احمد۔ بحوالہ کتاب التوحید' محمد بن عبدالوہاب التمیمی' باب ''ماجاء فی الذبح لغیر اللہ''۔
٤) رواہ ابوداود۔ صحیح ابوداود' کتاب الایمان والنذور' باب ما یؤمر بہ من الوفاء بالنذر۔
٥) صحیح ابوداود' کتاب الایمان والنذور' باب ماجاء فی النذر فی المعصیة۔
٦) رواہ الترمذی' کتاب الفتن' باب ما جاء لترکبن سنن من کان قبلکم۔
٧) رواہ احمد' مسند احمد' ج٥' ص ٦١٦'مطبعہ دار احیاء والتراث العربی' بیروت۔
٨) رواہ احمد' مسند احمد' ج٥' ص ١٥٤'مطبعہ دار احیاء والتراث العربی' بیروت۔
٩) سنن ابی داؤد'کتاب الطب 'باب فی تعلیق التمائم۔
١٠) رواہ الترمذی' کتاب الجنائز' باب ما جاء فی الرخصة فی زیارة القبور۔ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ یہ حدیث صحیح مسلم' کتاب الجنائز میں بھی موجود ہے۔
١١) رواہ الترمذی' کتاب الصلاة' باب ما جاء فی کراھیة ان یتخذ علی القبر مسجداً۔ اسے امام نسائی ' امام ابوداود اور امام احمد نے بھی روایت کیا ہے۔
١٢) موطأ الامام مالک' کتاب النداء للصلاة' باب جامع الصلاة۔
١٣) عمدة التفاسیر 'احمد شاکر'جلد١'ص٩١'اسنادہ صحیح
١٤) رواہ البخاری' کتاب احادیث الانبیاء' باب قول اللہ ''وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَھْلِھَا''۔ ورواہ احمد ایضاً۔
١٥) السلسلة الصحیحة'علامہ البانی'جلد ٤'ص١٠١'اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
١٦) رواہ ابن ماجہ' کتاب الزھد' باب الریاء والسمعة۔
١٧) رواہ ابن ماجہ' کتاب الزھد' باب الریاء والسمعة۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢) حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا
کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے پاس ہے۔ حلال وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسولۖ نے حلال قرار دیا ہو اور حرام وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حرام کہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰل وَّھٰذَا حَرَام لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ)(النحل)
''اور تم مت کہو اس کے لیے جو کہ تمہاری زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ پر جھوٹ باندھو۔ بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہ پائیں گے۔''

اس آیت کے حکم میں تین چیزیں شامل ہیں:

٭ کفار کی طرف سے کسی چیز کو ممنوع قرار دینا یا جائز قرار دینا' جیسا کہ آج کل کی کافر ریاستوں کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ چیز بین الاقوامی طور پر ممنوع ہے' یا فلاں چیز بین الاقوامی قانون سے متصادم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے 'یا فلاں چیز جنیوا معاہدات کی رو سے غلط ہے۔ کسی چیز کو جائز یا ممنوع قرار دینے کا اصل اختیار اللہ کے پاس ہے نہ کہ امریکہ اور دوسری طاقتوں کے پاس۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ) (الاعراف:٥٤)
''خبردار! اللہ ہی کے لیے پیدائش ہے اور حکم کا اختیار بھی اسی کے پاس ہے''۔
یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو پیدا کیا 'وہی اکیلا خالق ہے اور باقی سب مخلوقات ہیں' لہٰذا حکم دینے کا اختیار بھی صرف اُسی کے پاس ہے' صرف وہی حاکم ہے باقی سب محکوم علیہ ہیں۔

٭مسلمان یا غیر مسلم ریاستوں کا قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کرنا بھی اسی زمرے میں آتاہے ۔ قرآن مجید میں اس قانون سازی کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(اَمْ لَھُمْ شُرَکٰؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اللّٰہُ) (الشوریٰ:٢١)
''کیا ان کے لیے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین (قانون) مقرر کیا ہو جس کا اللہ نے ان کو حکم نہ دیا ہو؟''
"] دنیا کی کسی بھی پارلیمنٹ یا اسمبلی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کرے اور قرآن و سنت میں حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال کو حرام قراردے۔[/

٭ علماء' صوفیاء' پیروں' مذہبی اور سیاسی لیڈروں کا کسی چیز کو حرام یاحلال ٹھہرانا بھی اس آیت میں داخل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ) (التوبة:٣١)
''انہوں نے (یہود و نصاریٰ نے) اپنے علماء اور صوفیاء کو اللہ کے علاوہ ربّ بنا لیا تھا''۔
حضرت عدی بن حاتم نے جب رسول اللہۖ کو اس آیۂ مبارکہ کی تلاوت کرتے سنا تو فرمانے لگے کہ اے اللہ کے رسول! انہوں نے یعنی یہو دو نصاریٰ نے تو اپنے علماء اور پیروں کو اپنا ربّ نہیں بنایا تھا 'تو آپۖ نے فرمایا:
((اَجَلْ وَلٰکِنْ یُحِلُّوْنَ لَھُمْ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیَسْتَحِلُّوْنَہ وَیُحَرِّمُوْنَ عَلَیْھِمْ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ فَیُحَرِّمُوْنَہ فَتِلْکَ عِبَادَتُھُمْ لَھُمْ)) (١)
''جی ہاں! لیکن وہ (علماء اور پیر) ان (یہود و نصاریٰ) کے لیے ا س چیز کو حلال قرار دیتے جس کو اللہ نے حرام ٹھہرایا تھا تو وہ (یہودو نصاریٰ) بھی اس کو حلال سمجھنے لگتے' اور وہ (علماء اور پیر) ان کے لیے حرام ٹھہراتے اس چیز کوجس کو اللہ نے حلال قرار دیا تھا تو وہ (عوام الناس) بھی اس کو حرام سمجھنے لگتے 'پس یہی تو اُن کی عبادت ہے۔''
رسول اللہۖ کا یہ فرمان کہ ''یہی تو اُن کی عبادت ہے ''اس بات کو واضح کر تا ہے کہ حلت و حرمت کا اصل اختیار اللہ کی ذات کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ پر الزام عائد کرتے ہوئے فرمایاہے:
(لاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ) (التوبة:٢٩)
''نہیں وہ حرام ٹھہراتے جس کو اللہ اور اس کے رسولۖ نے حرام ٹھہرایا ہو اور دینِ حق کو بطورِ دین اختیار نہیں کرتے''۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلاً ط قُلْ اٰ للّٰہُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اللّٰہِ تَفْتَرُوْنَG) (یونس)
''(اے نبیۖ ان سے) کہہ دیں بھلا تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو رزق نازل کیا ہے اس میں سے بعض کو تم نے حلال اور بعض کو حرام بنا لیا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا تھا یا تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو؟''

نوٹ : کسی کے کفر اور شرک کو کفر اور شرک قرار دینا یا مطلق طور پر یعنی کسی شخص یا جماعت یا گروہ وغیرہ کا تعین کیے بغیر کسی اصول کی بنیاد پر کافر یا مشرک قرار دینا تو قرآنی حکم ہے لیکن اس کو کافر یا مشرک حقیقی قرار دینے کے لیے شرائط اور موانع تکفیر کی ابحاث اہل علم کے ہاں مسلم ہیں لہذا راسخون فی العلم کی جماعت کے علاوہ عامۃ الناس، طلبۃ العلم اور داعیان دین کے لیے شرعا یہ امر جائز نہیں ہے کہ کسی شخص معین یا معین جماعت یا گروہ کی تکفیر کریں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
٣) جادو
جادو کفر ہے اور سات بڑے کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتاہے۔ جادو میں شر ہی شر ہے' اس میں خیر کا کوئی پہلو نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ ) (البقرة:١٠٢)
''اور وہ سیکھتے ہیں اس چیز کو جو اُن کے لیے نقصان دہ ہے اور ان کو نفع نہیں دیتی''۔
ایک جگہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
(وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی ) (طٰہٰ )
''اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتا چاہے کہیں سے بھی آئے۔''

جادو کفر ہے' اور جادوگر کے بارے میں قتل کا حکم ہے اور اس کی کمائی حرام کی کمائی ہے ۔ حضرت جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((حَدُّ السَّاحِرِ ضَرْبَة بِالسَّیْفِ)) (٢)
'' جادوگر کی حدّ یہ ہے کہ اس کی گردن تلوار سے اڑا دی جائے''۔
امام ترمذی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
والعمل علی ھذا عند بعض اھل العلم من اصحاب النبی ۖ وغیرھم وھو قول مالک بن انس وقال الشافعی انما یقتل الساحر اذا کان یعمل فی سحرہ ما یبلغ بہ الکفر فاذا عمل عملا دون الکفر فلم نر علیہ قتلا (٣)
''اللہ کے رسولۖ کے بعض اہل علم صحابہ وغیرہم کا اس حدیث پر عمل ہے۔ امام مالک کا قول بھی یہی ہے۔امام شافعی کے نزدیک اگر جادوگر کا جادو ایسا ہو جو کہ کفر تک پہنچا دے تو ایسی صورت میں اس کو قتل کیا جائے گا اور جب ا س کا کام ایسا ہو جو کہ کفریہ اعمال میں شمار نہ ہوتا ہو تو ہماری رائے ایسی صورت میں اس کے بارے میں قتل کی نہیں ہے''۔

حضرت بجالہ بن عبدة سے روایت ہے کہ میں احنف بن قیس کے چچا جَزء بن معاویہ کا کاتب تھا۔ حضرت عمرنے (اپنے دَورِ خلافت میں) اپنی وفات سے ایک سا ل پہلے ہماری طرف ایک فرمان جاری کیاکہ:
اُقْتُلُوْا کُلَّ سَاحِرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَ کُلِّ ذِیْ مَحْرَمٍ مِنَ الْمَجُوْسِ وَانْھَوْھُمْ عَنِ الزَّمْزَمَةِ فَقَتَلْنَا فِیْ یَوْمٍ ثَلَاثَةَ سَوَاحِرَ (٤)
''ہر جادوگر کو قتل کردو اور مجوس میں سے جس نے بھی اپنی محرم عورتوں سے شادی کر رکھی ہو اُن میں تفریق کر دو اور انہیں زمزمہ (ایسا کلام جو وہ کھانے کے وقت پست آواز سے کہتے تھے )سے منع کرو۔ چنانچہ ہم نے ایک دن میں تین جادوگروں کو قتل کیا۔''

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جادو کو کفر قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَق وَمَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَة فَلَا تَکْفُرْ ) (البقرة:١٠٢)
''اور حضرت سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے اور (وہ پیچھے پڑے تھے اس چیز کے) جو نازل کیا گیا بابل شہر میں ہاروت اور ماروت پر! اور وہ دونوں کسی کو بھی جادو نہ سکھاتے تھے' یہاں تک کہ اس سے کہتے کہ ہم آزمائش ہیں پس تم (جادو سیکھ کر) کفر نہ کرو''۔

ہمارے معاشرے میں جادو ٹونہ' تعویذ گنڈا وغیرہ بہت پھیل چکا ہے ۔ شہروں اور دیہاتوں میں جگہ جگہ عاملین بیٹھے ہیں جو مختلف شیاطین کو قابو کرنے کے لیے چلے کاٹتے ہیں اور ان کی سفلی خواہشات کو پورا کرتے ہیں ۔ بعد میں یہی عاملین جاہل عوام الناس سے پیسے بٹورنے کے لیے جادو ٹونہ کرتے ہیں۔ عام طور پر عورتوں میں جادو ٹونے کا معاملہ زیادہ ہوتا ہے۔ جادو ٹونے کی اصل بنیاد حسد' بغض اور کینہ ہے' جس کی وجہ سے ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کے گھر' خاندان' کاروبار اورتجارت وغیرہ کو تباہ کرنے کے لیے جادوگروں کی طرف رجوع کرتا ہے اور جادوگر اُس سے اِس کام کے لیے اچھی خاصی رقم وصول کرتا ہے۔ جادو کروانے والا بھی جادو کے گناہ میں اتنا ہی شریک ہوتا ہے جتنا کہ جادوگر۔ اب اِن سوالات کے حل کے لیے کہ جادوگرکس طرح جادو کرتے ہیں' جادو کی کیا علامات و نشانیاں ہیں ' جادو اگر کسی پر ہو جائے تو قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا کیا علاج ہے ؟ ''جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار'' یا " جادو کا علاج" نامی کتاب کا مطالعہ قارئین کے لیے مفید ہو گا جو ہماری ویب سائیٹ کی لائبریری میں بھی موجود ہے۔ فتنوں کے اِس دَور میں یہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
٤) کہانت اور نجوم پرستی
کاہن اور نجومی علمِ غیب کا دعویٰ کرتے ہیں' حالانکہ اللہ کے سوا کوئی علمِ غیب کو جاننے والا نہیں ہے۔ اب تو اخبارات میں علمِ نجوم کی روشنی میں باقاعدہ کالم شائع ہوتے ہیں جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ''آپ کا یہ ہفتہ کیسا رہے گا''۔ لوگ اپنے سفر' تجارت' کاروبار' تعلیم اور شادی وغیرہ کے روز مرہ کے معاملات میں کاہنوں اور نجومیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ وہ بعض اوقات ان کے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر' بعض اوقات زمین پر لکیریں کھینچ کر اور بعض اوقات ستاروں کی نقل و حرکت سے اندازے لگا کر لوگوں کو اُن کے مستقبل کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان کاہنوں اورنجومیوں کے یہ تمام اعمال جھوٹ اور بکواس ہیں۔ جو کچھ مستقبل کے بارے میں وہ پیشین گوئیاں کرتے ہیں ان میں اگر دس سچی ہوتی ہیں تو نوے جھوٹی ہوتی ہیں۔ ایسے کاہنوں اور نجومیوں کے پاس جانے اور ان کی تصدیق کرنے کو اللہ کے رسولۖ نے کفر میں شمار کیا ہے۔ آپۖ 'کا ارشاد ہے :
((مَنْ اَتٰی کَاھِنًا اَوْ عَرَّافًا فَصَدَّقَہ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ ۖ )) (٥)
''جو کوئی بھی کسی کاہن یا نجومی کے پاس آیا اور اس نے اس کے قول کی تصدیق کی تو اس شخص نے اس چیز کا انکار کیا جومحمدۖ پر نازل کی گئی۔''
اسی طرح آپۖ کی ایک اور حدیث ہے:
((مَنْ اَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَہ عَنْ شَیْ ئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہ صَلَاة اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً)) (٦)
''جو کوئی کسی نجومی کے پاس آیا اور اس نے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی''۔

حضرت خالد بن زید الجہنی بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے حدیبیہ والے دن ہمیں صبح کی نماز پڑھائی' جبکہ رات کو بارش ہوئی تھی۔ جب آپۖ نماز سے فارغ ہوئے تو آپۖ نے فرمایا:
((ھَلْ تَدْرُوْنَ مَا ذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟)) قَالُوا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَمُ' قَالَ: ((اَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُؤْمِن بِیْ وَکَافِر' فَاَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللّٰہِ وَرَحْمَتِہ فَذٰلِکَ مُؤْمِن بِیْ وَکَافِر بِالْکَوْکَبِ' وَاَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْئِ کَذَا وَکَذَا فَذٰلِکَ کَافِر بِیْ وَمُؤْمِن بِالْکَوْکَبِ)) (٧)
''کیا تم جانتے ہو تمہارے ربّ نے کیا کہا ہے؟'' صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں ۔تو آپۖ نے فرمایا: ''آج میرے بعض بندوں نے اس حال میں صبح کی کہ وہ میرے اوپر ایمان لانے والے تھے اور کچھ میرا انکار کرنے والے تھے۔ پس جنہوں نے کہا کہ ہمارے اوپر اللہ کے فضل اور رحمت سے بارش ہوئی تو یہ لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لانے والے ہیں اور ستاروں کا انکار کرنے والے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی ہے تو ایسے لوگ میرا انکار کرنے والے ہیں اور ستاروں پر ایمان لانے والے ہیں''۔
اس حدیث میں ان لوگوں کو کافر کہا گیا ہے جو کہ زمانے کے حادثات و واقعات کو ستاروں کی نقل و حرکت سے متعلق کرتے ہیں اور تدبیر الٰہی کو اصل وجہ و علت قرار نہیں دیتے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
٥) اَوہام پرستی
کسی چیز کو منحوس سمجھنا اَوہام پرستی ہے۔ مثلاً اکثر لوگ محرم یا صفر کے مہینے میں نکاح کو نحوست کا باعث سمجھتے ہیں۔ اسی طرح بعض مخصوص اعداد مثلاً ١٣ کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ اگر کہیں جاتے وقت کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو اس کو برا سمجھا جاتا ہے۔ صبح سویرے کسی خاص آدمی سے ملاقات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ عام طور پر لوگوں کی زبانوں پر یہ کلمہ جاری ہوتا ہے کہ صبح صبح فلاں کا چہرہ دیکھ لیا اب پتا نہیں سارا دن کیسا گزرے گا؟ یہ سب اَوہام پرستی میں داخل ہے۔ اہل عرب جب کسی سفر پر جاتے تو تیر کے ذریعے یا پرندے کو اُڑا کر فال نکالتے تھے' اگر پرندہ دائیں طرف جاتا تو اس کام کے لیے سفر کو اپنے لیے اچھا سمجھتے تھے اور اگر پرندہ بائیں طرف جاتا تو اسے اپنے حق میں برا سمجھتے تھے۔ ہمارے ہاں آج بھی دیہاتوں میں کوّے کی گھر میں آمد کو کسی مہمان کے آنے کی علامت سمجھا جاتا ہے 'اور تیز آندھی یا طوفان کے بارے میں معروف ہے کہ یہ قتلِ ناحق کا نتیجہ ہوتاہے۔ یہ تمام چیزیں حرام ہیں اور شرک میں داخل ہیں۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے :
((اَلطِّیَرَةُ شِرْک الطِّیَرَةُ شِرْک ثَلَاثًا وَمَا مِنَّا اِلاَّ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُذْھِبُہُ بِالتَّوَکُّلِ))(٨)
''بری فال لینا شرک ہے' بری فال لینا شرک ہےآپۖ نے تین مرتبہ یہ بات کہی اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو فال لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کے توکّل کو لے جاتا ہے''۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top