- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
ضروری گذارش لائق توجہ گورنمنٹ
'' مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر ملی کہ ایک زلزلہ اور آنے والا ہے جو قیامت کا نمونہ ہوگا۔ میں اس بات کی طرف متوجہ ہوں کہ یا تو خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس گھڑی کو ٹال دے اور مجھے اطلاع دے یا پورے طور پر بقید تاریخ اور روز اور وقت اس آنے والے حادثہ سے مطلع فرما دے کیونکہ وہ ہر ایک بات پر قادر ہے اب تک قریباً ایک ماہ سے میرے خیمے باغ میں لگے ہوئے ہیں۔ میں واپس قادیان میں نہیں گیا کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ وقت کب آنے والا ہے میں نے اپنے مریدوں کو بھی نصیحت کی کہ جس کی مقدرت ہو اسے ضروری ہے کہ کچھ مدت خیموں میں باہر جنگل میں رہے (حاشیہ میں لکھا ہے) اس کے واسطے کوئی تاریخ معین نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے کوئی تاریخ میرے پر ظاہر نہیں فرمائی۔ ایسی پیش گوئیوں میں یہی سنت اللہ کی ہے چنانچہ انجیل میں بھی صرف یہ لکھا ہے کہ زلزلے آویں گے مگر تاریخ مقرر نہیں مجھے اب تک قطعی طور پر یہ بھی معلوم نہیں کہ اس زلزلہ سے در حقیقت ظاہری زلزلہ مراد ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے، اس خوف کو لازم سمجھ کر میں خیموں میں گزارہ کرتا ہوں۔ ایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ ہوچکا ہے۔ اس قدر خرچ کون اٹھا سکتا ہے بجز اس کے کہ سچے دل سے آنے والے حادثہ پر یقین رکھتا ہے مجھے بعد میں زلزلہ کی نسبت یہ بھی الہام ہوا تھا۔ '' پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔'' اجتہادی طور پر خیال گزرتا ہے کہ ظاہر الفاظ وحی کے چاہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی بہار کے ایام میں پوری ہوگی۔'' (۲۰۱)
اس جگہ پھر وہی چالاکی اختیار کی ہے کہ ایک طرف زلزلہ کی بار بار تصریح دوسری طرف احتمال و اہمال بہرحال جو کچھ ہو اس زلزلہ ''یا کوئی اور آفت شدیدہ'' کے جلد نازل و وارد ہونے پر مرزا صاحب کو یقین تھا۔ جو بہ تمام و کمال جھوٹا، خیالی اور وہمی ثابت ہوا۔ آخر انتظار بسیار کے بعد مرزا صاحب اپنا سا منہ لے کر چپکے سے قادیان میں آگئے اور غریب و محنتی مریدوں سے بطور چندہ اکٹھا کیا ہوا ہزار روپیہ کے قریب روپیہ مفت میں خیموں وغیرہ پر برباد ہوا۔ آگے ملاحظہ ہو ضمیمہ نصرۃ الحق ۹۷ اول کے حاشیہ پر لکھا ہے:
'' خدا تعالیٰ کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ موعودہ کے وقت بہار کے دن ہوں گے اور جیسا کہ بعض الہامات سے سمجھا جاتا غالباً صبح کا وقت ہوگا یا اس کے قریب اور غالباً وہ وقت نزدیک ہے جبکہ وہ پیشگوئی ظہور میں آجائے اور ممکن ہے کہ خدا اس میں کچھ تاخیر ڈال دے ۔ (اس تاخیر کی تعیین اسی صفحہ کے متن میں یہ کی گئی ہے)'' بار بار وحی الٰہی نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی ملک اور میرے ہی فائدے کے لیے ظہو رمیں آئے گی۔ اگر خدا تعالیٰ نے بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ سال میں۔ ضرور ہے کہ یہ میری زندگی میں ظہور میں آجائے۔'' (۲۰۲)
با انصاف و باخدا ناظرین! دیکھیے کہاں تو یہ ہما ہمی تھی کہ آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ زلزلہ آیا کہ آیا حتیٰ کہ مریدوں کے نام سر کلر جاری کردیا کہ مکانوں کو چھوڑ کر باہر ڈیرے لگاؤ اور خود بھی مہینہ بھر باغ میں رہے اور کہاں یہ بے بسی کہ زیادہ سے زیادہ سولہ سال کی تاخیر ہے۔
بھائیو! کیا آپ نے آج تک کوئی راول یا منجم بھی سنایا دیکھا ہے کہ وہ ہر بات میں مغالطہ اور دھوکہ کو ہی دین و ایمان سمجھے؟ یقینا نہیں دیکھا ہوگا مگر ہمارے ''حضرت مرزا صاحب'' ان سے بھی بڑھ چڑھ کر ہیں۔
بہرحال اس تحریر میں اتنا تو ہے کہ اس ملک کی تخصیص اور زندگی کی تعیین کی گئی ہے (شکریہ) اب سوال یہ ہوگا کہ ایسا زلزلہ ملک پنجاب میں مرزا صاحب کی زندگی میں کب آیا؟ اس کا جواب مرزائی یہ دیتے ہیں کہ ۲۸؍ فروری ۶ء کو آیا تھا (۲۰۳)۔ اس کے جواب میں ہم اپنے ناظرین کے انصاف پر فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ وہ خدا کو حاضر ناظر سمجھ کر گواہی دیں کہ کیا زلزلہ عظیم اپریل ۱۹۰۵ء کے بعد کا زلزلہ کسی وہم و خیال میں بھی ہے؟ کسی کو یاد ہے؟ ہرگز نہیں حالانکہ زلزلہ موعودہ ایسا زلزلہ تھا کہ:
'' جو پہلے زلزلہ سے بھی بڑھ چڑھ کر، قیامت خیز، ہوش ربا حادثہ محشر کو یاد دلانے والا جو نہ کسی آنکھ نے اس سے پہلے دیکھا نہ کسی نے سنا بلکہ کسی کے وہم میں بھی نہ گزرا ہو، کہاں وہ زلزلہ جو پرندوں کے ہوش و حواس کھو دے، جنوں کو بیخود کردے سمندروں، دریاؤں، شہروں، دیہاتوں کو چکرا ڈالے جس میں اتنے آدمی مریں کی ندیاں خون کی رواں ہوں۔''
پس ہمارے ناظرین خود اندازہ لگا لیں کہ مرزائی اس جواب میں کہاں تک راست گو اور ایماندار ہیں۔ اوہو میں دور چلا گیا۔ ساری دنیا بھی گواہی دیدے تب بھی مرزائی ایمان نہ لائیں گے۔ مجھے تو لازم ہے کہ خود مرزا صاحب کی تحریر سے دکھاؤں کہ ۲۸؍ فروری ۶ء والا زلزلہ بہت ہی معمولی تھا ، احمدی دوستو! سنو اور کان کے پردے کھول کر بے ایمانی، ضدوتعصب کو چھوڑ کر سنو! مرزا صاحب راقم ہیں:
'' وحی الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ زلزلے آئیں گے اور پہلے چار کسی قدر ہلکے اور خفیف ہوں گے اور دنیا ان کو معمولی سمجھے گی۔ پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا کہ لوگوں کو سو دائی اور دیوانہ کردے گا یہاں تک وہ تمنا کریں گے کہ اس دن سے پہلے مر جاتے اب یاد رہے کہ اس وقت تک جو ۲۲؍ جولائی ۱۹۰۶ء ہے اس ملک میں تین زلزلے آچکے ہیں یعنی ۲۸؍ فروری ۶ء اور ۲۰ مئی ۶ء اور ۲۱؍ جولائی ۶ء مگر غالباً خدا کے نزدیک یہ زلزلوں میں داخل نہیں کیونکہ بہت ہی خفیف ہیں۔'' الخ (۲۰۴)
ظاہر ہے کہ ۲۸؍ فروری ۶ء والا زلزلہ وہ زلزلہ نہیں جو قیامت کا نمونہ تھا۔ خلاصہ یہ کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئیاں بھی غلط ہوئیں۔
مرزائی عذر:
اس زلزلہ والی پیشگوئی پر مرزائی ایک عذر یہ کرتے ہیں کہ ۱۹۰۶ء میں مرزا صاحب کو یہ الہاماً بتایا گیا تھا کہ وہ زلزلہ تاخیر میں پڑ گیا۔ لہٰذا زندگی میں نہ آنا قابل اعتراض نہیں۔ (۲۰۵)
الجواب:
تاخیر والا الہام مجمل ہے اس میں کہیں مذکور نہیں کہ بعد زندگی کے آئے گا بخلاف اس کے ہم جو تحریرات مرزا نقل کر آئے ہیں ان میں بالفاظ اصرح ''وحی'' سے بتایا گیا ہے کہ '' وہ زندگی میں آئے گا بڑی سے بڑی تاخیر زندگی تک ہے۔'' اس سے زیادہ نہیں۔ پس یہ عذر سراسر غلط ہے۔
-----------------------------------------------------
(۱۹۱) اشتہار مرزا مورخہ ۸؍ اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۲۲،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۲ وتذکرہ ص۵۳۴ و تبلیغ رسالت ص۸۰،ج۱۹
(۱۹۲) بدر جلد اول نمبر ۳ مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۱ والحکم جلد۹ نمبر۱۳ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۲ وتذکرہ ص۵۳۸ ومکاشفات مرزا ص۳۹
(۱۹۳) براھین احمدیہ ص۱۲۰ حصہ پنجم وروحانی ص۱۵۰،ج۲۱ وتذکرہ ص۵۳۹
(۱۹۴) ایضاً
(۱۹۵) ضرورت الامام ص۱۳ و روحانی ص۴۸۳، ج۱۳
(۱۹۶) ملخصًا ، ازالہ اوہام ص۶۰۹طبع ثانیہ
(۱۹۷) اشتہارمرزا مورخہ ۲۱؍اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۲۶،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۵ و تذکرہ ص۵۳۵ وریویو ص۲۳۸،ج۴ نمبر۶
(۱۹۸) سیرت المھدی ص۲۶،ج۱ و تاریخ احمدیت ص۳۹۸، ج۳ وحیات طیبہ ص۳۶۸ و مجدد اعظم ص۱۰۱۰،ج۲ و سلسلہ احمدیہ ص۱۴۷
(۱۹۹) اشتہار مرزا ، مورخہ ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۳۵،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۵ مورخہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۹ وتذکرہ ص۵۴۴
(۲۰۰) یہ اشتہار مرزا نے ۱۱؍ مئی ۱۹۰۵ء کو لکھا اور ۲۲؍ مئی کو شائع ہوا، مجموعہ اشتہارات ص۵۴۳، ج۳
(۲۰۱) اشتہار مرزا مورخہ ۲۲؍ مئی ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۳۸،ج۳
(۲۰۲) ضمیمہ براھین احمدیہ ص۹۷،ج۵ و روحانی ص۲۵۸، ج۲۱
(۲۰۳) تفہیمات ربانیہ ص۱۱۷
(۲۰۴) حقیقت الوحی ص۹۳ و روحانی ص۹۶، ج۲۲ و حاشیہ تذکرہ ص۶۴۸
(۲۰۵) تاریخ احمدیت ص۴۰۳،ج۳ و تفہیمات ربانیہ ص۱۱۴
'' مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر ملی کہ ایک زلزلہ اور آنے والا ہے جو قیامت کا نمونہ ہوگا۔ میں اس بات کی طرف متوجہ ہوں کہ یا تو خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس گھڑی کو ٹال دے اور مجھے اطلاع دے یا پورے طور پر بقید تاریخ اور روز اور وقت اس آنے والے حادثہ سے مطلع فرما دے کیونکہ وہ ہر ایک بات پر قادر ہے اب تک قریباً ایک ماہ سے میرے خیمے باغ میں لگے ہوئے ہیں۔ میں واپس قادیان میں نہیں گیا کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ وقت کب آنے والا ہے میں نے اپنے مریدوں کو بھی نصیحت کی کہ جس کی مقدرت ہو اسے ضروری ہے کہ کچھ مدت خیموں میں باہر جنگل میں رہے (حاشیہ میں لکھا ہے) اس کے واسطے کوئی تاریخ معین نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے کوئی تاریخ میرے پر ظاہر نہیں فرمائی۔ ایسی پیش گوئیوں میں یہی سنت اللہ کی ہے چنانچہ انجیل میں بھی صرف یہ لکھا ہے کہ زلزلے آویں گے مگر تاریخ مقرر نہیں مجھے اب تک قطعی طور پر یہ بھی معلوم نہیں کہ اس زلزلہ سے در حقیقت ظاہری زلزلہ مراد ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے، اس خوف کو لازم سمجھ کر میں خیموں میں گزارہ کرتا ہوں۔ ایک ہزار روپیہ کے قریب خرچ ہوچکا ہے۔ اس قدر خرچ کون اٹھا سکتا ہے بجز اس کے کہ سچے دل سے آنے والے حادثہ پر یقین رکھتا ہے مجھے بعد میں زلزلہ کی نسبت یہ بھی الہام ہوا تھا۔ '' پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔'' اجتہادی طور پر خیال گزرتا ہے کہ ظاہر الفاظ وحی کے چاہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی بہار کے ایام میں پوری ہوگی۔'' (۲۰۱)
اس جگہ پھر وہی چالاکی اختیار کی ہے کہ ایک طرف زلزلہ کی بار بار تصریح دوسری طرف احتمال و اہمال بہرحال جو کچھ ہو اس زلزلہ ''یا کوئی اور آفت شدیدہ'' کے جلد نازل و وارد ہونے پر مرزا صاحب کو یقین تھا۔ جو بہ تمام و کمال جھوٹا، خیالی اور وہمی ثابت ہوا۔ آخر انتظار بسیار کے بعد مرزا صاحب اپنا سا منہ لے کر چپکے سے قادیان میں آگئے اور غریب و محنتی مریدوں سے بطور چندہ اکٹھا کیا ہوا ہزار روپیہ کے قریب روپیہ مفت میں خیموں وغیرہ پر برباد ہوا۔ آگے ملاحظہ ہو ضمیمہ نصرۃ الحق ۹۷ اول کے حاشیہ پر لکھا ہے:
'' خدا تعالیٰ کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ موعودہ کے وقت بہار کے دن ہوں گے اور جیسا کہ بعض الہامات سے سمجھا جاتا غالباً صبح کا وقت ہوگا یا اس کے قریب اور غالباً وہ وقت نزدیک ہے جبکہ وہ پیشگوئی ظہور میں آجائے اور ممکن ہے کہ خدا اس میں کچھ تاخیر ڈال دے ۔ (اس تاخیر کی تعیین اسی صفحہ کے متن میں یہ کی گئی ہے)'' بار بار وحی الٰہی نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی ملک اور میرے ہی فائدے کے لیے ظہو رمیں آئے گی۔ اگر خدا تعالیٰ نے بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ سال میں۔ ضرور ہے کہ یہ میری زندگی میں ظہور میں آجائے۔'' (۲۰۲)
با انصاف و باخدا ناظرین! دیکھیے کہاں تو یہ ہما ہمی تھی کہ آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ زلزلہ آیا کہ آیا حتیٰ کہ مریدوں کے نام سر کلر جاری کردیا کہ مکانوں کو چھوڑ کر باہر ڈیرے لگاؤ اور خود بھی مہینہ بھر باغ میں رہے اور کہاں یہ بے بسی کہ زیادہ سے زیادہ سولہ سال کی تاخیر ہے۔
بھائیو! کیا آپ نے آج تک کوئی راول یا منجم بھی سنایا دیکھا ہے کہ وہ ہر بات میں مغالطہ اور دھوکہ کو ہی دین و ایمان سمجھے؟ یقینا نہیں دیکھا ہوگا مگر ہمارے ''حضرت مرزا صاحب'' ان سے بھی بڑھ چڑھ کر ہیں۔
بہرحال اس تحریر میں اتنا تو ہے کہ اس ملک کی تخصیص اور زندگی کی تعیین کی گئی ہے (شکریہ) اب سوال یہ ہوگا کہ ایسا زلزلہ ملک پنجاب میں مرزا صاحب کی زندگی میں کب آیا؟ اس کا جواب مرزائی یہ دیتے ہیں کہ ۲۸؍ فروری ۶ء کو آیا تھا (۲۰۳)۔ اس کے جواب میں ہم اپنے ناظرین کے انصاف پر فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ وہ خدا کو حاضر ناظر سمجھ کر گواہی دیں کہ کیا زلزلہ عظیم اپریل ۱۹۰۵ء کے بعد کا زلزلہ کسی وہم و خیال میں بھی ہے؟ کسی کو یاد ہے؟ ہرگز نہیں حالانکہ زلزلہ موعودہ ایسا زلزلہ تھا کہ:
'' جو پہلے زلزلہ سے بھی بڑھ چڑھ کر، قیامت خیز، ہوش ربا حادثہ محشر کو یاد دلانے والا جو نہ کسی آنکھ نے اس سے پہلے دیکھا نہ کسی نے سنا بلکہ کسی کے وہم میں بھی نہ گزرا ہو، کہاں وہ زلزلہ جو پرندوں کے ہوش و حواس کھو دے، جنوں کو بیخود کردے سمندروں، دریاؤں، شہروں، دیہاتوں کو چکرا ڈالے جس میں اتنے آدمی مریں کی ندیاں خون کی رواں ہوں۔''
پس ہمارے ناظرین خود اندازہ لگا لیں کہ مرزائی اس جواب میں کہاں تک راست گو اور ایماندار ہیں۔ اوہو میں دور چلا گیا۔ ساری دنیا بھی گواہی دیدے تب بھی مرزائی ایمان نہ لائیں گے۔ مجھے تو لازم ہے کہ خود مرزا صاحب کی تحریر سے دکھاؤں کہ ۲۸؍ فروری ۶ء والا زلزلہ بہت ہی معمولی تھا ، احمدی دوستو! سنو اور کان کے پردے کھول کر بے ایمانی، ضدوتعصب کو چھوڑ کر سنو! مرزا صاحب راقم ہیں:
'' وحی الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ زلزلے آئیں گے اور پہلے چار کسی قدر ہلکے اور خفیف ہوں گے اور دنیا ان کو معمولی سمجھے گی۔ پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا کہ لوگوں کو سو دائی اور دیوانہ کردے گا یہاں تک وہ تمنا کریں گے کہ اس دن سے پہلے مر جاتے اب یاد رہے کہ اس وقت تک جو ۲۲؍ جولائی ۱۹۰۶ء ہے اس ملک میں تین زلزلے آچکے ہیں یعنی ۲۸؍ فروری ۶ء اور ۲۰ مئی ۶ء اور ۲۱؍ جولائی ۶ء مگر غالباً خدا کے نزدیک یہ زلزلوں میں داخل نہیں کیونکہ بہت ہی خفیف ہیں۔'' الخ (۲۰۴)
ظاہر ہے کہ ۲۸؍ فروری ۶ء والا زلزلہ وہ زلزلہ نہیں جو قیامت کا نمونہ تھا۔ خلاصہ یہ کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئیاں بھی غلط ہوئیں۔
مرزائی عذر:
اس زلزلہ والی پیشگوئی پر مرزائی ایک عذر یہ کرتے ہیں کہ ۱۹۰۶ء میں مرزا صاحب کو یہ الہاماً بتایا گیا تھا کہ وہ زلزلہ تاخیر میں پڑ گیا۔ لہٰذا زندگی میں نہ آنا قابل اعتراض نہیں۔ (۲۰۵)
الجواب:
تاخیر والا الہام مجمل ہے اس میں کہیں مذکور نہیں کہ بعد زندگی کے آئے گا بخلاف اس کے ہم جو تحریرات مرزا نقل کر آئے ہیں ان میں بالفاظ اصرح ''وحی'' سے بتایا گیا ہے کہ '' وہ زندگی میں آئے گا بڑی سے بڑی تاخیر زندگی تک ہے۔'' اس سے زیادہ نہیں۔ پس یہ عذر سراسر غلط ہے۔
-----------------------------------------------------
(۱۹۱) اشتہار مرزا مورخہ ۸؍ اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۲۲،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۲ وتذکرہ ص۵۳۴ و تبلیغ رسالت ص۸۰،ج۱۹
(۱۹۲) بدر جلد اول نمبر ۳ مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۱ والحکم جلد۹ نمبر۱۳ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۲ وتذکرہ ص۵۳۸ ومکاشفات مرزا ص۳۹
(۱۹۳) براھین احمدیہ ص۱۲۰ حصہ پنجم وروحانی ص۱۵۰،ج۲۱ وتذکرہ ص۵۳۹
(۱۹۴) ایضاً
(۱۹۵) ضرورت الامام ص۱۳ و روحانی ص۴۸۳، ج۱۳
(۱۹۶) ملخصًا ، ازالہ اوہام ص۶۰۹طبع ثانیہ
(۱۹۷) اشتہارمرزا مورخہ ۲۱؍اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۲۶،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۵ و تذکرہ ص۵۳۵ وریویو ص۲۳۸،ج۴ نمبر۶
(۱۹۸) سیرت المھدی ص۲۶،ج۱ و تاریخ احمدیت ص۳۹۸، ج۳ وحیات طیبہ ص۳۶۸ و مجدد اعظم ص۱۰۱۰،ج۲ و سلسلہ احمدیہ ص۱۴۷
(۱۹۹) اشتہار مرزا ، مورخہ ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۳۵،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۵ مورخہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۹ وتذکرہ ص۵۴۴
(۲۰۰) یہ اشتہار مرزا نے ۱۱؍ مئی ۱۹۰۵ء کو لکھا اور ۲۲؍ مئی کو شائع ہوا، مجموعہ اشتہارات ص۵۴۳، ج۳
(۲۰۱) اشتہار مرزا مورخہ ۲۲؍ مئی ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۵۳۸،ج۳
(۲۰۲) ضمیمہ براھین احمدیہ ص۹۷،ج۵ و روحانی ص۲۵۸، ج۲۱
(۲۰۳) تفہیمات ربانیہ ص۱۱۷
(۲۰۴) حقیقت الوحی ص۹۳ و روحانی ص۹۶، ج۲۲ و حاشیہ تذکرہ ص۶۴۸
(۲۰۵) تاریخ احمدیت ص۴۰۳،ج۳ و تفہیمات ربانیہ ص۱۱۴