عادتاً شلوار ٹخنوں سے نیچے کرنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طیب فا رو ق بذر یعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ حد یث میں بطور تکبر شلو ار ٹخنو ں سے نیچا کر نے کی مما نعت ہے اگر کو ئی عا دتاً ایسا کرتا ہے تو اس کی کیا حیثیت ہے ؟ نیز اسے کس حد تک اونچا رکھنا چا ہیے جو عورتیں اپنا کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھتی ہیں ان کے متعلق شر یعت کا کیا حکم ہے حدیث میں شلوا ر کے بجا ئے تہبند کا ذکر ہے کیا یہ حکم عا م ہے یا تہبند کے سا تھ خا ص ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلا شبہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعا لٰی اس شخص کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو تکبر اور غرور کر تا ہوا اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکا تا ہے ۔(صحیح بخا ری ؒ:کتا ب اللبا س )
"خیلا ء "کے لفظ سے یہ مطلب نہ لیا جا ئے کہ تکبر کے بغیر عا دت کے طو ر پر ٹخنوں سے کپڑا نیچے کر نا جا ئز ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹخنوں سے نیچے لٹکا نے کو ہی تکبر کی علا مت قرار دیا ہے جو کہ اللہ تعا لیٰ کو پسند نہیں حدیث میں ہے اپنی چا در کو ٹخنوں سے نیچے کر نے سے اجتنا ب کرو کیوں کہ یہ تکبر ہے اور اللہ تعا لیٰ مخلو ق سے تکبر کو پسند نہیں کر تے ۔(ابو داؤد :کتا ب اللبا س )
اس حدیث میں تکبر اور غیر کی بنا پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا کر نے والے کے لیے دو الگ الگ سزاؤں کا بیا ن ہے حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقا م پر بڑی عمدہ بحث کی ہے جو قا بل ملا حظہ ہے ۔(فتح البا ری :10/257)
اس سلسلہ میں حضڑت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روا یت فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے وہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیا ن کر تے ہیں کہ مؤمن کی چا در نصفپنڈلی تک ہو تی ہے پنڈلی اور ٹخنوں کے در میا ن چا در رکھنے میں کو ئی حر ج نہیں ہے اور جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہے وہ آگ کا حصہ ہے اور جس نے تکبر اور غرور کر تے ہو ئے کپڑا نیچے لٹکا یا قیا مت کے دن اللہ تعا لیٰ اسے نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا ،(ابو داؤد :کتا ب اللبا س )
اپنے کپڑے کو اس حد تک اونچا رکھنا چا ہیے اس کے متعلق متعدد احادیث میں نصف پنڈلی تک اونچا رکھنے کی حد مقرر کی گئی ہے چنانچہ کعب احبا ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے او صا ف بیان کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں :" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لو گ حما د یعنی اللہ کی بکثر ت حمدو ثنا کر نے والے ہو ں گے وہ یوں کہ اوپر چڑھتے وقت اللہ اکبر کا نعر ہ بلند کر یں گے اور بیچے اتر تے وقت اللہ کی تعریف کر یں گے اور اپنی چا دروں کو نصف پنڈلی تک رکھیں گے ،(دارمی :1/5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلما ن کی پہچا ن یہی بتلا ئی ہے کہ اس کی
اس و عید سے چا ر صورتیں مستثنیٰ چا در نصف پنڈلی تک رہتی ہے ۔(ابو داؤد )ہیں ۔
(1)کسی کی تو ند بڑھی ہو ئی ہے یا جسم کے نحیف ہو نے کی وجہ سے کمر میں جھکا ؤ ہے کو شش کے با و جو د چا در نیچے ہو جا تی ہے ایسی حا لت میں اگر چا در ٹخنوںسے نیچے ہو جا ئے تو مواخذہ نہیں ہو گا ۔
(2)بعض دفعہ انسا ن گھبرا ہٹ کے عا لم میں اٹھتا ہے اور جلدی جلدی چلتے ہو ئے بے خیا لی میں چا دد ٹخنوں سے نیچے آجا تی ہے اللہ تعا لیٰ سے امید ہے کہ صورت اس سخت و عید کے تحت نہیں ہو گی ۔
(3)ٹخنو ں یا پا ؤں پر زخم ہوا اور اسے ڈھا پنے کے لیے کو ئی اور کپڑا نہ ہو تو مکھیوں اور گر د و غبا ر سے بچا نے کے لیے اپنی چا در کو ٹخنوں سے نیچے کیا جا سکتا ہے ۔
(4)عورتیں بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں چنانچہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سخت و عید سنا ئی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا ل کر نے پر آپ نے وضا حت فر ما ئی کہ عورتیں ایک ہا تھ تک کپڑا نیچے لٹکا سکتی ہیں
(ترمذی :ابوا ب اللبا س )
اگر عورت اس کے با و جو د اپنا کپڑا اوپر رکھتی ہے جس سے قا بل ستر حصہ ننگا ہو تا ہو تو وہ اللہ کے ہاں بہت بڑے جر م کا ارتکا ب کر تی ہے
یہ سخت و عید صرف چا در کے سا تھ خا ص نہیں ہے بلکہ ہر قسم کے کپڑے سے متعلق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ما ن ہے کہ کپڑا نیچے لٹکا نے کا حکم چا در قمیص اور پگڑی وغیرہ کے لیے عا م ہے ۔ (ابو داؤد : کتا ب اللبا س )
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم چا در کے متعلق دیا ہے وہی قمیص کے متعلق ہے نیز راوی حدیث حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ محا ر ب بن دثا ر سے دریا فت کیا کہ آپ نے چا در کا ذ کر کیا تھا انہوں نے جوا ب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طو ر پر کپڑے کا ذکر کیا ہے چا در وغیرہ کا خصوصیت کے ساتھ تو ذکر نہیں کیا ،(صحیح بخا ری کتا ب اللبا س )
لہذا شلو ار وغیرہ کے با رہ میں بھی وہی حکم ہے جو چا در اور تہبند کا ہے
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ج1ص470
محدث فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچےلٹکانا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کے بارے میں کیا حکم ہے جب کہ وہ تکبر کی وجہ سے ہو یا بغیر تکبر کے ہواوربچےکو جب اس کے گھر والے مجبورکردیں یا عادت ہی اس طرح ہو تواس کا کیا حکم ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کاحکم یہ ہے کہ مردوں کے لئے کپڑے کوٹخنوں سے نیچے لٹکاناحرام ہے کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایا ہے:
‘‘تہبند کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں ہوگا۔’’ (صحیح بخاری) اورصحیح مسلم میں حضرت اابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘‘تین قسم کے آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی روزقیامت نہ کلام فرمائے گا،نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گااورنہ انہیں پاک کرے گااوران کےلئے دردناک عذاب ہوگاوہ تین قسم آدمی یہ ہیں (۱) اپنے تہبند کو ( ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا (۲) کوئی چیز دے کر احسان جتلانے والااور (۳) جھوٹی قسم کھاکراپناسودابیچنے والا’’
یہ دونوں اوران کے ہم معنی دیگر احادیث عام ہیں اورسب کو شامل ہیں خواہ کوئی ازراہ تکبر اپنا کپڑا لٹکائے یا کسی اورسبب کی وجہ سے ،کیونکہ نبی ﷺنے یہ حکم عام اورمطلق بیان فرمایاہے اوراسے کسی قید کے ساتھ مقید نہیں کیا اوراگرکپڑا زراہ تکبر ٹخنوں سے نیچے لٹکایاہوتوگناہ اوربھی زیادہ اوروعید اوربھی زیادہ شدید ہے کہ نبی ﷺکا ارشادہے ‘‘جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکائے،اللہ تعالی روزقیامت اس کی طر دیکھے گا نہیں ۔’’یہ گمان کرناجائز نہیں کہ رسول اللہ ﷺنے تکبر کی وجہ سے کپڑے کے لٹکانے سے منع کیا ہے کیونکہ نبی ﷺنے اسے مذکورہ بالادونوں احادیث میں کسی بھی قید کے ساتھ مقید نہیں فرمایاجیساکہ ایک اورحدیث میں بھی اسے مقید نہیں کیا اوروہ یہ کہ آپؐ نے بعض صحابہ سے فرمایاکہ‘‘کپڑے کو نیچے لٹکانے سے بچوکیونکہ یہ تکبر ہے ۔’’تواس میں آپﷺنے کپڑے کونیچے لٹکانے ہی کو تکبر قراردیا،کیونکہ اکثر وبیشترتکبر ہی کی وجہ سے ایسا کیا جاتا ہے،جو شخص ازراہ تکبر نہ لٹکائے تواس کا یہ عمل وسیلہ تکبر ہے اوروسائل کا حکم بھی وہی ہوتا ہے جومقاصد کا ہوتا ہے ،پھر اس میں اسراف بھی ہے اورکپڑا نجاست وگندگی سے آلودہ بھی ہوتا ہے ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب ایک نوجوان کو دیکھا جس کا کپڑازمین پر لگ رہا تھا توآپ نے اس سے فرمایا‘‘اپنا کپڑا زمین سے اونچاکرلو،اس سے رب راضی ہوگااورتمہاراکپڑا پاک صاف رہے گا۔’’
نبیﷺنے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے جو یہ فرمایا،جب انہوں نے یہ عرض کیا یا رسول اللہ!میرا تہبندڈھیلاہوکر لٹک جاتاہےلیکن میں اسےاوپررکھنےکی کوشش کرتاہوں،توآپ نےفرمایا‘‘تم ان لوگوں میں سےنہیں ہوجوتکبرکی وجہ سےایساکرتےہیں۔’’توآپ کی اس سےمرادیہ تھی کہ جس شخص کاکپڑاڈھیلاہوکرلٹک جائےاوروہ کوشش کرکےاسےاورپراٹھالےتواس کاشماران لوگوں میں سےنہیں ہوگاجوازراہ تکبراپنےکپڑےنیچےلٹکاتےہیں کیونکہ اس نےاپنےکپڑےکوخودنیچےنہیں لٹکایابلکہ کپڑاخودبخودڈھیلاہوکرلٹک گیااوراس نےاسےاوپراٹھالیاتوبےشک اس طرح کاشخص معذورہے۔
جوشخص جان بوجھ کراپنےکپڑےکوٹخنوں سےنیچےلٹکائےخواہ وہ عباہویاشلوار،قمیص ہویاتہبند،وہ اس وعیدمیں داخل ہےاوروہ اپنےکپڑوں کونیچےلٹکانےکی وجہ سےمعذورنہیں ہےکیونکہ وہ احادیث صحیحہ جوکپڑوں کونیچےلٹکانےسےمنع کرتی ہیں وہ اپنےمنطوق،معنی اورمقاصدکےاعتبارسےعام ہیں لہٰذاہرمسلمان پرواجب ہےکہ وہ اپنےکپڑےکوٹخنوں سےنیچےلٹکانےسےپرہیزکرے،اللہ تعالیٰ سےڈرےاورکپڑےکوٹخنوں سےنیچےنہ ہونےدےتاکہ ان احادیث پرعمل کرکےاللہ تعالیٰ کےغضب وعقاب سےمحفوظ رہ سکے۔والله ولي التوفيق_
صفحہ 392
محدث فتویٰ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تکبر کے بغیر کپڑا نیچے لٹکانے کا حکم اور ۔۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تکبر کی وجہ سے یا بغیر تکبر کے کپڑا لٹکانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور اگر کوئی انسان اس کے لیے مجبور ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے' خواہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے اسے گھر والے مجبور کریں یا یہ عادت بن چکی ہو؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کا حکم یہ ہے کہ مردوں کے لیے ایسا کرنا حرام ہے'کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((مااسفل من الكعبين من الازار فهو في النار )) (صحيح البخاري ‘اللباس‘باب ما اسفل من الكعبين فغو في النار‘ ح: ٥٧٨٧ )
تہ بند کاجو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں جائے گا۔"
اسےامام بخاری ؒ نے اپنی "صحیح " میں روایت کیا ہے اورامام مسلم ؒ نے اپنی "صحیح " میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا :
((ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة‘ولا ينظر اليهم ّولا يزكيهم ّولهم عذاب اليم المسبل (ازاره) والمنان ‘والمنفق سلعته بالحلف الكاذب ))(صحيح مسلم‘ الايمان ‘باب غلظ تحريم اسبال الازار المن بالعطية___الخ‘ ح : ١-٦)
"تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ کلام فرمائے گا'نہ ان کی طرف(نظر رحمت سے) دیکھے گا' نہ انہیں پاک کرےگا اورا ن کے لیے دردناک عذاب ہوگا (1) کپڑے کو لٹکانے والا (2)احسان جتلانے والا اور(3) جھوٹی قسم کے ساتھ اپنے سودے بیچنے والا۔"
یہ دونوں حدیثیں اور ان کے ہم معنی دیگر احادیث عام ہیں اور یہ ہر اس شخص کئے لیے ہیں۔
جو اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکائے "خواہ تکبر کی وجہ سے یا بغیر تکبر کے کیونکہ نبی ﷺ نے ان احادیث کو عام اور مطلق بیان فرمایا ہے'انہیں مقید بیان نہیں فرمایا 'لہذا اگر کپڑا ازراہ تکبر لٹکایا گیا ہوتو گناہ زیادہ بڑا اور وعید زیادہ دشوار ہوگی کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
((من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيامة )) (صحيح البخاري ‘اللباس ‘باب من جر ازاره من غير خيلاء‘ ح :٥٧٨٤ وصحيح مسلم باب تحريم جر الثواب خيلاء_____‘ ح :٢-٨٥)
جو شخص ازراہ تکبر کپڑا لٹکائے گا تو قیامت کے دن اس کی طرف ( نظر رحمت سے) دیکھے گا بھی نہیں۔"
یہ گمان کرنا جائز نہیں ہے کہ کپڑا نیچے لٹکانا کی یہ وعید تکبر کے ساتھ مقید ہے' کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ بالا دونوں حدیثوں میں اسے تکبر کے ساتھ مقید نہیں کیا 'جیساکہ دوسری حدیث میں بھی اسے مقید نہیں کای جس میں آپ نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے یہ فرمایا تھا:
((اياك واسبال الازار فانها من المخيلة ) ( سنن ابي داود ‘للباسّ باب ماجاء في اسبال الازارّ ح: ٤-٨٤)
"کپڑے کو نیچے لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ تکبر ہے۔"
اسا حدیث میں آپ نے کپڑے کو نیچے لٹکانے کی تمام صورتوں کو تکبر قرار دیا ہے کیونکہ اکثر وبیشتر صورتوں میں یہ تکبر ہی کی وجہ سے ہوتا ہے اور جس کا مقصد تکبر نہ ہو تو یہ تکبر کا وسیلہ ضرور ہے اور وسائل کا حکم نتائج ہی کا ہوتا ہے اور پھر اس میں اسراف بجی ہے اور اس سے کپڑے بھی میلے اور ناپاک ہوجاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک نوجوان کا کپڑا زمین کو چھورہا ہے تو آپ نے فرمایا :
((ارفع ثوبك‘ فانه لثوبك ‘واتقي لربك)) (صحيح البخاري‘ فضائل اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم باب قصة البيعة والاتفاق علي عثمان بن عفان ‘ ح: ٣٧--)
"اپنے کپڑے کو اونچا رکھو اس سے کپڑا صاف رہے گا اور رب راضٰ ہوجائے گا۔"
حجرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب یہ عرض کیا تھا یارسول اللہ ! میرا تہہ بند لٹک جاتا ہے حالانکہ میں اسے اونچا اٹھائے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو نبی ﷺ نے فرمایا :
((لست ممن يصنعه خيلاء )) (صحيح البخاري ‘للباس ‘باب من جر ازاره من غير خيلاء ‘ ح: ٥٧٨٤ وسننن ابي داود‘ ح: ٤-٨٥)
"آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو ازراہ تکبر ایسا کرتے ہیں۔" تو رسول اللہ ﷺ کی اس سے منراد یہ ہے کہ جو شخص اپنے لٹکے ہوئے کپڑوں کو اونچا اٹھالے تو وہ ان میں سے نہیں ہے' جو ازراہ تکبر اپنے کپڑے لٹکاتے ہیں' کیونکہ اس نے انہیں خود نہیں لٹکایا بلکہپ جب کپڑا لٹک جاتا تو وہ اسے اٹھا لیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ نہ لٹکے اور بلا شبہ ایساشخص معذور ہے ۔ لیکن جو شخص قصڈ وارادہ سے اپنے کپڑے لٹکائے 'خواہ وہ پاجامہ ہو یا شلوار یا ازار یا قمیص' تو وہ اس وعید میں شامل ہے اور کپڑے لٹکانے کا سلسلہ میں معذور نہیں ہے' کیونکہ کپڑا لٹکانے کی یہ صحیح احادیث اپنے منطوق' معنی اور قصد کے اعتبار سے عام ہیں۔ لہذا ہر مسلمان کے لیے واجب ہے کہ وہ کپڑے لٹکانے سے اجتناب کرےاللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اپنے کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے نہ لٹکائے تاکہ صحیح احادیث پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب سے بچ جائے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ج4ص259
محدث فتویٰ