بَابُ الْخَوْخَةِ وَ الْمَمَرِّ فِي الْمَسْجِدِ
مسجد میں کھڑکی اور گزرگاہ (کا رکھنا درست ہے)
(294) عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَطَبَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَ بَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي مَا يُبْكِي هَذَا الشَّيْخَ إِنْ يَكُنِ اللَّهُ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَ بَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ هُوَ الْعَبْدَ وَ كَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا قَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ لاَ تَبْكِ إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَ مَالِهِ أَبُوبَكْرٍ وَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً مِنْ أُمَّتِي لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ وَ لَكِنْ أُخُوَّةُ الإِسْلاَمِ وَ مَوَ دَّتُهُ لاَ يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلاَّ سُدَّ إِلاَّ بَابُ أَبِي بَكْرٍ *
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے (ایک روز) خطبہ پڑھا تو فرمایا کہ بیشک اللہ سبحانہٗ نے ایک بندہ کو (دنیا کے اور) اس چیز کے درمیان ، جو اللہ کے ہاں ہے، اختیار دیا (کہ چاہے جس کو پسند کر لے) تو اس نے اس چیز کو اختیار کر لیا جو اللہ کے ہاں ہے تو امیر المومنین ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ (یہ سن کر) رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس بوڑھے کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ اگر اللہ نے کسی بندہ کو دنیا کے اور اس عالم کے درمیان جو اللہ کے ہاں ہے اختیار دیا اور اس نے اس عالم کو اختیار کر لیا جو اللہ کے ہاں ہے (تو اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ مگر آخر میں معلوم ہوا کہ) بندے سے مراد خود رسول اللہ ﷺ تھے اور (امیر المومنین) ابو بکر صدیق ( رضی اللہ عنہ ) ہم سب میں زیادہ علم رکھتے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’اے ابو بکر! تم نہ روؤ بیشک سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے ، اپنی صحبت اور اپنے مال میں، ابوبکر صدیق ہیں اور اگر میں اپنی امت میں سے (کسی کو) خلیل بناتا تو یقینا ابو بکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت اور اس کی محبت (کافی ہے اور) مسجد میں ابو بکر کے دروازہ کے سوا سب کا دروازہ بند کردیا جائے ۔ ‘‘
(295) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ عَاصِبٌ رَأْسَهُ بِخِرْقَةٍ فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنَّ عَلَيَّ فِي نَفْسِهِ وَ مَالِهِ مِنْ أَبِي بكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ وَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلاً وَ لَكِنْ خُلَّةُ الإِسْلامِ أَفْضَلُ سُدُّوا عَنِّي كُلَّ خَوْخَةٍ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرَ خَوْخَةِ أَبِي بَكْرٍ *
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مرض میں، جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی ، اپنا سر ایک پٹی سے باندھے ہوئے باہر نکلے اور منبر پر بیٹھ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا :’’اے لوگو ! ابوبکر( رضی اللہ عنہ ) سے زیادہ اپنی جان اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کرنے والا کوئی نہیں اور اگر میں لوگوںمیں سے کسی کو خلیل بناتا تو یقینا ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کو خلیل بناتا لیکن اسلام کی خلت (دوستی، بھائی چارہ) افضل ہے، میری طرف سے ہر کھڑکی کو جو اس مسجد میں ہے، بند کر دو سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے ( رضی اللہ عنہ )۔