• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح بخاری مترجم۔’’ التجرید الصریح لاحادیث الجامع الصحیح ''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ زَكَاةِ الْغَنَمِ
بکریوں کی زکوٰۃ دینا بھی فرض ہے​

(737) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ هَذَا الْكِتَابَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْبَحْرَيْنِ بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَالَّتِي أَمَرَ اللَّهُ بِهَا رَسُولَهُ فَمَنْ سُئِلَهَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا وَ مَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلاَ يُعْطِ فِي أَرْبَعٍ وَ عِشْرِينَ مِنَ الإِبِلِ فَمَا دُونَهَا مِنَ الْغَنَمِ مِنْ كُلِّ خَمْسٍ شَاةٌ إِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَ عِشْرِينَ إِلَى خَمْسٍ وَ ثَلاثِينَ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ أُنْثَى فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَ ثَلاثِينَ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ أُنْثَى فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَأَرْبَعِينَ إِلَى سِتِّينَ فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْجَمَلِ فَإِذَا بَلَغَتْ وَاحِدَةً وَ سِتِّينَ إِلَى خَمْسٍ وَ سَبْعِينَ فَفِيهَا جَذَعَةٌ فَإِذَا بَلَغَتْ يَعْنِي سِتًّا وَ سَبْعِينَ إِلَى تِسْعِينَ فَفِيهَا بِنْتَا لَبُونٍ فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَ تِسْعِينَ إِلَى عِشْرِينَ وَ مِائَةٍ فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْجَمَلِ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَ مِائَةٍ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ وَ فِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ وَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ إِلاَّ أَرْبَعٌ مِنَ الإِبِلِ فَلَيْسَ فِيهَا صَدَقَةٌ إِلاَّ أَنْ يَشَائَ رَبُّهَا فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا مِنَ الإِبِلِ فَفِيهَا شَاةٌ وَ فِي صَدَقَةِ الْغَنَمِ فِي سَائِمَتِهَا إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ إِلَى عِشْرِينَ وَ مِائَةٍ شَاةٌ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَ مِائَةٍ إِلَى مِائَتَيْنِ شَاتَانِ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى مِائَتَيْنِ إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ فَفِيهَا ثَلاثُ شِيَاهٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلاثِ مِائَةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ فَإِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ نَاقِصَةً مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةً وَاحِدَةً فَلَيْسَ فِيهَا صَدَقَةٌ إِلاَّ أَنْ يَشَائَ رَبُّهَا وَ فِي الرِّقَّةِ رُبْعُ الْعُشْرِ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ إِلاَّ تِسْعِينَ وَ مِائَةً فَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ إِلاَّ أَنْ يَشَائَ رَبُّهَا *
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بحرین کی طرف بھیجا تو انہیں یہ تحریر لکھ دی تھی :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ صدقہ یعنی زکوٰۃ کے فرائض ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض کیے ہیں اور جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، پس مسلمانوں میں جس شخص سے اس تحریر کے مطابق زکوٰۃ طلب کی جائے وہ اسے ادا کر دے اور جس شخص سے اس تحریر سے زیادہ زکوٰۃ طلب کی جائے وہ ادا نہ کرے ۔ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹوں پرایک بکری (پانچ سے کم پر زکوٰۃ نہیں) پھر جب پچیس سے پینتیس تک اونٹ ہوں تو ان میں ایک برس کی اونٹنی پھر جب چھتیس سے پینتالیس تک اونٹ ہوں تو ان میں دو برس کی ایک اونٹنی پھر جب چھیالیس سے ساٹھ تک ہوں تو ان میں تین برس کی اونٹنی جفتی کے لائق دینا ہو گی پھر جب اکسٹھ سے پچھتر تک ہوں تو ان میں چار برس کی ایک اونٹنی پھر جب چھہتر سے نوے تک ہوں تو ان میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ، پھر جب اکیانوے سے ایک سوبیس تک ہوں تو ان میں تین تین برس کی دو اونٹیناں جفتی کے لائق دینا ہوں گی۔ پھر جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو ہر چالیس میں دو برس کی ایک اونٹنی اور ہر پچاس میں تین برس کی ایک اونٹنی دینا ہو گی اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں زکوٰۃ فرض نہیں ہاں اگر ان کا مالک چاہے تو دے دے ۔پھر جب پانچ ہوں تو ان میں ایک بکری زکوٰۃ کے طور پر دینا ہو گی اور جنگل میں چرنے والی بکریوں کی زکوٰۃ میں جب وہ چالیس سے ایک سو بیس تک ہوں ایک بکری فرض ہے پھر جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو دوسو تک دو بکریاں پھر جب دو سو سے زیادہ تین سو تک ہو جائیں تو ان میں تین بکریاں پھر جب تین سو سے زیادہ ہو جائیں تو ہر سو میں ایک بکری اور اگر کسی کے پاس جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں اگرچہ ایک بکری بھی کم ہوتو اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں، ہاں اگر ان کا مالک دینا چاہے تو دے دے ۔اور زکوٰۃ صرف ان ہی اونٹوں ، گائے اور بکریوں پر فرض ہے جو چھ ماہ سے زیادہ جنگل میں چرتی ہوں ۔ اگر چھ ماہ سے زیادہ اپنے پاس سے چارہ وغیرہ کھلانا ہو تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے اور ان تین جانوروں کے علاوہ کسی اور جانور پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے ہاں البتہ بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے ) اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ ہے بشرطیکہ بقدر دوسو درہم کے ہو اور اگر ایک سو نوے درہم ہیں تو اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں ہاں اگر اس کا مالک دینا چاہے تو دے دے ۔ “
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ لاَ يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ إلاَّ السَّلِيمُ
زکوٰۃ میں عیب دار جانور نہ لیے جائیں​

(738) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الصَّدَقَةَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ ﷺ وَ لاَ يُخْرَجُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَ لاَ ذَاتُ عَوَارٍ وَ لا تَيْسٌ إِلاَّ مَا شَائَ الْمُصَدِّقُ *
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک تحریر لکھ دی تھی (اس میں زکوٰۃ کے وہ مسائل تھے) جن کا اللہ نے اپنے رسول ﷺ کوحکم دیا ہے (اس میں یہ مضمون بھی تھا کہ)” زکوٰۃ میں بوڑھا ، عیب دار اور نہ نر جانور لیا جائے یعنی بکرا وغیرہ ۔ ہاں اگر صدقہ دینے والا چاہے ۔” (تو پھر نر لینے میں کچھ حرج نہیں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ لاَ تُؤْخَذُ كَرَائِمُ أَمْوَالِ النَّاسِ فِي الصَّدَقَةِ
زکوٰۃ میں لوگوں کے عمدہ مال نہ لیے جائیں​

(739) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا : حَدِيْثٌ بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلى الْيَمَنِ تَقَدَّمَ وَ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ قَالَ إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلَى قَوْمٍ أَهْلِ كِتَابٍ … … وَ ذَكَرَ بَاقِي الْحَدِيْثِ ثُمَّ قَالَ فِي آخِرِهٖ … وَتَوَقَّ كَرَائِمَ أَمْوَالِ النَّاسِ *
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا (یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے دیکھیے حدیث : ۷۰۲) یہاں اس روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:”تم اہل کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ) کے پاس جا رہے ہو…”اور پھر (انہوں نے) باقی حدیث ذکر کی۔ پھر آخر میں (رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے) فرمایا :”……اور تم لوگوں کے عمدہ عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا ۔”
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الأَقَارِبِ
زکوٰۃ کا اپنے قرابت داروں پر صرف کرنا​

(740) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالاً مِنْ نَخْلٍ وَ كَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَآ ئَ وَ كَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدْخُلُهَا وَ يَشْرَبُ مِنْ مَائٍ فِيهَا طَيِّبٍ قَالَ أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ { لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ } قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى يَقُولُ { لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ } وَ إِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَائُ وَ إِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَ ذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ وَ قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ وَ إِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَ بَنِي عَمِّهِ *
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں تمام انصار سے زیادہ سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس مال تھا، از قسم باغات اور سب سے زیادہ پسند ان کو بیرحاء نامی باغ تھا اور وہ مسجد نبوی کے سامنے تھا ۔رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جاتے تھے اور اس میں جو خوشگوار پانی تھا اس کو نوش فرماتے تھے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب (سورئہ آل عمران کی ۹۲نمبرآیت ) نازل ہوئی : “تم لوگ ہر گز نیکی کو نہ پہنچو گے یہاں تک کہ جس چیز کو تم دوست رکھتے ہو اس میں سے خرچ کرو۔” تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ!اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ “تم لوگ ہرگز نیکی کو نہ پہنچو گے یہاں تک کہ جس چیز کو تم دوست رکھتے ہو اس میں سے خرچ کرو۔” تو بے شک مجھے اپنے سب مالوں میں زیادہ محبوب “بیرحاء” ہے اور وہ (اب) اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اس کے ثواب کی اللہ کے ہاں امید رکھتا ہوں تو آپ ﷺ اس کو جہاں مناسب سمجھیے صرف کیجیے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :”شاباش !یہ تو ایک مفید مال ہے، یہ تو ایک مفید مال ہے اور میں نے سن لیاجو تم نے کہا اور میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اس کو قرابت داروں میں تقسیم کر دو۔” تو سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا چنانچہ انہوں نے اس کو اپنے قرابت داروں میں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا ۔

(741) عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدِيثُهُ فِي خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَى الْمُصَلَّى تَقَدَّمَ وَ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ قَالَ فَلَمَّا صَارَ إِلَى مَنْزِلِهِ جَائَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ زَيْنَبُ فَقَالَ أَيُّ الزَّيَانِبِ فَقِيلَ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ نَعَمْ ائْذَنُوا لَهَا فَأُذِنَ لَهَا قَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّكَ أَمَرْتَ الْيَوْمَ بِالصَّدَقَةِ وَ كَانَ عِنْدِي حُلِيٌّ لِي فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ فَزَعَمَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهُ وَ وَلَدَهُ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَيْهِمْ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ صَدَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ ، زَوْجُكِ وَوَلَدُكِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِهِ عَلَيْهِمْ *
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی یا عیدالفطر میں عید گاہ تشریف لے گئے …یہ حدیث گذر چکی ہے (دیکھیں حدیث : ۵۳۱) یہاں اس روایت میں یہ ہے کہ جب آپ ﷺ واپس ہو کر اپنے مکان کی طرف تشریف لے گئے تو سیدہ زینب سیدنا ابن مسعود کی بیوی آئیں اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگنے لگیں۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ! زینب (آئی) ہیں ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا :”کون زینب؟”(کیونکہ زینب نام کی بہت سے عورتیں تھیں) تو عرض کی گئی کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ ﷺ نے فرمایا :”اچھا ان کو اجازت دیدو ان کو اجازت دے دی گئی (جب وہ آئیں تو) انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ!آپ نے آج (ہم عورتوں کو) صدقہ دینے کا حکم دیا ہے اور میرے پاس کچھ زیور ہے میں نے چاہاکہ اسے خیرات کردوں مگر ابن مسعود نے کہا کہ وہ اور ان کی اولاد سب سے زیادہ مستحق اس بات کے ہیں کہ میں انہی کو صدقہ دوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ابن مسعود نے سچ کہا تمہارا شوہر اور تمہارے بچے سب سے زیادہ مستحق اس بات کے ہیں کہ تم انہیں صدقہ دو ۔ “
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي فَرَسِهِ صَدَقَةٌ
مسلمان پر اس کے گھوڑے کی بابت زکوٰۃ فرض نہیں​

(742) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي فَرَسِهِ وَغُلامِهِ صَدَقَةٌ *
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :”مسلمان پر اس کے (خدمت گزار) غلام اور اس کی (سواری کے) گھوڑے پر زکوٰۃ فرض نہیں ۔ “
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ الصَّدَقَةِ عَلَى الْيَتَامَى
یتیموں کو خیرات دینا بہت ثواب کا کام ہے​

(743) عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَلَسَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الْمِنْبَرِ وَ جَلَسْنَا حَوْلَهُ فَقَالَ إِنِّي مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَ زِينَتِهَا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ فَسَكَتَ النَّبِيُّ ﷺ فَقِيلَ لَهُ مَا شَأْنُكَ تُكَلِّمُ النَّبِيَّ ﷺ وَ لاَ يُكَلِّمُكَ فَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ قَالَ فَمَسَحَ عَنْهُ الرُّحَضَائَ فَقَالَ أَيْنَ السَّائِلُ وَ كَأَنَّهُ حَمِدَهُ فَقَالَ إِنَّهُ لاَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ إِلاَّ آكِلَةَ الْخَضْرَائِ أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتْ عَيْنَ الشَّمْسِ فَثَلَطَتْ وَ بَالَتْ وَ رَتَعَتْ وَ إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَنِعْمَ صَاحِبُ الْمُسْلِمِ مَا أَعْطَى مِنْهُ الْمِسْكِينَ وَالْيَتِيمَ وَابْنَ السَّبِيلِ أَوْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ وَ إِنَّهُ مَنْ يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَ لاَ يَشْبَعُ وَ يَكُونُ شَهِيدًا عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ *
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھے اور ہم لوگ آپ ﷺ کے ارد گرد بیٹھ گئے پس آپ ﷺ نے فرمایا:”میں اپنے بعد جن باتوں کا خوف تمہارے لیے کرتا ہوں ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ تم پر دنیا کی تازگی اور اس کی آرائش کھول دی جائے گی۔” تو ایک شخص نے عرض کی کہ یارسول اللہ!(مال کی زیادتی سے کیا خرابی ہو گی؟ مال تو اتنی اچھی چیز ہے) کیا اچھی چیز بھی برائی پیدا کرے گی؟ (یہ سن کر) نبی ﷺ خاموش ہو گئے تو اس سے کہا گیا کہ تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو نبی ﷺ سے گفتگو کرتا ہے حالانکہ آپ ﷺ تجھ سے کلام نہیں فرماتے۔ پھر ہم کو یہ خیال ہوا کہ آپ ﷺ پر وحی اتر رہی ہے (اس لیے آپ ﷺ نے سکوت فرمایا ہے چنانچہ جب وحی اتر چکی تو) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے چہرے سے پسینہ پونچھا اور فرمایا:”سائل کہاں ہے؟” گویا کہ آپ ﷺ نے اس(کے سوال) کو پسند فرمایا :”پس آپ ﷺ نے فرمایا (ہاں یہ صحیح ہے کہ) اچھی چیز برائی نہیں پیدا کرتی مگر ( بے موقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے) دیکھوفصل ربیع کے ساتھ ایسی گھاس بھی پیدا ہوتی ہے جو (اپنے چرنے والے جانور کو) مار ڈالتی ہے یا بیمار کر دیتی ہے ۔ مگر اس سبزی کو چرنے والوں میں سے جو چرلے یہاں تک کہ جب اس کے دونوں کوکھیں بھر جائیں تو وہ آفتاب کے سامنے ہو جائے پھر لید کرے اور پیشاب کرے اور (اس کے بعدپھر) چرے (ایک دم بے انتہا نہ چرتا چلا جائے تو وہ نہیں مرتا) اور بے شک یہ مال ایک خوشگوار سبزہ زارہے پس کیا اچھا مال ہے مسلمان کا کہ وہ اس میں سے مسکین کو اور یتیم کو اور مسافر کو دے ۔ یا اسی قسم کی کوئی اور بات نبی ﷺ نے فرمائی :”اور بے شک جو شخص اس مال کو ناحق لے گا وہ اس شخص کے مثل ہو گا جو کھائے اورسیر نہ ہو اور وہ مال اس پر قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا ۔ “
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الزَّوْجِ وَالأَيْتَامِ فِي الْحَجْرِ
زکوٰۃ کا مال شوہر اور ان یتیم بچوں کو جو اپنی تربیت میں ہوں دینا (جائز ہے)​

(744) عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَدِيْثُهَا الْمُتَقَدِّمُ قَرِيْبًا وَ قَالَتْ فِي هَذِهِ الرِّوَايَةِ فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَوَجَدْتُ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ عَلَى الْبَابِ حَاجَتُهَا مِثْلُ حَاجَتِي فَمَرَّ عَلَيْنَا بِلالٌ فَقُلْنَا سَلِ النَّبِيَّ ﷺ أَيَجْزِي عَنِّي أَنْ أُنْفِقَ عَلَى زَوْجِي وَ أَيْتَامٍ لِي فِي حَجْرِي وَ قُلْنَا لاَ تُخْبِرْ بِنَا فَدَخَلَ فَسَأَلَهُ فَقَالَ مَنْ هُمَا قَالَ زَيْنَبُ قَالَ أَيُّ الزَّيَانِبِ قَالَ امْرَأَةُ عَبْدِاللَّهِ قَالَ نَعَمْ لَهَا أَجْرَانِ أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَ أَجْرُ الصَّدَقَةِ *
سیدہ زینب زوجہ ٔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیث ابھی گزری ہے (دیکھیے حدیث: ۷۴۱) یہاں اس روایت میں یہ بھی کہتی ہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس گئی تو میں نے دروازہ پر ایک انصاری عورت کو پایا کہ وہ بھی میرے جیسی ضرورت سے آئی تھی پس سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ہماری طرف سے گزرے تو ہم نے کہا کہ تم نبی ﷺ سے دریافت کرو کہ کیامیرے لیے یہ کافی ہے کہ میں (اپنا مال) اپنے شوہر اور ان یتیموں پر جومیری تربیت میں ہیں خرچ کروں؟ اور ہم نے (سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے) یہ کہہ دیا کہ تم ہمارا نام نہ لینا (مگر جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے جا کر یہ پوچھا) تو آپ ﷺ نے فرمایا:”یہ دونوں عورتیں کون ہیں؟” تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا “زینب۔” آپ ﷺ نے پوچھا :” کون سی زینب؟” انہوں نے عرض کی کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ ﷺ نے فرمایا :”ہاں (کافی ہے بلکہ) اس کو دوہرا ثواب ملے گا قرابت (کا حق ادا کرنے) کا ثواب اور خیرات دینے کا ثواب ۔ “

(745) عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِيَ أَجْرٌ أَنْ أُنْفِقَ عَلَى بَنِي أَبِي سَلَمَةَ إِنَّمَا هُمْ بَنِيَّ فَقَالَ أَنْفِقِي عَلَيْهِمْ فَلَكِ أَجْرُ مَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ *
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا مجھے کچھ ثواب ہو گا اگر میں ابو سلمہ کے بچوں پر (اپنامال) خرچ کروں، وہ تو میرے ہی لڑکے ہیں؟تو آپ ﷺ نے فرمایا :” تم ان پر خرچ کرو، جو کچھ تم ان پر خرچ کرو گی اس کا ثواب تمہیں ملے گا ۔ “
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى { وَ فِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ }
اللہ عزوجل کا فرمان “اور (زکوٰۃ کا مال خرچ کیا جائے) غلاموں اور قرضداروں کو نجات دلانے اور جو اللہ کی راہ میں ہوں۔”​

(746) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالصَّدَقَةِ فَقِيلَ مَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلاَّ أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ أَمَّا خَالِدٌ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا قَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَ أَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ أَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ فَعَمُّ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ وَ مِثْلُهَا مَعَهَا *
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو صدقہ یعنی زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا۔ وہ شخص گیا اور صدقہ وصول کر لایا پھر عرض کی کہ ابن جمیل ، خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم نے نہیں د یا تو نبی ﷺ نے فرمایا:”ابن جمیل رضی اللہ عنہ اس وجہ سے انکار کرتا ہے کہ وہ فقیر تھا اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مالدار کر دیا (بے شک اس کا نہ دینا سرکشی پر دلالت کرتا ہے) مگر خالدبن ولید ( رضی اللہ عنہ ) ، تو تم لوگ خالد ( رضی اللہ عنہ ) پر ظلم کرتے ہو (تم نے ان سے زکوٰۃ کیوں مانگی؟ کیونکہ) انہوں نے اپنی زرہیں اور اپنے ہتھیار اللہ کی راہ میں روک رکھے ہیں اور رہ گئے عباس بن عبدالمطلب تو وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں ،ان پر البتہ زکوٰۃ ضروری ہے اور اس کے برابر اور بھی (تو وہ میں ادا کروں گا)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ الاِسْتِعْفَافِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ
سوال سے بچنا بڑے ثواب اور فائدے کی بات ہے​

(747) عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَاسًا مِنَ الأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ فَقَالَ مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ وَ مَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ وَ مَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ وَ مَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ وَ مَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَائً خَيْرًا وَ أَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ*
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے انصار میں سے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں دے دیا پھر انہوں نے آپ ﷺ سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے پھر انہیں دے دیا یہاں تک کہ جس قدر مال آپ ﷺ کے پاس تھا وہ سب ختم ہو گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:”میرے پاس جب مال ہو گا تو میں اسے تم لوگوں سے بچا کر نہ رکھوں گا مگر (یہ یاد رکھو کہ) جوشخص سوال کرنے سے پرہیز کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو (فقر اور حاجت سے) بچائے گا اور جو شخص بے پرواہی ظاہر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا اور جو شخص صبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو صابر بنا دے گا اور (دیکھو) کسی شخص کو کوئی نعمت صبر سے زیادہ عمدہ اور وسیع نہیں دی گئی (لہٰذا صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو)۔”

(748) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ فَيَحْتَطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْتِيَ رَجُلاً فَيَسْأَلَهُ أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ *
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ بات کہ کوئی شخص تم میں سے رسی لے کرلکڑیاں توڑے اور ان کو اپنی پیٹھ پر لاد کر فروخت کرے ، اس بات سے بہتر ہے کہ کسی شخص کے پاس جائے اور اس سے سوال کرے (حالانکہ یہ معلوم بھی نہیں کہ) وہ اس کو دے یا نہ دے۔ “

(749) عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ فَيَأْتِيَ بِحُزْمَةِ الْحَطَبِ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَبِيعَهَا فَيَكُفَّ اللَّهُ بِهَا وَجْهَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ أَوْ مَنَعُوهُ *
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”بے شک یہ بات کہ کوئی شخص تم میں سے اپنی رسی لے کر اور لکڑی کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لاد کر لے آئے اور اس کو فروخت کرے اور اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے اس کی آبرو قائم رکھے تو یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے (حالانکہ یہ معلوم بھی نہیں کہ) وہ اس کو دیں یا نہ دیں۔ “

(750) عَن حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ يَا حَكِيمُ إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَ مَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَ لاَ يَشْبَعُ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى قَالَ حَكِيمٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ الَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا فَكَانَ أَبُوبَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَائِ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُ ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيْئِ فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى تُوُفِّيَ *
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ ﷺ نے مجھے دے دیا۔ پھر میں نے مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ اس کے بعد فرمایا:”اے حکیم! یہ مال ایک میٹھی اور سرسبز و شاداب چیز ہے جو شخص اس کوبغیر حرص کے لیتا ہے اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے اور جو شخص اس کو طمع کے ساتھ لیتا ہے اس کو اس میں برکت نہیں دی جاتی اور وہ شخص مثل اس کے ہوتا ہے جو کھائے اور سیر نہ ہو اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا کہ میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے جدا ہو جاؤں پس (جب) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو وہ سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ کو وظیفہ کے لیے (جو تمام اصحاب کے لیے مقرر ہوا تھا) بلاتے رہے مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں انہیں بلایا تاکہ انہیں وظیفہ دیں مگر انہوں نے اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”اے مسلمانو! میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں حکیم ( رضی اللہ عنہ ) کے روبرو ان کا حق پیش کرتا ہوں مگر وہ اس مال غنیمت میں سے اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں ۔ القصہ سیدنا حکیم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ فوت ہوگئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ وَ لا إِشْرَافِ نَفْسٍ
جس شخص کو اللہ تعالیٰ بغیر سوال کے اور بغیرحرص اور لالچ کے کچھ دے دے تو اس کو چاہیے کہ قبول کر لے​

(751) عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُعْطِينِي الْعَطَائَ فَأَقُولُ أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي فَقَالَ خُذْهُ إِذَا جَائَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ شَيْئٌ وَ أَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَ لا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَ مَا لاَ فَلاَ تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ *
امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مجھے مال دیتے تھے تو میں کہتا تھا کہ یہ اس شخص کو دیجیے جو مجھ سے زیادہ حاجت مند ہوتو آپ ﷺ نے فرمایا:”تم اسے لے لو جب اس مال میں سے کچھ تمہارے پاس آئے اور تم کو لالچ نہ ہو اور نہ ہی تم نے سوال کیا ہو اسے قبول کر لیا کرو اور جو نہ ملے تواس کے حاصل کرنے کی پروا نہ کرو اور اس کے پیچھے نہ پڑو۔”
 
Top