اس روایت کے کون سے الفاظ ہیں جن سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے مہربانی فرماکر وضاحت فرمادیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعض دفعہ غیب کی خبر دی جاتی تھی
اس روایت کے کون سے الفاظ ہیں جن سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے مہربانی فرماکر وضاحت فرمادیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعض دفعہ غیب کی خبر دی جاتی تھی
یہ روایت نہیں قرآن سے نکلا ھے کیونکہ جب ایک رسول کو علم غیب کے لیے منتخب کیا گیا ھے تو پھر اس کو کہا جا رھا ھے کہ کہو میں اگر عالم غیب ھوتا تو خیر اکھٹا کرتا اور مجھے کوئی برائی نہیں پہنچتیاس روایت کے کون سے الفاظ ہیں جن سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے مہربانی فرماکر وضاحت فرمادیں
کیااس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرماکر جنگ موتہ کا حال صحابہ کو سنایا تھا اگر جواب ہاں ہے تو میں یہ روایت دوبارہ کوٹ کئے دیتا ہوں آپ مجھے ان الفاظ کی نشاندہی فرمادیں شکریہیہ روایت نہیں قرآن سے نکلا ھے کیونکہ جب ایک رسول کو علم غیب کے لیے منتخب کیا گیا ھے تو پھر اس کو کہا جا رھا ھے کہ کہو میں اگر عالم غیب ھوتا تو خیر اکھٹا کرتا اور مجھے کوئی برائی نہیں پہنچتی
کیااس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرماکر جنگ موتہ کا حال صحابہ کو سنایا تھا اگر جواب ہاں ہے تو میں یہ روایت دوبارہ کوٹ کئے دیتا ہوں آپ مجھے ان الفاظ کی نشاندہی فرمادیں شکریہ
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اب وہ شہید کر دیئے گئے ‘ اب جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی۔
صحیح بخاری :حدیث نمبر: 4262
مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌoقرآن کی آیات سے ھی روایت کی حدود متعین ھوتی ھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم دیا گیا اس کی حدود بھی-
بہرام بھائی آپ نے یہاں بحث کس چیز پر کرنی ہے - علم غیب پر یا زندوں کے اعمال مردہ رشتہ داروں پر پیش ہونے پر -مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo
آل عمران، 3 : 179
’’اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔ ‘‘
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo
الجن، 72 : 26۔ 27
’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے۔ ‘‘
نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
التکویر، 81 : 24
’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔ ‘‘
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیب بتانے میں بخیل نہیں بلکہ غیب بتانے میں سخی ہیں
کیا آپ کے پاس جو قرآن ہے اس میں مندرجہ بالا آیات نہیں ہے اگر ہے تو پھر کیوں ان آیات کریمہ سے احادیث کی حدود متعین نہیں کرتے کہیں ایسا تو نہیں کہ
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً
سورہ النساء :۱۵۰
وہ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ سے اس کے رسولوں کو جدا کردیں اور کہتے ہیں ہم کسی پر ایمان لائے اور کسی کے منکر ہوئے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں
اس کا یہ جواب بھی دیا ہے - اگر یہاں کوئی غلط بات لکھی گئی ہو تو پلیز بتا دیں تا کہ ایسا جواب لکھنے والے کا رد کیا جا سکے - شکریہ -وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
سورہ توبہ:105
اردو ترجمہ جالندھری
اور ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب وحاضر کے جاننے والے (خدائے واحد) کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تم کو بتا دے گا
وَقَالَتْ عَائِشَةُ إِذَا أَعْجَبَكَ حُسْنُ عَمَلِ امْرِئٍ فَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ أَحَدٌ
صحیح بخاری :كتاب التوحيد : باب قول الله تعالى: {يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالاته}
اردو ترجمہ داؤد راز
اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جب تجھ کو کسی کا کام اچھا لگے تو یوں کہہ کہ عمل کئے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مسلمان تمہارا کام دیکھ لیں گے، کسی کا نیک عمل تجھ کو دھوکا میں نہ ڈالے۔
مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo
آل عمران، 3 : 179
’’اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔ ‘‘
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo
الجن، 72 : 26۔ 27
’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے۔ ‘‘
نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
التکویر، 81 : 24
’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔ ‘‘
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیب بتانے میں بخیل نہیں بلکہ غیب بتانے میں سخی ہیں
کیا آپ کے پاس جو قرآن ہے اس میں مندرجہ بالا آیات نہیں ہے اگر ہے تو پھر کیوں ان آیات کریمہ سے احادیث کی حدود متعین نہیں کرتے کہیں ایسا تو نہیں کہ
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً
سورہ النساء :۱۵۰
وہ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ سے اس کے رسولوں کو جدا کردیں اور کہتے ہیں ہم کسی پر ایمان لائے اور کسی کے منکر ہوئے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا -
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللّهِ وَاللّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا تَعْمَلُونَ
سورہ آل عمران : 98
ترجمہ جوناگڑھی
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس پر گواه ہے
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
سورہ بقر :143
ترجمہ :جوناگڑھی
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواه ہوجاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواه ہوجائیں، جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے (ان پر کوئی مشکل نہیں) اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع نہ کرے گا اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے واﻻ ہے
اس روایت میں ماہ شعبان کی فضیلت کا ذکر ہے نہ کہ ١٥ شعبان کی فضیلت کا ؟؟- ١٥ شعبان کی رات میں عبادت اوراگلے دن روزہ رکھنے سے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں-یعنی یہ دلیل ہوئی شب برات پر جو شعبان کی 15 ویں شب کو مسلمان مناتے ہیں کہ اس رات اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور مسلمان اس رات میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور دن میں روزہ رکھتے ہیں
کیا خیال ہے کہ اب یہ روایت ضعیف نہیں ہوجائے گی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟