• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
جھوٹ نمبر ۴:
ہم کذبات میں درج کر آئے ہیں کہ مرزا صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا سو سال تک تمام بنی آدم علیہ السلام پر قیامت آجائے گی۔ اس کے متعلق مصنف مرزائی پاکٹ بک لکھتا ہے:
'' یہ حدیث متعدد کتب میں ہے اور ابو سعید (خدری رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ جب ہم جنگ تبوک سے واپس آئے تو ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کب قیامت ہوگی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ تمام بنی آدم علیہ السلام پر سو سال نہ گزرے گا مگر آج زندوں میں سے ایک بھی روئے زمین پر نہ ہوگا۔'' (۵۲۱)
اس روایت کے ترجمہ میں مصنف پاکٹ بک نے عجب ہوشیاری سے کام لیا ہے الفاظ روایت لَا یَاتِیْ عَلَی النَّاسِ مِائَۃُ سَنَۃٍ وَعَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوْسَۃٌ الْیَوْمَ کا ترجمہ یہ کیا ہے تمام بنی آدم علیہ السلام پر سو سال نہ گزرے گا۔ مگر آج زندوں میں سے ایک بھی روئے زمین پر نہ ہوگا '' کیسا دجل آمیز ترجمہ ہے، آج'' اور '' زندہ نہ ہوگا'' یہ ترجمہ کیا ہے۔ صحیح ترجمہ یہ ہے '' سو سال نہ گزرے گا مگر آج کے زندوں میں سے کوئی روئے زمین پر نہ ہوگا۔''(۵۲۲)
الجواب:
اب سنیے بفرضِ محال ہم مان لیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور بلا کمی بیشی الفاظ کے ایسی ہی تو بھی اس سے مرزائی کذب دھویا نہیں جاتا ہے وہ الفاظ جو مرزائی نے نقل کیے ہیں لَا یَاْتِیْ عَلی النَّاسِ مِائۃ سَنَۃِ وَعَلٰی ظَھْرِ الْاَرضِ نَفْسٌ مَنْفُوْسَۃُ الْیَوْمِ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ آج کے دن جتنے لوگ زمین پر ہیں سو سال نہ گزرے گا کہ ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہے گا۔ معاملہ صاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجودہ لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ سو سال تک ان میں سے کوئی زمین پر نہ رہے گا۔ بتلائیے اس میں تمام بنی آدم پر قیامت کا ذکر کہاں ہے اس کی مزید وضاحت مسلم کی وہ حدیث کر رہی ہے جو مصنف نے مرزائی پاکٹ بک نے نقل کی ہے اور اس کا ترجمہ بھی خود کیا ہے کہ:
'' سو سال نہیں گزرے گا کہ آج کے زندوں میں سے کوئی بھی زندہ جان باقی ہو۔'' (ص۱۲۰ جلد ۶ کنز العمال و مسلم کتاب الفتن ) (۵۲۳)
یہ حدیث تو پہلی سے بھی صاف ہے کہ قیامت ذکر نہیں صرف موجودہ لوگوں کے سو سال تک زندہ نہ رہنے کا تذکرہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ وضاحت وہ حدیث کر رہی ہے جسے مصنف نے دوسرے نمبر پر ترمذی کتاب الفتن سے نقل کیا ہے۔ مگر ایک تو اس کا ترجمہ غلط کیا ہے۔ دوم خیانت کی ہے۔ یعنی حدیث کا آدھا ٹکڑا نقل کیا ہے اور آدھا جو مرزائی استدلال کی جڑ کاٹ رہا تھا چھوڑ دیا ہے۔ بہرحال ہم پہلے اسی ٹکڑے کو زیر بحث لاتے ہیں جسے مرزائی نے نقل کیا ہے۔
فَقَالَ اَرَائتْکُمْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَأسِ مِائۃٍ سَنَۃٍ مِنْھَا لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھُوَ عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ اَحَدٌ ۔
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کی رات سے سو سال نہ گزرے گا کہ روئے زمین پر کوئی باقی نہ رہے گا۔''
جن لوگوں کو زبان عربی سے ذرہ بھر بھی مس ہے وہ مرزائی دجالیت پر مطلع ہوگئے ہونگے دیکھئے کیسے واضح الفاظ ہیں کہ لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھو علی ظھر الارض۔نہیں باقی رہے گا جو اس وقت زمین پر موجود سے مگر مرزائی خائن نے صحیح ترجمہ ہی نہ کیا اور لکھ دیا کہ '' سو سال نہ گزرے گا کہ زمین پر کوئی باقی نہ رہے گا'' اللہ اکبر چوری اور سینہ زوری کی اس سے بڑھ کر مثال نہ ہوگی ظالم کو خدا سے شرم نہ آئی کہ مرزا کے منہ سے سیاہی دھونے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر حملہ کردیا بھلا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہوتا کہ سو سال تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی اور نہ آتی جیسا کہ نہیں آئی تو معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر صادق ہونے میں کیا شک رہ سکتا ہے۔ افسوس لَعَنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ الْمُفْتَرِیْنَ
اب سنیے دوسرا حصہ اس حدیث کا جو آئینہ کی طرح صاف ہے۔
قَالَ ابِنُ عُمَرَ ؓ فوھل الناس فی مقالۃ رسول اللّٰہ ﷺ تِلْکَ فِیْمَا یَتَحَدَّ ثُوْنَہٗ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ۔
لوگوں کو اس حدیث سے حیرانی ہوئی (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حیرانی کی کیا وجہ) انَّمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ بے شک و شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ لا تبقی ممن ھو الیوم علی ظھر الارض اَحَد آج جو لوگ زمین پر ہیں ان میں سے سو سال تک کوئی باقی نہیں رہے گا یُرِیْدُ بِذٰلِکَ اَنْ ینحزم ذٰلِکَ الْقَرْنُ یَقِیْنًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ اس حدیث میں یہی ہے کہ موجودہ قرن کے لوگ سو سال تک نہ بچیں گے۔ ھذا حدیث صحیح۔(۵۲۴)
اسی ترمذی شریف کے اسی باب میں ایک اور حدیث میں اس سے بھی زیادہ وضاحت ہے: عَنْ جابر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ مَا علی الارض نفس منفوسہ یعنِی الیوم یاتی علیہا مائۃ سنۃً۔(۵۲۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے دن جو بھی جاندار زمین پر ہے سو سال تک نہ رہے گا۔ دیکھئے اس جگہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یعنی کا لفظ کہہ کر الیوم کی قید لگا دی۔ پس مرزائی فریب ھَبَائً منثوراً ہوگیا مختصر یہ کہ مرزا نے ازالہ اوہام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھا ہے کہ ''سو سال تک قیامت، آجائے گی۔''
مرزائیو! اپنے تمام علماء کو اکٹھے کرو اور یہ حدیث دکھاؤ اگر نہ دکھا سکو اور ہرگز نہ دکھا سکو گے تو پھر اللہ سے ڈر کر ، مفتری کذاب کو چھوڑ دو ورنہ یاد رکھو ہم قیامت کے دن بھی تمہارے گلوں میں رستہ ڈال لیں گے اور حضور باری اس کا جواب مانگیں گے۔ فاتقو اللہ
-----------------------------------------------
(۵۲۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۲۶۸ طبعہ ۱۹۳۲ و ص۸۹۷ طبعہ ۱۹۴۵ء بحوالہ طبرانی صفیر ص۱۵
(۵۲۲) تجلیات رحمانیہ ص۸۶ مولفہ مرزائی اللّٰہ دتا جالندھری
(۵۲۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۹ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۸۹۸ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۲۴) صحیح مسلم ص۳۱۰، ج۲ فی الفضائل باب قولہ لاثانی مائۃ سنۃ علی الارض الخ و ابوداؤد ص۲۴۲، ج۲ فی الفتن باب قرب الساعۃ والترمذی ص۲۴۲، ج۳ مع تحفۃ فی الفتن وقال ھذا حدیث صحیح۔
(۵۲۵) ترمذی مع تحفہ ص۲۴۲، ج۳ مصدر السابق
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر چھٹی دلیل مراقِ مرزا

تعریف مراق:
(۱) نَوْعٌ من المالیخولیا یسمی المراق۔ (۵۲۶)
'' مراق مالیخولیا کی ایک نوع ہے۔''
(۲) '' مراق مالیخولیا کی ایک شاخ ہے۔'' (۵۲۷)
(۳) قَالَ الشیخُ اِنَّمَا یقالُ مَا لیخولَیَا لِمَا کَانَ حَدُوْثُہٗ عَنْ سَوْدائٍ غَیْرَ مُحَتَرِقَۃٍ تَسْمِیَۃً لَہٗ بِاِسم السَّبَبِ لِاَنَّ معناہ بالیونانیۃ الخلط الاسود وقال یُوْحَنَا بِنْ سَرَا فیون معناہ الفرعُ فَیَکُوْنَ تَسْمِیَۃً بِاسْمِ عَرَضِہٖ۔(۵۲۸)
'' شیخ الرئیس فرماتے ہیں اس کو مالیخولیا اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا حدوث غیر محترقہ سودا سے ہوتا ہے اور یوحنا ابن سرافیون نے کہا ہے کہ اس کے معنی ڈر، خوف کے ہیں (یہ اس کے عوارض ہیں) اس لیے بسبب ان عوارض کے اس کا نام مراق رکھا گیا ہے۔ ''
حقیقت و اسباب و اقسام مرض:
(۱) تَغَیُّرُ الظُنُوْنِ وَالْفِکِرْ عَنِ الْمُجْرِیْ الطَّیْعْی اِلَی الْفَسَادِ وَالخَوْفِ لِمَزاجٍ سَوْدَاوِیٍّ وَتَوَحُّشُ الرُّوْحِ وَیَفْزَعُ وَلَا یُؤْذِیْ اَحَدًا بِخَلَافِ جَنُوْنِ السَّبْعِیّ وَنَوْعٌ مِّنْہُ یُقَالُ لَہُ الْمَرَاق وَھُوَ اَنْ یَکُوْنَ بِشِرْکَۃِ الْمَراقِ۔(۵۲۹)
سو داوی مزاج انسان کے ظنون و افکار طبعی، خوف و فساد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کا روح وحشت و خوف محسوس کرتا ہے یہ مرض کسی کو کوئی ایذا نہیں دیتی بخلاف جنون سبعی کے (کہ وہ مریض کو سخت تکلیف دیتا ہے) مالیخولیا کی ایک قسم وہ ہے جسے مالیخولیا مراقی کہتے ہیں۔ یہ مرض مراق کی شرکت سے ہوتا ہے۔
(۲) مالیخولیا بحسب محل سبب تین قسم پر ہے اول دماغی جس کا محل وقوع دماغ ہے۔ اطبا اس کو شر الاصناف کہتے ہیں۔ دوم قلب اور دماغ کے سوا جس کا محل تمام بدن ہو۔ بخارات دماغ کی طرف چڑھیں۔ سوم امعاء میں ردیہ فضلات سے یا معدہ کے سوداوی ورم سے یا باب الکبد کے ورم سے یا جگر اور امعاء دونوں سے یا عروق د قاق سے یا ماساریقا کے سوداوی بلا ورم سدہ سے یا ما ساریقا کے ورم سے بخارات نکل کر غشا مراق تک پہنچیں اور مراق سے اٹھ کر دماغ کی طرف جائیں اور مالیخولیا پیدا کریں اس کو مالیخولیا مراقی کہتے ہیں چونکہ مالیخولیا جنون کا ایک شعبہ ہے اور مراق مالیخولیا کی ایک شاخ اور مالیخولیا مراقی میں دماغ کو ایذا پہنچتی ہے اس لیے مراق کو سر کے امراض میں لکھا ہے۔(۵۳۰)
مرزا صاحب کو مراق تھا:
(۱) '' دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح جب آسمان سے اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی سو اس طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی یعنی مراق اور (ایک نیچے کے دھڑ کی) کثرت بول۔ (۵۳۱)
(۲) میرا تو یہ حال ہے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ مبتلا رہتا ہوں تا ہم مصروفیت کا یہ حال ہے کہ بڑی بڑی رات تک بیٹھا کام کرتا رہتا ہوں۔ حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے اور دورانِ سر کا دورہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ تاہم میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کام کو کئے جاتا ہوں۔ (۵۳۲)
(۳) حضرت مسیح موعود نے بیشک مراق کا لفظ اپنی نسبت بولا ہے۔(۵۳۳)
مراقی نبی ہوسکتا اور نہ اس کی کوئی بات قابلِ اعتبار ہے
مرزا صاحب حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے عقیدہ پر لکھتے ہیں:
(۱) '' یہ بات تو بالکل جھوٹا منصوبہ ہے اور یا کسی مراقی عورت کا وہم۔'' (۵۳۴)
صاف عیاں ہے کہ مراقی شخص کی کسی بات کا اعتبار نہیں اس کی باتیں وہم ہی وہم ہوتی ہیں نہ حقیقت۔
(۲) ڈاکٹر شاہ نواز مرزائی رسالہ ریویو اگست پر راقم ہیں:
'' ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا مالیخولیا یا مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لیے کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیتی ہے۔''
(۳) '' اس مرض میں تخیل بڑھ جاتا ہے اور مرگی اور ہسٹریا والوں کی طرح مریض کو اپنے جذبات اور خیالات پر قابو نہیں رہتا۔'' (۵۳۵)
(۴) '' نبی میں اجتماع توجہ بالا رادہ ہوتا ہے جذبات پر قابو رہتا ہے۔'' (۵۳۶)
مرزا صاحب کو مراق کے علاوہ ہسٹریا کے دورے بھی پڑا کرتے تھے
مرزا صاحب کا بیٹا مرزا بشیر ایم۔ اے کتاب '' سیرۃ المہدی'' حصہ اول ص۱۳ پر لکھتا ہے:
'' بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودہ علیہ السلام کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اُتھو آیا پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی مگر یہ دورہ خفیف تھا، پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی (فرمایا) میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا۔ اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔'' (۵۳۷)
مرزائی عذر:
مراق والا حوالہ ڈائری کا ہے۔ اس لیے قابل اعتبار نہیں۔(۵۳۸)
الجواب:
یہ عبارت مرزا صاحب کی زندگی میں ان کے سامنے ان کے اپنے اخباروں میں شائع ہوئی اور مرزا صاحب کے قلم سے، جیسا کہ صیغۂ متکلم سے ظاہر ہے۔ اگر یہ افترا ہوتا تو یقینا مرزا صاحب اس کی تردید کردیتے، چونکہ مرزا صاحب نے اس کی تردید نہیں کی لہٰذا یہ انہی کے الفاظ میں اس کے علاوہ اس تحریر کی تردید ان کی جماعت میں سے بھی کسی نے نہ کی حتیٰ کہ خلیفہ نور دین کا زمانہ بھی گزر گیا۔
(۲) ڈائری کی عبارت قابل اعتبار اس لیے ہے کہ مرزا محمود خلیفہ قادیانی نے بھی اپنی کتاب ''حقیقت النبوۃ'' میں جا بجا ڈائری کے حوالے بطور شہادت نقل کیے ہیں، اگر ڈائری ناقابل اعتبار تھی تو پھر خلیفہ ثانی جیسا ذمہ دار آدمی کیوں اس جرم کا مرتکب ہوا۔(۵۳۹)
مرزائی عذر:
حضرت نے بیشک مراق کا لفظ اپنی نسبت بولا ہے مگر اس سے مراد سوائے دوران سر کے اور کچھ نہیں۔ حضرت نے کب کہا ہے کہ مجھے ہسٹریا ہے۔ میاں بشیر احمد نے حضرت ام المومنین کی زبانی ہسٹریا لکھا ہے۔ مگر آپ کوئی ڈاکٹر نہیں ہیں کہ جو ترجمہ مراق کا کیا ہے وہ درست ہو۔ ڈاکٹر شاہ نواز ایم۔ بی ۔ بی۔ ایس نے ریویو اگست ۱۹۲۶ء میں لکھا ہے بلکہ ثابت کیا ہے کہ مراق کا ترجمہ قطعاً ہسٹریا نہیں۔ ڈاکٹر شاہ نواز نے طبئی نقطہ نگاہ سے ثابت کردیا ہے کہ حضرت کو قطعاً ہسٹریا نہ تھا۔(۵۴۰)
الجواب:
مرزا صاحب کو دوران سر بھی تھا اور مراق بھی۔ دونوں کو ایک بنانا نہ صرف علم طب سے کورا پن ہے بلکہ خود تحریرات مرزا کے بھی خلاف ہے۔ کتاب منظور الٰہی کی تحریر جو ہم پہلے نقل کر آئے ہیں، اس کو بغور پڑھو۔ مرزا صاحب اپنے حق میں مراق اور دوران سر دونوں بیماریاں مانتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ نواز بھی یہی لکھتے ہیں کہ:
'' واضح رہے کہ حضرت صاحب کی تمام تکلیف مثلاً دورانِ سر درد، کمی خواب، تشنج دل اور بد ہضمی، اسہال، کثرت پیشاب اور مراق وغیرہ کا صرف ایک ہی باعث کمزوری تھا۔''(۵۴۱)
دیکھئے ڈاکٹر صاحب دورانِ سر اور مراق کو علیحدہ علیحدہ مرض شمار کرتے ہیں:
(۲) آپ کی ام المؤمنین بیشک ڈاکٹر نہیں ہوں گی۔ مگر مرزا صاحب تو حکیم تھے اور حکیم بھی بقول خود ایسے کہ ہزار سے زیادہ کتب طب پڑھے ہوئے تھے۔ جیسا کہ لکھتے ہیں:
'' میں نے خود طب کی کتابیں پڑھی ہیں اور ان کتابوں کو ہمیشہ دیکھتا رہا اس لیے میں اپنی ذاتی واقفیت سے بیان کرتا ہوں کہ ہزار کتاب سے زیادہ ایسی کتاب ہوگی جن میں مرہم عیسیٰ کا ذکر ہے (یہ قطعاً جھوٹ دروغ بے فروغ ہے۔ مرزائی اگر سچے ہیں تو ہزار کتب طب کا نام بتا دیں جن میں ایسا لکھا ہے ناقل) اور ان میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بنائی تھی ۔'' (۵۴۲)
اس کے علاوہ مرزا صاحب کی اپنی اہلیہ محترمہ بھی اسی مراق کی مرض میں مبتلا تھیں ۔(۵۴۳) اس سے ثابت ہوا کہ مرزا صاحب مراق کی حقیقت اور اصلیت سے بخوبی واقف تھے اور اس مرض کے متعلق ان کا علم تجربے پر مبنی تھا۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام المومنین نے جو ''ڈاکٹر نہیں'' ضرور مرزا صاحب سے ہسٹریا کا نام سنا ہے ماسوا اس کے جب خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ مجھے مراق کی بیماری ہے تو معاملہ بالکل صاف ہو جاتا ہے۔
(۳) مراق کا ترجمہ ہسٹریا ہو یا نہ ہو۔ یہ سوال تو یہاں پیدا ہی نہیں ہوتا جبکہ مرزا صاحب خود مانتے ہیں کہ مجھے مراق ہے اور ان کی بیوی راوی ہے کہ ہسٹریا کے دورے بکثرت پڑا کرتے تھے، نتیجہ ظاہر ہے۔
(۴) اگر ڈاکٹر شاہ نواز نے طبی نقطہ نگاہ سے ثابت کردیا تھا کہ مرزا صاحب کو ہسٹریا نہ تھا تو آپ نے اس قیمتی نقطہ نگاہ کو پاکٹ بک میں درج کیوں نہ کردیا کہ لوگ اس کی حقیقت پر مطلع ہو جاتے۔ اے جناب! دنیا کو دھوکا مت دو، وہ بیچارے باوجود ہاتھ پیر مارنے کے رتی بھر اپنے دعویٰ کو مدلل نہیں کرسکے۔ علاوہ جب خود مرزا صاحب کی بیوی راوی ہے کہ ہسٹریا تھا تو اب کسی اور غیر واقف حال کا خواہ مخواہ ہسٹریا سے بچانے کی ناکام سعی کرنا وہی بات ہے کہ
پدرنتواند پسر تمام کند
عذر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کفار نے ایسے ایسے طومار باندھے تھے۔(۵۴۴)
الجواب:
کجا کسی کا بہتان باندھنا اور کجا خود مرزا صاحب کا اپنی نسبت مراق کا لکھنا اور اعلیٰ وجہ البصیرت اقرار کرنا۔
عذر:
ہسٹریا مردوں کو نہیں ہوا کرتا صرف عورتوں کو ہوا کرتا ہے۔
جواب:
مرزا صاحب مرد تھے اور ان کو ہسٹریا تھا۔
کتاب مخزن حکمت طبع چہارم ص۹۶۹ جلد دوم لکھا ہے:
'' یہ مرض عموماً عورتوں کو ہوا کرتا ہے اگرچہ شاذ و نادر مرد بھی اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔''(۵۴۵)
'' جن مردوں کو یہ مرض ہسٹریا ہو ان کو مراقی کہتے ہیں۔'' (۵۴۶)
ایک اور طرز سے
چونکہ مراق ایک ایسا مرض ہے جو بعض دفعہ کئی پشتوں تک اپنا اثر پہنچاتا ہے اس لیے اس جگہ بھی خدا تعالیٰ نے مرزا صاحب کامراتی ہونا ہر طور سے ثابت کرنے کے لیے ان کی ہم جلیس بیوی صاحبہ اور اولاد کو بھی اس میں مبتلا کردیا تاکہ اور نہیں تو اسی دلیل سے مرزا صاحب کامراقی ہونا پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے۔
'' ایں خانہ ہمہ آفتاب است''
مرزا صاحب تو مراقی تھے ہی، مگر آپ کی بیوی بچہ مراقی سے اس لیے اگر ہم مرزا صاحب کے خاندان کو ''مراقی کنبہ'' کے نام سے یاد کریں تو غلط نہیں۔
مرزا صاحب کی بیوی کو بھی مراق تھا
مرزا صاحب کا اپنے جدی بھائیوں کے ساتھ مقدمہ تھا انہوں نے بطور گواہ مرز صاحب کا بیان عدالت میں دلوایا۔ آپ نے اس میں یہ بھی فرمایا:
'' میری بیوی کو مراق کی بیماری ہے کبھی کبھی وہ میرے ساتھ ہوتی ہے کیونکہ طبی اصول کے مطابق اس کے لیے چہل قدمی مفید ہے۔'' (۵۴۷)
مرزا صاحب کے فرزند خلیفہ قادیان بھی مراقی ہیں
ڈاکٹر شاہ نواز مرزائی لکھتے ہیں:
جب خاندان سے اس کی ابتدا ہوچکی تو پھر اگلی نسل میں بیشک یہ مرض منتقل ہوا۔ چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے فرمایا کہ مجھ کو بھی کبھی کبھی مراق کا دورہ ہوتا ہے۔'' (۵۴۸)
---------------------------------------------------------------------------------------------
(۵۲۶) شرح اسباب ص۷۴، ج۱
(۵۲۷) بیاض حکیم نور الدین ص۲۱۱، ج۱ طبعہ وزیر ہند پریس ۱۹۲۸ء
(۵۲۸) حدود الامراض ص۵۱ طبعہ مجتبائی دہلی
(۵۲۹) ایضاً
(۵۳۰) بیاض نور الدین ص۲۱۱
(۵۳۱) بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ جون ۱۹۰۶ء ص۵ وتشحیذ الاذہان جلد ۱ نمبر۲ مورخہ جون ۱۹۰۶ء وملفوظات مرزا ص۳۳، ج۵
(۵۳۲) الحکم جلد ۵ نمبر ۴۰ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۱ء و ملفوظات مرزا ص۵۶۵، ج۱
(۵۳۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۰ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۵۳۴) حاشیہ کتاب البریہ ص۲۵۶ و روحانی ص۲۷۴ ، ج۱۳
(۵۳۵) ریویو آف ریلجنز جلد ۲۵ نمبر ۸ مورخہ اگست ۱۹۲۶ء ص۶
(۵۳۶) ایضاً جلد ۲۶؍ مورخہ مئی ۱۹۲۷ء ص۳۰
(۵۳۷) سیرت المھدی ص۱۳، ج۱ طبعہ اول ص۱۶ تا ۱۷ طبعہ دوم ۱۹۳۵ء قادیان ملخصًا
(۵۳۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۶۴ طبعہ ۱۹۴۵
(۵۳۹) حقیقت النبوۃ ۲۵، ۲۶، ۶۱، ۷۳
(۵۴۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۰ طبعہ ۱۹۳۲ء وایضاً ص۱۰۶۶ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۴۱) ریویو آف ریلجنز جلد ۲۶ نمبر ۵ مورخہ ؍ مئی ۱۹۲۷ ص۲۶
(۵۴۲) راز حقیقت ص۶ و روحانی ص۱۵۸، ج۱۴
(۵۴۳) الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۱ء ومنظور الٰہی ص۲۴۴
(۵۴۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۶۷ طبعہ ۱۹۴۵
(۵۴۵) مخزن حکمت ص۹۶۹، ج۲ طبعہ چہارم
(۵۴۶) مرزے محمود کا خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ اپریل ۱۹۲۳ء مندرجہ الفضل ۳۰؍ اپریل ۱۹۲۳ء و خطبات محمود ص۷۵، ج۸
(۵۴۷) الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۱ء ومنظور الٰہی ص۲۴۴
(۵۴۸) ریویو آف ریلجنز جلد ۲۵ نمبر ۸ مورخہ اگست ۱۹۲۶ء ص۱۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر ساتویں دلیل

تہذیب مرز ا
یوں تو مرزا صاحب نے اپنے ارادت مندوں کو پھنسائے رکھنے اور عوام کو مغالطہ دینے کو بکرات و مرات اپنا صاحب اخلاق ہونا جتلایا ہے۔ '' خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول یعنی اس عاجز کو تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا '' (۵۴۹) اور یہ بھی لکھا کہ '' گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں'' (۵۵۰) نیز اپنے مریدوں کو نصیحت کی '' اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔'' (۵۵۱) اور خود اپنے متعلق لکھا '' میں نے جوابی طور پر بھی کسی کو گالی نہیں دی'' (۵۵۲) مگر بقول شخصے ہر ایک برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہے۔ (۵۵۳)
۱۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ مرزا صاحب نے جواباً گالیاں نہ دیں وہ خود لکھتے ہیں کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں۔ (۵۵۴)
لہٰذا ہم مرزا صاحب کے برتن قلب کا ڈھکنا اٹھا کر ناظرین کے رو برو پیش کردیتے ہیں وہ خود ملاحظہ فرمالیں کہ اس میں کیا کچھ بھرا ہے۔
کسی شخص کا حرامی یا حلال زادہ ہونا اس کے والدین کے ملاپ غیر صحیحہ یا صحیحہ پر مبنی ہے ۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب لکھتے ہیں:
کُلُّ مُسْلِم یَقْبَلُنِیْ وَیُصَدِّقُ دَعْوَتِیْ الاذریۃ البغایا۔ (۵۵۵)
'' کل مسلمانوں نے مجھے مان لیا ہے اور تصدیق کی ہے مگر کنجریوں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔''
اٰذَیتنِیْ خُبْثًا فَلَسْتَ بِصَادِقٍ اِنْ لَمْ تَمُتْ بِالْخِزْیِ یَابْنَ بَغَائٖ۔
''مرا بخباثت خود ایذا دادی پس من صادق نیستم، اگر تواے نسلِ بدکاراں بذلت نمیری۔''(۵۵۶)
(سعد اللہ!)تو نے مجھے اپنی خباثت سے دکھ دیا ہے پس میں صادق نہ ہوں گا اگر تو ذلت کی موت نہ مرے اے کنجری کے بیٹے ۔ (اردو ترجمہ از مؤلف)
--------------------------------------------------------------
(۵۴۹) اربعین ص۳۶ نمبر ۳ و روحانی ص۴۲۶، ج۱۷ وتذکرہ ص۳۹۴
(۵۵۰) ضمیمہ اربعین نمبر ۳،۴ ص ۵ و روحانی ص۴۷۱، ج۱۷
(۵۵۱) کشتی نوح ص۱۱ و روحانی ص۱۱، ج۱۹
(۵۵۲) مواھب الرحمن ص۱۸ و روحانی ص۲۳۶، ج۱۹
(۵۵۳) چشمہ معرفت ص۱ و روحانی ص۹ ، ج۱۳
(۵۵۴) اشتہار مرزا مورخہ ۲۰ ؍ ستمبر ۱۸۹۷ء مندرجہ اشتھارات مرزا ص۴۶۶،ج۲ وتبلیغ رسالت ص۱۶۵، ج۶ ودبا بچہ کتاب البریہ ص۱۱
(۵۵۵) آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۸ و روحانی ص۵۴۸، ج۵
(۵۵۶) انجام آتھم ص۲۸۲ و روحانی ص۲۸۲، ج۱۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
لفظ بغاء۔ بغیا کے معنی :
'' سعد اللہ احرام زادہ ہے۔'' (۵۵۷)
وَمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا(سورہ مریم)اے مریم علیہ السلام تو زنا کی مرتکب کیوں ہوئی جبکہ تیری ماں پاک دامن تھی زانی نہیں تھی(۵۵۸) ۔(ص۳۰ ، احمدیہ پاکٹ بک)
کُلُّ مَنْ ھُوَ ولْدُ الَحلَالِ وَلَیْسَ مِنْ ذریۃ الْبَغایا۔''ہر ایک شخص جو ولد الحلال ہے اور خراب عورتوں کی نسل سے نہیں ہے۔'' (۵۵۹)
وَقَدْ ثَبَتَ مِنَ الانجیل اِنَّہٗ اَویٰ عِنْدَہٗ بَغِیَّۃٌ وکانت زانیۃ۔ (وازانجیل ثابت است کہ اوزنے بدکار رانزد خود جاداد وزں) زنا کارد سخت فاحشہ بود وَکَذٰلِکَ اَقْبَلَ عَلٰی بَغِیۃٍ اُخْریٰ و ہمچنیں یسوع دریک مرتبہ بازن بدکار دیگر گفتگو کردو۔ (۵۶۰)
وَالضِّحْکُ وَالْقَھْقَھۃُ بَابدَائِ النواجِذِوَ وَالثنایا والتشوق اِلٰی رَقْصِ الْبَغَایَا وبوسھن وعناقھن۔
فارسی ترجمہ از مرزا صاحب:
وخندہ و قہقہہ بظاہر کردن و ندان پسین و دو دندان پیشین و شوق کردن سوئے رقص زنانِ بازاری او بوسہ گرفتن ایشاں و بغل گیری ۔ (اردو ترجمہ از مرزا صاحب)
اور ہنسی اور قہقہہ مار کر ہنسنا پچھلے دانتوں کے نکالنے سے اور اگلے دو دانتوں کے نکالنے سے اور شوق کرنا بازاری عورتوں کے رقص کی طرف اور ان کا بوسہ اور گلے لپٹانا۔ (۵۶۱)
تنبیہ ناظرین آگاہ رہیں کہ یہ تمام ترجمے بھی مرزا صاحب کے اپنے قلم سے ہیں۔ مرزائی کہیں گے کہ یہ ترجمے مرزا صاحب نے خود نہیں کئے بلکہ دوسرے لوگوں نے کئے ہیں۔ سو مرزائی دکھائیں کہ مرزا صاحب نے کہاں لکھا ہے کہ کتاب تو میری ہے اور ترجمہ کسی دوسرے کا۔
(۳) '' اگر عبداللہ آتھم قسم نہ کھائے یا قسم کی سزا میعاد کے اندر نہ دیکھ لے تو ہم سچے اور ہمارے الہام سچے۔ پھر بھی اگر کوئی تحکم سے ہماری تکذیب کرے اور اس معیار کی طرف متوجہ نہ ہو تو بیشک وہ ولد الحلال اور نیک ذات نہیں ہوگا۔'' (۵۶۲)
'' اب جو شخص زبان درازی سے باز نہیں آئے گا اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے۔ حرام زادہ کی یہی نشانی ہے کہ سیدھی راہ اختیار نہ کرے۔'' (۵۶۳)
عیسائیوں نے یقینا سچ کہا تھا کہ:
ڈھیٹ اور بے شرم بھی عالم میں ہوتے ہیں مگر
سب پہ سبقت لے گئی ہے بے حیائی آپ کی
(الہامات مرزا ص۳۰ چہارم) (۵۶۴)
(۴) آریوں کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں:
'' ایسے ایسے حرام زادے جو سفلہ طبع دشمن ہیں۔'' (۵۶۵)
(۵) اِنَّ الْعَدَا صَارُوْا خَنَازِیْرَ الْفَلَا وَنِسَائُ ھُمْ مِنْ دُوْنِھَّن الْاَکْلَب۔ (۵۶۶)
''میرے دشمن جنگلوں کے سؤر اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں۔''
----------------------------------------
(۵۵۷) الفضل مورخہ ۲۲؍ جون ۱۹۳۳ء از ملک عبدالرحمن خادم گجراتی مرزائی
(۵۵۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۰ زیر عنوان مسیح کے دو حلیے طبعہ ۱۹۳۲ء نوٹ: یہاں قرآنی آیت کو پیش کرکے مولانا معمار مرحوم نے لفظ '' بغاء'' کے لغوی معنیٰ ثابت کیے ہیں جو کہ بجا طور پر درست ہیں چنانچہ مذکورہ آیت کا مرزے محمود نے معنیٰ کیا ہے کہ'' اور تیری ماں بھی بدکار نہ تھی'' تفسیر صغیر ص۳۸۶، خلیفہ قادیان کے ماموں میر محمد اسحاق مرزائی اس کا معنیٰ کرتے ہیں، اور نہ تھی ماں تیری برکار، ترجمہ قرآن ص۴۴۴، مرزا محمد علی لاہوری اس کا معنیٰ کرتے ہیں، اور نہ تیری ماں بدکار تھی، بیان القرآن ص۱۲۱۲، ج۲، یہی معنیٰ مرزائی غلام حسن خاں قادیانی پشاوری اپنی تفسیر، حسن بیان ص۳۱۳ میں کیا ہے اور دور حاضر کے نامور قادیانی مفسر قرآن مرزائی صلاح الدین نے بھی اپنے ترجمہ قرآن ص۱۴۵۱، ج۳ میں وہی معنیٰ اختیار کیے ہیں جو مرزا محمود نے کیے ہیں۔
(۵۵۹) نور الحق ص۱۲۳، ج۱ و روحانی ص۱۶۳، ج۸
(۵۶۰) البلاغ فریاد درد ص۷۹ و روحانی ص۴۵۱، ج۳
(۵۶۱) خطبہ الھامیۃ ص۱۷ و روحانی ص۴۹، ج۱۶
(۵۶۲) انوار الاسلام ص۲۹ و روحانی ص۳۱، ج۹
(۵۶۳) ایضاً ص۳۰ و روحانی صفحہ ایضاً
(۵۶۴) الھامات مرزا ص۳۰ مؤلفہ مولانا ثناء اللہ ابو الوقاء رحمۃ اللہ علیہ فاتح قادیان
(۵۶۵) آریہ دھرم ص۵۵ و روحانی ص۶۳، ج۱۰
(۵۶۶) نجم الھدٰی ص۱۰ و روحانی ص۵۳، ج۱۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
نام بنام علماء اسلام کو گالیاں
(۶) توہین حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلویؒ
'' مخبط الحواس نذیر حسین (۵۶۷)نالائق (۵۶۸)نذیر حسین کے دجالانہ فتویٰ (۵۶۹) مَات ھَامًا مر گیا گمراہی میں حیران ہو کر۔'' (۵۷۰)
'' ابو جہل (۵۷۱)کفن فروش (۵۷۲)کتا (۵۷۳)'' ابن ہوا۔ غدار (۵۷۴)کتے مردار خور۔'' (۵۷۵)
(۸) حضرت مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم
یَا شَیْخَ اَرْضِ الْخَبِیْثِ اَرْض بَطَالَۃٍ اے شیخ زمین پلید۔ زمین بٹالہ (۵۷۵)فرعون (۵۷۷)بدبخت، دین فروش (۵۷۸)آئندہ اس کی گندی اور ناپاک تحریروں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس شیخ، بے ادب، تیز مزاج (۵۷۹)پلید۔ بے حیا سفلہ گندی کاروائی، گندے اخلاق، نفرتی اور ناپاک شیوہ (۵۸۰)ژاژخا، بیہودہ(۵۸۱)۔
(۹) مولوی سعد اللہ مرحوم لدھیانوی
ہندو زادہ (۵۸۲)کمبخت (ص ۶ ضیاء الحق) بدبخت دن فروش (۵۸۳)شیطان فطرت نادان عدو الدین (۵۸۴)غول لئیم۔ فاسق۔ شیطان ملعون۔ نطفۂ سفہاء۔ خبیث۔ مفسد مزور۔ منہوس (۵۸۶)مردار عدو اللہ (۵۸۷)کنجری کا بیٹا۔ (۵۸۸)
(۱۰) حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی
میرے مقابل بیٹھ جاتے تا در و غگو۔ بے حیا کا منہ ایک ہی ساعت میں سیاہ ہو جاتا (۵۸۹)ان لعنتوں کو کیوں ہضم کرلیا جو در حالت سکوت ہماری طرف سے آپ کی نذر ہوئیں (۵۹۰)یہ گوہ کھانا ہے اے جاہل بے حیا (۵۹۱)خبیث طبع (۵۹۲)(ص۶۴) نجاست پیر صاحب کے منہ میں کھلائی (۵۹۳)کذاب دروغ گو۔ مزور، خبیث۔ بچھو کی طرح نیش زن اے گولڑہ کی زمین تجھ پر خدا کی لعنت تو ملعون کے سبب ملعون ہو گئی (۵۹۴)فرومایہ، کمینہ، گمراہی کے شیخ، دیو، بدبخت(۵۹۵)۔
(۱۱) مولانا علی الحائری لاہوری مجتہد فرقہ شیعہ
جاہل تر، حسین رضی اللہ عنہ کی عبادت کرنے والا، دیو کھوئی آنکھ والا۔ یک چشم (۵۹۶)خبردار شیخ ضال نجفئے۔(۵۹۷)
--------------------------------------------------------------
(۵۶۷) استفتاء ص۲۰ و روحانی ص۱۲۸، ج۱۲
(۵۶۸) انجام آتھم ص۴۵ و روحانی ص۴۵، ج۱۱ و مجموعہ اشتھارات ص۲۵۷، ج۲
(۵۶۹) ایضاً
(۵۷۰) مواہب الرحمن ص۱۲۷ و روحانی ص۳۴۸، ج۱۹ والحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء ص۷ وتذکرہ ص۴۳۳ نوٹ ضروری مرزا جی نے ''مات ضال ھائما'' سے حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر حساب جمل سے مذکورہ الھام سے تاریخ وفات نکالی ہے اور آپ کو گمراہ بتایا ہے لیکن قدرت کا تصرف دیکھئے کہ مرزا نے اس میں لام ایک شمار کیا ہے جو کہ ضیل سے ماخوذ ہے اور یآء الف ہوگئی ہے (جیسا کہ کتب لغت میں ہے) اور اس کا معنیٰ بیری کا عمدہ درخت ہے۔ لسان العرب ص۳۹۷، ج۱۱، جبکہ دجال قادیانی کے گمراہ دماغ میں لفظ '' ضلال'' تھا جیسے اللہ پاک نے یوں بدل دیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مذمم کیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا کہ کیف یصرف اللہ عنی شتم قریش ولعنھم یشتمون مذمما ویلعنون مذمما وانا محمد ، الحدیث بخاری ص۵۰۱، ج۱ یعنی گالیاں تو اس پر پڑیں جو مزمم ہے تو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں اسی طرح جو گمراہ مرزا ہے جس کی ذہن میں ضلال ہے مات ضال ھائما بھی اس کے متعلق ہے حضرت محدث مرحوم تو عمدہ درخت ٹھہرے جس کا پھل (درس حدیث) لوگوں (طلباء) نے خوب کھایا (پڑھا) ہے۔ ابو صہیب
(۵۷۱) تتممہ حقیقت الوحی ص۲۶ و روحانی ص۴۵۸، ج۲۲
(۵۷۲) اعجاز احمدی ص۲۳ و روحانی ص۱۳۲، ج۱۹
(۵۷۳) ایضاً
(۵۷۴) ایضاً ص۴۳ و ص۷۷ و روحانی ص۱۵۴، ۱۹، ج۱۹
(۵۷۵) حاشیہ انجام آتھم ص۲۵ و روحانی ص۳۰۹، ج۱۱
(۵۷۶) ایضاً ص۲۶۹ و روحانی ص۲۶۹، ج۱۱
(۵۷۷) حاشیہ استفتاء ص۲۲ و روحانی ص۱۳۰، ج۱۲
(۵۷۸) ضیاء الحق ص۴۲ و روحانی ص۲۹۰، ج۹
(۵۷۹) تریاق القلوب ص۸۶ و روحانی ص۳۲۷، ج۱۵
(۵۸۰) ایضاً ص۱۳۳ و روحانی ص۴۳۷، ج۱۵
(۵۸۱) ایضاً ص۸۳ و روحانی ص۳۲۱، ج۱۵
(۵۸۲) ضیاء الحق ص۴۱ و روحانی ص۲۸۹، ج۹ و حاشیہ انوار الاسلام ص۲۵ و روحانی ص۲۷، ج۹ و مجموعہ اشتھارات ص۲۸، ج۲
(۵۸۳) لم اجدہ
(۵۸۴) ضیاء الحق ص۴۲ و روحانی ص۲۹۰، ج۹
(۵۸۵) انوار الاسلام ص۲۶ و روحانی ص۲۷، ج۹
(۵۸۶) انجام آتھم ص۲۸۱ و روحانی ص۲۸۱، ج۱۱
(۵۸۷) اشتھار مرزا مورخہ ۵؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۷۹، ج۲
(۵۸۸) انجام آتھم ص۲۸۱
(۵۸۹) نزول المسیح ص۶۲ و روحانی ص۲۴۰، ج۱۸
(۵۹۰) ایضاً
(۵۹۱) ایضاً ص۶۳ و روحانی ص۴۴۱، ج۱۸
(۵۹۲) ایضاً ص۶۴ و روحانی ص۴۴۲، ج۱۸
(۵۹۳) ایضاً ص۷۰ و روحانی ص۴۴۸، ج۱۸
(۵۹۴) اعجاز احمدی ص۷۵ و روحانی ص۱۸۸، ج۱۹
(۵۹۵) ایضاً ص۷۶ و روحانی ص۱۸۸، ج۱۹
(۵۹۶) ایضاً ص۷۴ و روحانی ص۱۸۶، ج۱۹
(۵۹۷) تبلیغ رسالت ص۳۱، ج۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(۱۲) صحابہ کرام
۱۔ '' بعض نادان صحابی'' (۵۹۰)
۲۔ '' ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ غبی تھا درائت اچھی نہیں رکھتا تھا۔'' (۵۹۹)
۳۔ بعض ایک دو کم سمجھ صحابہ جن کی درایت عمدہ نہ تھی۔ (۶۰۰)
۴۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فہم قرآن میں ناقص ہے اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔ (۶۰۱)
(۱۳) مولوی عبدالحق غزنوی مرحوم
'' بھائی عمر اس کی بیوہ کو اپنی طرف گھسیٹ لیا واہ رے شیخ چلی کے بھائی (۶۰۲)مراے شیطان کے بندے موسوم بہ عبدالحق (۶۰۳)عبدالحق نے اشتہار دیا تھا کہ اس کے گھر لڑکا پیدا ہوگا (یہ بالکل جھوٹ ہے ناقل) وہ لڑکا کہاں گیا کیا اندر ہی اندر تحلیل پا گیا۔ پھر رجعت قہقری کرکے نطفہ بن گیا؟ (۶۰۴)اگر عبدالحق ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے۔'' (۶۰۵)
ناظرین کرام! یہ مختصر سا خاکہ ہے ان گالیوں کا جو مرزا نے نام لے کر علماء کرام کو دیں حالانکہ خود انہی مرزا صاحب کا قول ہے:
'' کسی شخص کو جاہل، نادان، دنیا پرست، مکار، فریبی، گنوار، متکبر وغیرہ الفاظ کہنے والا شریفوں اور منصفوں کے اور نیک سرشت لوگوں کے نزدیک گندہ طبع اور بد زبان ہوتا ہے۔''(۶۰۶)
اسی طرح محمد احسن امروہی مرزا صاحب کے مقرب حواری لکھتے ہیں کہ کسی خاص شخص کو بے حیا وغیرہ کہنا خلاف تہذیب ہے۔ (۶۰۷)
(۱۴) عام علماء کرام کو گالیاں
بدبخت مفتریو۔ نہ معلوم یہ وحشی فرقہ شرم و حیا سے کیوں کام نہیں لیتا مخالف مولویوں کا منہ کالا (۶۰۸)اے بد ذات فرقہ مولویاں (۶۰۹)نالائق مولوی نفاق زدہ یہودی سیرت (۶۱۰)بعض خبیث طبع مولوی جو یہودیت کا خمیرا اپنے اندر رکھتے ہیں۔ دنیا میں سب جانداروں سے زیادہ پلید خنزیر ہے مگر خنزیر سے زیادہ پلید وہ لوگ ہیں اے مردار خور مولویو! اور گندی روحو! (۶۱۱)یک چشم مولوی(۶۱۲)بعض مولوی دنیا کے کتے (۶۱۳)کم بخت متعصب (۶۱۴)پلید طبع (۶۱۵)یہودی صفت(۶۱۶)یہودی (۶۱۷)نادان حلق (۶۱۸)اندھے (۶۱۹)نابکار (۶۲۰)شریر کتوں کی طرح (۶۲۱)دنیا پرست (۶۲۲)فطری بد ذات۔ سیاہ دل (۶۲۳)اے شریر مولویو! اور ان کے چیلو اور غزنی کے ناپاک سکھو (۶۲۴)بخیل طبع (۶۲۵)بد ذات مولوی (۶۲۶)بے ایمانو، نیم عیسائیو، دجال کے ہمراہیو۔ (۶۲۷)
------------------------------------
(۵۹۸) براھین احمدیہ ص۱۲۰، ج۵ و روحانی ص۲۸۵، ج۲۱
(۵۹۹) اعجاز احمدی ص۱۸ و روحانی ص۱۲۷، ج۱۹
(۶۰۰) ایضاً
(۶۰۱) براھین احمدیہ ص۲۳۴، ج۵ و روحانی ص۴۱۰، ج۲۱
(۶۰۲) انوار الاسلام ص۳۹ و روحانی ص۴۰، ج۹
(۶۰۳) ضمیمہ انجام آتھم ص۵۸ و روحانی ص۳۴۲، ج۱۱
(۶۰۴) ایضاً ص۲۷ و روحانی ص۳۱۱، ج۱۱ و تحفہ غزنویہ ص۲۵ و روحانی ص۵۵۵، ج۱۵
(۶۰۵) انوار الاسلام ص۳۰ و روحانی ص۳۱، ج۹
(۶۰۶) اشتھار مرزا مورخہ ۹؍ سمتبر ۱۸۹۵ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۱۴۶، ج۲ وتبلیغ رسالت ص۱۴، ج۴
(۶۰۷) اعلام الناس ص۹۰، ج۲
(۶۰۸) ضمیمہ انجام آتھم ص۵۸ و روحانی ص۳۴۲، ج۱۱
(۶۰۹) انجام آتھم ص۲۱ و روحانی ص۲۱، ج۱۱
(۶۱۰) ایضاً ص۲۴
(۶۱۱) ضمیمہ انجام آتھم ص۲۱ و روحانی ص۳۰۵ ، ج۱۱
(۶۱۲) ایضاً ص۲۴ و روحانی ص۳۰۸، ج۱۱
(۶۱۳) استفتاء ص۲۰ و روحانی ص۱۲۸، ج۱۲
(۶۱۴) سراج منیر ص۶ و روحانی ص۸، ج۱۲
(۶۱۵) ایضاً ص۵۲ و روحانی ص۵۴، ج۱۲
(۶۱۶) ایضاً و ضیاء الحق ص۴۶ و روحانی ص۲۹۳ تا ۲۹۴ ، ج۹
(۶۱۷) سراج منیر ص۷ و روحانی ص۹ ج ۱۲، نوٹ: یہ لفظ عام علماء کے متعلق نہیں بلکہ خاص مولانا سعد اللہ مرحوم لدھیانوی کے بارے ہے، مرزا کے الفاظ ہیں، سعد اللہ نو مسلم کی بد ذاتی ہے کہ اس کو پیر فرتوت قرار دیتا ہے یہ یہودی چاہتا ہے، انتھی بلفظہٖ ۔ ابو صہیب
(۶۱۸) چشمہ مسیحی ص، ب و روحانی ص۳۳۶، ج۲۰
(۶۱۹) تبلیغ رسالت ص۹۱، ج۴
(۶۲۰) تحفہ گولڑویہ ص۵ و روحانی ص۹۴، ج۱۷
(۶۲۱) تریاق القلوب ص۱۴۸ و روحانی ص۴۶۳، ج۱۵
(۶۲۲) ضیاء الحق ص۳۷ و روحانی ص۲۸۵، ج۹
(۶۲۳) ایضاً
(۶۲۴) ایضاً ص۴۳ و روحانی ص۲۹۱، ج۹
(۶۲۵) ایضاً ص۵۲ و روحانی ص۳۰۰، ج۹
(۶۲۶) ضمیمہ انجام آتھم ص۶ و روحانی ص۲۹۰، ج۱۱
(۶۲۷) اشتھار مرزا، مورخہ ۵؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۶۹، ج۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(۱۵) عام قوم اہل اسلام و دیگر مخالفین
کوئی تیرابے حیا نہ ہو تو اس کے لیے چارہ نہیں کہ میرے دعویٰ کو اسی طرح مان لے جیسا اس نے آنحضرت( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نبوت کو مان لیا ہے۔(۶۲۸)
نادان بدبخت شقی (۶۲۹)ظالم طبع مخالفوں نے جھوٹ کی نجاست کھائی (۶۳۰)بعض ڈوموں کی طرح (۶۳۱)بعض کتوں کی طرح بعض بھیڑیوں کی طرح، بعض سؤروں کی طرح، بعض سانپوں کی طرح ڈنگ مارتے ہیں (۶۳۲)اے بے حیا قوم (۶۳۳)خبیث طبع لوگ (۶۳۴)اے نادانو! عقل کے اندھو(۶۳۵)۔
(۱۶) آریہ قوم کے رشی دیانند کو گالیاں
مرزا صاحب جہاں اپنے دعاوی کے اتار چڑھاؤ میں مشتاق تھے وہاں نفاق گوئی میں بھی شہرہ آفاق تھے۔ کہیں تو یہ مصلحانہ روش اور غریبانہ اور عاجزانہ انکساری ہے کہ:
(الف) ہم قادیانی کو چھوڑ دیں گے کیونکہ بخدا ہم دشمنوں (آریوں کے) دلوں کو بھی تنگ کرنا نہیں چاہتے۔(۶۳۶)
(ب) ایک شخص جو کسی کے باپ کو گندی گالیاں دیتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا اس سے خوش ہو یہ کیونکر ہوسکتا ہے جو لوگ محض زبان سے صلح کے لیے زور دیتے ہیں ان کو چاہیے صلح کے کام دکھلائیں اے ہم وطن پیارو ہم ایک ہی ملک میں رہتے ہیں چاہیے کہ باہم محبت کریں مگر یاد رکھو منافقانہ محبت نہیں ایک زہریلا تخم ہے بد زبانی اور صلح کاری جمع نہیں ہوسکتے(۶۳۷)۔
مگر دوسری طرف یہ بہانہ بنا کر کہ آریوں کے روحانی باپ نے گرونانک کو برا کہا ہے سوامی جی کو یوں کو سا:
'' آریوں کے پنڈت دیانند اس خدا ترس بزرگ (گورنانک) کی نسبت گستاخی کے کلمے ستیارتھ پرکاش میں لکھے ہیں۔ درحقیقت یہ شخص سیاہ دل، جاہل، ناحق شناس، ظالم پنڈت، نالائق، یا وہ گو، بد زبان، پرلے درجے کا متکبر، ریاکار، خود بین، نفسانی اغراض سے بھرا ہوا۔ خبیث مادہ ، سخت کلام، خشک دماغ، موٹی سمجھ کا آدمی نا اہل۔''(۶۳۸)
احمدی دوستو! مرزا نے گورونانک کی طرف سے جو اتنے القاب سوامی دیانند کو دئیے۔ اگر کوئی آریہ انہی القابات خبیثہ سے مرزا جی کو ملقب کرے تو تم اسے بد تہذیب تو نہ کہو گے:
بندہ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر
اور سنو! مرزا جی سوامی جی کے حق میں لکھتے ہیں:
'' گندہ نامعقول (۶۳۹)دیانتداری فریب (۶۴۰) دیانند ستیارتھ پرکاش میں اپنے بدبودار جہالت کا گند چھوڑ گیا (۶۴۱) سراسر جعلسازی سے جو اس کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی (۶۴۲) اب تو دیانند کی جان کو رونا چاہیے۔''(۶۴۳)
ناظرین! اس سخت گوئی کو دیکھیے اور دوسری طرف براہین احمدیہ نکال کر اپنے سامنے رکھئے جہاں بزرگانِ مذہب کی توہین کو خبث عظیم قرار دیا ہے(۶۴۴) ۔ تو آپ کی منصنف طبیعت ضرور فتویٰ دے گی کہ:
رسولِ قادیانی کی رسالت
بطالت ہے ضلالت ہے جہالت
------------------------
(۶۲۸) تذکرۃ الشھادتین ص۳۸ و روحانی ص۴۰، ج۲۰
(۶۲۹) اعجاز احمدی ص۶ و روحانی ص۱۱۲، ج۱۹
(۶۳۰) نزول المسیح ص۸ و روحانی ص۳۸۶، ج۱۸
(۶۳۱) اشتھار مرزا بنام براھین احمدیہ کے مخالفین کی جلدی ، مندرجہ ٹائیٹل براھین احمدیہ حصہ دوم و روحانی ص۵۵، ج۱ و مجموعہ اشتھارات ص۲۸، ج۱ و تبلیغ رسالت ص۲۰، ج۱
(۶۳۲) خطبہ الھامیہ ص۱۵۵ و روحانی ص۲۳۸، ج۱۶
(۶۳۳) سراج منیر ص۶ و روحانی ص۸، ج۱۲
(۶۳۴) ایضاً
(۶۳۵) حقیقت الوحی ص۴۶ و روحانی ص۴۸، ج۲۲
(۶۳۶) شحنہ حق ص، ج و روحانی ص۳۲۶، ج۲
(۶۳۷) ملخصًا ضمیمہ چشمہ معرفت ص۱۲ و روحانی ص۳۸۴، ج۲۳
(۶۳۸) ست بچن ص۸، ۹ و روحانی ص۱۲۰، ۱۲۱، ج۱۰
(۶۳۹) شحنہ حق ص۲ و روحانی ص۳۲۸، ج۲ حاشیہ
(۶۴۰) مفہوم ایضاً ص۴۲ و روحانی ص۳۶۸، ج۲
(۶۴۱) ایضاً ص۷۴ و روحانی ص۴۰۰، ج۲
(۶۴۲) ایضاً حاشیہ متعلقہ ص۴۲ ملحقہ شحنہ حق ص۱ و روحانی ص۴۳۵،ج۲
(۶۴۳) شحنہ حق ص۲۴ و روحانی ص۳۵۰، ج۲
(۶۴۴) براھین احمدیہ ص۱۰۱، ج۲ و روحانی ص۹۱، ج۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(۱۷) وید اور مرزا صاحب
'' ویدوں میں بجز آفتاب پرستی، ناپاک رسموں کے اور کچھ نہیں تمام گندی نالیوں کا مبدأ وید ہی ہے۔''(۶۴۵)
دیانندی وید بازاروں میں چار چار آنے کو خراب ہوتے پھرتے ہیں ویدوں کے اصول و عقائد کی گٹھڑی کسی برہمن کی اندھیری کوٹھڑی میں خاک کے نیچے دبی پڑی ہے (۶۴۶) قربان جائیں ایسے ویدوں (۶۴۷) یہ بید بے ثمر کی تہذیب ہے (۶۴۸) ویدوں کا بھانڈا پھوٹ گیا (۶۴۹) حالانکہ یہ وہ وید ہیں جنہیں آخری عمر میں مرزا صاحب نے یہ کہہ کر مان لیا:
'' ہم وید کو بھی خدا کی طرف سے مانتے ہیں۔ وید انسان کا افترا نہیں۔''(۶۵۰)
مرزائی کہا کرتے ہیں کہ جن ویدوں کی تردید کی گئی ہے وہ دیانندی موجودہ وید ہیں حالانکہ شحنہ حق میں قدیمی ویدوں کو انسانی پست خیالات کا مجموعہ قرار دیا گیا ہے۔(۶۵۱)
(۱۸) آریوں کا پرمیشر
'' بد نصیب پرمیشر'' (۶۵۲) '' دیانند کی گواہی سے ثابت ہوگیا کہ پرمیشر کبھی رام چندر بنا کبھی کرشن کبھی مگر مجھ پر ایک مرتبہ تو خوک یعنی سؤر بن گیا۔''(۶۵۳)
(۱۹) عام آریہ قوم
یوں تو مرزا صاحب نے بڑے ہی شریفانہ لہجہ میں لکھا ہے:
'' لعنت بازی کرنا صدیقوں کا کام نہیں۔ مومن لعان نہیں ہوتا(۶۵۴) ۔''
(ص۶۶۰ازالہ ط ۱ ص ۲۶۹ ازالہ طبع ۲)
مگر ان کی اپنی روش اس کے سراسر خلاف تھی ان کی کتابیں جا بجا لعنتوں سے بھری ہوئی ہیں بطور نمونہ مسلمانوں کے حق میں دیکھنی ہوں تو (۶۵۵) اعجاز احمدی دیکھئے اور عیسائیوں کے بارے میں دیکھنی ہوں تو نور الحق حصہ اول ملاحظہ کریں پورے چار صفحات صرف لعنت، لعنت، لعنت، لعنت سے بھرے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار ہے(۶۵۶) ۔ آریوں کے حق میں مشت نمونہ از خرد ارے ذیل میں ملاحظہ کریں:
'' لعنت، لعنت، لعنت ، لعنت،لعنت، لعنت، لعنت، لعنت، لعنت، لعنت۔''(۶۵۷)
اسی طرح صفحہ ۶۱ پر پوری دس لعنتیں سطر وار لکھی ہیں(۶۵۸) ۔ لعنتوں کے علاوہ دیگر خوش کلامی ملاحظہ ہو:
'' شکم پرست پنڈتوں کے حیلے۔''(۶۵۹)
کھوپری میں بجز بخارات تعصب و عناد (۶۶۰) بیل نہ کودا کو دی گاؤں (۶۶۱) یہودا اسکریوطی یا بگڑے ہوئے سکھ کی دم دہی سے (۶۶۲) کیا رام سنگھ کو کو کی روح ان میں کہیں گھس نہیں آئی (۶۶۳) تین بکائن اور لالہ جی باغ میں (۶۶۴) بزاخفش ، کھڑپنچ (۶۶۵) دیکھا نہ بھالا صدقے گئی خالہ (۶۶۶) آریہ اوباشوں، دیانندی تانتیا بھیل (۶۶۷) کنجرو لد الزنا جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں مگر اس آریہ میں اس قدر شرم بھی باقی نہ رہی (۶۶۸) سیکھ رام کی کھوپری (۶۶۹) ایک آریہ نے لکھا کہ مرزا کوڑی کوڑی کو لاچار ہے۔ اس کے جواب میں اس قدر آپے سے باہر ہوگئے کہ:
'' حیرت ہے لالہ صاحبوں کو ہمارے قرض کی فکر کیوں پڑ گئی؟ ایک قوم ہندو جٹ ہے اکثر ان کی یہ عادت ہے کہ جب وہ اپنی دختر کا ناطہ کسی جگہ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے چپکے چپکے اس گاؤں میں چلے جاتے ہیں جہاں اپنی دختر کی نسبت کا ارادہ ہوتا ہے۔ تب اس گاؤں میں پہنچ کر پٹواری کی کھیوٹ اور گرد ادری اور روزنامہ سے دریافت کرلیتے ہیں کہ اس شخص کی کتنی زمین ہے، پڑتال کے بعد اپنی دختر دے دیتے ہیں لیکن اس جگہ تو ان امور میں سے کوئی بات نہیں۔''(۶۷۰)
---------------------------------------------
(۶۴۵) ست بچن ص۱۱ و روحانی ص۱۲۳، ج۱۰
(۶۴۶) ملخصًا شحنہ حق ص۱۷ و روحانی ص۳۴۳، ج۲
(۶۴۷) ایضًا ص۳۳ و روحانی ص۳۵۹، ج۲
(۶۴۸) ایضًا ص۴۵ و روحانی ص۳۷۱، ج۲
(۶۴۹) ایضًا ص۸۵ و روحانی ص۴۱۱، ج۲
(۶۵۰) پیغام صلح ص۱۳ و روحانی ص۴۵۳، ج۲۳
(۶۵۱) شحنہ حق ص۶۳ و روحانی ص۳۸۹، ج۲ وایضًا ص۸۱ و روحانی ص۴۰۷، ج۲ و ایضًا ص۱۶ و روحانی ص۳۴۲، ج۲ وغیرہ
(۶۵۲) ایضًا ص۲۸ و روحانی ص۳۵۴، ج۲
(۶۵۳) ایضًا ص۶۹ و روحانی ص۳۹۵، ج۲
(۶۵۴) ازالہ اوہام ص۶۶۰ و روحانی ص۴۵۶، ج۳
(۶۵۵) اعجاز احمدی ص۳۸ و روحانی ص۱۴۹، ج۱۹ و آئینہ کمالات اسلام ص۲۹۵ و روحانی خزائن جلد پنجم صفحہ ایضًا
(۶۵۶) نور الحق ص۱۱۸، ۱۲۲، ج۱ و روحانی ص۱۵۸تا ۱۶۲،ج۸
(۶۵۷) شحنہ حق ص۵۰ و روحانی ص۳۷۶، ج۲
(۶۵۸) ایضًا ص۶۱ و روحانی ص۳۸۷، ج۲
(۶۵۹) ایضًا
(۶۶۰) ایضًا ص۱ و روحانی ص۳۲۷، ج۲
(۶۶۱) ایضًا ص۲ و روحانی ص۳۲۸، ج۲ نوٹ: مذکورہ مقولہ مرزا جی کا نہیں بلکہ اسلام کے اشد ترین مخالف پنڈت لیکھرام پشاوری کا ہے جسے مرزا نے نقل کیا ہے۔ ابوصہیب
(۶۶۲) ایضًا ص۳ و روحانی ص۳۲۹، ج۲
(۶۶۳) ایضًا ص۴ و روحانی ص۳۳۰، ج۲
(۶۶۴) ایضًا ص۵ و روحانی ص۳۳۱، ج۲
(۶۶۵) ایضًا ص۱۳ و روحانی ص۳۳۹، ج۲
(۶۶۶) ایضًا ص۱۵ و روحانی ص۳۴۱، ج۲
(۶۶۷) ایضًا ص۳۸ و روحانی ص۳۶۴، ج۲
(۶۶۸) ایضًا ص۶۰ و روحانی ص۳۸۶، ج۲
(۶۶۹) ایضًا ص۱۰۷ و روحانی ص۴۳۳، ج۲
(۶۷۰) ایضًا ص۱۹ و روحانی ص۳۴۵، ج۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(۲۰) عیسائیوں کے بارے میں
'' بزرگانِ مذہب کی توہین خبث عظیم ہے(۶۷۱) '' عیسائیوں کی مشرکانہ تعلیم کا تمام مدار اس شریر انسان کی باتوں پر ہے جس کا نام پولس تھا(۶۷۲) ۔'' '' اس زمانہ کے پادری دجال کذاب ہیں (۶۷۳) دجالی فرقہ (۶۷۴) '' ہزار لعنت کی ذلت کارسہ گلے میں پڑے گا'' (۶۷۵) ''پادری ہی دجال ہیں'' '(۶۷۶) '' بد گو، بے اعتدال بیہودہ، بد ذاتی (۶۷۷) نادان پادری'' (۶۷۸) تمام بزرگ عیسائی قسم کا خنزیر کھاتے رہے۔''(۶۷۹)
(۲۱) خدا کی توہین
مسلمانوں کا بالاتفاق اعتقاد ہے کہ '' اب وحی رسالت تابقیامت'' منقطع ہے۔(۶۸۰)
مرزا صاحب اس اعتقاد پر اعتراض کرتے ہیں:
کوئی عقل مند اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں پھر بعد اس کے سوال ہوگا کہ کیوں نہیں بولتا، کیا زبان پر کوئی مرض لاحق ہوگئی؟(۶۸۱)
مرزا صاحب کی شانِ تقدیس
'' میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے میرے نفس کو گندی گالیاں دیتا رہے آخر وہی شرمندہ ہوگا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا۔(۶۸۲)
احمدی بھائیو! اس تحریر کو پڑھ کر ذرا اس تحریر پر نظر ڈالنا جس میں ایک آریہ نے صرف اتنا اعتراض کیا تھا کہ '' آپ کوڑی کوڑی کو لاچار ہیں'' اور مرزا صاحب نے اسے لڑکی دینے کا قصہ سنایا۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------
(۶۷۱) براھین احمدیہ ص۲۰۱، ج۲ و روحانی ص۹۱، ج۲
(۶۷۲) اشتھار مرزا مورخہ ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۳۱۰، ج۲ و اعجاز احمدی ص۲۳ و روحانی ۱۳۲، ج۱۹
(۶۷۳) اعجاز احمدی ص۴۲ و روحانی ص۱۵۳، ج۱۹
(۶۷۴) اشتھار مرزا مورخہ ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۶۶،ج۲ و روحانی ص۷۳،ج۹ و اعجاز احمدی ص۴۳ و روحانی ص۱۵۴، ج۱۹
(۶۷۵) انور الاسلام ص۱۶ و روحانی ص۱۷، ج۹
(۶۷۶) ایضًا ص۴۴ و روحانی ص۴۵، ج۹
(۶۷۷) ضیاء الحق ص۱۱۹ و روحانی ص۲۵۶،ج۲۵۹، ج۹
(۶۷۸) ایضًا ص۲۱ و روحانی ص۲۶۹، ج۹
(۶۷۹) ایضًا ص۲۵ و روحانی ص۲۷۳، ج۹
(۶۸۰) ازالہ اوہام ص۶۱۴ و روحانی ص۴۳۲، ج۳
(۶۸۱) براھین احمدیہ ص۱۴۴، ج۵ و روحانی ص۳۱۲، ج۲۱
(۶۸۲) سیرت مسیح موعود ص۵۴ مؤلفہ عبدالکریم قادیانی و سیرت مسیح موعود ص۴۴۷ حصہ سوم مؤلفہ یعقوب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کے سخت گو ہونے پر دو عدالتوں کی رائے
رائے چند دلال صاحب مجسٹریٹ ضلع گورداسپور کی عدالت میں بمقدمہ حکیم فضل دین بنام مولوی کرم الدین جہلمی۔ مرزا صاحب نے اپنے بیان میں لکھوایا کہ :
'' عین الیقین اور حق الیقین عدالت کے ذریعہ سے میسر آتے ہیں ۔'' (۶۸۳)
اب ہم عدالت کا فیصلہ بحق مرزا نقل کرتے ہیں امید ہے کہ احمدی حضرات اس '' حق الیقین'' پر عین الیقین کریں گے۔
نقل حکم مسٹر ڈگلسن صاحب مؤرخہ ۲۳؍ اگست ۱۸۹۷ء
'' مرزا غلام احمد کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ جو تحریرات عدالت میں پیش کی گئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ فتنہ انگیز ہے ان کی تحریرات اس قسم کی ہیں کہ انہوں نے بلاشبہ طبائع کو اشتعال کی طرف مائل کر رکھا ہے پس ان کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ مناسب اور ملائم الفاظ میں اپنی تحریرات کو استعمال کریں ورنہ بحیثیت حاکم صاحب مجسٹریٹ ضلع ہم کو مزید کارروائی کرنی پڑے گی۔''(۶۸۴)
عدالت لالہ آتمارام مہتہ بی۔ اے اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنتر مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کا فیصلہ ۸؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء
'' ملزم نمبر ۱ (مرزا صاحب) اس امر میں مشہور ہے کہ وہ سخت اشتعال وہ تحریرات اپنے مخالفوں کے برخلاف لکھا کرتا ہے اگر اس کے اس میلان طبع کو نہ روکا گیا تو غالباً امن عامہ میں نقص پیدا ہوگا ۱۸۹۷ء میں کپتان ڈگلس صاحب نے ملزم کو ہمچو قسم تحریرات سے باز رہنے کے لیے فہمائش کی تھی پھر ۱۸۹۹ء میں مسٹر ڈوئی صاحب مجسٹریٹ نے اس سے اقرار نامہ لیا کہ ہمچو قسم نقض امن والے فعلوں سے باز رہے گا۔''(۶۸۵)
عدالت کا بیان مظہر ہے کہ مرزا صاحب طبعاً گندہ دہان ہونے میں مشہور تھے اور اس سے پہلے دو عدالتیں انہیں روک بھی چکی ہیں چنانچہ خود مرزا صاحب راقم ہیں کہ:
'' ہم نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے سامنے یہ عہد کرلیا ہے کہ آئندہ ہم سخت الفاظ سے پہلے کام نہ لیں گے(۶۸۶) ۔ (اشتہار مرزا صاحب ۲۰؍ دسمبر ۹۷ء مندرجہ کتاب البریت دیباچہ ص۱۳ مصنفہ مرزا صاحب)
اس عبارت میں مرزا صاحب اپنی سخت گوئی کا اقرار کرتے ہیں اور آئندہ اس سے احتراز کا وعدہ کرتے ہیں مگر ۱۹۰۴ء میں لالہ مہتہ رام کی عدالت کا فیصلہ ہے کہ مرزا صاحب اپنے وعدہ پر قائم نہ رہے اور ۱۸۹۷ء کے بعد برابر بد گوئی کو کام میں لاتے رہے آہ:
نہیں وہ بات کا پورا ہمیشہ قول دے دے کر
جو اس نے ہاتھ میرے ہاتھ پہ مارا تو کیا مارا
ہمارے ناظرین حیران ہونگے کہ آخر مرزا صاحب کو اس سخت گوئی سے فائدہ کیا تھا اس کا ایک جواب تو عدالت دے چکی ہے یعنی '' میلان طبع'' دوسرا جواب مرزا صاحب کے بیٹے نے دیا ہے کہ:
'' جب انسان دلائل سے شکست کھاتا ہے اور ہار جاتا ہے تو گالیاں دینی شروع کرتا ہے اور جس قدر کوئی زیادہ گالیاں دیتا ہے اسی قدر اپنی شکست کو ثابت کرتا ہے(۶۸۷) ۔'' (ص۱۵ انوارِ خلافت مصنفہ میاں محمود احمد خلیفہ قادیان)
عذرات مرزائیہ اور اُن کا جواب
مرزائی کہا کرتے ہیں کہ:
'' نبی دنیا کے سامنے جج کی حیثیت میں پیش ہوتا ہے اور اس کا فرض ہوتا ہے کہ تاریکی کے فرزندوں پر فردِ جرم لگانے سے پہلے ان کے جرموں سے ان کو آگاہ کردے۔''
الجواب:
جج کا کام ان کی غلطیوں پر آگاہ ہو کر انہیں سزا دینا بیشک ہے مگر بجائے اغلاط کا اظہار کرنے کے خود اسی غلطی میں یا جرم میں مبتلا نہیں ہوا کرتا، علاوہ ازیں جج مقدمہ پیش ہوچکنے کے بعد یہ انتظار نہیں کیا کرتا کہ اب یہ میری پگڑی بھی اچھالیں تو انہیں سزا دوں ورنہ چھوڑ دوں۔ اگر مرزا صاحب جج تھے تو پھر باوجود لوگوں کی گالیاں سننے کے بقول خود عرصہ دراز تک اپنے اختیارات کو کیوں کام میں نہ لائے جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں کہ:
'' میں نے اس (سعد اللہ) کی بد زبانی پر بہت صبر کیا اور اپنے تئیں روکا لیکن وہ حد سے گزر گیا تب میں نے نیک نیتی سے وہ الفاظ استعمال کئے۔''(۶۸۸)
یہ تحریر کہہ رہی ہے کہ مرزا جج وغیرہ کچھ نہیں تھا۔ اس کی گالیاں کچھ تو اپنی شکست کو چھپانے کے لیے تھیں اور کچھ اپنی توہین کا بدلہ لینے کے لیے۔
نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی غلطیوں سے بچنے کی ہدایت کرے خود ان غلطیوں میں مبتلا نہیں ہو جایا کرتا۔ خود مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ:
'' گالی کے جواب میں گالی دینے والا کتا ہوتا ہے۔'' (۶۸۹)
-------------------------------------
علی تراب مرزائی، وملفوظات مرزا ص۳۰۲، ج۱
(۶۸۳) تازیانہ عبرت ، ص۱۴۰ مؤلفہ کرم دین صاحب جہلمی
(۶۸۴) ایضًا ص۴۴
(۶۸۵) ایضًا ص۱۶۰
(۶۸۶) اشتھار مرزا ، مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۷ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۴۷۰، ج۲ و دیباچہ کتاب البریہ ص۱۳ و روحانی ص۱۵، ج۱۳
(۶۸۷) اشتھار انعامی تین ہزار مورخہ ۵؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات مرزا ص۷۹، ج۲
(۶۸۸) تتممہ حقیقت الوحی ص۲۰ و روحانی ص۴۵۲، ج۲۲
(۶۸۹) تقریر مرزا ، برجلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء مندرجہ رپورٹ جلسہ ص۹۹ و ملفوظات مرزا ص۶۴، ج۱ و تفسیر مرزا ص۲۲۱، ج۴ نوٹ: مولانا معمار رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا کے قول کا مفہوم بیان کیا ہے جبکہ اس کے اپنے الفاظ ہیں کہ ایک بزرگ کو کتے نے کاٹا۔ گھر آیا تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ کھایا ہے۔ ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی، وہ بولی آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا؟ اس نے جواب دیا۔ بیٹی انسان سے کت پن نہیں ہوتا۔ اسی طرح سے انسان کو چاہیے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے۔ نہیں تو وہی کُت پن کی مثال صادق آئے گی، انتھی بلفظہٖ۔ ابوصہیب
 
Top