• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پیشگوئی نمبر ۲۳:
وہی دوبارہ پیش کی گئی ہے جو نمبر ۹ میں پیش کی تھی یعنی مولوی عبداللطیف کا کابل میں سنگسار ہونا جس کا جواب ہم دے آئے ہیں۔ (۱۰۱۱)
پیشگوئی نمبر ۲۴:
جلسہ دھرم مہو تسو میں مرزا کی ایک تقریر کا عمدہ ہونا اور سب پر فائق ہونا لکھا ہے۔(۱۰۱۲)
جواب:
اس جلسہ میں ہر مذہب کے لوگ پہلے سے مدعو تھے کہ آکر تقریریں کریں۔ کسی کے لیے گھنٹہ وقت تھا کسی کے لیے اس سے کم و زیادہ، چونکہ تمام لیکچرار اسے ایک معمولی جلسہ سمجھ کر آئے تھے جنہوں نے وقت کی پابندی میں اپنا اپنا مضمون ختم کیا۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب نے یہ چالاکی کی کہ گھر میں بیٹھ کر ایک طویل مضمون لکھا جس کے سنانے کے لیے بانیانِ جلسہ کو وقتِ مقررہ سے چار گنا وقت دینا پڑا۔ اس لیے لازمی تھا کہ بمقابلہ دیگر مضامین کے بعض جلد باز لوگ اسے فضیلت دیتے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔(۱۰۱۳) ادھر مرزا صاحب پہلے سے ایک شگوفہ چھوڑ چکے تھے کہ مجھے الہام ہوا '' یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا۔''(۱۰۱۴)
بس پھر کیا تھا آپ نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ دیکھو جی! ہم ایسے ہم ویسے۔
ہم حیران ہیں کہ اس ڈھٹائی کا جواب کیا دیں۔ مزا تب تھا کہ باقی لکچراروں کی طرح یہ بھی قواعد جلسہ کی پابندی کرتے۔ اور وقتِ مقررہ میں اپنے مضمون کو ادا کرتے پھر اگر یہ مضمون فائق رہتا تو ہم علی الاعلان اعتراف کرتے کہ:
گو مرزا صاحب کا اپنی کسی قیاسی پیشگوئی میں سچا نکلنا اس کے نبی اللہ و رسول اللہ ہونے کی دلیل نہیں کیونکہ علاوہ اس ایک ڈھکوسلے کے اس کی سب متحدیانہ پیشگوئیاں صاف جھوٹی، صریح، باطل، واضح، دروغ ثابت ہوئی ہیں۔ تاہم یہ پیشگوئی ضرور بر ضرور شیطانی الہام ہے جو بقول مرزا صاحب ہوا کرتا ہے۔ (۱۰۱۵)
مگر اس جگہ تو اتنا بھی نہیں کیونکہ وقتِ مقررہ کی پابندی نہ کرتے ہوئے ہر شخص جو ایڑی سے چوٹی کا زور لگا کر گھر سے مضمون اس نیت سے لکھ کر لائے کہ یہ باقی تقریروں پر غالب رہے۔ یقینا اس کا مضمون غالب رہے گا۔ یقین نہ ہو تو مرزائی ایک اسی طرح کا جلسہ کرکے مرزا صاحب کی تردید میں مضامین سننے کو آمادہ ہوں۔ میں ابھی سے علی الاعلان پیشگوئی کرتا ہوں کہ میرا مضمون دنیا بھر کے جملہ لکچراروں پر غالب رہے گا۔ بفضل اللہ الکریم
ایک اور طرح سے:
مثل مشہور ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ آؤ اسی اصول سے ہم اس پیشگوئی کے دیگر لازمی پہلوؤں پر نظر ڈالیں۔ یہ صحیح اصول مسلمہ مرزا ہے کہ:
'' کوئی پیشگوئی اس صورت میں سچی ہوسکتی ہے جبکہ اس کے ساتھ تمام پیشگوئیاں سچی ثابت ہوں۔'' (۱۰۱۶)
مرزا صاحب نے مذکورہ بالا پیشگوئی کے ساتھ اسی اشتہار کے ساتھ یہ لکھا ہے:
'' میں نے عالمِ کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور سا طعہ نکلا جو ارد گرد پھیل گیا تب ایک شخص بولا اللہ اکبر خَرِبت خَیْبَرٌ اس کی تعبیر یہ ہے کہ محل سے مراد میرا دل ہے اور وہ نور قرآنی معارف ہیں خیبر سے مراد تمام خراب مذاہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے۔ سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا۔ اور قرآنی سچائی زمین پر دن بدن پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرلے۔'' (اشتہار مذکور) (۱۰۱۷)
بھائیو! کیا یہ سب کچھ ظاہر ہوگیا؟ کیا جھوٹے مذاہب خراب ہوگئے اور قرآنی سچائی اپنے انتہائی دائرہ پر پہنچ گئی؟ میں کہتا ہوں ایسا ہونا تو درکنار مذاہب عالم کے لوگ مرزا صاحب کے اس مضمون سے آشنا بھی ہیں؟ یقین نہ ہو تو جس جس کے پاس یہ پاکٹ بک پہنچے وہ پہلے اپنے وجود سے اس کے بعد دیگر لوگوں سے مل کر اور انہیں صرف اس مضمون کا خلاصہ ہی پوچھ دیکھے۔ یقینا ہزار میں سے ایک شخص واقف ہو تو ہو۔ حالانکہ مرزا نے اپنی کئی ایک تحریروں میں لکھا ہے کہ یہ کام میری زندگی میں ہوجائے گا کما مربیانہ۔
اور تو اور خود مرزائیوں کا یہ حال ہے کہ ایک فرقہ سے دو ہوگئے دن رات آپس میں سر پھٹول کر رہے ہیں۔ وہ انہیں ضال و مضل کہیں وہ انہیں۔ الغرض مرزا کی یہ پیش گوئی جھوٹی ہے باطل ہے۔
-------------------------------------------
(۱۰۱۱) ایضاً ص۶۲۰
(۱۰۱۲) ایضاً ص۶۲۰
(۱۰۱۳)تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے، رپوٹ جلسہ اعظم مذاہب، ص۸۰، ۱۴۰ طبعہ صدیقی پریس لاہور ۱۸۹۷ء و تاریخ احمدیت ص۳۹۸، تا ۳۹۹ ، ج۲
(۱۰۱۴) اشتہار مرزا مورخہ، ۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۶ء مندرجہ تبلیغ رسالت ص ۷۷، ج۵ و مجموعہ اشتہارات ص۲۹۴، ج۲ و تذکرہ ص۲۹۰
(۱۰۱۵) ضرورت الامام ص۱۷ و روحانی ص ۴۸۸، ج۱۳
(۱۰۱۶) کتاب البریہ ص۲۳ و روحانی ص۴۵، ج۱۳
(۱۰۱۷) دیکھئے ۱۰۱۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پیشگوئی نمبر ۲۵:
فروری ۱۹۰۶ء کو بنگالہ کی تقسیم کے متعلق پیشگوئی کی۔ پہلے بنگالہ کی نسبت جو حکم جاری کیا گیا، اب ان کی دلجوئی ہوگی، ۱۹۱۱ء میں ملک معظم جارج پنجم اس کے پورا ہونے کا باعث بنے۔(۱۰۱۸)
جواب:
تقسیم بنگالہ پر جب اہل بنگال نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور گورنمنٹ کے حضور میں درخواست پر درخواست دینے کے علاوہ بدیشی مال کا بائیکاٹ بھی کیا تو گورنمنٹ نے ان کی کچھ پرواہ نہ کی۔ ایسے وقت میں اکثر اہل عقل کا خیال تھا کہ ضرور گورنمنٹ اپنی روش کو چھوڑنے پر مجبور ہوگی۔ کیونکہ راعی رعایا کو دکھ دے کر کبھی فلاح نہیں پاتا۔ ایسے وقت میں ہمارے قادیانی مسیح نے جھٹ سے ایک وسیع المعانی فقرہ بول دیا کہ '' بنگالیوں کی دلجوئی ہوگی'' (۱۰۱۹)خدا کی قدرت ہے کہ گورنمنٹ اپنے حکم کو واپس لینے پر آمادہ نہ ہوئی۔ شاید اس لیے کہ خدا تعالیٰ قادیانی صاحب کا کذب واضح کرنا چاہتا تھا۔
ادھر گورنمنٹ اپنی بات منوانے پر اڑ گئی ادھر بنگالی بھی تن گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گورنر سر فلر صاحب نے استعفیٰ دے دیا۔ بنگالی اسے اپنا جانی دشمن جانتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اس کے استعفیٰ دینے پر خوب خوب مسرت کا اظہار کیا۔ اندریں حالات مرزا صاحب کو بھی ہوش آئی کہ اب بنگالی کچھ کچھ نرم ہو چلے ہیں اس لیے اب تقسیم بنگال جیسا کہ گورنمنٹ کے عزم سے مترشح ہے، منسوخ نہ ہوگی ایسا نہ ہو ہمارا الہام برباد ہو جائے اب تو موقع ہے خدا معلوم آئندہ حالات اس سے بدترین ہو جائیں۔ آپ نے فوراً اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ لکھ دو ہماری پیشگوئی کا اتنا ہی مطلب تھا۔ چنانچہ ریویو ماہ ستمبر ۱۹۰۶ء میں مولوی محمد علی صاحب و خواجہ کمال الدین کی طرف سے مضمون شائع ہوا کہ :
'' تقسیم بنگالہ بھی منسوخ نہ ہوگی اور بنگالیوں کی دلجوئی بھی ہو جائے گی۔'' (۱۰۲۰)
مطلب یہ کہ سر فلر کے استعفیٰ دینے سے بنگالیوں کی دلجوئی بھی ہو گئی ہے۔ یہی ہماری پیشگوئی تھی۔ ع
بس ہوچکی نماز مصلیٰ اٹھائیے
قدرت کے بھی عجیب کام میں ادھر مرزا صاحب تو یہ تاویل کرکے چلتے بنے۔ ۱۹۱۱ء میں اللہ تعالیٰ نے ملک معظم کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ جاؤ ہندوستان میں مرزا قادیانی کے کذب کو آشکارا کرو۔ چنانچہ وہ تشریف لائے اور تقسیم بنگال کو منسوخ کردیا۔(۱۰۲۱)
-------------------------------------
(۱۰۱۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۲۰
(۱۰۱۹) بدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۱۶؍ فروری ۱۹۰۶ء ص ۲ والحکم جلد ۱۰ نمبر ۱ مورخہ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۶ء ص۱ و تذکرہ ص۵۹۶
(۱۰۲۰) ریویو مورخہ ستمبر ۱۹۰۶ء ص ۳۴۷
(۱۰۲۱) تاریخ احمدیت ص ۴۶۴، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کی بارہویں دلیل

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایمان دنیا سے اٹھ جائے گا تو فارسی الاصل ایک یا کئی اشخاص اس کو واپس لائیں گے۔(۱۰۲۱)
الجواب:
قطع نظر اس کے کہ حدیث کا جو مطلب لیا گیا ہے وہ نہیں میں کہتا ہوں کہ مرزا صاحب تو مغل زادے تھے جیسا کہ وہ خود راقم ہیں:
'' خاتم الخلفاء عینی الاصل ہوگا یعنی مغلوں میں سے۔'' (۱۰۲۳)
پس وہ فارسی الاصل کیسے بن گئے؟
ناظرین کرام! حدیث میں آیا ہے کہ نسب بدلنے والے کی نماز چالیس دن قبول نہیں ہوتی(۱۰۲۴) اور قرآن پاک میں بھی سخت وعید ہے(۱۰۲۵) مگر ہمارے مرزا صاحب کچھ ایسے نڈر تھے کہ جہاں شیخ ابن عربی کی پیشگوئی کا مصداق اپنے آپ کو بنانا تھا وہاں مغل بن گئے۔(۱۰۲۶) اور جہاں حدیث رِجالُ فارس(۱۰۲۷) پر قبضہ جمانا تھا وہاں فارسی الاصل بن گئے اور جہاں احادیث مہدی کا مصداق بننا تھا وہاں کہہ دیا کہ:
'' میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی۔'' (۱۰۲۸)
ہم بھی قائلی تیری نیرنگی کے ہیں یاد رہے
اور زمانے کی طرح رنگ بدلنے والے
--------------------------
(۱۰۲۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۲۱
(۱۰۲۳) تذکرۃ الشھادتین ص۳۳ و روحانی ص۳۵، ج۲۰
(۱۰۲۴)
(۱۰۲۵) آخر میں لفظ '' زنیم'' کی بحث ملاحظہ کریں (ابو صہیب)
(۱۰۲۶) حقیقت الوحی ص۷۸ و روحانی ص ۸۱ ج ۲۲
(۱۰۲۷) صحیح بخاری ص ۷۲۷ فی التفسیر باب و مسلم ص۳۱۲، ج۲ فی الفضائل باب فضل فارس الحدیث من روایت ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ
(۱۰۲۸)(الف) اشتہار '' ایک غلطی کا ازالہ'' مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۴۴۱،ج۳ و روحانی ص۲۱۶، ج۱۸ و حقیقت النبوۃ ص۲۶۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کی تیرھویں دلیل

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلایات بعد المأتین (مشکوٰۃ) کہ مسیح موعود مہدی کے ظہور کی نشانیاں تیرھویں صدی کے گزرنے پر ظاہر ہونگی۔ ملا علی قاری اور نواب صدیق حسن خاں نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ (۱۰۲۸)
الجواب:
اول تو یہ حدیث ہی ضعیف اور موضوع ہے۔ جیسا کہ ابن جوزی نے اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔ (۱۰۲۹)
دوم اس میں مسیح و مہدی کا کوئی ذکر نہیں صرف یہ الفاظ ہیں کہ نشانیاں دو سو سال بعد ہونگی۔ پس دو سو سال سے مراد تیرہ سو سال بعد لینا غلط در غلط ہے۔ جن بزرگوں نے دو سال سے مطلب ہزار سال سے دو سو سال بعد لیا ہے ان کی ذاتی رائے ہے جو حدیث کے الفاظ کے صریح خلاف ہے۔ پھر انہوں نے بھی محض ظن اور احتمال کے لفظ استعمال کئے ہیں۔ جو تحریرات ان کی پیش کی گئی ہیں ان میں ویَحْتَمِلُ کا لفظ موجود ہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے تو بارہ سو برس بعد لکھا ہے مگر مرزائی محرف تیرہ سو سال بعد لکھتا ہے؟ پھر مزا یہ کہ مرزائی صاحب تیرہ سو سال کے بعد ظہور مسیح و مہدی نہیں لکھتا بلکہ یہ لکھتا ہے کہ '' مسیح موعود و مہدی کے ظہور کی نشانیاں تیرھویں صدی کے گزرنے پر ظاہر ہونگی اور کون نہیں جانتا کہ نشانیاں صدہا برس پہلے شروع ہو جاتی ہیں۔ دیکھئے صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کی نشانیوں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت پھیل جائے گی زنا اور شراب کی کثرت ہوگی (بخاری)(۱۰۳۰) جھوٹے اشخاص پیدا ہوں گے (مسلم)(۱۰۳۱) امانت میں خیانت کی جائے گی۔ نا اہل لوگ حاکم ہوں گے (بخاری) (۱۰۳۳)کیا ان علامتوں سے اکثر اس زمانہ میں پائی جاتی ہیں؟ پھر کیا تمہارے قاعدے کی رو سے ابھی قیامت کو آجانا چاہیے تھا حالانکہ خود تمہارے نبی کے اقوال کی رو سے ابھی ہزار سال کے قریب باقی ہے۔ (۱۰۳۳)
اور سنو! حدیث میں ہے کہ آخری زمانہ میں ایک خلیفہ ہوگا جو بکثرت مال بانٹے گا اور پھر اس بے پرواہی سے کہ شمار بھی نہ کرے گا (مسلم در مشکوٰۃ باب مذکورہ بالا) اور تم مانتے ہو کہ یہ آخری خلیفہ مرزا ہے۔ اب باوجودیکہ مرزا صاحب بقول شما قیامت کی نشانی میں پھر بھی بموجب تحریرات مرزا کئی سو سال قیامت میں باقی ہیں۔ مزید برآں مرزائی دوست مانتے ہیں ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن قیامت کی نشانی ہے۔'' (۱۰۳۴)حالانکہ حضور کے زمانہ پر ساڑھے تیرہ سو سال گزر چکا مگر قیامت نہیں آئی۔
-----------------------------------------------------
(۱۰۲۸) (ب) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۲۷
(۱۰۲۹) موضوعات ابن جوزی ص۱۹۸، ج۳ والعلل المتناھیۃ ص۳۷۱، ج۲
(۱۰۳۰) صحیح بخاری ص۱۸، ج۱ کتاب العلم باب رفع العلم وظھر الجھل و کتاب النکاح باب یقل الرجل ویکثر النساء ص۸۸۷، ج۲ و صحیح مسلم ص۳۴۰، ج۱ کتاب العلم باب رفع العلم و قبضہٖ
(۱۰۳۱) صحیح مسلم ص۱۲۰، ج۲ کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش والخلافۃ و مصابیح ص۴۸۷، ج۳ و مشکوٰۃ ص
(۱۰۳۲) صحیح بخاری ص۹۶۱، ج۲ کتاب الرقاق باب رفع الامانۃ
(۱۰۳۳) لیکچر سیالکوٹ ص۶ و روحانی ص۲۰۷ ج ۲۰
(۱۰۳۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۳۸ طبعہ ۱۹۳۲ء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
الغرض اول تو یہ حدیث جھوٹی ہے جس سے سند نہیں لی جاسکتی اس کے جھوٹی ہونے پر واقعات نے بھی شہادت دیدی وہ یوں کہ بقول مرزا صاحب اس میں ظہور مسیح کی خبر ہے۔(۱۰۳۵) اور ظہور مسیح دو سو سال بعد نبی کے ہیں۔ پس یہ جھوٹی نکلی۔ بفرض محال صحیح بھی ہو ۔اس میں مسیح و مہدی کا کوئی ذکر نہیں صرف نشانیوں کا ذکر ہے چنانچہ مطابق اس کے صدہا نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔
۱۔ دو سو سال کے بعد مسئلہ خلق قرآن کا رائج ہونا جس کی وجہ سے صدہا علمائے حقانی بے دریغ قتل کئے گئے۔
۲۔ زلزلے آئے۔
۳۔ طاعون پھوٹا۔
۴۔ اکثر ظالم فرمانرواؤں کے ظلم سے کئی لاکھ فرزندانِ اسلام کے خون بہائے گئے۔
۵۔ حج کعبۃ اللہ تک باطنیوں نے بند کردیا۔
۶۔ حجر اسود اکھاڑا گیا۔
۷۔ فرقہ قرامطہ و باطنیہ کے نجس ہاتھوں سے جو اہل مکہ پر مصائب آئے وہ اربابِ بصیرت سے مخفی نہیں۔
۸۔ معتزلہ نے جو جو گل کھلائے وہ اصحاب تاریخ پر نمایاں ہیں۔
۹۔ خسف ہوئے مسخ ہوئے۔
۱۰۔ قحط اس طرح کے پڑے کہ قحط یوسفی کو مات کرگئے۔
۱۱۔ کئی دفعہ آسمانوں سے پتھر برسے۔
۱۲۔ خلیفہ مستعصم باللہ کے عہد خلافت میں مرزا کے آباؤ اجداد تاتاری مغلوں نے جو جو مظالم ڈھائے وہ اہل علم کے سامنے ہیں۔
غرض صدہا نشانیاں دو سو سال کے بعد ہوئیں اور صدہا آئندہ ہونگی پس یہ دلیل بشرط صحیح ہونے حدیث کے بھی مرزائیوں کو مفید اور ہمارے خلاف نہیں۔
------------------------------------------------------------------------------
(۱۰۳۵) ازالہ اوہام ص۱۸۵ و روحانی ص۱۸۹ ج ۳۴۶۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کی چودھویں دلیل کسوف و خسوف

'' حدیث میں ہے ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں۔ رمضان میں چاند کو پہلی رات کو اور سورج کو درمیانے دن گرہن لگے گا۔ یہ گرہن مرزا کے وقت چاند کو ۱۳ تاریخ اور سورج کو ۲۸ تاریخ لگا۔ '' (۱۰۳۶)
الجواب:
یہ روایت کیا ازروئے روایت کیا بروئے درایت ہر دو طرح جھوٹی بناوٹی، جعلی ہے۔ روایت کی رو سے یوں کہ اس کے پہلے راوی عمرو بن شمر کو محدثین نے کذاب، منکر الحدیث متروک الحدیث۔ جھوٹی روایت کو معتبر آدمیوں کے نام پر بنانے والا وغیرہ لکھا ہے۔ (۱۰۳۷)دوسرے راوی جابر (نہ معلوم یہ صاحب کون ہیں) اگر مراد جابر جعفی ہے تو اس کو بھی حضرت امام اعظم نے کذاب کا لقب دیا ہے اسی طرح دیگر محدثین کے نزدیک جابر جعفی کا نام کذاب مشہور ہے حتیٰ کہ یہ فقرہ زباں زد خاص و عام ہوگیا ہے کہ فلاں شخص جابر جعفی کی طرح کذاب ہے۔ (۱۰۳۸)
اس روایت کے جھوٹی ہونے پر خود مرزا صاحب و مصنف مرزائی پاکٹ بک کی شہادت ملاحظہ ہو۔ یہ روایت مہدی کے بارے میں ہے اور مرزا صاحب و مصنف مرزائی پاکٹ بک لکھتے ہیں:
(۱) ''مہدی کی حدیثیں سب ناقابلِ اعتبار اور قرآن شریف کے خلاف ہیں۔ ان میں اگر صحیح حدیث ہے تو یہی ہے کہ لامھدے الا عیسیٰ (ہاں صاحب یہ صحیح کیوں نہ ہوگی۔ مطلب جو ہوا)۔'' (۱۰۳۹)
(۲) '' محدثین نے باب مہدی کی سب احادیث کو مجروح قرار دیا ہے لیکن ایک حدیث صحیح ہے۔ لا مھدی الا عیسیٰ۔ (۱۰۴۰)
درایت کی رو سے اس حدیث کا جھوٹا ہونا مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' قانونِ قدرت جب سے دنیا بنی ہے اسی طرح ہے کہ چاند گرہن کے لیے ۱۳۔۱۴۔۱۵ اور سورج گرہن کے لیے ۲۷۔ ۲۸۔ ۲۹ تاریخیں مقرر ہیں یہ نظام کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔''(۱۰۴۱)
'' بخلاف اس کے اس جھوٹی روایت میں یہ لکھا ہے ینکسف القمر لِاوَّلِ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ وتنکسِفُ الشمس فی النصف منہ۔(۱۰۴۲)
یعنی رمضان شریف کے مہینے چاند کی پہلی تاریخ کو اور سورج کو رمضان کے نصف میں گرہن ہوگا پس یہ روایت بوجہ خلاف نیچر ہونے کے حسبِ قولِ مرزا مردود ہے۔ مرزا صاحب نے اس روایت کے ضعف کو اٹھانا چاہا ہے کہ:
'' حدیث نے آپ اپنی سچائی کو ظاہر کردیا ہے کیونکہ اس کی پیشگوئی پوری ہوگئی۔''(۱۰۴۳)
اگر یہ صحیح ہو کہ حدیث کے مطابق یہ گرہن واقع ہوا ہے تو ہمیں اس پر پھر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ غضب تو یہی ہے کہ مرزا صاحب کے وقت جو گرہن ہوا ہے وہ اس روایت کے مطابق نہیں ہوا:
'' چاند گرہن ۱۳ رمضان کو اور سورج گرہن ۲۸ رمضان کو ہوا ہے۔'' (۱۰۴۴)
پس یہ کہنا کہ روایت نے آپ اپنی سچائی ظاہر کردی ایک دجالانہ دھوکا ہے مرزائی کہتے ہیں کہ حدیث میں قمر کا لفظ ہے اور قمر چاند کی پہلی تاریخ کو نہیں کہا جاتا بلکہ ہلال کہا جاتا ہے۔ قمر دوسری رات یا تیسری رات کے چاند کو کہا جاتا ہے۔ (۱۰۴۵)
جواباً عرض ہے کہ بہ فرض محال صحیح ہو تو یہی وجہ اس روایت کے جھوٹی ہونے کی دلیل ہے کہ اس میں پہلی رات کے چاند کو قمر کہا گیا ہے جیسا کہ الفاظ روایت ینکسف القمرلاول لیلۃ من رمضان اس پر شاہد ہیں۔
دوم۔ اگر روایت کی غلطی کو نظر انداز کرکے یہی مراد لی جائے کہ رمضان کی پہلی رات سے مراد قمر کی پہلی رات ہے تو بھی دوسری یا تیسری رمضان کو چاند گرہن ہونا چاہیے اور سورج گرہن کے لیے تو اتنا عذر بھی تمہارے پاس نہیں۔ صاف لفظ ہیں کہ نصف رمضان میں سورج گرہن ہوگا حالانکہ مرزا کے وقت انہی تاریخوں میں ہوا جن میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے پس یہ گرہن روایت کے مطابق نہیں ہوا لہٰذا اس سے تمسک کرنے والا کذب ہے۔ مرزائی کہتے ہیں کہ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ رمضان کی پہلی رات سے مراد گرہن لگنے کی پہلی رات ہے یعنی تیرہ رمضان اور نصف رمضان کا مطلب سورج گرہن کا درمیانی دن ہے یعنی ۲۸ رمضان۔
'' بے حیا آدمی جو چاہے بکے، کون اس کو روکتا ہے۔'' (۱۰۴۶)
ناظرین کرام! مرزائیوں کی دجالانہ چالوں پر غور فرمائیے کہ پہلے تو ایک سراسر جھوٹی و مردود روایت سے تمسک کرتے ہیں جب اتنے سے کام نہیں نکلتا تو حسبِ ضرورت خود تاویلات رکیکہ کے سانچہ میں ڈھال کر من مانی مرادیں لیتے ہیں۔ پھر اسے مرزائی نبوت کی دلیل ٹھہراتے ہیں۔
نوٹ: یہ حدیث نبوی ہرگز نہیں بلکہ محمد علی کا (موضوع) قول ہے یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع نہیں۔ اس کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دینا ظلمِ عظیم ہے۔ مرزا صاحب خود ایام الصلح، اردو صفحہ ۸۰ پر مانتے ہیں کہ:
'' خسوف امام باقر (محمد بن علی) سے مہدی کا نشان قرار دیا گیا ہے۔'' (۱۰۴۷)
روایت کی سند کے الفاظ یہ ہیں:
حدثنا ابو سعید الاصطخری قال ثنا محمد بن عبداللّٰہ بن نوفل ثنا عبید بن یعیش ثنا بن بکیر عن عمرو بن شمر عن جابرؓ عن محمد بن علی قال ان لمھدینا۔ الخ (۱۰۴۸)
------------------------------------------------------------------------------------------
(۱۰۳۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۲۸
(۱۰۳۷) میزان الاعتدال ص۲۶۸، ج۳
(۱۰۳۸) میزان ص۳۷۹،ج۱ وتھذیب التھذیب ص۴۶،ج۲ نوٹ: مولانا معمار مرحوم نے راوی کے تعین میں شک کا اظہار کیا ہے حالانکہ یہ قطعی طور پر جابر جعفی ہے، ابو صہیب
(۱۰۳۹) مولانا معمار مرحوم نے کے مذکورہ قول کو اخبار، الحکم ۲۳ جولائی ۱۹۰۰ء ص۵ کالم نمبر۳ سے نقل کیا ہے لیکن راقم کو اس مراجع کے حوالے سے بایں الفاظ نہیں ملا ہاں البتہ مرزا نے ۲۸؍ ستمبر ۱۹۰۵ء کو مذکورہ بات ان الفاظ میں کہی ہے کہ مھدی کے متعلق جس قدر احادیث ہیں وہ محدثین نے مجروح قرار دی ہیں صرف ایک روایت لا مھدی الاعیسی ہے الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۵ء ص۷ و ملفوظات مرزا ص۴۴۶، ج۴ اسی طرح مرزا نے ، تحفہ گولڑویہ ص۲۸ میں ضمیمہ براہین احمدیہ ص ۱۸۵، ج۵ میں اور حقیقت المھدی ص۲۹ میں مھدی کے متعلقہ جملہ روایات کو مجروح و مخدوش اور موضوع قرار دیا ہے۔ (ابو صہیب)
(۱۰۴۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۵ طبعہ ۱۹۴۵ء و ص۳۵۴ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۱۰۴۱) مفہوم ضمیمہ انجام آتھم ص۴۷ و روحانی ص۳۳۱، ج۱۱
(۱۰۴۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۸ طبعہ ۱۹۳۲ و ص۶۲۸ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۱۰۴۳) ضمیمہ انجام آتھم ص۴۹ و روحانی ص۳۳۳ ج۱۱
(۱۰۴۴) ایضاً ص۴۶ و روحانی ص۳۳۰،ج۱۱ و احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۸ و سلسلہ احمدیہ ص۵۸ و مجدد اعظم ص۳۸۶ ، ج۱ و حیات احمد ص۴۶۰،ج۴۔ نوٹ: مولانا معمار رحمہ اللہ علیہ کے اس وزنی اعتراض کی قوت کو محسوس کرتے ہوئے مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے بعد کی اشاعت میں قمری تاریخ درج نہیں کی (دیکھئے ص۶۳۰ طبعہ ۱۹۴۵ء) ابو صہیب
(۱۰۴۵) مؤلف احمدیہ پاکٹ بک ص۶۲۹ میں لکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ قمر بولا ہے اور قمر پہلی تین راتوں کے بعد کے چاند کو کہتے ہیں (انتھی) اس پر مرزا نے کافی تفصیل سے اپنی متعدد کتب میں بحث کی ہے اور تین دن کے چاند پر قمر کا لفظ ثابت کرنے والے کو ایک ہزار روپیہ انعام کا وعدہ دیتے ہیں، نور الحق ص۱۱، ج۲ و روحانی ص۱۹۹، ج۸ یہ انعام محض ایک گیدڑ بھبکی ہے ہم بغیر انعام لیے ہی اس چیلنج کو توڑ دیتے ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ والقمر قدرنہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم (پ۲۳ یٰسین آیت ۴۰ ) والقمر نوراً وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب (پ۱۱ یونس آیت نمبر ۶)
ان آیات میں قمری تاریخ کا زکر ہے جو کہ چاند کی پہلی رات سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیرt راوی ہیں کہ : کان رسول اللّٰہ ﷺ یصلیھا لسقوط القمر الثالثۃ الحدیث(ابوداؤد ص۶۰،ج۱ و ترمذی مع تحفہ ص۱۵۲، ج۱ و نسائی مجتبیٰ ص۶۳، ج۱ والسنن الکبریٰ للبیھقی ص۳۷۳، ج۱
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیسری رات کا قمر غروب ہونے پر (نماز عشاء) ادا فرمایا کرتے تھے۔ انتھی
اس حدیث سے واضح ہے کہ تیسرے دن کے چاند کو عربی میں قمر بھی کہتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ چاند کو پورا مہینہ قمر کہا جاتا ہے اور پہلی تین راتوں میں ہلال بھی کہلاتا ہے جیسے ۱۳، ۱۴، ۱۵ میں بدر بھی کہلاتا ہے الغرض ہر ہلال قمر ہے مگر ہر قمر ہلال نہیں اسی طرح ہر بدر قمر ہے مگر ہر قمر بدر نہیں، جس طرح بدر کی راتوں میں قمر کو تیز روشنی کی وجہ سے مجازی طور پر بدر کہا جاتا ہے اسی طرح پہلی تین راتوں کو بایں طور پر قمر کو ہلال کہا جاتا ہے کہ لان الناس یرفعون اصواتھم بالاخبار عنہ ، لسان العرب ص۷۰۳،ج۱۱۔ ابو صہیب
(۱۰۴۶) اعجاز احمدی ص۳ و روحانی ص۱۰۹، ج۱۹
(۱۰۴۷) ایام الصلح ص۸۰ و روحانی ص۳۱۵، ج۱۴ ۔ نوٹ: مزاحی نے ضمیمہ انجام آتھم ص۴۶ اور حقیقت الوحی ص۱۹۴ میں بھی اسے امام باقر کا قول تسلیم کیا ہے۔ ابو صہیب
(۱۰۴۸) السنن دارقطنی ص۶۵،ج۲ فی الصلوٰۃ باب صفۃ صلوٰۃ الخسوف والکسوف و ھیئتھما ج۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کی پندرھویں دلیل!

ان اللّٰہ یبعث لھذہ الامۃ علی راس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا (مشکوٰۃ : کتاب العلم)
یعنی ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا۔ اس صدی کا مجدد مرزا صاحب کے سوا کون ہے؟(۱۰۴۹)
(۱) الجواب: یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور مرزا صاحب کا ایمان تھا کہ :
'' ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ غبی تھا، درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔'' (۱۰۵۰)
'' ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فہم قرآن میں ناقص ہے۔ اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے۔''
'' درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔'' (۱۰۵۱)
لہٰذا وہ شخص '' غبی'' ہو اور ''فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا ہو'' وہ اس قابل نہیں کہ تم اس کی روایت پیش کرو کیونکہ وہ شخص جو ''غبی'' ہو وہ روایت کرنے میں بھی ضرور غلطی کرے گا۔
(۲) یہ روایت موقوف ہے لہٰذا حجت نہیں (دیکھو ابوداؤد کتاب الملاحم جلد دوم ص۳۲)(۱۰۵۲)
(۳) اس حدیث کے راویوں میں ایک راوی ابن وہب ہے جو مدنس ہے لہٰذا قابلِ اعتبار نہیں۔ (۱۰۵۳)
(۴) آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۴۷۲ پر مرزا صاحب اس دمشقی منارہ والی حدیث کے غلط ہونے کی وجہ لکھتے ہیں:
'' ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دمشق میں کوئی منارہ تھا۔ اس سے پایا گیا کہ آنحضرت کے بعد اگر کوئی منارہ بنا تو وہ سند نہیں ہے۔'' (۱۰۵۴)
اسی طرح آنحضرت کے وقت میں سن ہجری نہ تھا۔ یہ سن خلافت دوم میں بنا ہے تو اس حدیث سے صدی سے سن ہجری کی صدی کیونکر مراد لی جاسکتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سن ''فیل'' مروج تھا اور اس سن کا سن ہجری سے ۵۳ سال کا فرق ہے لہٰذا یہ حدیث ''سند نہیں ہے''۔
(۵) مرزا صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منارہ دمشق پر آنے کی حدیث کو اس لیے ضعیف قرار دیتے ہیں کہ گو وہ حدیث صحیح مسلم میں تو ہے مگر بخاری میں نہیں :
'' یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم صاحب ہے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدیثن امام محمد اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا۔'' (۱۰۵۵)
لہٰذا یہ حدیث (مجدد) صحیح بخاری میں نہیں لہٰذا قابل حجت نہیں۔
نوٹ: اس حدیث کا وجود صحاح ستہ کی پانچ کتابوں (بخاری مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی) میں بھی نہیں ہے۔
(۶) مرزا صاحب خود گمراہ میں بموجب حدیث بخاری مسلم کے بوجہ مدعی نبوت ہونے کے کذاب و دجال ہیں خود مرزا صاحب کا اقرار ہے کہ:
'' مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کا بھائی ہے۔'' (۱۰۵۶)
لہٰذا مرزا صاحب اس کے مصداق نہیں ہوسکتے اگرچہ حدیث پر سے سارے اعتراضات بھی اٹھ جائیں۔
(۷) بفرض محال یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صدی کا مجدد شخص واحد ہی نہیں بلکہ جماعت ہے۔ آج اسلامی دنیا کا اندازہ کیا جائے تو یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ممالک اسلامیہ اتنی وسعت میں اتنی دور دور ہیں کہ باوجود ریل اور تار وغیرہ کے ایک ہی مجدد تمام ممالک میں کام نہیں کرسکتا۔ کیا کوئی ہندوستان کا مجدد چین میں اصلاح کرسکتا ہے؟ یا چین کا مجدد افغانستان میں کام کرسکتا ہے؟ امکان کو جانے دیجئے واقعات اس کا جواب دیتے ہیں کہ ہرگز نہیں۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ مَنْ یجدِدُ میں صیغہ مفرد مضارع کا ہے پھر جمع کیسے ہوگا؟
----------------------------------------------
(۱۰۴۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۳۱
(۱۰۵۰) اعجاز احمدی ص۱۸ و روحانی ص۱۲۷، ج۱۹
(۱۰۵۱) ضمیمہ براھین احمدیہ ص۲۳۲، ج۵ و روحانی ص۴۰۱، ج۲۱ ملخصًا
(۱۰۵۲) روایت مذکورہ موقوف نہیں بلکہ مرفوع ہے دیکھئے ابو داؤد ص۲۳۳، ج۲ کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائۃ ومستدرک حاکم ص۵۲۲، ج۴ فی الفتن والملاحم باب ذکر بعض المجد دین فی ھذہ الامۃ و صححہ والطبرانی فی الاوسط بسند رجالہ ثقات علی ما ذکر العجلونی فی کشف الخفاء ص۲۸۲، ج۱
(۱۰۵۳) مولانا معمار مرحوم کا یہ معارضہ درست نہیں ہے کیونکہ ابن وھب کی تدلیس مضر نہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے طبقات المدلسین ص۲۲ میں انہیں پہلے طبقہ میں شمار کیا ہے۔ ثانیاً، ابوداؤد میں، اخبرنی سعید بن ابی ایوب، کہہ کر امام ابن وھب نے سماع کی صراحت کردی ہے لہٰذا تدلیس کا اعتراض غلط ہے۔ ابو صہیب
(۱۰۵۴) آئینہ کمالات اسلام ص۴۵۸ و روحانی ص۴۵۸، ج۵ ملخصاً مترجمًا
(۱۰۵۵) ازالہ اوہام ص ۲۲۰ و روحانی ص۲۰۹،۲۱۰، ج۳
(۱۰۵۶) حاشیہ انجام آتھم ص۲۸ و روحانی ص۲۸، ج۱۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جواب:
اس کا یہ ہے کہ مَنْ بصیغہ مفرد قرآن مجید میں بکثرت آتے ہیں جہاں جمع مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرَ وَمَا ھُمْ بِمُوْمِنین(۱۰۵۷) اس آیت میں مَنْ کا صلہ یَقُوْلُ صیغہ مفرد فعل مضارع ہے مگر اس کو ماھُمَ میں جمع دکھایا ہے اس طرح مَنْ یُجدِدُکا صیغہ بظاہر مفرد ہے مگر معنی میں جمع ہے۔
نتیجہ:
یہ حدیث ضعیف ہے بفرضِ محال صحیح بھی ہو تو مجدد ہر وہ شخص ہے جو خدمت دین کرے اور توحید و سنت کا درس دے اور خود بھی عامل ہو۔ نہ کہ مرزا صاحب جو خود ۵۲ برس مشرک رہے پھر مراق وغیرہ میں مبتلا رہے اور دعویٰ نبوت کی وجہ سے مسیلمہ کذاب کے بھائی ٹھہرے۔
----------------------------------------------
(۱۰۵۷) پ۱ رکوع نمبر۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ضمیمہ کذبات مرزا

'' ٹیچی''
مسلمان:
مرزا صاحب کے پاس آنے والے فرشتے کا نام ٹیچی تھا یعنی بوقت ضرورت عین موقع پر روپے لانے والا (۱۰۵۸)اس ٹیچی فرشتے کی بابت مرزا صاحب کا ایک بیان بھی ہے کہ مرزا صاحب نے اس سے دریافت کیا۔ تمہارا کیا نام ہے تو اس فرشتے نے کہا میرا نام کچھ بھی نہیں۔ پھر پوچھا تو کہنے لگا کہ میرا نام ٹیچی ہے یعنی بوقت ضرورت عین موقع پر پہنچنے اور کام آنے والا۔ اس میں اس فرشتے نے بھی جھوٹ بولا کہ پہلے میرا نام کچھ نہیں پھر کہا میرا نام ٹیچی ہے اندریں حالات ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس نبی کے پاس آنے والا فرشتہ بھی جھوٹ بولتا ہو وہ صادق نبی نہیں ہوسکتا۔
مرزائی:
ٹیچی فرشتے پر جو پھبتی اڑائی جاتی ہے اس کے لیے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ملک الموت کو چپیڑ ماری تو وہ کانا ہوگیا۔ پس جس طرح فرشتہ کانا ہوسکتا ہے اس طرح اس کا نام بھی ٹیچی ہوسکتا ہے۔ (۱۰۵۹)
الجواب:
کہاں فرشتے کے نام سے سوال کہ یہ کیسا نام اور اس کے اخلاقی عیب جھوٹ سے سوال کہ جھوٹ بولنے والا فرشتہ کس طرح ہوسکتا ہے اور کہاں ملک الموت کا جسمانی عارضہ کہ آنکھ پھوٹ گئی۔ ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔
نوٹ: امام بیہقی رحمہ اللہ نے خطابی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ملحد اور بدعتی لوگ اس حدیث پر طعن کرتے ہیں پھر اس کا بہت مبسوط و مدلل جواب نقل کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ صدمہ صورت بشری کی آنکھ پر وارد ہوا تھا نہ کہ صورت ملکی کی آنکھ پر۔ کیونکہ حضرت ملک الموت اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس صورتِ بشری میں آئے تھے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہ السلام کے پاس صورتِ بشریٰ میں آئے تھے تو انہوں نے ان کو نہ پہچانا۔ (۱۰۶۰)
----------------------------------------------------

(۱۰۵۸) حقیقت الوحی ص۳۳۲ و روحانی ص۳۴۶، ج۲۲ و تذکرہ ص۵۲۹
(۱۰۵۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۰۱، طبعہ ۱۹۴۵ مفہوم
(۱۰۶۰) کتاب الاسماء والصفات للبیھقی ص۲۵۴، ج۲ باب ماجاء فی التردد
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کا شاعر ہونا
وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشعر وما ینبغی لہ۔(۱۰۶۱)
یعنی ہم نے آنحضرت کو شعر نہیں سکھایا اور نہ وہ (یعنی شعر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لائق ہے۔ یعنی شعر گوئی کمالاتِ نبوت میں سے نہیں ہے بلکہ شان نبوت کے لائق بھی نہیں اور مرزا صاحب اپنے آپ کو بروز محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہتے ہیں لہٰذا آپ نبی نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ نے اپنا کمال شعروں میں دکھایا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت میں شعر نہیں پایا گیا۔ بلکہ اگر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے کا شعر بطور تمثیل نقل بھی کیا تو اس میں ایسی تبدیلی ہوگئی جس سے اس کا وزن درست نہ رہ سکا اور اس کی مثالیں حدیث جاننے والوں سے مخفی نہیں ہیں پس جب شعر آپ کی عادت میں نہیں بلکہ دوسرے کا شعر بھی جو موزوں ہوتا پوری طرح نقل نہ کرسکتے۔ تو معلوم ہوا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن مبارک سے کبھی کوئی موزوں کلام (انا النبی لا کذب) نکل گیا تو وہ اتفاقی بات ہے۔ اور اصطلاح کے لحاظ سے ایسا موزوں کلام جو اتفاقاً موزوں ہو جائے اور متکلم کا قصد نہ پایا جائے اسے شعر اور اس کے قائل کو شاعر نہیں کہتے۔ چنانچہ علامہ سیدد منہوری مصری شرح کافی میں شعر کی تعریف میں کہتے ہیں:
کَلَامٌ مَوْزُوْنٌ قَصدًا بِوَزْنٍ عَرَبِیٍ اور اس کے بعد ان قیود کے فوائد میں قصد پر لکھتے ہیں:
وقولنا قصدًا یَخْرُجُ مَاکَانَ وَزْنُہٗ اِتِّفَاقیا اَیْ لَمْ یُقْصَدْ وَزْنُہٗ فلا یَکُوْنُ شِعْرًا کایاتٍ شَرِیفۃٍ اتفق وزنھا ای لم یقصد وزنھا بل قصد قرانا وذکر لقولہ تعالٰی لَنْ تَنَالُوا الْبر حتی تنفقوا مما تحبون فانھا وزن مُجْزِمُ الرُّسُلِ المسبع فلا تکون شعرْ لا ستحالۃ ... الشعریۃ علی القران قال اللّٰہ تعالٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکرو قرآن مبین ولمرکبات نبویۃٍ اتفق وزْنُھَا اَیْ لَمْ یُقْصدوزْنُھَا بَلْ قَصَدَکَوْنَھَا ذِکْرا مثلا لقولہ صلعم ھل انت الا اِصْبُحٌ وَمِیْتِ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا لَقِیْتِ فَاِنَّہٗ عَلٰی وَزَنِ الرجز المقطوع فلا یکون شعرا قال اللّٰہُ تَعَالٰی وَمَآ علمنٰہُ الشعر وما ینبغی لہ (الشرح المبسوط ص۱۳) (۱۰۶۲)
نیز سیدد منہوری نے اسی صفحہ میں شیخ جمل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہے کہ آدم علیہ السلام نے شعر کہا تھا اس نے جھوٹ بولا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام( علیہم السلام ) سب کے سب شعر گوئی سے پاک ہونے میں برابر ہیں۔
اسی طرح اسی صفحہ پر شیخ سجائی سے شعر کی تعریف یوں نقل کی ہے: والنظم ھو الکلام المقفی الموزن قصدًا۔ اَیْ مقصود الشعریۃ لقائلہ ٖیعنی جو کلام وزن اور قافیہ کی رعایت سے شعریت کا قصد کرکے کہا جائے، اسے نظم (شعر) کہتے ہیں۔
---------------------------------
(۱۰۶۱) پ ۲۳ یٰسٓ آیت نمبر ۶۹
 
Top