- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
لوگوں کو قرآن و سنت کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے ، سلف صالحین کے فہم کے اصول سمجھانے کی ضرورت ہے ، ورنہ ہر دوسرا بندہ آپ کے لیے درد سر بن کر رہ جائے گا ۔
درخت کی جڑیں مضبوط ہوں ، تو وہ تیز آندھیوں کو بھی برداشت کرلیتا ہے ، لیکن اگر جڑیں نہ ہوں ، تو اس کے ارد گرد سہارے بھی کھڑے کر لیے جائیں ، تو وہ گر جاتا ہے ۔
شبہات کی آندھیوں سے الجھنے سے پہلے اپنی بنیادیں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔
جبریل فرشتہ ہے کہ نہیں ؟
قرآن کیا ہے ؟ توراۃ کیا ہے ؟
اگر چودہ سو سالہ علمی تاریخ رکھنے والے مسلمانوں کو اس طرح کے سوالوں نے پریشان کردیا ہے ، تو نیٹ گردی کی بجائے ، کتابوں کی ورق گرانی کرنی چاہیے ، یہاں تک کہ انسان کو ایمان کی لذت و حلاوت محسوس ہونا شروع ہوجائے ۔
میں ایسے لوگوں کو نظر انداز کرتا ہوں ، جو مجھ سے پوچھے ، اسے بھی نظر انداز کرنے کا مشورہ دیتا ہوں ، پھر بھی کوئی اصرار کرے ، تو عرض کرتا ہوں ، قرآن کریم کل رات کو نازل نہیں ہوا ، چودہ صدیوں سے نازل ہوا ہے ، اور اس وقت سے اس میں کچھ چیزیں مسلمات اور حقائق کی حیثیت رکھتی ہیں ، اگر اس نئے مفکر صاحب نے ہمارے چودہ سو سالہ علمی و تحقیقی نقطہ نظر کو زیر بحث لا کر جواب دیا ہے ، تو میں اس کا جواب دیتا ہوں ، اور اگر اس نے ان سب چیزوں کو ایک طرف رکھ کر اپنی منطق جھاڑی ہے ، تو مجھے اپنی ’ فکری روایت ‘ سے الگ ہونے والے شاذ کے ساتھ وقت ضائع کرنے کی کوئی حاجت نہیں ۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ’ ہماری چودہ سو سال شناخت ہے ‘ اور ’ کوئی اسے مسلسل نظر انداز کرنا چاہتا ہے ‘ یہ باتیں ہمیں معلوم ہونی چاہییں ۔
مجھے عوام کی فکر ہوئی ، تو میں اپنی روایت اور تاریخ کا لوگوں کو تعارف کرواؤں گا ، ایسے لوگوں کا رد کرنے کی چنداں حاجت نہیں۔
درخت کی جڑیں مضبوط ہوں ، تو وہ تیز آندھیوں کو بھی برداشت کرلیتا ہے ، لیکن اگر جڑیں نہ ہوں ، تو اس کے ارد گرد سہارے بھی کھڑے کر لیے جائیں ، تو وہ گر جاتا ہے ۔
شبہات کی آندھیوں سے الجھنے سے پہلے اپنی بنیادیں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔
جبریل فرشتہ ہے کہ نہیں ؟
قرآن کیا ہے ؟ توراۃ کیا ہے ؟
اگر چودہ سو سالہ علمی تاریخ رکھنے والے مسلمانوں کو اس طرح کے سوالوں نے پریشان کردیا ہے ، تو نیٹ گردی کی بجائے ، کتابوں کی ورق گرانی کرنی چاہیے ، یہاں تک کہ انسان کو ایمان کی لذت و حلاوت محسوس ہونا شروع ہوجائے ۔
میں ایسے لوگوں کو نظر انداز کرتا ہوں ، جو مجھ سے پوچھے ، اسے بھی نظر انداز کرنے کا مشورہ دیتا ہوں ، پھر بھی کوئی اصرار کرے ، تو عرض کرتا ہوں ، قرآن کریم کل رات کو نازل نہیں ہوا ، چودہ صدیوں سے نازل ہوا ہے ، اور اس وقت سے اس میں کچھ چیزیں مسلمات اور حقائق کی حیثیت رکھتی ہیں ، اگر اس نئے مفکر صاحب نے ہمارے چودہ سو سالہ علمی و تحقیقی نقطہ نظر کو زیر بحث لا کر جواب دیا ہے ، تو میں اس کا جواب دیتا ہوں ، اور اگر اس نے ان سب چیزوں کو ایک طرف رکھ کر اپنی منطق جھاڑی ہے ، تو مجھے اپنی ’ فکری روایت ‘ سے الگ ہونے والے شاذ کے ساتھ وقت ضائع کرنے کی کوئی حاجت نہیں ۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ’ ہماری چودہ سو سال شناخت ہے ‘ اور ’ کوئی اسے مسلسل نظر انداز کرنا چاہتا ہے ‘ یہ باتیں ہمیں معلوم ہونی چاہییں ۔
مجھے عوام کی فکر ہوئی ، تو میں اپنی روایت اور تاریخ کا لوگوں کو تعارف کرواؤں گا ، ایسے لوگوں کا رد کرنے کی چنداں حاجت نہیں۔
Last edited: