بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ وَ هَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلامُ
جب کوئی بچہ اسلام لایا اور پھر انتقال کرگیاتو کیا اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور کیا بچے پراسلام کی دعوت پیش کی جا سکتی ہے ؟
(678) عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ انْطَلَقَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَ قَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الْحُلُمَ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ ﷺ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ ﷺ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَرَفَضَهُ وَ قَالَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَ بِرُسُلِهِ فَقَالَ لَهُ مَاذَا تَرَى قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ يَأْتِينِي صَادِقٌ وَ كَاذِبٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ هُوَ الدُّخُّ فَقَالَ اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ وَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا : انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ وَ هُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنَ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ فَرَآهُ النَّبِيُّ ﷺ وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ يَعْنِي فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ أَوْ زَمْرَةٌ فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَيّادٍ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَ هُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ يَا صَافِ وَ هُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ هَذَا مُحَمَّدٌ ﷺ فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ *
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، نبی ﷺ کے ہمراہ کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ ابن صیاد کے پاس گئے یہاں تک کہ اس کو بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس کچھ لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا اور ابن صیاد (اس وقت) قریب بلوغ کے تھا ۔اس کو (نبی ﷺ کا تشریف لے آنا) معلوم نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اسے مارا ۔پھر ابن صیاد سے فرمایا :” کیا تو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ میں ، اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔” ابن صیاد نے آپ ﷺ کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ آپ ﷺ ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ اس کے بعد ابن صیاد نے نبی ﷺ سے کہاکہ آپ اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ “میں اللہ کا رسول ہوں” تو رسول اللہ ﷺ اس سے علیحدہ ہو گئے اور فرمایا:”میں اللہ تعالیٰ پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لاتا ہوں۔” پھر آپ ﷺ نے اس سے فرمایا:”تو کیا دیکھتا ہے؟” ابن صیاد نے جواب دیا کہ “میرے پاس ایک سچا آتا ہے اور ایک جھوٹا” تو نبی ﷺ نے فرمایا :”تیرے اوپر بات خلط ملط کر دی گئی۔” اس کے بعد اس سے نبی ﷺ نے فرمایا:”میں نے تیری نسبت ایک بات اپنے دل میں رکھ لی ہے، بتا وہ کیا ہے ؟” (آپ ﷺ نے سورۂ دخان کی آیت
{ فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَائُ بِدُخانٍ مُّبِیْنٍ } کا تصور کیاتھا) تو ابن صیاد نے جواب دیا کہ “وہ دخ ہے” آپ ﷺ نے فرمایا: “تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔”سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن مار دوں تو نبی ﷺ نے فرمایا:”اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم ہر گز اس پر قابو نہیں پاسکتے اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو اس کے قتل کرنے میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔”
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس کے بعد (ایک مرتبہ پھر) رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس باغ میں گئے جس میں ابن صیاد تھا اور نبی ﷺ یہ چاہتے تھے کہ ابن صیاد سے پوشیدہ طور پر قبل اس کے کہ وہ آپ ﷺ کو دیکھے ،کچھ سنیں۔ پس نبی ﷺ نے ا س کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ لیٹا ہوا اپنی ایک چادر میں لپٹا ہوا تھا اس سے کچھ گنگنانے کی آواز آرہی تھی پس ابن صیاد کی ماں نے رسول اللہ ﷺ کو آتے دیکھ لیا حالانکہ آپ ﷺ کھجوروں کے درختوں میں چھپ (چھپ کر جا) رہے تھے تو اس نے ابن صیاد سے کہا کہ اے صاف !اور صاف ابن صیاد کا نام تھا۔ یہ محمد ﷺ آ گئے تو ابن صیاد اٹھ بیٹھا حقیقت حال واضح نبی ﷺ نے فرمایا :”اگر یہ عورت ا س کو اس کے حال پر رہنے دیتی یعنی میرے آنے کی اطلاع نہ دیتی تو حقیقت حال واضح ہو جاتی۔ “
(679) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ غُلامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ ﷺ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ ﷺ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَ هُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ ﷺ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ وَ هُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ *
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا تھا جو نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ،وہ بیمار ہو گیا تو نبی ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا:”تو مسلمان ہو جا۔” تو اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور اس کے پاس ہی وہ بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے باپ نے اس سے کہا کہ تو ابو القاسم ( ﷺ ) کی اطاعت کر پس وہ مسلمان ہو گیا پھر نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ ﷺ اس وقت یہ فرما رہے تھے :”اللہ کا شکر ہے کہ اس نے لڑکے کو آگ سے بچا لیا ۔ “
(680) عَن أَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلاَّ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ اَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَائَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَائَ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ { فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ }
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا کیا جاتا ہے مگر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا لیتے ہیں یا نصرانی یامجوسی ، جس طرح جانور صحیح و سالم بچہ جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی ناک کان کٹا ہوا دیکھتے ہو ؟” سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرکے یہ آیت پڑھتے تھے :
“اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت تبدیل نہیں کی جا سکتی یہی صحیح اور بالکل سیدھا دین ہے۔” (سورئہ روم آیت : ۳۰)