- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
تیسری غلط پیشگوئی
منکوحہ آسمانی
مرزا صاحب کے رشتہ داروں میں ایک صاحب مسمی احمد بیگ ہوشیار پوری تھے۔ انہیں ایک دفعہ ایک ضروری کام کے لیے مرزا صاحب کی خدمت میں مستدعی ہونا پڑا۔ چونکہ وہ کام احسان و ایثار اور قربانی پر مبنی تھا جو مرزا صاحب کے ہاں مفقود تھی۔ اس لیے مرزا صاحب نے اس وقت تو یہ کہہ کر ہماری عادت بغیر استخارہ اور بلا استمزاج الٰہی کوئی کام کرنے کی نہیں ہے انہیں ٹال دیا کچھ دن بعد بذریعہ خط اس '' سلوک و مروت'' کی قیمت یا معاوضہ اس کی دختر کلاں کا رشتہ اپنے لیے مانگا۔
آہ! اگر مرزا صاحب کو مکالمہ و مخاطبہ الٰہی تو درکنار شریف انسانوں کی غیور طبائع کا ہی احساس ہوتا تو وہ کبھی اور کسی حالت میں اس شرافت پاش تہذیب شکن مطالبہ کا زبان پر لانا تو بڑی بات ہے دل میں خیال تک بھی نہ لائے۔
کوئی شریف و غیرت مند انسان اس طرح کے کاروباری طریق اور تجارتی اصول کے طور پر اپنی لختِ جگر کی توہین و تضحیک برداشت نہیں کرسکتا خواہ اس کی گردن ہی کیوں نہ اڑا دی جائے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ان کے دل میں جو رہی سہی عزت مرزا تھی وہ بھی کافور ہوگئی اور انہوں نے نہ صرف بشدد مداس رشتہ سے انکار کیا بلکہ اپنی غیرت و شرافت اور مرزا صاحب کی سوء عقل و قابل نفرت تہذیب کا اظہار کرنے کو مرزا صاحب کا وہ خط مخالفین مرزا کے اخباروں میں شائع کرا دیا اور خدا کی قسم اگر وہ ایسا نہ کرتے اور یہ رشتہ منظور کرلیتے تو ہر شریف و مہذب انسان قیامت تک کے لیے انہیں ذلیل و حقیر جاننے پر مجبور ہوتا۔ آمدم برسرِ مطلب۔ مرزا صاحب نے جو خط انہیں لکھا، وہ چونکہ پیشگوئی پر مبنی تھا اس لیے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں، ملاحظہ ہو:
'' خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک سے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اگر آپ اپنی دخترِ کلاں کا رشتہ میرے ساتھ منظور کریں تو وہ تمام نحوستیں آپ کی دور کردے گا اگر یہ رشتہ وقوع میں نہ آیا تو آپ کے لیے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہرگز مبارک نہ ہوگا۔ اور اس کا انجام درد اور تکلیف اور موت ہوگی یہ دونوں طرف برکت اور موت کی ایسی ہیں کہ جن کو آزمانے کے بعد میرا صدق یا کذب معلوم ہوسکتا ہے۔ (۲۷)
اس خلاف تہذیب مطالبہ اور دھمکی آمیز خط کا جو اثر ہوا وہ ہم لکھ چکے ہیں کہ بجائے اس کے کہ احمد بیگ وغیرہ اس سے ڈرتے، انہوں نے اسے مشہور کردیا۔ حالانکہ مرزا صاحب کی خواہش تھی کہ اسے مخفی رکھا جائے۔
ان کی اس کارروائی سے مرزا صاحب کو اور بھی غصہ آیا اور آپ نے کھلے بندوں اشتہار دیا:
'' اخبار نور افشاں ۱۰ مئی ۱۸۸۸ء میں جو خط اس راقم کا چھاپا گیا ہے وہ ربانی اشارہ سے لکھا گیا تھا۔ ایک مدت سے قریبی رشتہ دار مکتوب الیہ کے نشان آسمانی کے طالب تھے اور طریقہ اسلام سے انحراف رکھتے تھے (یہ محض افترا ہے البتہ وہ لوگ جو مرزا صاحب کے دعاوی کے ضرور منکر تھے۔ ناقل) یہ لوگ مجھ کو میرے دعویٰ الہام میں مکار اور دروغ گو جانتے تھے اور مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے۔ کئی دفعہ ان کے لیے دعا کی گئی۔ دعا قبول ہوکر خدا نے یہ تقریب پیدا کی کہ والد اس دختر کا ایک ضروری کام کے لیے ہماری طرف ملتجی ہوا قریب تھا کہ (ہم اس کی درخواست پر) دستخط کردیتے۔ لیکن خیال آیا کہ استخارہ کرلینا چاہیے سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا پھر استخارہ کیا گیا وہ استخارہ کیا تھا گویا نشانِ آسمانی کی درخواست کا وقت آپہنچا، اس قادر حکیم نے مجھ سے فرمایا کہ اس کی دختر کلاں کے لیے سلسلہ جنبانی کرو اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک و مروت تم سے اسی شرط پر کیا جائے گا اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت برا ہوگا جس دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔ خدائے تعالیٰ اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔ خدائے تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کو ہر ایک مانع دور کرنے کے بعد انجام کار اس عاجز کے نکاح میں لائے گا۔ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے: ''کَذبُوْا بِاٰیتنا وَکَانوا بِھَا یستھزء ون فسیکفیکھم اللّٰہُ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہِ اِنَّ رَبُّکَ فَعَالٌ لِّمَا یُرِیْدُ''۔ یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے ہنسی کر رہے تھے۔ سو خدا تعالیٰ ان کے تدارک کے لیے جو اس کام کو روک رہے ہیں۔ تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے، بدخیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کو ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک (کسوٹی) امتحان نہیں۔'' (۲۷)
اس اشتہار میں جو کچھ ہے محتاج تشریح نہیں، صاف صاف اعلان ہے کہ اگر دوسری جگہ نکاح کیا گیا تو اس عورت کا خاوند اڑھائی سال میں اور اس کا والد تین سال میں فوت ہوگا یہ خدا کا مقرر کیا ہوا فیصلہ اور اٹل وعدہ ہے جسے کوئی بھی ٹال نہیں سکتا جو شخص اس میں رکاوٹ ہوگا وہ بھی ساتھ ہی پس جائے گا۔ آخر کار مرزا سے نکاح ہوگا۔ یہ دلیل ہے خدا کے قادر فعال لما یرید اور مرزا صاحب کے ملہم خدا ہونے کی وغیرہ۔
اس کی مزید تائید الفاظ ذیل میں یوں کی گئی ہے:
خدا تعالیٰ ہمارے کنبے اور قوم میں سے تمام لوگوں پر جو (اس) پیشگوئی کے مزاحم ہونا چاہیں گے اپنے قہری نشان نازل کرے گا اور ان سے لڑے گا اور ان کو انواع و اقسام کے عذابوں میں مبتلا کرے گا، ان میں سے ایک بھی ایسا نہ ہوگا جو اس عقوبت سے خالی رہے۔ ایک عرصہ سے یہ لوگ مجھے میرے الہامی دعاوی میں مکار اور دکاندار خیال کرتے ہیں پس خدا تعالیٰ نے انہیں کی بھلائی کے لیے انہی کی درخواست سے الہامی پیشگوئی کو ظاہر فرمایا۔ تا وہ سمجھیں کہ وہ (خدا) در حقیقت موجود ہے یہ رشتہ جس کی درخواست کی گئی محض بطور نشان کے ہے تاکہ خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو عجوبہ قدرت دکھا دے۔'' (۲۸)
اس تحریر میں بھی مثل سابق پیشگوئی کی عظمت و شوکت کا اظہار ہے اور اس کو خدا کے موجود، مرزا صاحب کے من جانب اللہ ہونے کی ایک زبردست دلیل اور عجوبہ قدرت قرار دیا گیا ہے:
اور سنیے مرزا صاحب رسالہ ''شہادۃ القرآن'' ص ۸۰ پر راقم ہیں:
'' بعض عظیم الشان نشان اس عاجز کی طرف سے معرض امتحان میں جیسا کہ عبداللہ آتھم امرتسری کی نسبت پیش گوئی اور پنڈت لیکھ رام کی پیش گوئی، پھر مرزا احمد بیگ ہوشیاپوری کے داماد کی نسبت پیش گوئی جس کی معیاد آج کی تاریخ سے جو ۲۱؍ ستمبر ۱۸۹۳ء ہے قریباً گیارہ مہینے باقی رہ گئے ہیں، یہ تمام امورِ جو انسانی طاقتوں سے بالکل بالاتر ہیں ایک صادق یا کاذب کی شناخت کے لیے کافی ہیں پیشین گوئیاں کوئی معمولی بات نہیں جو انسان کے اختیار میں ہوں بلکہ محض اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہیں سو اگر کوئی طالب حق ہے تو ان پیشگوئیوں کے وقتوں کا انتظار کرے یہ تینوں پیشگوئیاں پنجاب کی تین بڑی قوموں پر حاوی ہیں اور ان میں سے وہ پیشگوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی عظیم الشان ہے کیونکہ اس کے اجزا یہ ہیں:
(۱) مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری تین سال کی معیاد کے اندر فوت ہو (۲) داماد اس کا اڑھائی سال کے اندر فوت ہو (۳) احمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو (۴) وہ دختر بھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو (۵) یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورا ہونے تک فوت نہ ہو (۶) پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جاوے۔ (۲۹)
یہ عبارت بھی اپنا مدعا بتانے میں بالکل واضح ہے احمد بیگ کا تین سال میں اور اس کے داماد کا اڑھائی سال میں فوت ہونا اور محمدی بیگم کا مرزا صاحب کے عقد میں آنا عظیم الشان پیشگوئی قرار دیا ہے۔
البتہ دو باتیں اس میں ایسی لکھی ہیں جو صریح جھوٹ اور افترا ہے، اول یہ کہ اصل پیشگوئی میں پہلا نمبر احمد بیگ کے داماد کی موت مذکور تھا اور اس کی مدت بھی اڑھائی سال بتائی تھی اور دوسرا نمبر خود احمد بیگ کی موت اور میعاد تین سال لکھی تھی۔ یہ ترتیب تحریر اور فرق میعاد مظہر ہے کہ پہلے وہ مرے گا جس کی میعاد اڑھائی سال ہے۔ اور پیش گوئی میں پہلے نمبر پر اس کا ذکر ہے اور بعد میں وہ مرے گا جو دوسرے نمبر پر مذکور ہے، اور اس کی میعاد تین سال ہے۔ بخلاف اس کے چونکہ اس تحریر کے وقت مرزا احمد بیگ بقضا الٰہی اپنی مقررہ عمر پوری کرکے فوت ہوچکا تھا۔ حالانکہ اسے اپنے داماد کے بعد مرنا تھا، اس لیے مرزا صاحب نے اس تحریر میں یہ چالاکی کی کہ احمد بیگ کی موت پہلے ذکر کی اور اس کے داماد کا ذکر دوسرے نمبر پر کیا۔
دوسری چالاکی اُس تحریر میں یہ کی ہے کہ اصل پیشگوئی کی رو سے یہ ضروری نہیں تھا کہ پہلے وہ عورت دوسری جگہ بیاہی جائے پھر بیوہ ہو کر مرزا کے نکاح میں آئے بلکہ دونوں صورتیں ملحوظ تھیں یعنی پیشگوئی یہ تھی کہ '' وہ عورت باکرہ یا بیوہ ہو کر میرے نکاح میں ضرور آئے گی'' مگر اس تحریر کے وقت اس عورت کا دوسری جگہ نکاح ہوچکا تھا۔ اس لیے مرزا صاحب نے پیش گوئی کے ایک حصہ ''باکرہ'' کو تو بالکل ہی ہضم کرلیا اور صرف '' بیوہ'' والا حصہ ظاہر کرنے کو لکھا کہ ہماری پیش گوئی یہ تھی کہ:
''وہ دختر بھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔''
ناظرین کرام! یہ میں مرزا صاحب '' صادق بنی اللہ'' کی مقدس چالیں غور فرمائیے اگر پیش گوئی کی رو سے یہی ضروری تھا کہ وہ عورت پہلے دوسری جگہ بیاہی جائے گی اور بیوہ ہو کر مرزا صاحب کے نکاح میں آئے گی تو پھر مرزا صاحب نے کیوں خط پر خط بھیجے کہ ہمارے ساتھ نکاح کردو، دوسری جگہ نہ کرو، اگر کرو گے تو تم پر مصائب آئیں گے یہ ہوگا وہ ہوگا۔ یہاں تک کہ خود سلطان محمد کو خطوط لکھے کہ تم یہ نکاح منظور نہ کرو۔
حاصل یہ کہ مرزا صاحب کی یہ تحریر ان کی اصلیت کا اظہار کر رہی ہے کہ وہ کیا تھے، بہرحال مرزا صاحب کی ان تمام دھمکی آمیز پیشگوئیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ فریق ثانی نے محمدی بیگم کو مؤرخہ ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء کو مرزا سلطان محمد ساکن پٹی (ضلع لاہور) سے بیاہ دیا۔ (۳۰)
اس پر مزید ستم یہ کہ مرزا سلطان محمد خاوند محمدی بیگم بجائے اڑھائی سال میں مرنے کے آج تک دندناتا پھر رہا ہے (۳۱)۔ اور مرزا صاحب کبھی کے حسرت وصل دل میں لے کر گوشۂ قبر میں جا لیٹے ہیں۔ مرزائی مناظر اس پیشگوئی پر مندرجہ ذیل عذر کیا کرتے ہیں۔
مرزائیوں کا پہلا عذر:
نکاح کی حضرت صاحب نے دو ہی صورتیں بتائی تھیں (۱) باکرہ ہونے کی (۲) بیوہ ہو کر باکرہ والی صورت کو الہام الٰہی ''یُرُدُّھَا ٓ اِلَیْکَ'' اور ''کَذَّبُوْا بِایٰتِنَا '' نے باطل کردیا۔ (۳۲)
الجواب:
(۱) مرزا صاحب کا یہ دو رنگا الہام یعنی خواہ پہلے باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خدا بیوہ کرکے اس کو میری طرف لے آوے۔ (۳۳)
یہ الہام ہی مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر شاہد ہے خدا کے کلام میں اس طرح کی جہالت نہیں ہوسکتی۔
(۲) آپ نے جو الہام باکرہ سے نکاح منسوخ ہوجانے کے بارے میں پیش کیا ہے یہ تو پیشگوئی کا ابتدائی الہام ہے جو اشتہار ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے (۳۴)۔ کیا مرزا صاحب کے الہام کرنے والے نے یہ پیشگوئی کرتے ہوئے کہ اس عورت سے تیرا نکاح '' باکرہ یا بیوہ'' ہر دو صورتوں میں ہوگا ساتھ ہی ''باکرہ'' کی صورت کو منسوخ بھی کردیا تھا۔ العجب (۳۵)
معلوم ہوتا ہے کہ مرزائی مجیب کو خدا پر ایمان نہ ہونے کے ساتھ مرزا صاحب سے بھی دشمنی ہے کہ وہ اس طرح ان سے ٹھٹھا کر رہا ہے۔
اگر ایک ہی اشتہار میں یہ الہامی سہ رنگی پائی جاتی ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ ''اس شخص کی دختر کلاں کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک و مروت تم سے اسی شرط پر کیا جائے گا۔ (کہ اپنی لڑکی کا بصورت باکرہ مجھ سے عقد کردو) یہ نکاح تمہارے لیے موجب برکت ہوگا'' اور دوسری طرف ''باکرہ یا بیوہ'' کی دو رنگی ہے اور تیسری طرف باکرہ والی صورت ہی منسوخ کردی گئی ہے تو اس کے بعد مرزا صاحب نے کیوں سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح دوسری جگہ نکاح نہ ہونے پائے اور میرے ساتھ ہی ہو جائے یہاں تک کہ اپنی بیوی کو دھمکی دی کہ '' اگر وہ تجویز جو اس لڑکی کے ناطہ اور (دوسری جگہ) نکاح کرنے کی کر رہے ہیں اس کو موقوف نہ کرایا تو طلاق دے دوں گا۔'' اور اسی غصہ میں دے بھی دی۔ بلکہ اپنے لڑکے سلطان احمد کو عاق اور ''محروم الارث'' قرار دیا اور دوسرے لڑکے کے نام فرمان جاری کیا کہ اپنی بیوی جو احمد بیگ کی بھانجی ہے اس کو طلاق نہ دو گے تو تم بھی عاق متصور ہوگے وغیرہ۔ (۳۶)
مرزائیوں کا دوسرا عذر:
حضور (مرزا صاحب انجام آتھم ص۲۱۶ میں) فرماتے ہیں کہ اصل پیش گوئی نکاح کی نہیں بلکہ احمد بیگ و سلطان محمد کی موت کی تھی اور اس عورت کا نکاح میں آنا تو محض پیش گوئی کی عظمت بڑھانے کے لیے ہے۔ (۳۷)
الجواب:
اگر اصل مقصود ان کی ہلاکت تھی تو پھر وہ اڑھائی سال کی بتائی ہوئی میعاد میں کیوں نہ فوت ہوا؟ یہ عذر تو بجائے مفید ہونے کے تمہیں اور بھی مضر ہے۔
ماسوا اس کے یہ بھی جھوٹ ہے کہ اصل مقصود اور اصل پیشگوئی ان کی ہلاکت کی تھی۔ حالانکہ اصل پیش گوئی تو نکاح کی تھی۔ مرزا احمد بیگ سلطان محمد کی موت تو محض اس لیے اور اس شرط پر تھی کہ وہ اس نکاح میں مانع ہوں گے تو میعاد کے اندر فوت ہو جائیں گے۔ (۳۸ )
ناظرین کرام! ملاحظہ فرمائیں کہ مرزا صاحب پہلے تو بڑے زور شور کے ساتھ پیش گوئی کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کو ایک مانع دور کرنے کے بعد اس عاجز کے نکاح میں لاوے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ ''لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ'' میرا رب ایسا قادر ہے کہ جو چاہے وہی ہو جاتا ہے۔ بلکہ یہاں تک دعویٰ ہے کہ '' مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا نکاح پڑھا دیا ہے میری باتوں کو کوئی نہیں بدلا سکتا۔ (۳۹)
مگر بعد میں جب دوسرا شخص اسے بیاہ لے جاتا ہے، اور ان الہاموں کو ذرا بھر دقعت نہیں دیتا۔ لطف یہ کہ مرزا صاحب اور ان کے الہام کنندہ کی بتائی ہوئی میعاد میں اس کی موت تو درکنار اسے سردرد تک نہیں ہوتا۔ تو مرزا صاحب تین چار سال بعد بقول مصنف ''احمدیہ پاکٹ'' بک پینترا بدل کر کہتے ہیں کہ اصل پیشگوئی نکاح کی نہیں تھی۔ آہ! کیا سچ ہے کہ:
'' انسان جب حیا کو چھوڑ دیتا ہے تو جو چاہے بکے کون اس کو روکتا ہے۔'' (۴۰)
مرزائیوں کا تیسرا عذر:
جب احمد بیگ میعاد مقررہ میں ہلاک ہوگیا تو سلطان محمد پر خوف طاری ہوا۔ اس نے حضرت مسیح موعود کو دعا کے لیے خطوط لکھے اور تضرع و ابتہال سے جناب باری میں دعا کی۔ خدا تعالیٰ غفور و رحیم نے سلطان محمد کی زاری کو سنا عذاب ہٹا لیا۔ (۴۱)
الجواب:
(۱) احمد بیگ کا سلطان محمد سے قبل مرنا پیشگوئی کی تکذیب ہے۔ جیسا کہ ہم اس پر مفصل لکھ چکے ہیں، سلطان محمد کے متعلق یہ کہنا کہ اس نے اپنے خسر کی موت ملاحظہ کرکے مرزا صاحب کی خدمت میں خطوط بھیجے اور خدا سے تضرع و ابتہال کے ساتھ پناہ مانگی یہ اس قدر جھوٹ ہے کہ دنیا میں کوئی بدترین سے بدترین انسان بھی اس قدر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ ہمارا چیلنج ہے کہ اگر تم لوگ مرزا احمد بیگ کی وفات کے بعد اور سلطان محمد کی میعادی تاریخ کے اندر اندر اس کا کوئی خط مرزا صاحب کے نام بھیجا ہوا دکھا دو تو ہم سے منہ مانگا انعام لو۔ ورنہ یاد رکھو کہ قیامت کے دن کذابوں اور دجالوں کے ساتھ تمہارا حشر ہوگا۔
(۲) مرزا احمد بیگ ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو فوت ہوا (۴۲)۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد سلطان محمد نے خط بھیجے وغیرہ (بہت خوب) مگر سوال یہ ہے کہ کیا۔ ان '' خطوط اور توبہ'' وغیرہ کے باعث اس سے عذاب موت جو میعادی اڑھائی سالہ تھا ٹل گیا؟ مرزا جی کہتے ہیں کہ ''نہیں'' چنانچہ احمد بیگ کی وفات کے قریباً ایک سال بعد مرزا صاحب اپنی کتاب شہادۃ القرآن میں سلطان محمد کی میعادی موت کو بحال رکھتے ہوئے راقم ہیں:
'' مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کے داماد کی موت کی نسبت پیشگوئی جو ٹپی ضلع لاہور کا باشندہ جس کی میعاد آج کی تاریخ سے جو ۲۱؍ ستمبر ۱۸۹۳ء ہے قریباً گیارہ مہینے باقی رہ گئی ہے یہ تمام امور جو انسانی طاقتوں سے بالکل بالاتر ہیں، ایک صادق یا کاذب کی شناخت کے لیے کافی ہیں۔ '' الخ (۴۳)
اس عبارت نے معاملہ بالکل صاف کردیا کہ اگر سلطان محمد نے کوئی خط وغیرہ بھیجا اور توبہ بھی کی ہے تو اس کا اس پیشگوئی پر کوئی اثر نہیں وہ یقینا اپنی میعاد میں مرے گا اور مرزا صاحب اس کی موت کو اپنے صدق و کذب کا نشان قرار دے رہے ہیں ۔ فلہ الحمد
اور بات بھی سچ ہے کہ پیشگوئی میں سلطان احمد کی تویہ شرط نہ تھی، بلکہ یہ تھا کہ '' جس دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ اڑھائی سال میں فوت ہو جائے گا۔ یعنی سلطان محمد کا قصور صرف نکاح تھا جو اُس نے کر لیا۔ اسی کی تائید مرزا صاحب کی تحریر ذیل سے ہوتی ہے:
'' احمد بیگ کے داماد کا یہ قصور تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پروا نہ کی۔ خط پر خط بھیجے گئے ان سے کچھ نہ ڈرا۔ پیغام بھیج کر سمجھایا گیا۔ کسی نے التفات نہ کی سو یہی قصور تھا کہ پیشگوئی کو سن کر ناطہ کرنے پر راضی ہوئے۔'' (۴۴)
---------------------------------------------------------------------------------------
(۲۷) اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۵۷ تا ۱۵۹، ج۱ وآئینہ کمالات اسلام ص۲۸۱ تا ۲۸۸ وتذکرہ ص۱۵۹ ملخصًا واللفظ لہ
(۲۸) اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۶۰، ج۱ وتبلیغ رسالت ص۱۱۹، ج۱ وتذکرہ ص۱۶۱
(۲۹) شہادت القران ص۷۹ تا ۸۰ و روحانی ص۳۷۶، ج۶ ملخصًا
(۳۰) آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۹ نوٹ: آئینہ میں محض دوسری جگہ شادی کا زکر ہے، البتہ مرزائی دوست محمد شاہد نے تاریخ احمدیت ص۱۷۰، ج۲ میں عبدالقادر سوداگر مل نے، حیات طیبہ ص۸۹ میں مرزا سلطان محمد صاحب مرحوم سے شادی کا اقرار کیا ہے۔ ابو صہیب
(۳۱) مرزا سلطان محمد صاحب مرحوم نے بحالت ایمان ۱۹۴۹ میں وفات پائی تھی، ارشد
(۳۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۸ طبع ۱۹۳۳
(۳۳) اشتہار مرزا مورخہ ۲؍ مئی ۱۸۹۱ء میں مندرجہ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود ص۲۱۹، ج۱ وتبلیغ رسالت ص۹ج۲
(۳۴) دیکھئے، مجموعہ اشتہارات ص۱۵۸، ج۱ وتذکرہ ص۱۵۹
(۳۵) مرزا دجال کے الہام یردھا الیک کے منسوخ نہ ہونے پر ایک مزید یہ بھی دلیل ہے کہ محمدی بیگم مرحومہ کے نکاح کے چار سال بعد ۱۸۹۶ء میں انجام آتھم کے صفحہ ۶۰ میں اسے دوبارہ شائع کیا اور نکاح کے آٹھ سال بعد۱۹۰۰ء میںمرزا جی نے اربعین نمبر۲ ص۳۴ پر درج کرتے ہوئے حسب ذیل حاشیہ آرائی کی ہے، یردھا الیک سے صاف ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ اس عورت کا جانا اور پھر واپس آنا شرط ہے اور اس کے بعد زوجنک ہے اور یہی معنی رد کے ہیں، روحانی خزائن ص۳۸۲، ج۱۷ مولاناعبداللہ معمار مرحوم کی اس زبردست گرفت کی وجہ سے مؤلف، مرزائی پاکٹ بک نے بعد کی اشاعت کے صفحہ ۷۷۴ طبعہ ۱۹۴۵ء میںیہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یردھا الیک کا معنیٰ یہ ہے کہ محمدی بیگم کی دوسری جگہ شادی ہوگی۔ ابو صہیب
(۳۶) اشتہار مرزا مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۲۲۱، ج۱
(۳۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۷۳ طبعہ ۱۹۴۵ء و ص۴۳۳ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۳۸) اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء مندرجہ، مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۵۸، ج۱ وتذکرہ ص۱۵۸
(۳۹) آسمانی فیصلہ ص۴۰ و روحانی ص۳۵۰، ج۴ و مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۳۰۱، ج۱ و تبلیغ رسالت ص۸۵، ج۲ وتذکرہ ص۱۶۱
(۴۰) اعجاز احمدی ص۳ و روحانی ص۱۰۹ج ۱۹
(۴۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۳ طبعہ ۱۹۳۲ء ملخصًا
(۴۲) آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۵ و روحانی ص۳۲۵، ج۵
(۴۳) شہادت القران ص۷۹ و روحانی ص۳۷۵، ج۶
(۴۴) اشتہار مرزا مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۹۵، ج۲