- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
دوسری تحریف:
مَاکَانَ اللّٰہ لیذر الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یمیز الخبیث مِنَ الطَّیِّبِ۔ (اٰل عمران: رکوع۱۷)
'' خدا تعالیٰ مومنوں کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا جس پر کہ اے مومنو! تم اس وقت ہو یہاں تک کہ پاک اور ناپاک میں تمیز کردے اور خدا تعالیٰ ہر ایک مومن کو غیب پر اطلاع نہیں دے گا کہ (فلاں پاک ہے اور فلاں ناپاک) بلکہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے گا بھیجے گا (اور ان کے ذریعہ سے پاک اور ناپاک کی تمیز ہوگی) پس اے مسلمانو! اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ سورہ آل عمران مدنی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے کم از کم تیرہ سال بعد نازل ہوئی جبکہ پاک اور ناپاک میں کافی تمیز ہوچکی تھی۔ مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں میں پھر ایک دفعہ تمیز کرے گا مگر اس طور سے نہیں کہ ہر مومن کو الہاماً بتا دے کہ فلاں مومن اور فلاں منافق ہے بلکہ فرمایا کہ رسول بھیج کر ہم پھر ایک دفعہ یہ تمیز کردیں گے پس سلسلہ نبوت ثابت ہے۔'' (۱۹۹)
الجواب :
اس آیت میں بھی وہی صیغہ مضارع کا ہے یَجْتَبِیْ مِنْ رُسُلِہٖ من یَّشَآئُ(۲۰۰) یعنی اللہ تعالیٰ پاک اور ناپاک میں تمیز کرنے کو رسول چنتا ہے۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود تھے۔ مگر مرزائی صاحب نے یَجْتَبِیْ کا ترجمہ کیا ہے کہ ''بھیجے گا'' اس پر دلیل یہ کہ پاک ناپاک میں اس وقت سے پہلے تمیز ہوچکی تھی۔
پاک ناپاک میں تمیز تو اسی دن سے شروع ہوگئی تھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا اور آخری دم تک ہوتی رہی۔ مگر جس خاص تمیز کا اس جگہ ذکر ہے وہ مومنوں اور منافقوں میں تمیز ہے کہ :
'' فلاں مومن اور فلاں منافق ہے۔'' (۲۰۱)
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس آیت کے نزول کے وقت مومن منافق میں امتیاز ہوچکا تھا۔ جو اب اسی آیت میں موجود ہے کہ کلی طور پر ابھی نہیں ہوا تھا بہت سے منافق مسلمانوں میں ملے جلے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
'' خدا تعالیٰ مومنوں کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا جس پر اے مومنو! تم اس وقت ہو۔''(۲۰۲)
اس کے علاوہ اسی صورت میں پہلی آیات میں صاف ملتا ہے واذا لقوکم قالوا اٰمنا واذا خَلَوْ عَضُّوْ علیکم الانامل من الغیظ۔(۲۰۳)جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے جب علیحدہ ہوتے ہیں تو مارے غیظ کے تم پر انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔
اور سنو! مرزائی محرف کو قرار ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور مدنی حالت کا نقشہ دوسری جگہ خدا نے یوں بیان فرمایا ہے کہ وَمِنْ اَھْلِ المدینۃ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تعلمُھُمْ نَحَنُ نَعْلَمُھُمْ۔ (۲۰۴)اور مدینہ میں کئی منافق تمہارے اردگرد موجود ہیں جنہیں تم نہیں جانتے ہو ہم جانتے ہیں۔ اسی طرح سورہ منافقون میں بھی جو مدنی ہے منافقوں میں کی موجودگی کا ذکر ہے پس مرزائی محرف کا یہ کہنا کہ اس وقت مومنوں اور منافقوں میں تمیز ہوچکی تھی۔ لہٰذا یہ آیت کسی آئندہ رسول کے متعلق ہے۔ سراسر جہالت بلکہ یہودیانہ تحریف ہے کہ ختم نبوت کی صریح اور واضح آیات کے ہوتے ہوئے اس طرح گمراہی کے سمندر میں مرزائیوں کو غوطے دے رہا ہے۔
اس آیت میں بھی یَجْتَبِیْ زمانہ مستقبل کے لیے نہیں ہے بلکہ اس میں بھی حکایت ہے حال ماضی کی۔ دلیل اس پر دوسری آیات ہیں جن میں ان مجتبی رسولوں کا نام لے لے کر بیان کردیا گیا ہے۔ فرداً فرداً بھی اور ایک جائی طور سے بھی۔ فرداً فرداً ملاحظہ ہو: حضرت آدم علیہ السلام کے لیے اجتباہ(۲۰۵)سورۃ طہ میں آیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اجتباہ (۲۰۶)سورہ نحل میں آیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کے لیے اجتباہ(۲۰۷) سورہ قلم میں آیا ہے یکجائی طور سے دیکھئے سورہ مریم میں دس پیغمبروں (زکریا علیہ السلام ، یحییٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام ، اسحق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام ، ہارون علیہ السلام ، اسمٰعیل علیہ السلام کے ذکر کے بعد آیا ہے مِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجتبینا(۲۰۸)۔ اور سورہ انعام میں اٹھارہ پیغمبروں کا تذکرہ کرکے فرمایا اجتبیناھم وھدینا ھم الی صراط المستقیم(۲۰۹)۔ انہی رسولوں کا تذکرہ اجمالاً لکن اللہ یجتبی من رسلہ میں آیا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا خالی کرگئے تلک امۃ قد خلت (۲۰۰) کوئی آسمان پر اٹھا لیا گیا اور کوئی زیر زمین دفن کردئیے گئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی جدید نبی نہیں آنے کا اور مرزا صاحب ہماری تصدیق کرتے ہیں:
'' کوئی شخص بہ حیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا۔'' (۲۱۱)
----------------------------------------------
(۱۹۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۰
(۲۰۰) پ۴ اٰل عمران:۱۷۹
(۲۰۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۱
(۲۰۲) ایضاً ص۴۵۰
(۲۰۳) پ۴ اٰل عمران:۱۱۹
(۲۰۴) پ۱۱ توبہ:۱۰۱
(۲۰۵) پ۱۶ طٰہٰ:۱۲۳
(۲۰۶) پ۱۴ النحل:۱۲۹
(۲۰۷) پ۲۹ القلم:۵۰
(۲۰۸) پ۱۶ مریم:۵۸
(۲۰۹) پ۷ الانعام:۸۷
(۲۱۰) پ۲۹ القلم:۵۰
(۲۱۱) ازالہ اوہام ص۵۷۷ و روحانی ص۴۱۲،ج۳
مَاکَانَ اللّٰہ لیذر الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یمیز الخبیث مِنَ الطَّیِّبِ۔ (اٰل عمران: رکوع۱۷)
'' خدا تعالیٰ مومنوں کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا جس پر کہ اے مومنو! تم اس وقت ہو یہاں تک کہ پاک اور ناپاک میں تمیز کردے اور خدا تعالیٰ ہر ایک مومن کو غیب پر اطلاع نہیں دے گا کہ (فلاں پاک ہے اور فلاں ناپاک) بلکہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے گا بھیجے گا (اور ان کے ذریعہ سے پاک اور ناپاک کی تمیز ہوگی) پس اے مسلمانو! اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ سورہ آل عمران مدنی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے کم از کم تیرہ سال بعد نازل ہوئی جبکہ پاک اور ناپاک میں کافی تمیز ہوچکی تھی۔ مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں میں پھر ایک دفعہ تمیز کرے گا مگر اس طور سے نہیں کہ ہر مومن کو الہاماً بتا دے کہ فلاں مومن اور فلاں منافق ہے بلکہ فرمایا کہ رسول بھیج کر ہم پھر ایک دفعہ یہ تمیز کردیں گے پس سلسلہ نبوت ثابت ہے۔'' (۱۹۹)
الجواب :
اس آیت میں بھی وہی صیغہ مضارع کا ہے یَجْتَبِیْ مِنْ رُسُلِہٖ من یَّشَآئُ(۲۰۰) یعنی اللہ تعالیٰ پاک اور ناپاک میں تمیز کرنے کو رسول چنتا ہے۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود تھے۔ مگر مرزائی صاحب نے یَجْتَبِیْ کا ترجمہ کیا ہے کہ ''بھیجے گا'' اس پر دلیل یہ کہ پاک ناپاک میں اس وقت سے پہلے تمیز ہوچکی تھی۔
پاک ناپاک میں تمیز تو اسی دن سے شروع ہوگئی تھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا اور آخری دم تک ہوتی رہی۔ مگر جس خاص تمیز کا اس جگہ ذکر ہے وہ مومنوں اور منافقوں میں تمیز ہے کہ :
'' فلاں مومن اور فلاں منافق ہے۔'' (۲۰۱)
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس آیت کے نزول کے وقت مومن منافق میں امتیاز ہوچکا تھا۔ جو اب اسی آیت میں موجود ہے کہ کلی طور پر ابھی نہیں ہوا تھا بہت سے منافق مسلمانوں میں ملے جلے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
'' خدا تعالیٰ مومنوں کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا جس پر اے مومنو! تم اس وقت ہو۔''(۲۰۲)
اس کے علاوہ اسی صورت میں پہلی آیات میں صاف ملتا ہے واذا لقوکم قالوا اٰمنا واذا خَلَوْ عَضُّوْ علیکم الانامل من الغیظ۔(۲۰۳)جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے جب علیحدہ ہوتے ہیں تو مارے غیظ کے تم پر انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔
اور سنو! مرزائی محرف کو قرار ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور مدنی حالت کا نقشہ دوسری جگہ خدا نے یوں بیان فرمایا ہے کہ وَمِنْ اَھْلِ المدینۃ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تعلمُھُمْ نَحَنُ نَعْلَمُھُمْ۔ (۲۰۴)اور مدینہ میں کئی منافق تمہارے اردگرد موجود ہیں جنہیں تم نہیں جانتے ہو ہم جانتے ہیں۔ اسی طرح سورہ منافقون میں بھی جو مدنی ہے منافقوں میں کی موجودگی کا ذکر ہے پس مرزائی محرف کا یہ کہنا کہ اس وقت مومنوں اور منافقوں میں تمیز ہوچکی تھی۔ لہٰذا یہ آیت کسی آئندہ رسول کے متعلق ہے۔ سراسر جہالت بلکہ یہودیانہ تحریف ہے کہ ختم نبوت کی صریح اور واضح آیات کے ہوتے ہوئے اس طرح گمراہی کے سمندر میں مرزائیوں کو غوطے دے رہا ہے۔
اس آیت میں بھی یَجْتَبِیْ زمانہ مستقبل کے لیے نہیں ہے بلکہ اس میں بھی حکایت ہے حال ماضی کی۔ دلیل اس پر دوسری آیات ہیں جن میں ان مجتبی رسولوں کا نام لے لے کر بیان کردیا گیا ہے۔ فرداً فرداً بھی اور ایک جائی طور سے بھی۔ فرداً فرداً ملاحظہ ہو: حضرت آدم علیہ السلام کے لیے اجتباہ(۲۰۵)سورۃ طہ میں آیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اجتباہ (۲۰۶)سورہ نحل میں آیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کے لیے اجتباہ(۲۰۷) سورہ قلم میں آیا ہے یکجائی طور سے دیکھئے سورہ مریم میں دس پیغمبروں (زکریا علیہ السلام ، یحییٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام ، اسحق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام ، ہارون علیہ السلام ، اسمٰعیل علیہ السلام کے ذکر کے بعد آیا ہے مِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجتبینا(۲۰۸)۔ اور سورہ انعام میں اٹھارہ پیغمبروں کا تذکرہ کرکے فرمایا اجتبیناھم وھدینا ھم الی صراط المستقیم(۲۰۹)۔ انہی رسولوں کا تذکرہ اجمالاً لکن اللہ یجتبی من رسلہ میں آیا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا خالی کرگئے تلک امۃ قد خلت (۲۰۰) کوئی آسمان پر اٹھا لیا گیا اور کوئی زیر زمین دفن کردئیے گئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی جدید نبی نہیں آنے کا اور مرزا صاحب ہماری تصدیق کرتے ہیں:
'' کوئی شخص بہ حیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا۔'' (۲۱۱)
----------------------------------------------
(۱۹۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۰
(۲۰۰) پ۴ اٰل عمران:۱۷۹
(۲۰۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۵۱
(۲۰۲) ایضاً ص۴۵۰
(۲۰۳) پ۴ اٰل عمران:۱۱۹
(۲۰۴) پ۱۱ توبہ:۱۰۱
(۲۰۵) پ۱۶ طٰہٰ:۱۲۳
(۲۰۶) پ۱۴ النحل:۱۲۹
(۲۰۷) پ۲۹ القلم:۵۰
(۲۰۸) پ۱۶ مریم:۵۸
(۲۰۹) پ۷ الانعام:۸۷
(۲۱۰) پ۲۹ القلم:۵۰
(۲۱۱) ازالہ اوہام ص۵۷۷ و روحانی ص۴۱۲،ج۳