• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : صدیق و فاروق کی رفاقت نبیﷺ کے ساتھ۔
1625: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ (نے جب انتقال کیا اور) تابوت میں رکھے گئے تو لوگ ان کے گرد ہوئے ، دعا کرتے تھے اور تعریف کرتے تھے اور دعا کرتے تھے ان پر جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے۔ میں بھی ان لوگوں میں تھا۔ میں نہیں ڈرا مگر ایک شخص سے جس نے میرا کندھا میرے پیچھے سے تھام لیا تھا، میں نے دیکھا تو وہ سیدنا علیؓ تھے۔پس انہوں نے عمرؓ کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا کی اور (ان کی طرف خطاب کر کے ) کہا کہ اے عمر! تم نے کوئی شخص ایسا نہ چھوڑا جس کے اعمال ایسے ہوں کہ ویسے اعمال پر مجھے اللہ سے ملنآپسند ہو۔ اور اللہ کی قسم میں یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تمہیں تمہارے دونوں ساتھیوں کے ساتھ کرے گا (یعنی رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیق ص) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اکثر رسول اللہﷺ سے سنا کرتا تھا، آپﷺ فرماتے تھے کہ میں آیا اور ابو بکر اور عمر آئے اور میں اندر گیا اور ابو بکر اور عمر گئے اور میں نکلا اور ابو بکر اور عمر نکلے۔ اس لئے مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان دونوں کے ساتھ کرے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو خلیفہ بنانا۔
1626: ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا، ان سے پوچھا گیا کہ اگر رسول اللہﷺ خلیفہ کرتے تو کس کو کرتے ؟ (اس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ نے کسی کو خلافت پر نص نہیں کیا بلکہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی خلافت صحابہ ث کے اجماع سے ہوئی اور شیعہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا علیؓ کی خلافت پر آپﷺ نے نص کیا تھا، باطل اور بے اصل ہے اور خود سیدنا علیؓ نے ان کی تکذیب کی) انہوں نے کہا کہ سیدنا ابو بکرؓ کو (خلیفہ) بناتے۔ پھر پوچھا گیا کہ ان کے بعد کس کو (خلیفہ) بناتے ؟ انہوں نے کہا کہ سیدنا عمرؓ کو (خلیفہ) بناتے۔ پھر پوچھا گیا کہ ان کے بعد کس کو (خلیفہ) بناتے ؟ انہوں نے کہا کہ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو۔ پھر خاموش ہو رہیں۔

1627: محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہﷺ سے کچھ پوچھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھرآنا۔ وہ بولی کہ یا رسول اللہﷺ! اگر میں آؤں اور آپﷺ کو نہ پاؤں (یعنی آپﷺ کی وفات ہو جائے تو)؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر کے پاس آنا۔

1628: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ تو اپنے باپ ابو بکر کو اور اپنے بھائی کو بلا تاکہ میں ایک کتاب لکھ دوں، میں ڈرتا ہوں کہ کوئی (خلافت کی) آرزو کرنے والا آرزو نہ کرے اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حقدار ہوں۔ اوراللہ تعالیٰ انکار کرتا ہے اور مسلمان بھی انکار کرتے ہیں ابو بکر کے سوا کسی اور (کی خلافت) سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا عمر بن خطابؓ کی فضیلت کا بیان۔
1629: سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے سونے کی حالت میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے لائے جاتے ہیں اور وہ کُرتے پہنے ہوئے ہیں۔ بعض کے کرتے چھاتی تک ہیں اور بعض کے اس کے نیچے ، پھر عمرؓ نکلے تو وہ اتنا نیچا کرتہ پہنے ہوئے تھے جو کہ زمین پر گھسٹتا جاتا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اس کی تعبیر کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ دین۔

1630: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: میں سو رہا تھا اور سوتے میں ایک پیالہ میرے سامنے لایا گیا جس میں دودھ تھا۔ میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ تازگی اور سیرابی میرے ناخنوں سے نکلنے لگی۔ پھر جو بچا وہ میں نے عمر بن خطاب کو دے دیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اس کی تعبیر کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی تعبیر علم ہے۔

1631: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے آپ کو ایک کنوئیں پر دیکھا کہ اس پر ڈول پڑا ہوا ہے۔ پس میں نے اس ڈول سے پانی کھینچا جتنا کہ اللہ نے چاہا۔ پھر اس کو ابو قحافہ کے بیٹے یعنی صدیقِ اکبر نے لیا اور ایک یا دو ڈول نکالے اور ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اللہ تعالیٰ ان کو بخشے۔ پھر وہ ڈول پل یعنی بڑا ڈول ہو گیا اور اس کو عمر بن خطاب نے لیا، تو میں نے لوگوں میں ایسا سردار شہ زور نہیں دیکھا جو عمر کی طرح پانی کھینچتا ہو۔ انہوں نے اس کثرت سے پانی نکالا کہ لوگ اپنے اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے آرام کی جگہ لے گئے۔ (علماء نے بیان کیا ہے کہ اس خواب میں آپ کے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی تمثیل و بشارت اور حالات کی پشین گوئی ہے )۔

1632: سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: میں سو رہا تھا اور میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا۔ وہاں ایک عورت ایک محل کے کونے میں وضو کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے ؟ (فرشتے ) بولے کہ عمر بن خطاب کا۔ یہ سن کر مجھے اس کی غیرت کا خیال آیا اور میں پیٹھ موڑ کر لوٹ آیا۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ نے جب یہ سنا تو رو دیئے اور ہم سب رسول اللہﷺ کے ساتھ مجلس میں تھے۔ پھر سیدنا عمرؓ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں یا رسول اللہﷺ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟

1633: فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی اور آپﷺ کے پاس اس وقت قریش کی عورتیں بیٹھی تھیں اور آپﷺ سے باتیں کر رہی تھیں اور بہت باتیں کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں بلند تھیں۔ جب سیدنا عمرؓ نے آواز دی تو اٹھ کر چھپنے کے لئے دوڑیں رسول اللہﷺ نے سیدنا عمرؓ کو اجازت دی اور آپﷺ مسکرا رہے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو ہنستا رکھے یا رسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا جو میرے پاس بیٹھی تھیں، تمہاری آواز سنتے ہی پردے میں بھاگ گئیں۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ان کو آپﷺ سے زیادہ ڈرنا چاہئیے پھر ان عورتوں سے کہا کہ اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہﷺ سے نہیں ڈرتیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں تم رسول اللہﷺ کے بہ نسبت سخت ہو اور غصیلے ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ شیطان جب تمہیں کسی راہ میں چلتا ہوا ملتا ہے تو اس راہ کو جس میں تم چلتے ہو چھوڑ کر دوسری راہ میں چلا جاتا ہے۔

1634: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے اگلی امتوں میں ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جو "محدث" (جن کی رائے ٹھیک ہوتی، گمان صحیح ہوتا یا فرشتے ان کو الہام کرتے ) میری امت میں اگر ایسا کوئی ہو تو عمر بن الخطاب ہوں گے۔ ابن وہب نے کہا کہ محدثون کا معنی "الہام والے " ہے۔

1635: سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ عمرؓ نے کہا کہ میں تین باتوں میں اپنے رب کے موافق ہوا۔ ایک مقامِ ابراہیم میں نماز پڑھنے میں (جب میں نے رائے دی کہ یا رسول اللہﷺ آپ اس جگہ کو جائے نماز بنائیے تو ویسا ہی قرآن میں اترا) اور دوسرے عورتوں کے پردے کے بارے میں اور تیسرے بدر کے قیدیوں کے بارے میں۔

1636: سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن ابی ابن سلول مشہور منافق مرا تو اس کا بیٹا عبد اللہؓ بن عبد اللہ بن ابی رسو ل اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپﷺ اپنا کرتہ میرے باپ کے کفن کے لئے دے دیجئے تو آپﷺ نے دے دیا۔ پھر اس نے کہا کہ آپﷺ اس پر نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ پس رسول اللہﷺ اس پر نماز پڑھنے کو کھڑے ہوئے۔ سیدنا عمرؓ نے آپﷺ کا کپڑا تھاما اور فرمایا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا آپﷺ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اس پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ "تو ان کے لئے دعا کرے یا نہ کرے ، اگر ستر بار بھی دعا کرے گا تو بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا" (التوبہ: 80) تو میں ستر بار سے زیادہ دعا کروں گا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ بیشک وہ منافق تھا۔ پس رسول اللہﷺ نے اس پر نماز پڑھی۔ تب یہ آیت اتری کہ "مت نماز پڑھ کسی منافق پر جو مر جائے اور مت کھڑا ہو اس کی قبر پر" (التوبہ: 84)۔ (تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمرؓ کی رائے کو پسند کیا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا عثمان بن عفانؓ کی فضیلت کا بیان۔
1637: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے ، رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے کہ اتنے میں سیدنا ابو بکرؓ نے اجازت مانگی، تو آپﷺ نے اسی ؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر سیدنا عمرؓ نے اجازت چاہی تو انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر سیدنا عثمانؓ نے اجازت چاہی تو رسول اللہﷺ بیٹھ گئے اور کپڑے برابر کر لئے۔ پھر وہ آئے اور باتیں کیں۔ (راوی محمد کہتا ہے کہ میں نہیں کہتا کہ تینوں کا آنا ایک ہی دن ہوا) جب وہ چلے گئے تو اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سیدنا ابو بکرؓ آئے تو آپﷺ نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عمرؓ آئے تو بھی آپﷺ نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عثمانؓ آئے تو آپﷺ بیٹھ گئے اور آپﷺ نے کپڑے درست کر لئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اس شخص سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے شرم کرتے ہیں؟

1638: سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے خبر دی کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر نکلے۔ سیدنا ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آج میں دن بھر رسول اللہﷺ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا، آپﷺ کے پاس ہی رہوں گا۔ کہتے ہیں کہ پھر مسجد میں آیا تو نبیﷺ کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ باہر اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی آپﷺ کے قدموں کے نشان پر چلا اور آپﷺ کے بارے میں لوگوں سے پوچھتا جاتا تھا۔ چلتے چلتے معلوم ہوا کہ آپﷺ مقام اریس پر باغ میں گئے ہیں۔ میں دروازے کے قریب بیٹھ گیا جو کھجور کی ڈالیوں کا بنا ہوا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کر چکے تو میں آپﷺ کی طرف چل دیا۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ اریس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے ہیں اور دونوں پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں لٹکا دی ہیں۔ پس میں نے آپﷺ کو سلام کیا اور پھر لوٹ کر دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے (دل میں) کہا کہ میں آج نبیﷺ کا دربان /چوکیدار رہوں گا۔ اتنے میں سیدنا ابو بکرؓ آئے اور دروازے کو دھکیلا۔ میں نے پوچھا کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ابو بکر ہوں، میں نے کہا ذرا ٹھہرو۔ پھر میں گیا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ ابو بکر اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ان کو آنے دو اور جنت کی خوشخبری دو۔ میں آیا اور سیدنا ابو بکر سے کہا کہ اندر داخل ہو، اور رسول اللہﷺ نے آپ کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس سیدنا ابو بکر داخل ہوئے اور نبیﷺ کی داہنی طرف اسی منڈیر پر دونوں پاؤں لٹکا کر پنڈلیاں کھول کر جیسے نبیﷺ بیٹھے تھے ، بیٹھ گئے۔ میں لوٹ آیا اور پھر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی (عامر) کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا تھا، میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو فلاں (یعنی) میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو اس کو یہاں لے آئے گا۔ اتنے میں (کیا دیکھتا ہوں کہ) کوئی دروازہ ہلانے لگا ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے ؟ جواب آیا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا ٹھہر جا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا، سلام کیا اور کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری بھی دو۔ پس میں گیا اور کہا کہ اندر داخل ہواور رسول اللہﷺ نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور رسول اللہﷺ کے بائیں طرف اسی منڈیر پر بیٹھ گئے اور دونوں پاؤں کنوئیں میں لٹکا دئیے۔ پھر میں لوٹ آیا اور (دروازے پر) بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ کو فلاں آدمی (عامر) کی بھلائی منظور ہے تو اس کو بھی لے آئے گا۔ اتنے میں ایک اور آدمی نے دروازہ ہلایا۔ میں نے کہا کہ کون ہے ؟ جواب دیا کہ عثمان بن عفان۔ میں نے کہا کہ ٹھہر جا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور بتایا تو آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری دو مگر وہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ میں آیا اور ان سے کہا کہ داخل ہو اور رسول اللہﷺ نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے مگر ایک بلا کے ساتھ جو تم پر آئے گی۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور دیکھا کہ منڈیر کا ایک حصہ بھر گیا ہے ، پس وہ دوسرے کنارے پر آپﷺ کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے کہا کہ سعید بن مسیب نے کہا کہ میں نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ان کی قبریں بھی اسی طرح ہوں گی۔ (ویسا ہی ہوا کہ سیدنا عثمانؓ کو اس حجرہ میں جگہ نہ ملی، تو وہ آپﷺ کے سامنے بقیع میں دفن ہوئے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا علی بن ابی طالبؓ کی فضیلت کا بیان۔
1639: فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علیؓ کو (مدینہ میں) خلیفہ بنایا، تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰؑ کے پاس ہارونؑ کا تھا، لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔

1640: سیدنا سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا کہ میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اللہ کے رسولﷺ اس کو چاہتے ہوں گے۔ پھر رات بھر لوگ ذکر کرتے رہے کہ دیکھیں یہ شان آپﷺ کس کو دیتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہﷺ کے پا س یہی امید لئے آئے کہ یہ جھنڈا مجھے ملے گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں۔ پھر آپﷺ نے انہیں بلا بھیجا اور ان کی آنکھوں میں تھوک لگایا اور ان کے لئے دعا کی تو وہ بالکل اچھے ہو گئے گویا ان کو کوئی تکلیف نہ تھی۔ پھر آپﷺ نے انہیں جھنڈا دیا۔ چنانچہ سیدنا علیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں ان سے لڑوں گا یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ آہستہ چلتا جا، یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترے ، پھر ان کو اسلام کی طرف بلا اور ان کو بتا جو اللہ کا حق ان پر واجب ہے۔ اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کرے تو وہ تیرے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔

1641: سیدنا سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہلؓ کو بلایا اور سیدنا علیؓ کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سیدنا سہلؓ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہلؓ نے کہا کہ سیدنا علیؓ کو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابو تراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہلؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علیؓ کو گھر میں نہ پایا، آپﷺ نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے ؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہﷺ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپﷺ سیدنا علیؓ کے پاس تشریف لے گئے ، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے ) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہﷺ نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابو تراب! اٹھ۔ اے ابو تراب! اٹھ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا طلحہ بن عبید اللہؓ کی فضیلت کا بیان۔
1642: ابو عثمان کہتے ہیں کہ ان دنوں میں جب رسول اللہﷺ (کافروں سے ) لڑتے تھے بعض دن کوئی آپﷺ کے ساتھ نہ رہا سوائے سیدنا طلحہ اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہما کے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا زبیر بن عوامؓ کی فضیلت کا بیان۔
1643: محمد بن منکدر سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہﷺ نے خندق کے دن لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی۔ سیدنا زبیرؓ نے جواب دیا کہ حاضر اور مستعد ہوں۔ پھر آپﷺ نے بلایا تو سیدنا زبیر ہی نے جواب دیا۔ پھر آپﷺ نے بلایا تو سیدنا زبیر ہی نے جواب دیا۔ آخر آپﷺ نے فرمایا کہ ہر پیغمبر کا ایک خاص ساتھی ہوتا ہے اور میرا خاص ساتھی زبیر ہے۔

1644: سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں اور عمر بن ابی سلمہ خندق کے دن عورتوں کے ساتھ حسان بن ثابت کے قلعہ میں تھے تو کبھی وہ میرے لئے جھک جاتا اور میں دیکھتا اور کبھی میں اس کے لئے جھک جاتا اور وہ دیکھتا۔ میں نے اپنے باپ کو اس وقت پہچان لیا جب وہ گھوڑے پر ہتھیار باندھے ہوئے بنی قریظہ کی طرف نکلے۔ پھر میں نے اپنے والد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تم نے مجھے دیکھا تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم اس دن رسول اللہﷺ نے میرے لئے اپنے ماں باپ کو جمع کر دیا اور فرمایا کہ تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔

1645: سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم تمہارے دونوں باپ (یعنی زبیر اور ابو بکر) ان لوگوں میں سے تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے یعنی "جن لوگوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی (سیدنا ابو بکر صدیقؓ عروہ کے نانا تھے اور سیدنا زبیرؓ باپ تھے۔ لیکن نانا کو بھی باپ کہتے ہیں)۔ اور ایک روایت میں ہے "یعنی ابو بکرؓ اور زبیرؓ"۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا طلحہؓ اور سیدنا زبیرؓ کی فضیلت کا بیان۔
1646: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ حراء پہاڑ پر تھے۔ اس (پہاڑ) کا پتھر ہلا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تھم جا اے حراء! تیرے اوپر نہیں ہے مگر نبی یا صدیق یا شہید اور آپﷺ کے ساتھ سیدنا ابو بکر اور عمر اور علی اور عثمان اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم تھے۔ (نبی تو رسول اللہﷺ خود تھے اور صدیق سیدنا ابو بکرؓ اور باقی سب شہید ہوئے ظلم سے مارے گئے ، یہاں تک کہ سیدنا طلحہ اور زبیرؓ بھی)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کی فضیلت کا بیان۔
1647: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات (کسی جنگ سے واپس آتے ہوئے ) مدینہ کے راستے میں رسول اللہﷺ کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی، تو آپﷺ نے فرمایا کہ کاش میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اتنے میں ہمیں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کون ہے ؟ آواز آئی کہ یا رسول اللہﷺ ، سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم کیوں آئے ؟ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہﷺ پر اپنے نفس میں ڈر ہوا تو میں آپﷺ کی حفاظت کرنے کو آیا ہوں۔ پس رسول اللہﷺ نے ان کے لئے دعا کی اور پھر سو رہے۔

1648: سیدنا عامر بن سعد اپنے والدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے اُحد کے دن اپنے والدین کو ان کے لئے جمع کیا۔ سیدنا سعدؓ نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک شخص تھا جس نے بہت سے مسلمانوں کو جلا دیا تھا (یعنی بہت سے مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا "اے سعد تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں" میں نے اس کے لئے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور وہ (مشرک) گر گیا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہﷺ دیکھ کر ہنسے ، یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کے دندان مبارک کو دیکھا۔

1649: مصعب بن سعد اپنے والدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن کی کئی آیتیں اتریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کو) نہ چھوڑیں گے۔ اور نہ کھائے گی نہ پئے گی۔ وہ کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ماں باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم کرتی ہوں۔ پھر تین دن تک یوں ہی رہی کچھ کھایا نہ پیا، یہاں تک کہ اس کو غش آگیا۔ آخر اس کا ایک بیٹا جس کا نام عمارہ تھا، کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔ پس وہ سیدنا سعد کے لئے بددعا کرنے لگی تو اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں یہ آیات اتاریں کہ "اور ہم نے آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا" (العنکبوت:8) لیکن اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کا شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی بات مت مان (یعنی شرک مت کر) اور ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق رہ"۔ (لقمان:5)۔ اور ایک بار رسول اللہﷺ کو بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا اور اس میں ایک تلوار بھی تھی, وہ میں نے لے لی اور رسول اللہﷺ کے پاس لا کر عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ تلوار مجھے انعام دے دیجئے جبکہ میرا حال آپﷺ جانتے ہی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔ میں گیا اور میں نے قصد کیا کہ پھر اس کو مال غنیمت کے ڈھیر میں ڈال دوں، لیکن میرے دل نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپﷺ کے پاس لوٹا اور عرض کیا کہ یہ تلوار مجھے دے دیجئے۔ آپﷺ نے سختی سے فرمایا کہ اس کو اسی جگہ رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ "وہ تجھ سے مالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں" (انفال:1)۔ سیدنا سعدؓ نے کہا کہ میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہﷺ کو بلا بھیجا۔ آپﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنا مال جس کو چاہوں بانٹ دوں۔ آپﷺ نے نہ مانا۔ میں نے کہا کہ اچھا آدھا مال بانٹ دوں؟آپﷺ نہ مانے۔ میں نے کہا کہ اچھا تہائی مال بانٹ دوں؟ آپﷺ چپ ہو رہے۔ پھر یہی حکم ہوا کہ تہائی مال بانٹنا درست ہے۔ سیدنا سعدؓ نے کہا کہ ایک بار میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم تمہیں کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے اور اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔میں ان کے ساتھ ایک باغ میں گیا، وہاں ایک اونٹ کے سر کا گوشت بھونا گیا تھا اور شراب کی ایک مشک رکھی تھی، میں نے ان کے ساتھ گوشت کھایا اور شراب پی۔ وہاں مہاجرین اور انصار کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ مہاجرین انصار سے بہتر ہیں۔ ایک شخص نے جبڑے کی ایک ہڈی لی اور مجھے مارا۔ میرے ناک میں زخم لگا تو میں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے یہ آیت اتاری کہ "شراب، جُوا، تھان اور پانسے یہ سب نجاست ہیں اور شیطان کے کام ہیں" (المائدہ: 90)

1650: سیدنا سعدؓ کہتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ مشرکوں نے کہا کہ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہانک دیجئے ، یہ ہم پر جرأت نہ کریں گے۔ ان لوگوں میں مَیں تھا، ابن مسعود تھے اور ایک شخص ہذیل کا تھا اور بلال اور دو شخص اور تھے جن کا نام میں نہیں لیتا۔ آپ کے دل جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ پس آپﷺ نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ "مت بھگا ان لوگوں کو جو اپنے رب کو صبح اور شام کو پکارتے ہیں اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں" (الانعام: 52)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کی فضیلت کا بیان۔
1651: سیدنا حذیفہؓ کہتے ہیں کہ نجران کے لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے پاس ایک امانتدار شخص کو بھیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں ضرور تمہارے پاس ایک امانتدار شخص کو بھیجتا ہوں بیشک وہ امانتدار ہے ، بیشک وہ امانتدار ہے۔ راوی نے کہا کہ لوگ منتظر رہے کہ آپﷺ کس کو بھیجتے ہیں تو آپﷺ نے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو بھیجا۔
 
Top