• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدلس راوی کا عنعنہ اور صحیحین [انتظامیہ]

شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
بدعتی راوی کی بیان کردہ حدیث

تعریف

لغوی اعتبار سے بدعت کا معنی ہے نئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذریعے دین کے مکمل ہو جانے کے بعد اس میں نئے عقائد و اعمال کے اضافے کو بدعت کہا جاتا ہے۔

بدعت کی اقسام

بدعت کی دو اقسام ہیں:

·کفر تک پہنچانے والی بدعت: ایسی بدعت جس کے باعث اس کو اختیار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے۔ جو شخص دین کے متواتر اور معلوم احکام کا انکار کرے یا دین کے بنیادی عقائد سے مختلف عقیدہ رکھے، اس کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ (مثلاً کوئی خدا کے وجود، آخرت، نماز، زکوۃ وغیرہ کا منکر ہو۔) (النخبة وشرحها ص 52)

·فسق و فجور کی حد تک پہنچانے والی بدعت: اس بدعت کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوتا البتہ گناہگار ضرور ہوتا ہے۔ (مثلاً کوئی شخص دین میں نت نئی عبادات یا وظائف ایجاد کر لے۔)

بدعتی کی بیان کردہ حدیث کا حکم

اگر بدعتی کی بدعت حد کفر تک پہنچتی ہو تو اس کی روایت کو رد کر دیا جائے گا۔ اگر اس کی بدعت حد کفر تک نہ پہنچتی ہو بلکہ ایسا بدعتی فسق و فجور کی حد تک ہی محدود ہو تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس کی روایت کو دو شرائط کی بنیاد پر قبول کیا جائے گا:

·وہ شخص اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا نہ ہو۔

·وہ ایسی حدیث روایت نہ کرے جو اس کی بدعت کو فروغ دینے والی ہو۔

بدعتی کی حدیث کا کیا کوئی خاص نام ہے؟

بدعتی کی بیان کردہ حدیث کا کوئی خاص نام نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ مردود احادیث کی ایک قسم ہے۔ ایسی حدیث کو سوائے اوپر بیان کردہ شرائط کے قبول نہیں کیا جا سکتا۔

نوٹ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جو دین دیا، وہ کامل ہے۔ جو شخص اس دین سے ہٹ کر کوئی نیا عقیدہ، نئی عبادت یا نیا حکم ایجاد کرتا ہے، وہ شاید یہ سمجھتا ہے کہ آپ کا دین کامل نہیں اس لئے اس میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسا جرم ہے جس کے بعد ایسے شخص کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔

مسلمانوں کی تاریخ میں ایک المیہ یہ رہا ہے کہ عہد رسالت کے بعد پیدا ہو جانے والے نئے نئے فرقوں نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لئے احادیث گھڑ کر پھیلانا شروع کیں۔ بعض فرقے تو اس ضمن میں خاصے بدنام ہیں کہ انہوں نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لئے جعلی احادیث کا ہی سہارا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے ایسے افراد کی احادیث کو قبول نہیں کیا۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنی بدعت کے بارے میں متعصب نہ ہو اور اس کی دعوت پھیلانے کے لئے ایسا نہ کرے تب اس کی حدیث قبول کی جا سکتی ہے۔

اس سے محدثین کی وسعت نظری اور ان کے غیر متعصب ہونے کا علم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص کی بیان کردہ حدیث کو بھی کچھ ضروری شرائط کے ساتھ قبول کر لیا کرتے تھے۔
کمزور حفاظت والے راوی کی بیان کردہ حدیث

کمزور حفاظت کی تعریف

کمزور حفاظت کا معنی ہے کہ اس نے احادیث کوصحیح طور پر محفوظ نہ رکھا ہو جس کے باعث اس کی احادیث میں غلطی کا امکان، صحت کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہو۔

کمزور حفاظت کی اقسام

کمزور حافظے کی دو صورتیں ہیں:

·کسی شخص کا حافظہ اوائل عمر سے لے کر اس کی موت تک کمزور رہا ہو۔ حدیث کے بعض ماہرین کے نزدیک اس کی بیان کردہ حدیث شاذ ہو۔

·کسی شخص کے حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت میں عمر کے کسی مخصوص حصے میں کمزوری واقع ہو گئی ہو۔ بڑھاپے ، بینائی کے زائل ہونے، یا اس شخص کی لکھی ہوئی کتاب کے جل کر ضائع ہو جانے کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایسے شخص کو "مُختَلِط" کا نام دیا گیا ہے۔

کمزور حفاظت والے راوی کی بیان کردہ احادیث کا حکم

جہاں تک تو پہلی قسم کے شخص کا تعلق ہے، تو ایسے شخص کی تمام روایات کو مسترد کر دیا جائے گا۔ رہا دوسری قسم کا یعنی "مختلط" شخص تو اس کی روایت کا حکم اس طرح سے ہے:

·اگر حادثے سے پہلے اس شخص کی بیان کردہ احادیث کو الگ کرنا ممکن ہو تو ان احادیث کو قبول کیا جائے گا۔

·حادثے کے بعد بیان کردہ احادیث کو مسترد کر دیا جائے گا۔

·وہ احادیث جن کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اس شخص نے حادثے سے پہلے بیان کی ہیں یا بعد میں، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے گی جب تک ان کے بارے میں تفصیل معلوم نہ ہو جائے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
کمزور حفاظت والے راوی کی بیان کردہ حدیث

کمزور حفاظت کی تعریف

کمزور حفاظت کا معنی ہے کہ اس نے احادیث کوصحیح طور پر محفوظ نہ رکھا ہو جس کے باعث اس کی احادیث میں غلطی کا امکان، صحت کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہو۔

کمزور حفاظت کی اقسام

کمزور حافظے کی دو صورتیں ہیں:

·کسی شخص کا حافظہ اوائل عمر سے لے کر اس کی موت تک کمزور رہا ہو۔ حدیث کے بعض ماہرین کے نزدیک اس کی بیان کردہ حدیث شاذ ہو۔

·کسی شخص کے حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت میں عمر کے کسی مخصوص حصے میں کمزوری واقع ہو گئی ہو۔ بڑھاپے ، بینائی کے زائل ہونے، یا اس شخص کی لکھی ہوئی کتاب کے جل کر ضائع ہو جانے کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایسے شخص کو "مُختَلِط" کا نام دیا گیا ہے۔

کمزور حفاظت والے راوی کی بیان کردہ احادیث کا حکم

جہاں تک تو پہلی قسم کے شخص کا تعلق ہے، تو ایسے شخص کی تمام روایات کو مسترد کر دیا جائے گا۔ رہا دوسری قسم کا یعنی "مختلط" شخص تو اس کی روایت کا حکم اس طرح سے ہے:

·اگر حادثے سے پہلے اس شخص کی بیان کردہ احادیث کو الگ کرنا ممکن ہو تو ان احادیث کو قبول کیا جائے گا۔

·حادثے کے بعد بیان کردہ احادیث کو مسترد کر دیا جائے گا۔

·وہ احادیث جن کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اس شخص نے حادثے سے پہلے بیان کی ہیں یا بعد میں، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے گی جب تک ان کے بارے میں تفصیل معلوم نہ ہو جائے۔
ثقہ راویوں کی حدیث سے اختلاف کے باعث مردود حدیث

اگر کسی راوی پر یہ الزام عائد کیا گیا ہو کہ اس کی روایات ثقہ راویوں کی روایات سے مختلف ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں (مردود) حدیث کی پانچ اقسام پیدا ہوتی ہیں جن کی تفصیلات یہ ہیں:

اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسناد میں تغیر و تبدل کیا جائے یا کسی موقوف (صحابی تک پہنچنے والی) روایت کو مرفوع (حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک پہنچنے والی) روایت بنا دیا جائے تو یہ حدیث "مدرج" کہلاتی ہے۔

·اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسناد کو آگے پیچھے کر دیا جائے تو یہ حدیث "مقلوب" کہلاتی ہے۔

·اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسناد میں کسی راوی کا اضافہ کر دیا جائے تو اس روایت کو "المزید فی متصل الاسانید" کہا جائے گا۔

·اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے راوی کا نام تبدیل کر دیا جائے یا پھر متن میں متضاد باتیں پائی جائیں تو یہ حدیث "مضطرب" کہلاتی ہے۔

·اگر ثقہ راویوں سے اختلاف اس طریقے سے کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں سند تو صحیح طور پر باقی رہ جائے لیکن اس میں الفاظ تبدیل ہو جائیں تو اس حدیث کو "مصحف" کہا جائے گا۔ (النخبة وشرحها ص 48-49)
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
ثقہ راویوں کی حدیث سے اختلاف کے باعث مردود حدیث

اگر کسی راوی پر یہ الزام عائد کیا گیا ہو کہ اس کی روایات ثقہ راویوں کی روایات سے مختلف ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں (مردود) حدیث کی پانچ اقسام پیدا ہوتی ہیں جن کی تفصیلات یہ ہیں:

اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسناد میں تغیر و تبدل کیا جائے یا کسی موقوف (صحابی تک پہنچنے والی) روایت کو مرفوع (حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک پہنچنے والی) روایت بنا دیا جائے تو یہ حدیث "مدرج" کہلاتی ہے۔

·اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسناد کو آگے پیچھے کر دیا جائے تو یہ حدیث "مقلوب" کہلاتی ہے۔

·اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسناد میں کسی راوی کا اضافہ کر دیا جائے تو اس روایت کو "المزید فی متصل الاسانید" کہا جائے گا۔

·اگر ثقہ راویوں سے اختلاف کرتے ہوئے راوی کا نام تبدیل کر دیا جائے یا پھر متن میں متضاد باتیں پائی جائیں تو یہ حدیث "مضطرب" کہلاتی ہے۔

·اگر ثقہ راویوں سے اختلاف اس طریقے سے کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں سند تو صحیح طور پر باقی رہ جائے لیکن اس میں الفاظ تبدیل ہو جائیں تو اس حدیث کو "مصحف" کہا جائے گا۔ (النخبة وشرحها ص 48-49)
متن سے متعلق جواب یہاں مل جائے گا ان شاء اللہ


مدرج حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مدرج"، ادراج کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی چیز میں کچھ داخل کر دینا یا اس میں کوئی اور چیز ملا دینا۔ اصطلاحی مفہوم میں "مدرج" اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں تبدیلی کر دی گئی ہو یا متن میں کوئی بات اس طریقے سے داخل کر دی گئی ہو کہ اسے علیحدہ شناخت نہ کیا جا سکے۔

مدرج حدیث کی اقسام

مدرج حدیث کی دو اقسام ہیں: مدرج الاسناد اور مدرج المتن۔

مدرج الاسناد اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں تغیر و تبدل کیا گیا ہو۔ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک راوی حدیث کی سند بیان کر رہا تھا۔ سند بیان کرتے ہی اس نے (حدیث کی بجائے) اپنی طرف سے کوئی بات کر دی اور سننے والے نے یہ سمجھا کہ ان اسناد کا متن یہ بات ہے جو ان صاحب نے کر دی ہے۔

اس کی مثال ثابت بن موسی کا قصہ ہے جو کہ ایک عابد و زاہد شخص تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ "جس شخص نے رات کی نماز کثرت سے ادا کی، دن میں اس کا چہرہ خوب صورت ہو جائے گا۔" (ابن ماجة ـ باب قيام الليل ـ جـ1 ص 422 رقم الحديث / 1333)

اصل قصہ یہ ہے کہ ثابت بن موسی، شریک بن عبداللہ القاضی کی محفل میں آئے۔ اس وقت شریک اپنے شاگردوں کو کچھ اس طرح حدیث لکھوا رہے تھے۔ "اعمش نے ابو سفیان سے اور انہوں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔" یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے تاکہ دور کے شاگردوں کو آواز پہنچانے والا شخص اتنا حصہ لکھوا دے۔ اسی دوران ان کی نظر ثابت بن موسی پر پڑی جو کہ اچانک وہاں آ گئے تھے اور ان کے منہ سے نکلا، "جس شخص نے رات کی نماز کثرت سے ادا کی، دن میں اس کا چہرہ خوب صورت ہو جائے گا۔" اس بات سے ان کا مقصد ثابت کی عبادت اور پرھیز گاری کی تعریف کرنا تھا۔ ثابت غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ ان کی یہ بات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث ہے اور انہوں نے اسے روایت کر دیا۔

مدرج المتن اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے متن میں کوئی بات اس طرح داخل کر دی گئی ہو کہ اسے علیحدہ شناخت کرنا مشکل ہو جائے۔ اس کی تین صورتیں ممکن ہیں:

·حدیث کے شروع میں کوئی بات داخل کر دی جائے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے تاہم حدیث کے درمیان کی نسبت اس کے واقعات زیادہ ہیں۔

·حدیث کے درمیان میں کوئی بات داخل کر دی جائے۔ ایسا ہونے کا امکان سب سے کم ہے۔

·حدیث کے آخر میں کوئی بات داخل کر دی جائے۔ اکثر اوقات ایسا ہی ہوتا ہے۔

مدرج حدیث کی مثال

حدیث کے شروع میں ادراج:

حدیث کے شروع میں کوئی بات اس وجہ سے داخل کی جا سکتی ہے کہ راوی حدیث سے اخذ شدہ نتیجہ پہلے بیان کرے اور اس کے ساتھ ہی حدیث بیان کر دے۔ سننے والا یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ پوری بات حدیث ہی ہے۔ اس کی مثال خطیب بغدادی نے بیان کی ہے:

ابی قطن اور شبابہ شعبہ سے ، محمد بن زیاد سے اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "وضو اچھی طرح کیا کرو۔ ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی۔"

اس حدیث میں "وضو اچھی طرح کیا کرو" سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بات ہے جسے حدیث کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے۔

آدم شعبہ سے، وہ محمد بن زیاد سے، اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "وضو اچھی طرح کیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی۔"

خطیب یہ مثال بیان کر کہتے ہیں کہ ابو قطن اور شبابہ دونوں حضرات نے شعبہ سے اس حدیث کو روایت کرتے ہوئے اس جملے کو حدیث کا حصہ سمجھ لیا جبکہ کثیر تعداد میں راویوں نے اس حدیث کو بالکل اسی طرح سے روایت کیا جیسا کہ آدم نے شعبہ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (تدريب الراوي جـ 1 ـ ص 270)

حدیث کے درمیان میں ادراج

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا وحی کے آغاز سے متعلق بیان کرتی ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم غار حراء میں جا کر "تحنث" کیا کرتے تھے۔ یہ عبادت کو کہتے ہیں۔ آپ متعدد راتیں وہیں گزارا کرتے تھے۔" (البخاري ـ باب بدء الوحي)

اس حدیث میں "یہ عبادت کو کہتے ہیں" ابن شہاب الزہری کی بات ہے جو کہ اس حدیث میں داخل ہو گئی ہے (کیونکہ زہری حدیث بیان کرنے کے درمیان ہی میں "تحنث" کی وضاحت کرنے لگے تھے۔)

نوٹ: کچھ وقت کے لئے دنیا سے لا تعلق ہو کر کسی الگ تھلگ مقام پر عبادت کرنے کو تحنث کہا جاتا ہے۔ دور قدیم ہی سے عبادت کا یہ انداز دین دار افراد میں عام تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بھی اعلان نبوت سے پہلے غار حرا میں تحنث کیا کرتے تھے۔ دین اسلام میں تحنث کو "اعتکاف" کی شکل دے کر جاری کر دیا گیا ہے۔ ابن شہاب زہری پر بعض محدثین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ وہ اکثر اوقات بات کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے الفاظ کو حدیث میں داخل کر دیا کرتے تھے۔

حدیث کے آخر میں ادراج

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوع روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "غلام کے لئے دوہرا اجر ہے۔ اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، حج کرنا اور والدہ کی خدمت کا معاملہ نہ ہوتا تو میں غلامی کی حالت میں موت کو پسند کرتا۔" (البخاري في العتق)

اس حدیث میں "اس اللہ کی قسم۔۔۔۔" سے آخر تک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بات حدیث کا حصہ بن گئی ہے۔ اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زبان سے ادا ہونا ناممکن ہے کیونکہ آپ غلامی کی خواہش نہ کر سکتے تھے اور نہ ہی آپ کی والدہ موجود تھیں جن کی آپ خدمت کر سکتے۔

نوٹ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور سے پہلے ہی غلامی دنیا میں موجود تھی۔ اس دور کا پورا معاشی نظام بالکل اسی طرح غلامی کی بنیاد پر چل رہا تھا جیسا کہ آج کل کا معاشی نظام ملازمت کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ حضور نے غلامی کے خاتمے کے لئے تدریجی طریقہ اختیار کیا۔ اس ضمن میں ایک اہم کام "غلامی" سے متعلق نفسیات کو درست کرنا تھا کیونکہ اس دور میں غلام کو نہایت ہی حقیر مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ آپ نے یہ فرما کر کہ "غلام کے لئے دوہرا اجر ہے"، غلاموں کی عزت و توقیر میں اضافہ فرمایا۔ غلامی سے متعلق اسلام نے جو اصلاحات کیں، ان کی تفصیل کے لئے میری کتاب "اسلام میں جسمانی و نفسیاتی غلامی کے انسداد کی تاریخ" کا مطالعہ کیجیے۔

غلام کے لئے دوہرا اجر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دنیاوی مالک کی پابندیوں میں رہ کر اس کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی عبادت بھی کرتا ہے۔ اس کی محنت ایک آزاد شخص کی نسبت زیادہ ہے جس کے باعث اسے دوہرا اجر ملے گا۔

ادراج کرنے کی وجوہات

ادراج کرنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے مشہور ترین یہ ہیں:

·کسی شرعی حکم کا بیان

·حدیث کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس میں سے کسی شرعی حکم کا استنباط

·حدیث میں بیان کردہ کسی نئے لفظ کی وضاحت

ادراج کا علم کیسے ہوتا ہے؟

ادراج کا علم کئی ذرائع سے ہو سکتا ہے جن میں سے بعض یہ ہیں:

·کسی دوسری روایت میں یہ حدیث موجود ہو اور اس میں داخل شدہ متن الگ سے بیان کر دیا گیا ہو۔

·اس فن کے اسپیشلسٹ اہل علم تحقیق کر کے واضح کر دیں کہ اس مقام پر الگ سے متن داخل کیا گیا ہے۔

·راوی خود اقرار کر لے کہ یہ اس کی اپنی بات ہے جو حدیث میں داخل ہو گئی ہے۔

·رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زبان مبارک سے اس بات کا صادر ہونا ناممکن ہو۔

ادراج کا حکم

تمام محدثین اور فقہاء کے نزدیک ادراج کرنا حرام ہے۔ اس سے مستثنی صرف کسی نئے لفظ کی وضاحت ہے کہ وہ ممنوع نہیں ہے۔ اسی وجہ سے زہری اور دیگر ائمہ حدیث نے ایسا کیا ہے۔

نوٹ: ادراج میں چونکہ ایک شخص اپنی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف منسوب کر دیتا ہے جس پر جہنم کی وعید ہے، اس وجہ سے ادراج کو ہر صورت میں ممنوع ہونا چاہیے۔ اگر کسی نئے لفظ کی وضاحت بھی درکار ہو تو اسے الگ سے بیان کرنا چاہیے تاکہ کوئی شخص اس وضاحت کو حضور کا ارشاد نہ سمجھ بیٹھے۔

مدرج حدیث کے بارے میں مشہور تصانیف

·خطیب بغدادی کی الفصل للوصل المدرج

·ابن حجر کی تقریب المنھج بترتیب المدرج، یہ خطیب کی کتاب کی تلخیص اور اس میں کچھ اضافہ جات پر مبنی ہے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
متن سے متعلق جواب یہاں مل جائے گا ان شاء اللہ


مدرج حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مدرج"، ادراج کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی چیز میں کچھ داخل کر دینا یا اس میں کوئی اور چیز ملا دینا۔ اصطلاحی مفہوم میں "مدرج" اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں تبدیلی کر دی گئی ہو یا متن میں کوئی بات اس طریقے سے داخل کر دی گئی ہو کہ اسے علیحدہ شناخت نہ کیا جا سکے۔

مدرج حدیث کی اقسام

مدرج حدیث کی دو اقسام ہیں: مدرج الاسناد اور مدرج المتن۔

مدرج الاسناد اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں تغیر و تبدل کیا گیا ہو۔ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک راوی حدیث کی سند بیان کر رہا تھا۔ سند بیان کرتے ہی اس نے (حدیث کی بجائے) اپنی طرف سے کوئی بات کر دی اور سننے والے نے یہ سمجھا کہ ان اسناد کا متن یہ بات ہے جو ان صاحب نے کر دی ہے۔

اس کی مثال ثابت بن موسی کا قصہ ہے جو کہ ایک عابد و زاہد شخص تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ "جس شخص نے رات کی نماز کثرت سے ادا کی، دن میں اس کا چہرہ خوب صورت ہو جائے گا۔" (ابن ماجة ـ باب قيام الليل ـ جـ1 ص 422 رقم الحديث / 1333)

اصل قصہ یہ ہے کہ ثابت بن موسی، شریک بن عبداللہ القاضی کی محفل میں آئے۔ اس وقت شریک اپنے شاگردوں کو کچھ اس طرح حدیث لکھوا رہے تھے۔ "اعمش نے ابو سفیان سے اور انہوں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔" یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے تاکہ دور کے شاگردوں کو آواز پہنچانے والا شخص اتنا حصہ لکھوا دے۔ اسی دوران ان کی نظر ثابت بن موسی پر پڑی جو کہ اچانک وہاں آ گئے تھے اور ان کے منہ سے نکلا، "جس شخص نے رات کی نماز کثرت سے ادا کی، دن میں اس کا چہرہ خوب صورت ہو جائے گا۔" اس بات سے ان کا مقصد ثابت کی عبادت اور پرھیز گاری کی تعریف کرنا تھا۔ ثابت غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ ان کی یہ بات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث ہے اور انہوں نے اسے روایت کر دیا۔

مدرج المتن اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے متن میں کوئی بات اس طرح داخل کر دی گئی ہو کہ اسے علیحدہ شناخت کرنا مشکل ہو جائے۔ اس کی تین صورتیں ممکن ہیں:

·حدیث کے شروع میں کوئی بات داخل کر دی جائے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے تاہم حدیث کے درمیان کی نسبت اس کے واقعات زیادہ ہیں۔

·حدیث کے درمیان میں کوئی بات داخل کر دی جائے۔ ایسا ہونے کا امکان سب سے کم ہے۔

·حدیث کے آخر میں کوئی بات داخل کر دی جائے۔ اکثر اوقات ایسا ہی ہوتا ہے۔

مدرج حدیث کی مثال

حدیث کے شروع میں ادراج:

حدیث کے شروع میں کوئی بات اس وجہ سے داخل کی جا سکتی ہے کہ راوی حدیث سے اخذ شدہ نتیجہ پہلے بیان کرے اور اس کے ساتھ ہی حدیث بیان کر دے۔ سننے والا یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ پوری بات حدیث ہی ہے۔ اس کی مثال خطیب بغدادی نے بیان کی ہے:

ابی قطن اور شبابہ شعبہ سے ، محمد بن زیاد سے اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "وضو اچھی طرح کیا کرو۔ ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی۔"

اس حدیث میں "وضو اچھی طرح کیا کرو" سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بات ہے جسے حدیث کا حصہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے۔

آدم شعبہ سے، وہ محمد بن زیاد سے، اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "وضو اچھی طرح کیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ان دھلی ایڑیوں کو آگ کی سزا دی جائے گی۔"

خطیب یہ مثال بیان کر کہتے ہیں کہ ابو قطن اور شبابہ دونوں حضرات نے شعبہ سے اس حدیث کو روایت کرتے ہوئے اس جملے کو حدیث کا حصہ سمجھ لیا جبکہ کثیر تعداد میں راویوں نے اس حدیث کو بالکل اسی طرح سے روایت کیا جیسا کہ آدم نے شعبہ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (تدريب الراوي جـ 1 ـ ص 270)

حدیث کے درمیان میں ادراج

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا وحی کے آغاز سے متعلق بیان کرتی ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم غار حراء میں جا کر "تحنث" کیا کرتے تھے۔ یہ عبادت کو کہتے ہیں۔ آپ متعدد راتیں وہیں گزارا کرتے تھے۔" (البخاري ـ باب بدء الوحي)

اس حدیث میں "یہ عبادت کو کہتے ہیں" ابن شہاب الزہری کی بات ہے جو کہ اس حدیث میں داخل ہو گئی ہے (کیونکہ زہری حدیث بیان کرنے کے درمیان ہی میں "تحنث" کی وضاحت کرنے لگے تھے۔)

نوٹ: کچھ وقت کے لئے دنیا سے لا تعلق ہو کر کسی الگ تھلگ مقام پر عبادت کرنے کو تحنث کہا جاتا ہے۔ دور قدیم ہی سے عبادت کا یہ انداز دین دار افراد میں عام تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بھی اعلان نبوت سے پہلے غار حرا میں تحنث کیا کرتے تھے۔ دین اسلام میں تحنث کو "اعتکاف" کی شکل دے کر جاری کر دیا گیا ہے۔ ابن شہاب زہری پر بعض محدثین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ وہ اکثر اوقات بات کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے الفاظ کو حدیث میں داخل کر دیا کرتے تھے۔

حدیث کے آخر میں ادراج

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوع روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "غلام کے لئے دوہرا اجر ہے۔ اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، حج کرنا اور والدہ کی خدمت کا معاملہ نہ ہوتا تو میں غلامی کی حالت میں موت کو پسند کرتا۔" (البخاري في العتق)

اس حدیث میں "اس اللہ کی قسم۔۔۔۔" سے آخر تک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بات حدیث کا حصہ بن گئی ہے۔ اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زبان سے ادا ہونا ناممکن ہے کیونکہ آپ غلامی کی خواہش نہ کر سکتے تھے اور نہ ہی آپ کی والدہ موجود تھیں جن کی آپ خدمت کر سکتے۔

نوٹ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور سے پہلے ہی غلامی دنیا میں موجود تھی۔ اس دور کا پورا معاشی نظام بالکل اسی طرح غلامی کی بنیاد پر چل رہا تھا جیسا کہ آج کل کا معاشی نظام ملازمت کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ حضور نے غلامی کے خاتمے کے لئے تدریجی طریقہ اختیار کیا۔ اس ضمن میں ایک اہم کام "غلامی" سے متعلق نفسیات کو درست کرنا تھا کیونکہ اس دور میں غلام کو نہایت ہی حقیر مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ آپ نے یہ فرما کر کہ "غلام کے لئے دوہرا اجر ہے"، غلاموں کی عزت و توقیر میں اضافہ فرمایا۔ غلامی سے متعلق اسلام نے جو اصلاحات کیں، ان کی تفصیل کے لئے میری کتاب "اسلام میں جسمانی و نفسیاتی غلامی کے انسداد کی تاریخ" کا مطالعہ کیجیے۔

غلام کے لئے دوہرا اجر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دنیاوی مالک کی پابندیوں میں رہ کر اس کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی عبادت بھی کرتا ہے۔ اس کی محنت ایک آزاد شخص کی نسبت زیادہ ہے جس کے باعث اسے دوہرا اجر ملے گا۔

ادراج کرنے کی وجوہات

ادراج کرنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے مشہور ترین یہ ہیں:

·کسی شرعی حکم کا بیان

·حدیث کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس میں سے کسی شرعی حکم کا استنباط

·حدیث میں بیان کردہ کسی نئے لفظ کی وضاحت

ادراج کا علم کیسے ہوتا ہے؟

ادراج کا علم کئی ذرائع سے ہو سکتا ہے جن میں سے بعض یہ ہیں:

·کسی دوسری روایت میں یہ حدیث موجود ہو اور اس میں داخل شدہ متن الگ سے بیان کر دیا گیا ہو۔

·اس فن کے اسپیشلسٹ اہل علم تحقیق کر کے واضح کر دیں کہ اس مقام پر الگ سے متن داخل کیا گیا ہے۔

·راوی خود اقرار کر لے کہ یہ اس کی اپنی بات ہے جو حدیث میں داخل ہو گئی ہے۔

·رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زبان مبارک سے اس بات کا صادر ہونا ناممکن ہو۔

ادراج کا حکم

تمام محدثین اور فقہاء کے نزدیک ادراج کرنا حرام ہے۔ اس سے مستثنی صرف کسی نئے لفظ کی وضاحت ہے کہ وہ ممنوع نہیں ہے۔ اسی وجہ سے زہری اور دیگر ائمہ حدیث نے ایسا کیا ہے۔

نوٹ: ادراج میں چونکہ ایک شخص اپنی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف منسوب کر دیتا ہے جس پر جہنم کی وعید ہے، اس وجہ سے ادراج کو ہر صورت میں ممنوع ہونا چاہیے۔ اگر کسی نئے لفظ کی وضاحت بھی درکار ہو تو اسے الگ سے بیان کرنا چاہیے تاکہ کوئی شخص اس وضاحت کو حضور کا ارشاد نہ سمجھ بیٹھے۔

مدرج حدیث کے بارے میں مشہور تصانیف

·خطیب بغدادی کی الفصل للوصل المدرج

·ابن حجر کی تقریب المنھج بترتیب المدرج، یہ خطیب کی کتاب کی تلخیص اور اس میں کچھ اضافہ جات پر مبنی ہے۔
سند اور متن دونوں کا جواب یہاں مل جائے گا یہاں دونوں کی وضاحت موجود ہے

مقلوب حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے مقلوب، "قلب" کا اسم مفعول ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کا رخ تبدیل کرنا۔ (یعنی مقلوب اس چیز کو کہتے ہیں جس کا رخ تبدیل کیا گیا ہو۔) اصطلاحی مفہوم میں مقلوب ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند یا متن میں سے ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے تبدیل کر دیا گیا ہو۔ دو الفاظ کو آگے پیچھے کر کے یا ایک کی جگہ دوسرا لفظ استعمال کر کے ایسا کیا جا سکتا ہے۔

مقلوب حدیث کی اقسام

مقلوب حدیث کی دو بڑی اقسام ہیں: مقلوب السند اور مقلوب المتن۔

·مقلوب السند اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں تبدیلی کر دی گئی ہو۔ اس کی دو صورتیں ہیں:

·کسی راوی اور اس کے باپ کے نام کو الٹ دیا جائے جیسے کہ "کعب بن مرۃ" سے مروی کسی حدیث بیان کرتے ہوئے ان کے نام کو "مرۃ بن کعب" کر دیا جائے۔

·کسی راوی کے نام کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرے راوی کا نام بیان کر دیا جائے۔ ایسا جان بوجھ کر حدیث بیان کرنے میں منفرد بننے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ "سالم" کی کسی مشہور حدیث میں سے ان کا نام ہٹا کر اس کی جگہ "نافع" کا نام بیان کر دیا جائے۔

مقلوب حدیث روایت کرنے والوں میں "حماد بن عمرو النصیبی" ایسا شخص تھا جو اس قسم کی تبدیلیاں کیا کرتا تھا۔ وہ روایت کرتا ہے:

حماد النصیبی نے الاعمش سے، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "جب تم راستے میں ان مشرکین سے ملو تو انہیں سلام میں پہل نہ کرو۔"

نوٹ: محدثین کو مسلم معاشرے میں بہت بلند اسٹیٹس حاصل تھا۔ حماد جیسے بعض لوگوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے اور اپنا سکہ جمانے کے لئے دوسروں کی بیان کردہ احادیث کو سند میں تبدیلیاں کر کے اپنے نام سے منسوب کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان کی طرف مائل ہوں اور انہیں بھی محدثین جیسا اسٹیٹس حاصل ہو سکے۔ علمی دنیا میں یہ کام چوری ہی کہلاتا ہے۔

یہ حدیث مقلوب ہے کیونکہ اس میں حماد نے "الاعمش" کا نام داخل کر دیا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ اس حدیث کے روایت کرنے والے "سہیل بن ابی صالح" ہیں جو اسے اپنے والد سے اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ امام مسلم نے اس حدیث کی سند اسی طرح بیان کی ہے۔ یہ "قلب حدیث" کی ایسی قسم ہے جس کے راوی پر حدیث چوری کرنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔

مقلوب المتن اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے متن میں کوئی تبدیلی کی گئی ہو۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں:

·راوی حدیث کے متن میں بعض الفاظ آگے پیچھے کر دے۔ اس کی مثال صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو ان سات قسم کے افراد کے بارے میں ہے جنہیں روز قیامت اللہ تعالی کی رحمت کا خصوصی سایہ نصیب ہو گا۔ ان میں ایک شخص وہ ہے "جو اس طرح چھپا کر صدقہ کرتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ بائیں ہاتھ سے اس نے کیا خرچ کیا ہے۔" بعض راویوں نے اس حدیث کے الفاظ میں کچھ اس تبدیلی کر دی ہے کہ "اس کے بائیں ہاتھ کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اس نے دائیں ہاتھ سے کیا خرچ کیا ہے۔" (البخاري في الجماعة ، ومسلم في الزكاة)

·راوی ایک حدیث کے متن کو دوسری حدیث کے سند سے ملا دے اور دوسری کے متن کو پہلی کی سند سے۔ یہ عام طور پر امتحان کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال وہ مشہور واقعہ ہے جو اہل بغداد اور امام بخاری کے ساتھ پیش آیا۔ بغداد کے اہل علم نے سو حدیثوں کی سندوں اور متنوں کو خلط ملط کر دیا تاکہ وہ امام بخاری کی یادداشت کا امتحان لے سکیں۔ امام بخاری نے ان تمام احادیث کی سندوں اور متنوں کو صحیح صحیح طریقے سے جوڑ دیا اور اس میں کوئی غلطی نہ کی۔ (تاريخ بغداد جـ2 ـ ص 20)

قلب کی وجوہات

مختلف راویوں کے احادیث میں قلب (یعنی تبدیلی) کرنے کی مختلف وجوہات ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

·اپنی انفرادیت کا سکہ جمانا تاکہ لوگ اس شخص کی طرف راغب ہوں اور اس سے احادیث روایت کرنا شروع کریں۔

·محدث کے حافظے اور حدیث کی حفاظت کے معیار کا امتحان لینا۔

·بلا ارادہ غلطی سے حدیث کے الفاظ کا آگے پیچھے ہو جانا۔

قلب کا حکم

اگر اپنی انفرادیت کا سکہ جمانے کے لئے حدیث میں جان بوجھ کر تبدیلی کی جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ناجائز کام ہے۔ یہ حدیث میں تبدیلی ہے جو کہ سوائے حدیثیں گھڑنے والوں کے اور کوئی نہیں کرتا۔

اگر ایسا کسی محدث کے حفظ اور اہلیت کے امتحان کی غرض سے کیا جائے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ وہ محفل ختم ہونے سے پہلے صحیح بات بیان کر دی جائے۔

جہاں تک غلطی یا بھول چوک کا تعلق ہے تو اس معاملے میں غلطی کرنے والا معذور ہے۔ لیکن اگر وہ یہ غلطیاں کثرت سے کرتا ہو تو حدیث کو محفوظ کرنے کے بارے میں اس کی اہلیت مشکوک ہو جاتی ہے اور اس راوی کو ضعیف قرار دے دیا جاتا ہے۔

مقلوب حدیث، مردود احادیث ہی کی ایک قسم ہے۔

مقلوب حدیث سے متعلق مشہور تصانیف

خطیب بغدادی کی کتاب "رفع الارتیاب فی المقلوب من الاسماء و الالقاب"، جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ مقلوب حدیث کی ایک خاص قسم سے متعلق ہے جس میں حدیث کی سند میں تبدیلی کی گئی ہو۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
سند اور متن دونوں کا جواب یہاں مل جائے گا یہاں دونوں کی وضاحت موجود ہے

مقلوب حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے مقلوب، "قلب" کا اسم مفعول ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کا رخ تبدیل کرنا۔ (یعنی مقلوب اس چیز کو کہتے ہیں جس کا رخ تبدیل کیا گیا ہو۔) اصطلاحی مفہوم میں مقلوب ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند یا متن میں سے ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے تبدیل کر دیا گیا ہو۔ دو الفاظ کو آگے پیچھے کر کے یا ایک کی جگہ دوسرا لفظ استعمال کر کے ایسا کیا جا سکتا ہے۔

مقلوب حدیث کی اقسام

مقلوب حدیث کی دو بڑی اقسام ہیں: مقلوب السند اور مقلوب المتن۔

·مقلوب السند اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میں تبدیلی کر دی گئی ہو۔ اس کی دو صورتیں ہیں:

·کسی راوی اور اس کے باپ کے نام کو الٹ دیا جائے جیسے کہ "کعب بن مرۃ" سے مروی کسی حدیث بیان کرتے ہوئے ان کے نام کو "مرۃ بن کعب" کر دیا جائے۔

·کسی راوی کے نام کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرے راوی کا نام بیان کر دیا جائے۔ ایسا جان بوجھ کر حدیث بیان کرنے میں منفرد بننے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ "سالم" کی کسی مشہور حدیث میں سے ان کا نام ہٹا کر اس کی جگہ "نافع" کا نام بیان کر دیا جائے۔

مقلوب حدیث روایت کرنے والوں میں "حماد بن عمرو النصیبی" ایسا شخص تھا جو اس قسم کی تبدیلیاں کیا کرتا تھا۔ وہ روایت کرتا ہے:

حماد النصیبی نے الاعمش سے، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "جب تم راستے میں ان مشرکین سے ملو تو انہیں سلام میں پہل نہ کرو۔"

نوٹ: محدثین کو مسلم معاشرے میں بہت بلند اسٹیٹس حاصل تھا۔ حماد جیسے بعض لوگوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے اور اپنا سکہ جمانے کے لئے دوسروں کی بیان کردہ احادیث کو سند میں تبدیلیاں کر کے اپنے نام سے منسوب کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان کی طرف مائل ہوں اور انہیں بھی محدثین جیسا اسٹیٹس حاصل ہو سکے۔ علمی دنیا میں یہ کام چوری ہی کہلاتا ہے۔

یہ حدیث مقلوب ہے کیونکہ اس میں حماد نے "الاعمش" کا نام داخل کر دیا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ اس حدیث کے روایت کرنے والے "سہیل بن ابی صالح" ہیں جو اسے اپنے والد سے اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ امام مسلم نے اس حدیث کی سند اسی طرح بیان کی ہے۔ یہ "قلب حدیث" کی ایسی قسم ہے جس کے راوی پر حدیث چوری کرنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔

مقلوب المتن اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے متن میں کوئی تبدیلی کی گئی ہو۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں:

·راوی حدیث کے متن میں بعض الفاظ آگے پیچھے کر دے۔ اس کی مثال صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو ان سات قسم کے افراد کے بارے میں ہے جنہیں روز قیامت اللہ تعالی کی رحمت کا خصوصی سایہ نصیب ہو گا۔ ان میں ایک شخص وہ ہے "جو اس طرح چھپا کر صدقہ کرتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ بائیں ہاتھ سے اس نے کیا خرچ کیا ہے۔" بعض راویوں نے اس حدیث کے الفاظ میں کچھ اس تبدیلی کر دی ہے کہ "اس کے بائیں ہاتھ کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اس نے دائیں ہاتھ سے کیا خرچ کیا ہے۔" (البخاري في الجماعة ، ومسلم في الزكاة)

·راوی ایک حدیث کے متن کو دوسری حدیث کے سند سے ملا دے اور دوسری کے متن کو پہلی کی سند سے۔ یہ عام طور پر امتحان کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال وہ مشہور واقعہ ہے جو اہل بغداد اور امام بخاری کے ساتھ پیش آیا۔ بغداد کے اہل علم نے سو حدیثوں کی سندوں اور متنوں کو خلط ملط کر دیا تاکہ وہ امام بخاری کی یادداشت کا امتحان لے سکیں۔ امام بخاری نے ان تمام احادیث کی سندوں اور متنوں کو صحیح صحیح طریقے سے جوڑ دیا اور اس میں کوئی غلطی نہ کی۔ (تاريخ بغداد جـ2 ـ ص 20)

قلب کی وجوہات

مختلف راویوں کے احادیث میں قلب (یعنی تبدیلی) کرنے کی مختلف وجوہات ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

·اپنی انفرادیت کا سکہ جمانا تاکہ لوگ اس شخص کی طرف راغب ہوں اور اس سے احادیث روایت کرنا شروع کریں۔

·محدث کے حافظے اور حدیث کی حفاظت کے معیار کا امتحان لینا۔

·بلا ارادہ غلطی سے حدیث کے الفاظ کا آگے پیچھے ہو جانا۔

قلب کا حکم

اگر اپنی انفرادیت کا سکہ جمانے کے لئے حدیث میں جان بوجھ کر تبدیلی کی جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ناجائز کام ہے۔ یہ حدیث میں تبدیلی ہے جو کہ سوائے حدیثیں گھڑنے والوں کے اور کوئی نہیں کرتا۔

اگر ایسا کسی محدث کے حفظ اور اہلیت کے امتحان کی غرض سے کیا جائے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ وہ محفل ختم ہونے سے پہلے صحیح بات بیان کر دی جائے۔

جہاں تک غلطی یا بھول چوک کا تعلق ہے تو اس معاملے میں غلطی کرنے والا معذور ہے۔ لیکن اگر وہ یہ غلطیاں کثرت سے کرتا ہو تو حدیث کو محفوظ کرنے کے بارے میں اس کی اہلیت مشکوک ہو جاتی ہے اور اس راوی کو ضعیف قرار دے دیا جاتا ہے۔

مقلوب حدیث، مردود احادیث ہی کی ایک قسم ہے۔

مقلوب حدیث سے متعلق مشہور تصانیف

خطیب بغدادی کی کتاب "رفع الارتیاب فی المقلوب من الاسماء و الالقاب"، جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ مقلوب حدیث کی ایک خاص قسم سے متعلق ہے جس میں حدیث کی سند میں تبدیلی کی گئی ہو۔
"المزید فی متصل الاسانید" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مزید"، "زیادۃ" سے اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے "اضافہ کی گئی چیز"۔ متصل، منقطع کا متضاد ہے اور اس کا معنی ہے ملا ہوا۔ اسانید، سند کی جمع ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی ملی ہوئی سند میں کوئی اضافہ پایا جاتا ہو۔

نوٹ: ایک حدیث دو اسناد سے بیان کی گئی ہو اور ان میں سے ایک سند اس طرح سے ہو کہ A-B-C-D-E اور دوسری سند اس طرح سے ہو کہ A-B-D-E۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے کس سند کو درست سمجھا جائے۔ اگر B نے D سے براہ راست احادیث سنی ہوں اور دوسری سند کے راوی زیادہ مضبوط ہوں تو اس صورت میں دوسری سند کو صحیح قرار دیا جاتا ہے اور پہلی سند میں C کو اضافہ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ کسی راوی کو لاحق ہونے والی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔

اس خامی کا تمام تر تعلق حدیث کی سند سے ہے۔ اس سے حدیث کے متن میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محدثین نے حدیث کے بارے میں کس قدر احتیاط برتی ہے کہ وہ حدیث کی سند یا متن میں معمولی سی خامی برداشت نہیں کرتے بلکہ اسے بھی بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

"المزید فی متصل الاسانید" حدیث کی مثال

ابن مبارک، سفیان سے، وہ عبدالرحمٰن بن یزید سے، وہ بسر بن عبیداللہ سے، وہ ابو ادریس سے، وہ واثلہ سے، اور واثلہ سیدنا ابو مرثد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرو۔" (رواه مسلم ـ كتاب الجنائز)

مثال میں "اضافے" کی وضاحت

اس حدیث میں دو مقامات پر اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک تو "سفیان" اور دوسرے "ابو ادریس" کے ناموں میں۔ ان دونوں مقامات پر اضافے کی وجہ راوی کی غلط فہمی ہے۔ جہاں تک "سفیان" کے نام میں اضافے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ ابن مبارک کے بعد کے کسی راوی کی غلط فہمی ہے کیونکہ متعدد ثقہ راویوں نے ایسی روایات بیان کی ہیں جن میں ابن مبارک نے عبدالرحمٰن بن یزید سے براہ راست احادیث روایت کی ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے واضح الفاظ میں اسے بیان کیا ہے۔

جہاں تک "ابو ادریس" کے نام کے اضافے کا تعلق ہے، تو اس کی وجہ ابن مبارک کو لاحق ہونے والی غلط فہمی ہے کیونکہ بہت سے ثقہ راویوں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن میں ابو ادریس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بہت سے ثقہ ماہرین نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ بسر بن عبداللہ نے براہ راست اس حدیث کو واثلہ سے روایت کیا ہے (اور ابو ادریس کا نام اس میں اضافی ہے۔)

اضافے کو مسترد کرنے کی شرائط

اضافے کو مسترد کرنے کی شرائط دو ہیں۔

·جو روایت اضافے کے بغیر ہو، اس کے راوی اضافے والی روایت کے راویوں سے زیادہ ماہر ہوں۔

·جس مقام پر اضافہ موجود ہو، وہاں ایک راوی کا اپنے شیخ الشیخ سے براہ راست حدیث روایت کرنا ثابت شدہ ہو۔

اگر یہ دونوں یا ان میں سے ایک بھی شرط پوری نہ ہو تو پھر اضافے والی روایت کو ترجیح دی جائے گی اور بغیر اضافے کی روایت کو "منقطع" قرار دے دیا جائے گا۔ یہ انقطاع مخفی نوعیت کا ہو گا۔ اسی وجہ سے ایسی روایت کو "مرسل خفی" کہا جاتا ہے۔

اضافے سے متعلق اعتراضات

سند میں کسی نام کو اضافہ قرار دینے سے متعلق دو اعتراضات پیش کئے جاتے ہیں:

·جس سند میں اضافہ نہ پایا جاتا ہو اور اس میں لفظ "عن" کہہ کر روایت کی گئی ہو تو اس میں یہ امکان موجود ہے کہ سند منقطع ہو۔

·اگرچہ ایک شخص کا اپنے شیخ الشیخ سے براہ راست حدیث سننا ثابت بھی ہو، تب بھی یہ ممکن ہے کہ اس شخص نے دوسرے سے حدیث سنی اور دوسرے نے اس شخص کے شیخ الشیخ سے اس حدیث کو سنا ہو۔

جہاں تک تو پہلے اعتراض کا تعلق ہے تو یہ درست ہے۔ رہا دوسرا اعتراض، تو اس میں بیان کی گئی صورتحال ممکن ہے لیکن اہل علم اس وقت ہی اضافے کا حکم لگاتے ہیں جب کچھ شواہد و قرائن اس کی حمایت کے لئے موجود ہوں۔

"المزید فی متصل الاسانید" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف

خطیب بغدادی کی کتاب "تمییز المزید فی متصل الاسانید"۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
"المزید فی متصل الاسانید" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مزید"، "زیادۃ" سے اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے "اضافہ کی گئی چیز"۔ متصل، منقطع کا متضاد ہے اور اس کا معنی ہے ملا ہوا۔ اسانید، سند کی جمع ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی ملی ہوئی سند میں کوئی اضافہ پایا جاتا ہو۔

نوٹ: ایک حدیث دو اسناد سے بیان کی گئی ہو اور ان میں سے ایک سند اس طرح سے ہو کہ A-B-C-D-E اور دوسری سند اس طرح سے ہو کہ A-B-D-E۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے کس سند کو درست سمجھا جائے۔ اگر B نے D سے براہ راست احادیث سنی ہوں اور دوسری سند کے راوی زیادہ مضبوط ہوں تو اس صورت میں دوسری سند کو صحیح قرار دیا جاتا ہے اور پہلی سند میں C کو اضافہ سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ کسی راوی کو لاحق ہونے والی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔

اس خامی کا تمام تر تعلق حدیث کی سند سے ہے۔ اس سے حدیث کے متن میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محدثین نے حدیث کے بارے میں کس قدر احتیاط برتی ہے کہ وہ حدیث کی سند یا متن میں معمولی سی خامی برداشت نہیں کرتے بلکہ اسے بھی بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

"المزید فی متصل الاسانید" حدیث کی مثال

ابن مبارک، سفیان سے، وہ عبدالرحمٰن بن یزید سے، وہ بسر بن عبیداللہ سے، وہ ابو ادریس سے، وہ واثلہ سے، اور واثلہ سیدنا ابو مرثد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرو۔" (رواه مسلم ـ كتاب الجنائز)

مثال میں "اضافے" کی وضاحت

اس حدیث میں دو مقامات پر اضافہ کیا گیا ہے۔ ایک تو "سفیان" اور دوسرے "ابو ادریس" کے ناموں میں۔ ان دونوں مقامات پر اضافے کی وجہ راوی کی غلط فہمی ہے۔ جہاں تک "سفیان" کے نام میں اضافے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ ابن مبارک کے بعد کے کسی راوی کی غلط فہمی ہے کیونکہ متعدد ثقہ راویوں نے ایسی روایات بیان کی ہیں جن میں ابن مبارک نے عبدالرحمٰن بن یزید سے براہ راست احادیث روایت کی ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے واضح الفاظ میں اسے بیان کیا ہے۔

جہاں تک "ابو ادریس" کے نام کے اضافے کا تعلق ہے، تو اس کی وجہ ابن مبارک کو لاحق ہونے والی غلط فہمی ہے کیونکہ بہت سے ثقہ راویوں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن میں ابو ادریس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بہت سے ثقہ ماہرین نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ بسر بن عبداللہ نے براہ راست اس حدیث کو واثلہ سے روایت کیا ہے (اور ابو ادریس کا نام اس میں اضافی ہے۔)

اضافے کو مسترد کرنے کی شرائط

اضافے کو مسترد کرنے کی شرائط دو ہیں۔

·جو روایت اضافے کے بغیر ہو، اس کے راوی اضافے والی روایت کے راویوں سے زیادہ ماہر ہوں۔

·جس مقام پر اضافہ موجود ہو، وہاں ایک راوی کا اپنے شیخ الشیخ سے براہ راست حدیث روایت کرنا ثابت شدہ ہو۔

اگر یہ دونوں یا ان میں سے ایک بھی شرط پوری نہ ہو تو پھر اضافے والی روایت کو ترجیح دی جائے گی اور بغیر اضافے کی روایت کو "منقطع" قرار دے دیا جائے گا۔ یہ انقطاع مخفی نوعیت کا ہو گا۔ اسی وجہ سے ایسی روایت کو "مرسل خفی" کہا جاتا ہے۔

اضافے سے متعلق اعتراضات

سند میں کسی نام کو اضافہ قرار دینے سے متعلق دو اعتراضات پیش کئے جاتے ہیں:

·جس سند میں اضافہ نہ پایا جاتا ہو اور اس میں لفظ "عن" کہہ کر روایت کی گئی ہو تو اس میں یہ امکان موجود ہے کہ سند منقطع ہو۔

·اگرچہ ایک شخص کا اپنے شیخ الشیخ سے براہ راست حدیث سننا ثابت بھی ہو، تب بھی یہ ممکن ہے کہ اس شخص نے دوسرے سے حدیث سنی اور دوسرے نے اس شخص کے شیخ الشیخ سے اس حدیث کو سنا ہو۔

جہاں تک تو پہلے اعتراض کا تعلق ہے تو یہ درست ہے۔ رہا دوسرا اعتراض، تو اس میں بیان کی گئی صورتحال ممکن ہے لیکن اہل علم اس وقت ہی اضافے کا حکم لگاتے ہیں جب کچھ شواہد و قرائن اس کی حمایت کے لئے موجود ہوں۔

"المزید فی متصل الاسانید" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف

خطیب بغدادی کی کتاب "تمییز المزید فی متصل الاسانید"۔
"مضطرب" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مضطرب"، "اضطراب" کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے کسی معاملے میں اختلال پیدا ہو جانا اور نظام میں فساد پیدا ہو جانا۔ اپنی اصل میں یہ لہروں کے اضطراب سے نکلا ہے کیونکہ لہریں کثرت سے حرکت کرتی ہیں اور بے ترتیبی سے ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔

اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جو متعدد اسناد سے روایت کی گئی ہو۔ تمام اسناد قوت میں ایک دوسرے کے برابر ہوں لیکن ان میں کوئی تضاد پایا جاتا ہو۔

"مضطرب" حدیث کی تعریف کی وضاحت

مضطرب وہ حدیث ہوا کرتی ہے جس میں ایسا تضاد پایا جاتا ہو جس کی موافقت کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ یہ تمام روایات ایسی اسناد سے مروی ہوں جو قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جا سکے۔

اضطراب کی تحقیق کرنے کی شرائط

مضطرب حدیث کی تعریف اور اس کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی حدیث کو اس وقت تک مضطرب قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ اس میں دو شرائط نہ پائی جاتی ہوں:

·حدیث کی مختلف روایات میں ایسا اختلاف پایا جاتا ہو جس میں موافقت پیدا کرنا (Reconciliation) ممکن ہی نہ ہو۔

·روایات سند کی قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا بھی ممکن نہ ہو۔

اگر ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا ممکن ہو یا ان میں کسی وضاحت کے ذریعے موافقت پیدا کی جا سکتی ہو تو اس حدیث میں سے "اضطراب" ختم ہو جائے گا۔ اگر کسی ایک روایت کو ترجیح دی گئی ہے تو ہم اس پر عمل کریں گے اور اگر ان میں موافقت پیدا کر دی گئی ہے تو تمام احادیث پر عمل کریں گے۔

"مضطرب" حدیث کی اقسام

مضطرب حدیث کو اضطراب کی جگہ کے اعتبار سے دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مضطرب السند اور مضطرب المتن۔ ان میں سے پہلی قسم زیادہ طور پر پائی جاتی ہے۔

مضطرب السند کی مثال یہ حدیث ہے:

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا، "یا رسول اللہ! میں آپ کے بال سفید ہوتے دیکھ رہا ہوں۔" آپ نے فرمایا، "ہود اور ان کے بھائیوں (یعنی دیگر انبیاء کی قوموں پر عذاب) کے واقعات نے میرے بال سفید کر دیے ہیں۔" (رواه الترمذي ـ كتاب التفسير)

امام دارقطنی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ اس حدیث کو صرف ابو اسحاق کی سند سے روایت کیا گیا ہے۔ ان کی بیان کردہ اسناد میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ کہیں تو کسی راوی نے اسے مرسل (صحابی کا نام بتائے بغیر) روایت کیا ہے اور کہیں موصول (ملی ہوئی سند کے ساتھ)۔ کسی نے اس کا سلسلہ سند سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تک پہنچایا ہے، کسی نے سعد رضی اللہ عنہ تک اور کسی نے عائشہ رضی اللہ عنہا تک۔ ان تمام روایتوں کے راوی ثقہ ہیں جس کی وجہ سے کسی ایک روایت کو ترجیح دینا ممکن نہیں اور ان میں مطابقت پیدا کرنا بھی ممکن نہیں۔

مضطرب المتن حدیث کی مثال یہ حدیث ہے:

ترمذی شریک سے، وہ ابو حمزہ سے، وہ شعبی سے اور وہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے زکوۃ سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، "زکوۃ کے علاوہ بھی مال سے متعلق ذمہ داری ہے۔"

ابن ماجہ نے یہی حدیث ان الفاظ میں روایت کی ہے "زکوۃ کے علاوہ مال سے متعلق کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔" عراقی کہتے ہیں کہ یہ ایسا اضطراب ہے جس کی کوئی توجیہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

اضطراب کس سے واقع ہو سکتا ہے؟

اضطراب کسی ایک راوی سے بھی واقع ہو سکتا ہے اگر وہ مختلف الفاظ میں ایک ہی حدیث کو روایت کر رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اضطراب ایک سے زائد راویوں سے ہو جائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مختلف الفاظ میں اس حدیث کو روایت کر رہا ہو۔

"مضطرب" حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ

مضطرب حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اضطراب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ راوی حدیث کو صحیح طور پر محفوظ نہیں کر سکے۔

"مضطرب" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف

حافظ ابن حجر کی کتاب "المقترب فی بیان المضطرب۔"
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
"مضطرب" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مضطرب"، "اضطراب" کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے کسی معاملے میں اختلال پیدا ہو جانا اور نظام میں فساد پیدا ہو جانا۔ اپنی اصل میں یہ لہروں کے اضطراب سے نکلا ہے کیونکہ لہریں کثرت سے حرکت کرتی ہیں اور بے ترتیبی سے ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔

اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جو متعدد اسناد سے روایت کی گئی ہو۔ تمام اسناد قوت میں ایک دوسرے کے برابر ہوں لیکن ان میں کوئی تضاد پایا جاتا ہو۔

"مضطرب" حدیث کی تعریف کی وضاحت

مضطرب وہ حدیث ہوا کرتی ہے جس میں ایسا تضاد پایا جاتا ہو جس کی موافقت کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ یہ تمام روایات ایسی اسناد سے مروی ہوں جو قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جا سکے۔

اضطراب کی تحقیق کرنے کی شرائط

مضطرب حدیث کی تعریف اور اس کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی حدیث کو اس وقت تک مضطرب قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ اس میں دو شرائط نہ پائی جاتی ہوں:

·حدیث کی مختلف روایات میں ایسا اختلاف پایا جاتا ہو جس میں موافقت پیدا کرنا (Reconciliation) ممکن ہی نہ ہو۔

·روایات سند کی قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا بھی ممکن نہ ہو۔

اگر ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا ممکن ہو یا ان میں کسی وضاحت کے ذریعے موافقت پیدا کی جا سکتی ہو تو اس حدیث میں سے "اضطراب" ختم ہو جائے گا۔ اگر کسی ایک روایت کو ترجیح دی گئی ہے تو ہم اس پر عمل کریں گے اور اگر ان میں موافقت پیدا کر دی گئی ہے تو تمام احادیث پر عمل کریں گے۔

"مضطرب" حدیث کی اقسام

مضطرب حدیث کو اضطراب کی جگہ کے اعتبار سے دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مضطرب السند اور مضطرب المتن۔ ان میں سے پہلی قسم زیادہ طور پر پائی جاتی ہے۔

مضطرب السند کی مثال یہ حدیث ہے:

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا، "یا رسول اللہ! میں آپ کے بال سفید ہوتے دیکھ رہا ہوں۔" آپ نے فرمایا، "ہود اور ان کے بھائیوں (یعنی دیگر انبیاء کی قوموں پر عذاب) کے واقعات نے میرے بال سفید کر دیے ہیں۔" (رواه الترمذي ـ كتاب التفسير)

امام دارقطنی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ اس حدیث کو صرف ابو اسحاق کی سند سے روایت کیا گیا ہے۔ ان کی بیان کردہ اسناد میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ کہیں تو کسی راوی نے اسے مرسل (صحابی کا نام بتائے بغیر) روایت کیا ہے اور کہیں موصول (ملی ہوئی سند کے ساتھ)۔ کسی نے اس کا سلسلہ سند سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تک پہنچایا ہے، کسی نے سعد رضی اللہ عنہ تک اور کسی نے عائشہ رضی اللہ عنہا تک۔ ان تمام روایتوں کے راوی ثقہ ہیں جس کی وجہ سے کسی ایک روایت کو ترجیح دینا ممکن نہیں اور ان میں مطابقت پیدا کرنا بھی ممکن نہیں۔

مضطرب المتن حدیث کی مثال یہ حدیث ہے:

ترمذی شریک سے، وہ ابو حمزہ سے، وہ شعبی سے اور وہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے زکوۃ سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، "زکوۃ کے علاوہ بھی مال سے متعلق ذمہ داری ہے۔"

ابن ماجہ نے یہی حدیث ان الفاظ میں روایت کی ہے "زکوۃ کے علاوہ مال سے متعلق کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔" عراقی کہتے ہیں کہ یہ ایسا اضطراب ہے جس کی کوئی توجیہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

اضطراب کس سے واقع ہو سکتا ہے؟

اضطراب کسی ایک راوی سے بھی واقع ہو سکتا ہے اگر وہ مختلف الفاظ میں ایک ہی حدیث کو روایت کر رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اضطراب ایک سے زائد راویوں سے ہو جائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مختلف الفاظ میں اس حدیث کو روایت کر رہا ہو۔

"مضطرب" حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ

مضطرب حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اضطراب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ راوی حدیث کو صحیح طور پر محفوظ نہیں کر سکے۔

"مضطرب" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف

حافظ ابن حجر کی کتاب "المقترب فی بیان المضطرب۔"
"مصحف" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مصحف"، تصحیف کا اسم مفعول ہے جس کا مطلب ہے صحیفے یا کتاب کو پڑھنے میں غلطی کرنا۔ اسی سے لفظ "مصحفی" نکلا ہے جو اس شخص کو کہتے ہیں جو کتاب کو پڑھنے میں غلطی کر بیٹھے اور اس وجہ سے الفاظ کو تبدیل کر کے کچھ کا کچھ بنا دے۔

اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے ثقہ راویوں سے منقول الفاظ یا معانی میں غلطی سے تبدیلی کر دی گئی ہو۔

"مصحف" حدیث کی اہمیت اور دقت

(فنون حدیث میں مصحف حدیث کا) یہ فن نہایت ہی خوبصورت اور مشکل فن ہے۔ اس کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ حدیث کو روایت کرنے میں راویوں سے جو غلطیاں سرزد ہو گئی ہوں، ان کا پتہ چلایا جائے۔ اس عظیم کام کا بیڑا وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو امام دارقطنی جیسے ماہر اور حافظ حدیث ہوں۔

"مصحف" حدیث کی اقسام

اہل علم نے مصحف حدیث کی کئی طریقوں سے تقسیم کی ہے۔

موقع کے اعتبار سے تقسیم

موقع کے اعتبار سے مصحف حدیث کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

·اسناد میں تصحیف: اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں شعبہ نے العوام بن مراجم سے روایت کی ہے۔ اس حدیث کو لکھتے ہوئے غلطی سے ابن معین نے "العوام بن مزاحم" لکھ دیا ہے۔

·متن میں تصحیف: اس کی مثال سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں یہ الفاظ ہیں "احتجر فی المسجد۔۔۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسجد میں ان کاموں سے منع فرمایا۔۔۔۔" ابن لہیعۃ نے اس حدیث کو اس طرح سے لکھ لیا ہے، "احتجم فی المسجد۔۔۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسجد میں پچھنے لگوائے۔"

تصحیف کی وجہ کے اعتبار سے تقسیم

وجہ کے اعتبار سے بھی تصحیف کی دو اقسام ہیں:

·پڑھنے میں تصحیف: یہ اکثر اوقات ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پڑھنے والا تحریر کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتا جس کی وجہ خراب رائٹنگ یا نقاط کا موجود نہ ہونا ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے "من صام رمضان و اتبعہ ستا من الشوال۔۔۔ یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے۔۔۔"۔ اس حدیث کو ابوبکر الصولی نے غلطی سے اس طرح لکھ دیا ہے، "من صام رمضان و اتبعہ شیئا من الشوال۔۔۔ یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال میں کچھ کر کے اس کی پیروی کی۔۔۔۔"۔

·سننے میں تصحیف: بعض اوقات حدیث کو صحیح طور پر نہ سننے یا سننے والے کے دور بیٹھنے کے باعث غلطی لاحق ہو جاتی ہے۔ بولنے والا کچھ بولتا ہے اور سننے والا اس سے ملتا جلتا کوئی اور لفظ سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جو "عاصم الاحول" سے روایت کی گئی ہے لیکن بعض لوگوں نے اس نام کو "واصل الاحدب" لکھ دیا ہے۔

لفظ اور معنی کے اعتبار سے تقسیم

لفظ اور معنی کے اعتبار سے تصحیف بھی دو طرح کی ہوتی ہے:

·لفظ میں تصحیف: اس کی مثالیں اوپر گزر چکی ہیں۔

·معنی میں تصحیف: اس میں حدیث کا لفظ تو اپنی اصل حالت میں برقرار رہتا ہے لیکن اس سے کوئی ایسا معنی مراد لے لیا جاتا ہے جو درحقیقت مراد نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے "عنزۃ" کے لئے دعا فرمائی۔ ابو موسی العنزی یہ حدیث سن کر کہنے لگے، "ہماری قوم کو یہ شرف حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ہمارے لئے دعا فرمائی۔" وہ یہ سمجھے کہ اس حدیث میں "عنزۃ" سے مراد ان کا قبیلہ بنو عنزۃ ہے حالانکہ عنزۃ اس نیزے کو کہتے ہیں جو کہ نماز پڑھنے والا اپنے سامنے گاڑ لیتا ہے (تاکہ نمازی اس کے آگے سے گزر سکیں۔ ایسا کرنے والے کے لئے آپ نے دعا فرمائی۔)

4۔ حافظ ابن حجر کی "مصحف" حدیث کی تقسیم

حافظ ابن حجر نے ایک اور طریقے سے مصحف حدیث کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے:

·مصحف: یہ وہ حدیث ہے جس میں تحریر تو باقی رہے لیکن غلطی سے نقاط میں تبدیلی واقع ہو جائے (جیسے 'ف' کو 'ق' یا 'ج' کو 'خ' سمجھ لیا جائے۔)

·محرف: یہ وہ حدیث ہے جس میں تحریر تو باقی رہے لیکن غلطی سے حرف میں تبدیلی واقع ہو جائے (جیسے 'ف' کو 'غ' یا 'ج' کو 'د' میں تبدیل کر دیا جائے۔)

کیا تصحیف کی وجہ سے راوی پر الزام عائد کیا جاتا ہے؟

اگر کسی راوی سے شاذ و نادر تصحیف ہو جائے تو اس سے اس کی حدیث کی محفوظ کرنے کی صلاحیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کوئی شخص بھی تھوڑی بہت غلطی کرنے سے پاک نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ کثرت سے تصحیف (غلطی) کرتا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کمزور شخص ہے اور ثقہ راوی کے درجے کا نہیں ہے۔

کثرت سے تصحیف کرنے کی وجہ

تصحیف اس راوی سے اکثر اوقات ہو جایا کرتی ہے جو حدیث کو کسی شیخ سے سنے بغیر کتاب سے نقل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ حدیث نے کہا ہے کہ اس شخص سے حدیث کو قبول نہیں کرنا چاہیے جو سنے بغیر صرف کتاب پڑھ کر حدیث روایت کرتا ہے۔

نوٹ: حدیث کی روایت اور تدوین زیادہ تر پہلی تین صدیوں (630-900AD) میں کی گئی۔ اس دور میں رسم الخط اس حد تک ترقی یافتہ نہ ہو سکا تھا کہ محض کتاب میں دیکھ کر کسی لفظ کو صحیح صحیح پڑھا جا سکے۔ الفاظ پر نقاط نہ لگانے کے باعث 'ف' اور 'ق'، 'ط' اور 'ظ'، 'تا' اور 'یا' وغیرہ میں فرق سمجھنا مشکل تھا۔ اسی طرح تشدید اور دیگر اعراب بھی الفاظ پر موجود نہ ہوتے تھے اس وجہ سے 'یعلم' اور 'یعلّم' جیسے الفاظ میں فرق کرنا بسا اوقات دشوار ہو جایا کرتا تھا۔

رسم الخط کی اس خامی کو دور کرنے کے لئے محدثین نے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ کتاب کو اس کے مصنف یا مصنف کے کسی شاگرد سے دو بدو سنا جائے تاکہ غلطی (تصحیف) کا امکان باقی نہ رہے۔ اس طریقے نے اتنی اہمیت اختیار کی کہ محدثین کسی ایسے شخص سے حدیث کو قبول نہ کیا کرتے تھے جو کتاب کو بغیر استاد کے پڑھ کر حدیث روایت کرتا ہو۔ اس سے احتیاط کے اس درجے کا اندازہ ہوتا ہے جو تدوین حدیث میں ملحوظ خاطر رکھی گئی۔ موجودہ دور میں چونکہ عربی زبان کا رسم الخط اور پرنٹنگ اس معیار پر پہنچ چکی ہے کہ پڑھنے میں بڑی غلطی ہونے کا امکان کم ہو گیا ہے، اس وجہ سے یہ حکم دور جدید میں باقی نہیں رہا۔ البتہ حدیث کو باقاعدہ کسی ماہر استاذ سے پڑھنے سے دیگر فوائد ضرور حاصل ہو سکتے ہیں۔

"مصحف" حدیث سے متعلق مشہور تصانیف

·دارقطنی کی "التصحیف"

·خطابی کی "اصطلاح خطاء المحدثین"

·ابو احمد العسکری کی "تصحیفات المحدثین"
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
"مصحف" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "مصحف"، تصحیف کا اسم مفعول ہے جس کا مطلب ہے صحیفے یا کتاب کو پڑھنے میں غلطی کرنا۔ اسی سے لفظ "مصحفی" نکلا ہے جو اس شخص کو کہتے ہیں جو کتاب کو پڑھنے میں غلطی کر بیٹھے اور اس وجہ سے الفاظ کو تبدیل کر کے کچھ کا کچھ بنا دے۔

اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے ثقہ راویوں سے منقول الفاظ یا معانی میں غلطی سے تبدیلی کر دی گئی ہو۔

"مصحف" حدیث کی اہمیت اور دقت

(فنون حدیث میں مصحف حدیث کا) یہ فن نہایت ہی خوبصورت اور مشکل فن ہے۔ اس کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ حدیث کو روایت کرنے میں راویوں سے جو غلطیاں سرزد ہو گئی ہوں، ان کا پتہ چلایا جائے۔ اس عظیم کام کا بیڑا وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو امام دارقطنی جیسے ماہر اور حافظ حدیث ہوں۔

"مصحف" حدیث کی اقسام

اہل علم نے مصحف حدیث کی کئی طریقوں سے تقسیم کی ہے۔

موقع کے اعتبار سے تقسیم

موقع کے اعتبار سے مصحف حدیث کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

·اسناد میں تصحیف: اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں شعبہ نے العوام بن مراجم سے روایت کی ہے۔ اس حدیث کو لکھتے ہوئے غلطی سے ابن معین نے "العوام بن مزاحم" لکھ دیا ہے۔

·متن میں تصحیف: اس کی مثال سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں یہ الفاظ ہیں "احتجر فی المسجد۔۔۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسجد میں ان کاموں سے منع فرمایا۔۔۔۔" ابن لہیعۃ نے اس حدیث کو اس طرح سے لکھ لیا ہے، "احتجم فی المسجد۔۔۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسجد میں پچھنے لگوائے۔"

تصحیف کی وجہ کے اعتبار سے تقسیم

وجہ کے اعتبار سے بھی تصحیف کی دو اقسام ہیں:

·پڑھنے میں تصحیف: یہ اکثر اوقات ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پڑھنے والا تحریر کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتا جس کی وجہ خراب رائٹنگ یا نقاط کا موجود نہ ہونا ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے "من صام رمضان و اتبعہ ستا من الشوال۔۔۔ یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے۔۔۔"۔ اس حدیث کو ابوبکر الصولی نے غلطی سے اس طرح لکھ دیا ہے، "من صام رمضان و اتبعہ شیئا من الشوال۔۔۔ یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال میں کچھ کر کے اس کی پیروی کی۔۔۔۔"۔

·سننے میں تصحیف: بعض اوقات حدیث کو صحیح طور پر نہ سننے یا سننے والے کے دور بیٹھنے کے باعث غلطی لاحق ہو جاتی ہے۔ بولنے والا کچھ بولتا ہے اور سننے والا اس سے ملتا جلتا کوئی اور لفظ سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جو "عاصم الاحول" سے روایت کی گئی ہے لیکن بعض لوگوں نے اس نام کو "واصل الاحدب" لکھ دیا ہے۔

لفظ اور معنی کے اعتبار سے تقسیم

لفظ اور معنی کے اعتبار سے تصحیف بھی دو طرح کی ہوتی ہے:

·لفظ میں تصحیف: اس کی مثالیں اوپر گزر چکی ہیں۔

·معنی میں تصحیف: اس میں حدیث کا لفظ تو اپنی اصل حالت میں برقرار رہتا ہے لیکن اس سے کوئی ایسا معنی مراد لے لیا جاتا ہے جو درحقیقت مراد نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے "عنزۃ" کے لئے دعا فرمائی۔ ابو موسی العنزی یہ حدیث سن کر کہنے لگے، "ہماری قوم کو یہ شرف حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ہمارے لئے دعا فرمائی۔" وہ یہ سمجھے کہ اس حدیث میں "عنزۃ" سے مراد ان کا قبیلہ بنو عنزۃ ہے حالانکہ عنزۃ اس نیزے کو کہتے ہیں جو کہ نماز پڑھنے والا اپنے سامنے گاڑ لیتا ہے (تاکہ نمازی اس کے آگے سے گزر سکیں۔ ایسا کرنے والے کے لئے آپ نے دعا فرمائی۔)

4۔ حافظ ابن حجر کی "مصحف" حدیث کی تقسیم

حافظ ابن حجر نے ایک اور طریقے سے مصحف حدیث کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے:

·مصحف: یہ وہ حدیث ہے جس میں تحریر تو باقی رہے لیکن غلطی سے نقاط میں تبدیلی واقع ہو جائے (جیسے 'ف' کو 'ق' یا 'ج' کو 'خ' سمجھ لیا جائے۔)

·محرف: یہ وہ حدیث ہے جس میں تحریر تو باقی رہے لیکن غلطی سے حرف میں تبدیلی واقع ہو جائے (جیسے 'ف' کو 'غ' یا 'ج' کو 'د' میں تبدیل کر دیا جائے۔)

کیا تصحیف کی وجہ سے راوی پر الزام عائد کیا جاتا ہے؟

اگر کسی راوی سے شاذ و نادر تصحیف ہو جائے تو اس سے اس کی حدیث کی محفوظ کرنے کی صلاحیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کوئی شخص بھی تھوڑی بہت غلطی کرنے سے پاک نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ کثرت سے تصحیف (غلطی) کرتا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کمزور شخص ہے اور ثقہ راوی کے درجے کا نہیں ہے۔

کثرت سے تصحیف کرنے کی وجہ

تصحیف اس راوی سے اکثر اوقات ہو جایا کرتی ہے جو حدیث کو کسی شیخ سے سنے بغیر کتاب سے نقل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ حدیث نے کہا ہے کہ اس شخص سے حدیث کو قبول نہیں کرنا چاہیے جو سنے بغیر صرف کتاب پڑھ کر حدیث روایت کرتا ہے۔

نوٹ: حدیث کی روایت اور تدوین زیادہ تر پہلی تین صدیوں (630-900AD) میں کی گئی۔ اس دور میں رسم الخط اس حد تک ترقی یافتہ نہ ہو سکا تھا کہ محض کتاب میں دیکھ کر کسی لفظ کو صحیح صحیح پڑھا جا سکے۔ الفاظ پر نقاط نہ لگانے کے باعث 'ف' اور 'ق'، 'ط' اور 'ظ'، 'تا' اور 'یا' وغیرہ میں فرق سمجھنا مشکل تھا۔ اسی طرح تشدید اور دیگر اعراب بھی الفاظ پر موجود نہ ہوتے تھے اس وجہ سے 'یعلم' اور 'یعلّم' جیسے الفاظ میں فرق کرنا بسا اوقات دشوار ہو جایا کرتا تھا۔

رسم الخط کی اس خامی کو دور کرنے کے لئے محدثین نے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ کتاب کو اس کے مصنف یا مصنف کے کسی شاگرد سے دو بدو سنا جائے تاکہ غلطی (تصحیف) کا امکان باقی نہ رہے۔ اس طریقے نے اتنی اہمیت اختیار کی کہ محدثین کسی ایسے شخص سے حدیث کو قبول نہ کیا کرتے تھے جو کتاب کو بغیر استاد کے پڑھ کر حدیث روایت کرتا ہو۔ اس سے احتیاط کے اس درجے کا اندازہ ہوتا ہے جو تدوین حدیث میں ملحوظ خاطر رکھی گئی۔ موجودہ دور میں چونکہ عربی زبان کا رسم الخط اور پرنٹنگ اس معیار پر پہنچ چکی ہے کہ پڑھنے میں بڑی غلطی ہونے کا امکان کم ہو گیا ہے، اس وجہ سے یہ حکم دور جدید میں باقی نہیں رہا۔ البتہ حدیث کو باقاعدہ کسی ماہر استاذ سے پڑھنے سے دیگر فوائد ضرور حاصل ہو سکتے ہیں۔

"مصحف" حدیث سے متعلق مشہور تصانیف

·دارقطنی کی "التصحیف"

·خطابی کی "اصطلاح خطاء المحدثین"

·ابو احمد العسکری کی "تصحیفات المحدثین"
"شاذ" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "شاذ"، شذ کا اسم مفعول ہے جو کہ انفرادیت کو ظاہر کرتا ہے۔ شاذ کا معنی ہے اکثریت کے مقابلے پر اکیلا(Exceptional) ہونا۔ اصطلاحی مفہوم میں شاذ ایسی قابل قبول روایت کو کہتے ہیں جو کہ کسی دوسری اپنے سے زیادہ مضبوط روایت کے خلاف ہو۔

"شاذ" حدیث کی تعریف کی وضاحت

شاذ روایت قابل قبول ہوا کرتی ہے کیونکہ اس کے راوی اچھے کردار کے اور احادیث کو محفوظ کرنے والے ہوتے ہیں۔ دوسری روایت اس کی نسبت قابل ترجیح اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اس کے راوی زیادہ ثقہ ہوں یا اسے متعدد اسناد سے روایت کیا گیا ہو یا کسی اور وجہ سے ترجیح دی گئی ہو۔ (جس حدیث کو ترجیح دی جائے وہ محفوظ کہلاتی ہے۔)

شاذ حدیث کی تعریف سے متعلق ماہرین میں اختلاف رائے ہے لیکن یہ وہ تعریف ہے جسے حافظ ابن حجر نے اختیار کیا ہے اور فرمایا ہے، "اصطلاحات کے علم میں یہ تعریف زیادہ قابل اعتماد ہے۔" (النخبة وشرحها ص 37)

شذوذ (شاذ ہونا) کہاں پایا جاتا ہے؟

کسی حدیث کی سند یا متن دونوں میں شذوذ پایا جا سکتا ہے۔ سند میں شذوذ پائے جانے کی مثال یہ حدیث ہے۔

ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اپنی سندوں سے ابن عینیہ، وہ عمرو بن دینار سے، وہ عوسجۃ سے اور وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں فوت ہو گیا۔ اس کا سوائے ایک آزاد کردہ غلام کے کوئی وارث نہ تھا جسے وہ پہلے ہی آزاد کر چکا تھا۔

ابن عینیہ نے اس حدیث کو ابن جریج وغیرہ سے بھی روایت کیا ہے۔ حماد بن زید نے اس سند سے مختلف ایک سند پیش کی ہے جس میں انہوں نے عمرو بن دینار اور عوسجۃ سے روایت کیا ہے لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

ان دونوں روایتوں میں سے ابو حاتم نے ابن عینیہ کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ حماد بن زید بھی اگرچہ کردار اور ضبط کے معاملے میں ثقہ راوی ہیں لیکن ابو حاتم نے ابن عینیہ کی روایت کو کثرت تعداد کے باعث ترجیح دی ہے۔

متن میں شذوذ پائے جانے کی مثال یہ حدیث ہے:

ابو داؤد اور ترمذی اپنی سند سے عبدالواحد بن زیاد سے، وہ اعمش سے، وہ ابو صالح سے اور وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جب تم سے کوئی فجر کی نماز ادا کرے تو اس کے بعد وہ (اگر سونا چاہے تو) دائیں کروٹ پر سوئے۔"

امام بیہقی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں عبدالواحد نے اس سے مختلف بات کی ہے جو کثیر تعداد میں لوگوں نے بیان کی ہے۔ فجر کے بعد دائیں کروٹ پر سونا نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا عمل ہے نہ کہ آپ کا ارشاد۔ اعمش کے ثقہ شاگردوں میں صرف عبدالواحد ہی ایسے شخص ہیں جو اس حدیث کو حضور کے قول کے طور پر روایت کر رہے ہیں (جبکہ ان کے باقی شاگرد اس کو آپ کے عمل کے طور پر روایت کرتے ہیں۔)

"محفوظ" حدیث کی تعریف

محفوظ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی مخالفت کے باعث دوسری حدیث کو شاذ قرار دیا جائے۔ اس کی مثالیں اوپر گزر چکی ہیں۔

"شاذ" اور "محفوظ حدیث کا حکم

شاذ حدیث کو مسترد کر دیا جائے گا اور محفوظ حدیث کو قبول کیا جائے گا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
بعض اوقات کسی ضعیف بلکہ جعلی حدیث میں بھی جو بات بیان کی گئی ہوتی ہے، وہ درست ہوتی ہے۔ اس بات کے درست ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث صحیح ہے۔ حدیث کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نسبت درست ہے یا نہیں۔ اس کے لئے حدیث کی سند کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ بات تو درست ہو لیکن سند کمزور ہو جس کی وجہ سے وہ حدیث ضعیف قرار پائے۔
شاذ حدیث کو مسترد کر دیا جائے گا اور محفوظ حدیث کو قبول کیا جائے گا۔
محترم! اس مضمون کی کتب ناپید تو نہیں کہ آپ نے کتاب ہی ”کاپی پیسٹ“ کردی۔
محترم! اس سے ”عامی“ کو کیا سمجھ آئے گی؟
محترم! اس سے جو جناب نے سمجھا ہے وہ اختصاراً تحریر فرمادیں۔
محترم! آپ نے جتنی قسمیں ”مردود حدیث“ کی لکھی ہیں کیا آپ لوگ ان سے استدلال نہیں کرتے؟
 
Top