• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(۵) حضرت مسیح کی بادشاہت
'' حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے خبر دی تھی کہ تو بادشاہ ہوگا انہوں نے اس وحی الٰہی سے دنیا کی بادشاہی سمجھ لی۔ اسی بنا پر حواریوں کو حکم دیا کہ کپڑے بیچ کر ہتھیار خرید لو۔ مگر آخر معلوم ہوا کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی غلط فہمی تھی اور بادشاہت سے مراد آسمانی بادشاہت تھی۔ اس پر ناحق نکتہ چینی کرنا شرارت اور بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہے۔'' (۴۴۷)
اس کے خلاف
'' یہ ناخدا ترس نام کے مولوی کہتے ہیں کہ کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بھی یہودیوں کا یہی حال ہے۔ حال میں ایک یہودی کی تالیف شائع ہوئی ہے جو میرے پاس اس وقت موجود ہے گویا وہ محمد حسین بٹالوی یا ثناؤ اللہ (فاتح قادیان امرتسری) کی تالیف ہے جو اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اس شخص یعنی عیسیٰ علیہ السلام سے ایک معجزہ بھی ظہور میں نہیں آیا اور نہ کوئی پیشگوئی اس کی سچی نکلی وہ کہتا تھا کہ داؤد کا تخت مجھے ملے گا، کہاں ملا؟ اب بتلاؤ اس یہودی اور مولوی محمد حسین اور میاں ثناؤ اللہ کا دل متشابہ ہیں یا نہیں میری کسی پیشگوئی کے خلاف ہونے کی نسبت کس قدر جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ ایک پیشگوئی بھی جھوٹی نہیں نکلی۔ مگر جو اس فاضل یہودی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر اعتراض کئے ہیں وہ نہایت سخت اعتراض ہیں کہ ان کا تو ہمیں بھی جواب نہیں آتا اگر مولوی ثناؤ اللہ یا محمد حسین یا کوئی پادری صاحبوں میں سے ان کا جواب دے سکے تو ہم ایک سو روپیہ بطور انعام اس کے حوالہ کریں گے۔'' (۴۴۸)
'' یہود تو حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں اور ان کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان کا جواب دینے میں حیران ہیں۔'' (۴۴۹)
ناظرین کرام! غور فرمائیے کہ عبارت میں انجیل کی بادشاہت براہین والی پیشگوئی کو بتاویل پوری ہوچکی ظاہر کرکے اس پر اعتراض کرنے والے کو بے ایمان، شریر ہٹ دھرم کا خطاب دیا ہے۔ مگر جونہی اپنی جھوٹی پیشگوئی کی رو سے زیر مواخذہ آئے جھٹ سے یہود نا مسعود کے رنگ میں رنگین ہو کر انہی کی ہاں میں ہاں ملا دی کہ '' مسیح کی کوئی پیشگوئی سچی نہ نکلی'' وہ بھی اس انداز میں کہ ''یہودیوں کے اعتراض ایسے قوی ہیں کہ ہم سے بھی ان کا جواب نہیں بن پڑتا'' گویا مسیح کی پیشگوئی سچ مچ اور یقینی طور پر جھوٹی نکلی (اف رے ظلم) اس ظلم پر ستم یہ کرتے ہیں کہ '' ایسی پیشگوئیوں پر تو نسخ بھی جاری نہیں ہوسکتا تا یہ خیال کیا جائے کہ وہ منسوخ ہوگئی تھیں۔'' (۴۵۰) دراصل یہود اس کو یوطی کے مرتد ہونے کا بھی یہی سبب تھا کہ علانیہ ہتھیار بھی خریدے گئے مگر بات سب کچی رہی اور داؤد کے تخت والی پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔ (۴۵۱)
----------------------------------------
(۴۴۷) براھین احمدیہ ص۸۹، ج۵ و روحانی ص۲۵۰، ج۲۱ ملخصًا
(۴۴۸) ملخصًا ، اعجاز احمدی ص۴ تا ۵ و روحانی ص۱۱۰ تا ۱۱۱، ج۱۹
(۴۴۹) ایضًا ص۱۳ و روحانی ص۱۲۰، ج۱۹
(۴۵۰) ایضًا ص۵ و روحانی ص۱۱۱، ج۱۹
(۴۵۱) ایضًا ص۶ و روحانی ص۱۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(۶) حضرت مسیح علیہ السلام کے اخلاق پر حملہ
حضرت مسیح علیہ السلام نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا انجیر کے درخت کو بغیر پھل کے دیکھ کر اس پر بد دعا کی اور دوسروں کو دعا کرنا سکھلایا۔ دوسروں کو یہ بھی حکم دیا کہ تم کسی کو احمق مت کہو مگر خود اس قدر بد زبانی میں بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو دارالحرام تک کہہ دیا اور ہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت سخت گالیاں دیں اور برے برے نام ان کے رکھے۔ اخلاقی معلم کا فرض یہ ہے کہ پہلے آپ اخلاق کریمہ دکھلا دے۔ (۴۵۲)
اس کے خلاف
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اکثر سخت لفظ اپنے مخاطبین کے حق میں استعمال کئے ہیں۔ جیسا کہ سور ، کتے، بے ایمان، بدکار وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق فاضلہ سے بے بہرہ تھے۔ کیونکہ وہ تو خود اخلاق سکھلاتے اور نرمی کی تاکید کرتے ہیں یہ لفظ جو اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر جاری رہتے تھے یہ غصہ کے جوش اور مجنونانہ طیش سے نہیں نکلتے تھے بلکہ اپنے محل پر یہ الفاظ چسپاں کئے جاتے تھے۔ (۴۵۳)
پہلی عبارت میں انجیل کے سخت الفاظ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بتا کر ''جناب مسیح علیہ السلام کو بد اخلاق بد زبان'' اخلاقی معلم مگر خود اخلاق سے بے بہرہ قرار دیا ہے اور دوسری تحریر میں انہی سخت الفاظ کو عین موقع و محل کے مطابق لکھ کر ''حضرت عیسیٰ علیہ السلام '' کو صاحبِ اخلاق کریم لکھا ہے۔
عذر مرزائیہ:
پہلا بیان اس بنا پر ہے کہ عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حسب موقع و محل سخت گوئی پر اعتراض کرتے ہیں۔ انہیں جواب دیا گیا ہے کہ پھر اس طرح مسیح پر اعتراض ہوسکتا ہے۔ مگر دوسرا بیان اسلامی نقطہ نگاہ کی رو سے ہے (مفہوم)۔ (۴۵۴)
الجواب:
رسالہ چشمہ مسیح (جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بد زبان لکھا گیا ہے) میں عیسائیوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت گوئی کا اعتراض نقل کرکے یہ جواب نہیں دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ، فریب اور بہتان ہے، چشمہ مسیحی تو ایک مسلمان ساکن بانس بریلی کے خط کا جواب ہے (۴۵۵) اس نے لکھا تھا کہ عیسائیوں کی کتاب ینابیع الاسلام سے مسلمانوں کو ضرر کا احتمال ہے مرزا صاحب اس کے جواب میں انجیل کے نقائص بیان کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں انجیل کی سختی کو ''حضرت عیسیٰ علیہ السلام '' کی طرف منسوب کرکے انہیں '' بد اخلاق بد زبان قرار دیا ہے بخلاف اس کے ضرورۃ الامام کی تصنیف میں اپنی سخت گوئی پر پردہ ڈالنے کے لیے انجیل کے انہی سخت الفاظ کو اپنی پشت پناہ بنا کر عین اخلاق مناسب موقع و محل ظاہر کرتے ہیں۔ پس مرزائی جواب نفس واقع کی بنا پر نہیں بلکہ مرزا صاحب سے اعتراض اٹھانے کو ایک ذہنی و خیالی جوڑ توڑ ہے۔
------------------------------------------------
(۴۵۲) چشمہ مسیحی ص۱۱ و روحانی ص۳۴۶، ج۱۳
(۴۵۳) ضرورت الامام ص۷ و روحانی ص۴۷۷ تا ۴۷۸، ج۱۳
(۴۵۴) تجلیات رحمانیہ ص۵۴ تا ۵۴ نوٹ: بالفرض اگر تسلیم کرلیا جائے کہ مرزا نے الزامی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دی ہیں! تو سوال یہ ہے کہ آیا الزامی طور پر کسی نبی کو گالیاں دینا جائز ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں! تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لانا ان کو مقدس و راست باز تسلیم کرنا ضروریات دین میں سے ہے جس طرح نبی کریم علیہ السلام کی ادنیٰ توہین کرنا بھی کفر ہے اسی طرح دیگر انبیاء کی توہین کرنے والا بھی کافر و مرتد اور واجب القتل ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے '' الصارم المسلول علی شاتم الرسول ص۵۶۵، مؤلفہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ مرزا جی کی اس روش کا ہی نتیجہ ہے کہ مرزائی عام بحث مباحثہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں، مثل ہے درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ (خاص قادیان کا) مرزا محمود کی زبانی ملاحظہ کریں، کہتا ہے کہ کل ہی یہاں (قادیان میں) ایک معاملہ پیش ہوا کہ بحث میں کسی نے حضرت مسیح کی نسبت گندے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ شاید وہ یہ عذر پیش کرے کہ بحث کرنے والے (عیسائی) نے چونکہ آنحضرتe کی شان میں گستاخی کی تھی اس لیے میں نے بھی ایسا کیا لیکن یہ وہی بات ہے جو ینھیٰ عن الفحشاء والمنکر والبغی کے نیچے آتی ہے کیا ایک آدمی کے حد سے بڑھنے سے دوسرے کو بھی بڑھ جانا چاہیے؟ کیا ایک کے فحشاء و منکر سے باز نہ رہنے سے دوسرے کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے؟ ہرگز نہیں! کیا کسی کا یہ عذر قابل پذیرائی ہوسکتا ہے کہ فلاں نے چونکہ جھوٹ بولا تھا اس لیے میں نے بھی بولا ہے فلاں نے چونکہ چوری کی تھی اس لیے میں نے بھی کی ہے۔ فلاں نے چونکہ کفر بکا تھا اس لیے میں نے بھی اس کا ارتکاب کیا ہے اس قسم کے جواب (کہ میں نے مسیح کو الزامی گالیاں دی تھیں) تو دوزخی لوگ دیں گے مومن کو بہت احتیاط کرنی چاہیے اگر کوئی آنحضرت علیہ السلام کو گالی دے تو کسی مسلمان کا یہ کام نہیں کہ وہ اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح کو گالیاں دے دے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ آنحضرت علیہ السلام کو دو گالیاں دیتا ہے ایک اس بکواس کرنے والے کی معرفت اور ایک خود لیکن وہ یاد رکھے کہ یہ بہت سخت بغاوت اور سرکشی ہے کوئی معمولی گناہ نہیں (اس) سے ایمان سلب ہو جاتا ہے قرآن نے اس کا نام کفر رکھا ہے، مرزے محمود کا خطبہ جمعہ مورخہ ۱۸؍ جون ۱۹۱۵ء مندرجہ الفضل ۲۲؍ جون ۱۹۱۵ء بحوالہ خطبات محمود ص۳۵۷ تا ۳۵۹، ج۴ ملخصاً ۔ ابو صہیب
(۴۵۵) چشمہ مسیحی ص ب و روحانی ص۳۳۶، ج۲۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(۷) انجیل کی تعلیم حلم منجانب اللہ نہ تھی
'' حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودی علماء کو سخت گالیاں دیں۔ پس کیا ایسی تعلیم ناقص جس پر انہوں نے آپ بھی عمل نہ کیا، خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوسکتی ہے؟ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔'' (۴۵۶)
اس کے خلاف
مرزا صاحب قرآن مجید کی مناسب فطرت اور عالمگیر تعلیم ''برمحل نرمی و برموقع سختی کا ذکر کرکے لکھتے ہیں:
'' انجیل کی تعلیم اس کمال کے مرتبے سے جس نے نظامِ عالم، مربوط و مضبوط ہے، تنزل و فروتر ہے، اس تعلیم کو کامل خیال بھی بھاری غلطی ہے یہ ان ایام کی تدبیر ہے کہ جب قوم بنی اسرائیل کا اندرونی رحم بہت کم ہوگیا تھا اور خدا کو منظور تھا کہ جیسا وہ لوگ مبالغہ سے کینہ کشی کی طرف مائل تھے ایسا ہی بہ مبالغہ تمام رحم اور در گزر کی طرف مائل کیا جاوے لیکن یہ رحم اور درگزر کی تعلیم ایسی تعلیم نہ تھی جو ہمیشہ کے لیے قائم رہ سکتی بلکہ مختص المقام چند روزہ انتظام تھا۔'' (۴۵۷)
ایسا ہی احمدیہ پاکٹ بک والے نے بھی صفحہ ۴ پر لکھا ہے۔
حاصل یہ کہ چشمہ مسیحی کی عبارت میں انجیل کی تعلیم حلم و درگزر کو غیر منجانب اللہ لکھا مگر براہین میں من عنداللہ۔ (۴۵۸)
------------------------------------------------------------------
(۴۵۶) ایضاً ص۱۳ و روحانی ص۳۴۶، ج۲۰
(۴۵۷) براھین احمدیہ ص۳۵۷ تا ۳۵۹، ج۴ و روحانی ص۴۲۶ تا ۴۲۹، ج۱
(۴۵۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۴ طبعہ ۱۹۳۲ء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(۸)ختم نبوت
۱: '' چونکہ ہمارے سید و رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی نہیں آسکتا، اس لیے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں۔'' (۴۵۹)
۲: '' قرآن شریف سے ثابت ہوا کہ اس اُمت میں سلسلہ خلافت دائمی کا اسی طور پر قائم کیا گیا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں قائم تھا، صرف اسی قدر لفظی فرق رہا کہ اس وقت تائید دین کے لیے نبی آتے تھے، اور اب محدث آتے ہیں۔'' (۴۶۰)
۳: نہ مجھے دعویٰ نبوت۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا قائل اور یقین کامل سے جانتا ہوں اور محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں آنجناب کے بعد اس امت کے لیے کوئی نبی نہیں آئے گا نیا ہو یا پرانا اور قرآن شریف کا ایک نقطہ یا شوشہ منسوخ نہیں ہوگا ہاں محدث آئیں گے جو اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں اور نبوت تامہ کے بعض صفات ظلی طور پر اپنے اندر رکھتے ہیں اور بلحاظ بعض وجوہ شان نبوت کے رنگ سے رنگین کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک میں ہوں (گویا ایسے بہت سے ہوتے ہیں۔ناقل) (۴۶۱)
ایسا ہی ہم ہفوات مرزا نمبر ۱ میں اشتہار مرزا نقل کر آئے ہیں کہ مرزا ختم نبوت کا قائل اور دعویٰ نبوت سے انکاری ہے اور '' صرف محدث غیر نبی'' ہونے کا مدعی ہے۔
اس کے خلاف
'' در حقیقت یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں۔ ختم نبوت کے ایسے معنی کرتے ہیں جس سے نبوت ہی باطل ہوتی ہے۔ کیا ہم ختم نبوت کے یہ معنی کرسکتے ہیں کہ وہ تمام برکات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ملنی چاہئیں تھیں وہ سب بند ہوگئے (۴۶۲) خدا کا یہ قول ولٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیْینَ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے لیے مہر ٹھہرائے گئے ہیں۔ یعنی آئندہ کوئی نبوت کا کمال بجز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی مہر کے کسی کو حاصل نہیں ہوگا غرض اس آیت کے یہ معنی تھے جن کو الٹا کر نبوت کے آئندہ فیض سے انکار کردیا گیا۔ نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ دوسرے کو ظلی طور پر نبوت کے کمالات سے متمتع کردے۔'' (۴۶۳)
'' ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔'' (۴۶۴)
پہلی تحریرات میں ختم نبوت کا اقرار ہے دوسری میں انکار۔
--------------------------------
(۴۵۹) شھادت القرآن ص۲۸ و روحانی ص۳۲۴، ج۶
(۴۶۰) ایضاً ص۶۰ و روحانی ص۳۵۶،ج۶
(۴۶۱) نشان آسمانی ص۳۰ تا ۳۱ و روحانی ص۳۹۰ تا ۳۹۱، ج۴
(۴۶۲) چشمہ مسیحی ص۶۷ و روحانی ص۳۸۳، ج۲۰
(۴۶۳) ملخصًا ایضاً ص۷۴ و روحانی ص۳۸۸، ج۲۰ و تفسیر مرزا ص۶۶، ج۷
(۴۶۴) بدر جلد ۷ نمبر۹ مورخہ ۵ مارچ ۱۹۰۸ء ص۲ والحکم جلد ۱۳، ۱۷ مورخہ ۶ ؍ مارچ ۱۹۰۸ء ص۵ و ملفوظات مرزا ص۴۴۷، ج۵ و حقیقت النبوۃ ص۲۱۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(۹) مسیح نیک تھا
۱: '' حضرت مسیح علیہ السلام تو ایسے خدا کے متواضع اور حلیم اور عاجز اور بلقیس بندے تھے جو انہوں نے یہ بھی روا نہ رکھا جو کوئی ان کو نیک آدمی کہے۔'' (۴۶۵)
۲: حضرت مسیح علیہ السلام تو وہ بے نفس انسان تھے جنہوں نے یہ بھی نہ چاہا کہ کوئی ان کو نیک انسان کہے۔'' (۴۶۶)
اس کے خلاف
'' یسوع اس لیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور خراب چال چلن۔'' (۴۶۷)
مرزائی عذر:
ست بچن میں کفارہ کے ابطال میں انجیل سے الزامی جواب دیا ہے۔ چنانچہ جس عبارت پر حاشیہ ہے اس کے یہ الفاظ ہیں:
'' یسوع کے مصلوب ہونے سے اس پر ایمان لانے والے گناہ سے رک نہیں سکتے۔'' الخ (۴۶۸)
الجواب:
ہمارا اعتراض یہ نہیں کہ کفارہ پر ایمان لانے سے عیسائی گناہ سے بچے یا نہ۔ ہمارا اعتراض تو یہ ہے کہ انجیل کا ایک ہی فقرہ ہے جسے حضرت یسوع مسیح کے انکسار و تواضع کا ثبوت بھی بنایا گیا ہے اور دوسری جگہ اپنی نفساتی عادت ''دشنام طرازی'' کے ماتحت اسی فقرہ کو مورد اعتراض بتایا ہے۔
-------------------------------------------------
(۴۶۵) براھین احمدیہ ص۱۰۲، ج۱ و روحانی ص۹۴، ج۱
(۴۶۶) چشمہ مسیحی ص۵۷ و روحانی ص۳۷۵، ج۲۰
(۴۶۷) ست بچن ص۱۷۲ و روحانی ص۲۹۶، ج۱۰
(۴۶۸) ایسا معترض در اصل مرزا جی کی تحریرات کا رنگ بدل کر حقیقت پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ مرزا قادیانی کہتا ہے کہ : یہی وہ سِر ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہا گیا کہ اے نیک استاد تو انہوں نے کہا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے۔ اس پر آج کل کے نادان عیسائی تو یہ کہتے ہیں کہ ان کا مطلب اس فقرہ سے یہ تھا کہ تو مجھے خدا کیوں نہیں کہتا۔ حالانکہ حضرت مسیح نے بہت ہی لطیف بات کہی تھی جو انبیاء علیہم السلام کی فطرت کا خاصہ ہے۔ وہ جانتے تھے کہ حقیقی نیکی تو خدا تعالیٰ ہی سے آتی ہے۔ وہی اس کا چشمہ ہے اور وہیں سے وہ اترتی ہے وہ جس کو چاہے عطا کرے اور جب چاہے سلب کرلے مگر ان نادانوں نے ایک عمدہ اور قابل قدر بات کو معیوب بنا دیا اور حضرت عیسیٰ کو متکبر ثابت کیا! حالانکہ وہ ایک منکسر المزاج انسان تھے۔ الحکم جلد ۹ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۵ء ص۲ وملفوظات مرزا ص۲۱۳، ج۴ و تفسیر مرزا ص۱۴۸، ج۴۔ مرزا کی اس عبارت سے واضح ہے کہ ست بچن کی عبارت الزامی نہیں ہے کیونکہ ''تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے'' کا جو مفہوم مرزا جی نے بیان کیا ہے وہ عیسائیوں کے مسلمات میں سے نہیں! بلکہ اُن کے نزدیک اس کا یہ معنی ہے کہ تو مجھے نیک کی بجائے خدا کیوں نہیں کہتا جیسا کہ خود مرزا نے اعتراف کیا ہے، مگر الزامی جواب میں یہ ضروری ہے کہ جواب فریق ثانی کے مسلمات سے ہو ورنہ الزامی جواب نہ ہوگا لہٰذا گزارش ہے کہ عقل کے ناخن لو کیا کہہ رہے ہو۔ (ابو صہیب)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(۱۰) یسوع کی روح والا انسان شریر مکار
'' ایک شریر مکار نے جس میں سراسر یسوع کی روح تھی۔'' (۴۶۹)
اس کے خلاف
'' مجھے (خدا نے) یسوع مسیح کے رنگ میں پیدا کیا اور تو اور طبع کے لحاظ سے یسوع کی روح میرے اندر رکھی۔'' (۴۷۰)
مرزائیوں کی رسول دشمنی کلماتِ نبویہ میں اختلاف ثابت کرنے کی ناپاک سعی
اعتراض اوّل:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو موسیٰ علیہ السلام سے اچھا نہ کہو'' بخاری فی الخصومات باب ما یذکر فی الاشخاص)
مگر بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں تمام انبیاء کا سردار ہوں۔ (۴۷۱)
الجواب:
(۱) مرزائی معترض کا یہ کہنا کہ حدیث '' مجھ کو موسیٰ علیہ السلام سے اچھا نہ کہو'' اور '' جو یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بڑا ہوں'' وہ جھوٹ بولتا ہے ''پہلے فرمایا اور بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: میں تمام انبیاء کا سردار ہوں۔'' مرزائی معترض ثبوت پیش کرے اور بتائے کہ کہاں لکھا ہے کہ پہلی دو حدیثیں پہلے بیان فرمائیں۔ اور تیسری بعد میں بیان فرمائی۔ ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ''میں تمام انبیاء کا سردار ہوں'' پہلے فرمایا اور پھر خاص واقعات کی بنا پر، چند افراد کے دلوں سے گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے خلاف جذبات نفرت و حقارت دور کرنے کی خاطر فرمایا کہ ''موسیٰ سے مجھ کو، اچھا نہ کہو'' اس کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ انبیاء سابقہ کے متعلق بھی لوگ نیک جذبات رکھیں اور کہیں مقابلے میں ان کے متعلق گستاخانہ کلمہ منہ سے نہ نکالیں۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے لے کر وصال الٰہی تک بالیقین اسی عقیدہ پر قائم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے سردار ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی اکثر آیات شاہد ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر انبیاء کے متعلق بھی ایسا ہی فرمایا کہ ان میں سے کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو مَنْ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی فَقَدْ کَذَبَ(۴۷۲) ۔
لاریب ایک نبی اللہ کا نام لے کر دوسرے کو اس پر فضیلت دینا ممنوع ہے لیکن بصورت تعبیر، کیونکہ اس طرح باہمی انبیاء میں منافرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اسلام آیا ہے تمام انبیاء کے احترام کو قائم کرنے کے لیے لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُسُلِہٖ (۴۷۳) بات یہ ہے کہ اظہار فضیلت بصورتِ تعییر در شے ہے اور بطور اظہار حقیقت کے شئی دیگر۔ ممنوع پہلا حصہ ہے نہ دوسرا۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ انبیاء کرام آپس میں فی الحقیقت بھی ایک درجے کے ہیں۔ قرآن پاک شاہد ہے کہ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ (۴۷۴) جماعت انبیاء سے ہم بعض کو بعض پر فضیلت دے چکے ہیں:
'' خا ص کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو وہ شان ہے کہ تمام انبیاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد پر کمر بستہ ہونے کا وعدہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہوا ہے۔'' (حقیقۃ الوحی مصنفہ مرزا ص۱۳۰)
۲: بڑے کو گھر تک پہنچانے کے لیے ہم اسی جواب پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ مرزا صاحب کے ہاتھ سے مرزائیوں کے کذب پر مہر تصدیق ثبت کراتے ہیں سنیے اور گوش ہوش سے سنیے:
لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْن(۴۷۵) کی تفسیر میں مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' اس آیت میں ان نادان موحدوں کا رد ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور ضعیف حدیثوں کو پیش کرکے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن متی سے بھی زیادہ فضیلت نہ دی جائے۔ یہ نادان نہیں سمجھتے کہ اگر وہ حدیث صحیح بھی ہو تب وہ بطور انکسار اور تذلل ہے جو ہمیشہ ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی۔ ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اگر کوئی صالح اپنے خط کے نیچے ''احقر عباد اللہ'' لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص در حقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباد اللہ ہے کس قدر نادانی اور شرارتِ نفس ہے۔'' (۴۷۶)
مرزا صاحب کے قول کے بموجب معترض میں ''نادانی اور شرارتِ نفس'' پائی جاتی ہے۔
اعتراض دوم:
بخاری شریف میں ایک حدیث ہے وَاَتَی النَّبِیُ ﷺ بَنی حارثۃ فَقَالَ یَا بنی حَارِثَۃَ قَدْ خَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَم ثم التفت فقال بل اَنْتُمْ فِیْہِ (بخاری کتاب الحج باب حرم المدینہ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی حارثہ کے پاس تشریف لے گئے۔ اور فرمایا، اے بنی حارثہ تم لوگ حرم سے باہر نکل گئے ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِدھر ادھر دیکھ کر فرمایا: نہیں تم حرم کے اندر ہو '' اب قَدْ خَرَجْتم من الحرم اور بل اَنتم فیہ میں تناقض ہے یا نہیں؟'' (۴۷۷)
الجواب:
اس حدیث میں تو مرزائی معترض مصنف مرزائی پاکٹ بک کی یہودیانہ تحریف نے یہودیوں کے بھی خصائص مروجہ کو مات کردیا ہے۔ جو لفظ اس کی تحریف کا اظہار کرنے والا تھا، اسے ہضم ہی کر گیا۔ حدیث میں اُرَاکُمْ قَدْ خَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَمِ(۴۷۸) یعنی میں گمان کرتا ہوں کہ تم حرم سے نکل گئے ہو۔ اُرَاکُمْ مجہول کا ایسا صیغہ ہے جو ظن و گمان کے معنی دیتا ہے۔ ملاحظہ ہو کتب لغت حدیث مثل نہایہ ابن اثیر وغیرہ(۴۷۹)۔ اسی لیے بخاری شریف کے حاشیہ پر اس کے تحت میں لکھا ہے:
جَزَمَ بِمَا غَلَبَ عَلٰی ظَنِّہٖ۔
پس ابتداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظن و گمان کے تحت فرمایا کہ تم حرم سے نکل گئے ہو۔ مگر بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے '' ادھر ادھر'' دیکھا اور معلوم کیا کہ وہ حرم سے نہیں نکلے تو فرمایا نہیں تم اندر ہی ہو۔ یہ تناقض کہاں ہوا۔ فَبَطَلَ مَاکَانُوْا یَاْفِکُوْنَ آہ :
الٹی سمجھ کسی کو بھی ہرگز خدا نہ دے
دے آدمی کو موت پر یہ بد ادا نہ دے
تیسرا اعتراض:
بعض دفعہ ناسمجھی سے معترض تناقض سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ دراصل تناقض نہیں ہوتا۔ جیسا کہ قرآن مجید کی آیت { وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَھَدٰی }اور {ما ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی} میں۔ (۴۸۰)
الجواب:
یہ سیاہ باطن انسان کیسی چالیں چل رہا ہے۔ کفر باطنی تو جوش مارتا ہے کہ لگے ہاتھوں قرآن پر بھی ہاتھ صاف کرکے مرزائی نبوت کے ساتھ اُسے بھی دنیا میں ذلیل کردوں۔مگر قرآنی آہنی دیوار سے سر ٹکرانا باعث ہلاکت سمجھ کر نادانی اور ناسمجھی کے قلعہ میں پناہ گزین ہوتا ہے۔
جس طرح یہ صحیح ہے کہ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِیْہِ اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ ایک مراقی انسان کے پیروؤں میں بھی مراق کا اثر ہو۔ احمدیہ پاکٹ بک کا مصنف مرزا صاحب کے ہفوات کی مدافعت کرتا کرتا خود ہی تخالف و تہافت کے اندھے کنوئیں میں اوندھے بل گرا ہے۔
اب مرزا صاحب کے قلم سے اس کا مطلب سنیے اور اپنے ملحدانہ عقائد سے توبہ کیجیے:
وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَھَدٰی اب ظاہر ہے کہ ضَال کے معنی مشہور اور متعارف جو اہل لغت کے منہ پر چڑھے ہوئے ہیں۔ گمراہ کے ہیں جس کے اعتبار سے آیت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے (اے رسول اللہ) تجھ کو گمراہ پایا اور ہدایت دی حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گمراہ نہیں ہوئے اور جو شخص مسلمان ہو کر یہ اعتقاد رکھے کہ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر میں ضلالت کا عمل کیا تھا تو کافر بے دین اور حد شرعی کے لائق ہے بلکہ آیت کے اس جگہ وہ معنی لینے چاہئیں جو آیت کے سیاق و سباق سے ملتے اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا: اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوی وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَھَدٰی وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی یعنی خدا نے تجھے یتیم اور بے کس پایا اور اپنے پاس جگہ دی اور تجھ کو ضال (یعنی عاشق وجہ اللہ) پایا پس اپنی طرف کھینچ لایا اور تجھے درویش پایا پس غنی کردیا۔'' (۴۸۱)
-------------------------------------------------------
(۴۶۹) ضمیمہ انجام آتھم ص۵ و روحانی ص۲۸۹، ج۱۱
(۴۷۰) تحفہ قیصریہ ص۲۰ و روحانی ص۲۷۲، ج۱۲
(۴۷۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۱، طبعہ ۱۹۳۲ء
(۴۷۲) صحیح بخاری ص۶۶۲، ج۲ کتاب التفسیر باب یستفتونک قل اللّٰہ یفتیکم فی الکلالۃ مسلم ص
(۴۷۳) پ۳ البقرہ آیت ۲۸۶
(۴۷۴) پ۳ البقرہ آیت ۲۵۴
(۴۷۵) پ۸ الانعام آیت: ۱۶۴
(۴۷۶) آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۳ و تفسیر مرزا ص۱۳۴، ج۴ و روحانی ص۱۶۳، ج۵
(۴۷۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۲ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۴۷۸) صحیح بخاری ص۲۵۱، ج۱ فی الفضائل باب حرم المدینۃ
(۴۷۹) لغات الحدیث ص۷، ج۲ کتاب الراء المہملۃ ولسان العرب ۲۔۳۰۴، ج۱۴ وتاج العروس ص۱۴۳، ج۱۰
(۴۸۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۹۳۹، طبعہ ۱۹۴۵ء
(۴۸۱) آئینہ کمالات اسلام ص۱۷۰ تا ۱۷۱ و تفسیر مرزا ص۴۰۷، ج۸ و روحانی ص۱۷۰ تا ۱۷۱، ج۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
کذب مرزا پر پانچویں دلیل

کذبات مرزا
پہلا جھوٹ:
''اول تم میں سے مولوی اسماعیل علی گڑھ نے میرے مقابل پر کہا کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا سو دس سال کے قریب ہوچکے وہ مر گیا۔
مولوی اسمٰعیل نے یہ کہیں نہیں لکھا اور نہ کہا۔ ثبوت بذمہ مدعی۔
دوسرا جھوٹ:
دیکھو خدا تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افترا کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا۔(۴۸۳)
ایسا ہی صفحہ ۴۹، ۵۰، ۶۳، انجام آتھم (۴۸۴) میں لکھا ہے حالانکہ قرآن پاک میں کہیں نہیں لکھا کہ میں مفتری کو جلد ہلاک کرتا ہوں۔ بلکہ اس کے الٹ ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۔ مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا۔ (۴۸۵) (سورۂ یونس ع) جو لوگ خدا پر افترا کرتے ہیں وہ نجات نہیں پائیں گے؟ ہاں دنیا میں انہیں نفع ہو تو ہو۔ ماسوا اس کے خود مرزا صاحب کو اقرار ہے کہ مفتری کو ۲۳ سال تک مہلت مل سکتی ہے زیادہ نہیں ملاحظہ ہو ص۶ اربعین نمبر ۴، و ص۲ ضمیمہ اربعین نمبر۳،۴ وغیرہ۔(۴۸۶)
تیسرا جھوٹ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم علیہ السلام پر قیامت آجائے گی۔(۴۸۷)
یہ صریح جھوٹ ہے۔ بہتان ہے افترا ہے۔ کسی حدیث میں نہیں کہ تمام بنی آدم علیہ السلام پر سو سال تک قیامت آجائے گی۔
چوتھا جھوٹ:
انبیاء گزشتہ کے کشوف نے اس بات پر مہر لگا دی ہے کہ وہ (مسیح موعود) چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہوگا۔ (۴۸۸)کسی نبی کا ایسا کشف موجود نہیں جس میں یہ لکھا ہو۔
پانچواں جھوٹ:
بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس (مسیح موعود خلیفہ) کے لیے آواز آئے گی ھذا خلیفۃ اللّٰہِ الْمَھْدِیْ۔ (۴۸۹)
بخاری میں یہ حدیث نہیں ہے۔
مرزائی کہا کرتے ہیں فلاں امام نے فلاں حدیث بحوالہ بخاری لکھی جو اس میں نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بھی اسی طرح کی غلطی ہے۔(۴۹۰)
جواب:
اس کا یہ ہے کہ ان کا دعویٰ مرزا کی طرح یہ نہیں تھا کہ '' روح القدس'' کی قدسیت ہر وقت، ہر دم، ہر لحظہ، بلا فصل ملہم (خود بدولت) کے اندر کام کرتی رہتی ہے۔(۴۹۱)
چھٹا جھوٹ:
تفسیر ثنائی میں لکھا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فہم قرآن میں ناقص تھا اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔(۴۹۲)
یہ بھی ایک گندہ اور ناپاک جھوٹ ہے ہرگز تفسیر ثنائی میں یہ نہیں لکھا ہے۔
ساتواں جھوٹ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہیے کہ بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے۔ (اشتہار تمام مریدوں کے لیے عام ہدایت مندرجہ اخبار الحکم ۲۴؍ اگست ۷ء) ۔(۴۹۳)
یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا ہے۔
آٹھواں جھوٹ:
(میری پیشگوئی عبداللہ آتھم) میں یہ بیان تھا فریقین میں سے جو شخص اپنے عقیدہ کی رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ سو مجھ سے وہ پہلے مر گیا۔(۴۹۴)
حالانکہ پیش گوئی میں تھا کہ جو شخص غلط عقیدہ پر ہے وہ پندرہ ماہ میں مر جائے گا۔ مگر مرزا صاحب اس جگہ پندرہ ماہ کی قید اڑا کر پیش گوئی کو وسیع کر رہے ہیں۔
نواں جھوٹ:
احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا امام ہوگا۔ (۴۹۵)
یہ بھی جھوٹ ہے کسی حدیث میں مسیح کا چودھویں صدی میں آنا نہیں لکھا۔
دسواں جھوٹ:
تین ہزار بار یا اس سے بھی زیادہ اس عاجز کے الہامات کی مبارک پیشگوئیاں جو امن عامہ کے مخالف نہیں پوری ہوچکی ہیں۔(۴۹۶)
حالانکہ اس کے بعد ۱۹۰۱ء میں مرزا صاحب '' ایک غلطی کا ازالہ'' کے ص۶ پر لکھتے ہیں:
'' پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں۔(۴۹۷)
جھوٹوں پر مرزا صاحب کا فتویٰ
۱: '' وہ کنجر جو ولد الزنا کہلاتے ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں۔ مگر اس آریہ میں اس قدر بھی شرم باقی نہ رہی۔'' (۴۹۸)
۲: '' جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔'' (۴۹۹)
۳: '' جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔'' (۵۰۰)
۴: '' جھوٹ ام الخبائث ہے۔'' (۵۰۱)
۵: '' جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔''(۵۰۲)
لعنت ہے مفتری پر خدا کی کتاب میں
عزت نہیں ہے ذرہ بھی اس کی جناب میں(۵۰۳)
------------------------------------------
(۴۸۲) نزول المسیح ص۳۱ و روحانی ص۴۰۹، ج۱۸ ، نوٹ: مولانا اسماعیل مرحوم علی گڑھی معروف اہل حدیث عالم تھے آپ نے مرزا کے رد میں القول الصریح فی تکذیب مثیل المسیح ، کے نام سے ایک مفصل کتاب بھی لکھ کر شائع کی تھی ۱۳۱۱ھ میں علی گڑھ میں وفات پائی، نزھۃ الخواطر ص۵۴، ج۸ ۔ ابو صہیب
(۴۸۳) نشان آسمانی ص۳۷ و روحانی ص۳۹۷، ج۴
(۴۸۴) روحانی خزائن ص۴۹ ، ۵۰ ، ۶۳، ج۱۱ و مجموعہ اشتھارات ص۲۸۱، ج۲
(۴۸۵) پ۱۱ یونس آیت: ۷۰، ۷۱
(۴۸۶) دیکھئے روحانی ص۴۳۵، ۴۶۸، ج۱۷ و تفسیر مرزا ص۲۱۳، ج۸
(۴۸۷) ازالہ اوہام ص۲۵۲ و روحانی ص۲۲۷، ج۳،
(۴۸۸) اربعین ص۴۳نمبر ۲ و روحانی ص۳۷۱، ج۱۷ ، نوٹ: اربعین کی عبارت میں اولیاء گزشتہ کے کشوف کا ذکر ہے چنانچہ اربعین کے پہلے اور دوسرے ایڈیشنوں میں علی الترتیب ص۲۳ و ۲۵ میں، اولیا گزشتہ' ہی کا لفظ ہے۔ ہاں اربعین کے ایک ایسے ایڈیشن میں جو بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان، کی طرف سے شائع ہوا تھا میں، انبیاء گزشتہ کے کشوف کا ذکر ہے۔ مگر مؤلف مرزائی پاکٹ بک کا کہنا ہے کہ یہ کتاب کی غلطی ہے۔ (ص ۹۰۳)
ہمیں اس حقیقت کا اعتراف ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مرزا نے صاف لکھا ہے کہ چودھویں صدی کے سر پر مسیح موعود کا آنا جس قدر حدیثوں سے قرآن سے اولیاء کے مکاشفات سے بپایہ ثبوت پہنچتا ہے حاجت بیان نہیں، شھادت القرآن ص۹۶ و روحانی ص۳۶۵، ج۶ ۔ یہ عبارت اس بات کی دلیل ہے کہ مرزا نے اسی سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیا ہے کیونکہ مسیح موعود کا چودھویں صدی میں قرآن و حدیث نے قطعاً بیان نہیں کیا۔ ابوصہیب
(۴۸۹) شھادت القرآن ص۴۱ و روحانی ص۳۳۷، ج۶
(۴۹۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۸۸۷ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۴۹۱) حاشیہ آئینہ کمالات اسلام ص۹۳ و روحانی ص۹۳، ج۵
(۴۹۲) براھین احمدیہ ص۲۳۴، ج۵ و روحانی ص۴۱۰، ج۲۱
(۴۹۳) الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۹۰۷ء
(۴۹۴) کشتی نوح ص۶ و روحانی ص۶، ج۱۹
(۴۹۵) براھین احمدیہ ص۱۸۸، ج۵ و روحانی ص۳۵۹، ج۲۱
(۴۹۶) حقیقت المھدی ص۱۵ و روحانی ص۴۴۱، ج۱۴
(۴۹۷) مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۴۳۵، ج۳ وروحانی ص۲۱۰، ج۱۸ و حقیقت النبوۃ ص۳۶۴
(۴۹۸) شمنہ حق ص۴۶ و روحانی ص۳۸۶، ج۲
(۴۹۹) اربعین ص۲۰، نمبر ۳ و روحانی ص۴۰۷، ج۱۷ حاشیہ
(۵۰۰) حقیقت الوحی ص۲۰۶ و روحانی ص۲۱۵، ج۲۲
(۵۰۱) تبلیغ رسالت ص۲۸، ج۷
(۵۰۲) چشمہ معرفت و ۲۲۲ و روحانی ص۲۳۱، ج۲۳
(۵۰۳) نصرۃ الحق ص۱۱ و روحانی ص۲۱، ج۲۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مرزائی پاکٹ بک کے جھوٹے اعتراضوں کا جواب

(۱)صحیح ترمذی کتاب المناقب میں ہے۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو قرآن پڑھ کے سناؤں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لَمْ یکْنِ الَّذِیْنَ کَفُروْا والی سورت پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیَفِیتَّہُ الْمُسْلِمَۃَ ولَا یَھُوَدِیَّۃَ اب اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الدین عند اللّٰہ الی الاخر کو قرآن مجید لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا والی سورت کی آیات قرار دیا ہے۔ ذرا کوئی مولوی لَمْ یَکُنَ الَّذِیْنَ والی سورت تو کجا سارے قرآن میں سے کسی جگہ نکال کر دکھا دیں۔(۵۰۴)
الجواب:
قرآن پاک عربی مبین میں ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عربی نژاد ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو ان پر آیات پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کی کیا وجہ! کیا وہ خود ان آیات کا لفظی ترجمہ نہیں جان سکتے تھے؟ یقینا پھر بات کیا ہے؟ قرآن پاک شاہد ہے کہ گروہ صحابہ میں سے ایک طائفہ تبلیغ و تفہیم قرآن کے لیے بالخصوص مخصوص تھا جن میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بحکم خدا ان پر آیات کی تلاوت کرنا تعلیم الفاظ و کیفیت آداب و مواضع الوقوف کی تفہیم و مطالب قرآنیہ کی تشریح کے لیے تھا۔ لہٰذا صاف عیاں ہے کہ الفاظ وَاِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَیِنْفِیَّۃُ بطور تفسیر ہیں۔
خود حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا فرمانا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر سورہ لَمْ یکن الذین پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا۔ صاف دال ہے کہ وہ خود بھی ان الفاظ کو قرآن نہیں بلکہ تفسیر سمجھتے تھے۔
مرزائی صاحب چونکہ دل سے جانتے ہیں کہ حقیقت یہی ہے اس لیے بموجب ضرب المثل ''چور کی داڑھی میں تنکا'' آگے چل کر بطور خود جواب بھی دیتے ہیں کہ:
'' یاد رکھنا چاہیے کہ حدیث مذکورہ بالا میں لفظ قَرَأَ فِیْھَا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت میں یہ عبارت پڑھی تھی اس کو سورت کی تفسیر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ورنہ قال فِیْھَاکہنا چاہیے تھا۔(۵۰۵)
گویا معترض ان الفاظ کو تفسیر ماننے کو تیار ہے اگر قَالَ فِیْھَا ہوتا۔ بہت خوب:
راہ پر آگیا ہے وہ خود باتوں میں!
اور کھل جائے گا دو چار ملاقاتوں میں
قَرَأَ کا لفظ قرآن کے لیے مخصوص نہیں۔ دیگر گفتگو پر بھی آتا ہے۔(۵۰۶) بخاری کتاب العلم باب القراء ۃ والعرض علی المحدث کو غور سے پڑھیے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مفہوم قرآن پر بھی قرأۃ کا لفظ اہل عرب (بالخصوص جملہ محدثین) کے نزدیک مستعمل ہے چنانچہ امام المحدثین امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ الباری مفہوم اور معانی قرآن پر قرأت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ضمام بن ثعلبۃ انہ قال للنبی ﷺ اللّٰہُ اَمَرَکَ ان نصلی الصلوٰۃ قَالَ نَعَمَ قَالَ فَھٰذہ القراء ۃ علی النبی ﷺ (بخاری کتاب العلم باب مذکورہ)(۵۰۷) ضمام بن ثعلبہ کا واقعہ ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اللّٰہُ اَمَرَکَ کیا خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں فرمایا ہاں! امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قرأت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
فرمایا اللّٰہ اَمَرَکَ قرآن کے لفظ ہیں؟ نہیں۔ پھر دیکھئے اس پر امام المحدثین قرأۃ کا لفظ بولتے ہیں یا نہیں؟ اس پر بھی زنگ دل دور نہ ہو تو سنیے قرآں پاک سے مثال دیتا ہوں قیامت کے دن جب دشمنان دین معاندین رسول، دست و پا بستہ دربارِ خداوندی میں حاضر کئے جائیں گے تو انہیں فرمان ہوگا۔ اِقَرَأْ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔(۵۰۸) بدبخت آج تو خود ہی اپنے نامہ اعمال کو پڑھ لے۔
فریب خوردہ انسان ! کیا اس دن خدا پر بھی اعتراض کرے گا کہ قَرَأَ کا لفظ تو صرف قرآن پر مخصوص ہے۔ الٰہی تو میرے سیاہ نامے پر اسے کیوں استعمال کر رہا ہے؟ غالباً نہیں، یقینا جواب یہی ملے گا کہ :
تو آشنائے حقیقت نۂٖ خطا اینجاست
ایک اور طرز سے:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان مبارک ہستیوں میں سے ہیں، جنہیں عہد نبوی میں جمع قرآن کی خدمت سپرد ہوئی تھی عَنْ اَنَسٍ جَمَعَ الْقُرْاٰنَ عَلٰی عَھْدِ النَّبی ﷺ اَرَبَعَۃٌ کُلُّھْمَ مِنْ اَنْصَارٍ اُبَیٌّ وَ مُعَاذ بن جبل وابو زید وزید بن ثابتٍ(بخاری باب مناقب ابی بن کعب)(۵۰۹) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں چار بزرگوار انسان انصاری، جمع قرآن کی خدمت پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے خذوا القران من اَرْبَعَۃٍ مِنَ عبداللّٰہ بْنِ مَسَعُوْدٍ وَسَالِمٍ مَوْلٰی اَبْی حُذَیْفَۃَ وَمُعَاذ بن جَبَلٍ وَابی بن کعب (حوالہ مذکورہ) قرآن چار شخصوں سے سیکھو جن میں ایک ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اندریں حالات اگر زیر بحث الفاظ قرآن کے ہوتے یا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ انہیں قرآن میں شمار کرتے تو پھر کم از کم ان کے جمع کردہ قرآن میں تو ان الفاظ کو موجود و مرقوم ہونا چاہیے تھا۔ چونکہ ایسا نہیں۔ اس لیے مہر نیم روز کی طرح روشن ہے کہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کو قرآن ظاہر کیا اور نہ ہی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں قرآن سمجھا۔ پس مرزائی اعتراض سراسر کور چشمی بلکہ سیاہ قلبی پر مبنی ہے۔
----------------------------------------------------------------------------------
(۵۰۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۱ و ۴۶۲ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۸۸۷، ۸۸۸ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۰۵) ایضاً ص۴۶۲
(۵۰۶) صحیح بخاری ص۱۴، ج۱
(۵۰۷) ایضاً نوٹ: یہ قول امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں بلکہ انہوں نے اپنے شیوخ سے اسے نقل کیا ہے امام بخاری کے الفاظ ہیں کہ واحتج بعضھم فی القراۃ علی العالم بحدیث ضمام بن ثعلبۃ ، صحیح بخاری ص۱۴، ج۱ اور قائل اس قول کے ابو سعید الحداد ہیں جیسا کہ امام بیہقی کے حوالے سے حافظ ابن حجر نے، فتح الباری ص۱۲۱، ج۱ میں اور محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی ص۳، ج۲ میں صراحت کی ہے۔ ابو صہیب
(۵۰۸) پ۱۵ بنی اسرائیل آیت : ۱۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
جھوٹ نمبر ۲:
بخاری (کتاب الفتن باب ذکر الدجال ) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی نے کانے دجال سے اپنی امت کو ڈرایا ہے، ہر ایک نبی کا فرداً فرداً اپنی اپنی قوم کو جن کتابوں میں دجال سے ڈرانا لکھا ہے وہ کتابیں پیش کرو۔(۵۱۰)
جواب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوحی اللہ اور ہر نبی کا دجال سے ڈرانا فرمایا ہے۔ ہاں اگر کسی کتاب کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فرماتے اور اس کتاب میں نہ ہوتا تو البتہ ایک بات تھی۔ مگر اب تو یہ اعتراض بعینہٖ یہ معنی رکھتا ہے۔
کم من عائب قولا صحیحا
واٰفتہ من الفھم السقیم
یعنی ع
گل است سعدی و درچشم دشمناں خاراست
(۲) بفرض محال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالہام کسی نبی کی کتاب کا نام بھی لیتے تو بھی اس وقت تک اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا جب تک کہ بسند معتبر اس نبی کی کتاب کو پیش کرکے اس میں اس کی عدم موجودگی نہ ثابت کی جائے پس اگر تم میں ہمت ہے تو انبیاء سابقہ کی اصلی کتابیں لاؤ ہم ان شاء اللہ ان سے دکھا دیں گے کہ ہر ایک نے دجال سے ڈرایا ہے، فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارۃٍ اُعِدَّتَ لِلْکٰفِرِیْنَ۔(۵۱۱)
-----------------------------------
(۵۰۹) صحیح بخاری ص۵۳۷، ج۱ فی المناقب باب مناقب ابی بن کعب
(۵۱۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۴ طبعہ ۱۹۳۲ء و ۹۰۳ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۵۱۱) پ۱ البقرہ آیت : ۲۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
جھوٹ نمبر ۳
حدیث ابراہیمی پر اعتراض اور اس کا جواب:
قرآن پاک میں ہے کہ جناب ابراہیمp نے کفار کے بتوں کو توڑا فَجَعَلَھُمْ جُذَ اذًا اِلاَّ کَبیرًا لَھُمْ لَعَلَّھُمْ اَلَیَہِ یَرجِعُوْنَ۔(۵۱۲) کردیا ان کو ٹکڑے ٹکڑے مگر بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع ہوں جب وہ بت خانے میں آئے اور اپنے معبودوں کی درگت دیکھی تو قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا۔ (۵۱۳) بولے ہمارے خداؤں کی یہ دروشاکس نے بنائی ہے کسی نے کہا ابراہیم علیہ السلام نے۔ تب حضور علیہ السلام کو بلا کر کہنے لگے ئَ اَنَْ فَعَلْتَ کیا یہ تو نے کیا ہے؟ قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذا فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے۔(۵۱۴)
ایسا ہی ایک واقعہ سورہ والصفت میں مرقوم ہے کہ کفار نے آپ کو اپنے ساتھ آنے کی درخواست کی چونکہ آپ تہیہ فرما چکے تھے کہ آج ان کے بتوں کو توڑ دوں گا۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اِنی سَقِیْمٌ میں بیمار ہوں۔ اسی طرح ایک یہ واقعہ ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو بہن کہہ دیا۔
ان تین واقعات میں پہلے دو واقعات تو سراسر ہمدردی مخلوق پر مبنی ہیں یعنی گمراہ ہوئی قوم کے لیے بتوں کو توڑنا وہ بھی اس طرح کہ آپ پہلے سے کہہ چکے تھے وَ تَا للّٰہِ لَاَکِیْدَن اَصْنَا مَکُمْ بَعْدَ اَنُ تُوَلُّوْ مُدْبِرِیْنَ(۵۱۶) خدا کی قسم جب تم چلے جاؤ گے میں تمہارے بتوں سے ایک گہری تدبیر کروں گا۔ جب انہوں نے ساتھ چلنے کو کہا۔ تو فرمایا میں بیمار ہوں (یعنی تمہاری گمراہی میرے لیے روگ بن رہی ہے جب تک اسے دور نہ کرلوں تمہارا میرا ساتھ نہیں نبھ سکتا) پھر جب وہ چلے گئے تو بتوں کو توڑ دیا اور بڑے بت کو رہنے دیا ۔ جب انہوں نے اس بارے میں سوال کیا تو فرمایا اس بڑے بت نے توڑا ہے فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔ اب بھلا بت کیا بولتے۔ مٹی مجسموں میں طاقت گویائی کہاں؟ اور یہی مطلب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تھا کہ وہ غور کریں جب یہ بول نہیں سکتے تو ہماری مدد کیا کریں گے۔ ہدایت و گمراہی کا انحصار تو سعادت اور شقاوت قلبی پر موقوف ہے۔ تاہم جناب ابراہیم علیہ السلام کی تدبیر کا فوری اثر ان پر یہ ہوا کہ وہ اپنی گمراہی پر مطلع ہوگئے ان کے ضمیر نے انہیں مجبور کردیا کہ اقرار کریں کہ ہماری یہ غلطی تھی۔ فَرَجَعُوْ اِلٰیٓ اَنْفُسِھِمْ فَقَالُوْا اِنَّکُمْ اَنْتُمْ الظّٰلِمُوْنَ۔(۵۱۷) پس انہوں نے رجوع کیا ایک دوسرے کی طرف اور بولے کہ لا ریب ہم ظالم ہیں اور یہی مطلب اس تدبیر سے حضرت خلیل اللہ کا تھا۔
باقی رہا تیسرا واقعہ سو اس میں ایک کافر ظالم کے دست تظلم سے بچنے کی خاطر ایک ظاہر اور انسانی تدبیر تھی کہ یہ میری بہن ہے اور واقعی ہر انسان بحیثیت انسان ہونے کے اور ہر مومن بحیثیت اپنے ایمان کے ایک دوسرے کا بھائی ہے جیسا کہ خود اسی حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہی مطلب بتایا ہے یہ تینوں باتیں تعریضی ہیں جیسا کہ امام نودی اور حافظ ابن حجر(۵۱۸) نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ تینوں باتیں تعریضی ہیں جن کی حقیقت کذب کی نہیں ان سے توریہ مقصود ہے اس لیے حدیث میں صاف وارد ہوا کہ یہ سب خدا کے لیے تھیں۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف خدا کے واسطے ایسی تعریضی باتیں کہیں۔ آپ علیہ السلام نے ہرگز نہیں جھوٹ بولا ۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے موقع پر ایک باب خاص اسی مسئلہ تعریض کے متعلق باندھا ہے اَلْمَعَادِیْضُ ممدُوْحَۃٌ عَنِ الْکِذْبِ(۵۱۹) (کتاب الادب) ۔ یعنی تعریضات حقیقتاً جھوٹ نہیں ہوتیں۔ نیز مرزا صاحب اپنی کتاب وافع الوساوس میں واقعات ابراہیمی پر اعتراض کرنے والے کو خبیث، متکبر اور شیطان کہتے ہیں۔
اسلام میں ، ہاں خدا کے سچے مذہب اسلام میں کسی قسم کا دل چھل یا ہیر پھیر نہیں ہے اس لیے بانی اسلام علیہ السلام نے اس میں کوئی ہیر پھیر نہیں کیا اور ان واقعات کو کذب ہی قرار دیا ہے۔ بتلائیے اس میں کیا گناہ کیا۔ اب سنیے ہم اس بارے میں مرزا صاحب کے کلمات پیش کرتے ہیں وہ بھی ان واقعات کو '' بہ ظاہر دروغ گوئی میں داخل'' سمجھتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
یاد رہے کہ اکثر ایسے اسرار دقیقہ بصورت افعال یا اقوال انبیاء سے ظہور میں آتے رہے ہیں کہ جو نادانوں کی نظر میں سخت بیہودہ اور شرمناک کام تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصریوں کے برتن اور پارچات مانگ کر لے جانا اور پھر اپنے مصرف میں لانا اور حضرت مسیح علیہ السلام کا کسی فاحشہ کے گھر چلے جانا اور اس کا عطر پیش کردہ جو کسی حلال وجہ سے نہیں تھا استعمال کرنا اور اس کے لگانے سے روک نہ دینا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تین مرتبہ ایسے طور پر کلام کرنا جو بظاہر دروغ گوئی میں داخل تھا پھر اگر کوئی تکبر اور خود ستائی کی راہ سے اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ کہے کہ نعوذ باللہ وہ مال حرام کھانے والے تھے یا حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت یہ زبان پر لاوے کہ وہ طوائف کے گندہ مال کو اپنے کام میں لایا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت یہ تحریر شائع کرے کہ مجھے جس قدر بدگمانی ہے اس کی وجہ ان کی دروغ گوئی ہے تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے۔(۵۲۰)
اس تحریر میں صاف اقرار ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ ایسے طور پر کلام کیا جو بہ ظاہر دروغ گوئی تھا آگے چل کر اس دروغ گوئی پر اعتراض کرنے والوں کو خبیث وغیرہ القاب دئیے۔
-----------------------------
(۵۱۲) پ۱۷ الانبیاء آیت : ۵۹
(۵۱۳) ایضاً آیت : ۱۱۰
(۵۱۴) ایضاً آیت : ۶۳، ۶۴ نوٹ: قادیانیت کا معروف مفسر قرآن مرزائی صلاح الدین مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ: ایسے طرز کلام کو انگریزی میں (Irony) اور عربی میں تعریض کہتے ہیں اس میں معانی ظاہری الفاظ کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں یہ حدیث درج ہے لم یکذب ابراھیم النبی قط الاثلاث کذبات کہ ابراہیم نے صرف تین دفعہ جھوٹ بولا ہے ان باتوں کو محض ظاہری شکل و صورت کی مشابہت کی وجہ سے کذب کیا گیا ہے ورنہ دراصل وہ معاریض کلام ہیں۔ اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کا نفس اور حضور کی تعلیم اس قدر پاک تھی کہ حضور نے توریہ کو بھی کذب کا نام دیا ہے۔ ترجمہ و تفسیر قرآن ص۱۵۵۱، ج۳ طبعہ اسلام آباد ۱۹۸۱ء مؤلفہ مرزائی صلاح الدین قادیانی
(۵۱۵) پ۲۳ الصّٰفّٰ آیت : ۹۰
(۵۱۶) پ۱۷ الانبیاء آیت: ۵۸
(۵۱۷) ایضاً آیت : ۶۵
(۵۱۸) شرح صحیح مسلم ص۲۶۶، ج۲ فی الفضائل باب من فضائل ابراھیم الخلیل و فتح الباری ص۳۰۲ ، ج۶ کتاب الانبیاء باب قول اللّٰہ واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیل
(۵۱۹) بخاری ص۹۱۷، ج۲ کتاب الادب
(۵۲۰) آئینہ کمالات اسلام ص۵۹۸ و روحانی ص۵۹۸، ج۵
 
Top