• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا حسن صاور حسینؓ کی فضیلت کا بیان۔
1652: سیدنا سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس سفید خچر کو کھینچا، جس پر رسول اللہﷺ اور سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ سوار تھے ، یہاں تک کہ ان کو حجرہ نبوی تک لے گیا۔ یہ ایک صاحبزادے آپﷺ کے آگے اور یہ ایک پیچھے تھے۔

1653: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ دن کو ایک وقت میں نکلا، کہ نہ آپﷺ مجھ سے بات کرتے تھے اور نہ میں آپﷺ سے بات کرتا تھا (یعنی خاموش چلے جاتے تھے ) یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار میں پہنچے۔ پھر آپﷺ لوٹے اور سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر پر آئے اور پوچھا کہ بچہ ہے ؟ بچہ ہے ؟ یعنی سیدنا حسنؓ کا پوچھ رہے تھے۔ ہم سمجھے کہ ان کی ماں نے ان کو روک رکھا ہے نہلانے دھلانے اور خوشبو کا ہار پہنانے کے لئے ، لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آئے اور دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے (یعنی رسول اللہﷺ اور سیدنا حسنؓ ) پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں توبھی اس سے محبت رکھ اور اس شخص سے محبت کر جو اس سے محبت کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا بنت محمدﷺ کی فضیلت کا بیان۔
1654: سیدنا مسور بن مخرمہؓ سے روایت ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ نے ابو جہل کی بیٹی کو (نکاح کا) پیام دیا اور ان کے نکاح میں رسول اللہﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپﷺ کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ آپﷺ اپنی بیٹیوں کے لئے غصہ نہیں ہوتے اور یہ علی ہیں جو ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ سیدنا مسورؓ نے کہا رسول اللہﷺ نے شہادتین کی ادائیگی کی اور پھر فرمایا کہ میں نے اپنی لڑکی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے کیا اس نے جو بات مجھ سے کہی وہ سچ کہی اور فاطمہ بنت محمدﷺ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے اور مجھے بُرا لگتا ہے کہ لوگ اس کو آزمائش میں ڈالیں (یعنی جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید فاطمہ رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوند کے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں) اور اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی لڑکی دونوں ایک مرد کے پاس جمع نہ ہوں گی۔ یہ سن کر سیدنا علیؓ نے پیام چھوڑ دیا۔ (یعنی ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ ختم کر دیا)۔

1655: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کی سب ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ آپﷺ کے پاس تھیں (آپﷺ کی بیماری میں)، کوئی بیوی ایسی نہ تھیں جو پاس نہ ہو کہ اتنے میں سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بالکل اسی طرح چلتی تھیں جس طرح رسول اللہﷺ چلتے تھے۔ آپﷺ نے جب انہیں دیکھا تو مرحبا کہا اور فرمایا کہ مرحبا میری بیٹی۔ پھر ان کو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا اور ان کے کان میں آہستہ سے کچھ فرمایا تو وہ بہت روئیں۔ جب آپﷺ نے ان کا یہ حال دیکھا تو دوبارہ ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنسیں۔ میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہﷺ نے خاص تم سے راز کی باتیں کیں، پھر تم روتی ہو۔ جب آپﷺ کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم سے رسول اللہﷺ نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ میں آپﷺ کا راز فاش کرنے والی نہیں ہوں۔ جب آپﷺ کی وفات ہو گئی تو میں نے ان کو قسم دی اس حق کی جو میرا ان پر تھا اور کہا کہ مجھ سے بیان کرو جو رسول اللہﷺ نے تم سے فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا کہ اب البتہ میں بیان کروں گی۔ پہلی مرتبہ آپﷺ نے میرے کان میں یہ فرمایا کہ جبرائیلؑ ہر سال ایک بار یا دو بار مجھ سے قرآن کا دور کرتے تھے اور اس سال انہوں نے دو بار دَور کیا، اور میں خیال کرتا ہوں کہ میرا (دنیا سے جانے کا) وقت قریب آگیا ہے ، پس اللہ سے ڈرتی رہ اور صبر کر، میں تیرا بہت اچھا منتظر ہوں۔ یہ سن کر میں رونے لگی جیسے تم نے دیکھا تھا۔ جب آپﷺ نے میرا رونا دیکھا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا کہ اے فاطمہ! تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ تو مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟ یہ سن کر میں ہنسی جیسے کہ تم نے دیکھا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کے اہل بیت کی فضیلت۔
1656: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ صبح کو نکلے اور آپﷺ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔ اتنے میں سیدنا حسنؓ آئے تو آپﷺ نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا۔ پھر سیدنا حسینؓ آئے تو ان کو بھی اس میں داخل کر لیا۔ پھر سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا آئیں تو ان کو بھی انہی کے ساتھ شامل کر لیا پھر سیدنا علیؓ آئے تو ان کو بھی شامل کر کے فرمایا کہ "اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے نا پاکی کو دُور کرے اور تم کو پاک کرے اے گھر والو!" (الاحزاب: 33)۔ (اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپﷺ کی ازواج آپ کے اہل بیت نہیں جیسا کہ شیعہ کا نظریہ ہے بلکہ اصل میں اہل بیت تو ازواج ہی ہیں جو کہ آیت کا سیاق بھی بتاتا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے سیدنا علی، فاطمہ اور حسنین رضی اللہ عنہم کو بھی شامل کر لیا ہے )۔

1657: یزید بن حیان کہتے ہیں کہ میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم سیدنا زید بن ارقمؓ کے پاس گئے۔ جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے کہا کہ اے زید! تم نے تو بڑی نیکی حاصل کی۔ تم نے رسول اللہﷺ کو دیکھا، آپﷺ کی حدیث سنی، آپﷺ کے ساتھ جہاد کیا،آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، تم نے بہت ثواب کمایا۔ ہم سے بھی کچھ حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہﷺ سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! میری عمر بہت بڑی ہو گئی اور مدت گزری اور بعض باتیں جن کو میں رسول اللہﷺ سے یاد رکھتا تھا بھول گیا ہوں، میں جو بات بیان کروں اس کو قبول کرو اور جو میں نہ بیان کروں اس کے لئے مجھے تکلیف نہ دو۔ پھر سیدنا زیدؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام "خم" کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپﷺ نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغامِ اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپﷺ نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپﷺ کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپﷺ کی ازواجِ مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زیدؓ نے کہا کہ ازواجِ مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زیدؓ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ سیدنا زیدؓ نے کہا کہ ہاں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کی زوجہ مطہرہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔
1658: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے تجھے خواب میں تین راتوں تک دیکھا کہ ایک فرشتہ تجھے ایک سفید ریشم کے ٹکڑے میں لایا اور مجھے کہنے لگا کہ یہ آپ کی عورت ہے میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو وہ تو ہی نکلی۔ میں نے کہا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا ہی ہو گا (یعنی یہ عورت مجھے ملے گی اگر کوئی اور اس خواب کی تعبیر نہ ہو)۔

1659: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں جان لیتا ہوں جب تو مجھ سے خوش ہوتی ہے اور جب ناخوش ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپﷺ کیسے جان لیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تو خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں محمدﷺ کے رب کی قسم، اور جب ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں قسم ہے ابراہیم (ں) کے رب کی۔ میں نے عرض کیا کہ بیشک اللہ کی قسم یا رسول اللہﷺ، میں صرف آپﷺ کا نام چھوڑ دیتی ہوں (جب آپﷺ سے ناراض ہوتی ہوں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ غصہ اسی رشک کے باب سے ہے جو عورتوں کو معاف ہے اور وہ ظاہر میں ہوتا تھا دل میں آپ کبھی رسول اللہﷺ سے ناراض نہ ہوتیں)۔

1660: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میری سہیلیاں آتیں اور رسول اللہﷺ کو دیکھ کر غائب ہو جاتیں (شرم اور ڈر سے ) تو آپﷺ ان کو میرے پاس بھیج دیتے۔

1661: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ میری باری کا انتظار کرتے تھے اور جس دن میری باری ہوتی، اس دن تحفے بھیجتے تاکہ آپﷺ خوش ہوں۔

1662: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو آپﷺ کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اجازت مانگی، اور آپﷺ میرے ساتھ میری چادر میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے اجازت دی تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپﷺ کی ازواجِ مطہرات نے مجھے آپﷺ کے پاس بھیجا ہے ، وہ چاہتی ہیں کہ آپﷺ ان کے ساتھ ابو قحافہ کی بیٹی میں انصاف کریں (یعنی جتنی محبت ان سے رکھتے ہیں اتنی ہی اوروں سے رکھیں۔ اور یہ امر اختیاری نہ تھا اور سب باتوں میں تو آپﷺ انصاف کرتے تھے ) اور میں خاموش تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے بیٹی! کیا تو وہ نہیں چاہتی جو میں چاہوں؟ وہ بولیں کہ یا رسول اللہﷺ! میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپﷺ چاہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو عائشہ سے محبت رکھ۔ یہ سنتے ہی فاطمہ اٹھیں اور ازواجِ مطہرات کے پاس گئیں اور ان سے جا کر اپنا کہنا اور رسول اللہﷺ کا فرمانا بیان کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم سمجھتیں ہیں کہ تم ہمارے کچھ کام نہ آئیں، اس لئے پھر رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپﷺ کی ازواج ابو قحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں(ابو قحافہ سیدنا ابو بکرؓ کے والد تھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے دادا ہوئے اور دادا کی طرف نسبت دے سکتے ہیں)۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اب عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقدمہ میں کبھی رسول اللہﷺ سے گفتگو نہ کروں گی۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آخر آپﷺ کی ازواج نے اُمّ المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو آپﷺ کے پاس بھیجا اور میرے برابر کے مرتبہ میں آپﷺ کے سامنے وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچی بات کہنے والی، ناتا جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی، فقط ان میں ایک تیزی تھی (یعنی غصہ تھا) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے اجازت چاہی تو آپﷺ نے اسی حال میں اجازت دی کہ آپﷺ میری چادر میں تھے ، جس حال میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ﷺکی ازواج ابو قحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں۔ پھر یہ کہہ کر مجھ پر آئیں اور زبان درازی کی اور میں رسول اللہﷺ کی نگاہ کو دیکھ رہی تھی کہ آپﷺ مجھے جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، یہاں تک کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپﷺ جواب دینے سے بُرا نہیں مانیں گے ، تب تو میں بھی ان پر آئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو لاجواب کر دیا یا ان پر غالب آ گئی۔ رسول اللہﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ابو بکرؓ کی بیٹی ہے (کسی ایسے ویسے کی لڑکی نہیں جو تم سے دب جائے )۔

1663: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ (بیماری میں) دریافت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں آج کہاں ہوں گا، میں کل کہاں ہوں گا؟ یہ خیال کر کے کہ ابھی میری باری میں دیر ہے۔ پھر میری باری کے دن اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بلا لیا میرے سینہ اور حلق سے (یعنی آپﷺ کا سر مبارک میرے سینہ سے لگا ہوا تھا)۔

1664: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو اپنی وفات سے پہلے فرماتے ہوئے سنا اور آپﷺ میرے سینہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے کان لگایا تو آپﷺ فرماتے تھے کہ" اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور مجھے اپنے رفیقوں سے ملا دے "۔

1665: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی تندرستی کی حالت میں فرماتے تھے کہ کوئی نبی فوت نہیں ہوا یہاں تک کہ اس نے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ نہیں لیا اور اسے دنیا سے جانے کا اختیار نہیں ملا۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب رسول اللہﷺ کی وفات کا وقت آگیا تو آپﷺ کا سر میری ران پر تھا۔ آپﷺ ایک ساعت تک بیہوش رہے ، پھر ہوش میں آئے اور اپنی آنکھ چھت کی طرف لگائی اور فرمایا کہ اے اللہ! بلند رفیقوں کے ساتھ کر (یعنی پیغمبروں کے ساتھ جو اعلیٰ علییّن میں رہتے ہیں)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس وقت میں نے کہا کہ اب آپﷺ ہمیں اختیار کرنے والے نہیں اور مجھے وہ حدیث یاد آئی جو آپﷺ نے تندرستی کی حالت میں فرمائی تھی کہ کوئی نبی فوت نہیں ہوا یہاں تک کہ اس نے اپنا ٹھکانہ جنت میں نہ دیکھ لیا ہو اور اس کو (دنیا میں رہنے اور آخرت میں رہنے کا) اختیار نہ ملا ہو۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آخری کلمہ تھا جو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! مجھے بلند رفیقوں کے ساتھ کر۔

1666: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب سفر کو جاتے تو اپنی ازواج پر قرعہ ڈالتے۔ ایک بار قرعہ مجھ پر اور اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر آیا اور ہم دونوں آپﷺ کے ساتھ نکلیں۔ آپﷺ جب رات کو سفر کرتے تو اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ساتھ ان سے باتیں کرتے ہوئے چلتے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آج رات تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر سوار ہوتی ہوں، تم دیکھو گی جوتم نہیں دیکھتی تھیں اور میں دیکھوں گی جو میں نہیں دیکھتی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اچھا۔ پس وہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہوئیں اور حفصہ رضی اللہ عنہا ان کے اونٹ پر۔ رات کو رسول اللہﷺ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی طرف آئے ، جس پر حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں، آپﷺ نے سلام کیا اور ان ہی کے ساتھ ساتھ چلے ، یہاں تک کہ منزل پر اترے۔ اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کو (رات بھر) نہ پایا تو انہیں غیرت آئی۔ جب وہ اتریں تو اپنے پاؤں اذخر (گھاس) میں ڈالتیں اور کہتیں کہ اے اللہ! مجھ پر بچھو یا سانپ مسلط کر جو مجھے ڈس لے ، وہ تو تیرے رسول ہیں، میں ان کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔

1667: سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مردوں میں بہت لوگ کامل ہوئے ، لیکن عورتوں میں کوئی کامل نہیں ہوئی سوائے مریم بنت عمران اور آسیہ رضی اللہ عنہا جو کہ فرعون کی بیوی تھی۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر ہے۔

1668: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ جبرئیلؑ ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ و علیہ السلام و رحمۃ اللہ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپﷺ وہ چیزیں دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اسی سے متعلق اور امّ زرع کی حدیث کے بیان میں۔
1669: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان سب نے یہ اقرار اور عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کی کوئی بات نہ چھپائیں گی۔ پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند گویا دُبلے اونٹ کا گوشت ہے ، جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو۔ نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی کیونکہ اس میں ظاہری و باطنی عیوب بہت زیادہ ہیں۔ (اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں گی تو اس کو چھوڑ دوں گی۔ یعنی وہ خفا ہو کر مجھے طلاق دے گا اور اس کو چھوڑ نا پڑے گا)۔ تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند لمبا قد اور احمق ہے ، اگر میں اس کی بُرائی بیان کروں تو مجھے طلاق دیدے گا اور جو چپ رہوں تو اسی طرح معلق رہوں گی (یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔ چوتھی نے کہا کہ میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجاز اور مکہ) کی رات۔ نہ گرم ہے نہ سرد ہے (یعنی معتدل المزاج ہے ) نہ ڈر ہے نہ رنج ہے (یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے اخلاق عمدہ ہیں اور نہ وہ میری صحبت سے ملول ہوتا ہے )۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے (یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا) اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر ہے۔ اور جو مال اسباب گھر میں چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا۔ چھٹی عورت نے کہا کہ میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب ختم کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ درد پہچانے (یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرح اور کوئی کام کا نہیں، عورت کی خبر تک نہیں لیتا)۔ ساتویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام کرنا نہیں جانتا، سب دنیا بھر کے عیب اس میں موجود ہیں۔ ایسا ظالم ہے کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔ آٹھویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند بو میں زرنب ہے (زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے ) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں)۔ نویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند اونچے محل والا، لمبے پرتلے والا (یعنی قد آور) اور بڑی راکھ والا (یعنی سخی ہے ) اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے ) اس کا گھر قوم کے مل بیٹھ کر مشورہ کرنے کی جگہ (ڈیرہ وغیرہ) (یعنی سردار اور صاحب الرائے ہے )۔ دسویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام مالک ہے۔ اور مالک کیا خوب ہے۔ مالک میری اس تعریف سے افضل ہے۔ اس کے اونٹوں کے بہت سے شتر خانے ہیں اور کم تر چراگاہیں ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں، اس سبب سے شتر خانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں) جب اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا، اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا)۔ گیارھویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام ابو زرع ہے سو واہ کیا خوب ابو ذرع ہے۔ اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے (یعنی مجھے موٹا کیا اور مجھے بہت خوش کیا)، سو میری جان بہت چین میں رہی مجھے اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے ، پس اس نے مجھے گھوڑے ، اونٹ، کھیت اور ڈھیریوں/ خرمن کا مالک کر دیا (یعنی میں نہایت ذلیل اور محتاج تھی، اس نے مجھے با عزت اور مالدار کر دیا)۔ میں اس کی بات کرتی ہوں تو وہ مجھے بُرا نہیں کہتا۔ سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں (یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں۔ اور ابو زرع کی ماں، پس ابو زرع کی ماں بھی کیا خوب ہے۔ اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں اور کشادہ گھر ہیں۔ ابو زرع کا بیٹا، پس ابو زرع کا بیٹا بھی کیا خوب ہے۔ اس کی خوابگاہ جیسے تلوار کا میان (یعنی نازنین بدن ہے )، اس کو (بکری) حلوان کا ہاتھ آسودہ (سیر) کر دیتا ہے (یعنی کم خور ہے )۔ ابو زرع کی بیٹی، پس ابو زرع کی بیٹی بھی کیا خوب ہے۔ اپنے والدین کی تابعدار اور اپنے لباس کو بھرنے والی (یعنی موٹی ہے ) اور اپنی سوتن کی رشک (یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے ، اس لئے اس کی سوتن اس سے جلتی ہے )۔ اور ابو زرع کی لونڈی، ابو زرع کی لونڈی بھی کیا خوب ہے۔ ہماری بات ظاہر کر کے مشہور نہیں کرتی اور ہمارا کھانا اٹھا کر نہیں لے جاتی اور ہمارا گھر کچرے سے آلودہ نہیں رکھتی۔ ابو زرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ (گھی نکالنے کے لئے ) بلویا جا رہا تھا۔ پس وہ ایک عورت سے ملا، جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے ہوں۔ پس ابو زرع نے مجھے طلاق دی اور اس عورت سے نکاح کر لیا۔ پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا جو ایک عمدہ گھوڑے کا سوار اور نیزہ باز ہے۔ اس نے مجھے چوپائے جانور بہت زیادہ دئیے اور اس نے مجھے ہر ایک مویشی سے جوڑا جوڑا دیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اے اُمّ زرع! خود بھی کھا اور اپنے لوگوں کو بھی کھلا۔ پس اگر میں وہ چیزیں جمع کروں جو مجھے دوسرے شوہر نے دیں، تو وہ ابو زرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچیں (یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے )۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میں تیرے لئے ایسا ہوں جیسے ابو زرع اُمّ زرع کے لئے تھا۔(لیکن نہ تجھے طلاق دی ہے اور نہ دوں گا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کی زوجہ مطہر اُمّ المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کابیان۔
1670: سیدنا عبد اللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علیؓ سے کوفہ میں سنا, وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا, آپﷺ فرماتے تھے کہ (آسمان و زمین کے اندر) جتنی عورتیں ہیں سب میں مریم بنت عمران افضل ہیں اور (آسمان اور زمین کے اندر) جتنی عورتیں ہیں سب میں خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا افضل ہیں۔ ابو کریب نے کہا کہ وکیع نے آسمان و زمین کی طرف اشارہ کیا۔

1671: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جبرئیلؑ نبیﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ خدیجہ ایک برتن لے کر آپﷺ کے پاس آ رہی ہیں، اس میں سالن ہے یا کھانا ہے یا شربت ہے۔ پھر جب وہ آئیں تو آپ ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام کہئے اور میری طرف سے بھی اور ان کو ایک گھر کی خوشخبری دیجئے جو جنت میں خولدار موتی کا بنا ہوا ہے ، جس میں کوئی شور ہے اور نہ کوئی تکلیف ہے۔

1672: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبیﷺ کی ازواج میں سے کسی پر رشک نہیں کیا، البتہ خدیجہ رضی اللہ عنہآپر کیا اور میں نے ان کو دیکھا نہیں۔ رسول اللہﷺ جب بکری ذبح کرتے تو فرماتے کہ اس کا گوشت خدیجہ کی سہیلیوں کو بھیجو۔ ایک دن میں نے آپﷺ کو ناراض کیا اور کہا کہ خدیجہ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے دل میں اس کی محبت ڈال دی گئی ہے۔

1673: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے خدیحہ رضی اللہ عنہا پر دوسرا نکاح نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں۔

1674: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی، تو آپﷺ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت مانگنا یاد آگیا۔ آپﷺ خوش ہوئے اور فرمایا کہ یا اللہ ! ہالہ بنت خویلد۔ مجھے رشک آیا تو میں نے کہا کہ آپﷺ کیا قریش کی بوڑھیوں میں سے سرخ مسوڑھوں والی ایک بڑھیا کو یاد کرتے ہیں (یعنی انتہا کی بڑھیا جس کے ایک دانت بھی نہ رہا ہو نری سرخی ہی سرخی ہو، دانت کی سفیدی بالکل نہ ہو) جو مدت گزری فوت ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اس سے بہتر عورت دی (جوان باکرہ جیسے میں ہوں)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔
1675: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (اپنی ازواج سے ) فرمایا کہ تم سب میں پہلے وہ مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ پس سب ازواج مطہرات نے اپنے اپنے ہاتھ ناپے تاکہ معلوم ہو کہ کس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم سب میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاتھ زیادہ لمبے تھے ، اس لئے کہ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتیں اور صدقہ دیتی تھیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔
1676: ابو عثمان سیدنا سلمانؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اگر ہو سکے تو سب سے پہلے بازار میں مت جا اور نہ سب کے بعد وہاں سے نکل، کیونکہ بازار شیطان کا میدان جنگ ہے اور وہیں وہ اپنا جھنڈا گاڑتا ہے۔ انہوں نے کہا مجھے خبر دی گئی کہ جبرائیلؑ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ کے پاس اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جبرئیلؑ آپﷺ سے باتیں کرنے لگے ، پھر کھڑے ہوئے (یعنی چلے گئے ) تو رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون شخص تھے ؟ انہوں نے کہا کہ دحیہ کلبی تھے۔ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم تو انہیں دحیہ کلبی ہی سمجھے ، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہﷺ کا خطبہ سنا، آپﷺ ہماری خبر بیان کرتے تھے۔ میں (راوئ حدیث) نے کہا کہ میں نے ابو عثمان سے پوچھا کہ یہ حدیث آپ نے کس سے سنی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سیدنا اسامہ بن زیدؓ سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا انس بن مالکؓ کی والدہ، سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔
1677: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کسی عورت کے گھر میں نہیں جاتے تھے سوا اپنے ازواج کے یا اُمّ سلیم کے (جو سیدنا انسؓ کی والدہ اور سیدنا ابو طلحہؓ کی بیوی تھیں)۔ آپﷺ اُمّ سلیم کے پاس جایا کرتے تھے۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس پر بہت رحم آتا ہے ، اس کا بھائی میرے ساتھ مارا گیا۔

1678: سیدنا انس بن مالکؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: میں جنت میں گیا، وہاں میں نے (کسی کے چلنے کی) آہٹ پائی تو میں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ غمیصا بنت ملحان (اُمّ سلیم کا نام غمیصا یا رمیصا تھا) انس بن مالک کی والدہ ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا اسامہ بن زید کی والدہ، سیدہ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔
1679: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابو بکرؓ نے رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد سیدنا عمرؓ سے کہا کہ ہمارے ساتھ اُمّ ایمن کی ملاقات کے لئے چلو ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہﷺ ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ دونوں ساتھیوں نے کہا کہ تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسولﷺ کے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہﷺ کے لئے بہتر ہے۔ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا۔ اُمّ ایمن کے اس کہنے سے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمرؓ کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔
 
Top