• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مثال چہارم:
ریویو بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۲ء میں قول مرزایوں مسطور ہے:
'' اب تک میرے ہاتھ پر ایک لاکھ کے قریب انسان بدی سے توبہ کرچکے ہیں۔'' (۸۳۱)
اس تحریر کے تین سال پانچ ماہ گیارہ دن بعد لکھتے ہیں:
'' میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے معاصی سے توبہ کی۔'' (۸۳۲)
کس قدر مبالغہ ہے کہ ستمبر ۱۹۰۲ء سے مارچ ۱۹۰۶ء تک تین لاکھ انسانوں نے بیعت کی۔ یعنی مرزا صاحب متواتر ساڑھے تین سال صبح ۶ بجے سے شام ۶ بجے تک ہر روز لگاتار بیعت ہی لیتے رہے تھے جس کا حساب یوں لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ہر ماہ میں ۷۱۴۳ یا ہر دن میں ۲۳۸ یا فی گھنٹہ ۱۹ یا ہر تین منٹ کے عرصہ میں دس شرائط بیعت سنا کر اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ لے کر ایک مرید پھانستے رہے۔
مثال پنجم:
مرزا صاحب اپنے مرنے سے قریباً ساڑھے چار سال پہلے فرماتے ہیں:
'' میں وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ پر صدہا نشان ظاہر ہوئے۔'' (۸۳۳)
مگر مرزا صاحب کی کتنی بڑی کرامت ہے کہ اس کے بعد انہوں نے دو تین منٹ کے اندر ہی اسی کتاب کے اسی صفحہ میں صرف دو سطر بعد '' صدہا نشان'' کو '' دو لاکھ'' بنا ڈالا آگے چل کر صفحہ ۴۱ پر جو مشین مبالغہ کے کل پرزوں کو حرکت دی تو بیک جنبش قلم ''دس لاکھ'' تک نوبت پہنچا دی۔ (۸۳۴)
--------------------------------------------------------
(۸۳۱) ریویو ص۲۴۰، ج۲ والحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء و ملفوظات مرزا ص۳۰۵، ج۲
(۸۳۲) تجلیات الٰہیہ ص۵ و روحانی ص۳۹۷،ج۲۰ مرقومہ ۱۵؍ مارچ ۱۹۰۶ء قلت مرزا جی نے مذکورہ کتاب ۹ مارچ ۱۹۰۶ء میں تحریر کی تھی اور ا س کی پہلی بار اشاعت ۱۹۲۲ء میں ہوئی۔ ابو صہیب
(۸۳۳) تذکرۃ الشھادتین ص۳۴ و روحانی ص۳۶، ج۲۰
(۸۳۴) ایضًا ص۴۱ و روحانی ص۴۳،ج۲۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دلائل مرزائیہ کا جواب
دلیل نمبر ۱ پاکیزہ زندگی
اعتراض :
قرآن مجید میں ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (سورۂ یونس:۲ع) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے لوگو! میں تم میں ایک عرصہ تک زندگی گزار چکا ہوں۔ کیا تم نہیں سوچتے۔ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاکیزہ زندگی کو اپنی نبوت کی دلیل قرار دیا ہے ایسا ہی مرزا صاحب کا حال ہے۔ کوئی شخص آپ کی پہلی زندگی میں عیب نہیں نکال سکتا بلکہ آپ کے اشد ترین مخالفوں کی شہادت موجود ہے کہ آپ بڑے پاک تھے چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ کو اعتراف پر ہے۔ (۸۳۵)
الجواب:
(۱) بلاشبہ انبیاء کرام کی پہلی کیا ساری زندگی پاک ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کیا پاکیزہ زندگی کو دلیل نبوت قرار دیا ہے؟ نہیں۔ کیونکہ دنیا میں ہزارہا ایسے اشخاص ملیں گے جن کی زندگی عیوب سے خالی ہے پھر کیا وہ بھی نبی مانے جائیں؟
نبی اپنی زندگی کو کئی حیثیتوں میں پیش کرسکتا ہے اول یہ کہ میں امیر ابن امیر ہوں اور تم بخوبی جانتے ہو پھر کیا میں نے کسی لالچ کی بنا پر دعویٰ نبوت کیا ہے؟
ظاہر ہے کہ اس جگہ یہ حیثیت مقصود نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک یتیم بیکس اور غریب تھے۔
دوم یہ کہ نبی کے مخالف اس کو مجنوں وغیرہ قرار دیں (جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہا گیا) اور اس کے جواب میں نبی خدا انہیں متوجہ کرے کہ میں تو تم میں کافی عمر گزار چکا ہوں اور تمہیں علم ہے کہ میں صحیح الدماغ ہوں پھر کیا تم نہیں سوچتے۔
مرزائی صاحبان کو مسلم ہے کہ اس جگہ یہ حیثیت بھی مراد نہیں۔
تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ میں نے آج تک اقرار نہیں کیا پھر اب کیسے کرسکتا ہوں۔ یہ صورت بھی غیر معقول ہے کیونکہ کسی شخص کا چالیس سالہ عمر کے بعد مفتری ہو جانا محال نہیں ممکن ہے اور یوں بھی یہ غیر معقول ہے کیونکہ محض پاکیزہ زندگی دلیل نبوت نہیں ہوسکتی۔ چناچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
(ا) '' پاک ناپاک ہونا بہت کچھ دل سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا حال سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں۔ پس پاک وہ ہے جس کے پاک ہونے پر خدا گواہی دے۔'' (۸۳۶)
(ب) '' ایک ظاہری راستباز کے لیے صرف یہ دعویٰ کافی نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام پر چلتا ہے بلکہ اس کے لیے ایک امتیازی نشان چاہیے جو اس کی راستبازی پر گواہ ہو۔ کیونکہ ایسا دعویٰ تو قریباً ہر ایک کرسکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اور اس کا دامن تمام اقسام کے فسق و فجور سے پاک ہے مگر ایسے دعویٰ پر تسلی کیوں کر ہو کہ فی الحقیقت ایسا ہی امر واقع ہے اگر کسی میں ماوہ سخاوت ہے تو ناموری کی غرض سے بھی ہوسکتا ہے اگر کوئی عابد زاہد ہے تو ریا کاری بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے اگر فسق و فجور سے بچ گیا تو تہی دستی بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ محض لوگوں کے لعن طعن خوف سے کوئی پارسا بن بیٹھے اور عظمت الٰہی کا کچھ بھی اس کے دل پر اثر نہ ہو پس ظاہر ہے کہ عمدہ چال چلن اگر ہو بھی تاہم حقیقی پاکیزگی پر کامل ثبوت نہیں ہوسکتا شاید در پردہ کوئی اور اعمال ہوں۔ الخ''(۸۳۷)
تحریرات مرقومہ بالا شاہد ہیں کہ پاک ہونا دلیل صداقت نہیں ہوسکتا پس قرآن کی یہ منشا بھی نہیں۔
اب صرف ایک ہی صورت باقی ہے جس کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ آیت زیر غور کا سیاق و سباق شاہد ہے کہ کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اس قرآن کو بدل دو یا اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ جس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بھلے لوگو! غور تو کرو کہ میں ایک آئی اَن پڑھ ناخواندہ محض انسان ہوں اور تم بخوبی جانتے ہو کیونکہ میں عرصہ تک تم میں رہ چکا ہوں پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے یہ مجھ اَن پڑھ کی کتاب ہی نہیں ہوسکتی تو میں اسے بدل کیسے سکتا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اَن پڑھ ہونا جملہ مخالفین کو مسلم ہے خود مرزا صاحب کو بھی۔ (۸۳۸)
'' حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اچھا جرنیل نبی ہوتا ہے؟ تو میں کہوں گا یہ ضروری نہیں لیکن کامل نبی کے لیے اچھا جرنیل ہونا ضروری ہے اسی طرح اعلیٰ درجہ کا قاضی ضروری نہیں نبی ہو کافر بھی اچھے جج ہوتے ہیں۔ تو ہر اچھا قاضی بیشک نبی نہیں ہوسکتا۔ لیکن نبی کے لیے اچھا قاضی ہونا ضروری ہے۔'' (قول میاں محمود احمد خلیفہ قادیان) (۸۳۹)
ٹھیک اسی طرح ہم مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ ہر نبی بیشک پاک ہوتا ہے مگر ہر ایک پاک شخص نبی نہیں ہوتا۔ پس بفرضِ محال مرزا صاحب پاک بھی ہوں تاہم ان کی پاکیزگی نبوت کی دلیل نہیں بن سکتی۔
باقی رہا مولانا محمد حسین بٹالویؒ اور مولانا ثناء اللہ صاحب کا مرزا پر ابتداء حسن ظن رکھنا۔ سو گزارش ہے کہ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے سید المرسلین کو بغیر وحی الٰہی کے معلوم نہ ہوسکا کہ ہمارے اردگرد منافق بہ شکل مومنین منڈلاتے پھرتے میں وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَردُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ (۸۴۰)الایہ اور اہل مدینہ سے کئی منافق ہیں جنہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ نہیں جانتے ہم جانتے ہیں تو اس کے مقابل مذکورہ بزرگوں کا مرزا صاحب کی ظاہری شکل پر دھوکہ کھا جانا کون سی بڑی بات ہے۔
--------------------------------------------------------------------------------------
(۸۳۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۶۲ وضمیمہ تفہیمات ربانیہ ص۴۰
(۸۳۶) بدر جلد ۷ نمبر۹ مورخہ ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء ص۲ والحکم جلد ۱۲ نمبر۱۷ مورخہ ۶؍ مارچ ۱۹۰۸ ص۵ و ملفوظات مرزا ص۴۴۷،ج۵
(۸۳۷) براھین احمدیہ ص۴۸،ج۵ وروحانی ص۶۲،ج۲۱
(۸۳۸) ایضًا ص۴۷۸ تا ۴۸۱، ج۴ و روحانی ص۵۶۹ تا ۵۷۲، ج۱ وچشمہ معرفت ص۲۵۳ تا ۲۵۴ و روحانی ص۲۶۵،ج۲۳ و تفسیر مرزا ص۴۲۸، ج۶
(۸۳۹) الفضل مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء ص۷
(۸۴۰) پ۱۱ التوبہ آیت : ۱۰۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
الغرض نصرۃ الحق کی تحریر سے یہ عبارت النص ثابت ہے کہ پاک زندگی نبوت و صداقت کی دلیل نہیں بلکہ دلیل صداقت معجزات و آسمانی نشان ہیں۔ اس کی مزید تائید قول ذیل سے ہوتی ہے:
'' سو عزیزو! یقینا سمجھو کہ صادق کی صداقت ظاہر کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کے قدیم قانون میں ایک ہی راہ ہے۔ اور وہ یہ کہ آسمانی نشانوں سے ثابت کر دیوے کہ خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہے۔'' (۸۴۱)
پس ہر ایک دانا انسان پر فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے مرزا صاحب کے روحانی کمالات آسمانی نشانات یعنی پیشگوئیاں وغیرہ دیکھے۔ اگر وہ جھوٹی ہیں تو مرزا صاحب جھوٹے۔
معیار نبوت وہ ہے جس پر تمام انبیاء ورسل برابر اتریں۔ انبیاء سابقین نے نہ تو اپنی گذشتہ زندگی بطور معیار کے پیش کی نہ اس معیار پر تمام انبیاء علیہم السلام اجمعین پورے اتر سکتے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے تو اس معیار کا صاف انکار کیا ہے جب کہ فرعون نے ان کی سابقہ زندگی کو قتل قبطی اور احسان فراموشی وغیرہ سے متہم کیا تھا اور کہا تھا:
قَالَ اَلَمْ نربک فینا ولیدًا ولبثت فینا من عمرک سنین وفعلت فعلتک التی فعلت وانت من الکفرین۔
موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:
قَالَ فَعَلْتُھَا اِذًاوّ اَنَا مِنَ الضَّآلِیْنَ فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمّا خِفْتُکُمْ۔ (۸۴۲)
مطلب یہ کہ میں اپنی صداقت میں اپنی پہلی زندگی نہیں پیش کر رہا ہوں بلکہ معجزہ عصاوید بیضا پیش کرتا ہوں اور مرزا صاحب نے بھی شہادۃ القرآن صفحہ ۷۳ پر اس کی تصدیق کی ہے جس کا اقتباس اوپر گزر چکا ہے۔
اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام اہل سدوم کی طرف بھیجے گئے حالانکہ وہ چونکہ سدوم کے باشندے نہ تھے تو سدوم والے حضرت لوط علیہ السلام کی پہلی زندگی سے کیونکر واقف ہوسکتے تھے؟ پس پیغمبر کی سابقہ زندگی معیار نبوت نہیں ہوسکتی۔
بفرض محال اگر پیغمبر کی سابقہ زندگی معیار نبوت بھی ہوسکتی تو پھر مرزا صاحب اس پر پورے نہیں اتر سکتے کیونکہ وہ بالکل غیر معروف آدمی تھے تو وہ کیونکر اس معیار پر پورے اتر سکتے ہیں وہ خود مانتے ہیں:
'' پھر دوسرا نشان یہ ہے کہ اس گذشتہ زمانہ میں جس کو سترہ برس گزر گئے یعنی اس زمانہ میں جبکہ یہ عاجز گوشہ گمنامی پڑا ہوا تھا اور کوئی نہ جانتا تھا کہ کون ہے اور نہ کوئی آتا تھا۔'' (۸۴۳)
'' اس بات کو عرصہ قریباً بیس برس کا گزر چکا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ مجھ کو بجز قادیان کے چند آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا تھا یہ الہام ہوا۔'' (۸۴۴)
انبیاء کرام شرک و کفر سے پیدائشاً پاک ہوتے ہیں بخلاف اس کے مرزا صاحب قادیانی قبل از دعویٰ نبوت کے بقول خود مشرک تھے کیونکہ وہ عرصہ دراز (۵۲ سال) تک عقیدہ حیات مسیح کے معتقد بلکہ مشتہر و مبلغ رہے اور بعد میں آپ نے کھلے الفاظ میں اس عقیدہ کو شرک قرار دیا نتیجہ صاف ہے کہ مرزا صاحب پہلے '' خود مشرک تھے۔''
اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ اَشْرَکَ (ترمذی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خدا کے سوا کسی اور کی قسم کھانا شرک ہے مگر آپ نے دوسرے وقت ایک شخص کے باپ کی خود قسم کھائی جیسا کہ حدیث میں ہے قَدْ اَفْلَحَ وَاَبِیْہِ اِنْ صَدَقَ (مسلم ص۲۴ باب الایمان باللہ وشرائع الدین) کہ اس کے باپ کی قسم اگر اس نے سچ بولا ہے تو وہ نجات پا گیا ہے۔ (۸۴۵)
جواب نمبر۱:
اس حدیث میں ایک لفظ محذوف ہے۔ مطلب حدیث کا یہ ہے '' قَدْ اَفْلَحَ وَرَبِّ اَبِیْہِ'' اس شخص کے باپ کے رب کی قسم یہ نجات پا گیا۔ اس طرح کہ یہ حذف، محذوف کلام عرب میں بکثرت ہوتے ہیں خود قرآن مجید میں ہی مواقع کثیرہ میں اس کی مثالیں ملتی ہیں بطور نمونہ ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ ملاحظہ ہو سورۂ یوسف '' واسئل القریۃ'' (۸۴۶)اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ''پوچھ لے قریہ سے'' حالانکہ قریہ کوئی قابل استفسار ہستی نہیں سو اس آیت میں بھی ایک لفظ اہل محذوف ہے جس کے ملانے سے عبارت یہ ہوگی کہ '' پوچھ لے بستی میں رہنے والوں سے'' اور یہی صحیح ہے حاصل یہ کہ حدیث میں غیر اللہ کی قسم ہرگز نہیں کھائی گئی۔
-----------------------------------------------------------
(۸۴۱) شھادۃ القرآن ص۷۱،۷۲ و روحانی ص۳۶۷ تا ۳۶۸، ج۶
(۸۴۲) پ۱۹ الشعراء آیت : ۱۹ تا ۲۲
(۸۴۳) ضمیمہ انجام آتھم ص۲ و روحانی ص۲۸۶، ج۱۱
(۸۴۴) تریاق القلوب ص۵۶ و روحانی ص۲۵۴،ج۱۵
(۸۴۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۶۵ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۸۴۶) پ۱۳ یوسف آیت ۸۳ نوٹ: مرزا محمود اپنی تفسیر، کبیر ص۳۴۷،ج۳ میں لکھتا ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں وسئل القریۃ کے معنیٰ اکثر مفسرین نے اہل قریۃ یعنی بستی کے رہنے والے کیے ہیں۔ انتھی بلفظہٖ۔ ابو صہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
نیز مرزا صاحب کو مسلم ہے کہ:
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات نے کروڑہا انسانوں کو بتوں اور عیسیٰ پرستی اور مخلوق پرستی سے نجات دے کر لا الہ الا اللہ پر قائم کیا۔'' (۸۴۷)
یہ نہیں ہوسکتا کہ انبیاء جو شرک مٹانے آتے ہیں خود شرک میں مبتلا رہیں اس کی تائید مرزا صاحب سے بھی مرقوم ہے جیسا کہ لکھا ہے:
'' اور یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ جبکہ ان (انبیاء) کے آنے کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو خدا کے احکام پر چلادیں تو گویا وہ خدا کے احکام کو عمل درآمد لانے والے ہوتے ہیں اس لیے اگر وہ خود ہی احکام کی خلاف ورزی کریں تو پھر عمل درآمد کرنے والے نہ رہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ نبی نہ رہے وہ خدا تعالیٰ کے مظہر اور اس کے اقوال و افعال کے مظہر ہوتے ہیں پس خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ان کی طرف منسوب بھی نہیں ہوسکتی۔'' (۸۴۸)
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کی قسم کھانے سے منع کردیا تھا:
(۱) من کان حالفًا فلا یحلف الا باللّٰہ وکانت قریش تحلف بابائھا فقال لا تحلفوا بابائکم۔ (۸۴۹)
(۲) لا تحلفوا بالطواغی ولا بٰابآئکم۔ (۸۵۰)
جواب نمبر ۲:
صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے مگر الفاظ وَابیہ منقول نہیں ہیں قد افلح ان صدق اور یہی الفاظ مسلم کی ایک روایت میں ہیں قد افْلَحَ اِنْ صَدَقَ (۸۵۱)اور جس حدیث میں یہ الفاظ قد اَفْلَحَ وابیہ ان صدق آئے ہیں اس میں راوی کو خود شک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہے یا وہ۔ لہٰذا یہ الفاظ قَدْ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ زیادہ صحیح ہیں کیونکہ یہ الفاظ امام بخاری رحمہ اللہ ایسے نقادِ حدیث نے نقل کئے ہیں اور مرزا صاحب کا یہ فتویٰ ہے کہ:
'' یہ کتاب اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔'' (۸۵۲)
بلکہ مرزا صاحب نے یہاں تک فرما دیا ہے کہ جو حدیث بخاری میں نہ ہو وہ ضعیف ہے۔ مرزا صاحب حضرت عیسیٰ کے منارۂ دمشق پر آنے کی حدیث کو اس لیے ضعیف قرار دیتے ہیں کہ گو وہ حدیث صحیح مسلم میں تو ہے مگر بخاری میں نہیں:
'' یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم نے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا۔'' (۸۵۳)
لہٰذا یہ الفاظ (قَدْ اَفْلَحَ وَاَبِیْہِ اِنْ صَدَقَ)قابل حجت نہیں، کیونکہ اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے چھوڑ دیا اور صحیح الفاظ یہ ہیں (قَدْ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ) کیونکہ ان کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
مرزائیوں کی دوسری دلیل
لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَ خَذْنَا مِنْہ بِالْیَمِیْنَ ثُمَّ لقطعنا منہ الوتین۔
سکہ اگر یہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کوئی جھوٹا الہام بنا کر میری طرف منسوب کرتے تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ کر ان کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔ گویا اگر کوئی جھوٹا الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے تو وہ قتل ہو جاتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو صداقت کی کسوٹی ہیں، آپ ۲۳ سال دعویٰ وحی و الہام کے بعد زندہ رہے اس لیے کوئی مدعی الہام و وحی نبوت اتنا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ (۸۵۴)بشرطیکہ وہ مجنون نہ ہو (۸۵۵)وہ مدعی الوہیت نہ ہو الخ۔(۸۵۶)
لَو تقول سے پاگل۔ نفسانی خوابوں اور الہام والا۔ یا بد ہضمی انجرہ کی شدت و کثرت کی وجہ سے یا شیطانی الہام والا اپنے آپ کو خدا قرار دینے والا۔ یہ لوگ مستثنیٰ ہونے چاہئیں۔(۸۵۷)
------------------------------------------------------------------------------------------------
(۸۴۷) ست بچن ص۷۳ و روحانی ص۱۹۷،ج۱۰
(۸۴۸) ریویو ص۷۱،۷۲، ج۲ مفہوم
(۸۴۹) صحیح مسلم ص۴۶،ج۲ فی الایمان باب النھی عن الحلف
(۸۵۰) ایضًا ص۴۶،ج۲
(۸۵۱) صحیح بخاری ص۱۲،ج۱ فی الایمان باب الزکاۃ من الاسلام و صحیح مسلم ص۳۰،ج۱ فی الایمان باب بیان الصلوٰۃ التی ھی احد ارکان الاسلام
(۸۵۲) شھادۃ القرآن ص۴۰ و روحانی ص۳۳۷،ج۶ و ازالہ اوہام ص۷۶۲ و روحانی ص۵۱۱،ج۳ تحفہ گولڑویہ ص۲۵ و انجام آتھم ص۱۳۷، نوٹ: (۱) مرزا غلام قادیانی نے کتب حدیث کے تین طبقات بیان کیے ہیں (۱) صحیح بخاری (۲) صحیح مسلم (۳)ترمذی ، ابن ماجہ، موطا امام مالک، سنن نسائی، ابوداؤد، دارقطنی، دوسرے طبقہ کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ صحیح بخاری کے مخالف نہ ہو اور تیسرے کے لیے بخاری و مسلم دونوں کے مخالف ۔ اشتہار مرزا مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۸۹۵ء مندرجہ، مجموعہ اشتہارات ص۱۵۹،ج۲ و ملحقہ آریہ دھرم ص۸ و روحانی ص۸۶، ج۱۰۔ جب مرزائیوں کے امام و مقتدا کا یہ اصول ہے تو پھر بخاری کی روایت کے بالمقابل صحیح مسلم کی روایت کو پیش کرنا اپنے ہی اصول سے انحراف اور فرار ہے، (۲) مولف مرزائی پاکٹ بک نے مشکوٰۃ ص۳۷۰ سے بحوالہ ابوداؤد یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ '' ذلک وابی الجوع'' ص۵۶۵ واضح ہو کہ اول تو مذکورہ روایت مرزا جی کے اصول کے خلاف ہے (دوم) یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ امام بیہقی نے صراحت کی ہے کہ ''وفی ثبوت ہذا الاحادیث نظر'' السنن الکبریٰ ص۳۵۷،ج۹، یعنی اس حدیث کے ثبوت میں کلام ہے۔ ابو صہیب
(۸۵۳) ازالہ اوہام ص۲۲۰ و روحانی ص۲۰۹،ج۳
(۸۵۴) احمدیہ پاکٹ ص۵۷۱
(۸۵۵) ایضًا ص۵۸۵
(۸۵۶) ایضًا ص۵۸۶
(۸۵۷) مضمون مولوی اللہ دتا صاحب جالندھری مندرجہ، ریویو، مئی ۱۹۲۴ء ص۲۹ تا ۳۰ نوٹ: فاضل جالندھری صاحب نے اپنی تالیف، تفہیمات ربانیہ ص۲۶، میں چار شرائط مزید لگائی ہیں کہ
(۱)مدعی الہام یہ جانتا ہو کہ میں مفتری ہوں (۲) خدا کی ہستی کا قائل ہو (۳) مدعی لفظی الہام کا قائل ہو (۴) مدعی اپنے دعویٰ کو علی الاعلان شائع کرے۔ انتھی ملخصًا
اولاً پہلی شرط کے بارے میں گزارش ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ مرزا جی یہ نہیں جانتے تھے کہ میں مفتری ہوں جبکہ مرزا کی روش اور ان کی زندگی کے حالات اس بات کا قرینہ ہیں کہ انہیں معلوم تھا کہ میں مفتری ہوں جس کی دلیل یہ ہے کہ مرزا جی فرماتے ہیں کہ:
اگرچہ قرآن و حدیث اور میرے الہامات میں وفات مسیح کا ذکر ہے مگر چونکہ صریح اور واضح نہیں اس لیے میں نے وفات مسیح کو تسلیم نہیں کیا اور حیات مسیح ہی مانتا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ صریح اور واضح طور پر وفات مسیح بتائے گا تو تسلیم کرلوں گا اور کامل دس سال تک انتظار کیا، مفہوم ، حمامۃ البشریٰ ص۱۳ و روحانی ص ۱۹۱، ج۷ حالانکہ یہ مرزا کا صریحاً جھوٹ ہے کیونکہ ان دس سال کے بعد قرآن و حدیث اور سابقہ الھامات کے علاوہ جو صریحاً وفات مسیح کا الہام نازل ہوا تھا جس کی وجہ سے مرزا نے حیات کا انکار اور وفات کا اقرار اور دعویٰ مسیح موعود ہونے کا کیا تھا وہ کونسا ہے یقین جانئے کہ قادیانی اور لاہوری ملکر اور سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود مرزا کا کوئی ایسا الہام ثابت نہیں کرسکتے (یہاں پر، ازالہ اوہام، کے ایک الہام کا ذکر نہ کیجئے گا کیونکہ یہ الہام ۱۸۹۱ء کا ہے جیسا کہ تذکرہ ص۱۸۳ میں اس کی صراحت کردی گئی ہے جبکہ مرزا نے دعویٰ مسیح موعود ۱۸۹۰ء کے آخر میں کیا تھا) لہٰذا ثابت ہوا کہ مرزا خود بھی جانتے تھے کہ میں مفتری ہوں (۲) مرزا نے ابتدا میں علی الاعلان دعوی نبوت بھی نہیں کیا بلکہ نومبر ۱۹۰۱ء میں کھل کر نبوت کا دعویٰ کیا (جس کی ضروری تفصیل باب ہذا کے حاشیہ ۳۶۸ میں گزر چکی ہے) لیکن اس کے بعد مرزا ۲۳ سال زندہ نہیں رہے۔ ابو صہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
الجواب الاوّل
مصنف مرزائی پاکٹ بک نے دلیل مذکورہ کی تائید میں بعض مفسرین کے اقوال بھی پیش کئے ہیں اور شرح عقائد نسفی و ابن قیم کی تحریرات بھی پیش کی میں جن میں اکثر جگہ خیانت مجرمانہ سے کام لیا ہے۔ مگر ہم سردست اس بحث کو چھوڑتے ہیں کیونکہ علمائے امت کے اقوال کا اگر وہی مطلب ہو جو مرزائی لیتے ہیں تو بھی انہیں مفید اور ہمیں مضر نہیں۔ کیونکہ ہمارا اور ان کا مسلمہ ہے کہ اقوال الرجال حجت شرعی اور لائق استناد نہیں ہیں۔ چنانچہ مرزا صاحب تو اس بارے میں اس قدر بے باک واقع ہوئے ہیں کہ لکھتے ہیں:
(ا) امت کا کورانہ اتفاق یا اجماع کیا چیز ہے۔ (۸۵۸)
(ب) تفسیر کی کتابوں میں چھ چھ سات سات اقوال متضادہ ہیں۔ (۸۵۹)
اب رہا اصل دلیل کا معاملہ سو بالکل واضح ہے یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہے اور آپ ہی اس کے مخاطب ہیں۔ اس کی نظیر وہ آیت ہے جس میں ارشاد ہے:
{ وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗ وَاِذًا لَّا تَّخَذُوْکَ خَلِیْلاً۔ وَ لَوْ لااَآ اَنْ ثَبَّتْنکَاٰالَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْئًا قَلِیْلااًا۔ اِذًا لَّااَذَقْنکَاٰا ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لااَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا}(۸۶۰)
یعنی وہ کافر تو تجھے وحی الٰہی کے خلاف لے جانے میں کوشاں ہیںجو ہم نے تجھ پر اتاری ہے تاکہ تو ہم پر افترا کرے اور وہ تجھے اس صورت میں دوست بنا لیتے۔ اگر ہم تجھے ثابت قدم نہ رکھتے تو آجاتا ان کے داؤ میں۔ اندریں صورت ہم تجھے دنیا و آخرت میں دوگنا عذاب چکھاتے اور کوئی شخص بھی تجھے ہم سے نہ بچا سکتا۔
پس جس طرح اس آیت میں خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں اسی طرح مرزائیوں کی پیش کردہ آیت بھی مخصوص ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن کو خدا تعالیٰ نے جملہ مخلوق سے بزرگ و برتر مراتب پر فائز کیا ہے اور اپنی تمام نعمتیں نبوت کی آپ پر تمام کردی ہیں اور دنیا کی کوئی خوبی نہیں جو آپ میں جمع نہیں کی گئی۔ باوجود اس کے بھی اگر آپ خداپر افترا کریں اور خدا کی بھیجی ہوئی وحی میں ''بعض'' افتریات ملا دیں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم آپ کی قطع و تین کردیں۔
اس آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر وہ شخص جو پرلے سرے کا دجال و کذاب ہے اور خدا کی رحمت سے ہزارہا کوس دور۔ زمرۂ شیاطین کا سرتاج جس پر خدا نے اپنی رحمت و انعاماتِ روحانیہ کا قطرہ بلکہ قطرے کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ڈالا ہے۔ وہ اگر اپنی خباثت طبعی کے زیر اثر خدا پر افترا کرے تو خدا اسے ہلاک کردے گا۔ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اکثر طور پر ضلالت و گمراہی کے بدترین فرزندوں کو جو مفتری علی اللہ اور روحانیت سے کورے دنیا جیفہ کے طالب، مدعیان کاذب ہوں، ان کو کبھی کبھی ڈھیل دیتا ہے:
{ قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ لااَا یُفْلِحُوْنَ۔ مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ نُذِیْقُہُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْن }(۸۶۱)
''کہہ! جو لوگ خدا پر جھوٹ افترا کرنے والے ہیں وہ نجات نہیں پائیں گے۔ ہاں انہیں دنیا میں بیشک فائدہ ہے۔ مگر جب وہ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم انہیں عذابِ شدید میں مبتلا کریں گے۔ ''
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی علی اللّٰہِ کَذِبًا او کذب بالحق لَمَّا جَائَ ہٗ اَلَیْسَ فِیْ جَھَنمَّ مثوی لِلْکٰفِرِیْنَ۔ (۸۶۲)
اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے کہ وہ خدا پر افترا کرے، یا سچائی کی تکذیب کرے (یہ مت سمجھنا کہ ان کا یہ ظلم بالا بالا جائے گا) کیا کفاروں کا ٹھکانا جہنم نہیں؟ یعنی یہ ظالم جہنم میں ڈالے جائیں گے :
{ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْئٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَراٰاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ }(۸۶۳)
لا ریب وہ بڑا ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے اور کہے کہ مجھ پر وحی ہوتی ہے حالانکہ نہ ہوتی ہو۔ اے نبی تو دیکھے ان کی درگت بنتی جب ہوتے ہیں یہ موت کی بیہوشی میں اور فرشتے پھیلا رہے ہاتھ کہ نکالو اپنی جانوں کو آج بدلہ ملے گا تم کو عذاب ذلیل کرنے والا بسبب اس کے کہ تم خدا پر جھوٹ باندھتے تھے :
{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفلحُوْن مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَلَھَمْ عذاب الیم }(۸۶۴)
تحقیق مفتری نجات نہیں پائیں گے انہیں نفع تھوڑا ہے عذاب دردناک قُلْ مَنْ کان فے الضَّلَالَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہٗ الرَّحْمٰنُ مَدّاً۔ حَتی اِذَا رَأَوْا مَا یُوْعَدُونَ۔(۸۶۵)کہہ دے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم گمراہی کے مجسمول کو بعض اوقات خدا تعالیٰ ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اس عذاب موت تک پہنچ جائیں جس کا انہیں وعدہ دیا گیا ہے!
-----------------------------------------------------------------------------------
(۸۵۸) ازالہ اوہام ص۱۴۲ و روحانی ص۱۷۲، ج۳
(۸۵۹) ایضاً ص۵۵۲ و روحانی ص۳۹۷ ج۳
(۸۶۰) پ۱۵ بنی اسرائیل آیت ۹ تا ۷۴ تا ۷۹
(۸۶۱) پ۱۱ یونس آیت ۷۰ تا ۷۱
(۸۶۲) پ ۲۱ العنکبوت آیت ۶۹
(۸۶۳) پ۷ الانعام آیت ۹۴
(۸۶۴) پ۱۴ النحل آیت نمبر ۱۱۷، ۱۱۸
(۸۶۵) پ۱۶ مریم آیت ۷۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مختصر یہ کہ ان اور ان جیسی دیگر کئی آیات سے عیاں ہے کہ مدعیان نبوت کاذبہ اور مفتریان علی اللہ اخوان الشیاطین کو بجہت قانون مقررہ مرنے کے بعد سزا ملتی ہے الا ماشاء اللہ۔ ایک ابلیس لعین ہی کو دیکھئے کہ اس کو قیامت تک ڈھیل دی گئی ہے۔
جواب دوم
اس کو بھی چھوڑئیے۔ آئیے ہم بطور فرض محال مان لیتے ہیں کہ آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا الایۃ عام ہے جو ہر مفتری مدعی نبوت کو شامل ہے تو بھی مرزا صاحب بہ اصولِ خود اس آیت کی رُو سے کاذب ثابت ہوتے ہیں ناظرین بغور سنیں۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ یہ آیت مدعیان نبوت کے بارے میں ہے۔
۱۔ خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے اب اس کے مقابل پر یہ پیش کرنا کہ اکبر بادشاہ نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ یا روشن دین جالندھری نے دعویٰ کیا یا کسی اور شخص نے دعویٰ کیا اور وہ ہلاک نہیں ہوئے یہ ایک دوسری حماقت ہے جو ظاہر کی جاتی ہے بھلا اگر یہ سچ ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کے دعوے کئے اور تئیس برس تک ہلاک نہ ہوئے تو پہلے ان لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہیے اور وہ الہام پیش کرنا چاہیے جو الہام انہوں نے خدا کے نام پر لوگوں کو سنایا یعنی یہ کہا کہ ان لفظوں کے ساتھ میرے پر وحی نازل ہوئی ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ اصل لفظ ان کی وحی کے کامل ثبوت کے ساتھ پیش کرنے چاہئیں۔ کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے۔ غرض پہلے تو یہ ثبوت دینا چاہیے کہ کونسا کلام الٰہی اس شخص نے پیش کیا ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ پھر بعد اس کے یہ ثبوت دینا چاہیے کہ جو تئیس برس تک کلام الٰہی اس پر نازل ہوتا رہا وہ کیا ہے؟ جب تک ایسا ثبوت نہ ہو تب تک بے ایمانوں کی طرح قرآن شریف پر حملہ کرنا شریر لوگوں کا کام ہے۔(۸۶۶)
۲۔ ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افترا کرکے تئیس برس تک مہلت پاسکے ضرور ہلاک ہوگا۔ (۸۶۷)
۳۔ صادقوں کا پیمانۂ عمر (تئیس سال) کاذب کو نہیں ملتا۔(۸۶۸)
۴۔ اے مؤمنو اگر تم ایک ایسے شخص کو پاؤ جو تئیس برس تک وحی الٰہی پانے کا دعویٰ کرتا رہا تو یقینا سمجھو کہ وہ خدا کی طرف سے ہاں اس بات یا واقعی طور پر ثبوت ضروری ہے کہ اس شخص نے تئیس برس کی مدت حاصل کرلی ہے۔(۸۶۹)
تحریراتِ مذکورہ سے ثابت ہے کہ یہ آیت مدعی نبوت کے دعویٰ سے مخصوص ہے اور زمانہ میعاد ۲۳ سال ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کب کیا اور اس کے بعد کے سال زندہ رہے۔ سو ہمارے مخاطبین قادیانی مرزائیوں کو مسلم ہے کہ:
'' تریاق القلوب کی اشاعت تک جو اگست ۱۸۹۹ء سے شروع ہوئی اور ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ختم ہوئی آپ مرزا صاحب کا یہی عقیدہ تھا کہ آپ کو نبی کہا جاتا ہے یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے (۱۹۰۲ء) کے بعد میں آپ (مرزا) کو خدا کی طرف سے معلوم ہوا کہ آپ نبی ہیں۔'' (۸۷۰)
عبارت مرقومہ بالا سے صاف ظاہر ہے کہ مرزا نے دعویٰ نبوت ۱۹۰۲ء میں کیا اس کے بعد آپ ۱۹۰۸ء میں مر گئے۔ یعنی بعد نبوت صرف ۶ سال کے قریب زندہ رہے حالانکہ اگر وہ صادق ہوتے تو لازمی تھا کہ وہ تئیس سال دعویٰ نبوت کے بعد زندہ رہتے چنانچہ ہم ان کا قول نقل کر آئے ہیں کہ:
'' ہرگز ممکن نہیں کہ جھوٹا تئیس برس مہلت پاسکے ضرور ہلاک ہوگا۔'' (۸۷۱)
ناظرین کرام! اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے مرزا صاحب نے بہت سے مغالطے اور بکثرت کذب بیانیاں کی ہیں۔ کہیں اس آیت کو عام مدعیان الہام کے بارے میں لکھا ہے اور کہیں خاص مدعیان نبوت کے حق میں کہیں مفتری کی سزا طبعی موت بتائی اور کہیں قتل، کہیں دست بدست اور جلدی فوراً مفتری کا مارا جانا قانون قرار دیا اور کہیں مدت ۲۳ سال مقرر کی پھر کسی جگہ ۱۱ سال لکھی تو کسی جگہ ۱۲ سال۔ کہیں ۱۴ سال کہیں سولہ سال کہیں ۲۰ سال کہیں ۲۳ سال کہیں ۲۴ سال کہیں ۲۵ اور کہیں ۳۰ بلکہ اس سے بھی زیادہ میعاد بتائی۔
اسی طرح اپنے آپ کو اس آیت کا مصداق بنانے کو کتنی جگہ ایک ہی سال کی تصنیفات میں کہیں اپنی عمر ۲۰ سال لکھی ہے دوسری طرف اسی سال کی دیگر کتب میں ۲۵ سال۔ آج اگر ۱۱ سال لکھی تو چند دن بعد ۲۰ سال پھر لطف یہ کہ اس کے تھوڑا عرصہ بعد صرف ۱۵،۱۶ سال عمر بتائی غرض کئی ایک اس طرح کے فریب کھیلے ہیں۔
-----------------------------------------------------------------------------
(۸۶۶) ضمیمہ اربعین ۳،۴ ص۱۱ و روحانی ص۴۷۷، ج۱۷
(۸۶۷) اربعین نمبر ۴، ص۵ و روحانی ص۴۳۴، ج۱۷
(۸۶۸) ضمیمہ اربعین نمبر ۳،۴ ص۲ و روحانی ص۴۶۸، ج۱۷ ملخصاً
(۸۶۹) اربعین نمبر ۳ ص۲۲ و روحانی ص۴۰۹، ج۱۷
(۸۷۰) القول الفصل ص۲۴، نوٹ، حقیقت یہ ہے کہ مرزا نے دعویٰ نبوت ۱۹۰۱ میں کہا تھا اور مرزا محمود نے بھی بعد میں مرزائی محمد علی لاہوری کے اعتراض کرنے پر، حقیقت النبوۃ ص۱۲۴، میں القول الفصل کی مذکورہ عبارت کی تردید کردی تھی۔ ابو صہیب
(۸۷۱) اربعین نمبر ۲، ص۵ و روحانی ص۴۳۴، ج۱۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
جوابِ سوم
بفرض محال یہ آیت عام ہو تو بھی مرزا صاحب اس کے مصداق اس وجہ سے نہیں بن سکتے کہ وہ مراقی ہیں اور بقول مولوی نور الدین خلیفہ اول قادیان مراق ایک شعبہ جنون کا سا ہے۔ ماسوا اس کے مرزا صاحب متخالف الاقوال شخص کو پاگل اور مجنون فرماتے ہیں۔ (۸۷۲)اور ان کے اقوال میں صدہا اختلاف ہیں۔
نیز انہوں نے خدائی کا دعویٰ بھی کیا ہے جیسا کہ ثبوت دیا جا چکا پس وہ افترا کی سزا سے باہر ہیں کیونکہ مصنف مرزائی پاکٹ بک مولوی، اللہ دتا احمدی وغیرہ کا اقرار ہے کہ ایسا شخص لو تقول کی سزا کا مستحق نہیں اگر کہا جائے کہ مرزا کا دعویٰ خدائی خواب ہے تو جواب یہ ہے تم مرزا کو نبی مانتے ہو اور خود تمہیں مسلم ہے کہ رؤیا النبی وحی۔ (۸۷۳)
ایسا ہی مرزا صاحب نے بھی لکھا ہے۔ (۸۷۴)
'' پیغمبر کا کشف اور خواب وحی ہے۔''
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
جواب چہارم
یہ استدلال کہ دعویٰ نبوت کے بعد ۲۳ سال تک زندہ رہنے والا سچا نبی ہوتا ہے ابھی درست نہیں۔ کیونکہ اس قاعدے کا ذکر قرآن شریف نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی ۲۳ سال کے الفاظ قرآن مجید سے نکال سکتا ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعویٰ نبوت کے بعد زندہ رہے تو یہ عمر مقدر کی وجہ سے ہے اس سے عام قاعدہ مستنبط نہیں ہوسکتا۔ قادیانیوں کا یہ استدلال اس لیے بھی غلط ہے کہ کفار بنی اسرائیل نے جو حضرت یحییٰ نبی اللہ علیہ السلام کو قتل کیا تھا تو وہ دعویٰ نبوت کے بعد ۲۳ سال گزر جانے کے بعد قتل کیا تھا یا پہلے۔ اگر بعد قتل کیا گیا تھا تو اس کی سند درکار ہے جو نہیں ملے گی۔ بلکہ اس کے برخلاف ثابت ہے کہ آپ دعویٰ نبوت کے تھوڑے عرصہ بعد ہی قتل کردئیے گئے تھے اور اگر ۲۳ سال سے پہلے قتل ہوئے تھے جو بالکل درست ہے۔ تو مرزائیوں کو دو باتوں میں سے ایک بات ضروری ماننی پڑے گی۔ یا تو معاذ اللہ حضرت یحییٰ نبی صادق نہ ہوں گے یا قادیانیوں کا قاعدہ غلط ہوگا۔ چونکہ حضرت یحییٰ معاذ اللہ جھوٹے نبی ہرگز نہ تھے لہٰذا قاعدہ بالکل غلط ہے۔
----------------------------------------
(۸۷۲) ست بچن ص ۳۰ و روحانی ص۱۴۲، ج۱۰
(۸۷۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۵۱ طبعہ ۱۹۴۵ و ص۴۲۷ طبعہ ۱۶۳۲ء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
جواب پنجم
اگر یہ غلط استدلال بفرض محال صحیح ہو تو پھر بہاؤ اللہ سچا ہے کیونکہ وہ بعد از دعویٰ چالیس سال تک زندہ رہا۔
۱۔ حضرت بہاء اللہ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ۱۲۶۹ھ میں کیا۔ اور آپ ۱۳۰۹ھ تک زندہ رہے۔ (۸۷۵)
۲۔ حضرت بہاء اللہ کا یہ دعویٰ تھا کہ مجھ پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے۔ (۸۷۶)
۳۔ حضرت بہاء اللہ بعد از دعویٰ وحی چالیس سال تک زندہ رہے آپ اپنے دعویٰ پر اخیر دم تک قائم رہے۔ (۸۷۷)
مرزائیوں کی تیسری دلیل
یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَائَ ھُمْ کہ نبی کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹے کو۔ گویا جس طرح بیوی کی پاکیزگی خاوند کے لیے اس امر کی دلیل ہوتی ہے کہ پیدا ہونے والا اسی کا بچہ ہے اسی طرح مدعی نبوت کی قبل از دعویٰ پاکیزگی اس کی صداقت پر دلیل ہوتی ہے۔(۸۷۸)
الجواب
اس استدلال میں مرزا صاحب نے یہود نا مسعود سے بھی بڑھ کر تحریف و دجالیت سے کام لیا ہے۔ آیت کا سیاق و سباق یہ ہے کہ جب حضور علیہ السلام کو بیت المقدس کی بجائے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہوا تو سفہاء مکہ نے اس پر اعتراض کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِم الایۃ اور بلاشبہ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ تغیر و تنسیخ قابلِ اعتراض نہیں کتب سابقہ اس پر شاہد ہیں کہ کبھی خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر اور کبھی سزا کے طور پر اور کبھی ابتلا کے طور پر احکام جدید بھیجا کرتا ہے پس اس معاملہ میں بھی وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے۔ اب رہے ضدی متمرد شخص سو اگر تو دنیا جہان کی نشانیاں اور دلائل بھی ان کے رو برو پیش کرے مَا تبعوا قبلتک نہ چلیں تیرے قبلے پر اور نہ پیروی کر تو ان کے (منسوخ شدہ) قبلے کی۔ اگر تُو نے بعد اس کے بھی ان کی ہوائے نفسانی کی اتباع کی تو بیشک تو بے انصاف ہوگا الذین اتینھم الکتب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم الایۃ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو ایسا پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو (اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کی کتابوں میں مرقوم و موجود ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک اور شریعت آنے والی ہے) مگر افسوس سے ان کی حالت پر کہ وَاِنَّ فِریقًا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون الحق من ربک فلا تکون من المُمْتَرِیْنَ(۸۷۹) کہ ایک فریق باوجود جاننے بوجھنے کے صدا حق کو چھپا رہا ہے ان کی اس کج ردی پر دھیان نہ کرو۔ یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے سو تم ان شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔ ایسا ہی کفار کے جواب میں دوسری جگہ فرمایا: اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بینتہ من ربہ ویتلوہ شاھد منہ ومن قبلہ کتاب موسی اماماً ورحمۃ اولئک یؤمنون بہ الی فلا تکن فی مریۃ منہ انہ الحق من ربک الآیۃ بھلا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کھلے کھلے دلائل پاچکا ہے کہ وہ دلائل آپ اپنی صداقت پر گواہ ہیں پھر موسیٰ علیہ السلام کی کتاب بھی اس کی سچائی پر راہنما ہے (وہ کیسے شک کرسکتا ہے لاریب جو صاحب عقل و علم واقف تورات و انجیل ہیں) وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ پس تو کسی قسم کے شبہ میں نہ پڑ بیشک وہ خدا کی طرف سے سچ ہے۔
ناظرین کرام! یہ ہے تفسیر القرآن بالقرآن یعنی اس آیت میں قرآن مجیدکو بیٹوں کی طرح پہچاننے کا ذکر ہے۔ مگر مرزائی محرف نے اس کو یہود کی طرح اُلٹ پلٹ دیا۔
دوسرا جواب
بعض مفسرین رَحِم اللّٰہُ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْنَ نے اس آیت یَعْرِفُوْنَہٗ کی ضمیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیری ہے یعنی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو۔ اس صورت میں بھی مطلب واضح ہے ارشاد الٰہی ہے: اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یجدونہ مکتوبا عندھم فی التَّوْرٰۃ والانجیل الآیہ ہے۔(۸۸۱) وہ لوگ جو تابعداری کرتے ہیں اس رسول اَن پڑھ کی (محض تقلیداً یا کسی لالچ یا خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ) وہ لکھا ہوا پاتے ہیں تورات و انجیل میں اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو۔
حدیث میں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کا قرض دینا تھا۔ اس نے ایک دن مانگا حضور نے کہا کہ اس وقت موجود نہیں۔ اس نے سختی کی یہاں تک کہ صحابہ کرام میں سخت غم و غصہ اور رنج کی لہر دوڑ رہی تھی حضور نے انہیں فرمایا کہ اس پر ہاتھ اٹھانا بڑا ظلم ہے مجھے خدا نے اس سے منع فرمایا ہے۔ یہ سن کر وہ یہودی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ اور اپنی ساری جائیداد میں سے آدھی اللہ کی راہ میں وقف کردی۔ پھر اپنی اس سختی اور انتہائی تقاضا کا سبب بیان کیا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ: لا نظر الی نعتک فی التوراۃ محمد بن عبداللہ مولدہ بمکۃ ومھاجرہ بطیبۃ وملکہ بالشام لیس بفظ ولا غلیظ ولا سخاب فی الاسواق ولا متزی بالفحش ولا قول الخنا۔ (۸۸۲)
تا امتحان کروں میں ان امور میں آپ کا جو تورات میں مذکور میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ولادت اس کی مکہ شریف، ہجرت گاہ طیبہ مقدسہ مملکت شام میں ہوگی نہ وہ بد زبان ہے۔ نہ سخت دل، نہ بازاروں میں چلانے والا، نہ فحش گو، نہ بیہودہ قول کا قائل۔
اندریں حالات مطلب آیت کا یہ ہے کہ بعض یہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بوجہ لکھا ہوا ہونے تورات میں خوب جانتے ہیں۔ مگر تعصب کی راہ سے حق سے اعراض کرتے ہیں۔ پس اس آیت سے خواہ مخواہ پاکیزہ زندگی کی طرف اشارہ نکالنا یہودیانہ تحریف ہے بحالیکہ خود مرزائیوں کا بنی صاف صاف لکھ گیا ہے کہ:
'' پاک زندگی اگر ہو بھی تو پھر بھی دلیل صداقت نبوت نہیں۔''
-----------------------------------------------------
(۸۷۴) ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۵، ج۵ و روحانی ص۱۶۹، ج۲۱ و آئینہ کمالات اسلام ص۹۲
(۸۷۵) الحکم جلد ۸ نمبر ۳۶ مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء ص۴
(۸۷۶) کتاب الفرائد ص۲۵ والحکم جلد ۸ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۴ء ص۱۹و ادعیہ محبوب ص۲۸ والحکم جلد ۸ نمبر ۳۶ مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء ص۴
(۸۷۷) الحکم جلد ۸ نمبر ۳۶ مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء ص۴، ایضاً ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۴ء ص۱۹ وکتاب الفرائد ص۲۵،۲۶
(۸۷۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۵ طبعہ ۱۶۳۲
(۸۷۹) پ۳ البقرہ رکوع نمبر ۱
(۸۸۰) پ۱۲ ھود آیت نمبر ۱۷
(۸۸۱) پ۹ الاعراف آیت نمبر ۱۵۷
(۸۸۲) دلائل النبوۃ للبیھقی والحاکم ف المستدرک ص۶۰۵، ج۳ وقال صحیح الاسناد و وافق الذھبی ومشکوٰۃ ص۵۲۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تیسرا جواب خود مرزا صاحب کی تحریر سے
مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امیت ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''بلاشبہ ان پر یہ بات بکمال درجہ ثابت ہوچکی تھی کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلتا ہے وہ کسی امی اور ناخواندہ کا کام نہیں جو ان میں سے دانا اور واقعی اہل علم تھے وہ بخوبی معلوم کرچکے تھے کہ قرآن انسانی طاقتوں سے باہر ہے اور ان پر یقین کا دروازہ ایسا کھل گیا کہ ان کے حق میں خدا نے فرمایا : یَعْرِفُوْنَہٗ کَما یعرفون ابناء ھم یعنی اس نبی کو ایسا شناخت کرتے ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو۔'' (۸۸۳)
برادران مرزا صاحب کی اس تحریر کو بغور پڑھیے۔ پھر اس کے بعد مرزائی پاکٹ بک کے مصنف کی یہودیانہ تحریف اور دجالانہ دلیل بازی کو ملاحظہ فرمائیے۔ آپ پر صاف عیاں ہو جائے گا کہ اس فرقہ کے تمام چھوٹے بڑے ایمان و دیانت سے دور۔ حق و انصاف کے دشمن۔ عدل و ایمان سے عاری۔ محض دنیا کے بندے ہیں۔ خدا ان سے تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ آمین
مرزائیوں کی چوتھی دلیل
یَا صَالِحُ قَدْ کَنْتَ فِینَا مَرْجُوَّا قَبْلِ ھٰذَا کہ جب حضرت صالح علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ان کی قوم نے کہا کہ اے صالح علیہ السلام آج سے پہلے تیرے ساتھ ہماری بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ تجھ کو کیا ہوگیا کہ تو نبی بن بیٹھا۔ گویا جب نبی دعویٰ نہیں کرتا قوم اس کی مداح ہوتی ہے مگر جب دعویٰ کر دیتا ہے تو کَذَّابٌ اَشِرٌ کہنے لگ جاتے ہیں۔ (۸۸۴)
الجواب:
بیشک اکثر انبیاء کرام ابتدا سے ہی قوم کی امید گاہ ہوئے ہیں اکثر کا لفظ ہم نے اس لیے لکھا ہے کہ بعض انبیاء کی پیدائش کے وقت ہی ان پر بدظنی کی گئی ہے جیسا کہ مسیح کے ساتھ ہوا۔ مثل مشہور ہے کہ '' ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات'' لوگ ابتدا سے ہی مخالف کیوں نہ ہوں مگر اللہ والوں میں شروع سے رشد و ہدایت کا اظہار ہوتا ہے ہاں اس کا مطلب یہ نہیں کہ بعض بد انجام لوگوں سے ابتدا امیدیں وابستہ نہیں ہوتیں۔ دنیا کے ہر ایک نیک و بد کے بچپن میں اس کے حوالی موالی، خویش و اقربا، ماں باپ، اس سے نیک امیدیں رکھتے ہیں۔ مگر کیا سب نیک ہی ہوتے ہیں؟ نہیں بعض نیک اور بعض آخری درجہ کے چھٹے ہوئے بدمعاش نکلتے ہیں۔ بعض شریف طبع، بعض بد اخلاق، بعض سعید، بعض شقی، عام کی امیدوں کا تو کیا ذکر۔ آئیے ہم کتب مرزا سے اس کی مثالیں پیش کریں۔ ملاحظہ ہو مرزا صاحب جو مدعی نبوت تھے جن کا ہر قول و فعل، ہر حرکت و سکون بقولِ خود تصرفِ قدرت کے تحت تھا، بعض لوگوں کے بارے میں یہ امید رکھتے تھے:
۱۔ '' خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ان کے چہرہ پر نیک بختی کے نشان پاتا ہوں۔''(۸۸۵)
۲۔ '' محمد علی صاحب ایم اے پلیڈر ہیں۔ ان کے آثار بہت عمدہ پاتا ہوں۔ الخ'' (۸۸۶)
۳۔ ' ' ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کو اصحابِ بدر کی طرح قرار دے کر تین سو تیرہ اصحابیوں میں داخل کیا۔'' (۸۸۷)
۴۔ میر عباس علی لدھیانوی کے متعلق تو الہام اتارا کہ اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء۔(۸۸۸)
قادیانی احمدی دوستو! یہ چاروں شخص جن سے تمہارے نبی کی بہت سی عمدہ رائیں اور امیدیں تھیں حق پر رہے؟ پہلے دو صاحب تو مدعی نبوت کو دجال کذاب کہنے میں ہمارے ہمنوا اور دوسرا صاحب مرزا صاحب پر انگلی رکھ کر انہیں جھوٹا قرار دے گئے۔ حالانکہ یہ سب ایک '' نبی اللہ'' کے ممدوح تھے۔ پھر اگر بعض عوام مسلمانوں نے مرزا صاحب کی ابتدا منافقانہ سعادت سے دھوکہ کھا کر انہیں نیک کہا تو کیا وہ در حقیقت نیک ہو جائیں گے۔ واللہ یشھد ان المنفقین لکذبون۔(۸۸۹)
تیری تکذیب کی شمس و قمر نے
ہوا تیرا خراب انجام مرزا
---------------------------
(۸۸۳) براھین احمدیہ ص۴۹۵ تا ۴۹۶ ج۴ و روحانی ص۵۹۰، ج۱ و تفسیر مرزا ص۲۱۲، ج۲
(۸۸۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۶ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۸۸۵) ضمیمہ انجام آتھم ص۳۱ و روحانی ص۳۱۵، ج۱۱
(۸۸۶) اشتہار مرزا مورخہ ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۱۵۸، ج۲ و تبلیغ رسالت ص۶۸ ج۸
(۸۸۷) ضمیمہ انجام آتھم ص۴۳ نمبر ۱۵۹ و روحانی ص۳۲۷، ج۱۱ نوٹ، مرزا ڈاکٹر عبدالحکیم خاں صاحب مرحوم کے بارے میں لکھتا ہے کہ جواں صالح ہے علامات رشد و سعادت اس کے چہرے سے نمایاں ہیں زیرک اور فہیم آدمی ہے امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کئی خدمات اسلام ان کے ہاتھ سے پوری کرے گا، ازالہ اوہام ص۸۰۸ و روحانی ص۵۳۷، ج۳۔ ابو صہیب
(۸۸) ازالہ اوہام ص۷۹۱ و روحانی ص۵۲۸، ج۳ و حقیقت الوحی ص۲۹۴ و روحانی ص۳۰۷ ج۲۲ و مکتوب مرزا مندرجہ تذکرہ ص۵۸
(۸۸۹) پ۲۸ المنٰفقون آیت نمبر ۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کی پانچویں دلیل!
مرزا صاحب کی دو کتب اعجاز المسیح و اعجاز احمدی کا بے نظیر ہونا بتایا ہے۔ (۸۹۰)
الجواب:
اعجاز المسیح کے متعلق مرزا صاحب نے دعویٰ کیا تھا۔ یہ میں نے ستر دن میں لکھی ہے۔ اور اعجاز احمدی پانچ دن میں اس کا جواب بھی میعادی مانگا تھا۔ ہمارا اس پر اعتراض یہ ہے کہ نہ تو مرزا صاحب نے اعجاز المسیح ستر دن میں تالیف کی تھی اور نہ اعجازِ احمدی پانچ دن میں یہ بالکل جھوٹ اور افترا اور دھوکا ہے۔ بھلا یہ کیا دلیل ہے کہ آپ تو سالہا سال کی مدت میں قصائد لکھیں یا کسی سے لکھوائیں۔ مگر مخالفوں سے ستر دن اور ۵ دن کی میعاد کے اندر جواب طلب کریں۔ کہا جاتا ہے کہ قصیدہ اعجازِ احمدی مباحثہ مد کے بعد کی تصنیف ہے جیسا کہ اس کے مضمون میں اس مباحثہ کا ذکر ہے۔ اور یہ مباحثہ ۲۹،۳۰؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو ہوا تھا۔ اور قصیدہ ۱۲؍ نومبر ۲ء تک تیار ہوگیا تھا۔(۸۹۱) جواباً گزارش ہے کہ اس لحاظ سے بھی اگر مرزا صاحب کا یہ بیان سچا سمجھا جائے کہ موضع مد سے ۲؍نومبر کو ہمارے دوست (مولانا ثناء اللہ سے شکست کھا کر۔ ناقل) قادیان میں پہنچے اور ۷؍ نومبر۲ء میں ایک گواہی کے لیے کچہری میں گیا تھا۔(۸۹۲) تو بھی ۳؍ نومبر سے ۱۲ نومبر تک ۱۰ دن ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک دن کچہری جانے کا نکال دیں تو ۹ دن باقی رہے۔ پس پانچ دن میں کہنا صریح جھوٹ ہے مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ ۸ نومبر کو میں نے لکھنا شروع کیا تھا بے ثبوت بات ہے اور ہم اس میں مرزا صاحب کو سچا نہیں مانتے۔ خیر یہ تو مرزا صاحب کی دروغ گوئی کا ذکر تھا۔
قصیدہ اعجاز احمدی عربی و اردو ہر دو مضامین پر مشتمل ہے۔ عربی اشعار ۵۳۳ ہیں جن میں سے صرف ۹۰ شعر ایسے ہیں جن میں مباحثہ مد کا ذکر ہے ان سب میں اگر صرف معمولی سا لفظی تغیر نہ مانا جاوے تو انہیں مباحثہ مد کے بعد تصنیف شدہ کہا جاسکتا ہے۔ مگر باقی کے ۴۴۳ اشعار میں نہ تو اس مباحثہ کا ذکر ہے۔ نہ مولانا ثناء اللہ مخاطب بلکہ ان میں سے ۳،۴ حصہ تو اپنی خود ستائی سے بھرا ہوا ہے اور ۱،۴ حصہ مخالفین کو گالی گلوچ ائمہ مطہرین مثل حضرت حسین رضی اللہ عنہ وغیرہ کی توہین سے پُر ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ یہ سب کے سب اشعار مباحثہ مد کے پہلے سے تیار کئے ہوئے ہیں۔ جن میں بعد کو کچھ اشعار مباحثہ مد کے ساتھ ملا کر دنیا کو دھوکا دیا گیا۔
احمدی دوستو! بتلاؤ تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ سب شعر بعد مباحثہ لکھے گئے؟ ہمارا یہ اعتراض ایسا ہے جس کی اہمیت خود مرزا صاحب کو مسلم ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
'' مولوی ثناء اللہ صاحب سے اگر صرف کتاب اعجاز المسیح کی نظیر طلب کی جائے تو وہ اس میں ضرور کہیں گے کہ کیونکر ثابت ہو کہ ستر دن کے اندر یہ تالیف کی گئی ہے۔ اگر وہ یہ حجت پیش کریں کہ یہ دو برس میں بنائی ہے ہمیں بھی دو برس کی مہلت ملے۔ تو مشکل ہوگا کہ ہم صفائی سے ان کو ستر دن کا ثبوت دے سکیں۔'' (۸۹۳)
ناظرین کرام! مرزائی پاکٹ بک کے مصنف نے دو کتابیں بطور اعجاز پیش کی تھیں۔ جن میں سے ایک کی ''ٹانگ'' خود مرزا صاحب نے توڑ دی اور دوسری کی کمر ہم توڑ دیتے ہیں کہ اعجاز احمدی کا وہ حصہ جس میں مباحثہ کا ذکر نہیں پہلے کی تالیف ہے اور یقینا ہمارے اس اعتراض کا جواب دینا بشرطیکہ احمدی صاحبان میں حیا ہو۔ بقول مرزا صاحب ''مشکل'' ہے۔ فلہ الحمد
-----------------------------------------------------------------------
(۸۹۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۹۴
(۸۹۱) اعجاز احمدی ص۳۶ و روحانی ص۱۴۶، ج۱۹
(۸۹۲) ایضًا ص۸۹ و روحانی ص۲۰۳، ج۱۹ و مجموعہ اشتہارات ص۳۷۸ ج۳
(۸۹۳) ایضًا ص ۳۵ و روحانی ص ۱۴۶، ج۱۹
 
Top