السلام علیکم،
چچا عادل سہیل حفظہ اللہ نے جہیز کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:
" شادی کے وقت بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ شادی کے بعد بہن یا بیٹی کی رخصتی کے وقت اس کو دنیاوی مال اور سامان وغیرہ میں سے کچھ دینا ، جسے ہمارے معاشرے میں """جہیز """ کہا جاتا ہے ، محض ہماری معاشرتی عادت نہیں ، جیسا کہ ہمارے کچھ بھائی مختلف فلسفوں کا شکار ہو کر دینی دنیاوی ، معاشرتی اُخروی معاملات میں فرق روا نہیں رکھتے ، اللہ ہم سب پر حق واضح کرے اور اس کو قبول کرنے کی ہمت عطا فرمائے ،
بھائی علی عمران ، اب ہم اس """معاشرتی عادت """ کو دین کے روشنی میں سمجھتے ہیں ، کسی بھی عمل کو جائز یا نا جائز قرار دینے کے لیے ہمیں اللہ ، یا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا کوئی حکم درکار ہے ، عادات کے امت کے اماموں اور علماء کا یہ قانون ہے کہ """ العادات اصل فیھا الاباحیۃ ::: عادات کا بنیادی حکم جائز ہونا ہے ::: اِلا ما نَھیٰ عنھا اللہ و رسولہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ::: سوائے اس کے جس سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہو """ اور بھائی علی عمران ، ممانعت کا حکم کئی صیغوں اور انداز میں پایا جاتا ہے ،
بہرحال ، وہ عادات جن پر ممانعت وارد نہیں جائز ہیں ان عادات کی تکمیل میں ادا کیے گئے ہر ایک فعل کو دیکھا جائے گا جہاں تک کوئی کام کسی شرعی ممانعت میں داخل نہیں ہوتا اسے ناجائز نہیں کہا جائے گا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں چار چیزیں عنایت فرمائیں ، جیسا کہ صحیح احادیث میں ملتا ہے کہ (((
أَنَّ رَسُولَ صلى اللَّهِ عليه وسلم لَمَّا زَوَّجَهُ فَاطِمَةَ بَعَثَ مَعَهَا بِخَمِيلَةٍ وَوِسَادَةٍ من آدم حَشْوُهَا لِيفٌ وَرَحَيَيْنِ وَسِقَاءٍ وَجَرَّتَيْنِ :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کیا تو ان کے ساتھ ایک مخملی کپڑا (چادر یا پہننے کا )اور تکیہ جس پر پتوں کی رگوں کا غلاف تھا اور دو چکییاں (یعنی دو پاٹ والی چکی ) اور دو چھوٹے مشکیزے بھیجے ))) مسند احمد ، الاحادیث المختارہ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اس عمل مبارک کی روشنی میں جہیز دینا کوئی """ مقامی کلچر """ نہیں رہتا ، بلکہ اسلامی شریعت میں ایک جائز کام قرار پاتا ہے ، اسے """ کسی معاشرے کا مقامی کلچر""" قرار دینا یا کہنا درست نہیں ، اور نہ ہی اسے یکسر ناجائز کہا جا سکتا جب تک کہ اس کام کی کیفیت میں کوئی اور ناجائز یا حرام کام شامل نہ ہو جائے ، مثلا جہیز ، اگر حرام مال سے دیا جائے ، یا ، اپنی اولاد میں سے دوسروں کا حق مار کر دیا جائے ، یا ، معاملہ فضول خرچی کی حدود میں داخل ہو جائے ، یا بلا ضرورت دیا جائے ، تو یقینا ایسی صورت میں نا جائز ہو گا ،
رہا معاملہ سنت ہونے کا تو
یہ کہنا کئی طور پر درست نہیں کہ یہ سنت ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی دو بیٹیاں رضی اللہ عنہما جنہیں عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دیا تھا ، کو جہیز دیا اس کی کوئی روایت نہیں ملتی ، فاطمہ رضی اللہ عنھا کو دینا ضرورت تھی کیونکہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس گھر کے سامان میں کچھ نہ تھا جیسا کہ خود ان کا فرمان ہے جو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ((( جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے میرے ساتھ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح فرمایا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سےعرض کیا """ یا رسول اللہ أِبتنی ::: اے اللہ کے رسول مجھے میری بیوی کے پاس جانے کی اجازت دیجیے """ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا """
عندك شيء تعطيها ::: تمہارے پاس اسے (مہر میں ) دینے کے لیے کچھ ہے ؟ """ میں نے عرض کیا """ لا ::: جی نہیں """ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا """
أين درعك الحطمية ::: تمہاری حطمیہ درع کہاں ہے ؟ """ میں نے عرض کیا """ عندی ::: میری پاس ہے """ تو فرمایا """ وہ اسے (مہر میں )دے دو """ )))
یہ مندرجہ بالا حدیث ، الاحادیث المختارہ /حدیث 610 /جلد 2 / صفحہ 231 ، مطبوعہ مکتبہ النھضہ الحدیثہ ، میں ہے ، اور مختلف الفاظ اور صحیح اسناد کے ساتھ مندرجہ ذیل کتب میں بھی ہے ، التعلیقات الحِسان علی صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان/حدیث 6906 /کتاب 60 أخبارہ صلی اللہ علی وعلی آلہ وسلم عن مناقب الصحابہ / ذکر ما أعطی علی رضی اللہ عنہ فی صداق فاطمہ رضی اللہ عنھا ، مطبوعہ دار باوزیر /جدہ /السعودیہ ، سنن النسائی / حدیث 3375 کتاب النکاح / باب 60 ، جز 6 داخل جلد 3 ، مطبوعہ دار المعرفہ ، بیروت ، لبنان ، عون المعبود شرح سنن ابی داود / حدیث 2126 / کتاب النکاح / باب 36 ، مطبوعہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان ، سنن البیہقی الکبریٰ / مسند ابی یعلی / حدیث 2433 / مسند ابن عباس کی روایت 110 ، جلد 3 ، صفحہ 43 ، مطبوعہ دار القبلہ ، جدہ ، السعودیہ ، مسند احمد / حدیث 603 / مسند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث 41 ،جلد اول ، مطبوعہ عالم الکتب ، بیروت ، لبنان ، اور دیگر کتب احادیث میں صحیح اسناد کے ساتھ موجود ہے ، اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنھا کو ضرورت کی جو چار چیزیں دی تھیں ان کی وجہ """معاشرتی عادت """ تھی نہ یہ """ کسی مقامی کلچر """ کی وجہ سے تھا ،بلکہ ضرورت تھی ، پس اسے سنت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ،
اور یہ بھی پتہ چلا کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عملی اجازت کی بنا پر جہیز دینے کو یکسر ناجائز بھی نہیں کہا جا سکتا ،
اور یہ بھی پتہ چلا کہ ، أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کی اپنی درع شادی کی تیاری کے لییے نہیں فروخت کی تھی بلکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حکم کے مطابق بطور مہر دی تھی ،
اور یہ بھی پتہ چلا کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُس درع کی قیمت سے سامان خرید کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نہیں دیا تھا ،
فاطمہ رضی اللہ عنھا کو جو سامان دیا گیا اس کے انتظام یا مہیا کرنے کے بارے میں امام ابن سعد کی طبقات الکبریٰ میں ایک روایت ہے جس میں علی رضی اللہ کی سواری کا جانور فروخت کرنے کا ذکر ہے اور اس کی قیمت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے تقسیم کیا گیا کہ دوتہائی کو ولیمے کے استعمال ہو اور ایک تہائی کو سامان ضرورت کے لیے ، لیکن علی بھائی مجھے فی الوقت اس روایت کی صحت کا اندازہ نہیں اس لیے میں اس کو اپنی بات کا حصہ نہیں بنا رہا ، صرف معلومات کے لیے ذکر کر رہا ہوں ،
اگر یہ روایت صحیح ہو تو معاملہ مرد حضرات کے لیے اور زیادہ سخت ہو جاتا ہے کہ وہ لڑکی والوں کو سامان کی تیاری کے لیے مال فراہم کریں نہ کہ ان سے مانگیں ،
یہ معاملہ تو جہیز دینے والے کے لیے ہوا ، اور لینے والے کے لیے خود سے سوال کر کے یا فرمائش کر کے جیسا کہ اب ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے جائز نہیں ، کیونکہ یہ اکثر اوقات ظلم میں شامل ہوتا ہے ، اور دوسری طرف اسلام میں عورت کو اس کی طلب کے مطابق مہر ادا کرنے کا حکم ہے نہ کہ عورت یا وارثین سے مال لینے کا ، یہ غیر اسلامی طریقہ ہے اور غیر ملسموں کی نقالی جائز نہیں ، خاص طور پر ان کی عادات اپنانے کی اجازت نہیں ، اگر میں اس موضوع پر بات کروں تو بات کافی طویل ہو جائے گی ، لیکن اگر آپ جاننا چاہیں تو ان شاء اللہ تعالی کسی اور وقت اس کی تفصیل بیان کردوں گا ،
اب اگر کوئی خود سے اپنی بہن یا بیٹی یا کسی بھی اور کو اس کی شادی و رخصتی پر جائز حدود میں رہتے ہوئے کچھ دیتا ہے تو مرد کے لیے وہ لینا جائز ہے ۔"
حوالہ:
جہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ - پاکستان کی آواز