السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس میں میرا یہ کہنا تھا کہ محدثین نے امام بخاری اور امام مسلم سے حسن ظن کی وجہ ان کی مدلس والی روایتوں کو قبول کیا ہے نہ کہ ہر سند کو محمول علی السماع سمجھ کر قبول کیا ہے کیونکہ ایسی بہت سی اسناد ہیں جس کی سماع کی تصریح محدثین کو نہ مل سکیں
آپ کی یہ بات آپ کے پچھلے کلام میں نیلے رنگ میں موجود ہے،مسئلہ سرخ رنگ میں موجود کلام کا ہے؛
میرا یہ حوالہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ یہ صرف حسن ظن ہے ورنہ اس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔
ایک بات مزید کہ آپ اگر وواقعی اس مسئلہ کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ایک بہت اجھا موقع ہے، رضا میاں سے اچھی علمی گفتگو کیجئے!
محدثین کا مدلس کی معنعن راوی کو محمول علی السماع کا حسن ظن رکھنا،یعنی ان کو سمع پر محمول کرنا باوجود یہ کہ اس میں سمع کی تصریح نہ ہو، بلا جواز نہیں! اس میں تفصیل ہے!
ذرا غور و فکر کریں اور اشتہار و پمفلیٹس سے گریز کرتے ہوئے، مدعا کو بیان کیجئے!
یک نکتہ آپ کو میں بیان کرتا ہوں:
ایک مدلس راوی معنعن روایت کرتا ہے، جس شیخ سے وہ معنعن روایت کرتا ہے، اسی شیخ سے ایک اور غیر مدلس راوی بھی وہی روایت کرے، تو بغیر سماع کی تصریح کے مدلس راوی کی اس معنعن روایت کو سماع پر محمول کیا جائے گا، کیونکہ اس روایت کا اس کے شیخ سے روایت کیا جانا ثابت ہو گیا ہے! یہ ہے وہ حسن ظن، جسے محدثین اختیار کرتے ہیں ، گو کہ ابھی یہاں یہ ثبوت نہیں کہ اس مدلس راوی اور اس کے درمیان جس سے یہ مدلس راوی عنعنہ سے روایت کرتا ہے، واقعی کوئی دوسرا راوی پیچ میں ہے، یا نہیں!