• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
قرآن کریم سے جج کی مثال:
ہم لکھ آئے ہیں کہ جج مجرموں پر فرد جرم عائد کرتا ہے جس سے لوگ نصیحت پکڑتے ہیں کہ فلاں جرم قابل مواخذہ ہے اس سے اجتناب کریں ۔ بعینہٖ یہی مثال قرآن پاک سے ملتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوحی خدا لوگوں کو ہدایت فرماتے ہیں:
وَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ لوگو! صداقت کے جھٹلانے والوں کی اطاعت نہ کرنا۔ وَلَا تُطِعُ کُلَّ حَلاَّفٍ مَّھِیَنٍ۔ ھَمَّازٍ مَّشَّائٍ بِنَھِیْمٍ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ ۔ عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ۔(۶۹۰)
نہ کہا ماننا بڑے جھوٹے۔ طعن کرنے والے، چغل خور، خیر کے کام سے منع کرنے والے، حد سے نکلے ہوئے، بد عمل، متکبر، نسل بدلنے والے کا۔
دیکھئے ! یہ طریقہ ہدایت کا یعنی برے اشخاص سے پَرے رہنے کا وعظ مرزا صاحب کہا کرتے ہیں کہ اس آیت میں کافروں کو زنیم یعنی حرام زادہ کہا گیا ہے حالانکہ یہ غلط ہے جس نے یہ معنی کیے ہیں یہ اس کی اپنی رائے ہے:
لغوی معنی ہیں دَعِیُّ الْقَوْمِ لَیْسَ مِنْھُمْ ایک شخص جس کا باپ کسی دوسرے قبیلہ کا ہو مگر (وہ) کسی دوسرے قبیلے اور قوم کی طرف منسوب ہوتا ہو۔(۶۹۲)
مثلاً مرزا صاحب مغل تھے (۶۹۳) مگر بنتے تھے فارسی الاصل (۶۹۴) ماسوا اس کے اگر ہم یہی مان لیں تو بھی کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اس آیت میں کسی کا نام لے کر اس کو حرامزادہ نہیں کہا گیا بلکہ مومنوں کو ہدایت ہے کہ ایسے لوگوں سے بچو اور ان کی اطاعت نہ کیا کرو کیا بروں کی مجلس سے اجتناب کی تلقین کسی کو گالی ہے؟
عذر :
قرآن میں مخالفوں کو شَرُّ الْبَرِیَّۃِ بدتر مخلوق کہا ہے۔(۶۹۵)
الجواب:
اول تو شر البریہ کوئی گالی ہی نہیں۔ شر غیری مفید اور مضر چیز کو کہتے ہیں اور لاریب جو شخص خدا کا منکر ہو اور صداقت کا دشمن وہ نقصان رساں ہی ہے اور یقینا جملہ مخلوق سے نقصان دہ ہے اب آئیے قرآن پاک سے دیکھیں کہ ایسا کس کو کہا گیا ہے ملاحظہ ہو '' اِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ عَاھَدتَّ مِنْھم ثُمَّ ینقضون عَھْدَھُمْ ۔الآیۃ(۶۹۶) سب جاندار چیزوں سے زیادہ مضر وہ ہیں جو منکر ہوئے اور ایمان نہیں لائے یہ وہ لوگ ہیں جن سے تو نے عہد باندھا پھر انہوں نے توڑ دیا اس عہد کو۔
ناظرین کرام! میں خدا کے نام پر آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ کسی بد عہد کو نقصان دینے والا کہنا گالی ہے؟ بدتہذیبی ہے(۱)؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر کیا مرزائیوں کی ہی بدفہمی ہے کہ وہ تہذیب سے تو کورے ہیں۔ تہذیب کی تعریف بھی نہیں جانتے؟
۱۔ دیکھئے مرزا صاحب نے باوجود عدالت میں گالیوں سے اجتناب کا عہد کرنے کے پھر گالیاں دیں جس کی بنا پر مقدمہ ہوا اور فریقین کے ہزاروں روپیہ کا نقصان ہوا اور منافرت بڑھی۔ ۱۲ منہ
عذر:
قرآن میں مخالفین کو کالانعام کہا گیا ہے۔
جواب:
ہم قرآن پاک کے الفاظ سامنے رکھ دیتے ہیں۔ ناظرین خود اندازہ لگا لیں اَرَ أَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھُوَاہ ئُ فَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا ۔ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثرَھُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ھُمْ اِلاَّ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلاً (۶۹۸) ۔بھلا دیکھو تو اس آدمی کا حال جو اپنی خواہشات کا پجاری ہے۔ کیا تو ایسے شخص کا ذمہ دار ہوسکتا ہے یا کیا تو خیال کرتا ہے کہ ایسے اشخاص سننے سمجھنے والے ہوتے ہیں؟ نہیں ایسے لوگ تو چارپایوں کی مانند ہوتے ہیں۔
معزز و مصنف قارئین! اللہ کے لیے بتلاؤ اس آیت میں کونسی بد اخلاقی ہے، کیا سخت گوئی ہے، کسی کو برا بھلا کہا گیا ہے؟ انصاف!
عذر:
قرآن نے کفار کو سؤر اور خنزیر کہا۔
جواب:
یہ بہتان ہے ہاں ایک گذشتہ واقعہ کی حکایت ضرور ہے کہ بنی اسرائیل کے بعض بد اعمال و نافرمان لوگوں کو ان کی بار بار کی بد اعمالی کے سبب ان کی شکلیں مسخ کی گئیں۔ کیا یہ گالی ہے؟
میں کہتا ہوں اگر ایسے ایسے غلط اعتراضات کی وجہ سے جو خدا اور اس کے صادق و مصدوق رسول علیہ السلام کی ذات والا صفات پر مرزائیوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ خدا کا غضب ان پر بھڑکے اور ان کی شکلیں مسخ کردے اور کوئی مورخ اس واقعہ کو اپنی کتاب میں درج کرے۔ کیا کوئی دانا اس نقل کی وجہ سے مؤرخ کو بد اخلاق، بد زبان کہے گا یقینا نہیں۔
عذر:
'' اگر کوئی کسی کو کانا کہے تو دوسرے کا حق ہے کہ کہے میں کانا نہیں تم خود اندھے ہو، تمہیں میری آنکھ نظر نہیں آتی۔(۶۹۹)
الجواب:
مرزا صاحب فرماتے ہیں:
ایک بزرگ کو کتے نے کاٹا (اس کی) لڑکی بولی آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا۔ جواب دیا بیٹی انسان سے کُت پن نہیں ہوتا اس طرح انسان کو چاہیے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے نہیں تو وہی کُت پن کی مثال صادق آئے گی۔(۷۰۰)
-----------------------------------------
(۶۹۰) پ ۲۹ القلم آیت : ۱۰ تا ۱۴
(۶۹۱) ازالہ اوہام ص۲۷ تا ۳۰ و روحانی ص۱۱۶ تا ۱۱۷، ج۳ حاشیہ
(۶۹۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۷۶ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۹۶۰ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۶۹۳) تذکرۃ الشھادتین ص۳۳ و روحانی ص۳۵، ج۲۰
(۶۹۴) تحفہ گولڑویہ ص۱۸ و روحانی ص۱۱۵، ج۱۷
(۶۹۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۷۶ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۹۶۰ طبعہ ص۱۹۴۵
(۶۹۶) پ۱۰ الانفال آیت : ۵۵ تا ۵۶
(۶۹۷) احمدیہ پاکٹ ص۹۶۰ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۶۹۸) پ۱۹ الفرقان آیت : ۴۳ تا ۴۴
(۶۹۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۷۵ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۶۶۰ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۷۰۰) تقریر مرزا مورخہ ۲۸؍ ستمبر ۱۸۹۷ء برجلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء مندرجہ رپورٹ جلسہ ص۹۹ و ملفوظات مرزا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
ملاحظہ ہو مرزا صاحب تو اس جگہ فعل سے بری ہونا چاہتے ہیں مگر ہمارے احمدی دوست ہیں کہ خواہ مخواہ مرزا صاحب کو اس صف میں لانا چاہتے ہیں جہاں ایسے نادان دوست ہوں وہاں مرزا صاحب کی دانا دشمنوں سے حفاظت بعینہٖ ایسی ہوگی فَرَّ مِنَ الْمَطَرِ وَقَامَ تَحْتَ الْمِیْزَابِ یعنی مینہ سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہوا مرزا صاحب کی روح یقینا آپ کو کہتی ہوگی:
کئے لاکھوں ستم اس پیار میں بھی آپ نے ہم پر
خدانخواستہ گر خشمگیں ہوتے تو کیا ہوتا
عذر:
گالی اور امرِ واقع میں فرق ہے۔ مطلب یہ کہ مرزا نے جو کچھ کہا ہے واقعی لوگ اس کے حق دار ہیں۔(۷۰۱)
الجواب:
(۱) یہ مرزا صاحب کی گالیوں سے بھی بڑھ کر گالی ہے یعنی علماء اسلام فضلاء انام کو سچ مچ سؤر، کتے، بے ایمان، دجال وغیرہ بنانا مرزائیو! اللہ سے ڈرو، یقین جانو اس طرح مخالفوں کو بھی حق ہے کہ وہ ان جملہ القاب کا آپ کے مسیح موعود اور جملہ علماء احمدیہ کو حقیقی مصداق قرار دیں اور یقینا امرِ واقع یہی ہے۔ ایمان سے کہو اس سے تمہیں کچھ رنج ہوا ہے یا نہیں؟ اگر ہوا ہے تو یہی حال ہمارا ہے جن کے مسلمہ بزرگوں کو تمہارے مسیح موعود، نبی اللہ، رسول اللہ نے انتہائی غیر شریفانہ طرز میں گالیاں دی ہیں۔
(۲) الزامی جواب۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' خدا تعالیٰ کی سچی اطاعت اور نوع انسان کی بھلائی وہی شخص بجا لاسکتا ہے جو وقت شناس ہو ورنہ نہیں، مثلاً ایک شخص گوراست گو ہے مگر اپنی راستی کو حکمت کے ساتھ ملا کر استعمال نہیں کرتا بلکہ لاٹھی کی طرح مارتا ہے اور بے تمیزی سے ایک شریف خصلت کو بے محل کام میں لاتا ہے تو وہ ایک حکیم منش کے نزدیک ہرگز قابل تعریف نہیں ٹھہرتا ایسے کو جاہل نیک بخت کہیں گے نہ دانا نیک بخت، اگر کوئی اندھے کو اندھا اندھا کرکے پکارے اور پھر کسی کے منع کرنے پر یہ کہے کہ میاں کیا میں جھوٹ بولتا ہوں تو اسے یہی کہا جائے گا کہ بیشک تو راست گو ہے مگر احمق یا شریر کہ جس راستی کے اظہار کی تجھے ضرورت ہی نہیں اس کو واجب الاظہار سمجھتا ہے اور اپنے بھائی کے دل کو دکھاتا ہے۔'' (۷۰۲)
-----------------------------------------------------------------
ص۶۴، ج۱ و تفسیر مرزا ص۲۲۱، ج۴ ملخصًا
(۷۰۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۹۶۰، تفہیمات ربانیہ ص۵۲۶ و تحقیق عارفانہ ص۷۸۳
(۷۰۲) شحنہ حق ص۴۰ و روحانی ص۳۶۶، ج۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر آٹھویں دلیل

مرزا صاحب کے مغالطے
مرزا صاحب کی ساری عمر انہی چالوں میں گزری کہ عجب طرح کے ہے تکے گول مول فقرات بنام الہامات مبنی پر پیشگوئیاں گھڑا کرتے تھے جیسا کہ ہم شروع میں اس کی متعدد امثلہ درج کر آئے ہیں۔ اس '' کوڑھ پرکھاج'' یہ کہ اس عیار عطار کی مانند جو بیماری کے دنوں میں ایک ہی بوتل سے ہر طرح کے شربت دیا کرتا ہے۔ کسی کو نیلوفر کی ضرورت ہوتی تو اسی سے نکال دیا کوئی بنفشہ لینے آیا تو اسی سے دے دیا، کوئی سکنجین مانگے تو اسی سے الٹ دیا وغیرہ۔ مرزا صاحب بھی اپنے الہامات سے اسی طرح کام لیا کرتے تھے ایک ہی الہام ہوتا تھا حسبِ ضرورت اسے جگہ بہ جگہ چسپاں کردیا کرتے تھے بطور نمونہ چند امثلہ درج کی جاتی ہیں:
مثال نمبر ۱:
۹ جنوری ۱۹۰۳ء قُتِلَ خَیْبَۃً وَزِیْدَ ھَیْبَۃً ایک شخص جو مخالفانہ کچھ امید رکھتا تھا۔ وہ نا امیدی سے ہلاک ہوگیا اور اس کا مرنا ہیبت ناک ہوگا۔(۷۰۳)
اس الہام میں عجب دو رنگی ہے قتل صیغہ واحد مذکر غائب مجہول فعل ماضی ہے جس کے معنی میں مارا جا چکا زمانہ گزشتہ میں چنانچہ مرزا جی بھی اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں '' نا امیدی سے ہلاک ہوگیا'' مگر آگے چل کر لکھتے ہیں '' اس کا مرنا ہیبت ناک ہوگا'' یعنی آئندہ۔ خیر اس میں تطبیق ہوسکتی ہے کہ مر تو گیا ہے مگر اس کی موت کا نتیجہ آئندہ برا اثر ڈالے گا۔ مگر مرزا صاحب کے ذہن میں یہ مفہوم نہ تھا بلکہ دو رنگی تھی جو آگے آتی ہے بہرحال اس الہام میں کسی کے نامراد و ناکام مرنے کا ذکر ہے گوراولوں کی طرح گول مول اور بلا تعین ہے آگے چلیے خدا کی قدرت اس الہام کے دو چار دن بعد ہی ایک غریب ماشکی جو مرزا صاحب کا مخالف تھا مر گیا تو مرزا صاحب نے ہاں ان مرزا صاحب نے جن کا دعویٰ تھا کہ:
'' میں نبی ہوں'' اور نبیوں کے جملہ افعال و اقوال اور خیالات سب تصرف باری سے ہوتے ہیں۔(۷۰۴)
'' ایک سقہ مر گیا اسی دن اس کی شادی تھی آپ نے فرمایا مجھے خیال آیا قُتِلَ خَیْبَۃً وَزِیْدَ ھَیْبَۃً جو وحی ہوئی تھی وہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔''(۷۰۵)
ناظرین! اصل الہام میں کسی مخالف کی گزشتہ ناکام موت کا ذکر تھا۔ مگر اس جگہ مرزا نے عجب ہوشیاری سے اسے ماشکی پر لگا دیا ہے۔ خیر یہ تو ان کی ایک معمولی عادت تھی۔ آگے چلئے۔ ملک کابل میں مرزا صاحب کے دو مرید میاں عبدالرحمن و مولوی عبداللطیف سنگسار کیے گئے تو مرزا صاحب نے مؤرخہ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو لکھا:
'' اس سے پہلے ایک صریح وحی الٰہی مولوی عبداللطیف کی نسبت ہوئی تھی یہ وحی البدر ۱۶؍ جنوری ۱۹۰۳ء کالم دو میں شائع ہوچکی ہے جو مولوی صاحب کے مارے جانے کے بارے میں ہے اور وہ یہ ہے قُتِلَ خَیْبَۃً وَزِیْدَ ھَیْبَۃً یعنی ایسی حالت میں مارا گیا کہ اس کی بات کو کسی نے نہ سنا۔ اور اس کا مارا جانا ہیبت ناک امر تھا یعنی لوگوں کو بہت ہیبت ناک معلوم ہوا اور اس کا بڑا اثر دلوں پر ہوا۔'' (۷۰۶)
برادران ! مرزا صاحب کی چالاکیوں اور مغالطوں پر غور کیجئے۔ کہاں ایک گول مول بے تکا فقرہ بے تعیین اور جس میں کسی مخالف کی گزشتہ موت کا حوالہ تھا پھر کہاں قادیان کا ایک بے ضرر غریب ماشکی جو مرزا کے گھر پانی بھرا کرتا تھا اور کہاں عبداللطیف کابلی مرزائی جو نہ مخالف مرزا تھا اور نہ اس کی موت ناکام و نامراد تھی بلکہ اگر مرزا صاحب صادق تھے تو اس کی موت اعلیٰ شہادت تھی نہ کہ نامرادی کی۔ پھر مزا یہ کہ کہتے ہیں۔ عبداللطیف کی موت کا صریح الہام تھا۔
----------------------------------------------------
(۷۰۳) البدر جلد ۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۰۳ء ص۹۶ و الحکم جلد ۷ نمبر۲ مورخہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۳ء ص۱۶ و البشرٰی ص۷۷، ج۲
(۷۰۴) مفہوم ریویو ص۷۱،۷۲ جلد دوم
(۷۰۵) البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍ فروری ۱۹۰۳ء ص۳۴ و ملفوظات مرزا ص۶۹۱، ج۲ فرمودہ ۱۴؍ جنوری ۱۹۰۳ء
(۷۰۶) اشتھار مرزا مورخہ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۵۰۲، ج۳ وتذکرۃ الشھادتین ص۷۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مثال نمبر ۲:
۱۸۸۰ء کے درمیانی زمانہ میں بوقت تالیف '' براہین احمدیہ'' مرزا صاحب نے ایک الہام سنایا تھا:
شاتانِ تُذْبَحَانِ وَکُلّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ
دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور زمین پر کوئی نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا۔ کوئی چار روز پہلے اس دنیا کو چھوڑ گیا کوئی پیچھے اسے جا ملا۔(۷۰۷)
کیا بے تعیین و تخصیص عام رنگ کا الہام ہے دنیا میں ہر روز ہزارہا بکرے ذبح ہوتے ہیں۔ خود مرزا صاحب کو ایک ''الہام'' ہوا تین بکرے ذبح کئے جائیں گے آپ نے تین بکرے اس کے بعد ذبح کر دئیے۔(۷۰۸)
جو ایک معمولی بات ہے مگر چونکہ مرزا صاحب کا مطلب ان جیسے الہاموں کے گھڑنے سے کچھ اور ہی تھا۔ چنانچہ اس الہام پر جب قریباً ۱۵،۱۷ برس گزر گئے تو منکوحہ آسمانی کی پیشگوئی کے دوران میں آپ کو یہ یاد آیا۔ پھر کیا تھا نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ آپ نے جھٹ سے اس الہام کو آسمانی خسر اور زمینی رقیب مرزا احمد بیگ و سلطان محمد پر لگا دیا کہ دو بکریوں سے یہ مراد ہیں جو یقینا ذبح ہوں گی۔(۷۰۹)
چونکہ قدرت کو مرزا کا کذب منظور تھا وہ بھی اچھی طرح ذلت و خواری کے بعد اس لیے سلطان محمد نہ مرا اور یہ الہام جوں کا توں رہ گیا آخر سوچتے سوچتے ۱۹۰۳ء میں اسے بھی عبداللطیف و عبدالرحمن کابلی مقتولوں پر چسپاں کرنے کی سوجھی۔ چنانچہ آپ نے بکمال '' شان نبوت'' اس الہام کو ان کی موت پر لگا دیا۔
'' خدا تعالیٰ (براہین احمدیہ میں) فرماتا ہے دو بکریاں ذبح کی جائینگی یہ پیشگوئی مولوی عبداللطیف اور ان کے شاگرد عبدالرحمن کے بارے میں ہے جو پورے تئیس برس بعد پوری ہوئی۔'' (۷۱۰)
ہندو ، مسلم، سکھ اور مسیح بھائیو! کہہ دو۔ غلام احمد کی جے۔(۷۱۱)
------------------------------------
روحانی ص۷۵،ج۲۰ و حاشیہ تذکرہ ص۴۵۰
(۷۰۷) براھین احمدیہ ص۵۱۱، ج۴ وتذکرہ ص۸۸ و روحانی ص۶۱۰،ج۱
(۷۰۸) بدر جلد ۲ نمبر۱ مورخہ ۵؍ جنوری ۱۹۰۶ء ص۲ والحکم جلد نمبر۱ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۶ء ص۱ وتذکرہ ص۵۸۹ والبشرٰی ص۱۰۵، ج۲
(۷۰۹) ضمیمہ انجام آتھم ص۵۷ و روحانی ص۳۴۱، ج۱۱
(۷۱۰) تذکرۃ الشھادتین ص۷۱ و روحانی ص۷۲، ج۲۰
(۷۱۱) یہ بھی مرزا جی کا الہام ہے ، تذکرہ ص۷۲۳ و مکاشفات مرزا ص۶۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مثال نمبر ۳:
۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ ء کے اخبار الحکم صفحہ ۹ پر مرزا صاحب کے کئی الہام درج ہیں۔ ان میں سے یکم جون ۴ء کا الہام ہے:
عَفَتِ الدیار مَحَلُّھَا وَمَقَامُھَا۔(۷۱۲)
خطوط وحدانی کے اندر اس کے آگے لکھا ہے (متعلقہ طاعون) اسی کی تائید مزید اشتہار الوصیت میں یوں کی گئی ہے:
دوستو! میں نے خدا کی طرف سے اطلاع پا کر یہ وحی شائع کرائی تھی عَفَتِ الدِّیَارُ مُحَلُّھنا ومقامُھا (دیکھو اخبار الحکم ۳۰؍ مئی ۱۹۰۴ء (غلط ہے)۔ صحیح ۳۱؍ مئی ہے ناقل) نمبر ۱۸ جلد ۸ کالم ۳ (یہ بھی جھوٹ ہے کالم ۴ میں ہے) قرآن میں بھی آتا ہے کہ طاعون اس کثرت سے ہوگی کہ کوئی جگہ پناہ کی نہ رہے گی۔ میرے الہام عفت الدیار محلھا ومقامھا کے یہی معنی ہیں۔ (۷۱۳)
معلوم ہوا کہ اس الہام میں طاعون کی پیشگوئی ہے مگر اب مرزا صاحب کی استادی دیکھو کہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو پنجاب میں زلزلہ عظیم آیا تو مرزا صاحب نے جھٹ سے الہام کو چالاک عطار کی طرح اس زلزلے پر لگا دیا۔ چنانچہ اشتہار '' الانذار'' مؤرخہ ۸؍ اپریل ۵ء پر یوں لکھا:
دیکھو وہ نشان کیسا پورا ہوا، پیشگوئی اس زلزلہ سے پہلے شائع کردی گئی۔ پیشگوئی یہ ہے عفت الدیار محلھا ومقامھا اے عزیزو اس کے یہی معنی ہیں کہ محلوں اور مقاموں کا نام و نشان نہ رہے گا۔ (سبحان اللہ! کیا عربی دانی ہے لکھے نہ پڑھے نام محمد فاضل) طاعون تو صرف صاحب خانہ کو لیتی ہے۔ مگر جس حادثہ کی اس وحی میں خبر دی گئی تھی اس کے معنی تو یہی ہیں نہ خانہ رہے گا نہ صاحبِ خانہ سو خدا کا فرمودہ پورا ہوا۔(۷۱۴)
دیکھا جناب کہ ایک ہی الہام سے طاعون مراد لی اور وہ بھی بصورت حصر اور قرآن کی تائید سے اور پھر اسی سے زلزلہ بھی۔
مغالطہ در مغالطہ:
اس الہام کو سناتے وقت تو اسے متعلقہ طاعون ظاہر کیا اور اس کے بعد اشتہار الوصیت میں بھی بڑے زور سے ''یہی'' کے لفظ سے طاعون کے بارے میں کہا مگر جب زلزلہ پر لگایا اور لوگوں نے اس پر اعتراض کیا کہ پہلے آپ اسے طاعون کے متعلق کہہ چکے ہیں تو جواب دیا کہ:
اسے طاعون کے متعلق لکھنا ایڈیٹر الحکم کی غلطی ہے اور اجتہادی غلطی انبیاء سے بھی ہو جاتی رہی ہے۔(۷۱۵)
کس قدر مغالطہ ہے ایڈیٹر الحکم کی کیا مجال کہ وہ '' حضرت مسیح موعود نبی اللہ'' کی زندگی میں ان کے پاس رہتے ہوئے از خود ان کے ایک گول مول الہام کو متعین کردے۔ اسے بھی چھوڑو بھلا اخبار الحکم کے الفاظ پر تو یہ عذر کردیا۔ مگر ہاتھی کے کانوں جتنے لمبے طویل طویل اشتہار ''الوصیت'' میں بھی ایڈیٹر الحکم نے اسے طاعون کے متعلق لکھا ہے؟ وہ تو خود مرزا صاحب کا اشتہار ہے۔ کہیے اس کی کیا تاویل ہے؟
------------------------------------
(۷۱۲) الحکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخہ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء ص۹ والبدر جلد ۳ نمبر ۲۰،۲۱ مورخہ ۲۴؍ مئی و یکم جون ۱۹۰۴ء ص۱۵
(۷۱۳) اشتھار مرزا مورخہ ۲۷؍ فروری ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۵۱۵، ج۳ وتبلیغ رسالت ص۷۲ تا ۷۵، ج۱۰
(۷۱۴) مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۵۲۳، ج۳ وتبلیغ رسالت ص۸، ج۱۰
(۷۱۵) براھین احمدیہ ص۱۵، ج۱۵ و روحانی ص۱۶۸، ج۲۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مثال نمبر ۴:
البشریٰ جلد ۲ ص ۹۹ پر الہام:
'' خدا نے اس کو اچھا کرنا ہی نہیں تھا الخ۔'' (۷۱۶)
گو ایک سابقہ مرید کی صحت پر لگایا ہے (۷۱۷) مگر تتمہ حقیقۃ الوحی کہا کہ:
'' مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کی موت کے بارے میں یہ الہام تھا۔''(۷۱۸)
مثال نمبر ۵:
ایسا ہی مرزا جی کا الہام '' ۴۷ سال کی عمر انا اللہ'' اور اخبار الحکم ۱۰؍ دسمبر ۵ء میں لکھا کہ '' یہ الہام اس شخص کے متعلق ہے جس کا خط آیا ہے کہ میں نے ۴۷ سال یونہی گناہوں میں زندگی خراب کردی''(۷۱۹) مگر تتمہ حقیقۃ الوحی میں اسے بھی مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کی موت پر چسپاں کردیا۔(۷۲۰)
اس قسم کے مغالطوں کی بیسیوں مثالیں الہامات مرزا میں موجود ہیں مگر بنظرِ اختصار اسی پر بس کرکے چند ایک دوسری قسم کے مرزا صاحب کے مغالطے درج کئے جاتے ہیں تاکہ صاحب انصاف لوگ ہر طور پر مرزا صاحب کے غیر صادق ہونے کو ملاحظہ فرمالیں۔
مثال نمبر ۶:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے موعود حضرت مسیح ابن مریمi کو فرمایا ہے چونکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد اور مال کا نام چراغ بی بی تھا۔(۷۲۱) اس لیے آپ نے لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کو یہ چال چلی کہ بعض ''اکابر صوفیہ'' کی کتابوں میں تصرف کرکے کہا کہ آنے والا مسیح صرف بروزی رنگ میں ہے نہ کہ حقیقی ۔ چنانچہ ایک شخص نے مرزا جی سے سوال کیا کہ '' صرف الفاظ عیسیٰ یا مسیح اگر احادیث میں ہوتا تو مثل کی گنجائش تھی لیکن ابن مریم سے اصل ہی کا آنا ثابت ہوتا ہے'' جواباً مرزا جی نے لکھا:
'' ہم بھی کہتے ہیں مثیل آیا، مگر بطور بروز، دیکھ تو اقتباس مقام کتاب جس میں لکھی ہیں یہ تمام رموز، روحانیت کمل گاہے بر ارباب ریاضت چناں تصرف میفر مائد کہ فاعل افعال شان میگردد وایں مرتبہ را صوفیا بروز میگوئیذ و بعضے براند کہ روح عیسیٰ در مہدی بروز کنند و نزول عبارت ازیں بروز است مطابق ایں حدیث لا مھدی الا عیسیٰ۔ (۷۲۲)
مرزا جی مزید لکھتے ہیں:
'' کتاب اقتباس الانوار میں جو تصنیف شیخ محمد اکبر صابری ہے۔ جس کو صوفیوں میں بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے یہ عبارت لکھی ہے۔'' (۷۲۳)
تحریر مذکورہ میں مرزا صاحب نے '' حضرت شیخ محمد اکرم صابری'' کی مقدس وذی حرمت ہستی کا سکہ بٹھاتے ہوئے اپنی من گھڑت تاویل (آمد مسیح بصورت بروز) کی تائید میں ان کی کتاب کو پیش کیا ہے۔ حالانکہ کتاب اقتباس الانوار میں اس بروز وغیرہ کے عقیدے کو بغایت بودا لکھا ہے۔ چنانچہ عبارت ذیل ملاحظہ ہو:
'' وبعضے براند کہ روح عیسیٰ در مہدی بروز کنند و نزول عبارت ازیں بروز است مطابق حدیث لا مَھْدِیَّ الاَّ عِیْسیٰ وایں مقدمہ بغایت ضعیف است۔'' (۷۲۴)
آگے چل کر صفحہ ۷۲ پر فرماتے ہیں:
'' یک فرقہ برآں رفتہ اند کہ مہدی آخر الزماں عیسی ابن مریم است وایں روایت بغایت ضعیف است زیرا کہ اکثر احادیث صحیح و متواتر از حضرت رسالت پناہ در دو یافتہ کہ مہدی از بنی فاطمہ خواہد بود و عیسیٰ بن مریم باو اقتدا کردہ نماز خواہد گزار دو جمیع عارفین صاحب تمکین بریں متفق اند!۔''(۷۲۵)
حضرات! ملاحظہ ہو اس تحریر میں بالفاظ اصرح حضرت شیخ محمد اکرم صاحب صابری جن کے نام پر مرزا صاحب نے عوام کو مغالطہ دیا ہے اس قول کو مردود قرار دیتے ہیں اور حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کے نزول کو احادیث صحیحہ و متواترہ سے مدلل و مبرہن بتا کر جمیع عارفان باتمکین کا متحدہ و متفقہ عقیدہ ظاہر فرماتے ہیں۔
بھائیو! یہ ہے دیانت اور ایمانداری مرزا صاحب مدعی نبوت و رسالت کی کہ دھاک تو بٹھاتے ہیں شیخ محمد اکرم صاحب کے نام کی اور اقوال وہ پیش کرتے ہیں جنہیں خود شیخ موصوف مردود کہہ چکے ہیں۔ قطع نظر اس مغالطہ مرزا کے شیخ موصوف کی عبارت سے واضح ہے کہ روایت لَا مَھْدِی الاعیسیٰ بغایت ضعیف ہے۔
احمدی دوستو! دیکھو تمہارے نبی کے مسلمہ بزرگ کی زبان سے ثابت ہوگیا ہے کہ مرزا صاحب مہدی و مسیح کو ایک بتاتے اور روایت لَا مھدی الاعیسیٰ کو صحیح ٹھہرانے میں جھوٹا ہے کہو تم اس '' اکابر از صوفیا متاخرین بودہ اند'' کے قول پر ایمان لاتے ہو یا ان کی بزرگی و للہیت کا انکار کرے مرزا صاحب کی تکذیب پر آمادہ ہو:
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
--------------------------------
(۷۱۶) بدر جلد ۱ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۵؍ جون ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر ۲۲ مورخہ ۲۴؍ جون ۱۹۰۵ء ص۴ وتذکرہ ص۵۵۶
(۷۱۷) ہم قارئین کے سامنے پوری عبارت رکھتے ہیں تاکہ ناظرین فیصلہ خود کرلیں، تذکرۃ ص۵۵۶ میں بحوالہ اخبار، بدر، احد، الحکم ، مرزا کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ ہماری جماعت کے چار آدمیوں میں سے جو سخت بیمار ہوئے تھے اسی جگہ باغ میں ان میں سے ایک کے متعلق الہام ہوا۔ خدا نے اس کو اچھا کرنا ہی نہیں تھا۔ بے نیازی کے کام ہیں۔ اعجاز المسیح، یعنی اس کی موت تقریر مبرم کی طرح تھی گویا مبرم تھی مگر یہ معجزہ مسیح موعود ہے کہ اسی کو خدا نے اچھا کردیا، انتھی بلفظہٖ۔ ابو صہیب
(۷۱۸) تتممہ حقیقت الوحی ص۲۶ و روحانی ص۴۵۸، ج۲۲
(۷۱۹) بدر جلد ۱ نمبر ۲۳ مورخہ ۷؍ ستمبر ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد۹ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۵ء ص۳ وتذکرہ ص۵۶۲ و البشرٰی ص۱۰، ج۲
(۷۲۰) تتممہ حقیقت الوحی ص۲۶ و روحانی ص۴۵۸، ج۲۲
(۷۲۱) تاریخ احمدیت ص۶۷،ج۱
(۷۲۲) ایام الصلح ص۱۳۵ و روحانی ص۳۷۹، ج۱۴
(۷۲۳) ایضًا ص۱۳۸ و روحانی ص۳۸۳، ج۱۴
(۷۲۴) اقتباس الانوار ص۵۲
(۷۲۵) ایضًا ص۷۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مثال نمبر ۷:
مرزا صاحب نے تو ڈپٹی عبداللہ آتھم عیسائی امرتسری سے پندرہ دن مباحثہ کرنے کے بعد یہ محسوس کرتے ہوئے کہ میرے آسمانی عجائبات، روحانی معارف، قادیانی علم کلام سے ایک بھنگی بھی متاثر نہیں ہوا۔ آخری روز یہ پیشگوئی جڑی کا میرا حریف اور مد مقابل پندرہ ماہ میں بسزائے موت ہاویہ میں گرے گا۔ ایسا نہ ہو تو مجھے لعنتی ٹھہرا کر پھانسی کے تختے پر لٹکا دینا وغیرہ۔(۷۲۶)
قدرت کے بھی عجیب کام ہیں کہ وہ سال خوردہ بڈھا جو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا۔ ان پندرہ ماہ میں شکار موت تو درکنار معمولی معمولی امراض زکام وغیرہ سے بھی محفوظ و مامون رہا۔ جس سے قادیانی قصر نبوت میں تہلکہ مچ گیا۔ بڑے بڑے مقرب حواری جو آہنی میخوں اور چوبی شہیتروں کی مانند اس کے مامن و ملجا اور زینت و آرائش تھے، ڈگمگا اٹھے اور کئی ایک مریدان باصفا عیسائی ہوگئے۔ (۷۲۷)
تب مرزا صاحب نے یہ '' عذر گناہ بدتر از گناہ'' پیش کیا کہ وہ عبداللہ آتھم دل میں ڈر گیا ہے۔ چنانچہ میرے ملہم نے مجھے اس کی اطلاع دی ہے۔ اگر آتھم انکاری ہو تو حلف مؤکد بعذاب میعادی ایک سال اٹھاوے۔(۷۲۸)
مقصود اس سے مرزا جی کا یہ تھا کہ بصورت قسم کھانے عبداللہ آتھم کے اول تو پہلی رسوائی دور ہو جائے گی۔ دوئم آئندہ ایک سال کے لیے مہلت بڑھ جائے گی جس کے دوران میں اگر اتفاقاً مر گیا تو چاندی ہے ورنہ اور چال چلیں گے اور کہہ دیں کے رجوع بحق کی شرط الہام میں موجود ہے۔ سو عبداللہ آتھم نے قسم کھانے سے اپنا رجوع ثابت کردیا۔ کیونکہ عیسائی مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے اور آتھم نے قسم کھا کر ترک عیسائیت کا ثبوت دیا ہے۔
فھو المطلوب
مگر ڈپٹی آتھم اپنے مذہب سے پورا ماہر، دوربین، نکتہ شناس تھا وہ بھلا ان چالوں میں کب آنے والا تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ حضرت! میں ان جھانسوں میں آنے والا نہیں ہوں۔ کیا آپ کے خونی فرشتوں کو پہلے موقع میرے مارنے کا نہیں ملا کہ اب ایک سال کی مہلت مانگتے ہو۔ باقی رہا قسم کھانے کا معاملہ۔ سو جبکہ میرے مذہب میں ممنوع ہے تو میں کیسے کھا سکتا ہوں۔
تب مرزا صاحب نے باوجود یہ جاننے کے واقعی آتھم کے مذہب میں قسم کھانا ناروا ہے۔ اپنے مریدوں اور عامہ اہل اسلام اور متبعین غیر ادیان کو یوں مغالطہ دیا کہ:
(ا) وہ ایک جھوٹا عذر کر رہے ہیں کہ ہمارے مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے۔ (۷۲۹)
(ب) یہ سب جھوٹے بہانے ہیں کہ قسم کھانا ممنوع ہے۔(۷۳۰)
آہ! کس قدر شوخی ہے کہ ایک صحیح بات سے انکار کرکے عوام کو دھوکہ میں ڈالا ہے۔
مرزائی دوستو! اگر اس تحریر کی بنا پر تم کسی مجلس مناظرہ یا پرائیویٹ گفتگو میں عبداللہ آتھم کے اس عذر ''ہمارے مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے'' کو جھوٹا بہانہ کہہ اٹھو اور مخاطب علاوہ انجیل کے خود تمہارے مجدد مسیح زمان مرزائے قادیان کی کتاب کشتی نوح نکال کر تمہارے رو برو پیش کردے جس میں مرزا صاحب صاف اقراری ہیں کہ:
'' قرآن انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہرگز قسم نہ کھاؤ۔'' (۷۳۱)
تو بتلاؤ اور ایمانداری سے بتلاؤ کہ اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی؟
---------------------------------------
(۷۲۶) جنگ مقدس ص۱۸۸ تا ۱۸۹ و روحانی ص۲۹۲، ج۶ وتذکرہ ص۲۲۶ و مجموعہ اشتھارات ص۴۳۵، ج۱
(۷۲۷) حاشیہ انور الاسلام ص۲۷ و روحانی ص۲۸ ، ج۹
(۷۲۸) اشتھار مرزا مورخہ ۹ ؍ ستمبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۵۱، ج۲
(۷۲۹) اشتھار مرزا مورخہ ۲۷ ؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات مرزا ص۹۳، ج۲ وروحانی ص۱۰۰، ج۹
(۷۳۰) تریاق القلوب ص۹۸ و روحانی ص۳۶۲، ج۵
(۷۳۱) کشتی نوح ص۲۷ و روحانی ص۲۹، ج۱۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مثال نمبر ۸:
مرزا صاحب ابتداء ایک مسلم الہام یافتہ کی حیثیت میں ظاہر ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے اس کے اوپر کے زینہ پر قدم رکھا یعنی اپنی وحی کو انبیاء کرام علیہ السلام کی وحی کی مانند قرار دیا۔ تب بقول مرزا صاحب بعض علماء نے اس قسم کی وحی کے نزول سے انکار کیا۔ جس کے جواب میں مرزا جی نے حضرت مجدد سرہندی رحمہ اللہ کی ایک تحریر اپنی تائید میں بایں الفاظ پیش کی:
'' امام ربانی اپنے مکتوبات میں صاف لکھتے ہیں کہ غیر نبی بھی مکالمات حضرت احدیت سے مشرف ہو جاتا ہے اور ایسا شخص محدث کے نام سے موسوم ہوتا ہے اور انبیاء کرام کے مرتبہ سے اس کا مرتبہ قریب واقع ہوتا ہے۔''(۷۳۲)
حضرت مجدد صاحب رحمہ اللہ کی تحریر کے جن کے الفاظ غیر نبی محدث کو ہم نے نمایاں کرکے لکھا ہے ناظرین انہیں یاد رکھیں۔ اس کے بعد جب مرزا جی نے کھلم کھلا نبوت کا دعویٰ کیا تو انہی حضرت مجدد صاحب کی اسی تحریر کو یوں نقل کیا:
مجدد سر ہندی رحمہ اللہ نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف کیا جائے وہ نبی کہلاتا ہے۔(۷۳۳)
قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیے۔ اس جگہ مرزا صاحب نے کیسے صریح الفاظ میں عوام کو مغالطہ دیا ہے کہ لفظ غیر نبی محدث کو اڑا کر نبی کا لفظ لکھ دیا وہ بھی بایں طرز کہ جن الفاظ کو حضرت مجدد رحمہ اللہ صاحب کی طرف منسوب کیا ہے ان پر خط کھینچ دیا ہے گو یہ اصل الفاظ حضرت موصوف کے ہیں۔ معاذ اللہ کتنی مجرمانہ جرأت اور بے باکانہ جسارت ہے کہ بے خبر لوگوں کو مغالطہ دینے کے لیے اور نبوتِ کاذبہ کو منوانے کے لیے مقبولانِ خدا کی تحریروں میں خیانت کی جاتی ہے آہ :
نہ پہنچا ہے نہ پہنچے گا تمہاری ستم کیشی کو
اگرچہ ہوچکے ہیں تم سے پہلے فتنہ گر لاکھوں
-----------------------------
(۷۳۲) براھین احمدیہ ص۵۴۶، ج۴ و روحانی ص۶۵۲،ج۱
(۷۳۳) حقیقت الوحی ص۳۹۰ و روحانی ص۴۰۶، ج۲۲ نوٹ: مرزا جی کی یہ ڈھٹائی اوردیدہ دلیری دیکھئے کہ اپنی نبوت کازبہ ثابت کرنے کے لیے مجدد الف ثانی کی عبارت نقل کی ہے اور اس میں ایک لفظ خود اپنی طرف سے بڑھا دیا ہے حالانکہ حضرت مجدد الف ثانی کی جس عبارت کا حوالہ مرزا جی نے دیا ہے وہ یہ ہے کہ اعلم ایھا الصدیق ان کلامہ سبحان مع البشر قدیکون شفاھا وذالک لافراد من الانبیاء وقد یکون ذلک لبعض الکمل من متابعیھم واذا کثر ھذا القسم من الکلام مع واحد منھم سمی محدثًا۔ مکتوبات ص۹۹، ج۲ ملاحظہ کریں کہ حضرت کی عبارت 'محدث' کے لفظ کو نبی کے لفظ سے بدل دیا ہے۔ خود مرزا نے ازالہ اوہام ص۹۱۵ میں تحفہ بغداد ص۲۱ میں اور براہین احمدیہ ص۵۴۶ میں لفظ 'محدث' سے نقل کی ہے مگر جب ۱۹۰۱ء میں نبوت کا کھل کے دعوی کیا تو حقیق الوحی میں محدث کے لفظ کو نبی میں بدل دیا۔ محمد علی مرزائی لاہوری اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: جب ہم مجدد صاحب کے مکتوبات کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہ نہیں پاتے کہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ پانے والا نبی کہلاتا ہے بلکہ وہاں لفظ محدث ہے ''النبوۃ فی الاسلام ص۲۴۸'' پھر آگے اس صریح خیانت کی تاویل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ در حقیقت مرزا نے یہاں لفظ نبی کو محدث ہی کے معنیٰ میں استعمال کیا ہے اور اگر اس توجیہہ کو قبول نہ کیا جائے تو حضرت مسیح موعود پر یہ الزام عائد ہوگا کہ آپ نے تعوذ باللہ اپنی مطلب برآری کے لیے مجدد صاحب کی عبارت میں تحریف کی ہے، حوالہ ایضًا ، حالانکہ مرزا خود لفظ نبی کو اپنے کلام میں محدث کے معنی میں استعمال کرتے تو ایک بات بھی تھی حضرت کی طرف زبردستی لفظ نبی منسوب کرکے اسے محدث کے معنیٰ میں قرار دینا کونسی شریعت اور عقل کی رو سے جائز ہے؟ حیرت ہے ان لوگوں کی عقلوں پر جو مرزا کے کلام میں ایسی ایسی صریح خیانتیں دیکھتے ہیں اور پھر اسے نبی مسیح موعود' محدث' اور مجدد قرار دینے پر مصر ہیں۔ ابو صہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مثال نمبر ۹:
صوفیاء عظام میں ایک بزرگ شیخ ابنِ عربی رحمہ اللہ گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ''فصوص الحکم'' میں ایک پیش گوئی کی ہے کہ:
'' بنی نوع انسان میں ایک آخری لڑکا ہوگا جس کے بعد نسل انسانی کا خاتمہ ہو جائے گا لوگ اس وقت بکثرت نکاح کریں گے مگر بوجہ مرض عقم کوئی اولاد نہ ہوگی۔ اس لڑکے کے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوگی جس اس سے پہلے نکلے گی اور وہ بعد پیدا ہوگا۔ اس کا سر اس لڑکی کے پاؤں کے ساتھ ملا ہوگا۔ وہ لڑکا ملک چین میں پید اہوگا۔ اس کی بولی بھی چینی ہوگی وہ لوگوں کو خدا کی طرف بلائے گا کوئی نہ مانے گا۔'' (۷۳۴)
اس پیشگوئی میں بعبارت النص مسطور ہے کہ وہ لڑکا چین میں پیدا ہوگا اور وہیں کی بولی بولتا ہوگا۔ ادھر مرزا صاحب نے حسب ''الہام خود'' ع
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے(۷۳۵)
اس کو اپنے پر چسپاں کرنے کی ٹھانی۔ حالانکہ ان کی پیدائش چین میں نہیں بلکہ قادیان (پنجاب) میں ہوئی۔ ایسا ہی نہ صرف مرزا صاحب بلکہ ان کا ملہم بشرطیکہ کوئی ہو چین کی زبان سے اتنا ہی نابلد تھا جتنا ایک گھاس خور ماس کے ذائقہ سے۔ اس لیے مرزا صاحب نے اپنی مایہ ناز کتاب حقیقۃ الوحی میں لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کو شیخ موصوف کی پیشگوئی میں تحریف کی کہ:
'' شیخ ابن عربی نے لکھا ہے کہ وہ چینی الاصل ہوگا۔''(۷۳۶)
صاحبانِ دیانت غور فرمائیں کہ شیخ موصوف تو لکھتے ہیں یَکُوْنُ مَوْلَدُہَ بِالصِّیْنِ اس کی ولادت سرزمین چین میں ہوگی ولغتہ لغۃ بَلَدِہٖ اس کی بولی اس شہر کی ہوگی۔ (۷۳۷) مگر مرزا صاحب کس دلیری سے ان کی عبارت میں تحریف بلکہ مکمل تبدیلی کرتے ہیں کہ '' ابن عربی نے لکھا ہے وہ چینی الاصل ہوگا واہ رے تیری مسیحائی! مطلب اس تحریف سے مرزا جی کا یہ تھا کہ اس پیشگوئی کو وسعت دی جائے۔ چنانچہ بعد تحریف کے اس کو اپنے وجود پر یوں لگایا ہے:
'' اس پیشگوئی سے مطلب یہ ہے کہ اس خاندان میں ترک کا خون ملا ہوگا۔ ہمارا خاندان جو اپنی شہرت کے لحاظ سے مغلیہ خاندان کہلاتا ہے اس پیشگوئی کا مصداق ہے۔'' (۷۳۸)
اس پر سینہ زوری کا یہ عالم ہے کہ سخت ترین مکروہ اور فرعونی ازالہ میں لکھتے ہیں:
'' کوئی نرابے حیا نہ ہو تو اس کے لیے اس سے چارہ نہیں کہ میرے دعویٰ کو اسی طرح مان لے جیسا کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مانا ہے۔'' (۷۳۹)
بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
---------------------------
(۷۳۴) تریاق القلوب ص۱۵۸ و روحانی ص۴۸۲، ج۱۵ مفہوماً
(۷۳۵) الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء ص۱ و بدر جلد ۳ نمبر۱۵ مورخہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۴ء ص۴ والبشرٰی ص۹۰، ج۲ وتذکرہ ص۵۰۸
(۷۳۶) حقیقت الوحی ص۲۰۱ و روحانی ص۲۰۹، ج۲۲
(۷۳۷) تریاق القلوب ص۱۵۸ و روحانی ص۴۸۲، ج۱۵ وفصوص الحکم فص شیشہ
(۷۳۸) حقیقت الوحی ص۲۰۱ و روحانی ص۲۰۹، ج۲۲
(۷۳۹) تذکرۃ الشھادتین ص۳۸ و روحانی ص۴۰، ج۲۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مثال نمبر ۱۰:
۱۸۸۶ء میں مرزا صاحب کی بیوی حاملہ تھی۔ تب آپ نے ۲۰؍ فروری کو بطور پیشگوئی اشتہار دیا کہ ہمارے گھر لڑکا پیدا ہوگا جو گویا ایسا ہوگا جیسا خدا آسمانوں سے اتر آیا وغیرہ؟ (۷۴۰)
اس حمل سے تو لڑکی پیدا ہوئی۔(۷۴۱) مگر اس کے دوسرے حمل سے مؤرخہ ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا جسے مرزا صاحب نے مصلح موعود ظاہر کیا۔ خدا کی قدرت ہے کہ وہ لڑکا اپنی عمر کے سولہویں مہینے میں واپس بلا لیا گیا۔ (۷۴۲)
پھر کیا تھا مخالفین نے مرزا صاحب کو دھر رگڑا اور گرما گرم تحریرات سے ان کے سینہ مملوازکینہ کو خوب جلایا۔ جواباً مرزا صاحب نے بھی علاوہ ایک ایک کی دس دس سنانے کے یہ بھی گل کھلایا کہ:
''حضرت موسیٰ نے بعض پیشگوئیوں کے سمجھنے میں اجتہادی طور پر غلطی کھائی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خیال اجتہادی غلطی تھا۔'' (۷۴۳)
اس سے بھی بڑھ کر آپ نے اپنی نفسانی باد سموم سے گلستان رسالت کو جلانے کی یوں ناپاک کوشش کی کہ:
'' بائیبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے چار سو نبی نے ایک بادشاہ کی فتح کی نسبت خبر دی اور وہ غلط نکلی مگر اس عاجز کی پیشگوئی میں کوئی الہامی غلطی نہیں۔'' (۷۴۴)
اس تحریر پُترتزویر کو مان کر کون دانا ہے جو سلسلہ انبیاء کرام کو بنظرِ عزت و تکریم دیکھے گا۔
اف قصر نبوت پر کس غضب کا بم مارا ہے کہ چار سو بنی کی خبر غلط نکلی معاذ اللہ تم معاذ اللہ۔ مگر کیا یہ صحیح ہے؟ نہیں ہرگز نہیں! سو ہزار بار نہیں! مرزا صاحب نے اس جگہ دجل سے کام لے کر اس مقام کی بنا پر لوگوں کو مغالطہ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نبی خدا کے نبی نہ تھے بلکہ کافر بت پرست تھے جو مرزا صاحب کی طرح اپنے آپ کو نبی کہلاتے تھے چنانچہ ہم یہ عبارت بائیبل سے آگے چل کر نقل کریں گے۔ (ملاحظہ ہو ص۳۳)
مرزائی صاحبان نے اس صریح جھوٹ اور بدیہی مغالطہ کو صحیح بنانے کی حتی الامکان پوری کوشش کی ہے اس لیے ہم ان کی قدر کرنے کو ان کے جملہ عذرات آپ کے سامنے پیش کرکے ان کا جواب دیتے ہیں۔
ہم نے اخبار اہل حدیث مؤرخہ ۳۰؍ ستمبر ۱۹۳۲ء میں مرزا صاحب کے خائن مغالطہ باز ہونے پر یہ قصہ بطور دلیل پیش کیا تھا۔ جس کے جواب میں مولوی اللہ دتا قادیانی مبلغ نے قلم اٹھایا چنانچہ انہوں نے جو کچھ لکھا وہ یہ ہے:
قادیانی مجیب کا پہلا عذر یہ ہے کہ:
'' بائیبل کے چار سو نبی بائیبلی محاورہ کے مطابق نبی تھے اور یہ بات عیسائیوں اور یہود پر حجت ہے (حضرت مرزا صاحب) کے بیان کا یہی مقصد ہے۔'' (الفضل ۲۰؍ نومبر ۳۲ء)(۷۴۵)
اس عبارت کا بظاہر یہی مفہوم ہے کہ مرزا صاحب انہیں خود تو نبی نہیں سمجھتے تھے البتہ بطور حجت ملزمہ کے یہود و نصاریٰ کا منہ بند کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ صریح غلط بیانی ہے۔ مرزا صاحب یقینا انہیں صادق نبی اللہ ظاہر کرتے تھے اسی لیے تو انہوں نے سبز اشتہار کی عبارت میں اپنی جھوٹی پیشگوئی کی نظیر میں ان کی غلط خبر کو پیش کیا ہے وہ بھی یوں کہ ان کے مقابلہ پر اپنے لیے ''عاجز'' کا لفظ استعمال کرتے ہوئے۔ ناظرین کرام! آپ ورق الٹ کر اس مقام کی عبارت کو دوبارہ ملاحظہ فرما لیں۔ مزید وضاحت کے لیے ہم مرزا صاحب کی دو ایک اور تحریریں بھی پیش کرتے ہیں جن سے ہر ایک منصف مزاج اور متدین شخص پر بخوبی عیاں ہو جائے گا کہ مرزا جی نے ان اشخاص کو صادق انبیاء کی شکل میں یہود و نصاریٰ نہیں بلکہ مسلمانوں کے سامنے پیش کیا ہے ملاحظہ ہو مرزا صاحب راقم ہیں:
(۱) مولوی محی الدین صاحب لکھوی اور مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے مرزا صاحب کو بہ تمسک اپنے الہامات کے ملحد و کافر وغیرہ لکھا تو ان کے جواب میں مرزا صاحب نے کہا:
کہ الہام رحمانی بھی ہوتا ہے اور شیطانی بھی یہ دخل کبھی انبیاء اور رسولوں کی وحی میں بھی ہو جاتا ہے مگر بلا توقف نکالا جاتا ہے اسی کی طرف اللہ جل شانہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: { وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ وَلَا نَبِیٍّ الا اذا تَمَنّٰی اَلقی الشیطان فی اُمْنِیَّتِہٖ الخ }(۱) اور ایسا ہی انجیل میں بھی لکھا ہے کہ شیطان اپنی شکل نوری فرشتوں کے ساتھ بدل(۲) کر بعض لوگوں کے پاس آجاتا ہے دیکھو خط دوم کو نتھیوں کے نام باب۱۱ آیت ۲۱۴ اور مجموعہ توریت میں سے سلاطین اول باب ۲۲ آیت ۱۹ میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کی فتح کے بارے میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کو شکست آئی بلکہ وہ اسی میدان میں مر گیا اس کا سبب یہ تھا کہ دراصل وہ الہام ایک ناپاک روح کی طرف سے تھا ان نبیوں نے دھوکا کھا کر زبانی سمجھ لیا تھا (گویا وہ نبی تو صادق تھے، مگر انہیں دھوکا لگا) ۔ (۷۴۶)
۱۔ یوں تو مرزا کا دعویٰ تھا کہ میرا ہر قول و فعل و حی الٰہی سے ہے مفہوم ص۷۱،۷۲ ریویو جلد ۲، مگر حالت یہ ہے کہ دیگر صدہا اغلاط تو درکنار خود قرآن پاک کی بیسیوں آیات غلط لکھیں۔ اسی جگہ دیکھیے ایک آیت میں دو غلطیاں پہلے تو لفظ مِنْ قَبْلِکَ ہضم ۔ پھر الاندارد۔ صحیح آیت یوں ہے وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِّیٍّ اِلاَّ اِذٓ تَمَنّٰی الخ ۱۷۔پ ع ۔اس پر طرفہ یہ کہ اس کے دو سال بعد آئینہ کمالات لکھی جس کے صفحہ ۹۳ پر باوجود یہ ڈینگ مارنے کے کہ روح القدس کی قدسیت ہر وقت، ہردم، ہرلحظہ، بلا فصل ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی رہتی ہے۔
اسی کتاب کے ص۳۵۲ پر اسی آیت کو پھر غلط ہی لکھا۔ وہاں بھی یہ الفاظ نہ لکھے ۱۲ منہ۔
۲۔ زیر خط الفاظ انجیل میں نہیں ہیں ۱۲ منہ۔
(ب) '' جو شخص شیطانی الہام کا منکر ہے وہ انبیاء علیہم السلام کی تمام تعلیموں کا انکاری ہے اور نبوت کے تمام سلسلہ کا منکر ہے بائیبل میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبی کو شیطانی (۱) الہام ہوا تھا اور انہوں نے الہام کے ذریعہ سے جو ایک سفید جن کا کرتب تھا ایک بادشاہ کی فتح کی پیشگوئی کی آخر وہ بڑی ذلت سے مارا گیا۔'' (۷۴۷)
۱۔ یہ بھی مرزا صاحب کا جھوٹ ہے بائیبل میں صاف مرقوم ہے کہ وہ الہام ایک روح یعنی فرشتہ کی طرف سے بدعا الٰہی تھا کہ شاہ اخی اب ذلت کی موت مرنے کو میدان میں نکلے ۱۲ منہ۔
ان تحریروں سے صاف عیاں ہے کہ مرزا صاحب ان چار سو اشخاص کو در حقیقت نبی اللہ جانتے اور مانتے تھے اور یہ بھی کہ مرزا جی ان کی مثال اہل اسلام کے سامنے پیش کر رہے ہیں نہ کہ یہود و نصاریٰ کے رو برو۔ پس مرزائی مولوی کا مغالطہ قابل افسوس ہے۔
----------------------------------------
(۸۴۰) مجموعہ اشتھارات ص۱۰۱، ج۱ و تبلیغ رسالت ص۵۸، ج۱ وتذکرہ ص۱۳۹ و روحانی ص۶۴۷، ج۵
(۷۴۱) تاریخ احمدیت ص۱۲۲، ج۲ و حیات طیبہ ص۸۸ و حیات احمد ص۱۷۵، ج۳
(۷۴۲) اشتھار مرزا مورخہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء مندرجہ ، مجموعہ اشتھارات ص۱۶۳
(۷۴۳) ایضًا حاشیہ ص۱۶۷، ج۱
(۷۴۴) ایضًا ص۱۶۹، ج۱
(۷۴۵) الفضل مورخہ ۲۰؍ نومبر ۱۹۳۲ء
(۷۴۶) ازالہ اوہام ص۶۲۹ طبعہ اول ص۱۳۰۸ء ریاض ہند پریس امرتسر
(۷۴۷) ضرورۃ الامام ص۱۷ و روحانی ص۴۸۸، ج۱۳
 
Top