- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
(٤٢) اولاد کو عطیہ دینے میں اُن کے مابین عدل نہ کرنا
ہمارے ہاں بعض افراد اپنی زندگی میں ہی اپنے بعض بچوں کو تو کچھ ہدیے اور تحفے دے دیتے ہیں' جبکہ کچھ دوسروں کو اس سے محروم رکھتے ہیں۔ یہ ہدیے اکثر اوقات جائیداد کی صورت میں ہوتے ہیں' لیکن اس کے علاوہ بھی ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ جب اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو اپنی زندگی میں کوئی چیز ہبہ کریں تو اس میں عدل سے کام لیتے ہوئے باقی اولاد کو بھی شامل کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو گناہ گار ہوں گے' اور اُن کا یہ فعل ظلم شمار ہو گا۔ حضرت نعمان بن بشیرسے روایت ہے کہ ان کی والدہ بنتِ رواحہ نے ان کے والد (بشیر) سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے (یعنی نعمان بن بشیر' کو) کوئی چیز ہبہ کریں تو میرے والد نے میری والدہ کی درخواست پر مجھے کوئی چیز ہبہ کی۔ میری والدہ نے میرے والد سے کہا کہ آپ اس ہبہ پر اللہ کے رسولۖ کو گواہ بنائیں۔ حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آپۖ 'کی خدمت میں لے گئے' جبکہ میں ان دنوں ابھی بچہ تھا۔ میرے والد نے عرض کی :
یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اُمَّ ھٰذَا بِنْتَ رَوَاحَةَ اَعْجَبَھَا اَنْ اُشْھِدَکَ عَلَی الَّذِیْ وَھَبْتُ لِابْنِھَا' فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ: (( یَا بَشِیْرُ اَلَکَ وَلَد سِوَی ھٰذَا؟)) قَالَ نَعَمْ' فَقَالَ : ((اَکُلَّھُمْ وَھَبْتَ لَہ مِثْلَ ھٰذَا؟)) قَالَ لَا' قَالَ : ((فَلَا تُشْھِدْنِیْ اِذًا فَاِنِّیْ لَا اَشْھَدُ عَلٰی جَوْرٍ )) (٦)
((اَیَسُرُّکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا اِلَیْکَ فِی الْبِرِّ سَوَاء؟))قَالَ بَلٰی' قَالَ: ((فَلَا اِذًا))(٧)
ہمارے ہاں بعض افراد اپنی زندگی میں ہی اپنے بعض بچوں کو تو کچھ ہدیے اور تحفے دے دیتے ہیں' جبکہ کچھ دوسروں کو اس سے محروم رکھتے ہیں۔ یہ ہدیے اکثر اوقات جائیداد کی صورت میں ہوتے ہیں' لیکن اس کے علاوہ بھی ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ جب اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو اپنی زندگی میں کوئی چیز ہبہ کریں تو اس میں عدل سے کام لیتے ہوئے باقی اولاد کو بھی شامل کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو گناہ گار ہوں گے' اور اُن کا یہ فعل ظلم شمار ہو گا۔ حضرت نعمان بن بشیرسے روایت ہے کہ ان کی والدہ بنتِ رواحہ نے ان کے والد (بشیر) سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے (یعنی نعمان بن بشیر' کو) کوئی چیز ہبہ کریں تو میرے والد نے میری والدہ کی درخواست پر مجھے کوئی چیز ہبہ کی۔ میری والدہ نے میرے والد سے کہا کہ آپ اس ہبہ پر اللہ کے رسولۖ کو گواہ بنائیں۔ حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آپۖ 'کی خدمت میں لے گئے' جبکہ میں ان دنوں ابھی بچہ تھا۔ میرے والد نے عرض کی :
یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اُمَّ ھٰذَا بِنْتَ رَوَاحَةَ اَعْجَبَھَا اَنْ اُشْھِدَکَ عَلَی الَّذِیْ وَھَبْتُ لِابْنِھَا' فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ: (( یَا بَشِیْرُ اَلَکَ وَلَد سِوَی ھٰذَا؟)) قَالَ نَعَمْ' فَقَالَ : ((اَکُلَّھُمْ وَھَبْتَ لَہ مِثْلَ ھٰذَا؟)) قَالَ لَا' قَالَ : ((فَلَا تُشْھِدْنِیْ اِذًا فَاِنِّیْ لَا اَشْھَدُ عَلٰی جَوْرٍ )) (٦)
اللہ کے رسولۖ نے اولاد میں مال کی ایسی تقسیم سے منع فرمایا ہے تو اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ اگر والدین کسی بچے کو اپنی زندگی میں زیادہ نوازتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ جو اولاد محروم ہوگی اس کے دل میں اپنے والدین کے خلاف عداوت اور نفرت پیدا ہو گی۔ اسی لیے ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپۖ نے مذکورہ صحابی' کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:''اے اللہ کے رسول ۖ !اس بچے کی ماں بنتِ رواحہ کی خواہش ہے کہ میں نے جو چیز اس کے بیٹے کو ہبہ کی ہے اس پر آپۖ 'کو گواہ بنا لوں۔ تو اللہ کے رسولۖ نے فرمایا :''اے بشیر! کیا اس کے علاوہ بھی تیری کوئی اولاد ہے؟'' تو حضرت بشیر نے کہا : جی ہاں' تو آپۖ نے فرمایا :''کیا ان سب کو تم نے اسی طرح کی چیز ہبہ کی ہے؟'' حضرت بشیر نے کہا: نہیں ' آپۖ نے فرمایا :''تب تو تم مجھے اس واقعے پر گواہ نہ بنائو' میں ظلم پر گواہی نہیں دے سکتا۔''
((اَیَسُرُّکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا اِلَیْکَ فِی الْبِرِّ سَوَاء؟))قَالَ بَلٰی' قَالَ: ((فَلَا اِذًا))(٧)
بعض روایات میں ملتا ہے کہ حضرت بشیر نے اپنے بیٹے نعمان بن بشیر' کو ایک باغ تحفے میں دیا تھا جس پر اللہ کے رسولۖنے ان کو تلقین کی کہ یا تو ایسا باغ اپنے تمام بچوں کو دو یا پھر ا س سے بھی واپس لے لو۔''کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ وہ سب ہی تیرے ساتھ حسن سلوک کریں ؟ ''حضرت بشیر نے کہا :کیوں نہیں! تو آپۖ نے فرمایا :'' پھر ایسا نہ کر۔''