• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرمات : حرام امور جن سے بچنا ضروری ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤٢) اولاد کو عطیہ دینے میں اُن کے مابین عدل نہ کرنا
ہمارے ہاں بعض افراد اپنی زندگی میں ہی اپنے بعض بچوں کو تو کچھ ہدیے اور تحفے دے دیتے ہیں' جبکہ کچھ دوسروں کو اس سے محروم رکھتے ہیں۔ یہ ہدیے اکثر اوقات جائیداد کی صورت میں ہوتے ہیں' لیکن اس کے علاوہ بھی ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ جب اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو اپنی زندگی میں کوئی چیز ہبہ کریں تو اس میں عدل سے کام لیتے ہوئے باقی اولاد کو بھی شامل کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو گناہ گار ہوں گے' اور اُن کا یہ فعل ظلم شمار ہو گا۔ حضرت نعمان بن بشیرسے روایت ہے کہ ان کی والدہ بنتِ رواحہ نے ان کے والد (بشیر) سے مطالبہ کیا کہ وہ مجھے (یعنی نعمان بن بشیر' کو) کوئی چیز ہبہ کریں تو میرے والد نے میری والدہ کی درخواست پر مجھے کوئی چیز ہبہ کی۔ میری والدہ نے میرے والد سے کہا کہ آپ اس ہبہ پر اللہ کے رسولۖ کو گواہ بنائیں۔ حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آپۖ 'کی خدمت میں لے گئے' جبکہ میں ان دنوں ابھی بچہ تھا۔ میرے والد نے عرض کی :
یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اُمَّ ھٰذَا بِنْتَ رَوَاحَةَ اَعْجَبَھَا اَنْ اُشْھِدَکَ عَلَی الَّذِیْ وَھَبْتُ لِابْنِھَا' فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ: (( یَا بَشِیْرُ اَلَکَ وَلَد سِوَی ھٰذَا؟)) قَالَ نَعَمْ' فَقَالَ : ((اَکُلَّھُمْ وَھَبْتَ لَہ مِثْلَ ھٰذَا؟)) قَالَ لَا' قَالَ : ((فَلَا تُشْھِدْنِیْ اِذًا فَاِنِّیْ لَا اَشْھَدُ عَلٰی جَوْرٍ )) (٦)
''اے اللہ کے رسول ۖ !اس بچے کی ماں بنتِ رواحہ کی خواہش ہے کہ میں نے جو چیز اس کے بیٹے کو ہبہ کی ہے اس پر آپۖ 'کو گواہ بنا لوں۔ تو اللہ کے رسولۖ نے فرمایا :''اے بشیر! کیا اس کے علاوہ بھی تیری کوئی اولاد ہے؟'' تو حضرت بشیر نے کہا : جی ہاں' تو آپۖ نے فرمایا :''کیا ان سب کو تم نے اسی طرح کی چیز ہبہ کی ہے؟'' حضرت بشیر نے کہا: نہیں ' آپۖ نے فرمایا :''تب تو تم مجھے اس واقعے پر گواہ نہ بنائو' میں ظلم پر گواہی نہیں دے سکتا۔''
اللہ کے رسولۖ نے اولاد میں مال کی ایسی تقسیم سے منع فرمایا ہے تو اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ اگر والدین کسی بچے کو اپنی زندگی میں زیادہ نوازتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ جو اولاد محروم ہوگی اس کے دل میں اپنے والدین کے خلاف عداوت اور نفرت پیدا ہو گی۔ اسی لیے ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپۖ نے مذکورہ صحابی' کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
((اَیَسُرُّکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا اِلَیْکَ فِی الْبِرِّ سَوَاء؟))قَالَ بَلٰی' قَالَ: ((فَلَا اِذًا))(٧)
''کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ وہ سب ہی تیرے ساتھ حسن سلوک کریں ؟ ''حضرت بشیر نے کہا :کیوں نہیں! تو آپۖ نے فرمایا :'' پھر ایسا نہ کر۔''
بعض روایات میں ملتا ہے کہ حضرت بشیر نے اپنے بیٹے نعمان بن بشیر' کو ایک باغ تحفے میں دیا تھا جس پر اللہ کے رسولۖنے ان کو تلقین کی کہ یا تو ایسا باغ اپنے تمام بچوں کو دو یا پھر ا س سے بھی واپس لے لو۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤٣) لوگوں سے بغیر کسی ضرورت کے مال طلب کرنا
سوال کرنا اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے' خصوصاً جب انسان کو کوئی ضرورت بھی درپیش نہ ہو۔ لوگوں سے بلا ضرورت سوال کرنا حرام ہے۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((مَنْ سَأَلَ وَعِنْدَہ مَا یُغْنِیْہِ فَاِنَّمَا یَسْتَکْثِرُ مِنَ النَّارِ اَوْ قَالَ : مِنْ جَمْرِ جَھَنَّمَ)) فَقَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا یُغْنِیْہِ؟ اَوْ قَالُوْا: وَمَا الْغِنَی الَّذِیْ لَا تَنْبَغِیْ مَعَہُ الْمَسْأَلَةُ؟ قَالَ : ((قَدْرُ مَا یُغَدِّیْہِ وَیُغَشِّیْہِ اَوْ قَالَ : اَنْ یَکُوْنَ لَہُ شِبْعُ یَوْمٍ وَّلَیْلَةٍ اَوْ لَیْلَةٍ وَیَوْمٍ )) (٨)
''جس نے اس حال میں سوال کیا کہ وہ غنی ہے تو ایسا شخص (اپنے سوال سے) صرف آگ یا فرمایا: جہنم کے انگارے اکٹھے کر رہا ہے ۔ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسولۖ ! ایسا غنی کہ جس کے لیے سوال کرنا جائز نہیں ہے' اس کی کیا تعریف ہے؟ آپۖ نے فرمایا:'' جس کے پاس کھانے کے لیے خوراک اور تن ڈھانپنے کے لیے کپڑوں کے بقدر یا فرمایا: ایک دن اور ایک رات کے لیے پیٹ بھر کر کھانے کو موجود ہو (تو وہ غنی ہے اور اس کے لیے سوال کرنا جائز نہیں ہے)''۔
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی جس دن کے کھانے کی ضرورت پوری ہو رہی ہو اُس دن اس کے لیے سوال کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں جب یہ ختم ہو جائے یا اس کے پاس اتنا نہ ہوجو ایک دن کے لیے کفایت کرتا ہو تو پھر اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے۔
رسول اللہۖ کا مزید ارشاد ہے :
((مَنْ سَأَلَ النَّاسَ اَمْوَالَھُمْ تَکَثُّرًا فَاِنَّمَا یَسْأَلُ جَمْرًا فَلْیَسْتَقِلَّ اَوْ لِیَسْتَکْثِرْ)) (٩)
''جس نے لوگوں سے ان کے مالوں کا سوال کیا تاکہ اپنا مال بڑھا سکے تو وہ (ان سے) انگارے مانگ رہا ہے 'پس چاہے تو زیادہ مانگ لے یا چاہے تو کم مانگ لے''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤٤) قرض لے کر واپس نہ کرنا
حقوق اللہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ توبہ واستغفار سے معاف کر دیتے ہیں' لیکن حقوق العباد کی معافی کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس بندے کا حق مارا ہے اُس کی تلافی کی جائے یا اس سے معافی طلب کی جائے۔ حقوق العباد سے متعلقہ کوتاہیوں میں سے ایک کوتاہی جو ہمارے ہاں عام طور پر پائی جاتی ہے' وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ کسی سے قرض لیتے ہیں اور پھر اسے واپس نہیں کرتے۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((مَنْ اَخَذَ اَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ اَدَائَ'ھَا اَدَّی اللّٰہُ عَنْہُ وَمَنْ اَخَذَ یُرِیْدُ اِتْلَافَھَا اَتْلَفَہُ اللّٰہُ )) (١٠)
''جس نے لوگوں کا مال (بطورِ قرض) حاصل کیا اور وہ اس کو واپس کرنے کا ارادہ رکھتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادائیگی کا سامان پیدا فرمادیں گے۔ اور جس نے لوگوں کا مال حاصل کر کے اسے ضائع کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے شخص کو ضائع کر دے گا''۔
شہید کا ہمارے دین میں بہت بڑا مقام ہے ۔ مقبول شہادت سے انسان کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں' لیکن قرض پھر بھی معاف نہیں ہوتا۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَوْ اَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیِیَ ثُمَّ قُتِلَ ثُمَّ اُحْیِیَ ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَیْہِ دَیْن مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتّٰی یُقْضٰی عَنْہُ دَیْنُہ)) (١١)
''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر کوئی آدمی اللہ کی راہ میں شہید ہو جائے پھر زندہ کیا جائے' پھر شہید ہو جائے پھر زندہ کیا جائے' پھر شہید ہو جائے اور اُس کے ذمہ قرض ہو تو وہ اُس وقت تک جنت میں داخل نہ ہو گا جب تک کہ اس کی طرف سے قرض ادا نہ کر دیا جائے''۔
اللہ کے رسولۖ ایسے شخص کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جس کے بارے میں آپۖ' کو معلوم ہو جاتا کہ یہ شخص مقروض تھا اور اس کا قرض ابھی تک ادا نہیں ہوا۔ حضرت سلمہ ابن اَکوع سے روایت ہے' وہ فرماتے ہیں:
اَنَّ النَّبِیَّۖ اُتِیَ بِجَنَازَةٍ لِیُصَلِّیَ عَلَیْھَا فَقَالَ: ((ھَلْ عَلَیْہِ مِنْ دَیْنٍ؟)) قَالُوْا لَا فَصَلّٰی عَلَیْہِ' ثُمَّ اُتِیَ بِجَنَازَةٍ اُخْرٰی فَقَالَ: ((ھَلْ عَلَیْہِ مِنْ دَیْنٍ؟)) قَالُوْا نَعَمْ' قَالَ: ((صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ)) قَالَ اَبُوْ قَتَادَةَ: عَلَیَّ دَیْنُہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَصَلّٰی عَلَیْہِ (١٢)
''نبی اکرمۖ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپۖ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ آپۖ نے سوال کیا :''کیا اس (میت) کے ذمے کچھ قرض ہے ؟ '' صحابہ نے عرض کیا: نہیں' تو آپۖ نے اس شخص کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ (آپۖ کے پاس) لایا گیا تو آپۖ نے دریافت کیا : ''کیا اس پر کوئی قرض ہے ؟'' صحابہ نے کہا : جی ہاں۔ آپۖ نے فرمایا: ''تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھاوںگا) ''۔ حضرت ابوقتادہ نے کہا :اے اللہ کے رسولۖ !اس (میت) کا قرض میرے ذمے ہے 'تو پھر آپۖ نے اس (میت) کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔''
اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے کتنی وعید ہے جو اس حال میں مر جاتے ہیں کہ ان کے ذمے لوگوں کا قرض باقی ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ انتہائی ضرورت کے وقت قرض لیں اور لیتے وقت یہ نیت ہو کہ اس کو ادا کریں گے' اور جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش بھی کریں۔ جس شخص سے قرض لیا گیا ہو اگر اس کی وفات ہو جائے تو پھر اس کے ورثاء کو قرض کی رقم ادا کرنی چاہیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤٥) حرام کھانا
اکثر افراد کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں ا س بات کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی کہ انہوں نے مال کہاں سے کمایا ہے' کن ذرائع سے حاصل کیا ہے' بلکہ ان کی اصل خواہش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کیا جائے' چاہے وہ مال چوری کا ہو' یا رشوت کا ہو' یا کسی کا حق مار کر حاصل کیا گیا ہو' یا سود سے حاصل ہو' یا یتیم کا مال ہو' یا زکوٰة کی رقم ہویا جھوٹ' فریب اور دھوکے سے حاصل کیا گیا ہو' وغیرہ۔ حالانکہ اللہ کے رسولۖ کا ارشاد ہے:
((اِنَّہ لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ لَحْم نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ)) (١٣)
''وہ جسم جنت میں ہرگز داخل نہ ہو گا جو کہ حرام کمائی سے پروان چڑھا ہو ۔''
جس شخص کی کمائی حرام کی ہو اُس کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہۖ نے ایک مرتبہ صحابہ کرام j کے درمیان ایک ایسے شخص کا نقشہ کھینچا جو کہ لمبا سفر کر کے بیت اللہ کی زیارت کے لیے آیا۔ اس کے سر کے بال گرد و غبار سے اَٹے ہوئے تھے اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا :
((… یَارَبِّ یَارَبِّ وَمَطْعَمُہ حَرَام وَمَشْرَبُہ حَرَام وَمَلْبَسُہ حَرَام وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ)) (١٤)
''…اے میرے ربّ! اے میرے ربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے 'اس کا پینا حرام کاہے 'اس کا لباس حرام کا ہے اور حرام مال اس کی غذا ہے تو اس کی دعا کہاں سے قبول کی جائے!''
بیت اللہ جیسے بابرکت مقام میں اور حج جیسے عظیم موقع پر ایک شخص خانہ کعبہ کے پردے پکڑ پکڑ کر ہی کیوں نہ دعا کرے اس کی دعا اُس وقت تک قبول نہ ہو گی جب تک کہ اس کا رزق حلال نہ ہو گا۔ آج کل ہماری دعائوں کے قبول نہ ہونے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ رزقِ حلال کا نہ ہونا بھی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤٦) شراب پینا
شراب میں آخرت کی سزا کے ساتھ ساتھ دنیا کا نقصان اور رسوائی بھی شامل ہے۔ شراب نوشی کی کثرت انسانی عقل کو زائل کر دیتی ہے اور انسان قتل و غارت اور زنا جیسے قبیح جرائم تک کا ارتکاب کرنے لگ جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْس مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ) (المائدة)
''یقینا شراب اور جوا اور آستانے اور فال کے تیر گندگی ہیں اور شیطانی اعمال ہیں' پس ان سے بچو تاکہ تم فلاح پا سکو۔''
آئے روز شراب کی نئی نئی قسمیں بازاروں میں آتی رہتی ہیں اور لوگ شراب کا بس نام بدل کر شراب نوشی کر رہے ہیں۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے :
((یَشْرَبُ نَاس مِّنْ اُمَّتِی الْخَمْرَ یُسَمُّوْنَھَا بِغَیْرِ اسْمِھَا)) (١٥)
''میری اُمت میں سے کچھ لوگ شراب کو پئیں گے (اس طرح کہ) وہ اس کا نام تبدیل کر دیں گے''۔

بعض گمراہ کن افکار رکھنے والے دانشور یہ نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں کہ شراب اُس وقت حرام ہوتی ہے جبکہ اس کے پینے سے نشہ پیدا ہو' اور اگر اس سے نشہ پیدا نہ ہو تو یہ حلال ہے۔
یہ نقطۂ نظر صریح احادیث کے خلاف ہے۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((مَا اَسْکَرَ کَثِیْرُہ فَقَلِیْلُہ حَرَام )) (١٦)
''جس کی کثیر مقدار نشہ دے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔''
یعنی اگر شراب کی تھوڑی سی مقدار سے نشہ نہ بھی پیدا ہو یہ پھر بھی حرام ہے' کیونکہ اس کی کثیر مقدار سے نشہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہۖ نے شراب کی طرح اس سے ملتی جلتی اشیاء جن میں نشہ پایا جاتا ہے مثلاً ہیروئن' چرس' بھنگ اور افیون وغیرہ کو بھی حرام قرار دیا ہے۔رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْر وَکُلُّ مُسْکِرٍ حَرَام)) (١٧)
''ہر نشہ دینے والی چیز شراب ہے اور ہر نشہ دینے والی چیز حرام ہے''۔
شراب نوشی کی آخرت کی سزا کے علاوہ دنیا میں بھی اس کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ جمہور فقہاء کے نزدیک شراب نوشی کی حد اسّی (٨٠) کوڑے ہے' جبکہ بعض فقہاء کے نزدیک اس کی حد چالیس (٤٠) کوڑے ہے۔ بہرحال کوڑوں کی تعداد چاہے کچھ بھی ہو' اصل مقصود شراب پینے والے کی دنیا میں ذلت و رسوائی ہے' تا کہ دوسرے لوگ اس سے عبرت پکڑ کر اس قبیح فعل سے اجتناب کریں۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے :
((مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ وَسَکِرَ لَمْ تُقْبَلْ لَہ صَلَاة اَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا' فَاِنْ مَاتَ دَخَلَ النَّارَ' فَاِنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ)) (١٨)
''جس نے شراب پی اور نشے میں آ گیا تو چالیس روز تک اس کی کوئی نماز قبول نہ ہو گی' اور اگر وہ مر گیا تو جہنم میں داخل ہو گا' البتہ اگر اس نے توبہ کر لی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤٧) سونے اور چاندی کے برتنوں کا استعمال
سونے اور چاندی کے برتنوں کو استعمال کرنے اور ان میں کھانے پینے سے اللہ کے رسولۖ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ آپۖ کا ارشاد ہے :
((مَنْ شَرِبَ فِیْ اِنَائٍ مِّنْ ذَھَبٍ اَوْ فِضَّةٍ فَاِنَّمَا یُجَرْجِرُ فِیْ بَطْنِہ نَارًا مِنْ جَھَنَّمَ)) (١٩)
''جس نے سونے یا چاندی کے برتن میں پیا تو دراصل وہ شخص اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہا ہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤٨) جھوٹی گواہی دینا
اللہ تعالیٰ نے جھوٹی گواہی دینے سے منع کیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ) (الحج)
''پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی شہادت سے بچو۔''
اللہ کے رسولۖ نے جھوٹی شہادت کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرة سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہۖ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپۖ نے فرمایا:
((اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِاَکْبَرِ الْکَبَائِرِ؟)) (ثَلَاثًا) قَالُوْا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ' قَالَ: ((اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ)) وَجَلَسَ وَکَانَ مُتَّکِئًا' فَقَالَ : ((اَلَا وَقَوْلُ الزُّوْرِ)) قَالَ فَمَا زَالَ یُکَرِّرُھَا حَتّٰی قُلْنَا لَیْتَہ سَکَتَ (٢٠)
''کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟'' آپۖ نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی۔ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسولۖ ! آپۖ نے فرمایا: ''وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے ''۔ آپۖ ' تکیہ لگائے بیٹھے تھے کہ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: '' آگاہ رہو! اور جھوٹی گواہی بھی (ان میں شامل ہے) ''۔ راوی کہتے ہیں کہ آپۖ بار بار یہ الفاظ دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم یہ خواہش کرنے لگے کہ آپۖ خاموش ہو جائیں۔''
اللہ کے رسول ۖ کی اس حدیث کو دیکھیں اور اپنے عدالتی نظام پر غور کریں تو بہت دکھ ہوتا ہے کہ کس طرح فریقین ایک دوسرے پر جھوٹے مقدمے بنانے کے لیے جھوٹی شہادتیں لے کر آتے ہیں۔
جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام ہے اسی طرح سچی گواہی کو چھپانا بھی گناہ ِکبیرہ ہے ۔ قرآن نے گواہی کو چھپانے سے منع کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَلَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَةَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہ اٰثِم قَلْبُہ) (البقرة:٢٨٣)
''اور گواہی کو مت چھپاو ۔ اور جو گواہی کو چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہو گا۔''
اگر ہمیں کہیں گواہی دینی پڑ جائے تو صرف اس بات کی گواہی دیں جو کہ ہمارے علم میں ہو' جیسا کہ حضرت یوسف علیہ ا لسلام کے بھائیوں نے کہا تھا :
(وَمَا شَھِدْنَا اِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا) (یوسف:٨١)
''ہم تو صرف اس بات کی گواہی دیتے ہیں جو ہمارے علم میں ہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
١) صحیح البخاری' کتاب الأدب' باب قول اللّٰہ تعالیٰ : (مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّکُنْ لَّہ نَصِیْب)۔
٢) صحیح مسلم' کتاب السلام' باب استحباب الرقیة من العین والنملة والحمة والنظرة۔
٣) سنن ابی داود' کتاب البیوع' باب فی الھدیة لقضاء الحاجة۔
٤) سنن ابن ماجہ' کتاب الأحکام' باب أجر الأجراء۔
٥) صحیح البخاری' کتاب البیوع' باب اثم من باع حرّا۔
٦) صحیح مسلم' کتاب الھبات' باب کراھة تفضیل بعض الاولاد فی الھبة۔
٧) صحیح مسلم' کتاب الھبات' باب کراھة تفضیل بعض الاولاد فی الھبة۔
٨) سنن ابی داود' کتاب الزکاة' باب من یعطی من الصدقة وحد الغنی۔
٩) صحیح مسلم' کتاب الزکاة' باب کراھة المسألة للناس۔
١٠) صحیح البخاری' کتاب فی الاستقراض وأداء الدیون والحجر والتفلیس' باب من أخذ اموال الناس یرید اداء ھا او اتلافھا۔
١١) سنن النسائی' کتاب البیوع' باب التغلیظ فی الدین۔
١٢) صحیح البخاری' کتاب الحوالات ' باب من تکفل عن میت دینا فلیس لہ ان یرجع۔
١٣) سنن الدارمی' کتاب الرقاق' باب فی أکل السحت۔
١٤) صحیح مسلم' کتاب الزکاة' باب قبول الصدقة من الکسب الطیب و تربیتھا۔
١٥) سنن النسائی' کتاب الأشربة' باب منزلة الخمر۔
١٦) سنن الترمذی' کتاب الأشربة عن رسول اللہۖ' باب ما جاء ما أسکر کثیرہ فقلیلہ حرام۔
١٧) صحیح مسلم' کتاب الأشربة' باب بیان ان کل مسکر خمر وان کل خمر حرام۔
١٨) سنن ابن ماجہ' کتاب الأشربة' باب من شرب الخمر لم تقبل لہ صلاة۔
١٩) صحیح مسلم' کتاب اللباس والزینة' باب تحریم استعمال اوانی الذھب والفضة
فی الشرب۔
٢٠) صحیح البخاری' کتاب الشھادات' باب ما قیل فی شھادة الزور۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤٩) غیبت کرنا
ہمارے ہاں غیبت کو بہت ہلکا گناہ سمجھا جاتا ہے اور اچھے خاصے دین دار حضرات بھی اس بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں' خصوصاً عورتوں میں تو یہ خرابی بہت عام ہے' حالانکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ) (الحُجُرٰت:١٢)
''اور تم ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس اسے تو تم ناپسند کرتے ہو۔''
کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرنے کو کسی میت کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے' کیونکہ میت جس طرح اپنے دفاع پر قادر نہیں ہوتی' آپ اس کے جسم کی بوٹیاں جس طرح چاہیں نوچ لیں' اسی طرح کا معاملہ اس مسلمان بھائی کا بھی ہوتا ہے جو مجلس میں حاضر نہیں ہے' اورآپ اس کی عزت پر جس طرح چاہیں حملہ کریں' وہ اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتا۔ رسول اللہۖنے غیبت کی وضاحت کرتے ہوئے ایک دفعہ صحابہ سے سوال کیا:
((أَتَدْرُوْنَ مَا الْغِیْبَةُ؟)) قَالُوا: اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَمُ ' قَالَ : ((ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ)) قِیْلَ : اَفَرَاَیْتَ اِنْ کَانَ فِیْ اَخِیْ مَا اَقُوْلُ؟ قَالَ : ((اِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَہ وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْہِ فَقَدْ بَھَتَّہ)) (١)
''کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ تو صحابہ نے کہا :اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپۖ نے فرمایا: تو اپنے بھائی کا ذکر ایسے الفاظ کے ساتھ کرے کہ جو اسے ناپسند ہوں۔ آپۖ سے کہا گیا :اگر جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ (برائی) میرے بھائی میں موجود بھی ہو (تو کیا پھر بھی غیبت ہو گی)؟ تو آپۖ نے فرمایا :اگر وہ (برائی) جس کا تو تذکرہ کر رہا ہے تیرے بھائی میں ہے تو پھر تویہ غیبت ہے اور اگر اس میں موجود نہیں ہے تو پھر تو نے اس پر بہتان لگایا۔''
اگر کسی مجلس میں کسی مسلمان بھائی کی غیبت ہو رہی ہو تو دوسروں کو چاہیے کہ وہ ان کو اس منکر سے روکیں۔کسی مسلمان بھائی کی طرف سے دفاع کرنا بہت ہی اجر و ثواب کا باعث ہے' کیونکہ اکثر اوقات غیبت کی وجوہات میں سے بڑی وجہ غلط فہمی ہوتی ہے۔ جب آپ کسی مسلمان بھائی کے بارے میں غلط فہمی یا سوئے ظن کا شکار ہو جاتے ہیں تو اس کی برائی بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لیے مسلمان بھائیوں کے درمیان غلط فہمیوں کو ختم کرنا اور سوئے ظن کا ازالہ کرنا آخرت میں اجر و ثواب کا باعث ہے۔ رسول اللہۖکا ارشاد ہے:
((مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ اَخِیْہِ رَدَّ اللّٰہُ عَنْ وَجْھِہِ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ)) (٢)
''جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو آگ سے محفوظ فرمائے گا۔''
غیبت کس قدر قبیح فعل ہے اس کا اندازہ رسول اللہۖ کی ایک روایت سے ہوتا ہے ۔ آپۖ' کا ارشاد ہے:
((اَلرِّبَا اثْنَانِ وَسَبْعُوْنَ بَابًا اَدْنَاھَا مِثْلَ اِتْیَانِ الرَّجُلِ اُمَّہ وَاِنَّ اَرْبَی الرِّبَا اسْتِطَالَةُ الرَّجُلِ فِیْ عِرْضِ اَخِیْہِ)) (٣)
''سود کے بہتر درجات ہیں' ان میں سب سے کم تر درجہ ایسے ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے' اور اس کا بڑا درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت پر دست درازی کرے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥٠) چغل خوری
چغل خوری کا مطلب ہے ایک شخص کی گفتگو دوسرے کے پاس جا کر نقل کرنا' تا کہ دونوں میں قطع تعلقی یا لڑائی جھگڑا پیدا ہو۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا:
((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّات)) (٤)
''چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔''
عام طو رپر چغل خوری میاں بیوی کے درمیان تعلقات خراب کرنے کے لیے ہوتی ہے' یا پھر دفتر میں بعض ملازمین اپنے ساتھیوں کی شکایات آفیسرز کو جا کر لگاتے ہیں تا کہ آفیسرز ان سے ناراض ہوں اور ان کو نوکری سے برخاست کر دیں۔ یہ بھی چغل خوری ہی ہے۔ البتہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی ملازم کام چور ہے اور محکمے یا ادارے کا نقصان کر رہا ہے اور آپ کی طرف سے اصلاح کی کوشش کے باوجود وہ اپنی روش پر قائم ہے اور آپ اپنے محکمے یا ادارے کو نقصان سے بچانے کے لیے اس ملازم کی شکایت افسران بالا تک پہنچاتے ہیں تو یہ چغل خوری نہیں ہے۔ چغل خوری وہ ہوتی ہے کہ جس میں اصل مقصد کسی فرد یا ادارے کی بھلائی نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کے درمیان قطع تعلقی اور زمین پر فساد پھیلانا ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہۖ مدینے کے ایک باغ کے پاس سے گزرے تو آپۖ نے دو انسانوں کی آواز سنی جن کو قبر میں عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپۖ نے فرمایا:
((یُعَذَّبَانِ' وَمَا یُعَذَّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ)) ثُمَّ قَالَ : ((بَلٰی کَانَ اَحَدُھُمَا لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِہ وَکَانَ الْآخَرُ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَةِ)) (٥)
''ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور ان کو عذاب کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا'' ۔ پھر آپۖ نے فرمایا : ''کیوں نہیں' ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب (کے چھینٹوں) سے نہیں بچتا تھا جبکہ دوسرا چغل خور تھا۔''
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top