lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
مقصد کسی پر تنقید نہیں بلکہ اپنے عقیدے کی اصلاح ہے - یہ تحریر مجھے ایک بندے سے ملی ہے - سوچا کہ یہاں پر پیش کی جا ے تا کہ اگر کوئی ڈنڈی ماری گئی ہے تو @اسحاق سلفی بھائی بتا دیں - شکریہ
مردوں پر اعمال پیش ہونے کا عقیدہ
وقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلى عالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ -
(سوره توبہ:١٠٥)
یہ آیت غزوہ تبوک کے تناظر میں نازل ہوئی تھی - ایسے لوگ جو متساہل یا منافق تھے ان کو کہا جا رہا ہے کہ الله ، اس کا رسول اور عام مومنین تمہارے اعمال کا مشاہدہ کریں گے کہ تم لوگ واقعی سنجیدہ ہو یا بہانے بناتے ہو اور جان لو کہ واپس الله عالم الغیب کی طرف ہی پلٹنا ہے -
ان اعمال میں مسجد آنا ، زکوة دینا وغیرہ شامل ہے جو مشاہدے میں آسکیں - مقصد یہ ہے کہ اب منافقین کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھی جائے گی پہلے جیسی چھوٹ ختم ہو گئی -
شیعوں نے اس آیت کے مفہوم میں وسعت پیدا کی اور روایت بیان کر دی
عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں: میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمائیے - حضرت نے فرمایا: کیا میں دعا نہیں کرتا ہوں؟ الله کی قسم آپ کے اعمال ہر روز و شب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ، لہذا ہر ناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں - عبداللہ کہتے ہیں کہ امام کا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امام کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں - جب امام میرے تعجب کے بارے میں آگاہ ہوئے تو مجھ سے مخاطب ہوکر فر مایا: کیا آپ الله کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں ، جہاں پر الله ارشاد فرماتا ہے: "وقل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون" اور اس کے بعد فرمایا: خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں -
(الکافی: جلد ١ ، کتاب الحجہ ، صفحہ ١٥٩)
ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ:
قَدْ وَرَدَ: أَنَّ أَعْمَالَ الْأَحْيَاءِ تُعرَض عَلَى الْأَمْوَاتِ مِنَ الْأَقْرِبَاءِ وَالْعَشَائِرِ فِي الْبَرْزَخِ
ترجمہ: بے شک یہ آیا ہے کہ زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر البرزخ میں پیش ہوتے ہیں -
(تفسیر القرآن العظیم ، جلد ٤ ، صفحہ ٢٠٩)
ابن کثیر رحم الله نے سوره توبہ کی آیت سے یہ اسخراج کیا ہے کہ رشتہ داروں پر اعمال پیش ہوتے ہیں
ابن تیمیہ رحم الله مجموع الفتاویٰ میں لکھتے ہیں کہ:
ولما كانت أعمال الأحياء تعرض على الموتى كان أبو الدرداء يقول : " اللهم إني أعوذ بك أن أعمل عملا أخزى به عند عبد الله بن رواحة
ترجمہ: چونکہ زندوں کے اعمال مردوں پر پیش کیے جاتے ہیں اس لیے ابو الدرداء فرمایا کرتے تھے کہ: اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے عمل سے جس سے عبد اللہ بن رواحہ کی نظر میں میری رسوائی ہو -
(مجموع فتاوى ابن تيمية: الفقه: كتاب النكاح: باب أركان النكاح وشروطه: فصل ما ينعقد به النكاح: مسألة هل يصح عقد أئمة القرى النكاح لمن لها ولي)
ابن کثیر رحم الله جس روایت کا حوالہ دیتے ہیں یہ روایت المنامات از ابن ابی الدنيا سے لی گئی ہے - ابن ابی الدنيا کی کتب ، احادیث کے ذخیرہ کی کمزور ترین روایات کا مجموعہ ہے - اس کی سند ہے -
دَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ، كَانَ يَقُولُ: إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى مَوْتَاكُمْ فَيُسَرُّونَ وَيُسَاءُونَ وَكَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، يَقُولُ عِنْدَ ذَلِكَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَعْمَلَ عَمَلًا يُخْزَى بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ -
(المنامات لابن ابی الدنيا: صفحہ ٩ ، رقم ٤)
الذہبی کتاب العبر في خبر من غبر میں لکھتے ہیں کہ:
عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي. وهو مُكْثرٌ عن أبيه وغيره. ولا أعلمه روى عن الصحابة. وقد رأى جماعة من الصحابة
ترجمہ: عبد الرحمن بن جبير بن نفير الحضرمی الحمصی اپنے باپ سے بہت سی روایات کی ہیں اور میں نہیں جانتا ان کی صحابہ سے کوئی روایت اور انہوں نے صحابہ کو دیکھا ہے -
(العبر فی خبر من غبر: جلد ١ ، صفحہ ١١٤ ، دار الکتب العلمیہ - بیروت)
ابن ماکولا لکھتے ہیں کہ:
جبير بن نفير من قدماء التابعين، روى عن أبيه وغيره. وابنه عبد الرحمن بن جبير بن نفير
ترجمہ: جبير بن نفير قدیم تابعين میں سے ہیں اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بن جبير بن نفير ہیں
(الاكمال فی رفع الارتياب عن المؤتلف والمختلف فی الاسماء والكنی والانساب: جلد ٧ ، صفحہ ٢٧٥ ، دار الکتب العلمیہ - بیروت - لبنان)
عبد الرحمن بن جبير بن نفير کا صحابہ سے سماع ثابت نہیں اور ان کے باپ خود تابعی ہیں -
حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں کہ:
أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْقَارِئُ، قَالَا: ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، ثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكُونِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أُدَىٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مِثْلُ الذُّبَابِ تَمُورُ فِي جَوِّهَا، فَاللَّهَ اللَّهَ فِي إِخْوَانِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ فَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “
ترجمہ: نعمان بن بشیر رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا.......لوگوں اپنے مردہ بھائیوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں -
اس روایت کے بارے میں مقبل بن هادی لکھتے ہیں کہ:
قال الحاكم رحمه الله (ج4 ص 448 ح 7930):
أخبرنا أبو النضر الفقيه وإبراهيم بن إسماعيل القارئ قالا: ثنا عثمان بن سعيد الدارمي، ثنا يحيى بن صالح الوحاظي، ثنا أبو إسماعيل السكوني.
ترجمة الحافظ الذهبي رحمه الله في «الميزان» فقال:
أبو إسماعيل السكوني عن مالك بن أدي مجهول - (رجال الحاكم فی المستدرك: جلد ٢ ، صفحہ ٤٠٢ ، مکتبہ صنعاء الاثریہ)
معلوم ہوا کہ اس میں مجہول راوی ہیں -
ایک روایت اس طرح ملتی ہے کہ:
وعن أبي أيوب الأنصاري أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال : " إن نفس المؤمن إذا قبضت تلقاها من أهل الرحمة من عباده كما يلقون البشير من الدنيا فيقولون : أنظروا صاحبكم يستريح فإنه قد كان في كرب شديد ثم يسألوه : ماذا فعل فلان ؟ وماذا فعلت فلانة ؟ هل تزوجت ؟ فإذا سألوه عن الرجل قد مات قبله فيقول : هيهات قد مات ذلك قبلي ! ! فيقولون : إنا لله وإنا إليه راجعون ذهب به إلى أمه الهاوية فبئست الأم وبئست المربية ، وإن أعمالكم تعرض على أقاربكم وعشائركم [ من أهل الآخرة ] فإن كان خيرا فرحوا واستبشروا وقالوا : اللهم هذا فضلك ورحمتك فأتمم نعمتك عليه وأمته عليها ، ويعرض عليهم عملهم المسيء فيقولون : اللهم ألهمه عملا صالحا ترضى به عنه وتقربه إليك "
ترجمہ: ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے اعمال تمہارے عزیز و اقارب پر پیش کیےجاتے ہیں ، اگر وہ اعمال اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ تیرا فضل و رحمت ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کا اتمام فرما دے اور جب ان پر برے عمل پیش کیے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما جس سے تو اس سے راضی ہو جائے اور تیری قربت حاصل ہو -
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: كتاب الجنائز: باب فی موت المؤمن وغيره)
رواه الطبراني في الكبير والأوسط ، وفيه مسلمة بن علي وهو ضعيف
الهيثمی مجمع الزوائد میں اس روایت پر کہتے ہیں کہ اس کی سند میں مسلمہ بن علی ہے اور وہ ضعیف ہے - (ایضاً)
مُردوں پر اعمال پیش ہونے کی کوئی ایک روایت بھی سندًا صحیح نہیں -
الله اس شرک سے نکلنے کی توفیق دے -
مردوں پر اعمال پیش ہونے کا عقیدہ
(سوره توبہ:١٠٥)
یہ آیت غزوہ تبوک کے تناظر میں نازل ہوئی تھی - ایسے لوگ جو متساہل یا منافق تھے ان کو کہا جا رہا ہے کہ الله ، اس کا رسول اور عام مومنین تمہارے اعمال کا مشاہدہ کریں گے کہ تم لوگ واقعی سنجیدہ ہو یا بہانے بناتے ہو اور جان لو کہ واپس الله عالم الغیب کی طرف ہی پلٹنا ہے -
ان اعمال میں مسجد آنا ، زکوة دینا وغیرہ شامل ہے جو مشاہدے میں آسکیں - مقصد یہ ہے کہ اب منافقین کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھی جائے گی پہلے جیسی چھوٹ ختم ہو گئی -
شیعوں نے اس آیت کے مفہوم میں وسعت پیدا کی اور روایت بیان کر دی
عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں: میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمائیے - حضرت نے فرمایا: کیا میں دعا نہیں کرتا ہوں؟ الله کی قسم آپ کے اعمال ہر روز و شب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ، لہذا ہر ناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں - عبداللہ کہتے ہیں کہ امام کا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امام کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں - جب امام میرے تعجب کے بارے میں آگاہ ہوئے تو مجھ سے مخاطب ہوکر فر مایا: کیا آپ الله کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں ، جہاں پر الله ارشاد فرماتا ہے: "وقل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون" اور اس کے بعد فرمایا: خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں -
(الکافی: جلد ١ ، کتاب الحجہ ، صفحہ ١٥٩)
ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ:
قَدْ وَرَدَ: أَنَّ أَعْمَالَ الْأَحْيَاءِ تُعرَض عَلَى الْأَمْوَاتِ مِنَ الْأَقْرِبَاءِ وَالْعَشَائِرِ فِي الْبَرْزَخِ
ترجمہ: بے شک یہ آیا ہے کہ زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر البرزخ میں پیش ہوتے ہیں -
(تفسیر القرآن العظیم ، جلد ٤ ، صفحہ ٢٠٩)
ابن کثیر رحم الله نے سوره توبہ کی آیت سے یہ اسخراج کیا ہے کہ رشتہ داروں پر اعمال پیش ہوتے ہیں
ابن تیمیہ رحم الله مجموع الفتاویٰ میں لکھتے ہیں کہ:
ولما كانت أعمال الأحياء تعرض على الموتى كان أبو الدرداء يقول : " اللهم إني أعوذ بك أن أعمل عملا أخزى به عند عبد الله بن رواحة
ترجمہ: چونکہ زندوں کے اعمال مردوں پر پیش کیے جاتے ہیں اس لیے ابو الدرداء فرمایا کرتے تھے کہ: اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے عمل سے جس سے عبد اللہ بن رواحہ کی نظر میں میری رسوائی ہو -
(مجموع فتاوى ابن تيمية: الفقه: كتاب النكاح: باب أركان النكاح وشروطه: فصل ما ينعقد به النكاح: مسألة هل يصح عقد أئمة القرى النكاح لمن لها ولي)
ابن کثیر رحم الله جس روایت کا حوالہ دیتے ہیں یہ روایت المنامات از ابن ابی الدنيا سے لی گئی ہے - ابن ابی الدنيا کی کتب ، احادیث کے ذخیرہ کی کمزور ترین روایات کا مجموعہ ہے - اس کی سند ہے -
دَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ، كَانَ يَقُولُ: إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى مَوْتَاكُمْ فَيُسَرُّونَ وَيُسَاءُونَ وَكَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، يَقُولُ عِنْدَ ذَلِكَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَعْمَلَ عَمَلًا يُخْزَى بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ -
(المنامات لابن ابی الدنيا: صفحہ ٩ ، رقم ٤)
الذہبی کتاب العبر في خبر من غبر میں لکھتے ہیں کہ:
عبد الرحمن بن جبيْر بن نفَير الحضرمِي الحمصي. وهو مُكْثرٌ عن أبيه وغيره. ولا أعلمه روى عن الصحابة. وقد رأى جماعة من الصحابة
ترجمہ: عبد الرحمن بن جبير بن نفير الحضرمی الحمصی اپنے باپ سے بہت سی روایات کی ہیں اور میں نہیں جانتا ان کی صحابہ سے کوئی روایت اور انہوں نے صحابہ کو دیکھا ہے -
(العبر فی خبر من غبر: جلد ١ ، صفحہ ١١٤ ، دار الکتب العلمیہ - بیروت)
ابن ماکولا لکھتے ہیں کہ:
جبير بن نفير من قدماء التابعين، روى عن أبيه وغيره. وابنه عبد الرحمن بن جبير بن نفير
ترجمہ: جبير بن نفير قدیم تابعين میں سے ہیں اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بن جبير بن نفير ہیں
(الاكمال فی رفع الارتياب عن المؤتلف والمختلف فی الاسماء والكنی والانساب: جلد ٧ ، صفحہ ٢٧٥ ، دار الکتب العلمیہ - بیروت - لبنان)
عبد الرحمن بن جبير بن نفير کا صحابہ سے سماع ثابت نہیں اور ان کے باپ خود تابعی ہیں -
حاکم مستدرک میں روایت بیان کرتے ہیں کہ:
أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْقَارِئُ، قَالَا: ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، ثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكُونِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أُدَىٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مِثْلُ الذُّبَابِ تَمُورُ فِي جَوِّهَا، فَاللَّهَ اللَّهَ فِي إِخْوَانِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ فَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “
ترجمہ: نعمان بن بشیر رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا.......لوگوں اپنے مردہ بھائیوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں -
اس روایت کے بارے میں مقبل بن هادی لکھتے ہیں کہ:
قال الحاكم رحمه الله (ج4 ص 448 ح 7930):
أخبرنا أبو النضر الفقيه وإبراهيم بن إسماعيل القارئ قالا: ثنا عثمان بن سعيد الدارمي، ثنا يحيى بن صالح الوحاظي، ثنا أبو إسماعيل السكوني.
ترجمة الحافظ الذهبي رحمه الله في «الميزان» فقال:
أبو إسماعيل السكوني عن مالك بن أدي مجهول - (رجال الحاكم فی المستدرك: جلد ٢ ، صفحہ ٤٠٢ ، مکتبہ صنعاء الاثریہ)
معلوم ہوا کہ اس میں مجہول راوی ہیں -
ایک روایت اس طرح ملتی ہے کہ:
وعن أبي أيوب الأنصاري أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال : " إن نفس المؤمن إذا قبضت تلقاها من أهل الرحمة من عباده كما يلقون البشير من الدنيا فيقولون : أنظروا صاحبكم يستريح فإنه قد كان في كرب شديد ثم يسألوه : ماذا فعل فلان ؟ وماذا فعلت فلانة ؟ هل تزوجت ؟ فإذا سألوه عن الرجل قد مات قبله فيقول : هيهات قد مات ذلك قبلي ! ! فيقولون : إنا لله وإنا إليه راجعون ذهب به إلى أمه الهاوية فبئست الأم وبئست المربية ، وإن أعمالكم تعرض على أقاربكم وعشائركم [ من أهل الآخرة ] فإن كان خيرا فرحوا واستبشروا وقالوا : اللهم هذا فضلك ورحمتك فأتمم نعمتك عليه وأمته عليها ، ويعرض عليهم عملهم المسيء فيقولون : اللهم ألهمه عملا صالحا ترضى به عنه وتقربه إليك "
ترجمہ: ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے اعمال تمہارے عزیز و اقارب پر پیش کیےجاتے ہیں ، اگر وہ اعمال اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ تیرا فضل و رحمت ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کا اتمام فرما دے اور جب ان پر برے عمل پیش کیے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما جس سے تو اس سے راضی ہو جائے اور تیری قربت حاصل ہو -
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: كتاب الجنائز: باب فی موت المؤمن وغيره)
رواه الطبراني في الكبير والأوسط ، وفيه مسلمة بن علي وهو ضعيف
الهيثمی مجمع الزوائد میں اس روایت پر کہتے ہیں کہ اس کی سند میں مسلمہ بن علی ہے اور وہ ضعیف ہے - (ایضاً)
مُردوں پر اعمال پیش ہونے کی کوئی ایک روایت بھی سندًا صحیح نہیں -
الله اس شرک سے نکلنے کی توفیق دے -