• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرنے کے بعد روحوں کا مسکن

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
پھر یہاں پر بحث کس بات کی - میرے بھائی میں نے کب قبر کے عذاب سے انکار کیا - ہماری بات نقطے پر اٹکی ہوئی ہے - وہ بھی انشاءاللہ جلدی ھل ہو جا ے گا -

باقی آپ لوگ فتویٰ پر فتویٰ لگا رہے ہیں - میں کچھ کہنا چاہوں گا - اگر آپ لوگ اجازت دیں تو -
کیا آپ دینا میں جو قبر بنتی ہے اس میں عذاب قبر کو مانتے ہیں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
  • حدیث میں میت کے اٹھا کر بٹھانے کا جو ذکر ہے اسے ہم بے شک و شبہہ تسلیم کرتے ہیں لیکن بٹھانے سے دنیا کی طرح بٹھانا مراد نہیں جس کا ہم مشاہدہ کر سکیں البتہ یہ طے ہے جسم سے یہی دنیوی جسم مراد ہے؛اصل بات یہ ہے کہ ان معاملات کو دنیا کی مانند سمجھنے کی کوشش کرنا اور سمجھ نہ آنے پر انکار کر دینا ضلالت ،حماقت اور جہالت ہے۔
  • یہ سب کچھ عالم برزخ میں ہوتا ہے اسے سب تسلیم کرتے ہیں؛ہم نے کب کہا ہے کہ یہ عالم دنیا میں ہوتا ہے لیکن آپ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ موجودہ دنیوی جسم اس سارے معاملے میں سرے سے شریک ہی نہیں،یہ بالکل غلط ہے؛جب احادیث میں اسی قبر اور جسم کا تذکرہ ہے اور کسی علاحدہ برزخی قبر یا جسم کی تصریح نہیں تو اس کا نکار کیوں؟؟مسئلہ پھر وہی کہ آپ مشاہدہ کو دلیل بناتے ہیں جب کہ اخبار غیب کو مشاہدہ کی بنا پر رد یا ان کی تاویل نہیں کی جاسکتی؛اتنی واضح بات آپ سمجھ نہیں رہے۔
  • ایک قبر میں اگر دس افراد بھی ہوں تو بھی یہی قبر مراد ہے اور یہیں سوال و جواب ہوتے ہیں؛اس میں کیا مسئلہ ہے؟
  • یہاں آپ پھر اسے دنیا پر قیاس کر رہے ہیں حالاں کہ جسم دنیوی ہونے کے باوجود معاملہ بالکل دنیوی نہیں۔
  • آپ نے ابن حجر کی عبارت کو سمجھنے میں فاش غلطی کی ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ خود علم نہیں رکھتے عربی کا بل کہ کہیں اور سے نقل کرتے ہیں لیکن ڈٹے ہوئے ہیں ایک غلط بات پر؛ابن حجر کی عبارت میں ضمیر فرشتوں کی طرف کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اس سے پہلے فرشتوں کا ذکر ہی نہیں بل کہ ذھب اصحابہ کے الفاظ ہیں کہ اس کے ساتھی پلٹتے ہیں جن کے جوتوں کی آواز وہ سنتا ہے فرشتے تو آتے ہی بعد میں ہیں اور وہ بھی دو:ملکان ،ان کے لیے جمع کی ضمیر کیسے آسکتی ہے؟؟آپ نے تو لٹیا ہی ڈبو دی میرے دوست،خدا جانے کس جاہل نے آپ کو یہ سبق پڑھایا ہے۔
  • اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے بے علم لوگ گم رہی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں
  • ورنہ اس مسئلے میں سرے سے کوئی اشکال ہی نہیں؛اہل سنت تمام متفق ہیں اس بات پر کہ قبر زمینی ہے ،جسم دنیوی ہے اور عذاب و ثواب دونوں کو ہوتا ہے۔
السلام علیکم و رحمت الله -

محترم - ذرا اس حدیث نبوی کو بھی پڑھ لیں -

بَابٌ : كَلاَمُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِقَتْلَى بَدْرٍ بَعْدَ مَوْتِهِمْ
جنگ بدر کے مردار کافروں سے ان کے مرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے متعلق

(1160) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلاَثًا ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ ،يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ ، يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ ، يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا فَسَمِعَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَوْلَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! كَيْفَ يَسْمَعُوا وَ أَنَّى يُجِيبُوا وَ قَدْ جَيَّفُوا قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَ لَكِنَّهُمْ لاَ يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا:’’ اے ابوجہل بن ہشام، اے امیہ ابن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچا پا لیا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پا لیا۔‘‘سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا سنا، تو عرض کی کہ یا رسول اللہ ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ (یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ وہ مردود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن رہے تھے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں کھینچ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔

اپر دی گئی حدیث نبوی سے یہ واضح ہے کہ مقتولین بدر کا سننا ایک معجزہ نبی تھا - اور اس پر پر تمام اہل سنّت اس بات پر متفق ہیں کہ مقتولین بدر کا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا خطاب سننا ایک معجزہ تھا اور معجزہ ایک حرق عادت فعل ہوتا ہے -

اب اگر مردہ کا سننے کو ہم عمومی تسلیم کر لیں تو پھر نبی کریم صل الله علیه`علیہ و آ له وسلم کا بدر کے مقتولین سے خطاب معجزہ تسلیم نہیں کیا سکتا - بلکہ یہ ایک عام فعل تصور کیا جائے گا ؟؟؟

اور اگر اپر دی گئی `صحیح حدیث کے مطابق نبی کریم صل الله علیہ و آلہ وسلم کا مقتولین بدر سے خطاب ایک معجزہ تھا (جس کو تمام امّت مسلمہ تسیلم کرتی ہے ممکن ہے آپ سمیت) تو پھر یہ صاف ظاہر ہے کہ مردہ کا سننا عمومی نہیں -

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یہاں مردہ سے مراد انسانی مردہ جسم ہے جس سے آپ زبردستی روح کا تعلق جوڑ رہے ہیں - ظاہر ہے کہ یہ جسم بے حس حرکت قبر میں ہوتے ہیں- تبھی تو صحابہ کرام نے حیرت سے نبی کریم سے پوچھا تھا کہ "یا رسول اللہ ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے۔"

اگر یہ معامله عمومی ہوتا تو صحابہ کرام بشمول حضرت عمر رضی الله عنہ کو اس قسم کا سوال نبی کریم سے کرنے کی کیوں ضرورت پیش آتی؟؟ -

آپ کے جواب کا منتظر ہوں -
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
السلام علیکم و رحمت الله -

محترم - ذرا اس حدیث نبوی کو بھی پڑھ لیں -

بَابٌ : كَلاَمُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِقَتْلَى بَدْرٍ بَعْدَ مَوْتِهِمْ
جنگ بدر کے مردار کافروں سے ان کے مرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے متعلق

(1160) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلاَثًا ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ ،يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ ، يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ ، يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا فَسَمِعَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَوْلَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! كَيْفَ يَسْمَعُوا وَ أَنَّى يُجِيبُوا وَ قَدْ جَيَّفُوا قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَ لَكِنَّهُمْ لاَ يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا:’’ اے ابوجہل بن ہشام، اے امیہ ابن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچا پا لیا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پا لیا۔‘‘سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا سنا، تو عرض کی کہ یا رسول اللہ ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ (یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ وہ مردود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن رہے تھے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں کھینچ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔

اپر دی گئی حدیث نبوی سے یہ واضح ہے کہ مقتولین بدر کا سننا ایک معجزہ نبی تھا - اور اس پر پر تمام اہل سنّت اس بات پر متفق ہیں کہ مقتولین بدر کا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا خطاب سننا ایک معجزہ تھا اور معجزہ ایک حرق عادت فعل ہوتا ہے -

اب اگر مردہ کا سننے کو ہم عمومی تسلیم کر لیں تو پھر نبی کریم صل الله علیه`علیہ و آ له وسلم کا بدر کے مقتولین سے خطاب معجزہ تسلیم نہیں کیا سکتا - بلکہ یہ ایک عام فعل تصور کیا جائے گا ؟؟؟

اور اگر اپر دی گئی `صحیح حدیث کے مطابق نبی کریم صل الله علیہ و آلہ وسلم کا مقتولین بدر سے خطاب ایک معجزہ تھا (جس کو تمام امّت مسلمہ تسیلم کرتی ہے ممکن ہے آپ سمیت) تو پھر یہ صاف ظاہر ہے کہ مردہ کا سننا عمومی نہیں -

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یہاں مردہ سے مراد انسانی مردہ جسم ہے جس سے آپ زبردستی روح کا تعلق جوڑ رہے ہیں - ظاہر ہے کہ یہ جسم بے حس حرکت قبر میں ہوتے ہیں- تبھی تو صحابہ کرام نے حیرت سے نبی کریم سے پوچھا تھا کہ "یا رسول اللہ ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے۔"

اگر یہ معامله عمومی ہوتا تو صحابہ کرام بشمول حضرت عمر رضی الله عنہ کو اس قسم کا سوال نبی کریم سے کرنے کی کیوں ضرورت پیش آتی؟؟ -

آپ کے جواب کا منتظر ہوں -
ہم یہ کہتے ہیں کہ جتنا حدیث میں آئے اتنا تسلیم کریں؛قلیب بدر والی حدیث کو آپ معجزہ کہہ کر تسلیم کر لیتے ہیں ہماری گزارش یہ ہے کہ بعد از دفن لوگوں کے جوتوں کی آواز سننے کا ذکر بھی حدیث میں ہے، آپ صرف اتنا ہی مان لیں،اس سے زیادہ حدیث میں نہیں ،نہ ہی ہم کسی سے تقاضا کرتے ہیں، نہ شریعت ہی کا مطالبہ ہے؛بس جتنا حدیث میں آیا ہے ،اتنا ہی ماننا فرض ہے،اس سے کوئی عمومی اصول ہم نے نہیں بنایا،آپ اپنی غلط فہمی دور کر لیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
پھر یہاں پر بحث کس بات کی - میرے بھائی میں نے کب قبر کے عذاب سے انکار کیا - ہماری بات نقطے پر اٹکی ہوئی ہے - وہ بھی انشاءاللہ جلدی ھل ہو جا ے گا -

باقی آپ لوگ فتویٰ پر فتویٰ لگا رہے ہیں - میں کچھ کہنا چاہوں گا - اگر آپ لوگ اجازت دیں تو -
  • بحث اس بات پر ہے کہ دنیوی قبر میں موجود جسم کو عذاب و ثواب ہوتا ہے یا نہیں؟؟
  • اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ہوتا ہے
  • آپ اس کو نہیں مانتے
  • یہ ہے اختلاف۔
  • مزید گزارش ہے کہ اپنا یوزر نیم تبدیل کرلیں؛پی ایچ ڈی اسکالر کو اس طرح کا نام زیب نہیں دیتا(بہ صد معذرت)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا مجبوری اور کیا ڈر ۔خوف ۔جب ( www.therealislam.net )سے سارا ملبہ یا مواد لیا جارہا ہے،اور بڑے اہتمام سے اس فورم کو چینل بناکر نشر کیا جارہا ہے ،تو آنجہانی ڈاکٹر عثمانی کی پارٹی کا لیبل اور برانڈ نیم چھپانے سے فائدہ ؟؟؟
ڈاکٹر مسعودعثمانی کا محبوب مشغلہ تھا کہ وہ سلف امت کو قبر پرست بنا کر پیش کریں ،،صحابہ کرام تک ان کی زبان درازی کی زد میں آئے ،

Azab-e-Barzakh4.jpg
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جدید اسلام کے بانی ڈاکٹر عثمانی بد بخت ۔۔۔۔۔۔کے بقول پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
زندگی کے آخر میں ،یعنی وفات کے دنوں میں ۔معاذ اللہ ۔بحرانی کیفیت میں مبتلا تھے،،

بحرانی کیفیت ۲.jpg
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
لولی صاحب مجھے تو اتنا پتا ہے کہ لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا
اس عقیدے کے سلف میں بھی کوئی داعی تھے؟؟؟؟؟
 
Top