اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیحین میں مدلس کا عنعنہ مضر نہیں کیونکہ یا تو صحیحین کی معنعن روایات کی تصریح سماع موجود ہے اور یا ان روایات کا کوئی معتبر شاہد موجود ہے۔ علماء نے اس پر کئی کتب لکھی ہیں۔ آپ اول تو محدث فورم پر درج ذیل دھاگوں کا مطالعہ کیجئے:
صحیحین کا عنعنہ
صحیحین اور مدلس راوی
دوم ، عرض ہے کہ یہ اصول خود علمائے احناف کو بھی قبول ہے، چنانچہ دیوبندی مسلک کے وکیل ، سرفراز خاں صفدر صاحب فرماتے ہیں:
’’ محدثین کا اتفاق ہے کہ مدلس راوی کی تدلیس صحیحین میں کسی طرح بھی مضر نہیں ۔ چنانچہ امام نووی ؒ لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری و مسلم میں جو تدلیس واقع ہو ۔ وہ دوسرے دلائل سے سماعت پر محمول ہے ‘‘ الخ ( الحسن الکلام جلد ۱ ‘ ص ۲۰۰‘ ط ۲)
اسی صفحہ کے حاشیہ میں مزید لکھتے ہیں۔
’’ صحیحین کی تدلیس کے مضرنہ ہونے کا یہ قاعدہ امام نووی ؒ و ثطلانی ؒ کے علاوہ علامہ سخاوی ؒ نے فتح المغیث میں امام سیوطی ؒ نے تدریب الراوی میں اور محدث عبدالقادر القرشی نے الجو اہر المضیئہ ‘جلد ۲ ‘ ص ۴۲۹‘‘میں اور نواب صاحب نے ہدایۃ السائل میں پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ‘‘۔