• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرد کا قابل ستر حصہ

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
چنانچہ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپﷺ کا یہ فرمان سن کر حضرت ابو بکر نے کہا۔۔۔یا رسول اللہ ٰ! میری چادر کا ایک کنارہ لٹک جاتا ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خیال رکھوں تو آپﷺ نے فرمایا
انک لست ممن یصنعہ خیلاءا
تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو یہ کام تکبر سے کرتے ہیں


حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے
کان ابو بکر احنی لا یستمسک ازارہ یسترخی عن حقویہ
ابو بکر کا قد جھکا ہوا تھا ۔۔۔اپنی چادر تھام نہیں سکتے تھے۔۔وہ ان کے کولہوں سے ڈھلک جاتی
اولا: اس سے آپ کا استدلال سمجھ سے باہر ہے. ذرا حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیں. ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا کہا تھا؟
يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَحَدَ شِقَّيْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي (صحیح بخاری: 5784)
ترجمہ: یا رسول اللہ! میرے تہمد کا ایک حصہ کبھی لٹک جاتا ہے
آپ دیکھیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میرا ازار لٹک جاتا ہے. یہ نہیں کہا کہ میں لٹکا لیتا ہوں. اس حدیث میں الفاظ ہیں استرخی نا کہ ارخی.
اور اگر آپ حدیث کے ٹکڑے لَسْتَ مِمَّنْ يَصْنَعُهُ خُيَلَاءَ سے یہ کہنا چاہیں کہ یہ تکبر نہیں تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میرا ازار لٹک جاتا ہے. لہذا اگر کوئی ازار لٹکاتا ہے تو وہ تکبر ہی ٹھہرا.
ثانیا: یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل میں ذکر کی ہے. اور اسمیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تزکیہ ہے.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم
نص صریح ہے ۔ مفہوم حدیث"میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا ، ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو" ۔ آپ اس کو اس کے عموم پر رکھیں گے اور اس کا حکم عام ہوگا۔جو ایک دوسرے کی گردنیں مارے وہ گمراہ ہے۔
اب آپ خلط مبحث کر رہے ہیں.
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
اخبرنا قتيبة بن سعيد، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا الليث، ‏‏‏‏‏‏عن نافع. ح وانبانا إسماعيل بن مسعود، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا بشر، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا عبيد الله، ‏‏‏‏‏‏عن نافع، ‏‏‏‏‏‏عن عبد الله، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "من جر ثوبه،‏‏‏‏ او قال:‏‏‏‏ إن الذي يجر ثوبه من الخيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے تکبر (گھمنڈ) سے اپنا کپڑا (ٹخنے سے نیچے) لٹکایا (یا یوں فرمایا: جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا لٹکاتا ہے) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔

اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا خالد، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا شعبة، ‏‏‏‏‏‏عن محارب، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سمعت ابن عمر يحدث، ‏‏‏‏‏‏ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ "من جر ثوبه من مخيلة،‏‏‏‏ فإن الله عز وجل لم ينظر إليه يوم القيامة".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے (ٹخنے سے نیچے) اپنا کپڑا
تکبر
سے لٹکایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔

 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
نص کی موجودگی میں آپ قیاس کر رہے ہیں؟؟؟ صریح نص ہے جس میں ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے کو ہی تکبر کہا گیا ہے. نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ ؛ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ (ابو داؤد: 4084 وقال الشيخ الألباني: صحيح)
ترجمہ: اور تہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ غرور و تکبر کی بات ہے، اور اللہ غرور پسند نہیں کرتا.

آپ کو خواتین کا استثناء تو نظر آ رہا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا واضح فرمان نظر نہیں آرہا.
آپ کہتے ہیں کہ صرف کپڑا لٹکانا باعث عذاب نہیں ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ ٹخنے سے نیچے کپڑے کا جو بھی حصہ ہوگا وہ آگ میں جائے گا:
مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ (صحیح بخاری: 5787)
ترجمہ: تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہو گا.

اور اگر اس میں تکبر بھی شامل ہو تو اللہ اسکی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا. نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ مَخِيلَةً لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (صحیح بخاری: 5791)
ترجمہ: جو آپ اپنا کپڑا غرور کی وجہ سے گھسیٹتا ہوا چلے گا، قیامت کے دن اس کی طرف اللہ تعالیٰ نظر نہیں کرے گا

جی وقتا فوقتاً مشاہدات ہوتے رہتے ہیں.

اسکے لئے میں نے کہا تھا کہ کسی عربی لغت کے ماہر سے پوچھیں. خیر ازار کی تعریف لسان العرب وغیرہ میں بایں الفاظ ہے:
هو الإرخاء والإرسال من غير تقيد
لہذا شلوار وغیرہ اس میں شامل ہے.

یہی حیلہ مسلمانوں نے اپنا کر اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اڑا دیں. کیا عجیب لاجک پیش کیا ہے آپ نے.
کل کوئی غیر مسلم کہے گا کہ تصویر بنانے سے کیسے کسی کو سخت عذاب ہو سکتا ہے تو کیا تصویر بنانے کو حلال کر دیں گے؟؟؟
کیوں کوئی کہ سکتا ہے نا کہ بس تصویر بنانے پر اتنا سخت عذاب کیسے؟؟؟
فی الحال یہی مثال ذہن میں آئی ورنہ اسکے علاوہ بھی مثالیں موجود ہیں.
اس لئے نص صریح کے بعد لاجیکل باتیں نہ کریں.
تصویر کا حکم بھی تبدیل ہوگیا ہے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم پھر آپ کی تشریح کے مطابق کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا گناہ
زنا، چوری، جھوٹ ، غیبت سے بھی بڑا ہوا ۔ اگر میں صحیح سمجھا ہوں تو بتائے
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اخبرنا قتيبة بن سعيد، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا الليث، ‏‏‏‏‏‏عن نافع. ح وانبانا إسماعيل بن مسعود، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا بشر، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا عبيد الله، ‏‏‏‏‏‏عن نافع، ‏‏‏‏‏‏عن عبد الله، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "من جر ثوبه،‏‏‏‏ او قال:‏‏‏‏ إن الذي يجر ثوبه من الخيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے تکبر (گھمنڈ) سے اپنا کپڑا (ٹخنے سے نیچے) لٹکایا (یا یوں فرمایا: جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا لٹکاتا ہے) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔

اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا خالد، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حدثنا شعبة، ‏‏‏‏‏‏عن محارب، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سمعت ابن عمر يحدث، ‏‏‏‏‏‏ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ "من جر ثوبه من مخيلة،‏‏‏‏ فإن الله عز وجل لم ينظر إليه يوم القيامة".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے (ٹخنے سے نیچے) اپنا کپڑا
تکبر
سے لٹکایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔
میں نے اس تعلق سے وضاحت کر دی ہے.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
تصویر کا حکم بھی تبدیل ہوگیا ہے۔
آپ غلط فہمی کے شکار ہیں. تصویر کا حکم وہی ہے. شرعیت چودہ سو سال بعد نہیں بدلتی. اور نہ کسی انسان کو یہ اختیار ہے.
ہاں اتنا ضرور ہے کہ علماء کرام نے موبائل سے لی گئی تصاویر میں تفریق کی ہے. اسلئے اسکے جواز کا فتوی ہے. (کئی علماء ایسے بھی ہیں جو ناجائز کہتے ہیں).
اسی طرح پاسپورٹ وغیرہ کے لئے تصویر کے جواز کے فتوے سے تصویر حلال نہیں ٹھہرتی. اسکا حکم وہی ہے یعنی وہ حرام ہی ہے. البتہ اس سے کچھ صورتیں استثناء ہیں.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم پھر آپ کی تشریح کے مطابق کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا گناہ
زنا، چوری، جھوٹ ، غیبت سے بھی بڑا ہوا ۔ اگر میں صحیح سمجھا ہوں تو بتائے
کہاں سے اخذ کیا؟
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
@عمر اثری بھائی

اس لئے ان سب سے بڑا گناہ ہے کہ یہ گناہ جاریہ ہوگا۔ باقی گناہ تو مسلسل نہیں ہوں گے لیکن لازمی امر ہے جس کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہے وہ مسلسل یہ گناہ کر رہا ہے ۔
اس لئے یہ نتیجہ اخذ کیا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
@عمر اثری بھائی

اس لئے ان سب سے بڑا گناہ ہے کہ یہ گناہ جاریہ ہوگا۔ باقی گناہ تو مسلسل نہیں ہوں گے لیکن لازمی امر ہے جس کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہے وہ مسلسل یہ گناہ کر رہا ہے ۔
اس لئے یہ نتیجہ اخذ کیا۔
ٹخنے سے نیچے ازار حرام ہے. اور تکبر کے ساتھ کبیرہ گناہ ہے. ہاں یہ ضرور ہے کہ حرام پر اصرار کرنے سے وہ کبائر میں تبدیل ہو جاتے ہیں.
 
Top