• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرمات : حرام امور جن سے بچنا ضروری ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
٦) غیر اللہ کی قسم کھانا
اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے جس کی چاہے قسم کھاتا ہے'لیکن مخلوق کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائے۔ مثلاً کعبہ کی قسم کھانا' کسی نبی' ولی' پیر' فقیر یا محبوب کے سر کی قسم کھانا ممنوع اور ناجائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ کَفَرَ أَوْ اَشْرَکَ )) (٩)
''جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا یا کفر کیا''۔
اسی طرح آپۖ کا ارشاد ہے:
((مَنْ حَلَفَ فَقَالَ فِیْ حَلْفِہ وَاللَّاتِ وَالْعُزّٰی فَلْیَقُلْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ)) (١٠)
''جس نے کوئی قسم کھائی اور اپنی قسم میں لات اور عزیٰ کا نام لیا تو اسے چاہیے کہ وہ کلمہ لا الٰہ الاّ اللہ پڑھ لے''(یعنی اپنے ایمان کی تجدید کرے)۔

حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہما ایک دفعہ ایک قافلے میں شریک تھے اور آپ نے اپنے باپ کی قسم کھائی تو رسول اللہۖ نے فرمایا:
((اَلَا اِنَّ اللّٰہَ یَنْھَاکُمْ اَنْ تَحْلِفُوْا بِآبَآئِکُمْ ' فَمَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ بِاللّٰہِ وَاِلَّا فَلْیَصْمُتْ))(١١)
''خبردار! اللہ تم لوگوں کو اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے۔ پس جس نے تم میں سے قسم کھانی ہو تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔''
جاری ہے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
٧) منافقین اور فُسّاق کے ساتھ دل بہلانے کے لیے بیٹھنا
منافقین اور فاسقین کی مجالس میں بیٹھنا ١ور ان کے ساتھ خوش گپیاں کرنا جبکہ ان کی مجالس میں اکثر و بیشتر اللہ کے دین اور شریعت اسلامیہ کا مذاق اڑایا جا تا ہے، ایمان میں کمی کا باعث بنتا ہے لہذا ایسا کرنا حرام ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہ وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ) (الانعام)
''اور جب آپ دیکھیں ان لوگوں کو جو کہ اللہ کی آیات کے بارے میں کج بحثی کرتے ہیں تو آپ ایسے لوگوں سے اعراض کریں' یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہوجائیں۔ اور اگر شیطان آپ کو بھلا دے (اور آپ اُن کے شریکِ مجلس ہو جائیں) تو یاد آنے کے بعد ظالم قوم کے ساتھ مت بیٹھیں''۔
ایک اور جگہ ارشادِ الٰہی ہے :
(وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِھَا وَیُسْتَھْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہ ز اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ) (النساء :١٤٠)
''اور تم پر کتاب میں یہ بات نازل ہو چکی ہے کہ جب تم اللہ کی آیات کے بارے میں سنو کہ اُن کا انکار کیا جاتا ہے اور اُن کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو (جو آیاتِ الٰہی کا انکار کرتے اور مذاق اڑاتے ہیں)' یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں۔ (اگر تم ان کے ساتھ بیٹھے رہے) تو تم بھی یقینا ان کے مانند ہوجائو گے''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
٨) نماز کو اطمینان سے ادا نہ کرنا
نماز کی چوری کو رسول اللہۖ نے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ آپۖ کا ارشاد ہے :
((اَسْوَئُ النَّاسِ سَرَقَةً الَّذِیْ یَسْرَقُ مِنْ صَلَا تِہِ)) قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَیْفَ یَسْرَقُ مِنْ صَلَا تِہ؟ قَالَ : ((لَا یَتِمُّ رُکُوْعَھَا وَلَا سُجُوْدَھَا)) (١٢)
''بدترین چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرے''۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولۖ !نماز میں چوری سے کیا مراد ہے؟ آپۖ نے فرمایا:''نماز پڑھتے وقت رکوع اور سجود کو اچھی طرح ادا نہ کرنا''۔

نماز کو جلدی جلدی ادا کرنا' رکوع و سجود کو اطمینان سے ادا نہ کرنا' رکوع سے اٹھتے وقت سیدھاکھڑے ہوئے بغیر سجدے میں چلے جانا اور دونوں سجدوں کے درمیان اطمینان سے نہ بیٹھنا' سجدوں کو ایسے ادا کرنا جیسا کہ کوئی کوّا ٹھونگیں مارتا ہے' یہ سب نماز کی چوری میں داخل ہے۔ اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرنا نماز کا ایک رکن ہے۔ اس کے بغیر نماز صحیح ادا نہیں ہوتی۔
حضرت ابوعبداللہ الاشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے صحابہ کرام' کو نماز پڑھائی' پھر آپۖ ان میں سے کچھ لوگوں کے پاس بیٹھ گئے' اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھنا شروع کی ۔وہ جلدی جلدی رکوع کر رہا تھا اورکوّے کی طرح ٹھونگیں مارتے ہوئے سجدہ کر رہا تھا تو آپۖ نے فرمایا:
((مَنْ مَّاتَ عَلٰی ھٰذَا مَاتَ عَلٰی غَیْرِ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ یَنْقَرُّ صَلَاتَہ کَمَا یَنْقَرُّ الْغُرَابُ الدَّمَ' اِنَّمَا مَثَلُ الَّذِیْ یَرْکَعُ وَیَنْقَرُّ فِیْ سُجُوْدِہ کَالْجَائِعِ لَا یَاْکُلُ اِلاَّ التَّمْرَةَ اَوِ التَّمْرَتَیْنِ فَمَاذَا تُغْنِیَانِ عَنْہُ!)) (١٣)
''جو شخص اس طریقے پر نماز پڑھتے ہوئے مر گیا وہ محمدۖکے دین پر نہیں مرا 'وہ اپنی نماز کو ایسے کریدتا ہے جیسے کوّا خون کو کریدتا ہے۔ ایسے شخص کی مثال جو رکوع (میں جلدی) کرتا ہے اور سجدے میں ٹھونگیں مارتا ہے اس بھوکے آدمی کی طرح ہے جو بس ایک یا دو کھجوریں کھاتا ہے ۔ تو یہ ایک دو کھجوریں اس کی بھوک میں کیسے کفایت کریں گی؟''
رسول اللہۖ نے ایسی نماز کو منافق کی نماز قرار دیا ہے ۔ آپۖ کا فرمان ہے:
((تِلْکَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ یَجْلِسُ یَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتّٰی اِذَا کَانَتْ بَیْنَ قَرْنَی الشَّیْطَانِ قَامَ فَنَقَرَھَا اَرْبَعًا لَا یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْھَا اِلاَّ قَلِیْلًا)) (١٤)
''یہ منافق کی نماز ہے جو سورج کے غروب ہونے کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے' یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے (یعنی غروب ہونے لگتا ہے) تو کھڑا ہوتا ہے اور کوے کی طرح چار ٹھونگیں لگاتا ہے اور اپنی اس نماز میں اللہ کا ذکر نہیں کرتا مگر تھوڑا۔''
اس حدیث میں رسول اللہۖ نے جان بوجھ کر عصر کی نماز لیٹ پڑھنے والوں کو منافق قرار دیا ہے ۔نماز کی ادائیگی کے لیے مستحب و افضل عمل یہی ہے کہ اس کو اوّل وقت میں ادا کیا جائے۔ حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا جو نماز میں رکوع اور سجدے کو ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر رہا تھا تو آپ نے اس سے کہا :
مَا صَلَّیْتَ وَلَوْ مُتَّ مُتَّ عَلٰی غَیْرِ الْفِطْرَةِ الَّتِیْ فَطَرَ اللّٰہُ مُحَمَّدًاۖ (١٥)
''تو نے نماز دراصل نہیں پڑھی' اور اگر ایسے ہی نماز پڑھتے پڑھتے تُو مر گیا تو حضرت محمد(ۖ) کے دین پر نہیں مرے گا''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
١) سنن الترمذی' کتاب تفسیر القرآن' باب من سورة التوبة۔ ورواہ البیھقی ایضاً واللفظ لہ۔
٢) سنن الترمذی' کتاب الحدود عن رسول اللہ ۖ' باب ما جاء فی حد الساحر۔
٣) ایضاً۔
٤) سنن ابی داود' کتاب الخراج والامارة والفیٔ' باب فی اخذ الجزیة من المجوس۔
٥) مسند احمد' جلد٣' ص ١٦٤' دار احیاء التراث العربی۔
٦) صحیح مسلم' کتاب السلام' باب تحریم الکھانة واتیان الکھان۔
٧) صحیح البخاری' کتاب الاذان' باب یستقبل الامام الناس اذ اسلّم۔
٨) سنن ابی داود' کتاب الطب' باب فی الطیرة۔
٩) سنن الترمذی' کتاب النذور والایمان عن رسول اللہۖ' باب ما جاء فی کراھیة الحلف بغیر اللہ۔
١٠) صحیح البخاری' کتاب تفسیر القرآن' باب افرأیتم اللات والعزی۔
١١) صحیح البخاری' کتاب الادب' باب من لم یر اکفار من قال ذلک متأولا او جاھلا۔
١٢) صحیح ابن خزیمة' کتاب الصلاة' باب النھی عن نقرة الغراب فی السجود۔
١٣) صحیح ابن خزیمة' کتاب الصلاة' باب النھی عن نقرة الغراب فی السجود۔
١٤) صحیح مسلم' کتاب المساجد ومواضع الصلاة' باب استحباب التبکیر بالعصر۔
١٥) صحیح البخاری' کتاب الاذان' باب اذا لم یتم الرکوع۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٩) مقتدی کا نماز میں امام سے آگے بڑھ جانا
انسان کی طبیعت میں عجلت پسندی ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا ) (الاسراء : بنی اسراءئیل)
''اورانسان بڑا جلد باز ہے۔''
یعنی ہر معاملے میں جلدی کرتا ہے چاہے خیر کا معاملہ ہو یا شرکامعاملہ ۔

اکثر اوقات مساجد میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض حضرات نماز کے دوران امام سے پہلے رکوع یا سجدے میں چلے جاتے ہیں اور اسی طرح امام کے رکوع یا سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے ہی اپنا سر اٹھالیتے ہیں۔ نماز میں امام کی اقتداء کرنا واجب ہے اور امام سے آگے بڑھنا حرام ہے۔ اللہ کے رسولۖ کی اُس شخص کے بارے میں بہت سخت وعید موجود ہے جو کہ نماز میں امام سے پہلے اپنے سر کو اٹھا لے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:
((اَمَا یَخْشَی الَّذِیْ یَرْفَعُ رَأْسَہ قَبْلَ الْاِمَامِ اَنْ یُّحَوِّلَ اللّٰہُ رَأْسَہ رَأْسَ حِمَارٍ)) (١)
''کیا وہ شخص جو کہ امام (کے رکوع یا سجدے سے سر اٹھانے )سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے 'اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کا سر بنا دے؟''
اللہ کے رسولۖ نے نما زکے لیے سکینت اور وقار کے ساتھ آنے کا حکم دیا ہے۔ اور نماز میں سکینت و وقار کو اختیار کرنا تو بالاولیٰ مطلوب ہے۔ صحابہ کرام نماز میں ہمیشہ آپۖ سے پیچھے رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت براء بن عازب بیان فرماتے ہیں:
اَنَّھُمْ کَانُوْا یُصَلُّوْنَ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہ مِنَ الرُّکُوْعِ لَمْ أَرَ اَحَدًا یَحْنِیْ ظَھْرَہ حَتّٰی یَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ جَبْھَتَہ عَلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَخِرُّ مَنْ وَرَائَہ سُجَّدًا (٢)
''صحابہ کرام اللہ کے رسولۖ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ جب آپۖ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو میں کسی ایک صحابی کو بھی نہ دیکھتا تھا جو کہ اپنی پشت کو جھکا رہا ہو یہاں تک کہ اللہ کے رسولۖ اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیتے' پھر اس کے بعد وہ سجدے کے لیے جھکنا شروع کرتا تھا۔''
یہ حدیث بیان کر رہی ہے کہ رسول اللہۖ سجدے کے لیے پیشانی زمین پر رکھ دیتے تو صحابۂ کرام سجدے کے لیے زمین کی طرف جھکنا شروع کرتے تھے۔ ایسے ہی جس طرح مقتدیوں کے لیے ہدایت ہے کہ وہ امام سے آگے نہ بڑھیں' امام کو بھی چاہیے کہ وہ ہر حرکت کے بعد ہی تکبیر کہے۔ اگر امام کسی حرکت سے پہلے ہی تکبیر کہے گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ مقتدی امام سے حرکات میں آگے نکل جائیں گے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١٠) مسجد میں تھوم اور پیاز کھا کر آنا
مسجد میں ہر ایسی چیز کھا کر آنا ممنوع ہے کہ جس کی بدبو سے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہو۔ اللہ کے رسول ۖ کا ارشاد ہے:
((مَنْ اَکَلَ ثُوْمًا اَوْ بَصَلًا فَلْیَعْتَزِلْنَا اَوْ قَالَ فَلْیَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا وَلْیَقْعُدْ فِیْ بَیْتِہ)) (٣)
''جو کوئی لہسن یا پیاز کھائے تو اسے چاہیے کہ ہم سے علیحدہ رہے یا آپۖ نے یوں فرمایا کہ ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔''
مسلم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
((مَنْ اَکَلَ الْبَصَلَ وَالثُّوْمَ وَالْکُرَّاثَ فَلَا یَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا' فَاِنَّ الْمَلَائِکَةَ تَتَاَذَّی مِمَّا یَتَأَذَّی مِنْہُ بَنُوْ آدَمَ)) (٤)
''جو کوئی پیاز ' لہسن یا گیندنا (ایک تیز بووالی سبزی) کھائے تو ہماری مسجد کے قطعاً قریب نہ آئے 'کیونکہ جس چیز سے بنی آدم کو اذیت ہوتی ہے اُس چیز سے فرشتوں کو بھی اذیت ہوتی ہے۔''

اگر کسی نے لہسن یا پیاز وغیرہ کھانا ہی ہے تو اسے چاہیے کہ ان کو اچھی طرح پکا کر کھائے' تاکہ اُن کی بو زائل ہو جائے۔ حضرت عمرنے ایک دفعہ جمعہ کے خطبے کے دوران فرمایا:
ثُمَّ اِنَّکُمْ اَیُّھَا النَّاسُ تَأْکُلُوْنَ شَجَرَتَیْنِ لَا اَرَاھُمَا اِلاَّ خَبِیْثَتَیْنِ : ھٰذَا الْبَصَلَ وَالثُّوْمَ لَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ اِذَا وَجَدَ رِیْحَھُمَا مِنَ الرَّجُلِ فِی الْمَسْجِدِ اَمَرَ بِہ فَاُخْرِجَ اِلَی الْبَقِیْعِ ' فَمَنْ اَکَلَھُمَا فَلْیُمِتْھُمَا طَبْخًا (٥)
''اے لوگو! میں تمہیں دو ایسے پودے استعمال کرتے دیکھتا ہوں جن کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ وہ خبیث ہیں' اور وہ دو پودے لہسن اور پیاز ہیں۔ میں نے اللہ کے رسولۖ کو دیکھا ہے کہ جب آپۖ ان دونو ں میں سے کسی کی بو مسجد نبوی میں کسی نمازی سے محسوس کر لیتے تو اُس کے بارے میں حکم دیتے اور اس آدمی کو مسجد سے جنت البقیع (قبرستان ) کی طرف نکال دیا جاتا۔ توجو بھی تم میں سے ان دونوں کو کھانا چاہے تو اسے چاہیے کہ ان کو اچھی طرح پکا کر ان (کی بو) کو ختم کر کے کھائے''۔

جو لوگ سگریٹ' حقہ یا نسوار وغیرہ استعمال کرنے کے بعد مسجد میں نماز کے لیے آتے ہیں اُن کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ اگر ایسے آدمیوں کے مُنہ سے آنے والی بدبو سے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہو تو اُن کو مسجد سے نکال دینا چاہیے 'یہاں تک کہ وہ اپنے مُنہ کی بو کو زائل کریں اور پھر مسجد میں آئیں۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ تھوم یا پیاز وغیرہ کھاناحرام فعل نہیں ہیں بلکہ ان کو کھا کر مسجد آنا حرام فعل ہے ۔حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے موقع پر بعض صحابہ نے بھوک کی وجہ سے تھوم کھا لیا اس کے بعدصحابہ مسجد میں آئے تو آپ نے اس کی بدبو محسوس کر کے کہا:
من أکل ھذہ الشجرة الخبیثة شیئا فلا یقربن فی المسجد فقال الناس حرمت حرمت فبلغ ذلک رسول اللہ ۖ فقال یأیھا الناس انہ لیس تحریم ما أحل اللہ و لکنھا شجرة أکرہ ریحھا(٦)
جس نے بھی اس خبیث درخت کو کھایا ہے وہ مسجد کے قریب نہ آئے۔تو لوگوں نے یہ کہناشروع کر دیا کہ یہ حرام کر دیا گیا یہ حرام کر دیا گیا۔آپ ۖ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ۖ نے فرمایا جس کو اللہ نے حلال کیا ہے میرے پاس اس کو حرام کرنے کااختیار نہیں ہے یہ ایک درخت ہے مجھے اس کی بو پسند نہیں ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١١) زنا
شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد انسان کی عزت و آبرو اور اس کی نسل کی حفاظت ہے۔ اسی مقصد کی تکمیل کی خاطر شریعت اسلامیہ میں زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّہ کَانَ فَاحِشَةً وَسَآء سَبِیْلًا) (الاسراء/بنی اسرائیل)
''اور زنا کے قریب بھی مت جائو! بے شک وہ کھلی بے حیائی کا کام اور برا راستہ ہے۔''
اس آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا اندازِ خطاب قابل غور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ زِنا نہ کرو 'بلکہ یہ حکم جاری فرمایا کہ زِنا کے قریب بھی مت جائو۔ یعنی ایسے تمام ذرائع ووسائل جو زِنا تک لے جانے کا سبب بنیں' وہ بھی حرام ہیں ۔مثلاً غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا وغیرہ۔

غیر شادی شدہ زانی مرد اور عورت کی سزا قرآن میں سو کوڑے بیان ہوئی ہے۔ اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت زنا کے مرتکب ہوتے ہیں تو ان کی سزا رجم ہے' یعنی ان کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔ یہ تو دنیا میں زنا کی سزا ہے 'جہاں تک آخرت کی سزا کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں حضرت سمرہ بن جندب کی ایک طویل روایت میں ہے کہ رسول اللہۖ نے ایک خواب دیکھا جس میں حضرات جبرئیل اور میکائل علیہما السلام نے آپۖ 'کو جنت و جہنم کی سیر کروائی۔ اب اس حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
((… فَانْطَلَقْنَا اِلٰی ثَقْبٍ مِثْلِ التَّنُّوْرِ اَعْلَاہُ ضَیِّق وَاَسْفَلُہ وَاسِع یَتَوَقَّدُ تَحْتَہ نَارًا فَاِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوْا حَتّٰی کَادَ اَنْ یَّخْرُجُوْا فَاِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوْا فِیْھَا وَفِیْھَا رِجَال وَنِسَائ عُرَاة فَقُلْتُ مَنْ ھٰذَا؟ قَالَا انْطَلِقْ … وَالَّذِیْ رَاَیْتَہ فِی الثَّقْبِ فَھُمُ الزُّنَاةُ)) (٧)
''…توہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک گڑھے پر ہمارا گزر ہوا جو کہ تنور کی مانند تھا' اس کا اوپر والا حصہ تنگ تھا جبکہ نیچے والا حصہ کھلا تھا' اس کے نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب بھی وہ آگ (تنور کے کناروں کے) قریب آ جاتی تو وہ لوگ اوپر اٹھ آتے تھے اور باہر نکلنے کے قریب ہو جاتے'اور جب آگ کی لپٹ ختم ہو جاتی تو سب لوگ اندر چلے جاتے ۔اور اس گڑھے میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں 'تو میں نے ان دونوں سے سوال کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو ان دونوں (فرشتوں) نے جواب دیا آگے چلیے… اور جس قوم کو آپۖ نے گڑھے میں دیکھا وہ زانی ہیں۔''
زنا کے بارے میں بعض احادیث میں آیا ہے کہ زنا سے انسان کا ایمان ناقص ہو جاتا ہے ۔اللہ کے رسولۖ کی ایک حدیث ہے:
((لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِن وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُ وَھُوَ مُؤْمِن وَلَا یَسْرِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِن)) (٨)
''کوئی بھی زنا کرنے والا حالت ایمان میں زنا نہیں کرتا' کوئی بھی شراب پینے والا حالت ایمان میں شراب نہیں پیتا اور کوئی بھی چوری کرنے والا حالت ایمان میں چوری نہیں کرتا۔''
جب بھی کوئی آدمی زنا' شراب نوشی اور چوری جیسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کررہا ہوتا ہے تو اُس وقت اس کا ایمان کامل نہیں رہتا' یعنی جو مطلوب ایمان ہے وہ اس سے رخصت ہو جاتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا یُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَیَخْلُدْ فِیْہ مُھَانًاQ اِلاَّ مَنْ تَابَ …) (الفرقان:٦٨۔٧٠)
''اور (یہ وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جس کو اللہ نے حرام ٹھہرایا ہو' مگر حق کے ساتھ' اور زنا نہیں کرتے۔ اور جو بھی یہ کام کرے گا تو وہ اس کا وبال چکھ لے گا۔ قیامت کے دن ایسے شخص کے لیے عذاب کو دوگنا کیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ذلیل و خوار ہو کر پڑا رہے گا۔سوائے اس کے کہ جس نے توبہ کر لی…''

حضرت عبداللہ بن مسعودفرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولۖ سے سوال کیا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟تو آپۖ نے جواب دیا:
((اَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَ خَلَقَکَ)) قُلْتُ ثُمَّ اَیّ؟ قَالَ: ((ثُمَّ اَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَةَ اَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ)) قُلْتُ ثُمَّ اَیّ؟ قَالَ : ((اَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیْلَةِ جَارِکَ)) قَالَ وَنَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَةُ تَصْدِیْقًا لِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ : (وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ) (٩)
''کہ تو اللہ کا کوئی مدّمقابل ٹھہرائے' حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا۔''میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسولۖ! اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟تو آپۖ نے فرمایا :''پھر یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کر دے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گی۔'' (یعنی مفلسی کے ڈر سے)۔ میں نے کہا پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ تو آپۖ نے فرمایا: ''تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔'' حضرت عبداللہ بن مسعودفرماتے ہیں کہ آپۖ کے اس قول کی تصدیق کے لیے درج ذیل آیت نازل ہوئی : (وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ)''
حضرت ابوہریرہ سے ایک روایت ہے کہ اللہ کے رسولۖ نے فرمایا:
((ثَلَاثَة لاَ یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ قَالَ اَبُوْ مُعَاوِیَةَ: وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَاب اَلِیْم : شَیْخ زَانٍ وَمَلِک کَذَّاب وَعَائِل مُسْتَکْبِر))(١٠)
''تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ تو اُن سے کلام کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا ابومعاویہ نے کہا :اور ان کی طرف دیکھے گا بھی نہیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے:ایک بوڑھا زانی 'دوسرا جھوٹا حکمران اور تیسرا متکبرفقیر ۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١٢) عملِ قومِ لوط
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں یہ برائی تھی کہ وہ مردوں سے اپنی جنسی خواہش پوری کرتے تھے' جس کی وجہ سے ان پر اللہ کی طرف سے سخت عذاب آیا۔ یہ عذاب چار طرح کا تھا:
ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا گیا ۔
ایک بہت بڑی چیخ نے ان کو پکڑا ۔
فرشتے نے ان کی بستیوں کو زمین سے اٹھا کر اوندھا کر دیا ۔
اور اُن پر پتھروں کی لگاتار بارش برسائی گئی۔


ان سے پہلے کسی بھی قوم میں یہ عذاب جمع نہیں کیے گئے تھے ۔ قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا قصہ بیان ہوا ہے ۔ایک جگہ ان پر بھیجے جانے والے عذاب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
(فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِیْنَ فَجَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ)(الحجر)
''صبح ہوتے ہی ان کو ایک چیخ نے آ پکڑا' اور ہم نے ان کی بستیوں کے اوپر والے حصے کو نیچے کر دیا اور ان پر کھنگرے پتھر برسائے۔''

اُمت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ عملِ قومِ لوط کبائر میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام ٹھہرایا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہۖ
نے فرمایا:
((مَنْ وَجَدْتُّمُوْہُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لَوْطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُوْلَ بِہ))(١١)
''جس کو بھی تم عمل قومِ لوط کرتے دیکھو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔''
امام ترمذی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس فعل کے مرتکب شخص کی حدّ کے بارے میں فقہاء کا اختلاف نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَاخْتَلَفَ اَھْلُ الْعِلْمِ فِیْ حَدِّ اللُّوْطِیِّ فَرَأَی بَعْضُھُمْ اَنَّ عَلَیْہِ الرَّجْمَ اَحْصَنَ اَوْ لَمْ یُحْصِنْ وَھٰذَا قَوْلُ مَالِکٍ وَالشَّافِعِیِّ وَاَحْمَدَ وَاِسْحٰقَ وَقَالَ بَعْضُ اَھْلِ الْعِلْمِ مِنْ فُقَہَاء التَّابِعِیْنَ مِنْھُمُ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ وَاِبْرَاھِیْمُ النَّخَعِیُّ وَعَطَاء بْنُ اَبِیْ رَبَاحٍ وَغَیْرُھُمْ قَالُوْا حَدُّ اللُّوْطِیِّ حَدُّ الزَّانِیْ وَھُوَ قَوْلُ الثَّوْرِیِّ وَاَھْلِ الْکُوْفَةِ (١٢)
''اور اہل علم کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ لوطی کی کیا حدّ ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ لوطی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ 'اس کی سزا رجم ہے اور یہ رائے امام مالک ' امام شافعی' امام احمد اور امام اسحق رحمہم اللہ کی ہے ۔اور بعض اہل علم کا کہنا ہے جو کہ فقہائے تابعین میں سے ہیں کہ لوطی کی حد وہی ہے جو کہ زانی کی حد ہے۔ یہ رائے حسن بصری' ابراہیم نخعی' عطاء بن ابی رباح رحمہم اللہ وغیرہم کی ہے ۔سفیان ثوری اور
نوٹ : عمل قوم لوط کے لیے جو فقہاء رجم کی سزا تجویز کرتے ہیں وہ قوم لوط پر پتھروں کی بارش کی صورت میں نازل ہونے والے عذاب کی نصوص کو اس سزا کی دلیل بناتے ہیں۔
اہل کوفہ نے بھی اسی رائے کو اختیار کیاہے۔''
جس طرح عورت کی طرف شہوت کی نگاہ سے دیکھنا حرام ہے' اسی طرح بے ریش خوبصورت لڑکے کی طرف بھی شہوت کی نظر سے دیکھنا حرام ہے۔ اسی وجہ سے بعض سلف صالحین خوبصورت نوجوان لڑکوں کی طرف دیکھنے اور ان سے مجلس کرنے سے اعراض کرتے تھے۔ امام ذہبی اپنی کتاب ''الکبائر'' میں علمائے سلف کے چند واقعات نقل کرتے ہیں۔
(١) ایک دفعہ سفیان ثوری حمام میں داخل ہوئے اور اس وقت ایک خوبصورت لڑکا بھی حمام میں آیا 'تو سفیان ثوری نے فرمایا کہ ''اس کو یہاں سے نکال دو 'اس کو یہاں سے نکال دو' کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہر عورت کے ساتھ ایک شیطان ہے 'جبکہ ہر خوبصورت لڑکے کے ساتھ تقریباً سترہ شیطان ہوتے ہیں۔''
(٢) ایک دفعہ حضرت امام احمد کے پاس ایک آدمی آیا اور اس کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکا تھا 'تو امام احمد نے اس سے پوچھا یہ لڑکا کون ہے؟ اس نے کہا میرا بھانجا ہے ۔ تو امام احمد نے اس آدمی سے کہا کہ ''اس لڑکے کو دوبارہ ہمارے پاس مت لانا اور اس کو ساتھ لے کر رستے میں مت چل۔ یہ نہ ہو کہ جو شخص تمہارے اس باہمی تعلق کو نہیں جانتا وہ تمہارے بارے میں کوئی برا گمان کرے۔ '' (١٣)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١٣) بیوی سے دُبر میں جماع کرنا
بیوی کے ساتھ دبر میں جماع کرنے والے کو اللہ کے رسولۖ نے ملعون قرار دیا ہے۔ آپۖ 'کا ارشاد ہے:
((مَلْعُوْن مَنْ اَتَی امْرَأَتَہ فِیْ دُبُرِھَا)) (١٤)
''وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی سے اس کی دبر میں جماع کرتا ہے۔''
بیوی کے ساتھ عملِ قومِ لوط کرنا انتہائی قبیح فعل ہے اور اللہ کے رسولۖ نے اسے کفر سے تشبیہہ دی ہے ۔ آپۖ کا ارشاد ہے:
((مَنْ اَتٰی حَائِضًا اَوِ امْرَاَةً فِیْ دُبُرِھَا اَوْ کَاھِنًا فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ ۖ)) (١٥)
''جس نے اپنی عورت سے حالتِ حیض میں یا دُبر میں جماع کیا یا کسی کاہن کے پاس آیا تو اس نے اس چیز کا انکار کیا جو کہ محمدۖ پر نازل کی گئی ۔''
یہاں تک کہ اگر طرفین اس کام پر راضی بھی ہوں پھر بھی یہ قطعاً حلال نہ ہو گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(نِسَآؤُکُمْ حَرْث لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ ) (البقرة:٢٢٣)
''تمہاری عورتیں تمہارے لیے کھیتی کی مانند ہیں' تو تم اپنی کھیتی کو آو جہاں سے تم چاہو۔''
قرآن کے الفاظ (فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ) بہت اہم ہیں۔ ''حرث'' سے مراد عورت کی فرج ہی ہو سکتی ہے 'کیونکہ ''حرث'' کھیتی کو کہتے ہیں اور عورت کی فرج ہی کھیتی ہے جہاں سے مرد کے لیے اس کی اگلی نسل کا سامان مہیا ہوتا ہے۔البتہ ''غیر حرث'' میں آنے کی ایک صورت جو کہ اُس وقت کے عرب معاشرے میں رائج تھی 'اس کی طرف رسول اللہۖ نے اپنے فرامین میں اشارہ فرما دیا اور اس سے منع کر دیا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١٤) حالتِ حیض میں عورت سے جماع کرنا
حالتِ حیض میں عورت سے جماع کرنا حرام ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ھُوَ اَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَآء فِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْن) (البقرة:٢٢٢)
''اور( اے نبیۖ !)آپۖ سے یہ حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔آپۖ ان سے فرما دیں کہ وہ گندگی ہے' پس حیض کے دنوں میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب مت جاو یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں۔''
اللہ کے رسولۖ کے مذکورہ بالا فرمان سے بھی اس فعل کی حرمت واضح ہوتی ہے۔ آپۖ نے فرمایا:
((مَنْ اَتٰی حَائِضًا اَوِ امْرَاَةً فِیْ دُبُرِھَا اَوْ کَاھِنًا فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍۖ))(١٦)
''جس نے اپنی عورت سے حالتِ حیض میں یا دُبر میں جماع کیا یا کسی کاہن کے پاس آیا تو اس نے اس وحی کا انکار کیا جو محمدۖ پر نازل کی گئی ۔''

اگر کوئی شخص بھول کر حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع کر لیتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی فدیہ ہے' لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر حالت حیض میں بیوی سے جماع کرے گا تو وہ گناہ گار بھی ہو گا اور اسے اس کا فدیہ بھی ادا کرنا ہو گا ۔ یہ فدیہ ایک دینار (یا ا س کی قیمت) یا پھر نصف دینار (یا اس کی قیمت) ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس، اللہ کے رسولۖ سے اُس شخص کے بارے میں نقل کرتے ہیں جس نے اپنی بیوی سے حالتِ حیض میں جماع کیا تو آپۖ نے فرمایا:
((یَتَصَدَّقُ بِدِیْنَارٍ اَوْ نِصْفِ دِیْنَارٍ)) (١٧)
'' ایسا شخص ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے گا۔''

بعض علماء کے نزدیک فدیے میں اختیار ہے چاہے ایک دینار دے یا نصف دینار' جبکہ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر حیض کے ابتدائی ایام میں جماع کیا تو ایک دینار فدیہ دے اور اگر آخری ایام میں جماع کیا تو نصف دینار فدیہ ہو گا۔ اور ایک دینار ٢٥.٤ گرام سونے کے برابر ہوتا ہے۔حالت حیض میں عورت کے ساتھ کس حد تک مباشرت جائز ہے' اس میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام مالک' امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا مسلک یہ ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ تہبند کے اوپر مباشرت جائز ہے۔ جبکہ سفیان ثوری اور دائود ظاہری کا موقف یہ ہے کہ صرف خون کی جگہ سے بچنا چاہیے' اس کے علاوہ باقی جسم سے مباشرت (ملنا)جائز ہے۔ بہرحال حالت حیض میں لباس پہنے ہوئے عورت کے ساتھ سونے اور کھانے پینے وغیرہ میں سے کسی چیز کے بارے میں ممانعت نہیں ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top