• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تیسری غلط پیشگوئی

منکوحہ آسمانی
مرزا صاحب کے رشتہ داروں میں ایک صاحب مسمی احمد بیگ ہوشیار پوری تھے۔ انہیں ایک دفعہ ایک ضروری کام کے لیے مرزا صاحب کی خدمت میں مستدعی ہونا پڑا۔ چونکہ وہ کام احسان و ایثار اور قربانی پر مبنی تھا جو مرزا صاحب کے ہاں مفقود تھی۔ اس لیے مرزا صاحب نے اس وقت تو یہ کہہ کر ہماری عادت بغیر استخارہ اور بلا استمزاج الٰہی کوئی کام کرنے کی نہیں ہے انہیں ٹال دیا کچھ دن بعد بذریعہ خط اس '' سلوک و مروت'' کی قیمت یا معاوضہ اس کی دختر کلاں کا رشتہ اپنے لیے مانگا۔
آہ! اگر مرزا صاحب کو مکالمہ و مخاطبہ الٰہی تو درکنار شریف انسانوں کی غیور طبائع کا ہی احساس ہوتا تو وہ کبھی اور کسی حالت میں اس شرافت پاش تہذیب شکن مطالبہ کا زبان پر لانا تو بڑی بات ہے دل میں خیال تک بھی نہ لائے۔
کوئی شریف و غیرت مند انسان اس طرح کے کاروباری طریق اور تجارتی اصول کے طور پر اپنی لختِ جگر کی توہین و تضحیک برداشت نہیں کرسکتا خواہ اس کی گردن ہی کیوں نہ اڑا دی جائے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ان کے دل میں جو رہی سہی عزت مرزا تھی وہ بھی کافور ہوگئی اور انہوں نے نہ صرف بشدد مداس رشتہ سے انکار کیا بلکہ اپنی غیرت و شرافت اور مرزا صاحب کی سوء عقل و قابل نفرت تہذیب کا اظہار کرنے کو مرزا صاحب کا وہ خط مخالفین مرزا کے اخباروں میں شائع کرا دیا اور خدا کی قسم اگر وہ ایسا نہ کرتے اور یہ رشتہ منظور کرلیتے تو ہر شریف و مہذب انسان قیامت تک کے لیے انہیں ذلیل و حقیر جاننے پر مجبور ہوتا۔ آمدم برسرِ مطلب۔ مرزا صاحب نے جو خط انہیں لکھا، وہ چونکہ پیشگوئی پر مبنی تھا اس لیے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں، ملاحظہ ہو:
'' خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک سے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اگر آپ اپنی دخترِ کلاں کا رشتہ میرے ساتھ منظور کریں تو وہ تمام نحوستیں آپ کی دور کردے گا اگر یہ رشتہ وقوع میں نہ آیا تو آپ کے لیے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہرگز مبارک نہ ہوگا۔ اور اس کا انجام درد اور تکلیف اور موت ہوگی یہ دونوں طرف برکت اور موت کی ایسی ہیں کہ جن کو آزمانے کے بعد میرا صدق یا کذب معلوم ہوسکتا ہے۔ (۲۷)
اس خلاف تہذیب مطالبہ اور دھمکی آمیز خط کا جو اثر ہوا وہ ہم لکھ چکے ہیں کہ بجائے اس کے کہ احمد بیگ وغیرہ اس سے ڈرتے، انہوں نے اسے مشہور کردیا۔ حالانکہ مرزا صاحب کی خواہش تھی کہ اسے مخفی رکھا جائے۔
ان کی اس کارروائی سے مرزا صاحب کو اور بھی غصہ آیا اور آپ نے کھلے بندوں اشتہار دیا:
'' اخبار نور افشاں ۱۰ مئی ۱۸۸۸ء میں جو خط اس راقم کا چھاپا گیا ہے وہ ربانی اشارہ سے لکھا گیا تھا۔ ایک مدت سے قریبی رشتہ دار مکتوب الیہ کے نشان آسمانی کے طالب تھے اور طریقہ اسلام سے انحراف رکھتے تھے (یہ محض افترا ہے البتہ وہ لوگ جو مرزا صاحب کے دعاوی کے ضرور منکر تھے۔ ناقل) یہ لوگ مجھ کو میرے دعویٰ الہام میں مکار اور دروغ گو جانتے تھے اور مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے۔ کئی دفعہ ان کے لیے دعا کی گئی۔ دعا قبول ہوکر خدا نے یہ تقریب پیدا کی کہ والد اس دختر کا ایک ضروری کام کے لیے ہماری طرف ملتجی ہوا قریب تھا کہ (ہم اس کی درخواست پر) دستخط کردیتے۔ لیکن خیال آیا کہ استخارہ کرلینا چاہیے سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا پھر استخارہ کیا گیا وہ استخارہ کیا تھا گویا نشانِ آسمانی کی درخواست کا وقت آپہنچا، اس قادر حکیم نے مجھ سے فرمایا کہ اس کی دختر کلاں کے لیے سلسلہ جنبانی کرو اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک و مروت تم سے اسی شرط پر کیا جائے گا اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت برا ہوگا جس دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔ خدائے تعالیٰ اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔ خدائے تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کو ہر ایک مانع دور کرنے کے بعد انجام کار اس عاجز کے نکاح میں لائے گا۔ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے: ''کَذبُوْا بِاٰیتنا وَکَانوا بِھَا یستھزء ون فسیکفیکھم اللّٰہُ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہِ اِنَّ رَبُّکَ فَعَالٌ لِّمَا یُرِیْدُ''۔ یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے ہنسی کر رہے تھے۔ سو خدا تعالیٰ ان کے تدارک کے لیے جو اس کام کو روک رہے ہیں۔ تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے، بدخیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کو ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک (کسوٹی) امتحان نہیں۔'' (۲۷)
اس اشتہار میں جو کچھ ہے محتاج تشریح نہیں، صاف صاف اعلان ہے کہ اگر دوسری جگہ نکاح کیا گیا تو اس عورت کا خاوند اڑھائی سال میں اور اس کا والد تین سال میں فوت ہوگا یہ خدا کا مقرر کیا ہوا فیصلہ اور اٹل وعدہ ہے جسے کوئی بھی ٹال نہیں سکتا جو شخص اس میں رکاوٹ ہوگا وہ بھی ساتھ ہی پس جائے گا۔ آخر کار مرزا سے نکاح ہوگا۔ یہ دلیل ہے خدا کے قادر فعال لما یرید اور مرزا صاحب کے ملہم خدا ہونے کی وغیرہ۔
اس کی مزید تائید الفاظ ذیل میں یوں کی گئی ہے:
خدا تعالیٰ ہمارے کنبے اور قوم میں سے تمام لوگوں پر جو (اس) پیشگوئی کے مزاحم ہونا چاہیں گے اپنے قہری نشان نازل کرے گا اور ان سے لڑے گا اور ان کو انواع و اقسام کے عذابوں میں مبتلا کرے گا، ان میں سے ایک بھی ایسا نہ ہوگا جو اس عقوبت سے خالی رہے۔ ایک عرصہ سے یہ لوگ مجھے میرے الہامی دعاوی میں مکار اور دکاندار خیال کرتے ہیں پس خدا تعالیٰ نے انہیں کی بھلائی کے لیے انہی کی درخواست سے الہامی پیشگوئی کو ظاہر فرمایا۔ تا وہ سمجھیں کہ وہ (خدا) در حقیقت موجود ہے یہ رشتہ جس کی درخواست کی گئی محض بطور نشان کے ہے تاکہ خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو عجوبہ قدرت دکھا دے۔'' (۲۸)
اس تحریر میں بھی مثل سابق پیشگوئی کی عظمت و شوکت کا اظہار ہے اور اس کو خدا کے موجود، مرزا صاحب کے من جانب اللہ ہونے کی ایک زبردست دلیل اور عجوبہ قدرت قرار دیا گیا ہے:
اور سنیے مرزا صاحب رسالہ ''شہادۃ القرآن'' ص ۸۰ پر راقم ہیں:
'' بعض عظیم الشان نشان اس عاجز کی طرف سے معرض امتحان میں جیسا کہ عبداللہ آتھم امرتسری کی نسبت پیش گوئی اور پنڈت لیکھ رام کی پیش گوئی، پھر مرزا احمد بیگ ہوشیاپوری کے داماد کی نسبت پیش گوئی جس کی معیاد آج کی تاریخ سے جو ۲۱؍ ستمبر ۱۸۹۳ء ہے قریباً گیارہ مہینے باقی رہ گئے ہیں، یہ تمام امورِ جو انسانی طاقتوں سے بالکل بالاتر ہیں ایک صادق یا کاذب کی شناخت کے لیے کافی ہیں پیشین گوئیاں کوئی معمولی بات نہیں جو انسان کے اختیار میں ہوں بلکہ محض اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہیں سو اگر کوئی طالب حق ہے تو ان پیشگوئیوں کے وقتوں کا انتظار کرے یہ تینوں پیشگوئیاں پنجاب کی تین بڑی قوموں پر حاوی ہیں اور ان میں سے وہ پیشگوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی عظیم الشان ہے کیونکہ اس کے اجزا یہ ہیں:
(۱) مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری تین سال کی معیاد کے اندر فوت ہو (۲) داماد اس کا اڑھائی سال کے اندر فوت ہو (۳) احمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو (۴) وہ دختر بھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو (۵) یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورا ہونے تک فوت نہ ہو (۶) پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جاوے۔ (۲۹)
یہ عبارت بھی اپنا مدعا بتانے میں بالکل واضح ہے احمد بیگ کا تین سال میں اور اس کے داماد کا اڑھائی سال میں فوت ہونا اور محمدی بیگم کا مرزا صاحب کے عقد میں آنا عظیم الشان پیشگوئی قرار دیا ہے۔
البتہ دو باتیں اس میں ایسی لکھی ہیں جو صریح جھوٹ اور افترا ہے، اول یہ کہ اصل پیشگوئی میں پہلا نمبر احمد بیگ کے داماد کی موت مذکور تھا اور اس کی مدت بھی اڑھائی سال بتائی تھی اور دوسرا نمبر خود احمد بیگ کی موت اور میعاد تین سال لکھی تھی۔ یہ ترتیب تحریر اور فرق میعاد مظہر ہے کہ پہلے وہ مرے گا جس کی میعاد اڑھائی سال ہے۔ اور پیش گوئی میں پہلے نمبر پر اس کا ذکر ہے اور بعد میں وہ مرے گا جو دوسرے نمبر پر مذکور ہے، اور اس کی میعاد تین سال ہے۔ بخلاف اس کے چونکہ اس تحریر کے وقت مرزا احمد بیگ بقضا الٰہی اپنی مقررہ عمر پوری کرکے فوت ہوچکا تھا۔ حالانکہ اسے اپنے داماد کے بعد مرنا تھا، اس لیے مرزا صاحب نے اس تحریر میں یہ چالاکی کی کہ احمد بیگ کی موت پہلے ذکر کی اور اس کے داماد کا ذکر دوسرے نمبر پر کیا۔
دوسری چالاکی اُس تحریر میں یہ کی ہے کہ اصل پیشگوئی کی رو سے یہ ضروری نہیں تھا کہ پہلے وہ عورت دوسری جگہ بیاہی جائے پھر بیوہ ہو کر مرزا کے نکاح میں آئے بلکہ دونوں صورتیں ملحوظ تھیں یعنی پیشگوئی یہ تھی کہ '' وہ عورت باکرہ یا بیوہ ہو کر میرے نکاح میں ضرور آئے گی'' مگر اس تحریر کے وقت اس عورت کا دوسری جگہ نکاح ہوچکا تھا۔ اس لیے مرزا صاحب نے پیش گوئی کے ایک حصہ ''باکرہ'' کو تو بالکل ہی ہضم کرلیا اور صرف '' بیوہ'' والا حصہ ظاہر کرنے کو لکھا کہ ہماری پیش گوئی یہ تھی کہ:
''وہ دختر بھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔''
ناظرین کرام! یہ میں مرزا صاحب '' صادق بنی اللہ'' کی مقدس چالیں غور فرمائیے اگر پیش گوئی کی رو سے یہی ضروری تھا کہ وہ عورت پہلے دوسری جگہ بیاہی جائے گی اور بیوہ ہو کر مرزا صاحب کے نکاح میں آئے گی تو پھر مرزا صاحب نے کیوں خط پر خط بھیجے کہ ہمارے ساتھ نکاح کردو، دوسری جگہ نہ کرو، اگر کرو گے تو تم پر مصائب آئیں گے یہ ہوگا وہ ہوگا۔ یہاں تک کہ خود سلطان محمد کو خطوط لکھے کہ تم یہ نکاح منظور نہ کرو۔
حاصل یہ کہ مرزا صاحب کی یہ تحریر ان کی اصلیت کا اظہار کر رہی ہے کہ وہ کیا تھے، بہرحال مرزا صاحب کی ان تمام دھمکی آمیز پیشگوئیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ فریق ثانی نے محمدی بیگم کو مؤرخہ ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء کو مرزا سلطان محمد ساکن پٹی (ضلع لاہور) سے بیاہ دیا۔ (۳۰)
اس پر مزید ستم یہ کہ مرزا سلطان محمد خاوند محمدی بیگم بجائے اڑھائی سال میں مرنے کے آج تک دندناتا پھر رہا ہے (۳۱)۔ اور مرزا صاحب کبھی کے حسرت وصل دل میں لے کر گوشۂ قبر میں جا لیٹے ہیں۔ مرزائی مناظر اس پیشگوئی پر مندرجہ ذیل عذر کیا کرتے ہیں۔
مرزائیوں کا پہلا عذر:
نکاح کی حضرت صاحب نے دو ہی صورتیں بتائی تھیں (۱) باکرہ ہونے کی (۲) بیوہ ہو کر باکرہ والی صورت کو الہام الٰہی ''یُرُدُّھَا ٓ اِلَیْکَ'' اور ''کَذَّبُوْا بِایٰتِنَا '' نے باطل کردیا۔ (۳۲)
الجواب:
(۱) مرزا صاحب کا یہ دو رنگا الہام یعنی خواہ پہلے باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خدا بیوہ کرکے اس کو میری طرف لے آوے۔ (۳۳)
یہ الہام ہی مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر شاہد ہے خدا کے کلام میں اس طرح کی جہالت نہیں ہوسکتی۔
(۲) آپ نے جو الہام باکرہ سے نکاح منسوخ ہوجانے کے بارے میں پیش کیا ہے یہ تو پیشگوئی کا ابتدائی الہام ہے جو اشتہار ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے (۳۴)۔ کیا مرزا صاحب کے الہام کرنے والے نے یہ پیشگوئی کرتے ہوئے کہ اس عورت سے تیرا نکاح '' باکرہ یا بیوہ'' ہر دو صورتوں میں ہوگا ساتھ ہی ''باکرہ'' کی صورت کو منسوخ بھی کردیا تھا۔ العجب (۳۵)
معلوم ہوتا ہے کہ مرزائی مجیب کو خدا پر ایمان نہ ہونے کے ساتھ مرزا صاحب سے بھی دشمنی ہے کہ وہ اس طرح ان سے ٹھٹھا کر رہا ہے۔
اگر ایک ہی اشتہار میں یہ الہامی سہ رنگی پائی جاتی ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ ''اس شخص کی دختر کلاں کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک و مروت تم سے اسی شرط پر کیا جائے گا۔ (کہ اپنی لڑکی کا بصورت باکرہ مجھ سے عقد کردو) یہ نکاح تمہارے لیے موجب برکت ہوگا'' اور دوسری طرف ''باکرہ یا بیوہ'' کی دو رنگی ہے اور تیسری طرف باکرہ والی صورت ہی منسوخ کردی گئی ہے تو اس کے بعد مرزا صاحب نے کیوں سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح دوسری جگہ نکاح نہ ہونے پائے اور میرے ساتھ ہی ہو جائے یہاں تک کہ اپنی بیوی کو دھمکی دی کہ '' اگر وہ تجویز جو اس لڑکی کے ناطہ اور (دوسری جگہ) نکاح کرنے کی کر رہے ہیں اس کو موقوف نہ کرایا تو طلاق دے دوں گا۔'' اور اسی غصہ میں دے بھی دی۔ بلکہ اپنے لڑکے سلطان احمد کو عاق اور ''محروم الارث'' قرار دیا اور دوسرے لڑکے کے نام فرمان جاری کیا کہ اپنی بیوی جو احمد بیگ کی بھانجی ہے اس کو طلاق نہ دو گے تو تم بھی عاق متصور ہوگے وغیرہ۔ (۳۶)
مرزائیوں کا دوسرا عذر:
حضور (مرزا صاحب انجام آتھم ص۲۱۶ میں) فرماتے ہیں کہ اصل پیش گوئی نکاح کی نہیں بلکہ احمد بیگ و سلطان محمد کی موت کی تھی اور اس عورت کا نکاح میں آنا تو محض پیش گوئی کی عظمت بڑھانے کے لیے ہے۔ (۳۷)
الجواب:
اگر اصل مقصود ان کی ہلاکت تھی تو پھر وہ اڑھائی سال کی بتائی ہوئی میعاد میں کیوں نہ فوت ہوا؟ یہ عذر تو بجائے مفید ہونے کے تمہیں اور بھی مضر ہے۔
ماسوا اس کے یہ بھی جھوٹ ہے کہ اصل مقصود اور اصل پیشگوئی ان کی ہلاکت کی تھی۔ حالانکہ اصل پیش گوئی تو نکاح کی تھی۔ مرزا احمد بیگ سلطان محمد کی موت تو محض اس لیے اور اس شرط پر تھی کہ وہ اس نکاح میں مانع ہوں گے تو میعاد کے اندر فوت ہو جائیں گے۔ (۳۸ )
ناظرین کرام! ملاحظہ فرمائیں کہ مرزا صاحب پہلے تو بڑے زور شور کے ساتھ پیش گوئی کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کو ایک مانع دور کرنے کے بعد اس عاجز کے نکاح میں لاوے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ ''لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ'' میرا رب ایسا قادر ہے کہ جو چاہے وہی ہو جاتا ہے۔ بلکہ یہاں تک دعویٰ ہے کہ '' مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا نکاح پڑھا دیا ہے میری باتوں کو کوئی نہیں بدلا سکتا۔ (۳۹)
مگر بعد میں جب دوسرا شخص اسے بیاہ لے جاتا ہے، اور ان الہاموں کو ذرا بھر دقعت نہیں دیتا۔ لطف یہ کہ مرزا صاحب اور ان کے الہام کنندہ کی بتائی ہوئی میعاد میں اس کی موت تو درکنار اسے سردرد تک نہیں ہوتا۔ تو مرزا صاحب تین چار سال بعد بقول مصنف ''احمدیہ پاکٹ'' بک پینترا بدل کر کہتے ہیں کہ اصل پیشگوئی نکاح کی نہیں تھی۔ آہ! کیا سچ ہے کہ:
'' انسان جب حیا کو چھوڑ دیتا ہے تو جو چاہے بکے کون اس کو روکتا ہے۔'' (۴۰)
مرزائیوں کا تیسرا عذر:
جب احمد بیگ میعاد مقررہ میں ہلاک ہوگیا تو سلطان محمد پر خوف طاری ہوا۔ اس نے حضرت مسیح موعود کو دعا کے لیے خطوط لکھے اور تضرع و ابتہال سے جناب باری میں دعا کی۔ خدا تعالیٰ غفور و رحیم نے سلطان محمد کی زاری کو سنا عذاب ہٹا لیا۔ (۴۱)
الجواب:
(۱) احمد بیگ کا سلطان محمد سے قبل مرنا پیشگوئی کی تکذیب ہے۔ جیسا کہ ہم اس پر مفصل لکھ چکے ہیں، سلطان محمد کے متعلق یہ کہنا کہ اس نے اپنے خسر کی موت ملاحظہ کرکے مرزا صاحب کی خدمت میں خطوط بھیجے اور خدا سے تضرع و ابتہال کے ساتھ پناہ مانگی یہ اس قدر جھوٹ ہے کہ دنیا میں کوئی بدترین سے بدترین انسان بھی اس قدر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ ہمارا چیلنج ہے کہ اگر تم لوگ مرزا احمد بیگ کی وفات کے بعد اور سلطان محمد کی میعادی تاریخ کے اندر اندر اس کا کوئی خط مرزا صاحب کے نام بھیجا ہوا دکھا دو تو ہم سے منہ مانگا انعام لو۔ ورنہ یاد رکھو کہ قیامت کے دن کذابوں اور دجالوں کے ساتھ تمہارا حشر ہوگا۔
(۲) مرزا احمد بیگ ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو فوت ہوا (۴۲)۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد سلطان محمد نے خط بھیجے وغیرہ (بہت خوب) مگر سوال یہ ہے کہ کیا۔ ان '' خطوط اور توبہ'' وغیرہ کے باعث اس سے عذاب موت جو میعادی اڑھائی سالہ تھا ٹل گیا؟ مرزا جی کہتے ہیں کہ ''نہیں'' چنانچہ احمد بیگ کی وفات کے قریباً ایک سال بعد مرزا صاحب اپنی کتاب شہادۃ القرآن میں سلطان محمد کی میعادی موت کو بحال رکھتے ہوئے راقم ہیں:
'' مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کے داماد کی موت کی نسبت پیشگوئی جو ٹپی ضلع لاہور کا باشندہ جس کی میعاد آج کی تاریخ سے جو ۲۱؍ ستمبر ۱۸۹۳ء ہے قریباً گیارہ مہینے باقی رہ گئی ہے یہ تمام امور جو انسانی طاقتوں سے بالکل بالاتر ہیں، ایک صادق یا کاذب کی شناخت کے لیے کافی ہیں۔ '' الخ (۴۳)
اس عبارت نے معاملہ بالکل صاف کردیا کہ اگر سلطان محمد نے کوئی خط وغیرہ بھیجا اور توبہ بھی کی ہے تو اس کا اس پیشگوئی پر کوئی اثر نہیں وہ یقینا اپنی میعاد میں مرے گا اور مرزا صاحب اس کی موت کو اپنے صدق و کذب کا نشان قرار دے رہے ہیں ۔ فلہ الحمد
اور بات بھی سچ ہے کہ پیشگوئی میں سلطان احمد کی تویہ شرط نہ تھی، بلکہ یہ تھا کہ '' جس دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ اڑھائی سال میں فوت ہو جائے گا۔ یعنی سلطان محمد کا قصور صرف نکاح تھا جو اُس نے کر لیا۔ اسی کی تائید مرزا صاحب کی تحریر ذیل سے ہوتی ہے:
'' احمد بیگ کے داماد کا یہ قصور تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پروا نہ کی۔ خط پر خط بھیجے گئے ان سے کچھ نہ ڈرا۔ پیغام بھیج کر سمجھایا گیا۔ کسی نے التفات نہ کی سو یہی قصور تھا کہ پیشگوئی کو سن کر ناطہ کرنے پر راضی ہوئے۔'' (۴۴)

---------------------------------------------------------------------------------------
(۲۷) اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۵۷ تا ۱۵۹، ج۱ وآئینہ کمالات اسلام ص۲۸۱ تا ۲۸۸ وتذکرہ ص۱۵۹ ملخصًا واللفظ لہ
(۲۸) اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۶۰، ج۱ وتبلیغ رسالت ص۱۱۹، ج۱ وتذکرہ ص۱۶۱
(۲۹) شہادت القران ص۷۹ تا ۸۰ و روحانی ص۳۷۶، ج۶ ملخصًا
(۳۰) آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۹ نوٹ: آئینہ میں محض دوسری جگہ شادی کا زکر ہے، البتہ مرزائی دوست محمد شاہد نے تاریخ احمدیت ص۱۷۰، ج۲ میں عبدالقادر سوداگر مل نے، حیات طیبہ ص۸۹ میں مرزا سلطان محمد صاحب مرحوم سے شادی کا اقرار کیا ہے۔ ابو صہیب
(۳۱) مرزا سلطان محمد صاحب مرحوم نے بحالت ایمان ۱۹۴۹ میں وفات پائی تھی، ارشد
(۳۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۸ طبع ۱۹۳۳
(۳۳) اشتہار مرزا مورخہ ۲؍ مئی ۱۸۹۱ء میں مندرجہ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود ص۲۱۹، ج۱ وتبلیغ رسالت ص۹ج۲
(۳۴) دیکھئے، مجموعہ اشتہارات ص۱۵۸، ج۱ وتذکرہ ص۱۵۹
(۳۵) مرزا دجال کے الہام یردھا الیک کے منسوخ نہ ہونے پر ایک مزید یہ بھی دلیل ہے کہ محمدی بیگم مرحومہ کے نکاح کے چار سال بعد ۱۸۹۶ء میں انجام آتھم کے صفحہ ۶۰ میں اسے دوبارہ شائع کیا اور نکاح کے آٹھ سال بعد۱۹۰۰ء میںمرزا جی نے اربعین نمبر۲ ص۳۴ پر درج کرتے ہوئے حسب ذیل حاشیہ آرائی کی ہے، یردھا الیک سے صاف ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ اس عورت کا جانا اور پھر واپس آنا شرط ہے اور اس کے بعد زوجنک ہے اور یہی معنی رد کے ہیں، روحانی خزائن ص۳۸۲، ج۱۷ مولاناعبداللہ معمار مرحوم کی اس زبردست گرفت کی وجہ سے مؤلف، مرزائی پاکٹ بک نے بعد کی اشاعت کے صفحہ ۷۷۴ طبعہ ۱۹۴۵ء میںیہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یردھا الیک کا معنیٰ یہ ہے کہ محمدی بیگم کی دوسری جگہ شادی ہوگی۔ ابو صہیب
(۳۶) اشتہار مرزا مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۲۲۱، ج۱
(۳۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۷۳ طبعہ ۱۹۴۵ء و ص۴۳۳ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۳۸) اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء مندرجہ، مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۵۸، ج۱ وتذکرہ ص۱۵۸
(۳۹) آسمانی فیصلہ ص۴۰ و روحانی ص۳۵۰، ج۴ و مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۳۰۱، ج۱ و تبلیغ رسالت ص۸۵، ج۲ وتذکرہ ص۱۶۱
(۴۰) اعجاز احمدی ص۳ و روحانی ص۱۰۹ج ۱۹
(۴۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۳ طبعہ ۱۹۳۲ء ملخصًا
(۴۲) آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۵ و روحانی ص۳۲۵، ج۵
(۴۳) شہادت القران ص۷۹ و روحانی ص۳۷۵، ج۶
(۴۴) اشتہار مرزا مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۹۵، ج۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
چوتھی غلط پیشگوئی

(تصویر کا دوسرا رخ)​
نکاح محمدی بیگم اور موت سلطان محمد مرزا صاحب کی زندگی میں
جب مرزا صاحب کی میعاد والی پیشگوئی جھوٹی نکلی تو آپ نے یہ عذر کیا کہ گو سلطان محمد مقررہ وقت میں نہیں مرا۔ مگر میری زندگی میں ضرور مرے گا چنانچہ لکھا:
'' کہ اس وعید کی میعاد میں تخلف (ٹل جانا) جائز ہے۔ قرآن اور تورات کی رو سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وعید کی موت توبہ اور خوف سے ٹل سکتی ہے۔ (۴۵) میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیشگوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے، اس کی انتظار کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی۔ اور میری موت آجائے گی اور اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ ضرور اس کو بھی ایسا ہی پورا کردے گا جیسا کہ احمد بیگ اور آتھم کی پیش گوئی پوری ہوگئی (میعاد میں نہ مرنے پر اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ) اصل مدعا تو نفس مفہوم ہے، وقتوں میں تو کبھی استعارات کا دخل ہو جانا ہے۔ بائیبل کی بعض پیشگوئیوں میں دنوں کے سال بنائے گئے ہیں جو بات خدا کی طرف سے ٹھہر چکی ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا اگر خدا کا خوف ہو تو اس پیشگوئی کے نفس مفہوم (میری زندگی میں مرنے) میں شک نہ کیا جائے۔ وعید کی پیشگوئی میں گو بظاہر کوئی بھی شرط نہ ہو تب بھی بوجہ خوف تاخیر ڈال دی جاتی ہے پھر اس اجماعی عقیدہ سے محض میری عداوت کے لیے منہ پھیرنا اگر بد ذاتی نہیں تو کیا ہے (مطلب کہ سلطان محمد کے اندرون میعاد نہ مرنے پر اعتراض نہ کرو اگر ضرور تم اس کی موت کے لیے کسی میعاد کے ہی خواہاں ہو تو) فیصلہ تو آسان ہے احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔ پیشگوئی میں تین شخصوں کی موت کی خبر دی گئی تھی۔ دونوں فوت ہوچکے صرف ایک (سلطان محمد) باقی ہے اس کا انتظار کرو۔ ضرور ہے کہ یہ وعید کی (میعادی) موت اس سے تھمی رہے جب تک کہ وہ گھڑی آجائے کہ اس کو بے باق کر دیوے سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو۔ اس کو مکذب بناؤ اور اس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو اس پیشگوئی میں عربی الہام کے الفاظ یہ ہیں: ''کَذَبُوْا بِاٰیِتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِوُن فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَیَردھا لا تبدیل لکلمات اللّٰہ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالُ لما یُرِیْدُ'' (یعنی انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ ٹھٹھا کر رہے ہیں سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لیے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس لڑکی کو تیری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے۔)'' (۴۶)
انجام آتھم کی اس عبارت میں وہی عذر کیا ہے کہ سلطان محمد اڑھائی سالہ میعاد میں اس لیے نہیں مرا کہ وہ خائف ہوگیا تھا۔ وعید کی پیشگوئیوں میں عذاب ٹل جانا جائز ہے۔ ایسی میعادیں استعارہ کے رنگ میں ہوتی ہیں وغیرہ اگر تم ضرور کسی معیاد کے اندر اس کی موت چاہتے ہو تو اٹھو اس سے تکذیب کا اشتہار دلاؤ پھر جو میعاد خدا مقرر کرے اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔
ہم حیران ہیں کہ اس ڈھٹائی کا کیا جواب دیں کیا اس سے پہلے کئی بار خدا تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر جو میعاد بتائی تھی اس کے مطابق وہ مر گیا؟ ہرگز نہیں۔ باقی رہا توبہ کا عذر سو اس کا مفصل جواب ہم دے چکے ہیں کہ محض غلط عذر ہے پس جبکہ مرزا صاحب کی کسی پہلی میعادی پیش گوئی صریح غلط نکلی ہے تو اس کے بعد لوگوں کو کسی دوسری میعاد مقرر کرانے کے لیے اشتہار دلانے کی کیا ضرورت تھی جب کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے مرزا صاحب کو اچھی طرح ذلیل کرچکا ہے۔ غرض یہ سب مغالطہ دینے اور شرمندگی اتارنے کی چالیں ہیں۔ بہرحال اس عبارت میں آئندہ کے لیے سلطان محمد کی موت کو اپنی زندگی کے اندر اندر قطعی و یقینی تقدیر مبرم اٹل قرار دیا ہے۔
ناظرین یہ قول مرزا صاحب کا مرزائی مشن کے قلع قمع کرنے کو ایک زبردست حربہ ہے۔ کیونکہ اس کے بعد مرزا صاحب اپنے بہادر اور زبردست کامیاب رقیب سلطان محمد کے سامنے اس نامرادی کی حالت میں مر گئے۔ اور محمدی بیگم آج تک سلطان محمد ہی کے عقد میں ہے۔ (۴۷)
اعتراض:
سلطان محمد کی موت تکذیب کے اشتہار پر مبنی تھی جو اس نے نہیں دیا اس لیے بچ رہا۔ (۴۸)
جواب:
تکذیب کا اشتہار کسی میعاد کے مقرر کرانے کے لیے تھا جیسا کہ انجام آتھم کی تحریر بالا اس پر شاہد ہے اور ہمارا اعتراض اس وقت کسی میعاد کے اندر نہ مرنے پر نہیں۔ بلکہ اس پر ہے کہ مرزا صاحب نے جو سلطان محمد کی موت اپنی زندگی میں تقدیر مبرم بتائی تھی جس کے نہ ہونے پر تھا کہ اگر میری زندگی میں نہ مرے تو میں جھوٹا ہوں۔ پس تمہارا یہ عذر قطعاً لغو ہے، اس تقدیر مبرم والی موت میں کوئی شرط نہ تھی۔ بار بار مرزا صاحب نے لکھا ہے:
(۱) اصل مدعا تو نفس مفہوم ہے۔
(۲) جو بات خدا کی طرف سے ٹھہر چکی ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔
(۳) اس پیشگوئی کے نفس مفہوم میں شک نہ کیا جائے۔
(۴) صرف ایک باقی ہے اس کی موت کا انتظار کرو۔
(۵) خدا تعالیٰ انجام کار اس لڑکی کو میری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے وغیرہ وغیرہ۔
انجام آتھم کی یہ سب عبارتیں مرزائیوں کو لغو اور بیہودہ ثابت کر رہی ہیں۔
دوسرا جواب:
مرزا صاحب نے سلطان محمد کی موت کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے اور تقدیر مبرم میں کوئی شرط نہیں ہوتی جیسا کہ خود مرزا صاحب نے لکھا ہے:
'' گو بظاہر کوئی وعید کی پیشگوئی شرط سے خالی ہو مگر اس کے ساتھ پوشیدہ طور پر شرط ہوتی ہے بجز ایسے الہام کے جس میں یہ ظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی شروط نہیں پس ایسی صورت میں وہ قطعی فیصلہ ہو جاتا ہے اور تقدیر مبرم قرار پا جاتا ہے یہ نکتہ سورۃ فاتحہ میں مخفی رکھا گیا ہے۔ (ص۱۰ حاشیہ انجام آتھم)
یہ عبارت صاف ظاہر کرتی ہے کہ تقدیر مبرم بلا شرط ہوتی ہے۔
اور سنو! اگر سلطان محمد کی موت اشتہار تکذیب پر مبنی ہوتی تو انجام آتھم کی اس تحریر کے بعد ساری عمر میں اسے کیوں نہ پیش کیا۔ بار بار یہی کہتے رہے کہ مجھے خدا نے:
(۱) کہا ہے یبارکک اللّٰہ مُسْتَکْثَرِۃٍ خدا تجھے بکثرت برکت دے گا ''فَھٰذِہٖ اِشَارَۃ اِلٰی زَمَانٍ یَّاتِیْ عَلْیِھمْ بَعْدَ زَمَان الْاٰفَاتِ عِنْدَوُصْلَۃٍ مُقَدَّرَۃٍ مَعْدُوْدَۃٍ فِی الْاِشَتَھَارَاتِ'' یہ اشارہ ہے کہ ان آفتوں کے بعد زمانہ آنے والا ہے جس میں وصل مقدر ہے جس کا اشتہارات میں وعدہ دیا گیا ہے۔ ''وَتَتِمُّ یَوْمَئِذٍ کَلِمَۃُ رَبِّنَا وَتَسْوَدُّ وَجُوْہُ اَعْدَائِنَا وَیَظْھَرُ اَمْرُ اللّٰہِ وَلَوْ کَانُوْا کَارِھِیْنَ'' وہ وقت آنے والا ہے کہ اس دن خدا کے کلمے پورے ہو رہیں گے اور دشمنوں کے منہ سیاہ ہو جائیں گے خدا کی بات ظاہر ہوگی اگرچہ وہ کراہت کریں ''وَاِنَّ اللّٰہَ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَاِنَّ اللّٰہَ یُخْزِیْ قَوْمًا فَاسِقِیْنَ'' بلاشبہ خدا غالب ہے اور لاریب خدا فاسقوں کو رسوا کرے گا ''وَالْآنَ مَا لَقِیَ اِلاَّ وَاحِدٌ مِنَ الھالکِیْنَ فانظروا حکم اللّٰہِ'' اب صرف ایک شخص ہلاک ہونے والوں میں سے باقی ہے پس منتظر رہو خدا کے حکم کے ''وَاِنَّہٗ لَا یُبْطِلُ قَوْلَہٗ وَاِنَّہٗ لَا یُخْزِیُٔ قَوْمًا مُلْھَمِیْنَ'' تحقیق خدا اپنی پیشگوئی کو باطل نہیں کرے گا۔ بے شک خدا اپنے ملہموں کو رسوا نہیں کرے گا (۴۹) یاد رکھو خدا کے فرمودہ میں تخلف نہیں اور انجام وہی ہے جو ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں، خدا کا وعدہ ہرگز نہیں ٹل سکتا۔ (۵۰)
یاد رکھو اس پیشگوئی کی دوسری جز پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا اے احمقو! یہ انسان کا افترا نہیں یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں، وہی رب ذوالجلال ہے جس کے ارادوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ (۵۱)
نفس پیشگوئی یعنی اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لیے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے۔ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔ (۵۲)
مرزائی اعتراض:
تقدیر مبرم بھی بدل جاتی ہے اور اس میں بھی شرط ہوسکتی ہے۔ (۵۳)
الجواب:
ہم اس وقت مرزا صاحب کے الہامات پر گفتگو کر رہے ہیں پس اس بارے میں مرزا صاحب کا تقدیر مبرم کے متعلق جو مذہب ہوگا اسی پر فیصلہ ہوگا۔ اور ہم اوپر بہ تحریرات مرزا ثابت کرچکے ہیں کہ ان کے نزدیک تقدیر مبرم بلا شرط ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ محمدی بیگم کے نکاح والی تقدیر مبرم ایسی ہے جو بقول مرزا '' کسی طرح نہیں ٹل سکتی۔ اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے'' حاصل یہ کہ مرزا صاحب نے اس پیشگوئی کو اپنے صادق یا کاذب ہونے کی دلیل قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ اگر یہ پوری نہ ہو تو '' میں ہر ایک بد سے بد تر ٹھہروں گا'' اور یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اس لیے ہم مرزا صاحب کے متعلق وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو انہوں نے خود سکھلایا ہے۔
ضمیمہ متعلقہ محمدی بیگم
ناظرین! اس مضمون پر کافی بحث ہوچکی ہے مزید ملاحظہ ہو:
اعتراض:
اشتہار ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں صاف بتایا گیا ہے۔ کہ ایک توبہ نہ کرے گا تو مر جائے گا اور دوسرا توبہ کرے گا اور وہ بچ جائے گا۔ اس کے چھ ماہ بعد احمد بیگ والد محمدی بیگم مر گیا اور سلطان محمد شوہر محمدی بیگم ڈر گیا تو اس لیے وہ بچ گیا۔ (۵۴)
الجواب:
یہ تمام قصہ محض جھوٹ اورمغالطہ ہے کیونکہ اول تو مرزا صاحب کی تصریح کے بموجب مرزا احمد بیگ کو سلطان محمد کی زندگی میں مرنا نہیں چاہیے تھا کیونکہ مرزا صاحب نے صاف طور پر لکھ دیا تھا کہ احمد بیگ کی موت آخری مصیبت ہوگی۔ چنانچہ پرمرزا صاحب لکھتے ہیں:
''فاوحی اللہ الی ان اخطب الصبیۃ (۵۵)الکبیرۃ لنفسک'' یعنی خدا نے مجھے وحی کی ہے کہ احمد بیگ سے اس کی بڑی لڑکی کا رشتہ اپنے لیے طلب کر۔ اس کے بعد فرماتے ہیں ''ان لم تقبل فاعلم اللّٰہ قد اخبرنی ان انکحھا رجلا اخر لایبارک لھا ولا لک فان لم تزوجہ فُلُصیْبُ علیک المصائب واٰخر المصائب موتک''(۵۶) یعنی مجھے خدا نے یہ فرمایا کہ احمد بیگ سے یہ بھی کہہ دے کہ اگر تو نے میرے اس سوال پر رشتہ کو قبول نہ کیا تو جان لے کہ مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ اس لڑکی سے دوسرے شخص کا نکاح کرنا اس لڑکی کے لیے بھی اور تیرے لیے بھی موجب برکت نہ ہوگا پس اگر تو اس ڈانٹ سے نہ ڈرا تو تجھ پر کئی ایک مصیبتیں برسیں گی اور سب سے آخری مصیبت تیری موت ہوگی۔''
اس سے صاف ظاہر ہے کہ سلطان محمد اور محمدی بیگم کے نکاح کے متعلق سلسلہ مصائب کی آخری کڑی محمدی بیگم کے باپ احمد بیگ کی موت ہے علاوہ اس تصریح کے ایک زبردست قرینہ بھی اس کی تائید میں ہے کہ مرزا صاحب احمد بیگ کی موت کی غایت تین سال مقرر کرتے ہیں اب ظاہر ہے کہ اڑھائی سال تین سال سے پہلے گذرتے ہیں پس مرزا احمد بیگ کی موت اس کے داماد کی موت کے بعد ہونی چاہیے تھی جو اس طرح نہیں ہوئی۔ اس پیش گوئی کی یہ خبر بھی جھوٹی نکلی۔
باقی رہا سلطان محمد کا ڈرنا اور توبہ کرنا محض مصنوعی بات ہے نہ وہ ڈرانہ اس نے توبہ کی۔ آخر اس کا قصور کیا تھا جس سے وہ توبہ کرتا مرزا صاحب خود فرماتے ہیں:
'' احمد بیگ کے داماد کا قصور یہ تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پرواہ نہ کی۔ پیشگوئی کو سن کر پھر نکاح کرنے پر راضی ہوئے۔ (۵۷)
معلوم ہوا کہ سلطان محمد کا قصور محمدی بیگم سے نکاح کرنا تھا۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس نے توبہ کی۔ اب توبہ کے متعلق مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ توبہ کسے کہتے ہیں؟ مرزا صاحب رقم طراز ہیں:
'' مثلاً اگر کافر ہے تو سچا مسلمان ہو جائے اور اگر ایک جرم کا مرتکب ہے تو سچ مچ اس جرم سے دست بردار ہو جائے۔ '' (۵۸)
یہ تعریف توبہ کی بالکل صحیح و درست ہے جس کی رو سے سلطان محمد کی توبہ ہونی چاہیے تھی کہ وہ اپنی منکوحہ کو طلاق دے کر اس جرم سے دست بردار ہو جاتا۔ بخلاف اس کے اس نے جو کچھ کیا وہ محتاج تشریح نہیں آج وہ اس عورت پر قابض و متصرف ہے نہ وہ نکاح سے پہلے ڈرا (جو مرزا صاحب کی تحریر مذکورہ بالا سے ثابت ہے) اور نہ نکاح کے بعد کیونکہ یوم نکاح ۱۸۹۲ء سے آج تک چالیس سال سے زائد عرصے وہ اس عورت پر قابض ہے اور خدا نے اسے اس محمدی بیگم کے بطن سے مرزا صاحب کی تحریر کے خلاف ایک درجن کے قریب اولاد بھی بخشی ہے۔ حالانکہ مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ اس سے دوسرے شخص کا نکاح کرنا اس لڑکی کے لیے بابرکت نہ ہوگا۔ پس پیشگوئی کی یہ جزو بھی جھوٹی نکلی۔ نیز مرزا سلطان محمد مرزا غلام احمد صاحب کے الہام '' بستر عیش'' کو غلط ثابت کر رہا ہے۔ احمدی دوست یہی ہانکتے جا رہے ہیں کہ مرزا سلطان محمد، تائب ہوگیا اس لیے وہ بچ گیا۔ آخر اس کا کیا گناہ تھا اور اس کی توبہ کیا چاہیے تھی؟ کیا اس نے اس گناہ سے توبہ کی؟ اس کا یہی قصور تھا کہ وہ مرزا صاحب کے ''بستر عیش'' کی خواہش و تمنا کے پورا ہونے میں حائل تھا۔
اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مریم علیہ السلام میرے نکاح میں آوے گی، جو نہ آئی۔ (۵۹)
الجواب:
یہ روایت بالکل غیر مستند ہے (اگر سچے ہو تو سند بیان کرو) (۶۰) بفرض محال اگر صحیح بھی ہو تو یہ ایک کشفی معاملہ ہے۔ جناب مریم صدیقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کے سینکڑوں برس پیشتر فوت ہوچکی تھیں۔ پس اس نکاح کے کشفی اور متعلقہ عالم آخرت ہونے پر یہی کافی دلیل ہے نیز مرزا صاحب خود رقم طراز ہیں:
'' بعض آثار میں آیا ہے کہ حضرت مریم صدیقہ والدہ مسیح علیہما السلام عالم آخرت میں زوجہ مطہرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی۔'' (۶۱)
پس جبکہ خود اس روایت میں اس نکاح کا متعلقہ عالم آخرت قرار دیا گیا ہے تو تمہارا اس کو محمدی بیگم کے نکاح کی نظیر بنانا صریح خلاف دیانت ہے۔
اعتراض:
یہ پیش گوئی مشروط تھی جیسا کہ لکھا ہے ''اَیَّھُا المراۃ توبی توبی''۔ (۶۲)
الجواب:
اول تو یہ الہام حسب تحریر مرزا صاحب محمدی بیگم کی نانی کے متعلق ہے اور توبی توبی صیغہ مؤنث کا بھی گواہی دے رہا ہے کہ یہ کسی عورت کے متعلق ہے اور سلطان محمد شوہر محمدی بیگم مرد ہے نہ کہ عورت۔ دیگر یہ کہ محمدی بیگم کی نانی کی توبہ بھی یہی ہونی چاہیے تھی کہ وہ اپنی نواسی مرزا جی کو دینے کی سفارشیں کرتیں جیسا کہ مرزا جی کے اپنے الفاظ سے ظاہر ہے کہ وہ باکرہ ہونے کی صورت میں بھی آسکتی ہے اور مرزا صاحب نے اپنی چھوٹی بہو عزت بی بی سے جو خط اس کے باپ مرزا علی شیر بیگ کو لکھوائے اور خود بھی لکھے ان سے ظاہر ہے کہ مرزا جی محمدی بیگم کے کنواری ہونے کی حالت میں بھی نکاح کی کوشش کرتے رہے پس محمدی بیگم کی نانی نے باوجود اس دھمکی کے کوئی پروا نہ کی۔ اور اپنی نواسی مرزا جی کی خواہش کے خلاف سلطان محمد سے بیاہ دی۔ اور اس کی نواسی محمدی بیگم پر کوئی بھی بلا نہ آئی۔
اعتراض:
تقدیر مبرم ٹل سکتی ہے نیز احادیث سے ثابت ہے کہ دعا اور صدقات سے تقدیر مبرم ٹل جاتی ہے۔ (۶۳)
الجواب:
یہ سب مغالطے ہیں اگر ہر تقدیر مبرم اور غیر مبرم دعا اور صدقات سے ٹل سکتی ہے تو مبرم غیر مبرم میں تمیز نہ رہی۔ اور تقسیم بیکار ہوئی ان احادیث کا صحیح مفہوم جو سب احادیث کو اور نفس مسئلہ کو ملحوظ رکھ کر یہی ہے کہ دعا اور صدقات سے وہی امور ٹلتے ہیں جو ان سے متعلق ہوں اور یہ سب کچھ خدا کے علم میں پہلے ہی سے ہوتا ہے (۶۴) حصنِ حصین و نووی شرح مسلم۔ مگر مرزا جی کے نزدیک تقدیر مبرم اٹل ہے اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہو جاتا ہے نیز اگر بقول مرزائی صاحبان احمد بیگ کے داماد کی موت اور محمدی بیگم کے نکاح کی ہر دو تقدیریں ٹل گئیں۔ اب نتیجہ صاف ہے کہ یہ پیش گوئیاں خدا کی طرف سے نہیں تھیں کیونکہ مرزا صاحب کے قول کے بموجب خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں اور جب ٹل گئیں تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں تھیں۔ وہذا المراد۔
ملاحظہ ہو مرزا صاحب کا ارشاد کہ تقدیر مبرم نہ ٹلنے کی بابت:
'' یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح نہیں ٹل سکتی کیونکہ اس کے لیے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے کہ ''لَا تَبْدِیْلَ کَلِمَاتِ اللّٰہِ'' یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے اور اسی طرح کرے گا جیسا کہ اس نے فرمایا ہے کہ میں اس عورت کو اس کے نکاح کے بعد واپس لاؤں گا اور تجھے دوں گا اور میری تقدیر نہیں ٹلتی اور میرے آگے کوئی ان ہونی نہیں۔ اور میں سب روکوں کو اٹھا دوں گا جو اس حکم کے نفاذ کے مانع ہوں۔'' (۶۵)
اعتراض:
حضرت یونس علیہ السلام نے آسمان سے خبر پا کر کہا تھا کہ چالیس دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہوگا مگر عذاب نہ ہوا۔ (۶۶)
الجواب:
یہ کسی آیت و حدیث صحیح میں وارد نہیں ہوا۔ یہ سراسر بہتان ہے یہ سب کچھ کذب و افترا ہے۔
اعتراض:
سلطان محمد نے آج تک ایک فقرہ بھی مرزا صاحب کے حق میں تکذیب کے طور پر نہیں لکھا۔
الجواب:
ناظرین! ہم آپ کی خدمت میں مرزا سلطان محمد کے دو خط پیش کرتے ہیں جو مرزائی صاحبان کی تکذیب کے لیے کافی ہیں اور ثابت ہو جائے گا کہ وہ اس پیشگوئی سے ہرگز نہیں ڈرا۔ وہ ایک فوجی ملازم تھا جنہیں ہمیشہ تلواروں کی چھاؤں اور گولیوں کی بارش کا خیال بندھا رہتا ہے۔ جب جنگ کے میدانوں میں سینہ سپر ہونے سے یہ لوگ نہیں ڈرتے تو ایک عورت کے نکاح کی ضد میں مرزا صاحب کی اس پیش گوئی سے اسے کیا خوف ہوسکتا تھا۔ چنانچہ وہ خود لکھتا ہے۔
خط نمبر اوّل
جناب (۱)مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے جو میری موت کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ میں نے اس میں ان کی تصدیق کبھی نہیں کی۔ نہ میں اس پیشگوئی سے کبھی ڈرا۔ میں ہمیشہ سے اور اب بھی اپنے بزرگان اسلام کا پیرو رہا ہوں۔ (۳؍ مارچ ۱۹۲۴ء دستخط مرزا سلطان محمد)
۱: ایڈیٹر نے اخبار اہل حدیث میں اعلان کیا تھا کہ مرزائی صاحبان اگر اس چٹھی کو غیر صحیح ثابت کردیں تو وہی تین سو روپیہ مرزائیوں کو انعام دیں گے جو مولوی ثناء اللہ صاحب نے لودھانہ میں میر قاسم علی مرزائی سے جیتا تھا۔ مگر میرزائیوں نے اس اعلان پر دم نہیں مارا اور خاموش ہیں۔
تصدیقی دستخط!
مولوی عبداللہ امام مسجد مبارک
مولوی مولا بخش خطیب جامع مسجد پٹی بقلم خود
مولوی عبدالمجید ساکن پٹی بقلم خود
مستری محمد حسین نقشہ نویس پٹی بقلم خود
مولوی احمد اللہ صاحب امرتسر (۶۷)
خط نمبر دوم
مکرم جناب شاہ صاحب!
اسلام علیکم !میں تادم تحریر تندرست اور بفضل خدا زندہ ہوں میں خدا کے فضل سے ملازمت کے وقت بھی تندرست رہا ہوں میں اس وقت بعہدہ رسال داری پنشن پر ہوں۔ گورنمنٹ کی طرف سے مجھے پانچ مربہ اراضی عطا ہوئی ہے میری جدی زمین بھی قصبہ پٹی میں میرے حصہ میں قریباً ۱۰۰ بیگھ آئی ہے اور ضلع شیخوپورہ میں بھی میری اراضی قریباً تین مربعہ ہے میری پنشن گورنمنٹ کی طرف سے ۱۳۵ روپے ماہواری ہے۔ میرے چھ لڑکے ہیں جن میں سے ایک لاہور میں پڑھتا ہے گورنمنٹ کی طرف سے اس کو پچیس روپے ماہوار وظیفہ ملتا ہے دوسرا لڑکا خاص پٹی میں انٹرنس میں تعلیم پاتا ہے میں خدا کے فضل سے اہل سنت والجماعت ہوں، میں احمدی مذہب کو برا سمجھتا ہوں میں اس کا پیرو نہیں ہوں اس کا دین جھوٹا سمجھتا ہوں۔ والسلام
تابعدار سلطان محمد بیگ پنشنر از پٹی ضلع لاہور (۶۸)

------------------------------------------------------------------------------

(۴۵) حاشیہ انجام آتھم ص۲۹ و روحانی ص۲۹، ج۱۱ ملخصًا
(۴۶) ایضاً ص ۳۱، ۳۲
(۴۷) مرزا جی نے ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میںاپنے میزبان کے گھرہیضہ سے دم توڑدیا تھا جبکہ مرزا سلطان محمد مرحوم نے ۱۹۴۹ (شھادۃ القران ص۸۳،ج۲ مؤلفہ مولانا میر رحمۃ اللہ علیہ)میں وفات پائی اور محترمہ محمدی بیگم صاحبہ مرحومہ نے ۱۹؍ نومبر ۱۹۶۶ء کو انتقال فرمایا، انا للہ ''الاعتصام ''جلد۱۸ نمبر ۱۷ مورخہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۶۶ء ص۳، ابو صہیب
(۴۸) تفہیمات ربانیہ ص۶۰۳
(۴۹) انجام آتھم ص۲۱۷،ج۲۱۸ و روحانی ص۲۱۷ تا ۲۱۸، ج۱۱
(۵۰) ضمیمہ انجام آتھم ص۱۳ و روحانی ص۲۹۷، ج۱۱
(۵۱) ایضاً ص۵۴ و روحانی ص۳۳۸، ج۱
(۵۲) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍ اکتوبر ۱۹۹۴ء نوٹ: مرزائیوں نے مرزا دجال کے اشتہارات کو دوبار شائع کیا ہے پہلی بار تو تو میر قاسم نے ' تبلیغ رسالت' کے نام سے ان کی اشاعت کی تھی اور دوسری بار مرزائی عبداللطیف بہاولپوری نے مزید اشتہارات کو تلاش کرکے، مجموعہ اشتہارات مرزا دجال کے نام سے الشرکۃ المرزائیہ ربوہ کی طرف سے اشاعت کی تھی، ان دونوں میں ایسا کوئی اشتہار نہیں ہے، ممکن ہے کہ اس اشتہار کا کوئی نسخہ مولانا معمار مرحوم کے پاس ہو، جہاں سے انہوں نے مذکورہ نقل کی ہے واللہ اعلم، ابو صہیب
(۵۳) مفہوم، احمدیہ پاکٹ بک ص۷۸۷ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۴) تفہیمات ربانیہ ص۶۰۸
(۵۵) نحو میر کے متعلم اس ہندی نما عربی کی صحت پر اعتراض نہ کریں کیونکہ مرزا دجال عجمی تھے۔ ابو صہیب
(۵۶) آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۲، ۵۷۳ ملخصًا
(۵۷) اشتہار مرزا مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۹۵ ج۲
(۵۸) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۹۴ء ص۶
(۵۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۹۳
(۶۰) نوٹ ضروری حضرت مریم u سے نکاح کی تمام کی تمام روایات ساقط الاعتبار ہیں، تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) حضرت سعد بن جنادہ t سے طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے کہ قد زوجنا فی الجنۃ مریم بنت عمران وامراۃ فرعون واخت موسیٰ (الحدیث) اس کے سند کے متعلق علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا کہنا ہے '' فیہ من لم اعرفھم'' یعنی اس کی سند میں ایسے مجہول راوی شامل ہیں جنہیں میں نہیں جانتا، مجمع الزوائد ص۲۲۱، ج۹، علامہ مناوی اورمحدث البانی رحمہ اللہ نے بھی یہ علت بیان کی ہے، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ص۲۲۰، ج۲
(۲ ) دوسری روایت ابی امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً تقریباً انہیں الفاظ میں مروی ہے جس کی سند میں مروی ہے جس کی سند میں خالد بن یوسف راوی ہے جو کہ ضعیف ہے مجمع الزوائد ص۲۲۱، ج۹
(۳) تیسری روایت ابی رواد سے مرفوعاً آئی ہے جو کہ منقطع السند ہونے کے علاوہ اس میںایک راوی (محمد بن الحسن) کذاب ہے (ایضاً ص۲۲۱، ج۹ )
(۴) چوتھی روایت حضرت ابی امامۃ سے ابو الشیخ نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہے جس کی سند میںیونس بن شعیب راوی ہے جسے امام بخاری نے منکر الحدیث قرار دیا ہے، میزان ص۴۸۱، ج۴ والضعفاء الکبیر ص۴۵۹، ج۴ علاوہ ازیں ایک راوی عبدالنور ہے جو کہ کذاب ہے، اس مؤخر الذکر روایت کو ہی مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے بطور دلیل پیش کیا ہے۔ (ابوصہیب)
(۶۱) سرمہ چشم آریہ ص۲۴۲ و روحانی ص۲۹۲، ج۲
(۶۲) تفیہمات ربانیہ ص۵۹۰ طبعہ جدید
(۶۳) ایضاً ص۵۹۴
(۶۴) شرح صحیح مسلم لم اجدہ
(۶۵) اشتہار مرزا مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۹۴ء ص۴
(۶۶) تفیہمات ربانیہ ص۵۷۲
(۶۷) اخبار ' اہل حدیث' مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۴۴ء
(۶۸) ایضاً مورخہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۳۰ء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
پانچویں غلط پیشگوئی

عالم کباب
مرزا صاحب کی کرامت تھی کہ جب کبھی آپ کی بیوی حاملہ ہوتی آپ قبل از وقت اولاد کی پیشگوئی جڑ دیتے، اگر بہو کو حاملہ معلوم کرتے تو خیر سے پوتا ہونے کی خوش خبری گھڑ لیتے اور ساتھ ہی دور اندیشی سے لفظ '' ممکن ہے'' کی آڑ بھی رکھ لیتے، تاکہ اگر لڑکا نہ ہو تو ذلت و خواری سے بچنے کا بہانہ رہے۔
اگر کسی مرید کی بیوی حاملہ معلوم کرلیتے تو اسی کے حق میں لڑکا یا لڑکی کی پیشگوئی کردیتے چنانچہ فروری ۱۹۰۶ء میں مرزا صاحب کے ایک مرید میاں منظور محمد کی اہلیہ بار دار تھیں۔ تب '' حضرت مسیح موعود صادق نبی اللہ'' نے '' بکمال شان غیب دانی'' فرمایا:
'' دیکھا کہ منظور محمد کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے۔ تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی۔ اور یہ معلوم ہوا کہ '' بشیر الدولہ'' فرمایا کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی سے معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے۔'' (۶۹)
اس مسیحانہ گول مول الہام میں مرزا صاحب نے عجیب فریب سے کام لیا ہے۔ مطلب یہ کہ آئندہ اگر منظور محمد کے گھر لڑکا پیدا ہوا تو چاندی کھری ہے کہہ دیں گے یہی مراد تھا۔ ورنہ کسی اور پرچسپاں کردیں گے۔
مگر خدا تعالیٰ کو مرزا صاحب کی رسوائی منظور تھی اس لیے اس الہام کے قریباً ساڑھے چار ماہ بعد مرزا صاحب کے قلم سے یہ رقم کرایا گیا:
'' ۷؍ جون ۱۹۰۶ء بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر یعنی محمدی بیگم (زوجہ منظور محمد) کا ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ جس کے دو نام ہوں گے بشیر الدولہ عالم کباب۔ یہ دو نام بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوئے بشیر الدولہ سے مراد ہماری دولت و اقبال کے لیے بشارت دینے والا۔ عالم کباب سے یہ مراد ہے کہ چند ماہ بعد تک یا جب تک کہ وہ اپنی برائی بھلائی شناخت کرے دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی گویا دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ خدا کے الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے سرکش لوگوں کے لیے کچھ اور مہلت منظور ہے۔ تب بالفعل لڑکا نہیں لڑکی پیدا ہوگی اور لڑکا بعد میں پیدا ہوگا مگر ضرور ہوگا کیونکہ وہ خدا کا نشان ہے۔'' (۷۰)
اگرچہ یہ عبارت بھی فریب کا مرقع ہے، تاہم اتنا معاملہ بالکل عیاں ہے کہ میاں منظور محمد کے گھر عالم کباب ضرور پیدا ہوگا جو خدا کا نشان اور مرزا صاحب کے اقبال کا شاہد ہوگا وغیرہ۔
مرزا صاحب کی اس الہام بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے ایک ماہ دس دن بعد میاں منظور محمد کے گھر مؤرخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۶ء کو لڑکی پیدا ہوئی جس سے اور نہیں تو کم از کم مرزا صاحب کی الہامی پریشانی '' اب ہوگا یا بعد میں ہوگا'' تو رفع ہوگئی ۔ (۷۱) باقی رہی یہ بات کہ وہ لڑکا کب پیدا ہوا۔ سو اس کا جواب مایوس کن ہے۔
مرزا صاحب کے ایک مرید مسمیٰ ابو الفضل محمد منظور الٰہی نے مرزا صاحب کے جملہ روزانہ الہامات کو مرزا صاحب کی وفات کے بعد جناب مولوی نور الدین کے عہد خلافت میں ایک رسالہ ''البشریٰ'' میں اکٹھا کیا ہے۔ اس الہام عالم کباب کو درج کرکے اس پر یہ نوٹ لکھا ہے کہ:
'' اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ پیشگوئی کب اور کس رنگ میں پوری ہوگی۔ گو حضرت اقدس نے اس کا وقوعہ محمدی بیگم کے ذریعہ سے فرمایا تھا۔ مگر چونکہ وہ فوت ہوچکی ہے اس لیے اب نام کی تخصیص نہ رہی۔ بہرصورت یہ پیشگوئی متشابہات سے ہے۔ (۷۲)
یہ الفاظ جس انتہائی بے حسی و بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں محتاج تشریح نہیں۔ باقی رہا یہ عذر کہ ''یہ پیشگوئی متشابہات میں سے ہے۔'' اس کے متعلق اتنا لکھنا کافی ہے کہ اگر باوجود لڑکے کا نام اس کے والد اور والدہ کا نام وہ بھی بخیال خود نہیں بلکہ از روئے الہام درج ہونے کے بھی یہ پیشگوئی متشابہات میں داخل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے مرزا صاحب کا صدق یا کذب معلوم نہیں ہوسکتا تو مہربانی فرما کر مرزا صاحب کی کوئی ایسی پیشگوئی بتا دیں جو متشابہات کی اس انوکھی تعریف سے بالا ہو، تاکہ حسب فرمان مرزا ''ہمارا صدق یا کذب جانچنے کو ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک (کسوٹی) امتحان نہیں'' کہ مرزا صاحب کو پرکھیں۔
بفرض محال اگر اس پیشگوئی کو ''متشابہات'' میں بھی تسلیم کیا جائے تو تمہیں مفید اور ہمیں مضر نہیں کیونکہ ''متشابہات'' ایسے کلمات کا نام نہیں جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہوں بلکہ '' جو لوگ راسخ فی العلم ہوں ان کو ان کا علم دیا جاتا ہے (۷۳) ۔ پس جبکہ مرزا صاحب خود اس کی تشریح '' الہام الٰہی'' سے کر چکے ہیں تو اب مرزائیوں کا اس کو تسلیم نہ کرنا انتہائی ڈھٹائی ہے۔
اعتراض:
اس غلط پیشگوئی کا بدنما داغ مٹانے کو مرزائی یہ بھی عذر کیا کرتے ہیں کہ:
'' حضرت صاحب نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ منظور محمد کی تعیین نہیں کی جاسکتی اور نہ الہاماً یہ تعیین کی گئی حضرت نے ضروری قرار نہیں دیا کہ منظور محمد سے مراد میاں منظور محمد ہی ہوں۔ یہ ایک خواب ہے اور خواب میں نام صفات کے لحاظ سے بتائے جاتے ہیں۔ پس منظور محمد سے مراد حضرت مسیح موعود کے سوا کوئی نہیں اور بشیر الدولہ سے مراد مرزا بشیر الدین محمود احمد ہیں جو عالم کباب بھی ہیں ۔ ظفر علی (ایڈیٹر زمیندار) جیسے بد باطن حاسد آپ سے پوری طرح جلتے ہیں اور حسد میں انتہا سے گزر گئے۔'' (۷۲)
الجواب:
۱: مرزا صاحب نے ابتداً بے شک یہی کہا تھا کہ ''معلوم نہیں کہ منظور محمد سے کس طرف اشارہ ہے۔'' چنانچہ ہم یہ تحریر نقل کرچکے ہیں۔ یہ ۱۹؍ فروری ۱۹۰۶ء کی ہے مگر اس کے بعد ۷ جون ۶ء کو '' بذریعہ الہام الٰہی'' میاں منظور محمد اور اس کی بیوی محمدی بیگم کی تعیین و تخصیص کی گئی ہے۔
۲: منظور محمد کی تعیین ۷؍ جون ۶ء کو کی گئی۔ اس میں خواب کا کوئی ذکر نہیں صاف الفاظ میں کہ ''بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوا الخ۔خواب میں ہمیشہ صفاتی نام ہی نہیں دکھائے جاتے دیکھو محمود احمد کا نام بھی تو خواب میں دکھایا گیا تھا بقول مرزا صاحب۔ (۷۵)
۳: منظور محمد سے مراد کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ خود مرزا صاحب نے بالہام ''میاں منظور محمد'' کی تخصیص کردی ہے (۷۶)۔ حالانکہ مرزا صاحب اپنی ذات پر اس الہام کو لگا سکتے تھے۔ پس ''ملہم کے بیان کردہ معنوں پر کسی اور کی تشریح اور تفسیر ہرگز معتبر نہیں۔'' (۷۷)
۴: منظور محمد اور اس کی بیوی محمدی بیگم ضروری طور پر مراد ہیں مرزا صاحب لکھتے ہیں ''ضرور ہے کہ خدا اس لڑکے کی والدہ کو زندہ رکھے جب تک یہ پیشگوئی پوری ہو۔ (۷۸)
۵: میاں محمود احمد اس پیشگوئی سے قریباً ۱۷ سال پہلے پیدا ہوچکے تھے (۱۸۸۹ء ) ، (۷۹) بخلاف اس کے اس پیشگوئی میں یہ الفاظ ہیں کہ ''لڑکا پیدا ہوگا'' وہ بھی میاں منظور محمد مرزا صاحب کے مریدکے گھر اس کی زوجہ محمدی بیگم کے بطن سے۔ میاں محمود احمد میاں منظور محمد کے تخم سے نہیں بلکہ مرزا صاحب کے لڑکے ہیں جو محترمہ نصرت جہاں بیگم کے بطن سے پیدا ہوئے۔
۶: عالم کباب سے یہ مراد ہے کہ '' اس لڑکے کے پیدا ہونے کے چند ماہ بعد'' یا جونہی کہ وہ ''اپنی برائی بھلائی شناخت کرتے'' دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی گویا دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا پس آپ جیسے '' بدباطن'' شریروں کا اسے مولانا ظفر علی خاں مدظلہ کی ذات گرامی پر چسپاں کرنا انتہائی خباثت ہے:
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
الغرض مرزا صاحب کی یہ پیش گوئی بتمام اجزا جھوٹی ثابت ہوئی۔
--------------------------------------------------------------------------------------------

(۶۹) بدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخہ ۲۳؍فروری ۱۹۰۶ء ص۲ والحکم جلد ۱۰ نمبر۷ مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۶ء ص۱ وتذکرہ ص۵۹۸
(۷۰) بدر جلد نمبر ۲، نمبر ۲۴ مورخہ ۱۴؍ جون ۱۹۰۶ء ص۲ والحکم جلد۱۰ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۰؍ جون ۱۹۰۶ء ص۱ وتذکرہ ص۶۲۲ ملخصًا
(۷۱) حقیقت الوحی ص۱۰۱ و روحانی ص۱۰۳،ج۲۲ وتذکرہ ص۶۵۶
(۷۲) البشرٰی ص۱۱۶، ج۲
(۷۳) حقیقت الوحی ص۱۷۰ و روحانی ص۱۷۴، ج۲۲
(۷۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۳ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۷۵) حقیقت الوحی ص۲۱۷ و روحانی ص۲۲۷،ج۲۲ وتریاق القلوب ص۴۰ و روحانی ص۲۱۴،ج۱۵ وتذکرہ ص۱۶۴
(۷۶) مؤلف مرزائی پاکٹ بک کا کہنا ہے کہ الہام سے منظور محمد کی تخصیص مرزا جی نے نہیں کی اور اخبار بدر کی عبارت (جو کہ ۷۰ میں درج ہوچکی ہے) مرزا جی کی نہیں بلکہ ڈائری نویس کی ہے جس نے غلطی کھائی ہے اور محمدیہ پاکٹ بک کے مؤلف کا اسے مرزا قادیانی کی تحریر قرار دینا محض جہالت ہے۔ احمدیہ پاکٹ بک ص۸۶۵ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۱) حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ مذکورہ تحریر 'بدر' ۷ ؍ جون ۱۹۰۶ء کی ہے جبکہ اس تاریخ کی تو کجاپورے مہینہ جون ۱۹۰۶ء کی مرزا جی کی کوئی ڈائری (ملفوظات) سرے سے ہے ہی نہیں، دیکھئے ، ملفوظات مرزا جلد ۵
(۲) مرزائیوں نے جو مرزا قادیانی کا مجموعہ الہامات 'تذکرہ' کے نام سے شائع کیا ہے اس کا انداز بھی یہ بتاتا ہے کہ ۷؍ جون۱۹۰۶ء کی تحریر 'بدر' مرزا غلام احمد قادیانی کی ذاتی ہے کسی ڈائری نویس کا رقم کردہ مضمون نہیں کیونکہ 'تذکرہ' کے صفحہ ۴۲۲ میں بغیر کسی صراحت کے یہ تحریر درج ہے اگر کسی مرید کی ہوتی تو اس کی وضاحت کردی جاتی جیسا کہ 'تذکرہ' میں انداز اپنایا گیا ہے مثلاً دیکھئے صفحہ ۲۲۳ ، ص۳۱۳ ، ص۳۱۴، ص۳۳۵، ص۳۳۶ ، ص۳۳۷، ص۳۳۸، ص۳۳۹، ص۳۷۸ ، ص۳۷۹ وغیرہم میں مرزائی عبدالکریم کے مضامین سے مرزا قادیانی کے الہام درج کیے ہیں تو وہیں اس کی صراحت کردی گئی ہے اسی طرح صفحہ ۲۹۷ میں مرزائی محمداحسن امروہی کی تحریر سے مرزا قادیانی کا الہام درج ہے تو وہاں ہی اس کی وضاحت موجود ہے۔
(۳) بدر کی تحریر سے صاف ثابت ہے کہ یہ الہام کی تشریح کی گئی ہے، اور جو الہام کی تشریح مرزا قادیانی کرتے ہیں اس کے متعلق 'تذکرہ' میں ایک خاص التزام کیا گیا ہے کہ اسے متن میں درج کرتے ہیں اور اگر کسی ڈائری نویس یا کسی اور مرزائی کی ہو تو اسے حاشیہ میں درج کرتے ہیں جبکہ مذکورہ تحریر متن میں ہے ان حقائق کے ہوتے ہوئے بھی مرزائی پاکٹ بک کا اسے مرزا جی کی تحریر تسلیم نہ کرنا پرلے درجے کی بے حیائی ہے۔ ابو صہیب
(۷۷) اشتہار مرزا مورخہ ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء مندرجہ تبلیغ رسالت ص۱۲۱،ج۱و مجموعہ اشتہارات مرزا قادیانی دجال ص۱۴۲،ج۱
(۷۸) بدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۴؍ جون ۱۹۰۶ء ص۲ حاشیہ ، وتذکرہ ص۶۲۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
چھٹی غلط پیشگوئی

پسر خامس
ماہ جنوری ۱۹۰۳ء میں جبکہ مرزا صاحب کی بیوی حاملہ تھی مرزا صاحب نے اپنی کتاب مواہب الرحمن کے ص۱۳۹ پر یہ پیشگوئی کی کہ:
''اَلْحمدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَر اَرْبَعَۃً مِّنْ الْبَنیْنَ وَبَشَّرَنِیْ بِخَامِسٍ'' (۸۰) سب تعریف خدا کو ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں چار لڑکے دئیے اور پانچویں کی بشارت دی۔
افسوس کہ مرزا صاحب کی مراد پوری نہ ہوئی اور اس حمل سے مورخہ ۲۸؍ جنوری ۱۹۰۳ء کو لڑکی پیدا ہوئی جو صرف چند ماہ عمر پا کر فوت ہوگئی۔ (۸۱)
اعتراض:
موجودہ حمل کی تخصیص نہیں تھی۔
الجواب:
اس وقت حمل موجود تھا اور زمانہ وضع حمل بھی قریب تھا۔ لہٰذا بظاہر قرینہ اسی حمل سے لڑکے کی ولادت سمجھی جاتی ہے۔ بفرض محال اگر مان بھی لیا جائے تو بھی اعتراض بحال ہے کیونکہ اس کے بعد مرزا صاحب کے گھر کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا۔
تاویل مرزا
ایک تاویل اس کی مرزا صاحب نے یہ کی ہے کہ جب بڑھاپا غالب آگیا تو آپ نے حقیقۃ الوحی میں اپنے ایک تازہ الہام ''اِنَّا نُبشِّرْکَ بِغُلَامٍ نَافِلَۃ لک نَافَلۃً مِنْ عِنْدِیْ'' کے ساتھ ملا کر لکھا کہ:
'' قریباً تین ماہ کا عرصہ گزرا کہ میرے لڑکے محمود احمد کے گھر لڑکا پیدا ہوا جس کا نام نصیرالدین احمد رکھا گیا سو یہ پیشگوئی ساڑھے چار برس بعد پوری ہوئی۔'' (۸۲)
الجواب:
اول تو یہی جھوٹ ہے کہ یہ '' پیشگوئی ساڑھے چار برس بعد پوری ہوئی۔'' کیونکہ مواہب الرحمن ۱۵؍ جنوری ۳ء کو شائع ہوئی (۸۳) اور حقیقۃ الوحی کے یہ صفحات قریباً اگست ۶ء میں لکھے گئے چنانچہ حقیقۃ الوحی ص ۷۶ پر تاریخ '' ۱۶؍ جولائی ۶ء '' اور ص ۳۸۶ پر تاریخ '' ۲۹؍ ستمبر ۶ء'' مرقوم ہے۔ اور مرزا صاحب ص ۲۱۹ پر محمود کے لڑکے کی پیدائش ۳ ماہ پہلے کی لکھتے ہیں یعنی ماہ مئی ۶ء کی (۸۴)۔ بدیں حساب کل تین سال چار ماہ کے قریب بنتے ہیں۔ اب رہا یہ کہ مراد اس سے محمود کا لڑکا ہے۔ سو یہ بھی بعد کی تاویل ہے چونکہ مرزا صاحب کے چوتھے لڑکے مبارک احمد کی پیدائش ۱۸۹۹ء (۸۵) کے بعد مرزا صاحب کے گھر لڑکیاں ہی پیدا ہوتی رہیں(۸۶)۔ اس لیے پانچویں لڑکے کے بجائے پوتا ٹھہرا لیا۔
لڑکے کی پیشگوئی میں '' پانچویں'' کی تصریح ظاہر کر رہی ہے کہ وہ لڑکا مرزا صاحب کا ہوگا ورنہ پوتے کو پانچواں کہنا چہ معنی دارد؟ بحالیکہ پوتے کئی ایک ہیں، پس پیشگوئی جھوٹی نکلی جو مرزا صاحب کے کذب پر دلالت کرتی ہے۔
------------------------------------------------------------------------------------------
(۷۹) تریاق القلوب ص۴۲ و روحانی ص۲۱۹، ج۱۵
(۸۰) مواہب الرحمن ص۱۳۹ و روحانی ص۳۶۰، ج۳ وتذکرہ ص۴۵۹
(۸۱) تاریخ احمدیت ص۲۸۶، ج۳
(۸۲) حقیقت الوحی ص۲۱۹ وروحانی ص۲۲۹،ج۲۲ وتذکرہ ص۴۵۹
(۸۳) حیات طیبہ ص۳۵۵ ومجدد اعظم ص۹۲۲، ج۲ وتاریخ احمدیت ص۲۱۹، ج۳
(۸۴) نصیر احمد کی پیدائش ۲۶؍ مئی ۱۹۰۶ء میںہوئی اورچھوٹی عمرمیں ہی وفات پائی،تاریخ احمدیت ص۴۸۳،ج۳ و سوانح فضل عمر ص۱۴۶، ج۱ (ابو صھیب)
(۸۵) تریاق القلوب ص۴۱ و روحانی ص۲۱۷، ج۱۵
(۸۶) دیکھئے حیات طیبہ ص۸۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
ساتویں غلط پیشگوئی

عمر پانے والا لڑکا
مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' عرصہ بیس یا اکیس برس کا گزر گیا ہے کہ میں نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں چار لڑکے دوں گا جو عمر پاویں گے چنانچہ وہ چار لڑکے یہ ہیں (۱) محمود احمد (۲) بشیر احمد (۳) شریف احمد (۴) مبارک احمد۔ (۸۷)
یہ قطعاً جھوٹ ہے کسی اشتہار میں عمر پانے والے چار لڑکے ظاہر نہیں کئے گئے البتہ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں مصلح موعود کی پیشگوئی میں یہ لکھا تھا کہ '' وہ تین کو چار کرے گا'' اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے (۸۸) عمر پانے یا نہ پانے کا چار لڑکوں کے متعلق کوئی ذکر نہیں۔ ہاں مصلح موعود کے متعلق بعض تحریرات میں لکھا ہے کہ '' وہ عمر پانے والا لڑکا ہے۔'' (۸۹) اور یہ لڑکا مرزا صاحب نے مبارک احمد بتایا تھا (۹۰) جو قریباً نو سال کی عمر میں مر گیا (۹۱) جیسا کہ ہم اس پر پیشگوئی اول میں مفصل لکھ چکے ہیں۔
الغرض حقیقت الوحی کی مندرجہ بالا عبارت '' بہ وعدہ الٰہی'' مبارک احمد کو '' عمر پانے والا لڑکا'' قرار دیا ہے جو غلط ثابت ہوا۔
-------------------------------------------------------------------
(۷۷) مجموعہ اشتہارات مرزا قادیانی ص۱۰۱، ج۱ و تبلیغ رسالت ص۵۸،ج۱ وتذکرہ ص۱۳۹
(۸۹) تتممہ حقیقت الوحی ص۱۳۵ و روحانی ص۵۷۳، ج۲۲
(۹۰) تریاق القلوب ص۴۳ و روحانی ص۲۲۱، ج۱۵
(۹۱) مجموعہ اشتہارات ص۵۸۶، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
آٹھویں غلط پیشگوئی

شوخ و شنگ لڑکا
مئی ۱۹۰۴ء میں مرزا صاحب کی بیوی حاملہ تھی، آپ نے الہام شائع کیا:
''(۱) دخت کرام (۹۲) شوخ و شنگ لڑکا پیدا ہوگا۔'' (البشری جلد ۲ ص۹۱ بحوالہ بدر جلد ۳ نمبر ۱۸ مئی ۴ء)
اس الہام کے ایک ماہ بعد مؤرخہ ۲۵ جون ۴ء کو لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام امۃ الحفیظ رکھا (۹۳) مگر وہ ''شوخ و شنگ لڑکا'' نہ اس حمل سے اور نہ اس کے بعد پیدا ہوا۔ احمدی دوستو! یہ شوخ و شنگ لڑکا کہاں گیا؟
-----------------------------------------------
(۹۲) البدر جلد ۳ نمبر ۱۸،۱۹ مورخہ ۸،۱۶ مئی ۱۹۰۴ء والحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۷؍ مئی ۱۹۰۴ء ص۵ والبشری ص۹۱، ج۲ وتذکرہ ص۳،۵ (نوٹ:) تذکرہ ، میں دخت کرام، کو ۱۰؍ مئی ۱۹۰۴ء کااور شوخ شنگ لڑکاہوگا، کو ۱۵؍ مئی ۱۹۰۴ء کا الہام قرار دیا گیا ہے۔ ابو صہیب
(۹۳) حقیقت الوحی ص۲۱۸ و روحانی ص۲۲۸، ج۲۲ و تاریخ احمدیت ص۳۶۲،ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
نویں غلط پیشگوئی

غلام حلیم
مرزا صاحب نے اپنے فرزند چہارم مبارک احمد کو مصلح موعود ''عمر پانے والا'' ''کان اللّٰہَ نَزَلَ مِن السماء'' گویا خدا آسمانوں سے اتر آیا وغیرہ الہامات کا مصداق بتایا تھا اور وہ نابالغی کی حالت میں ہی مر گیا۔ اس کی وفات کے بعد ہر چہار طرف سے مرزا صاحب پر ملامتوں کی بوچھاڑ، اعتراضات کی بارش ہوئی تو آپ نے پھر سے الہامات گھڑنے شروع کئے تاکہ مریدوں کے جلے بھنے کلیجوں کو ٹھنڈک پہنچے۔ ۱۶؍ ستمبر ۷ء کو الہام سنایا:
''اِنَّا نبشرک بِغْلٰمٍ حَلِیْمٍ۔'' (۹۴)
اس کے قریباً ایک ماہ بعد پھر الہام سنایا:
آپ کے لڑکا پیدا ہواہے یعنی آئندہ کے وقت پیدا ہوگا اِنَّا نبشرک بِغْلٰمٍ حَلِیْمٍ ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ یَنْزِلُ مَنْزِلَ الْمُبَارَکِ وہ مبارک احمد کی شبیہ ہوگا۔ (۹۵)
چند دن بعد پھر الہام سنایا:
''سَاَھِبُ لَکَ غُلَامًا زَکِیَّا رَبِّ ھَبْ لِیْ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّا نُبَشِرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُہٗ یَحْییٰ'' میں ایک پاک اور پاکیزہ لڑکے کی خوشخبری دیتا ہوں۔ میرے خدا پاک اولاد مجھے بخش تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہوں جس کا نام یحییٰ ہے۔ (۹۶)
ان الہامات میں ایک پاک، پاکیزہ لڑکے مسمیٰ یحییٰ جو مبارک احمد کا شبیہ، قائم مقام ہونا تھا کی پیشگوئی مرقوم ہے اس کے بعد مرزا صاحب کے گھر کوئی لڑکا پیدا نہ ہوا (۹۷)۔ اس لیے یہ سب کے سب الہامات افترا علی اللہ ثابت ہوگئے۔
---------------------------------------------------------------
(۹۴) بدر جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء ص۵ والحکم جلد۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء ص۱ وتذکرہ ص۷۳۰ والبشرٰی ص۱۳۴، ج۲
(۹۵) بدر جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء ص۴ والحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۹ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء ص۱ وتذکرہ ص۷۳۵ والبشری ص۱۳۶، ج۲
(۹۶) بدر جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۷ء ص۲ والحکم جلد ۱۱ نمبر۴۰ مورخہ ۱۰؍ نومبر۱۹۰۷ء ص۳ وتذکرہ ص۷۴۰ والبشری ص۱۳۶، ج۲
(۹۷) دیکھئے حیات طیبہ ص۸۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دسویں غلط پیشگوئی

مرزا جی کا چوتھا لڑکا مبارک احمد ایک دفعہ بیمار ہوا۔ اس کے متعلق اخبار بدر ۲۹؍ اگست ۷ء ص۴ پر لکھا گیا:
'' ۲۷؍ اگست ۷ء صاحبزادہ میاں مبارک صاحب جو سخت تپ سے بیمار ہیں اور بعض دفعہ بیہوشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ابھی تک بیمار ہیں، ان کی نسبت آج الہام ہوا ''قبول ہوگئی نو دن کا بخار ٹوٹ گیا'' یعنی یہ دعا قبول ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ میاں صاحب موصوف کو شفا دے یہ پختہ طور پر یاد نہیں کہ کس دن بخار شروع ہوا تھا۔ (پھر نو دن گنتی کہاں سے شروع ہو؟ ناقل) لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میاں کی صحت کی بشارت دی۔ اور نویں دن تپ ٹوٹ جانے کی خوش خبری پیش از وقت عطا کی نویں دن کی تصریح نہیں کی۔ اور نہ ہوسکتی ہے لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ تپ کی شدید حالت جس دن سے شروع ہوئی وہ ابتدا مرض کا ہوگا۔'' (۹۸)
یہ پیش گوئی جس میں مبارک احمد کی صحت کی خبر دی گئی بالکل جھوٹی ثابت ہوئی۔ مرزا صاحب نے اس لڑکے کو مصلح موعود بیماروں کو شفا دینے والا، اسیروں کو رستگاری بخشنے والا۔ لمبی عمر پانے والا، فتح و ظفر کی کلید، قربت و رحمت کا نشان۔ صاحب شکوہ و عظمت و دولت، زمین کے کناروں تک شہرت پانے والا، قوموں کو بابرکت کرنے والا۔ گویا خدا آسمانوں سے اتر آیا وغیرہ صفات عالیہ کا حامل و مالک بتایا تھا۔ (۹۹) جیسا کہ ہم پیش گوئی اول میں اس پر بالتفصیل لکھ آئے ہیں۔
اس کی سخت بیماری میں جو مایوس کن تھی مرزا صاحب نے جو دعا اس کے حق میں مانگی وہ یہی ہوسکتی ہے کہ خدا اسے کامل صحت دے اور میری دی ہوئی خبریں سچی ثابت کرے اور یقینا مرزا صاحب کی دعا یہی تھی اس پر اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی کہ مؤرخہ۳۰؍ اگست ۱۹۰۷ء کو مبارک احمد کا بخار ہلکا ہوا۔ تو مرزا صاحب نے ''مبارک احمد کا نکاح ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ کی لڑکی مریم کے ساتھ اسی دن کردیا'' (۱۰۰)۔ دوسری طرف الہام بھی گھڑ لیا کہ مبارک احمد کی صحت کے متعلق تیری دعا قبول ہوگئی۔ مگر یہ سب طفل تسلیاں تھیں۔ اس لڑکے کو نہ صحت ہونی تھی نہ ہوئی۔ کاسۂ و عمر لبریز تھا۔ صرف ٹھوکر کی کسر تھی۔ مرزا صاحب نے الہام سنانے شروع کئے۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی عارضی طور پر صحت کا رنگ پھر بیماری کا غلبہ دکھا کر بالآخر ۱۶؍ ستمبر ۷ء کو اپنی طرف بلالیا۔ (۱۰۱)
------------------------------------
(۹۸) بدر جلد ۶ نمبر ۳۵ مورخہ ۲۹؍اگست ۱۹۰۷ء ص۴والحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱؍ اگست ۱۹۰۷ء ص۱ وتذکرہ ص۷۳۸
(۹۹) دیکھئے باب ہذا کا نمبر ۹ ۔ ابو صہیب
(۱۰۰) بدر جلد۶ نمبر ۳۶ مورخہ ۵؍ستمبر ۱۹۰۷ء ص۴
(۱۰۱) بدر جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء ص۴ والحکم جلد۱۱ نمبر۳۳ مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء ص ب و تاریخ احمدیت ص۵۰۷،ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
گیارھویں غلط پیشگوئی

مولوی عبدالکریم کی صحت کے متعلق
مرزا صاحب کے '' باغ نبوت'' کی زینت جن چند بے ثمر بلند و بالا اشجار سے تھی ان میں ایک مولوی عبدالکریم سیالکوٹی تھے۔ ابتدا نیچری مزاج بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دہریہ طبع تھے (۱۰۲)۔ مولوی نور الدین کے کہنے سننے سے مرزائیت میں داخل ہوئے۔ مالی حالت بالکل کمزور تھی۔ یہاں آکر جو ''دن عید اور رات شب برات'' کا سماں دیکھا تو دماغ عرش اعلیٰ پر پہنچ گیا۔ مرزا صاحب کی مدح و ثنا میں وہ وہ مضامین لکھے کہ بیسیوں صاحبِ ایمان ڈگمگا گئے مرزا صاحب کی بارگاہِ نبوت میں مقرب خاص کا درجہ رکھتے تھے۔ بالآخر خدائی پکڑ وارد ہوئی '' ذیابیطس'' جیسی نامراد بیماری میں مبتلا ہوئے۔ کامل ایک سال تک اس مرض میں جھینکتے رہے:
'' ۲۱؍ اگست ۵ء کو گردن کے نیچے چھوٹی سی پھنسی نمودار ہوئی جو مرض کی ابتدا تھی ۵۱ دن (زندگی اور موت کے درمیان لٹکتے رہنے) کے بعد ۱۱؍ اکتوبر ۵ء بدھ کے روز ڈیڑھ بجھے دن کے اس دار ناپائیدار سے انتقال فرما گئے۔ اس لمبی مرض کے اثناء میں کئی دفعہ صحت کا رنگ آیا پھر مرض کا عود ہوا اور آخر ذات الجنب کے حملہ سے جس میں ۱۰۶ درجہ کا بخار ہوگیا، جان سپرد خدا کی۔'' (۱۰۳)
ان مولوی صاحب کی صحت کے متعلق مرزا صاحب نے بکثرت پیش گوئیاں سنائی تھیں۔ ناظرین انہیں ملاحظہ فرمائیں:
'' ۳۰؍ اگست ۱۹۰۵ء مولوی عبدالکریم کی گردن کے نیچے پھوڑا ہے جس کو چیرا دیا گیا (مرزا صاحب نے) فرمایا میں نے ان کے واسطے رات دعا کی تھی۔ رؤیا میں دیکھا کہ مولوی نورالدین ایک کپڑا اوڑھے رو رہے ہیں۔ فرمایا ہمارا تجربہ ہے کہ خواب کے اندر رونا اچھا ہوتا ہے اور میری رائے میں طبیب کا رونا مولوی صاحب کی صحت کی بشارت ہے۔'' (۱۰۴)
صاف الفاظ میں '' مولوی صاحب کی صحت کی بشارت ہے۔''
آگے سنو!
'' شب ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء فرمایا، نصف رات سے فجر تک مولوی عبدالکریم کے لیے دعا کی گئی صبح کے بعد جب سویا تو یہ خواب آئی۔ میں نے دیکھا کہ عبداللہ سنوری میرے پاس آیا ہے اور ایک کاغذ پیش کرکے کہتا ہے کہ حاکم سے دستخط کرانا ہے۔ میں نے کہا یہ لوگ نہ کسی کی سفارش مانیں نہ شفاعت۔ میں تیرا کاغذ لے جاتا ہوں۔ جب گیا تو اکسٹرا اسسٹنٹ کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں نے کہا یہ ایک میرا پرانا دوست سے اس پر دستخط کردو۔ اس نے بلا تامل کردیے اس وقت میں کہتا ہوں مقبول کو بلاؤ، اس کے کاغذ پر دستخط ہوگئے۔'' (۱۰۵)
گو ہمیں ان مکاشفات پر ہنسی آرہی ہے تاہم اس میں لطیف پیرائے کے اندر مولوی عبدالکریم کی صحت کے پروانہ پر دستخط کرائے گئے ہیں۔ اگر مولوی عبدالکریم تندرست ہو جاتا تو ناظرین دیکھتے کہ اس پر کس قدر حواشی چڑھا کر اسے مرزا صاحب کی غیب دانی کا ایک درخشندہ ثبوت بنایا جاتا ہمارا دعویٰ کہ مرزا صاحب نے مولوی عبدالکریم کی صحت کے الہامات و بشارات سنائی تھیں۔ ان سے بھی ثابت ہے۔ مگر ہم اس سے بھی واضح ثبوت پیش کرتے ہیں۔ مذکورہ کشف عبداللہ سنوری والے کی تشریح الحکم ۱۰ ستمبر ۷ء میں مرزا صاحب نے یوں کی ہے کہ:
'' ۷؍ ستمبر ۱۹۰۵ء (مرزا صاحب نے) فرمایا اللہ تعالیٰ کے نشان اس طرح کے ہوتے ہیں انسان کی طاقت نہیں ہوتی کہ ظاہر کرسکے مولوی صاحب کی زیادہ علالت کے وقت میں بہت دعا کرتا تھا اور بعض نقشے میرے آگے ایسے آئے جن سے نا امیدی ظاہر ہوتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موت کا وقت ہے۔ اس دعا میں میں نے بہت تکلیف اٹھائی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت نازل کی اور عبداللہ سنوری والا خواب میں نے دیکھا جس سے نہایت درجہ غمناک دل کو تسلی ہوئی جو گزشتہ اخبار میں چھپ چکا ہے۔ (۱۰۶)
اس سے بھی واضح سنیے۔ اخبار الحکم کا ایڈیٹر راقم ہے:
'' حضرت اقدس حسب معمول تشریف لے آئے اور ایک رؤیا بیان کی جو بڑی ہی مبارک اور مبشر ہے فرماتے تھے کہ آج تک جس قدر الہامات اور مبشرات ہوئے ان میں نام نہ تھا لیکن آج تو اللہ تعالیٰ نے خود مولوی عبدالکریم صاحب کو دکھا کر صاف طور پر بشارت دی ہے اس رؤیا کو سن کر جب ڈاکٹر صاحب پٹی کھولنے گئے تو خدا کی قدرت کا عجیب تماشا کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ یہ کہ سارے زخم پر انگور آگیا ہے۔ والحمد للہ علی ذٰلکِ (۱۰۷)
ناظرین کرام! اس بارے میں اگرچہ اور بھی بکثرت الہامات ہیں مگر ہم بخوف طوالت انہی پر بس کرتے ہوئے آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کشوفات وغیرہ کو ملاحظہ کرکے مولوی عبدالکریم کی صحت و تندرستی میں کسی قسم کا اشتباہ رہ جاتا ہے؟ ہرگز نہیں، پس مولوی عبدالکریم کا مر جانا مرزا صاحب کی ان اور ان جیسی دیگر پیشگوئیوں کو غلط ثابت کر رہا ہے۔
مرزا صاحب نے عبدالکریم کے مرنے پر حضرت مولانا مولوی ثناء اللہ صاحب فاتح قادیان کے جواب میں نہایت شوخانہ اور گستاخانہ لہجہ میں یہ عذر کیا ہے۔
'' مولوی ثناء اللہ صاحب کی عادت ہے کہ ابو جہلی مادہ کے جوش سے انکار کے لیے کچے حیلے پیش کیا کرتے ہیں چنانچہ اس جگہ بھی انہوں نے یہ عادت دکھلائی ہے اور محض افترا کے طور پر اپنے پرچہ اہل حدیث ۸؍ فروری ۷ء میں لکھ دیا کہ مولوی عبدالکریم کے صحت یاب ہونے کی نسبت الہام ہوا تھا۔ مگر وہ فوت ہوگیا اس افترا کا ہم کیا جواب دیں بجز اس کے کہ لعنت اللہ علی الکذبین (آمین) مولوی ثناء اللہ صاحب ہمیں بتا دیں کہ اگر مولوی عبدالکریم کے صحت یاب ہونے کی نسبت الہام مذکورہ بالا ہوچکا ہے تو پھر یہ الہامات مندرجہ ذیل جو اخبار بدر اور الحکم میں شائع ہوچکے ہیں کس کی نسبت تھے یعنی (۱)کفن میں لپیٹا گیا (۲) ۴۷ سال کی عمر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن (۳) اس نے اچھا ہونا ہی نہیں تھا (۴) اِنَّ الْمَنایا لا تطیشُ سِھَامُھَا یعنی موتوں کے تیر نہیں ٹل سکتے۔ واضح رہے کہ یہ سب الہام مولوی عبدالکریم کی نسبت تھے۔'' (۱۰۸)
الجواب:
ناظرین کرام! غور فرمائیے کہ ایک طرف تو الہام سنائے جاتے ہیں جن میں عبدالکریم کا نام لے کر بشارت موجود ہے مگر دوسری طرف ایسے گول مول الہام جن کا نہ سر نہ پیر پیش کئے جاتے ہیں وہ بھی اس وقت جب عبدالکریم مر چکتا ہے۔ اس کاروائی سے مرزا صاحب کی صداقت، دیانت، نبوت وغیرہ ظاہر ہو رہی ہے۔ مگر ہم بفضلہ تعالیٰ اس دجل و خدع سے بنے ہوئے جال کو تار تار کرکے رکھ دیں گے بحولہ و قوتہٖ۔
پہلا الہام اور چوتھا الہام یعنی کفن میں لپیٹا گیا، موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے۔ ان کے متعلق تو الہام سناتے وقت کہا تھا کہ ''معلوم نہیں یہ کس کے متعلق ہیں۔'' (۱۰۹) مگر چونکہ مرزا صاحب کی عادت تھی کہ وہ ہر موجودہ یا آئندہ خوشی غمی کے لیے حسب حال الہامات بنا رکھتے تھے اور موقع بہ موقع ان کو لگایا کرتے تھے۔ اس لیے یہ کہنے کے باوجود کہ '' معلوم نہیں یہ کس کے متعلق ہیں۔'' وہ دل میں ضرور جانتے تھے کہ ہم نے انہیں مولوی عبدالکریم کے لیے گھڑ رکھا ہے اور دوسری طرف صحت کے لیے بھی الہام سناتے تھے اسی ضمن میں ان ہر دو الہاموں کو مولوی عبدالکریم کے متعلق ظاہر کرکے انہیں مردود و منسوخ کردیا۔ لطف یہ کہ اسی جگہ الہام ۲ یعنی ۴۷ سال کی عمر کی بھی تشریح کردی۔ چنانچہ اخبار الحکم ۱۰ ستمبر ۵ء میں مرقوم ہے:
(الف):'' ۲؍ ستمبر ۵ء سینتالیس سال کی عمر انا للہ وانا الیہ راجعون اس سے دوسرے دن ۳؍ ستمبر ۵ء کو ایک شخص کا خط آیا جس میں اپنی بدکاریوں اور غفلتوں پر نہایت افسوس کی تحریر کرکے لکھا ہے، اب میری عمر سینتالیس سال ہے انا للہ وانا الیہ راجعون فرمایا کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خط باہر سے آنے والا ہوتا ہے اس کے مضمون کی پہلے ہی اطلاع دے دی جاتی ہے۔'' (۱۱۰)
(ب): '' حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے ۹؍ ستمبر کو (مرزا صاحب نے) فرمایا کہ مجھے بہت ہی فکر تھا کہ بعض الہامات ان میں متوحش تھے آج صبح بہت سوچنے کے بعد میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ بعض وقت ترتیب کے لحاظ سے پہلے یا پیچھے ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ان الہامات کی ترتیب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالی کہ ایسے الہامات جیسے ''اِذَا جَآئَ اَفْوَاجُ وَسَمٍ من السماء'' اور کفن میں لپیٹا گیا۔ اور ''ان المنایا لاتطیش سھامھا'' اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ قضا و قدر تو ایسی ہی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و رحم سے رد بلا کردیا۔'' (۱۱۱)
اس تحریر نے فیصلہ کردیا کہ ۴۷ سال کی عمر والا الہام تو کسی اور مرید کے متعلق ہے (گو ہمارے نزدیک اس میں بھی ایک فریب ہے) اور کفن میں لپیٹا گیا اور موتوں کے تیر والا بلکہ ایک تیسرا الہام بھی جو مولوی عبدالکریم کے متعلق تھا خدا نے ان سب کو اپنے فضل و رحم سے رد کردیا، اب رہا الہام ۳ یعنی اس نے اچھا ہونا نہ تھا۔ سو سنیے کہ ان الفاظ کا کوئی الہام مرزا صاحب کا نہیں ہے البتہ مولوی عبدالکریم کی موجودہ بیماری (مولوی عبدالکریم ۲۱؍ اگست کو اس مرض میں مبتلا ہوئے۔ چنانچہ مفصل درج ہوچکا ہے) سے دو ماہ پہلے یہ الہام ہوا تھا:
'' خدا نے اس کو اچھا کرنا ہی نہیں تھا بے نیازی کے کام ہیں اعجاز المسیح۔''
اور وہیں اس الہام کی تشریح مرقوم ہے:
'' ہماری جماعت کے چار آدمیوں میں سے جو سخت بیمار ہوئے تھے ان میں سے ایک کے متعلق یہ الہام ہوا۔ یعنی اس کی موت تقدیر مبرم کی طرح کی تھی گویا تقدیر مبرم تھی مگر معجزہ مسیح ہے کہ خدا نے اس کو اچھا کردیا۔ مبرم تقدیر قابل تبدیل نہیں ہوتی مگر بعض تقدیریں مبرم سے سخت مشابہ ہوتی میں ایسی دور ہوسکتی ہیں۔'' (۱۱۲)
قارئین عظام! دیکھئے مرزا صاحب نے جو چار الہام مولوی عبدالکریم کے متعلق پیش کیے تھے ان میں سے دو تو غیروں کے متعلق ہیں، ان میں سے بھی ایک وہ ہے جو مولوی عبدالکریم کی بیماری سے بھی پہلے کا ہے اور باقی کے دو خود مرزا صاحب اور ان کے الہام کنندہ نے رد کردئیے اور مولوی صاحب کی صحت کی بشارت دی ہے بتلائیے اب ہم ابوجہل اور دجال وکذاب کس کو جانیں۔ مولانا ثناء اللہ صاحب کو جنہوں نے صاف اقوال مرزا سے صحت کے الہام دکھا دئیے، یا خود مرزا صاحب کو جنہوں نے دنیا کو دھوکا اور فریب دینے کو غیر متعلق اور مردود و منسوخ شدہ الہاموں کو پیش کرکے اپنی جھوٹی نبوت ثابت کرنی چاہی؟
-----------------------------------------------------
(۱۰۲) سیرت المھدی ص۱۶۰،ج۱ وتاریخ احمدیت ص۴۱۹،ج۳
(۱۰۳) بیان مولوی محمد علی لاہوری ، مندرجہ الحکم جلد ۹ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء
(۱۰۴) بدر جلد ۱ نمبر ۲۲ مورخہ ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر۳۱ مورخہ ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء ص۱۰ و تذکرہ ص۵۵۹
(۱۰۵) بدر جلد ۱ نمبر ۲۲ مورخہ ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء وتذکرہ ص۵۶۰
(۱۰۶) بدر جلد ۱ نمبر ۲۳ مورخہ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر۳۲ مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء ص۳ وملفوظات مرزا ص۳۶۰، ج۴ وتذکرہ ص۵۶۱
(۱۰۷) الحکم جلد ۹ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۵
(۱۰۸) تتممہ حقیقت الوحی ص۲۶ و روحانی ص۴۵۸، ج۲۲
(۱۰۹) الحکم جلد ۹ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۵ء ص۳کالم۲
(۱۱۰) بدر جلد ۱ نمبر ۲۳ مورخہ ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد۹ نمبر۳۲ مورخہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۵ء ص۳ وتذکرہ ص۵۶۲
(۱۱۱) الحکم جلد ۹ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۵ء ص۱۲ کالم نمبر۳ وتذکرہ ص۵۶۵
(۱۱۲)بدر جلد۱ نمبر ۲۱ مورخہ ۱۵؍ جون ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر ۲۲ مورخہ ۲۴؍ جون ۱۹۰۵ء ص۴ وتذکرہ ص۵۵۶ والبشری ص۹۹،ج۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بارھویں غلط پیش گوئی

عمر مرزا
مرزا صاحب قادیانی بھی عجیب شخص واقع ہوئے تھے۔ دھوکہ، فریب، جعل، مغالطہ، کذب، افترا وغیرہ جملہ افعالِ مذمومہ گویا آپ کی طبیعت کے جزو اعظم تھے۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے ثابت کرچکے ہیں آپ کا یہ کس قدر مغالطہ ہے کہ ایک طرف تو خود لکھتے ہیں کہ میری صحیح کا اندازہ خدا کو معلوم ہے۔ (۱۱۳)
اور مرزا صاحب کے مرید بھی معترف ہیں کہ:
'' ہمیں آپ کی تاریخ ولادت معلوم نہیں، اندازے محض تخمین پر مبنی ہیں۔'' (۱۱۴)
مگر دوسری طرف مرزا صاحب نے بڑے زور و شور کے ساتھ الہام پر الہام سنائے کہ:
'' خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ میری پیشگوئی سے صرف اس زمانے کے لوگ ہی فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ بعض پیشگوئیاں ایسی ہوں کہ آئندہ زمانہ کے لوگوں کے لیے ایک عظیم الشان نشان ہوں جیسا کہ یہ پیشگوئیاں کہ میں تجھے اسی برس یا چند سال زیادہ یا اس سے کم عمر دوں گا۔'' (۱۱۵)
اول :تو یہ '' یا ، '' یا'' کی مستمرہ گردان کی مرزا صاحب کے ملہم کی جہالت اور بے علمی کا بین ثبوت ہے۔ بھلا کہاں خدائے پاک جیسا عالم الغیب و الشہادۃ اور کہاں مرزا صاحب کا ملہم جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ مرزا کی عمر کتنی ہوگی اور میں اس رادلانہ تک بندی کو ایک اپنے ''عظیم الشان پیغمبر'' کی دلیل۔ صداقت کیسے ٹھہرا رہا ہوں؟
دوم: جب خود مرزا صاحب کو ہی اپنی تاریخ ولادت کا علم نہیں تو پھر اس پیشگوئی کا صدق و کذب کیسے معلوم ہوسکتا ہے بہرحال مرزا صاحب کا عمر کے متعلق پیشگوئی کرنا ہی ان کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے پھر اس پر مزید یہ لطف کہ کہیں تو عمر اسی برس یا کم یا زیادہ بایں شرح اسی برس یا اس پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم (۱۱۶)۔ یعنی ۷۵ سال سے زیادہ اور چھیاسی کے اندر اندر بتائی ہے اور کہیں بہ لہجہ و ثوق وہ بھی مخالفین کے سامنے بطور دلیل لکھا ہے کہ '' میرے لیے بھی اسی برس کی زندگی کی پیشگوئی ہے (۱۱۷)۔ پھر اگر اتفاق وقت سے یا حسب آیت {مَنْ کَانَ فِیْ الضَّلٰلَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہٗ الرَّحْمٰنُ مَدّا}(سورہ مریم آیت۷۵) مرزا صاحب اس سے بھی زیادہ عمر پا جاتے تو اس کے لیے بھی مصالحہ جمع کر رکھا تھا چنانچہ ازالہ اوہام میں لکھا ہے:
'' اس جگہ اخویم مولوی مروان علی بھی ذکر کے لائق ہیں۔ مولوی صاحب لکھتے ہیں میں نے سچے دل سے پانچ برس اپنی عمر سے آپ کے نام لگا دئیے۔ خدا اس ایثار کی جزا ان کو یہ بخشے کہ ان کی عمر دراز کرے۔'' (۱۱۸)
اس تحریر کی رُو سے اگر مرزا صاحب کی عمر ۹۰ سال تک بھی پہنچ جاتی تو گنجائش تھی اس سے بھی بڑھ کر مکاشفات ص ۲۴ پر ایک کشف مرزا یوں مسطور ہے:
'' مجھے رؤیا ہوئی کہ میں ایک قبر پر بیٹھا ہوں۔ صاحب قبر میرے سامنے بیٹھا ہے۔ میرے دل میں آیا کہ آج بہت سی دعائیں مانگ لوں اور یہ شخص آمین کہتا جاوے۔ آخر میں نے مانگنی شروع کیں ہر ایک دعا پر وہ شخص بڑی شرح صدر سے آمین کہتا تھا خیال آیا یہ دعا بھی مانگ لوں کہ میری عمر پچانوے سال ہو جاوے میں نے دعا کی اس نے آمین نہ کہی، میں نے وجہ پوچھی وہ خاموش ہو رہا پھر میں نے اس سے سخت تکرار اور اصرار شروع کیا یہاں تک کہ اس سے ہاتھا پائی کرتا تھا بہت عرصہ کے بعد اس نے کہا اچھا دعا کرو میں آمین کہوں گا (غالباً بیچارہ دھینگا مشتی میں شل ہوگیا ہوگا۔ ناقل) چنانچہ میں نے دعا کی کہ الٰہی میری عمر ۹۵ برس کی ہو جاوے اس نے آمین کہی۔ میں نے اس سے کہا کہ ہر ایک دعا پر تُو شرح صدر سے آمین کہتا تھا اس دعا پر کیا ہوگیا اس نے ایک دفتر عذروں کا بیان کیا مفہوم بعض کا یہ تھا کہ جب ہم کسی امر کی نسبت آمین کہتے ہیں تو ہماری ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔'' (۱۱۹)
ناظرین غور کریں کہ ایک تو مرزا صاحب جیسا ''مستجاب الدعا'' مسیح موعود جس کے حق میں ''الہام الٰہی ''کا وعدہ ہے کہ ''اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ'' (۱۲۰)۔ یعنی تیری سب دعائیں قبول ہیں سوائے ان کے جو تُو اپنے شریکوں کے بارے مانگے '' خدا'' سے ۹۵ سال عمر کی دعا مانگتا ہے اس پر دوسرے ولی اللہ کی آمین جو بقول خود اپنی آمین کی قبولیت پر ذمہ داری کا واحد ٹھیکیدار بھی ہے گویا ''کریلا اور نیم چڑھا'' کا مضمون ہو پھر مرزا صاحب کی عمر پچانوے سال ہونے میں کیا شک؟
اس ''کوڑھ پر کھاج'' یہ کہ ایک الہام مرزا کا یہ بھی ہے۔ تَرٰی نَسْلاً بَعِیْدًا تو اپنی ایک دور کی نسل کو دیکھ لے گا۔ (۱۲۱)
اندریں حالات اگر مرزا صاحب سو سال سے بھی زیادہ عمر پا لیتے تو نبوت قائم کی قائم بلکہ دو چند بڑھ کر سچی تھی۔
ان تمام کاروائیوں سے مطلب یہ تھا کہ جتنی زیادہ زندگی مل جائے ہمارے الہامی جال سے باہر نہ نکل سکے باقی رہا کم عمر کا سوال سو اس کے لیے یہ کاروائی کی گئی کہ کہیں تو اپنی پیدائش ۱۳۰۱ھ بتائی جیسا کہ لکھا ہے۔ انبیاء گزشتہ کے کشوف نے قطعی مہر لگا دی ہے کہ وہ چودھویں کے سر پر پیدا ہوگا(۱۲۲)۔ اور کہیں اپنی پیدائش ۱۲۸۹ھ بتائی چنانچہ لکھا '' میری پیدائش اس وقت ہوئی جب (حضرت آدم علیہ السلام سے) چھ ہزار سے گیارہ سال رہتے تھے (۱۲۳)۔ اور چھٹے ہزار کو ۱۳۰۰ھ پر ختم کیا (۱۲۴)۔ اور کہیں اپنی پیدائش بہ تمسک (کشوفات اولیاء) ۱۲۶۸ء لکھی۔ '' بہت سے اکابر امت گزرے ہیں جنہوں نے میرے لیے پیشگوئی کی اور پتہ بتایا۔ بعض نے تاریخ پیدائش بھی بتائی ہے جو چراغ دین ۱۲۶۸ ہے (۱۲۵)۔ اور کہیں ۱۲۶۱ھ میں اپنا تولد ہونا لکھا '' میری عمر کے چالیس برس پورے ہونے پر (چودھویں) صدی کا سر بھی آپہنچا (۱۲۶)۔
اور کہیں ۱۲۵۷ھ میں اپنا براجمان ہونا لکھا :اگر وہ ساٹھ برس الگ کردئیے جائیں جو اس عاجز کی عمر کے ہیں تو ۱۲۵۷ھ تک بھی اشاعت اسلام کے وسائل گویا کالعدم تھے۔ (۱۲۷)
اور کہیں ایسی عبارات بھی لکھ گئے ہیں جن سے ثابت ہوسکے کہ آپ ۱۲۵۰ھ میں عدم سے وجود میں آئے تھے '' ٹھیک بارہ سو نوے ہجری میں یہ عاجز شرف مکالمہ پا چکا تھا۔'' (۱۲۸) دوسری جگہ لکھا ہے کہ ''ماموروں کے لیے سنت الٰہی ہے کہ وہ چالیس سالہ عمر میں مبعوث ہوتے ہیں۔'' (۱۲۹) پس ۱۲۹۰ سے چالیس منہا کئے تو پیدائش ۱۲۵۰ھ نکلی۔
اور کہیں ایسی تحریر لکھ رکھی ہے جس سے تاریخ پیدائش ۱۳۳۵ھ برآمد ہوسکے۔ '' ۱۲۷۵ھ اس عاجز کی بلوغ اور پیدائش ثانی اور تولد روحانی کی تاریخ ہے۔ (۱۳۰)
بموجب تحریر مذکورہ بالا ۱۲۷۵ھ سے چالیس نکالے تو ۱۲۳۵ھ ولادت ثابت ہوئی۔
معزز قارئین کرام! بطور نمونہ چند ایک تحریرات درج ہیں ورنہ اس قسم کی بیسیوں اور بھی ہیں جن کے اندر اس عمر والے معاملے کو الجھاؤ میں ڈالا ہوا ہے۔ ان تحریروں نے مرزائیوں کو ایسا پریشان کر رکھا ہے کہ کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ آخر تھک کر رہ جاتے ہیں تو بایں الفاظ میدان چھوڑتے ہیں کہ '' بعض مقامات پر حضرت کی تحریرات میں بادی النظر میں اختلاف نظر آتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اندازے قیاس کے ماتحت میں جب قیاس کیا جائے گا تو ایک دو سال کا فرق بعید نہیں (۱۳۱)۔ تفہیمات ربانیہ) اللہ اللہ یہ تحریر اس شخص کی ہے جس پر تمام جماعت احمدیہ کو ناز ہے۔
(الف): ناظرین! دیکھیے کس لطیف پیرائے میں اپنے نبی کے اقوال میں تضاد تسلیم کرتا ہے۔ مگر اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مرزا صاحب نے قیاسی اختلاف یا مراقی تضاد میں کوئی فرق نہیں کیا بلکہ عام اصول لکھا ہے کہ ''کسی سچیار اور عقل مند اور صاف دل انسان کی کلام میں ہرگز تناقض نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی پاگل یا مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں میں ہاں ملا دیتا ہو اس کا کلام بیشک متناقض ہوتا ہے (۱۳۲)۔ پس قیاس کے عذر سے مرزا صاحب کا متخالف کلام ہدفِ اعتراض ہونے سے نہیں بچ سکتا بحالیکہ مرزا صاحب کا اقرار موجود ہے کہ ''مجھے مراق کی بیماری ہے''۔ ''حافظہ اچھا نہیں۔''(۱۳۳) پھر مزا یہ کہ اختلاف بھی صرف ایک دو برس کا نہیں۔ بلکہ بیسیوں برسوں کا ہے۔
(ب) : یا سوا اس کے یہی تو اعتراض ہے کہ جب مرزا صاحب کی عمر کا تخمینہ محض قیاس سے ہے اور صحیح علم نہیں تو پھر اسی برس یا کم و بیش عمر کے الہام کس رُو سے جانچیں جائیں اور کیوں مرزا صاحب نے ایک نامعلوم امر کے متعلق الہام گھڑ کر لوگوں کو فریب دیا۔
(ج): علاوہ ازیں اس عذر کے لغو ہونے پر یہ بھی دلیل ہے کہ ایک موید من اللہ نبی تو درکنار تھوڑی سی عقل کا مالک انسان بھی جب ایک دفعہ کسی امر پر رائے قائم کرلیتا ہے تو تاوقتیکہ اس رائے کے غلط ہونے پر کوئی قوی دلیل نہ مل جائے اس کے خلاف نہیں کہتا بخلاف اس کے مرزا صاحب کی تمام عمر انہی ہیروں پھیروں میں گزری کہ کبھی اپنی عمر کچھ بتائی کبھی کچھ۔ ایک دو مثالیں ہوں تو کوئی خیال بھی کرے کہ چلو ایک غلطی خوردہ انسان سے ایسا ہوسکنا محال نہیں مگر یہاں تو صدہا تک نوبت پہنچ چکی ہے اصل بات یہی ہے کہ کچھ تو مراق کی بیماری کا اثر تھا اور کچھ وقتی ضروریات کا سبب جہاں بائیبل کی ایک اور مبہم اور ناقابل اعتبار پیش گوئی کو اپنے پر لگانے کا شوق ہوا وہاں ۱۲۹۰ھ میں اپنا سن بعثت قرار دے لیا۔ جہاں قرآن پاک پر یہودیانہ تصرف مطلوب ہوا وہاں ۱۲۷۵ھ لکھ دیا۔ جہاں ''غلام احمد قادیانی'' کے من گھڑت الہام کی مناسبت بنانی پڑی وہاں ۱۳۰۰ھ ظاہر کردیا وغیرہ۔
(د) : اس جواب کی لغویت اس سے بھی ظاہر ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ عام انسانوں کی طرح نہیں تھا بلکہ وہ کہتے تھے کہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ روح القدس کی قدسیت ہر وقت ہر دم ہر لحظہ، بلا فصل ملہم (یعنی میرے اندر) کام کرتی رہتی ہے۔ (۱۳۴)
'' ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں(۱۳۵)۔ قرآن شریف میں بکثرت ایسی آیات موجود ہیں جن سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کی اپنی ہستی کچھ نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ بکلی خدا تعالیٰ کے تصرف میں ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک کل انسان کے تصرف میں ہوتی ہے۔ انبیاء نہیں بولتے جب تک انہیں خدا نہ بلائے اور کوئی کام نہیں کرتے جب تک خدا ان سے نہ کرائے وہ جو کچھ کہتے ہیں یا کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے احکام کے نیچے کہتے ہیں ان سے وہ طاقت سلب کی جاتی ہے جن سے خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی انسان کرتا ہے وہ خدا کے ہاتھ میں ایسے ہوتے ہیں جیسے مردہ، ان کی اپنی ہستی پر فنا آجاتی ہے۔'' الخ (ص ۷۰، ریویو جلد دوم قول مرزا)، (۱۳۶)
مولوی اللہ دتا صاحب! یہ دعویٰ ہے تمہارے نبی کا۔ پس تمہارا عذر جو تم نے مرزا صاحب کی تحریرات کی بنا پر کیا ہے نہ صرف آخری درجے کا باطل ہی ہے بلکہ اس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ مرزا صاحب بہت بڑے تھے۔
برادران! آپ مرزا صاحب کی پیشگوئی متعلقہ عمر کے جملہ پہلو ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ اب بتلائیے کہ ہم اس پیشگوئی کی جانچ کیسے کریں سوائے اس کے کہ ''یوخذ المرء باقرارہ'' کے تحت مرزا صاحب کی جس عبارت کو چاہیں اپنے اعتراض کا نشانہ بنائیں۔ آخر مرزا صاحب ''خدا کے نبی و رسول'' ہیں جن کا کوئی بھی قول''خدائی تصرف سے باہر نہیں'' پس ہمارا حق ہے کہ ان تمام تحریرات سے جسے جھوٹی پائیں اس پرتاک کر بم کا گولہ برسائیں۔ مگر یہاں تو سب کی سب جھوٹی ہیں۔ خیر ہم ایک دو بحث میں لا کر اس مضمون کو جو پہلے ہی کافی لمبا ہوگیا ہے ختم کرتے ہیں۔ مرزا صاحب کی ایک پیشگوئی متعلقہ عمر سے ظاہر ہے کہ ان کی عمر اسی سال کی ہوگی، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پیدا کب ہوئے سو سنیے کہ مرزا صاحب ایک جگہ اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے یہ لکھتے ہیں:
'' اہل کشف نے بھی اس زمانہ کی خبر دی اور نجومی بھی بول اٹھے کہ مسیح موعود کا یہی وقت ہے اور جس نے دعویٰ کیا اس کا نام غلام احمد قادیانی اپنے حروف کے اعداد سے اشارہ کر رہا ہے کہ یعنی تیرہ سو کا عدد بتلا رہا ہے کہ تیرھویں صدی کے ختم ہونے پر یہی مجدد آیا جس کا نام تیرہ سو کا عدد پورا کر رہا ہے۔'' (۱۳۷)
معلوم ہوا کہ مرزا صاحب تیرھویں صدی کے ختم ہونے پر ظاہر ہوئے اسی مضمون کو دوسری جگہ اس کتاب کے ص ۶۸ پر یوں ادا کیا ہے:
'' پھر جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف کیا اور یہ عجیب اتفاق ہوا کہ میری عمر چالیس پورے ہونے پر صدی کا سر بھی آپہنچا تب خدا نے الہام کے ذریعہ سے میرے پر ظاہر کیا کہ تو اس صدی کا مجدد ہے۔'' (۱۳۸)
اسی مضمون کو ایک اور جگہ یوں بیان کیا ہے:
'' سلف صالحین میں سے بہت سے صاحب مکاشفات مسیح کے آنے کا وقت چودھویں صدی کا شروع سال بتلا گئے ہیں۔'' (۱۳۹)
مزید تائید اور سنیے مرزا صاحب انجام آتھم ص ۱۷۲ پر راقم ہیں:
'' وازنشانہائے خدا یکے ایں است کہ اودر عدد نام من عدد زمانہ مرا پوشیدہ داشتہ اگر خواہی در عدد غلام احمد قادیانی ۱۳۰۰ھ فکر کن۔''
ایسا ہی سالانہ جلسہ قادیانی منعقدہ ۱۸۹۷ء کی رپورٹ پر مرزا صاحب کی تقریر درج ہے کہ:
'' غلام احمد قادیانی کے عدد بحساب جمل پورے تیرہ سو نکلتے ہیں یعنی اس نام کا امام چودھویں صدی کے آغاز میں ہوگا۔'' (۱۴۰)
اسی مطلب کی اور بھی بہت تحریریں ہیں ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں ان سے ثابت ہے کہ مرزا صاحب تیرھویں صدی کے ''ختم'' ہونے پر ۱۳۰۰ھ کے بعد چودھویں صدی کے ''شروع سال''، ''آغاز '' پر '' بالہام'' الٰہی مامور و مبعوث ہوئے تھے۔ جس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی۔ پس حساب صاف ہے اس کے بعد مرزا صاحب کل ۲۵ سال چند ماہ زندہ رہے چنانچہ مولوی اللہ دتا لکھتا ہے:
'' ۱۳۲۶ھ میں حضور کا وصال ہوا۔'' (۱۴۱)
بدیں حساب ۴۰+ ۲۵= ۶۵ سال مرزا صاحب کی عمر ہوئی حالانکہ کئی الہام تھے کہ تیری عمر ''چوہتر سے چھیاسی'' اسی سے پانچ چار کم یا زیادہ۔ اسی سال ہوگی جو سب کے سب غلط نکلے۔ فللہ الحمد
اس کے جواب میں مولوی اللہ دتا اور مصنف پاکٹ بک احمدیہ نے جو عذر کئے ہیں جن کا خلاصہ یہی ہے کہ غلام احمد قادیانی کے اعداد ۱۳۰۰ میں سن ہجری کی قید نہیں بلکہ سن نبوی ہے۔ صدی کے سر سے مراد ۱۲۹۰ ھ ہے کسی الہام سے ثابت نہیں کہ آپ مرزا صاحب تیرھویں صدی ہجری سے پہلے مامور نہیں ہوئے وغیرہ۔
ان کا جواب ہماری پیش کردہ عبارات میں موجود ہے۔ سن ہجری کی تخصیص۔ تیرھویں صدی کے ختم ہونے کے بعد ''بالہام'' مامور ہونے کاذکر۔ صدی کے سر سے مراد چودھویں کا شروع سال آغاز وغیرہ۔
---------------------------------------------------------------------------
(۱۱۳) ضمیمہ براھین احمدیہ ص۹۳،ج۵ و روحانی ص۳۶۵، ج۲۱
(۱۱۴) تفیہمات ربانیہ ص۱۰۷ مولفہ مرزائی اللہ دتا جالندھری قادیانی طبعہ اول ۱۹۳۰ء قادیان
(۱۱۵) حاشیہ تریاق القلوب ص۱۳ و روحانی ص۱۵۲، ج۱۵
(۱۱۶) حقیقت الوحی ص۹۶ و روحانی ص۱۰۰،ج۲۲ وتذکرہ ص۶۵۳
(۱۱۷) تحفۃ الندوہ ص۲ وروحانی ص۹۳ ج۱۹
(۱۱۸) ازالہ اوہام ص۹۴۵ و روحانی ص۶۲۴ ج۳
(۱۱۹) البدر جلد ۲نمبر ۴۷ مورخہ ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۳ء ص۳۷۴ والحکم جلد۷ نمبر ۴۶،۴۷ مورخہ ۱۷،۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۳ء ص۱۵ وتذکرہ ص۴۹۷
(۱۲۰) تریاق القلوب ص۳۸ و روحانی ص۲۱۰،ج۱۵ ونزول المسیح ص۲۱۲ و روحانی ص۵۹۰،ج۱۸ وانجام آتھم ص۱۸۱ و حقیقت الوحی ص۲۴۳ و روحانی ص۲۵۴،ج۲۲
(۱۲۱) ازالہ اوہام ص۶۳۵ و روحانی ص۴۴۳، ج۳ واربعین ص۳۱ نمبر ۲ وروحانی ص۳۸۰، ج۱۷ وتذکرہ ص۳۹۰، مرزا کا یہ الہام غلط محض ثابت ہوا اور مرزا زندگی میں اپنی اولاد کو پھل دار نہ دیکھ سکئے، مؤلف تاریخ احمدیت نے اس مقام پر آکر بڑی دون کی لی ہے کہ حضور کی نسل بعید نومبر ۱۹۶۱ء تک ۱۸۵ کی تعداد تک پہنچ چکی ہے، تاریخ احمدیت ص۴۸۳،ج۳ حالانکہ الہام میں صرف نسل بعید کے ہی الفاظ نہیں بلکہ، تریٰ نسلاً بعید، کے ہیں جن کا خود مرزا نے یہ معنیٰ کیا ہے، تو اپنی تک ایک دور کی نسل کو دیکھ لے گا (حقیقت الوحی ص۹۵) سوال یہ ہے کہ آیا مرزا ، نسل بعید، دیکھی تھی تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے کیونکہ جب مرزا نے وفات پائی تو ان کا نہ کوئی پوتا تھا اور نہ ہی کوئی پوتی۔ ابو صہیب
(۱۲۲) اربعین نمبر ۲ ص۲۳ و روحانی ص۳۷۱،ج۱۷
(۱۲۳) حاشیہ تحفہ گولڈویہ ص۹۵ و روحانی ص۲۵۲،ج۱۷
(۱۲۴) لیکچر سیالکوٹ ص۷ و روحانی ص۲۰۸، ج۲۰
(۱۲۵) الحکم جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۴ء ص۶ والبدر جلد۳ نمبر ۲۰،۲۱ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۴ء ص۴ و ملفوظات مرزا ص۵۴۳،ج۳
(۱۲۶) تریاق القلوب ص۶۸ و روحانی ص۲۸۳، ج۱۵
(۱۲۷) تحفہ گولڈویہ ص۱۰۰ و روحانی ص۲۶۰، ج۱۷
(۱۲۸) حقیقت الوحی ص۱۹۹ و روحانی ص۲۰۸،ج۲۲
(۱۲۹) مفہوم تحفہ گولڈویہ ص۱۰۷ و روحانی ص۲۷۶، ج۱۷
(۱۳۰) آئینہ کمالات اسلام ص۲۲۰ و روحانی جلد ۵ صفحہ ایضاً
(۱۳۱) تفیہمات ربانیہ ص۱۰۵ طبع اول
(۱۳۲) ست بچن ص۳۰ و روحانی ص۱۴۲،ج۱۰
(۱۳۳) تشنیذ الاذھان جلد ۱ نمبر۲ مورخہ ومسیح دعوت ص۷۴ و روحانی ص۴۳۹،ج۱۹
(۱۳۴) آئینہ کمالات اسلام ص۹۳ و روحانی حزائن ص۹۳،ج۵
(۱۳۵) بدر جلد ۷ نمبر ۹ مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء ص۲ والحکم جلد ۱۲ نمبر۱۷ مورخہ ۶ مارچ ۱۹۰۸ء ص۵ و ملفوظات مرزا ص۴۴۷،ج۵
(۱۳۶) ریویو ص۷۰،ج۲
(۱۳۷) تریاق القلوب ص۱۶ و روحانی ص۱۵۷ تا ۱۵۸ ج۱۵
(۱۳۸) ایضاً ص۶۸ و روحانی ص۲۸۳
(۱۳۹) ازالہ اوہام ص۱۸۴ و روحانی ص۱۸۹،ج۳
(۱۴۰) رپورٹ جلسہ سالانہ ص۱۸۹۷ء ص۶۱ و ملفوظات مرزا ص۳۱،ج۱
(۱۴۱) تفہیمات ربانیہ ص۱۰۲ و مجدد اعظم ص۱۲۰۹،ج۲ و سیرت المھدی ص۷۶،ج۳ واللفظ لہ
 
Top