- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
دوسری طرز سے
برادران اعجاز احمدی کے دو حصے ہیں۔ ایک عربی جس کا ذکر ہوچکا ، دوسرا اردو جو ۳۹ صفحات کا مضمون ہے۔ مرزا صاحب نے ۲۰ دن کی میعاد میں عربی اردو دونوں حصوں کا جواب مانگا ہے وہ بھی اس طرز میں کہ '' کوئی بات رہ نہ جائے۔'' (۸۹۴)پھر کمال یہ کہ ۲۰ دن صرف جواب لکھنے کے لیے نہیں بلکہ لکھ کر اور چھپوا کر مرزا صاحب کے پاس پہنچا دینے کے لیے۔ صاحبان اتنے سے ہی مرزا کی اعجاز نمائی پر مطلع ہوسکتے ہیں۔ بیس روز کی قلیل مدت میں تین چار کام کیسے ہوں۔
(۱) تصنیف کتاب مع قصیدہ طویلہ عربیہ (۲) کاتب کی کتابت (۳) مطبع کا فعل طباعت (۴)تہ بندی و سلائی (۵) مرزا صاحب کے پاس پہنچانے کے لیے ڈاک خانہ کے دن جو خود مرزا صاحب نے ''تین دن'' مانے ہیں۔ (۸۹۵)
بھائیو! انصاف کیجئے کہ مرزا صاحب کا یہ مقابلہ مخالف علماء سے تھا یا کہ کاتب اور پریس سے بھی؟ غور کرو کہ اگر ایک مصنف بڑا جلد نویس ہو تو بھی ایک ایسے مضمون کا لکھنا جس میں مخالف کی باتوں کا اور اس کی پیشگوئیوں وغیرہ کا جواب اسی کی کتابوں کو دیکھ بھال کر دینا ہو بڑے سے بڑا پانچ صفحات روزانہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ فرض کے طور پر دس صفحات روزانہ بھی شمار کریں تو ۹ دن میں کتاب تیار ہوئی۔ اب کاتب کی باری آئی ۔ بتلائیے وہ ۲۰،۲۶ تقطیع کے نوے صفحات کتنے دنوں میں لکھے گا؟ بڑا تیز نویس ہو تو بھی فی یوم ۶ صفحوں سے زیادہ نہ لکھ سکے گا۔ پس ۱۵ یوم میں کتاب ختم ہوئی۔ اس کے بعد ابھی پریس کا مسئلہ باقی ہے۔ تجربہ کار اصحاب جانتے ہیں کہ جلدی سے جلدی دیں تو دو ہفتہ تک دیں گے پھر سلائی اور تہ بندی پر کتنے یوم خرچ ہوتے ہیں فرمائیے؟ یہ مہینے سوا مہینے کا کام ۲۰ دنوں میں کس طرح ہوسکتا ہے یہ بھی ہم نے سرسری طور پر حساب لگایا ہے۔ ورنہ اعجازِ احمدی میں عربی قصیدہ کے علاوہ جن باتوں کا ترتیب وار جواب مانگا گیا ہے۔ ایک انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ بیس پچیس دن میں طبع کرا دینا تو درکنار صرف جواب ہی لکھ سکے۔ ملاحظہ ہوں وہ امور یہ ہیں:
(۱) طاعون مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کے مطابق آئی یا نہیں؟
(۲) طلوع ستارہ ذوالسنن علامت مسیح ہے یا نہیں؟
(۳) اونٹوں کی بیکاری جو علامت مسیح موعود ہے وہ پوری ہوچکی یا نہیں؟
(۴) کسوف خسوف کی روایت صحیح ہے یا موضوع؟
(۵) بشق اول مرزا کے وقت جو کسوف و خسوف ہوا وہ اس روایت کے مطابق ہے یا نہیں؟
(۶) بشق ثانی اس روایت کا موضوع ہونا ثابت کرنا۔
(۷) پسر مصلح موعود کی پیشگوئی جو مرزا نے کی تھی اس کا ردّ ۔
(۸) لیکھ رام والی پیشگوئی کا ردّ۔
(۹) عبداللہ آتھم والی پیشگوئی کا جواب۔
(۱۰) محمدی بیگم کے نکاح والی پیشگوئی کا رد۔
(۱۱) مرزا صاحب نے جو چیلنج مباہلہ علماء کو دیا تھا اس کا جواب۔
(۱۲) دلائل وفاتِ مسیح علیہ السلام جو مرزا نے پیش کیں ان کا جواب۔
(۱۳) حیاتِ مسیح علیہ السلام کا ثبوت۔
(۱۴) حضرت مسیح علیہ السلام پر جو اعتراضات مرزا نے بہ تمسک کتب یہود کے کئے ان کا جواب۔
(۱۵) احادیث میں جو تضاد ہے ان میں تطبیق متعلقہ حیاتِ وفاتِ مسیح علیہ السلام ۔
یہ پندرہ مضمون تو اردو حصہ کے قابلِ جواب ملے۔ ایسے کئی مسائل عربی قصیدے میں ہیں۔ یاد رہے کہ ان میں سے بعض مسائل ایسے ہیں جن پر سَو سَو صفحات لکھنے ضروری ہیں۔ فرمائیے! ایک انسان سے کیا یہ ممکن ہے؟ پھر اس پر بھی مرزا صاحب کی چالاکی باقی ہے۔ بفرضِ محال کوئی ایسا کر بھی لے تو مرزا صاحب جھوٹے بننے کو تیار نہیں۔ کیونکہ جواب کے بعد بیسیوں عذر پیش کئے جاسکتے تھے کہ ہم نے جو دس ہزار روپے کا انعامی اشتہار جواب دینے کے لیے مقرر کیا ہے وہ یونہی محض جواب دینے سے نہیں مل سکتا۔ منصف مقرر کرو۔ پھر منصف کے تقرر میں، ایچ پیچ، پھر جواب الجواب کا ڈھکوسلہ۔ غرض یہ سب مرزا صاحب کی چال بازیاں ہیں۔ جنہیں ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت مولانا صاحب نے ایک نزدیک ترین راہ سے مرزا صاحب کو پکڑا۔ چنانچہ آپ نے ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء کو اشتہار دیا کہ:
آپ پہلے ایک مجلس میں اس قصیدے اعجاز یہ کو ان غلطیوں سے جو میں پیش کروں صاف کردیں۔ تو پھر میں آپ سے زانو بہ زانو بیٹھ کر عربی نویسی کروں گا۔ یہ کیا بات ہے کہ آپ گھر سے تمام زور لگا کر ایک مضمون اچھی خاصی مدت میں لکھیں اور مخاطب کو جسے آپ کی مہلت کا کوئی علم نہ ہو محدود وقت کا پابند کریں۔ اگر واقعی آپ خدا کی طرف سے ہیں اور جدھر آپ کا منہ ہے ادھر ہی خدا کا منہ ہے جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ میدان میں آکر طبع آزمائی نہ کریں بلکہ بقول حکیم سلطان محمود ساکن راولپنڈی۔
بنائی آڑکیوں دیوار گھر؟
نکل دیکھیں ہم تیری شعر خوانی
'' حرم سرا سے ہی گولہ باری کریں۔'' (۸۹۶)
چونکہ مرزا صاحب اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے خوب واقف تھے اس لیے وہ میدان میں نہ نکلے اور گھر میں ہی شور مچاتے رہے الغرض مرزا صاحب کا اس قصیدے کے جواب پر قلیل میعاد مقرر کرنا ہی ان کی اندرونی کمزوری پردال ہے۔ اگر مرزا صاحب کا کلام واقعی اس خدا کی طرف سے ہے جس نے قرآنِ پاک کی مثل لانے پر کوئی میعاد مقرر نہیں کی تو مرزا صاحب کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔
اعتراض:
ایسا اس لیے نہیں کیا گیا کہ قرآنِ (پاک) کی برابری نہ ہو۔
جواب:
جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صرف چاند کا خسوف اور اپنے لیے چاند اور سورج دونوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اسلام کی حالت پہلی رات کے چاند کی طرح اور اپنے وقت میں چودھویں رات کے چاند جیسی بتائی ہے وہاں یہ ادب کیوں روانہ رکھا گیا۔ ہاں اپنے ''معجزات و کرامات'' کو جہاں لوگوں کو پھنسانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیا ہے وہاں اگر قرآنی برکات سے بے مثل کلام الیٰ یومِ القیام کا دعویٰ کیا جاتا تو اس سے قرآن اور نبی علیہ السلام کی عزت و دبالا ہوتی نہ کہ گھٹ جاتی۔ ہاں ہاں جب یہ دعویٰ ہے کہ:
'' میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور قریب ہے کہ میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا۔'' (۸۹۷)
پھر اس جگہ کیوں دبک گئے۔ اچھا اگر قرآن کا اتنا ہی ادب ... ملحوظ تھا تو کم از کم دو چار دس پانچ سال کی میعاد تو مقرر کر دیتے۔ نہ سہی دس پانچ ماہ کی ہی کردیتے۔ جس سے قرآن کا مقابلہ بھی نہ ہوتا اور لوگوں پر حق واضح ہو جاتا، حجت پوری ہو جاتی اصل بات وہی ہے کہ مرزا صاحب اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کو ایسی ویسی بیہودہ شرائط میں منہ چھپاتے رہے۔
بیخودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
----------------------
(۸۹۴) ایضاً ص۹۰ و روحانی ص۲۰۴، ج۱۹ و مجموعہ اشتہارات ص۴۷۹، ج۳
(۸۹۵) ایضاً
(۸۹۶) الہامات مرزا ص۹۶ و فتنہ قادیانیت اور مولانا ثناء اللہ امرتسری ص۸۰
(۸۹۷) بدر جلد ۲ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۳ والحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۳ مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۱ و تذکرہ ص۶۷۴ والبشرٰی ص۱۱۹، ج۲ و ملفوظات مرزا ص۲۹۶، ج۵
برادران اعجاز احمدی کے دو حصے ہیں۔ ایک عربی جس کا ذکر ہوچکا ، دوسرا اردو جو ۳۹ صفحات کا مضمون ہے۔ مرزا صاحب نے ۲۰ دن کی میعاد میں عربی اردو دونوں حصوں کا جواب مانگا ہے وہ بھی اس طرز میں کہ '' کوئی بات رہ نہ جائے۔'' (۸۹۴)پھر کمال یہ کہ ۲۰ دن صرف جواب لکھنے کے لیے نہیں بلکہ لکھ کر اور چھپوا کر مرزا صاحب کے پاس پہنچا دینے کے لیے۔ صاحبان اتنے سے ہی مرزا کی اعجاز نمائی پر مطلع ہوسکتے ہیں۔ بیس روز کی قلیل مدت میں تین چار کام کیسے ہوں۔
(۱) تصنیف کتاب مع قصیدہ طویلہ عربیہ (۲) کاتب کی کتابت (۳) مطبع کا فعل طباعت (۴)تہ بندی و سلائی (۵) مرزا صاحب کے پاس پہنچانے کے لیے ڈاک خانہ کے دن جو خود مرزا صاحب نے ''تین دن'' مانے ہیں۔ (۸۹۵)
بھائیو! انصاف کیجئے کہ مرزا صاحب کا یہ مقابلہ مخالف علماء سے تھا یا کہ کاتب اور پریس سے بھی؟ غور کرو کہ اگر ایک مصنف بڑا جلد نویس ہو تو بھی ایک ایسے مضمون کا لکھنا جس میں مخالف کی باتوں کا اور اس کی پیشگوئیوں وغیرہ کا جواب اسی کی کتابوں کو دیکھ بھال کر دینا ہو بڑے سے بڑا پانچ صفحات روزانہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ فرض کے طور پر دس صفحات روزانہ بھی شمار کریں تو ۹ دن میں کتاب تیار ہوئی۔ اب کاتب کی باری آئی ۔ بتلائیے وہ ۲۰،۲۶ تقطیع کے نوے صفحات کتنے دنوں میں لکھے گا؟ بڑا تیز نویس ہو تو بھی فی یوم ۶ صفحوں سے زیادہ نہ لکھ سکے گا۔ پس ۱۵ یوم میں کتاب ختم ہوئی۔ اس کے بعد ابھی پریس کا مسئلہ باقی ہے۔ تجربہ کار اصحاب جانتے ہیں کہ جلدی سے جلدی دیں تو دو ہفتہ تک دیں گے پھر سلائی اور تہ بندی پر کتنے یوم خرچ ہوتے ہیں فرمائیے؟ یہ مہینے سوا مہینے کا کام ۲۰ دنوں میں کس طرح ہوسکتا ہے یہ بھی ہم نے سرسری طور پر حساب لگایا ہے۔ ورنہ اعجازِ احمدی میں عربی قصیدہ کے علاوہ جن باتوں کا ترتیب وار جواب مانگا گیا ہے۔ ایک انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ بیس پچیس دن میں طبع کرا دینا تو درکنار صرف جواب ہی لکھ سکے۔ ملاحظہ ہوں وہ امور یہ ہیں:
(۱) طاعون مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کے مطابق آئی یا نہیں؟
(۲) طلوع ستارہ ذوالسنن علامت مسیح ہے یا نہیں؟
(۳) اونٹوں کی بیکاری جو علامت مسیح موعود ہے وہ پوری ہوچکی یا نہیں؟
(۴) کسوف خسوف کی روایت صحیح ہے یا موضوع؟
(۵) بشق اول مرزا کے وقت جو کسوف و خسوف ہوا وہ اس روایت کے مطابق ہے یا نہیں؟
(۶) بشق ثانی اس روایت کا موضوع ہونا ثابت کرنا۔
(۷) پسر مصلح موعود کی پیشگوئی جو مرزا نے کی تھی اس کا ردّ ۔
(۸) لیکھ رام والی پیشگوئی کا ردّ۔
(۹) عبداللہ آتھم والی پیشگوئی کا جواب۔
(۱۰) محمدی بیگم کے نکاح والی پیشگوئی کا رد۔
(۱۱) مرزا صاحب نے جو چیلنج مباہلہ علماء کو دیا تھا اس کا جواب۔
(۱۲) دلائل وفاتِ مسیح علیہ السلام جو مرزا نے پیش کیں ان کا جواب۔
(۱۳) حیاتِ مسیح علیہ السلام کا ثبوت۔
(۱۴) حضرت مسیح علیہ السلام پر جو اعتراضات مرزا نے بہ تمسک کتب یہود کے کئے ان کا جواب۔
(۱۵) احادیث میں جو تضاد ہے ان میں تطبیق متعلقہ حیاتِ وفاتِ مسیح علیہ السلام ۔
یہ پندرہ مضمون تو اردو حصہ کے قابلِ جواب ملے۔ ایسے کئی مسائل عربی قصیدے میں ہیں۔ یاد رہے کہ ان میں سے بعض مسائل ایسے ہیں جن پر سَو سَو صفحات لکھنے ضروری ہیں۔ فرمائیے! ایک انسان سے کیا یہ ممکن ہے؟ پھر اس پر بھی مرزا صاحب کی چالاکی باقی ہے۔ بفرضِ محال کوئی ایسا کر بھی لے تو مرزا صاحب جھوٹے بننے کو تیار نہیں۔ کیونکہ جواب کے بعد بیسیوں عذر پیش کئے جاسکتے تھے کہ ہم نے جو دس ہزار روپے کا انعامی اشتہار جواب دینے کے لیے مقرر کیا ہے وہ یونہی محض جواب دینے سے نہیں مل سکتا۔ منصف مقرر کرو۔ پھر منصف کے تقرر میں، ایچ پیچ، پھر جواب الجواب کا ڈھکوسلہ۔ غرض یہ سب مرزا صاحب کی چال بازیاں ہیں۔ جنہیں ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت مولانا صاحب نے ایک نزدیک ترین راہ سے مرزا صاحب کو پکڑا۔ چنانچہ آپ نے ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء کو اشتہار دیا کہ:
آپ پہلے ایک مجلس میں اس قصیدے اعجاز یہ کو ان غلطیوں سے جو میں پیش کروں صاف کردیں۔ تو پھر میں آپ سے زانو بہ زانو بیٹھ کر عربی نویسی کروں گا۔ یہ کیا بات ہے کہ آپ گھر سے تمام زور لگا کر ایک مضمون اچھی خاصی مدت میں لکھیں اور مخاطب کو جسے آپ کی مہلت کا کوئی علم نہ ہو محدود وقت کا پابند کریں۔ اگر واقعی آپ خدا کی طرف سے ہیں اور جدھر آپ کا منہ ہے ادھر ہی خدا کا منہ ہے جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ میدان میں آکر طبع آزمائی نہ کریں بلکہ بقول حکیم سلطان محمود ساکن راولپنڈی۔
بنائی آڑکیوں دیوار گھر؟
نکل دیکھیں ہم تیری شعر خوانی
'' حرم سرا سے ہی گولہ باری کریں۔'' (۸۹۶)
چونکہ مرزا صاحب اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے خوب واقف تھے اس لیے وہ میدان میں نہ نکلے اور گھر میں ہی شور مچاتے رہے الغرض مرزا صاحب کا اس قصیدے کے جواب پر قلیل میعاد مقرر کرنا ہی ان کی اندرونی کمزوری پردال ہے۔ اگر مرزا صاحب کا کلام واقعی اس خدا کی طرف سے ہے جس نے قرآنِ پاک کی مثل لانے پر کوئی میعاد مقرر نہیں کی تو مرزا صاحب کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔
اعتراض:
ایسا اس لیے نہیں کیا گیا کہ قرآنِ (پاک) کی برابری نہ ہو۔
جواب:
جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صرف چاند کا خسوف اور اپنے لیے چاند اور سورج دونوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اسلام کی حالت پہلی رات کے چاند کی طرح اور اپنے وقت میں چودھویں رات کے چاند جیسی بتائی ہے وہاں یہ ادب کیوں روانہ رکھا گیا۔ ہاں اپنے ''معجزات و کرامات'' کو جہاں لوگوں کو پھنسانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیا ہے وہاں اگر قرآنی برکات سے بے مثل کلام الیٰ یومِ القیام کا دعویٰ کیا جاتا تو اس سے قرآن اور نبی علیہ السلام کی عزت و دبالا ہوتی نہ کہ گھٹ جاتی۔ ہاں ہاں جب یہ دعویٰ ہے کہ:
'' میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور قریب ہے کہ میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا۔'' (۸۹۷)
پھر اس جگہ کیوں دبک گئے۔ اچھا اگر قرآن کا اتنا ہی ادب ... ملحوظ تھا تو کم از کم دو چار دس پانچ سال کی میعاد تو مقرر کر دیتے۔ نہ سہی دس پانچ ماہ کی ہی کردیتے۔ جس سے قرآن کا مقابلہ بھی نہ ہوتا اور لوگوں پر حق واضح ہو جاتا، حجت پوری ہو جاتی اصل بات وہی ہے کہ مرزا صاحب اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کو ایسی ویسی بیہودہ شرائط میں منہ چھپاتے رہے۔
بیخودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
----------------------
(۸۹۴) ایضاً ص۹۰ و روحانی ص۲۰۴، ج۱۹ و مجموعہ اشتہارات ص۴۷۹، ج۳
(۸۹۵) ایضاً
(۸۹۶) الہامات مرزا ص۹۶ و فتنہ قادیانیت اور مولانا ثناء اللہ امرتسری ص۸۰
(۸۹۷) بدر جلد ۲ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۳ والحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۳ مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۱ و تذکرہ ص۶۷۴ والبشرٰی ص۱۱۹، ج۲ و ملفوظات مرزا ص۲۹۶، ج۵