• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرض وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کا واقعہ / یعنی واقعہ قرطاس

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بعض نے صحابہ نے اس کو استفہام پر لیا اور بعض نے خبر کے طور پر اس کو اس طرح رد نہیں کیا جا سکتا
میں اسے مغالطہ کہوں ،یا جہالت کا کرشمہ ؟
کون سے بعض ادھر کے ؟
اور کون سے بعض ادھر کے ؟
یہ ایک ہی حدیث ہے جو کئی طرق سے نقل کی گئی ہے ۔
اس کے مکمل متن والے طریق میں ۔۔جو صحیح مسلم ۔۔اور دیگر کئی کتب میں موجود ہے ۔استفہام موجود ہے ،جو ہم پیش کر چکے ۔
آپ کو نبی کریم ﷺ سے کیا دشمنی ہے جو بہرحال انہیں ۔۔ہذیان ۔۔میں مبتلا ثابت کرنے پر تلے ہیں ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
پتا نہیں عربی کے اسباق کس نے اپ کو پڑھائے تھے لیکن اپ کی سادگی ہے یا پر کاری ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کے الفاظ کا ترجمہ کرنے کے بجاے اپ مخاطب کی طرف قاری کو کیوں لے جا رہے ہیں

أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا

کا آپ کا ترجمہ غلط ہے
کاش آپ نے قرآن حکیم پڑھا ہوتا ،تو یہ اعتراض نہ کرتے ‘‘
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ‘‘
وقال مفسر الكلام :
(وَما كُنْتَ) يا محمد (تَتْلُوا) يعني: تقرأ (مِنْ قَبْلِهِ) يعني: من قبل هذا الكتاب الذي أنزلته إليك (مِنْ كِتَابٍ وَلا تخُطُّهُ بِيَمِينِكَ) يقول: ولم تكن تكتب بيمينك، ولكنك كنت أمِّيًّا ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791

لکھنوی مقلد کا کہنا ہے :کہ
سفیان بن عیینہ بھی اس لفظ کو ہذیان کہہ رہے ہیں
میں صدقے اس فہم کے !
سفیان ؒ اسکو ۔۔ہذیان ۔۔نہیں کہہ رہے ،وہ تو صرف یہ بتا رہے ہیں ۔۔أهجر ۔۔میں (ھجر ) سے مراد (هذى )ہے ،اور جملہ ہے ’’أهذى ‘‘ اور یہی بات ہم پہلے بھی بتا چکے
ہیں ،
روایت کا متن دوبارہ دیکھ لیں ،اور حدیث کے کسی عالم پوچھ لیجیئے ۔کہ ہمارا ترجمہ یا مطلب درست ہے یا نہیں !
قال ابن عباس: يوم الخميس، وما يوم الخميس؟، ثم بكى حتى بل دمعه - وقال مرة: دموعه - الحصى، قلنا: يا أبا العباس: وما يوم الخميس؟ قال: اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه، فقال: " ائتوني أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده أبدا، فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع " فقالوا: ما شأنه أهجر - قال سفيان: يعني هذى - استفهموه، فذهبوا يعيدون عليه، فقال: " دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه "
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کاش آپ نے قرآن حکیم پڑھا ہوتا ،تو یہ اعتراض نہ کرتے ‘‘
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ‘‘
وقال مفسر الكلام :
(وَما كُنْتَ) يا محمد (تَتْلُوا) يعني: تقرأ (مِنْ قَبْلِهِ) يعني: من قبل هذا الكتاب الذي أنزلته إليك (مِنْ كِتَابٍ وَلا تخُطُّهُ بِيَمِينِكَ) يقول: ولم تكن تكتب بيمينك، ولكنك كنت أمِّيًّا ‘‘
تو کیا نبی امی نہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

لکھنوی مقلد کا کہنا ہے :کہ
میں صدقے اس فہم کے !
سفیان ؒ اسکو ۔۔ہذیان ۔۔نہیں کہہ رہے ،وہ تو صرف یہ بتا رہے ہیں ۔۔أهجر ۔۔میں (ھجر ) سے مراد (هذى )ہے ،اور جملہ ہے ’’أهذى ‘‘ اور یہی بات ہم پہلے بھی بتا چکے
ہیں ،
روایت کا متن دوبارہ دیکھ لیں ،اور حدیث کے کسی عالم پوچھ لیجیئے ۔کہ ہمارا ترجمہ یا مطلب درست ہے یا نہیں !
قال ابن عباس: يوم الخميس، وما يوم الخميس؟، ثم بكى حتى بل دمعه - وقال مرة: دموعه - الحصى، قلنا: يا أبا العباس: وما يوم الخميس؟ قال: اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه، فقال: " ائتوني أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده أبدا، فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع " فقالوا: ما شأنه أهجر - قال سفيان: يعني هذى - استفهموه، فذهبوا يعيدون عليه، فقال: " دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه "

استفہام انکاری والی رائے بھی اسی صورت میں صحیح بنتی ہے جب کسی نے اس کے خلاف کہا ہو اور لکھوانے سے منع کیا ہو
آپ خود دیکھیں آپ ترجمہ تبدیل کریں اور پھر اس میں اپنی استفہام انکاری رائے کو ڈالیں تو وہ بھی اسی صورت فٹ بیٹھی گی اگر اس کے خلاف اس وقت کہا گیا ہو
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
کاش آپ نے قرآن حکیم پڑھا ہوتا ،تو یہ اعتراض نہ کرتے ‘‘
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ‘‘
وقال مفسر الكلام :
(وَما كُنْتَ) يا محمد (تَتْلُوا) يعني: تقرأ (مِنْ قَبْلِهِ) يعني: من قبل هذا الكتاب الذي أنزلته إليك (مِنْ كِتَابٍ وَلا تخُطُّهُ بِيَمِينِكَ) يقول: ولم تكن تكتب بيمينك، ولكنك كنت أمِّيًّا ‘‘
محترم شیخ

اتنی دقیق بحث عام قاری کے بس سے تو باہر ہے ۔ ہم تو صرف ترجمے والے ہیں ۔ لیکن اتنی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس دن حجرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جو کچھ بھی ہوا وہ اچھا نہیں تھااور اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی اب اس کے ذمہ دار لکھوانے کے حامی تھے یا نہ لکھوانے کے حامی دونوں نے اچھا نہیں کیا۔ جب ہی تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس واقعہ کو یاد کر کے روتے تھے۔ اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ جب شور بڑھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو حجرہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔
7. صحیح بخاری --- کتاب: غزوات کے بیان میں --- باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 4432 --- ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا ، انہیں معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو گھر میں بہت سے صحابہ ؓ موجود تھے ۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لاؤ ، میں تمہارے لیے ایک دستاویز لکھ دوں ، اگر تم اس پر چلتے رہے تو پھر تم گمراہ نہ ہو سکو گے ۔ اس پر (عمر ؓ ) نے کہا کہ نبی کریم ﷺ پر بیماری کی سختی ہو رہی ہے ، تمہارے پاس قرآن موجود ہے ۔ ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے ۔ پھر گھر والوں میں جھگڑا ہونے لگا ، بعض نے تو یہ کہا کہ نبی کریم ﷺ کو کوئی چیز لکھنے کی دے دو کہ اس پر آپ ہدایت لکھوا دیں اور تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو سکو ۔ بعض لوگوں نے اس کے خلاف دوسری رائے پر اصرار کیا ۔ جب شور و غل اور نزاع زیادہ ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہاں سے جاؤ ۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ کہتے تھے کہ مصیبت سب سے بڑی یہ تھی کہ لوگوں نے اختلاف اور شور کر کے آپ ﷺ کو وہ ہدایت نہیں لکھنے دی ۔
 
Top