زنا کا راستہ آسان کرنے کی اور کئی وجوہات ہیں، جو لوگ بالکل اپنی بیٹی یا بیوی کی شادی اس لیے نہیں کرتے جب تک وہ پانچ دس لاکھ کا سامان نہیں دیں گے شادی نہیں کریں گے تو پھر زنا کا راستہ آسان ہوتا ہے۔
تو کیا یہ باتیں ہمارے معاشرہ میں نہیں ہے ؟؟؟چاہے وہ کوئی بھی ہو!!!!!
چند باتیں غور طلب ہیں:
(1) لڑکے والے لڑکی والوں سے سامان کا مطالبہ نہیں کر سکتے کہ لڑکی اپنے گھر سے اتنا سامان لے کر آئے۔
(2) اگر اس اصول کو لاگو کر دیا جائے کہ اپنی بہن یا بیٹی ایسے شخص کو دے ہی نہ جس کے پاس ضروریات زندگی کا سامان نہ ہو تو فتنہ کھڑا ہو سکتا ہے، ایک موحد شخص ہے لیکن غریب ہے دوسرا شخص مالدار ہے لیکن مشرک ہے، مشرک کہتا ہے کہ لڑکی والوں کو سامان دینے کی ضرورت نہیں میں خود سارا کچھ لے لوں گا تو کیا یہ رشتہ کر دیا جائے گا؟ بالکل نہیں۔
جی بھائی آپ نے درست فرمایا لیکن
بعض لوگ دُنیا کی چمک بلکہ پیسے کی چمک کے آگے قرآن و حدیث کو بُھول جاتے ہیں کیوں کہ اُنہوں نے اپنے رشتے داروں کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک موحد شخص تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی ان کے نکاح میں دی حق مہر میں دینے کے لیے بھی اس وقت کچھ نہیں تھا، تو کیا یہ شادی نہیں ہوئی تھی؟
سبحان اللہ کیا دُور یاد دلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔کاش ایسا آج کثرت سے ہوتا ہو!!!!
(3) ایک شخص غریب ہے شادی کی عمر کو پہنچ گیا ہے لیکن اس کے گھر والے کہتے ہیں پہلے اتنا کماؤ کہ گھر کو سامان سے بھر دو تب تمہاری شادی کریں گے اور وہ بیچارہ کماتے کماتے بوڑھا ہو جاتا ہے تب کیا زنا کا راستہ آسان نہیں ہو گا؟
جی بالکل ہوگا
کیوں کہ جب حق باقی نہیں رہتا تو پھرظُلم ہوتا ہے
(3) جہیز کو ہر حال میں ضروری سمجھنے والے اور جہیز کو بالکل نہ دینے کے قائل دونوں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔
(4) ایک بھائی ہے وہ اپنی بہن کی شادی ایک ایسے شخص سے کر رہا ہے جو بالکل غریب ہے لیکن وہ جہیز کا مطالبہ بالکل نہیں کر رہا، بھائی کہتا ہے کہ میں اپنی بہن کو شادی پر ہر زندگی کی ضروریات کا ہر سامان دوں گا تو میرے خیال میں یہ غلط نہیں ہے، اگر اس بات کہ غلط ہونے میں کوئی دلیل ہے قرآن و سنت سے تو پیش کی جائے۔
ضرورت زندگی سامان میں لوگوں نے خوبصورت مکانات ،فریج، ٹی وی، وی سی آر، ہر طرح کا الیکٹرانک سامان، تین تین چار چار صوفہ سیٹ، درجن درج کرسیاں، ایسا سامان جن کو سال میں ایک بار بھی استعمال کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ ان کو بھی ضروریات زندگی کا نام دےرکھاہے۔۔ آج کونسا ایسا گھرانہ ہے جہاں ضروریات زندگی کا سامان موجود نہیں ؟
دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے جسے لوگ شرافت و خوداری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں ۔
اس لیے میرے بھائی مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ اس رسم کو بالکل ختم ہی کردینا چاہیے اور اس موقع پر بیٹی کو کچھ بھی ایسی چیز نہیں دینی چاہیے جو عوام الناس کو اس شک ولالچ میں مبتلا کردے کہ اگر ہمارے بیٹے کا نکاح کسی امیر دارانی سے ہوگیا تو وہ جہیز کو خوشی ومحبت کا نام دے کر اپنی بیٹی کو بہت کچھ دیں گے۔
اس لیے ماقبل پوسٹ میں اشارہ بھی کیا کہ اگر خوشی ومحبت جتانی بھی ہے تو ایسے طریقے اختیار کیے جائیں جس سے خاص طور پر غریبوں کےلیے کوئی مشکلات کھڑی نہ ہوں
اوپر آپ نے ضروریات زندگی کا نام لیا اور پھر فریج کو بھی ضروریات زندگی میں شامل کردیا۔میرے بھائی پہلی بات فریج ضروریات زندگی میں شامل نہیں۔ضروریات زندگی میں ایسی چیز آتی ہیں جن کے بغیر آدمی کی زندگی ہی عذاب بن جائے۔(مثلاً کھانا پکانا وکھانا کھانے کا ضروری سامان، سونے بیٹھنے کےلیے جگہ کا نہ ہونا وغیرہ) اس طرح کی چیزوں کو سہولیات زندگی کا نام تو دیا جاسکتا ہے لیکن ضروریات زندگی کانام نہیں۔
اور دوسرا یہ کہ آپ کی ہی بات کہ محبت اور خوشی کے عوض میں میں نے کہا تھا کہ یوں کرلیا جائے تو خیر کا پہلو زیادہ ہے۔ اگر لڑکے والے لڑکی کے والدین کی طرف سے محبت اور خوشی میں دیے جانے والے سامان کے بارے میں یہ سوچ رکھ بیٹھیں تو پھر لڑکی کے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کو ایک ٹکہ تک بھی نہ دیں
یہی تو بات ہے عزیز بھائی کہ معاشرہ کی نظروں میں یہ بات بالکل آنی ہی نہیں چاہیے کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو یہ کچھ دیا ہے۔ ورنہ لوگ جو دیکھیں گے وہی سمجھیں گے۔ اچھا آپ مجھے بتائیں کہ کسی سلفی العقیدہ آدمی کا کسی دربار کے پاس جا کر جانور وغیرہ اللہ تعالی کےلیے ذبح کرنا درست عمل ہے؟
نہیں !
کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا چاہے اس کی نیت خالص اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کی ہے لیکن دیکھنے والے کیا سوچیں گے ؟ اس لیے ہر وہ کام جو بذات خود درست اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو لیکن عوام الناس پر اس کا اثر غلط طور پھیلنے کا خدشہ ہو تو اس کام سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔۔واللہ اعلم
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کے شروروفتنے سے محفوظ رکھے آمین
آمین یا رب العالمین
جزاک اللہ خیرا