- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
(٣٣) خرید و فروخت کے وقت دکان دار کا مال کے عیب کو چھپانا
اللہ کے رسولۖ کا کھانے (غالباً گندم) کے ایک ڈھیر پر سے گزر ہوا' آپۖ نے اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈالا تو آپۖ ' کو اندر سے وہ گیلا محسوس ہوا تو آپۖ نے فرمایا:
((مَا ھٰذَا یَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟)) قَالَ : اَصَابَتْہُ السَّمَاء یَارَسُوْلَ اللّٰہِ' قَالَ : ((اَفَلَا جَعَلْتَہ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ؟ مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ)) (١٢)
اگر کسی چیز کا عیب گاہک پر واضح کر دیا جائے تو پھر اُس کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا:
((اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ' لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ اَخِیْہِ بَیْعًا فِیْہِ عَیْب اِلاَّ بَیَّنَہ لَہ)) (١٣)
((اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا اَوْ قَالَ:حَتّٰی یَتَفَرَّقَافَاِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَھُمَا فِیْ بَیْعِھِمَا' وَاِنْ کَتَمَا وَکَذَبَا مُحِقَتْ بَرَکَةُ بَیْعِھِمَا))(١٤)
اللہ کے رسولۖ کا کھانے (غالباً گندم) کے ایک ڈھیر پر سے گزر ہوا' آپۖ نے اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈالا تو آپۖ ' کو اندر سے وہ گیلا محسوس ہوا تو آپۖ نے فرمایا:
((مَا ھٰذَا یَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟)) قَالَ : اَصَابَتْہُ السَّمَاء یَارَسُوْلَ اللّٰہِ' قَالَ : ((اَفَلَا جَعَلْتَہ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ؟ مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ)) (١٢)
آج کل ہم بازار میں دیکھتے ہیں کہ اکثر دکان دار حضرات اچھا مال دکھا کر گاہک کو گھٹیا مال پکڑا دیتے ہیں۔ مزید برآں اس حرکتِ بد پر فخر محسوس کرتے اور اپنے آپ کو تجربہ کار کہتے ہیں۔ اللہ کے رسولۖ کا ایسے دکان داروں کے بارے میں یہ فرمان ہے کہ ان کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں' یعنی ایسے دھوکے باز میری اُمت میں سے نہیں ہیں۔''اے کھانے کے مالک! یہ کیا ہے؟'' اس نے کہا :اے اللہ کے رسولۖ !اس کو بارش پہنچی تھی (اس لیے یہ اندر سے گیلا ہے) تو آپۖ نے فرمایا :''تو نے اسے کھانے کے اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھیں ؟جس نے ملاوٹ کی اُس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔''
اگر کسی چیز کا عیب گاہک پر واضح کر دیا جائے تو پھر اُس کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا:
((اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ' لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ اَخِیْہِ بَیْعًا فِیْہِ عَیْب اِلاَّ بَیَّنَہ لَہ)) (١٣)
جب تک گاہک کوئی چیز خرید کر دکان سے چلا نہ جائے اُس وقت تک دکان دار اور خریدار دونوں کے پاس یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ وہ اپنے سودے سے پھر جائیں۔ لیکن جب گاہک کوئی چیز خرید کر چلا جائے تو پھر اُس کے بعد یہ اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی اگر دوسرے فریق کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا تو اُس سودے سے برکت ختم ہو جائے گی' اگرچہ گناہ صرف اسی کو ہو گا جس نے دھوکہ دیا یا جھوٹ بولا۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کوکوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو' سوائے اس کے کہ وہ اس عیب کو اس کے لیے واضح کردے۔''
((اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا اَوْ قَالَ:حَتّٰی یَتَفَرَّقَافَاِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَھُمَا فِیْ بَیْعِھِمَا' وَاِنْ کَتَمَا وَکَذَبَا مُحِقَتْ بَرَکَةُ بَیْعِھِمَا))(١٤)
''بیچنے اور خریدنے والے کے پاس اُس وقت تک چیز کو واپس کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہو جائیں۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں گے اور عیب کو ظاہر کریں گے تو اُن کے لیے اس بیع میں برکت ڈال دی جائے گی۔ اور اگر وہ دونوں عیب کو چھپائیں گے اور جھوٹ بولیں گے تو اُن کی بیع میں برکت ختم کر دی جائے گی۔''