راوی پر الزام کا مطلب
راوی پر الزام کر معنی ہے کہ اس پر کھلے الفاظ میں الزام لگایا گیا ہو۔ اس کے کردار اور دین کے بارے میں اعتراضات کیے گئے ہوں۔ حدیث کے بارے میں اس کے رویے پر گفتگو کی گئی ہو یعنی وہ حدیث کو کس طرح محفوظ رکھتا تھا؟ انہیں کس حد تک یاد رکھتا تھا؟ اس معاملے میں وہ کس حد تک محتاط تھا؟ وغیرہ وغیرہ
نوٹ: اس موقع پر ایک دلچسپ سوال پیدا ہو گیا ہے۔ قرآن مجید میں کسی شخص کی عیب جوئی اور کردار کشی سے منع کیا گیا ہے۔ کیا یہ حکم حدیث بیان کرنے والے راویوں کے بارے میں بھی ہے؟ حدیث، فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ جس عیب جوئی اور کردار کشی سے قرآن مجید میں منع کیا گیا ہے، اس کا تعلق کسی شریف انسان کے ذاتی معاملات سے ہے۔
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کسی سے لین دین یا رشتے داری کرنا مقصود ہو تو اس شخص کے کردار کی چھان بین ضروری ہے۔ اگر کوئی دھوکے باز شخص ہے اور وہ دوسرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو اس کے کردار سے دوسروں کو آگاہ کرنا تاکہ وہ اس کے دھوکے سے محفوظ رہیں بالکل درست ہے۔
عام زندگی میں شریف لوگ کسی کی کردار کشی نہیں کرتے لیکن جب کسی کے ساتھ رشتے ناتے قائم کرنے یا اس سے لین دین کا معاملہ پیش آتا ہے تو کردار کی چھان بین سے اخلاقیات منع نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے بارے میں تو عیب جوئی نہیں کی جاتی لیکن حکومت کے لیڈروں کے بارے میں ہر شخص چھان بین کا حق رکھتا ہے۔
جب کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کسی بات کو بیان کرتا ہے تو بالکل اسی اصول پر وہ خود کو لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے کہ وہ اس کے کردار کی چھان بین کر سکیں۔ اگر کوئی شخص ایسا نہیں چاہتا تو اسے چاہیے کہ وہ احادیث بیان کرنے کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہے۔
راوی پر الزام کے اسباب
راوی پر الزام کے بنیادی طور پر دس اسباب ہیں۔ ان میں سے پانچ تو اس کے کردار سے متعلق ہیں اور پانچ کا تعلق حدیث کی حفاظت کے امور سے ہے۔ کردار سے متعلق الزامات ان بنیادوں پر لگائے جاتے ہیں:
·جھوٹ۔ (حدیث بیان کرنے والا شخص کہیں جھوٹ بولنے کا عادی تو نہیں؟ جھوٹے شخص کی حدیث قبول نہیں کی جاتی۔)
·جھوٹ بولنے کا الزام۔ (یہ الزام اگرچہ غلط بھی ہو لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس شخص کی حدیث کو قبول نہ کیا جائے۔)
·فسق و فجور۔ (وہ شخص اعلانیہ طور پر گناہوں کا ارتکاب تو نہیں کرتا۔ چھپے ہوئے گناہوں کو تو سوائے اللہ تعالی اور اس شخص کے اور کوئی نہیں جانتا۔)
·بدعت۔ (وہ شخص کہیں کسی نئے مذہب، مسلک، فرقے، رسم کا حامی تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ اپنے مذہب کے حق میں تعصب کا شکار ہو گا اور اس کی بیان کردہ احادیث اس کے تعصب سے متاثر ہوں گی۔)
·جہالت۔ (اگر وہ شخص دین کو نہیں جانتا تو بات کچھ کی کچھ ہو سکتی ہے۔)
·حدیث کی حفاظت سے متعلق راوی کی شخصیت کے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
·بہت زیادہ غلطیاں کرنا۔ (تھوڑی بہت غلطی تو سبھی سے ہو سکتی ہے لیکن بہت زیادہ غلطیاں کرنے والے شخص کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر محتاط طبیعت کا مالک تھا۔)
·حافظے کی کمزوری۔ (کمزور حافظے والا شخص کے لئے حدیث کو یاد رکھنے میں غلطیوں کا امکان زیادہ ہے۔)
·غفلت و لاپرواہی۔ (ایک لاپرواہ شخص سے غلطی صادر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔)
·بہت زیادہ وہمی ہونا۔ (وہمی شخص بھی بات کو آگے منتقل کرنے میں غلطیاں کر سکتا ہے۔ وہ بعض باتوں پر زیادہ زور دے گا اور بعض کو نظر انداز کر دے گا۔)
·ثقہ راویوں کی احادیث کے خلاف احادیث روایت کرنا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشادات میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ آپ کی محکم احادیث کے خلاف کثرت سے روایت کرنے والا یا تو بات سمجھنے میں غلطی کر رہا ہو گا اور یا پھر جان بوجھ کر کوئی غلط بات پھیلانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔)
اب ہم مسترد شدہ احادیث کی ان اقسام کا جائزہ لیں گے جو کہ راوی پر الزام کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ ہم سخت ترین اقسام سے آغاز کریں گے۔
موضوع حدیث کی تعریف
لغوی اعتبار سے "موضوع" وضع کرنے کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے گھڑی ہوئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں موضوع حدیث اس جھوٹی حدیث کو کہتے ہیں جسے گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر دیا گیا ہو۔
موضوع حدیث کا درجہ
یہ ضعیف احادیث میں سے سب سے بدترین درجے کی حامل ہے۔ بعض اہل علم تو اسے ضعیف حدیث میں بھی شمار نہیں کرتے بلکہ ایک الگ درجے پر رکھتے ہیں۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی طرف سے گھڑ کر جھوٹی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ ضعیف حدیث میں تو پھر بھی یہ شک ہوتا ہے کہ شاید یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمائی ہو گی جبکہ موضوع حدیث تو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہے۔)
موضوع حدیث کی روایت کرنے کا حکم
اہل علم کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ موضوع حدیث کے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ یہ جعلی حدیث ہے، اسے روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اس بات کی اجازت ہے کہ اسے روایت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بتا دیا جائے کہ یہ موضوع حدیث ہے۔ مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جس نے جان بوجھ کر مجھ سے منسوب جھوٹی بات بیان کی تو وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے۔" (مقدمة مسلم بشرح النووي جـ 1 ـ ص 62)
جعلی احادیث ایجاد کرنے کا طریقہ
جعلی احادیث ایجاد کرنے والا شخص بسا اوقات اپنی طرف سے کوئی بات گھڑتا ہے اور اس کے بعد اس کی اسناد اور روایت کو ایجاد کر لیتا ہے۔ بعض اوقات وہ کچھ دانشوروں وغیرہ کے اقوال حاصل کرتا ہے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنے کے لئے جھوٹی اسناد ایجاد کر لیتا ہے۔
موضوع حدیث کو کیسے پہچانا جائے؟
موضوع حدیث کو ان طریقوں سے پہچانا جا سکتا ہے:
·احادیث ایجاد کرنے والا خود اقرار کر لے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ابو عصمہ نوح بن ابی مریم نے اس بات کا خود اقرار کیا کہ اس نے قرآن مجید کی ہر سورت کے فضائل سے متعلق احادیث گھڑیں اور انہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کر دیا۔
·احادیث ایجاد کرنے والا الٹی سیدھی بات کر کے اپنا درجہ خود کم کر لے۔ مثال کے طور پر ایک ایسا ہی شخص کسی شیخ سے حدیث روایت کر رہا تھا۔ جب اس شخص سے اس کی تاریخ پیدائش پوچھی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے شیخ اس شخص کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے انتقال کر چکے تھے۔ اس شخص کی بیان کردہ حدیث کا علم سوائے اس کے کسی اور کو نہ تھا۔ (اس جھوٹ کی وجہ سے یہ معلوم ہو گیا کہ وہ شخص حدیث کو خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر رہا ہے۔)
·احادیث وضع کرنے کے شواہد راوی کی ذات میں پائے جائیں۔ مثلاً راوی کسی خاص مسلک کے بارے میں شدت پسندانہ رویہ رکھتا ہو اور وہ اس مسلک کو ثابت کرنے کے لئے احادیث وضع کرنے لگے۔
·خود حدیث میں وضع کرنے کے شواہد پائے جائیں۔ مثلاً حدیث کے الفاظ گھٹیا درجے کے ہوں، یا حسی شواہد کے خلاف ہوں یا قرآن مجید کے صریح الفاظ کے خلاف ہوں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے آخری یونٹ، درایت کے اصول)
جعلی احادیث ایجاد کرنے کی وجوہات اور احادیث گھڑنے والوں کی خصوصیات
جعلی احادیث وضع کرنے کی کئی وجوہات ہیں:
قرب الہی کا حصول
بعض لوگوں نے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے احادیث وضع کیں۔ انہوں نے لوگوں کو نیکیوں کی طرف راغب کرنے اور گناہوں سے روکنے کے لئے حدیثیں گھڑیں۔ جعلی احادیث کے ان موجدوں نے اپنی طرف سے لوگوں کو زھد و تقوی کی طرف لانے کے لئے احادیث گھڑیں لیکن یہ بدترین لوگ تھے کیونکہ انہیں ثقہ سمجھتے ہوئے لوگوں نے ان کی احادیث پر یقین کر لیا۔
ایسے لوگوں کی ایک مثال میسرہ بن عبد رب تھا۔ ابن حبان اپنی کتاب "الضعفاء" میں ابن مہدی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص سے پوچھا، "تم یہ احادیث کہاں سے لائے ہو، تم نے کس شخص کو یہ احادیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔" وہ کہنے لگا، "میں نے ان احادیث کو خود ایجاد کیا ہے تا کہ لوگوں کو نیکیوں کی طرف راغب کر سکوں۔" (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 283)
مسلک اور فرقے کی تائید
بعض لوگوں نے اپنے مسلک اور فرقے کی تائید میں احادیث ایجاد کیں۔ خلافت راشدہ کے دور میں جو سیاسی نوعیت کے فرقے پیدا ہوئے انہوں نے اپنے فرقے کی تائید میں احادیث وضع کرنے کا کام شروع کیا۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ، "علی سب سے بہترین انسان ہیں۔ جس نے اس کا انکار کیا، اس نے کفر کیا۔"
اسلام پر اعتراضات
بعض ایسے ملحد لوگ تھے جنہوں نے اسلام پر اعتراضات کرنے اور اس سے متعلق لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے یہ کام شروع کیا۔ وہ کھلم کھلا تو اسلام پر اعتراضات کر نہیں سکتے تھے چنانچہ انہوں نے اس طریقے سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی مذموم کوشش کی۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات کا حلیہ بگاڑنے اور اس پر اعتراضات کرنے کے لئے احادیث وضع کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ ان کی ایک مثال محمد بن سعید شامی تھا۔ اس نے حمید اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت منسوب کی، "میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس کے کہ جسے اللہ چاہے۔" (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 284) اللہ تعالی کا بڑا شکر ہے کہ اس نے حدیث کے ایسے ماہرین پیدا کیے جنہوں نے ایسی احادیث کو الگ کر دیا۔
حکمرانوں کا قرب
بعض حضرات نے محض حکمرانوں کی قربت حاصل کرنے (اور ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے لئے) احادیث گھڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ لوگ اس طریقے کے حکمرانوں کے ناجائز کاموں کو بھی جائز قرار دے دیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ غیاث بن ابراہیم النخعی الکوفی خلیفہ مہدی کے پاس آیا تو وہ کبوتر کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس موقع پر اس نے فوراً ہی اپنی سند سے حدیث بیان کی، "تیر اندازی، گھڑ دوڑ، خچر کی دوڑ اور کبوتر بازی کے علاوہ کسی چیز میں مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔" اس شخص نے حدیث میں "کبوتر بازی" کا اپنی طرف سے اضافہ کر دیا۔ مہدی اس حدیث سے واقف تھا۔ اس نے فوراً ہی کبوتر کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور کہنے لگا، "میں اس بات سے واقف ہوں۔"
روزگار کا حصول
کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو لوگوں کو قصے کہانیاں سنا کر اپنے روزگار کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو عجیب و غریب اور طلسماتی قصے سنا کر ان سے رقم وصول کرتے۔ ابو سعید المدائنی اسی قسم کا ایک قصہ گو ہے۔
نوٹ: عام لوگ قصے کہانیوں کو پسند کرتے ہیں۔ ناول، ڈرامہ، افسانہ وغیرہ کی اصناف سخن سب انسان کے اسی شوق کے باعث پیدا ہوئی ہیں۔ دنیا کے دوسرے معاشروں میں قدیم دور سے ہی کہانیوں اور ڈراموں کا رواج رہا ہے۔ مسلم معاشروں میں چونکہ ڈرامے کو اچھا نہیں سمجھا گیا اس وجہ سے اس کی جگہ قصہ خوانی نے لے لی۔ قرون وسطی میں قصہ گو بڑے بڑے میدانوں یا چوراہوں پر باقاعدہ قصہ گوئی کی محفلیں جماتے اور لوگوں سے رقم لے کر انہیں قصے سناتے۔ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا اسی قسم کی داستانیں تھیں۔ اس قسم کے بعض قصہ گو حضرات نے بعض قصوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر دیا۔
شہرت کا حصول
ایسی عجیب و غریب احادیث کو، جو حدیث کے کسی ماہر کے پاس موجود نہیں تھیں، محض سستی شہرت کے حصول لئے ایجاد کیا گیا۔ ابن ابی دحیۃ اور حماد النصیبی جیسے لوگ احادیث کی سند کو عجیب و غریب بنانے کے لئے اس میں تبدیلیاں کر دیتے تاکہ لوگ انہیں سننے کے لئے ان کے پاس آئیں۔ (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 284)
وضع حدیث کے بارے میں فرقہ کرامیہ کا نقطہ نظر
دور قدیم میں ایک بدعتی فرقہ کرامیہ پیدا ہوا۔ ان کے نزدیک ترغیب و ترہیب (یعنی لوگوں کو نیکیوں کی طرف رغبت دلانے اور برائیوں سے روکنے) کے لئے احادیث ایجاد کرنا جائز تھا۔ ان حضرات نے متواتر حدیث "جس نے مجھ سے جھوٹ منسوب کیا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" کے بعض طرق میں موجود اس اضافے سے استدلال کیا کہ "جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے مجھ سے جھوٹ منسوب کیا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" یہ اضافہ حدیث کے ماہرین اور حفاظ کے نزدیک ثابت شدہ نہیں ہے۔
ان میں سے بعض افراد کا نقطہ نظر یہ تھا کہ، "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جھوٹ منسوب نہیں کرتے بلکہ آپ (کے مقصد کے حصول) کے لئے جھوٹ بولتے ہیں۔" یہ ایک نہایت ہی احمقانہ استدلال تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنے دین کو پھیلانے کے لئے کسی جھوٹے پروپیگنڈا کے محتاج ہرگز نہ تھے۔
فرقہ کرامیہ کا یہ نقطہ نظر مسلمانوں کے اجماع کے خلاف تھا۔ اس کے بعد شیخ ابو محمد الجوینی کا دور آیا۔ انہوں نے احادیث ایجاد کرنے والے فرد کی تکفیر کا فتوی جاری کیا۔
موضوع حدیث بیان کرنے کے بارے میں بعض مفسرین کی غلطی
قرآن مجید کے بعض مفسرین نے بھی اپنی تفسیروں میں موضوع احادیث کو بیان کرنے کی غلطی کی ہے۔ انہوں نے ان احادیث کا موضوع ہونا بیان نہیں کیا ہے۔ ان میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منسوب وہ احادیث شامل ہیں جن میں قرآن مجید کی مختلف سورتوں کی تلاوت کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں ثعلبی، واحدی، زمخشری، بیضاوی اور شوکانی جیسے مفسرین شامل ہیں۔
موضوع حدیث کے بارے میں مشہور تصانیف
·ابن جوزی کی کتاب الموضوعات۔ یہ اس فن میں قدیم ترین تصنیف ہے۔ ابن جوزی حدیث کو موضوع قرار دینے میں نرمی سے کام لیتے تھے اس وجہ سے اہل علم نے ان پر تنقید کی ہے۔
·سیوطی کی اللائی المصنوعۃ فی الحادیث الموضوعۃ۔ یہ ابن جوزی کی کتاب کا خلاصہ ہے۔ اس میں ان پر تنقید بھی کی گئی ہے اور ایسی مزید موضوع احادیث بھی بیان کی گئی ہیں جن کا ابن جوزی نے ذکر نہیں کیا۔
·ابن عراق الکنانی کی تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ۔ یہ پہلی کتاب کی مزید تلخیص ہے اور اس کی ترتیب نہایت ہی مناسب ہے۔