• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرمات : حرام امور جن سے بچنا ضروری ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
١) صحیح مسلم' کتاب الصلاة' باب تحریم سبق الامام برکوع أو سجود ونحوھما۔
٢) صحیح مسلم' کتاب الصلاة' باب متابعة الامام والعمل بعدہ۔
٣) صحیح البخاری' کتاب الاذان' باب ما جاء فی الثوم النی والبصل والکراث۔
٤) صحیح مسلم' کتاب المساجد ومواضع الصلاة' باب نھی من اکل ثوما او بصلاً او کراثاً او نحوھا ممالہ۔
٥) حوالہ مذکورہ
٦) (مسند احمد:١٠٦٦٢)
٧) صحیح البخاری' کتاب الجنائز' باب ما قیل فی اولاد المشرکین۔
٨) صحیح البخاری' کتاب المظالم والغصب' باب النھبی بغیر اذن صاحبہ۔
٩) صحیح البخاری' کتاب تفسیر القرآن' باب قولہ والذین لا یدعون مع اللہ اٰلھا آخر ولا یقتلون۔
١٠) صحیح مسلم' کتاب الایمان' باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار والمن والعطیة۔
١١) سنن الترمذی' کتاب الحدود عن رسول اللہۖ' باب ما جاء فی حد اللوطی۔ (امام ترمذی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے)
١٢) أیضا۔
١٣) کتاب الکبائر' امام ذہبی' ص ٥٨'٥٩۔
١٤) سنن ابی داود' کتاب النکاح' باب فی جامع النکاح۔
١٥) سنن الترمذی' کتاب الطھارة عن رسول اللہۖ' باب ما جاء فی کراھیة اتیان الحائض۔
١٦) أیضا
١٧) سنن ابی داود' کتاب الطھارة' باب فی اتیان الحائض۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١٥) بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دینا
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا جو طریقہ سکھایا ہے وہ یہ ہے کہ ہر طہر(بیوی کی پاکی کی حالت ) میں کہ جس میں بیوی سے مباشرت نہ کی ہو' ایک طلاق دیں ۔سنن نسائی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
طلاق السنة تطلیقة و ھی طاہر فی غیر جماع (١)
سنت طلاق (یعنی طلاق کا صحیح طریقہ) یہ ہے کہ ایک طلاق دیں اس حال میں عورت پاک ہو (یعنی حیض میں نہ ہو) اور اس پاکی کی حالت میں جماع بھی نہ کیا ہو۔

بیوی کو جدا کرنے کے لیے ایک ہی طلاق کافی ہوتی ہے' جب خاوند اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دیتا ہے اور عدت کے اندر اس سے رجوع نہیں کرتا تو عدت گزرنے کے بعد ان دونوں کا نکاح ختم ہو جاتا ہے اور عورت کسی دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے اور اگر چاہے تو اپنے پہلے خاوند کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے لیکن اس کے لیے انھیں دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا۔ ہمارے ہاں لوگ جہالت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید بیوی کو اپنے سے جدا کرنے کے لیے تین طلاقیں دینا فرض ہے ۔ یہ بالکل غلط خیال ہے اللہ کے رسول ۖ نے اپنے زمانے میں ایسے لوگوں پرغصے کا اظہار کیا جو کہ اپنی بیویوں کو ایک ہی وقت میں تین طلاق دے دیتے ہیں ۔حضرت محمود بن لبید سے روایت ہے:
أخبر رسول اللہ ۖ عن رجل طلق امرأة ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال أیلعب بکتاب اللہ و أنا بین أظھرکم حتی قام رجل و قال یارسول اللہ ألا أقتلہ(٢)
اللہ کے رسول ۖ کو ایک شخص کے بارے میں خبر دی گئی جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی ہی دے دی تھیں توآپ ۖ غصے میں آ کر کھڑے ہو گئے اور آپ ۖ نے فرمایا کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب سے کھیلا جاتا ہے تو ایک دوسرا آدمی کھڑا ہوا اس نے کہا اے اللہ کے رسول ۖ کیا میں اس شخص(یعنی تین طلاقیں اکٹھی دینے والے) کو قتل نہ کر دوں ؟

شریعت نے طلاق دینے کا جو طریقہ مقرر کیا ہے اس میں بڑی حکمت ہے یعنی اگر میاں بیوی کے باہمی معاملات اور تعلقات استوار نہیں ہو رہے اور وہ دونوں علیحدگی میں اپنے لیے خیر سمجھتے ہیں تو خاوند اپنی بیوی کو ایک طلاق حالت طہر میں دے 'اور پھر ایک ماہ تک انتظار کرے اگر معاملات سنور جاتے تو اس میں بھی خیر ہے اور اگر نہیں سنورتے تو عدت گزرنے کے بعد عورت خود بخود مرد کے نکاح سے نکل جائے گی ۔اب اس کے پاس اختیار ہے اگر چاہے تو اپنے سابقہ میاں کی طرف اس سے نکاح کر کے واپس آجائے اور اگر چاہے تو کسی اور جگہ نکاح کر لے ۔

جمہور علماء کا مؤقف یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینا' طلاق بدعی ہے یعنی اس طرح اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام ہے لیکن اگر کوئی شخص اس طرح اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے تو کیا وہ تین واقع بھی ہو ں گی یا نہیں ؟ تو اس بارے میں علماء کے دو مؤقف ہیں :
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اس طرح دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی اور عورت اپنے خاوند کے نکاح سے نکل جائے گی ۔ یہ قول ائمہ اربعہ کا ہے۔
جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاقیں'ایک طلاق شمار ہو گی اور مرد عدت کے اندر اندر اپنی بیوی سے بغیر نکاح کے رجوع کرسکتا ہے۔ یہ قول صحابہ وتابعین کی ایک جماعت کا ہے جسے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔ دلائل شرعیہ، مصالح اور مقاصد شریعت کے پہلو سے دوسرا قول راجح ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١٦) حالت حیض میں بیوی کو طلاق دینا
طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حالت طہر میں بیوی کو طلاق دی جائے 'حالت حیض میں بیوی کو طلاق دینے پر اللہ کے رسول ۖ نے غصے کا اظہار کیا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمر نقل کرتے ہیں :
أنہ طلق امرأتہ و ھی حائض فذکر عمر رسول اللہ ۖ فتغیظ فیہ رسول اللہ ۖ(٣)
انھوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو حضرت عمر نے اللہ کے رسول وۖکے سامنے اس بات کا ذکر کیا تو آپ ۖ اس پر غضب ناک ہوئے۔
حالت حیض میں عورت کو طلاق دینے سے جو منع کیا گیا ہے اس میں غالبا حکمت یہ ہے کہ حیض کے ایام میں میاں بیوی میں نسبتا دوری ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس تعلق کے ٹوٹنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١٧) حلالہ کرنا یا کروانا
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں مختلف اوقات میں دے دے تو اب اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ اب ان کے دوبارہ ملنے کی صرف ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ بیوی کسی اور مرد سے نکاح کرے پھر اس کے ساتھ بھی اگر کسی وجہ سے اس کی نہ نبھ سکے اور معاملہ طلاق تک جاپہنچے اور وہ عورت اپنے دوسرے خاوند سے طلاق لے لے تو اب یہ اپنے پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے ۔ اگر یہ سب کچھ اتفاقا ہو تو جائز ہے لیکن اگر یہ پلاننگ کے ساتھ کیا جائے تو یہ حلالہ کہلاتا ہے جو کہ حرام ہے اور زنا کی قبیل سے ہے ۔

حلالہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتا ہے تو اب وہ یہ چاہتا ہے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے اس کے لیے وہ ایک مولوی صاحب سے رجوع کرتا ہے کہ تم میری بیوی سے کچھ عرصہ (مثلا ایک رات' ایک دن' ایک ہفتہ)کے لیے نکاح کر لو پھر اس سے مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دو تو میں اس سے دوبارہ نکاح کر لوں گا ۔اللہ کے رسول ۖ نے اس طرح حلالہ کرنے اور کروانے پر لعنت فرمائی ہے آپ ۖ نے ایک دفعہ صحابہ سے کہا :
ألا أخبرکم بالتیس المستعار قالوا بلی یا رسول اللہ قال ھو المحلل لعن اللہ المحلل و المحلل لہ(٤)
کیا میں تمہیں کرائے کے سانڈ کے بارے میں خبر نہ دوں تو صحابہ نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہۖتو آپ ۖ نے فرمایا وہ حلالہ کرنے والا ہے اور حلالہ کرنے اور کروانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔

نکاح اسے کہتے ہیں جس میں وقت کی قید نہ ہو 'جس نکاح میں وقت کی قید ہو وہ نکاح نہیں ہوتا چاہے اس کی باقی تمام شرائط پوری ہی کیوں نہ ہوتی ہوں ۔مثلا اگر کوئی شخص کسی عورت سے کہے کہ میں تم اس اتنے دس ہزار حق مہر کے عوض' دوگواہوں کی موجودگی میں ایک رات کے لیے نکاح کرتاہوں تو اس نکاح کی حرمت پر علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے ہاں شیعہ کے ہاں یہ جائز ہے وہ اسے متعہ کہتے ہیں ۔ حلالہ میں بھی نکاح وقتی ہوتا ہے اس لیے یہ بھی حرام ہے۔اللہ کے رسول ۖ نے ایسا کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا ہے جو کہ اس کے حرام اور زنا ہونے کی قطعی دلیل ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١٨) عورت کا بغیر کسی شرعی عذر کے خاوند کے پاس بستر پر آنے سے انکار کرنا
اللہ کے رسولۖ کا فرمان ہے :
((اِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَہ اِلٰی فِرَاشِہ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْھَا لَعَنَتْھَا الْمَلَائِکَةُ حَتّٰی تُصْبِحَ)) (٥)
''جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے 'جبکہ مرد اس پر غصے کی حالت میں رات گزارے تو ایسی عورت پر صبح تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں''۔

اکثر عورتیں مرد کے اس حق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے مَردوں میں جنس کا جذبہ عورتوں کی نسبت زیادہ رکھا ہے۔ اسی جنسی جذبہ کی جائز ذرائع سے تسکین اور اسے حرام ذرائع سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مردوں کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ اگر عورت مرد کی اس خواہش کا احترام نہ کرے گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اپنی اس خواہش کی تسکین کے لیے حرام ذرائع تلاش کرے گا۔ لیکن جس طرح عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے میں مرد کے ساتھ تعاون کرے اسی طرح مرد کا بھی یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ عورت کے ایامِ حمل ' مرض یا نفسیاتی دباؤ وغیرہ کو اہمیت دے 'تاکہ میاں بیوی دونوں میں محبت و الفت پیدا ہو اور ضد و عداوت ختم ہو۔ ماہرین نفسیات کا کہنا یہ ہے کہ ان معاملات میں بعض اوقات شوہروں کی طرف سے بیویوں پر سختی کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عورتیں ہمیشہ کے لیے جنسی تعلقات میں اپنی دلچسپی کھو بیٹھتی ہیں' بعد ازاں ایسا تعلق نبھانے میں انہیں نفرت محسوس ہوتی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١٩) بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنا
اگر کسی شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان عدل کرنا واجب ہے۔ عدل سے مراد یہ ہے کہ سب بیویوں کو ایک جتنا وقت' نان نفقہ اور رہائش وغیرہ دے۔ جہاں تک قلبی جذبات کا تعلق ہے تو اس میں عدل انسان کی استطاعت سے باہر ہے' اس لیے اس کا مطالبہ بھی نہیں کیا گیا۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے :
(وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْآ اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآء وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَةِ ) (النساء:١٢٩)
''اور تم اس بات کی استطاعت ہرگز نہیں رکھ سکتے کہ اپنی بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کرو چاہے تم کتنی ہی خواہش کیوں نہ کر لو۔ پس تم بالکل کسی ایک کی طرف نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو لٹکا رکھو''۔
اگر کوئی شخص اپنی ایک بیوی کا دھیان زیادہ رکھتا ہے اور دوسری کی طرف اتنی توجہ نہیں دیتا تو اس کا یہ فعل قرآن و سنت کی نظر میں حرام ہے ۔ رسول اللہۖ کا فرمان ہے:
((مَنْ کَانَتْ لَہُ امْرَأَتَانِ فَمَالَ اِلٰی اِحْدَاھُمَا جَاء یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَشِقُّہ مَائِل))(٦)
''جس کسی کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے کسی ایک کی طرف مائل ہو جائے (یعنی ان دونوں میں عدل نہ کرے) تو و ہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو مفلوج ہو گا''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢٠) ظہار کرنا
ظہار سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ بات کہے کہ تو میرے اوپر ایسے حرام ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ' یا کہے کہ تو میرے لیے میری بہن کی طرح حرام ہے۔ دورِ جاہلیت میں عربوں میں عورتوں سے ظہار کرنا ایک عام عادت تھی۔ قرآن نے اس فعل شنیع کی مذمت کی ہے اور اس کا سخت کفارہ مقرر کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَآئِہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا الِّٰٔیْ وَلَدْنَہُمْ وَاِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا) (المُجادلة:٢)
''تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں بن جاتیں' ان کی مائیں تو وہ ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے ۔اور بے شک وہ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کر رہے ہیں''۔
اگلی آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کا کفارہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(وَالَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّاط ذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ) (المُجادلة:٣'٤)
''اور جو لوگ تم میں سے اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں' پھر اپنے قول سے رجوع کر لیتے ہیں تو ان کے ذمے ایک گردن کو آزاد کرانا ہے اس سے پہلے کہ وہ دونوں (میاں بیوی) آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ۔(اے مسلمانو!) تمہیں اس چیز کی نصیحت کی جا رہی ہے۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔ پس جو اِس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے اس سے پہلے کہ وہ دونوں (میاں بیوی) ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ پس جو اِس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢١) عورت کا بغیر کسی شرعی عذر کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنا
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی میاں بیوی میں کسی چھوٹی سی بات پر اختلاف یا جھگڑا ہو جاتا ہے تو عورتیں اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کرنے لگ جاتی ہیں۔ اور اکثر اوقات طلاق کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ جھگڑے کے وقت بیوی اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور وہ اسے فوراً طلاق دے دیتا ہے' لیکن جیسے ہی اُن کا غصہ ٹھنڈا پڑتا ہے تو دونوں کو اس پر ندامت ہوتی ہے۔ احادیث میں اللہ کے رسولۖ کی ایسی عورتوں کے بارے میں سخت وعید آئی ہے جو کہ بغیر کسی شرعی عذر کے محض معمولی گھریلو یا انتظامی اختلافات کی بنیاد پر اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے :
((اَیُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَھَا طَلَاقًا مِنْ غَیْرِ بَأْسٍ فَحَرَام عَلَیْھَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ)) (٧)
''جس عورت نے بھی اپنے شوہر سے بغیر کسی وجہ (تنگی یا تکلیف) کے طلاق مانگی تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔''
لیکن اگر عورت کسی شرعی عذر کے سبب سے اپنے شوہر سے طلاق مانگتی ہے' مثلاً اس کا شوہر نماز نہیں پڑھتا' شراب نوشی کا عادی ہے' اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے' اس کے نان نفقے کی ذمہ داری نہیں اٹھاتا وغیرہ' تو یہ جائز ہے۔ ایسی صورت میں طلاق یا خلع لینے سے عورت گناہگار نہ ہو گی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢٢) عورت کا اپنے خاوند کی نافرمانی کرنا
معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے' اگر خاندان مضبوط ہو گا تو معاشرہ بھی پختہ بنیادوں پر استوار ہو گا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خاندانی نظام کے بارے میں شریعت اسلامیہ میں تفصیلی احکامات جاری فرمائے ہیں۔ مرد کو خاندان کا حاکم یا منتظم بنایا گیا ہے اور عورت کو یہ حکم ہے کہ وہ ایک ساتھی کی حیثیت سے مرد کی اس ذمہ داری میں اس کے ساتھ ممکن حد تک تعاون کرے۔ اللہ کے رسولۖ کا ارشاد ہے:
((أَیُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُھَا عَنْھَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ)) (٨)
''کوئی بھی عورت اگر اس حال میں مر گئی کہ اس کا شوہر اس سے خوش تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی''۔
جس طرح اللہ کے رسولۖ نے خاوند کی اطاعت پر جنت کی خوشخبری دی اسی طرح خاوند کی نافرمانی پر قرآن میں وعید بھی آئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلاً) (النساء:٣٤)
''اور جن عورتوں کے بارے میں تمہیں نافرمانی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں نصیحت کرو' اور (اگر نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتاتو) انہیں ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دو' اور (اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہوتو) انہیں مارو۔ پس اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگ جائیں تو اب ان پر زیادتی کی کوئی راہ تلاش نہ کرو۔''
قرآن مجید میں عورت کی نافرمانی کی صورت میں مردکو یہ حکم دیا گیاہے کہ وہ عورت کو پہلے وعظ و نصیحت سے سمجھائے' دوسرے مرحلے میں اپنا بستر اس سے الگ کرے' لیکن گھر چھوڑنے کو اللہ کے رسولۖ نے پسند نہیں فرمایا۔ اگر اس سے بھی عورت کے رویے پر کوئی مثبت اثر نہ پڑے تو اب اسے مارنے کی اجازت ہے۔ اس مارنے میں بھی دراصل عورت کی ہی بھلائی مطلوب ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مرد و عورت کے درمیان یہ رشتہ برقرار رہے چاہے اس کے لیے کسی حد تک سختی ہی کیوں نہ اختیار کرنی پڑے۔ مردوں کو بھی یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اس آیۂ مبارکہ میں مارنے کا حکم وجوب کا نہیں ہے بلکہ جواز کا ہے' یعنی مارا جا سکتا ہے۔ خود آپۖ کی سنت ہمارے سامنے ہے کہ آپۖ نے کبھی بھی اپنی زندگی میں کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ علاوہ ازیں آج کل کے ہمارے معاشرے میں عورتوں پر جو وحشیانہ تشدد کیا جاتا ہے یا انہیں زد و کوب کیا جاتا ہے اس کی کسی درجے میں بھی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ عورت کو مارنے کے حوالے سے بھی اسلام نے حدود مقرر کی ہیں' مثلاً یہ مار سخت نہ ہو' چہرے پر نہ مارا جائے وغیرہ۔ جس طرح عورت کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے خاوند کی اطاعت کرے اسی طرح خاوند کو بھی اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے :
((خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ )) (٩)
''تم میں سے سب سے اچھے وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے حق میں اچھے ہیں اور میں تم میں سے اپنے گھر والوں کے حق میں سب سے اچھا ہوں۔''
اس لیے مردوں کو بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر انہیں گھر یا خاندان کا سربراہ بنایا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے دی گئی اس ذمہ داری یا اختیار کو غلط استعمال نہ کریں' بلکہ ایسی جگہ اپنے اس اختیار کو استعمال کریں جہاں عورت کی طرف سے پیدا ہونے والے کسی شر یا فساد کی وجہ سے خاندان کا شیرازہ بکھرنے کا اندیشہ ہو۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢٣) شوہر کی ناشکری کرنا
اکثر عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات بات پر خاوند کی ناشکری کرنے لگتی ہیں۔ اگر ان کی کوئی خواہش خاوند پوری نہ کر سکے تو اس کے ماضی کے سارے احسانات کا انکار کر دیتی ہیں۔ اللہ کے رسولۖسے ایسی عورتوں کے بارے میں سخت وعید مروی ہے۔ آپۖ کا فرمان ہے:
((اُرِیْتُ النَّارَ فَاِذَا اَکْثَرُ اَھْلِھَا النِّسَاء یَکْفُرْنَ)) قِیْلَ : اَیَکْفُرْنَ بِاللّٰہِ؟ قَالَ: ((یَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ وَیَکْفُرْنَ الْاِحْسَانَ لَوْ اَحْسَنْتَ اِلٰی اِحْدَاھُنَّ الدَّھْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْکَ شَیْئًا قَالَتْ مَا رَأَیْتُ مِنْکَ خَیْرًا قَطُّ)) (١٠)
''مجھے جہنم کی آگ دکھائی گئی' میں نے دیکھا اس میں اکثر عورتیں تھیں' کیونکہ وہ ناشکری کرتی ہیں۔'' آپۖ سے کہا گیا: کیا اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپۖ نے فرمایا: ''خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور اس کے احسانات کا انکار کرتی ہیں۔ اگر تو ان (عورتوں) میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کرتا رہے 'پھر اگر کبھی تیری طرف سے اسے کوئی ناگوار چیز پہنچے تو وہ یہ کہتی ہے کہ میں نے تمہاری طرف سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔''
عورتیں چونکہ جذباتی ہوتی ہیں' اس لیے جب ناشکری کرنے پر آتی ہیں تو ہر چیز کا انکار کر دیتی ہیں۔ اس لیے عورتوں کو چاہیے کہ خاوند سے اختلاف کی صورت میں اپنی زبان کو محتاط اندازمیں استعمال کریں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top