محمد کاشف
رکن
- شمولیت
- مئی 17، 2015
- پیغامات
- 153
- ری ایکشن اسکور
- 23
- پوائنٹ
- 60
کمزور حفاظت والے راوی کی بیان کردہ حدیثبدعتی راوی کی بیان کردہ حدیث
تعریف
لغوی اعتبار سے بدعت کا معنی ہے نئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذریعے دین کے مکمل ہو جانے کے بعد اس میں نئے عقائد و اعمال کے اضافے کو بدعت کہا جاتا ہے۔
بدعت کی اقسام
بدعت کی دو اقسام ہیں:
·کفر تک پہنچانے والی بدعت: ایسی بدعت جس کے باعث اس کو اختیار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے۔ جو شخص دین کے متواتر اور معلوم احکام کا انکار کرے یا دین کے بنیادی عقائد سے مختلف عقیدہ رکھے، اس کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ (مثلاً کوئی خدا کے وجود، آخرت، نماز، زکوۃ وغیرہ کا منکر ہو۔) (النخبة وشرحها ص 52)
·فسق و فجور کی حد تک پہنچانے والی بدعت: اس بدعت کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوتا البتہ گناہگار ضرور ہوتا ہے۔ (مثلاً کوئی شخص دین میں نت نئی عبادات یا وظائف ایجاد کر لے۔)
بدعتی کی بیان کردہ حدیث کا حکم
اگر بدعتی کی بدعت حد کفر تک پہنچتی ہو تو اس کی روایت کو رد کر دیا جائے گا۔ اگر اس کی بدعت حد کفر تک نہ پہنچتی ہو بلکہ ایسا بدعتی فسق و فجور کی حد تک ہی محدود ہو تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس کی روایت کو دو شرائط کی بنیاد پر قبول کیا جائے گا:
·وہ شخص اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا نہ ہو۔
·وہ ایسی حدیث روایت نہ کرے جو اس کی بدعت کو فروغ دینے والی ہو۔
بدعتی کی حدیث کا کیا کوئی خاص نام ہے؟
بدعتی کی بیان کردہ حدیث کا کوئی خاص نام نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ مردود احادیث کی ایک قسم ہے۔ ایسی حدیث کو سوائے اوپر بیان کردہ شرائط کے قبول نہیں کیا جا سکتا۔
نوٹ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جو دین دیا، وہ کامل ہے۔ جو شخص اس دین سے ہٹ کر کوئی نیا عقیدہ، نئی عبادت یا نیا حکم ایجاد کرتا ہے، وہ شاید یہ سمجھتا ہے کہ آپ کا دین کامل نہیں اس لئے اس میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسا جرم ہے جس کے بعد ایسے شخص کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔
مسلمانوں کی تاریخ میں ایک المیہ یہ رہا ہے کہ عہد رسالت کے بعد پیدا ہو جانے والے نئے نئے فرقوں نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لئے احادیث گھڑ کر پھیلانا شروع کیں۔ بعض فرقے تو اس ضمن میں خاصے بدنام ہیں کہ انہوں نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لئے جعلی احادیث کا ہی سہارا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے ایسے افراد کی احادیث کو قبول نہیں کیا۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنی بدعت کے بارے میں متعصب نہ ہو اور اس کی دعوت پھیلانے کے لئے ایسا نہ کرے تب اس کی حدیث قبول کی جا سکتی ہے۔
اس سے محدثین کی وسعت نظری اور ان کے غیر متعصب ہونے کا علم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص کی بیان کردہ حدیث کو بھی کچھ ضروری شرائط کے ساتھ قبول کر لیا کرتے تھے۔
کمزور حفاظت کی تعریف
کمزور حفاظت کا معنی ہے کہ اس نے احادیث کوصحیح طور پر محفوظ نہ رکھا ہو جس کے باعث اس کی احادیث میں غلطی کا امکان، صحت کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہو۔
کمزور حفاظت کی اقسام
کمزور حافظے کی دو صورتیں ہیں:
·کسی شخص کا حافظہ اوائل عمر سے لے کر اس کی موت تک کمزور رہا ہو۔ حدیث کے بعض ماہرین کے نزدیک اس کی بیان کردہ حدیث شاذ ہو۔
·کسی شخص کے حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت میں عمر کے کسی مخصوص حصے میں کمزوری واقع ہو گئی ہو۔ بڑھاپے ، بینائی کے زائل ہونے، یا اس شخص کی لکھی ہوئی کتاب کے جل کر ضائع ہو جانے کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایسے شخص کو "مُختَلِط" کا نام دیا گیا ہے۔
کمزور حفاظت والے راوی کی بیان کردہ احادیث کا حکم
جہاں تک تو پہلی قسم کے شخص کا تعلق ہے، تو ایسے شخص کی تمام روایات کو مسترد کر دیا جائے گا۔ رہا دوسری قسم کا یعنی "مختلط" شخص تو اس کی روایت کا حکم اس طرح سے ہے:
·اگر حادثے سے پہلے اس شخص کی بیان کردہ احادیث کو الگ کرنا ممکن ہو تو ان احادیث کو قبول کیا جائے گا۔
·حادثے کے بعد بیان کردہ احادیث کو مسترد کر دیا جائے گا۔
·وہ احادیث جن کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اس شخص نے حادثے سے پہلے بیان کی ہیں یا بعد میں، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے گی جب تک ان کے بارے میں تفصیل معلوم نہ ہو جائے۔