بَابُ نَوْمِ الْمَرْأَةِ فِي الْمَسْجِدِ
عورت کا مسجد میں سونا (درست ہے)
(277) عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ وَ لِيدَةً كَانَتْ سَوْدَائَ لِحَيٍّ مِنَ الْعَرَبِ فَأَعْتَقُوهَا فَكَانَتْ مَعَهُمْ قَالَتْ فَخَرَجَتْ صَبِيَّةٌ لَهُمْ عَلَيْهَا وِشَاحٌ أَحْمَرُ مِنْ سُيُورٍ قَالَتْ فَوَ ضَعَتْهُ أَوْ وَ قَعَ مِنْهَا فَمَرَّتْ بِهِ حُدَيَّاةٌ وَ هُوَ مُلْقًى فَحَسِبَتْهُ لَحْمًا فَخَطِفَتْهُ قَالَتْ فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ قَالَتْ فَاتَّهَمُونِي بِهِ قَالَتْ فَطَفِقُوا يُفَتِّشُونَ حَتَّى فَتَّشُوا قُبُلَهَا قَالَتْ وَ اللَّهِ إِنِّي لَقَائِمَةٌ مَعَهُمْ إِذْ مَرَّتِ الْحُدَيَّاةُ فَأَلْقَتْهُ قَالَتْ فَوَ قَعَ بَيْنَهُمْ قَالَتْ فَقُلْتُ هَذَا الَّذِي اتَّهَمْتُمُونِي بِهِ زَعَمْتُمْ وَ أَنَا مِنْهُ بَرِيئَةٌ وَ هُوَ ذَا هُوَ قَالَتْ فَجَائَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَسْلَمَتْ قَالَتْ عَائِشَةُ فَكَانَ لَهَا خِبَائٌ فِي الْمَسْجِدِ أَوْ حِفْشٌ قَالَتْ فَكَانَتْ تَأْتِينِي فَتَحَدَّثُ عِنْدِي قَالَتْ فَلا تَجْلِسُ عِنْدِي مَجْلِسًا إِلاَّ قَالَتْ وَ يَوْمَ الْوِشَاحِ مِنْ أَعَاجِيبِ رَبِّنَا ۔ أَلاَ إِنَّهُ مِنْ بَلْدَةِ الْكُفْرِ أَنْجَانِي قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ لَهَا مَا شَأْنُكِ لا تَقْعُدِينَ مَعِي مَقْعَدًا إِلاَّ قُلْتِ هَذَا قَالَتْ فَحَدَّثَتْنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ *
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرب کے کسی قبیلے کی ایک حبشی لونڈی تھی انھوں نے اسے آزاد کر دیا تھا، مگر وہ ان کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ وہ بیان کرتی ہے کہ (ایک مرتبہ) اسی قبیلے کے لوگوں کی لڑکی باہر نکلی اور اس (کے جسم ) پر سرخ چمڑے کی ایک حمائل پڑی ہوئی تھی، کہتی ہے کہ اس نے اس کو خوداتارا یا وہ اس سے گر پڑی، پھر ایک چیل اس طرف سے گزری اور وہ حمائل (نیچے) پڑی ہوئی تھی، چیل نے اسے گوشت سمجھا اور جھپٹ لے گئی۔ وہ کہتی ہے کہ ان لوگوں نے اس کو تلاش کیا مگر اسے نہ پایا تو اس کا الزام مجھ پر لگا دیا۔ کہتی ہے کہ وہ لوگ میری تلاشی لینے لگے یہاں تک کہ اس کی شرمگاہ کو بھی دیکھا ۔وہ کہتی ہے کہ اللہ کی قسم میں ان کے پاس کھڑی تھی کہ اچانک وہ چیل گزری اور اس نے اس (حمائل) کو پھینک دیا ۔ وہ کہتی ہے کہ حمائل ان کے درمیان آ کر گری۔ کہتی ہے کہ میں نے کہا کہ یہی ہے وہ جس کا الزام تم نے مجھ پر لگایا تھا، تم نے بدگمانی کی حالانکہ میں اس سے بَری تھی اور وہ یہ ہے ۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اسلام قبول کرلیاتو مسجد میں اس کا ایک خیمہ تھا یا (یہ کہا کہ) ایک چھوٹا سا حجرہ ۔ اور وہ میرے پاس آیا کرتی تھی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی ۔ اور میرے پاس وہ جب بھی آتی تو یہ ضرور کہتی کہ حمائل والا دن ہمارے پروردگار کی عجیب قدرتوں میں سے ہےآگاہ رہو اسی نے مجھے کفر کے شہر سے نجات دی
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں میں نے اس سے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب کبھی تم میرے پاس آتی ہو تو یہ ضرور کہتی ہو تو اس پر اس نے مجھ سے یہ قصہ بیان کیا ۔