جب اللہ تعالیٰ صاف انداز میں یہ فرما رہا کہ
اور ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے
یعنی اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومینن عمل کرنے والوں کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں تو پھر اس کے برخلاف اپنا عقیدہ ظاہر کرنا آپ کی نظر میں کیا کہلائے گا
یہ بات یاد رہے کہ اللہ نے اپنے ساتھ ان اعمال دیکھنے والے جن لوگوں کا ذکر کیا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومینن ہیں اب اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ یہ لوگ بھی اعمال کرنے والے کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں توبعد از وصال بھی رسول اور مومن ان سب باتوں کا مشاہدہ فرمارہے ہیں کیوں کہ وصال ہوجانے سے نہ رسول کی رسالت ساکت ہوتی ہی اور نہ مومن کا ایمان
کیونکہ ہم آج بھی جو کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں اس میں اللہ کے اکیلے معبود ہونے کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی جن الفاظ میں دیتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ
محمد اللہ کے رسول ہیں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اس لئے میں نے یہ عرض کی تھی کیا قرآن کی آیت کے خلاف عقیدہ بنانا قرآن کا انکار نہیں ؟؟
محترم - ذرا اس پر بھی نظر ثانی کرکے جواب عنایت فرمائیں -
کیا باقی امتوں کے اعمال بھی ان کے انبیاء و صالحین تک پہنچتے ہیں -
مَثَلاً کیا عیسائیوں کے اعمال حضرت عیسئ علیہ سلام تک پہنچتے ہیں؟؟؟ باوجود اس کے کہ وہ آسمان پر جسم و جان کے ساتھ زندہ ہیں -لیکن قرآن تو کہہ رہا ہے -
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنْتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ سوره المائدہ ١١٧
(فرمایا عیسئ علیہ سلام نے) میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم ایک الله کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے اور
جب تک میں ان میں رہا ان کی خبر رکھتا رہا جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو تو ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبردار ہے-
اوراس کی تائید میں خود یہی بات نبی کریم صل الله علیہ و آ له سے منقول ہے (
کہ انبیاء و صالحین پر ان کی وفات کے بعد امّت کے اعمال پیش نہیں ہوتے) - آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد پاک ہے -
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " تُحْشَرُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلاً، ثُمَّ قَرَأَ {كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ} فَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ، ثُمَّ يُؤْخَذُ بِرِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِي ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ {وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ}
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قیامت کے دن ) تم لوگ ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے اٹھائے جاؤ گے ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ” جس طرح ہم نے انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم دوبارہ لوٹائیں گے ، یہ ہماری جانب سے وعدہ ہے اور بیشک ہم اسے کرنے والے ہیں ‘‘ پھر سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا ۔ پھر میرے اصحاب کو دائیں ( جنت کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ لیکن کچھ کو بائیں ( جہنم کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ میں کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ جب آپ ان سے جدا ہوئے تو اسی وقت انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا ۔
میں اس وقت وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے کہا تھا کہ جب تک میں ان میں موجود تھا ان کی نگرانی کرتا رہا لیکن جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان ہے اور تو ہر چیز پر نگہبان ہے ۔