- پھر وہی باتیں دہرا دی گئی ہیں جن کے جوابات بار بار دیے جا چکے ہیں:
- شہید کی تمنا کیا ہے جسے پورا نہیں کیا جاتا؟؟دوبارہ دنیوی زندگی؛کیا عذاب قبر کے قائلین دوبارہ دنیوی زندگی کے قائل ہیں؟؟کس نے دعویٰ کیا ہے یہ؟؟ جب یہ دعویٰ ہی نہیں تو اس حدیث کو پیش کرنے کا فائدہ؟؟
- یہ بھی کسی کا دعویٰ نہیں کہ روح اس دنیا میں واپس آتی ہے جیسا کہ پہلے دنیوی زندگی میں تھی البتہ یہ صحیح حدیث ہے کہ روح سوال و جواب کے وقت مردہ کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے؛اب اس کی کیفیت معلوم نہیں کہ کیسے کیوں کہ بہ ظاہر ہمیں تو محسوس نہیں ہوتا ؛پس اس پر اجمالی ایمان واجب ہے جیسے اور جتنا حدیث میں آیا ہے؛اسے آپ کیوں تسلیم نہیں کرتے ؟؟شرک کا خطرہ اس سے بالکل نہیں جیسا کہ پہلے وضاحت ہو چکی۔
- مردہ جوتوں کی چاپ کب سنتا ہے؟آپ کہتے ہیں یہ فرشتوں کے آنے یا ان کی واپسی پر سنتا ہے؛سوال یہ ہے کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ یہ فرشتوں کی آواز ہے؟؟کون سی حدیث میں اس کا تذکرہ ہے یا صحابۂ کرامؓ اور سلف صالحین میں سے کس نے یہ تاویل کی ہے؟؟؟
- مجھے کہاں لے جا رہے ہو ؛یہ بات مردہ فرشتوں سے کہتا ہے؟؟اس کی دلیل پیش فرمائیں۔
- معجزے سے عموم اخذ نہیں کیا جا سکتا؛یہ بالکل درست اصول ہے اسی طرح یہ بھی اصول ہے کہ جو امور عقل ،حواس اور مشاہدہ و تجربہ سے ماورا ہوں ان سے متعلقہ نصوص شریعت سے بھی عمومی اصول اخذ نہیں کیے جا سکتے لہٰذا عذاب و ثواب قبر اور جملہ اخروی معاملات سے بھی عمومی اصول اخذ نہیں کیے جا سکتے لہٰذا شرک کا خطرہ نہ رہا؛الحمدللہ آپ کے اپنے اصول کے مطابق ہی مسئلہ حل ہو گیا۔
- اگر آپ فرمائیں کہ نہیں لوگ اس سے غلط استدلال کرتے ہیں تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں کہ لوگ تو معجزات سے بھی غلط استدلال کرتے ہیں ؛اب یہ کوئی عقل مندی نہیں اس اندیشے کے پیش نظر ثابت شدہ امور شریعت کا بھی انکار کر دیا جائے؛والسلام،و اٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
محترم -
حدیث نبوی میں تو یہ بھی ہے کہ مردہ کو اٹھا کر بیٹھا دیا جاتا ہے -کیا آپ اس پر ایمان رکھتے ہیں؟؟؟ میرا سوال ابھی بھی یہ ہے کہ جن لوگوں کی لاشیں زمینی قبر میں دفن نہیں ہوتیں یا بکھر جاتی ہیں یا جانور کھا جاتے ہیں اس حدیث کا حکم ان پر کس طرح لاگو ہوگا؟؟؟ ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ حدیث نبوی کے صحیح مفہوم کے تحت یہ سب کچھ عالم برزخ میں ہوتا ہے -نبی کریم صل نے غزوہ احد میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کو ایک قبر میں دو دو کر کے بھی دفنایا - اب کیا اس زمینی قبر میں بیک وقت دونوں اصحاب کرام سے سوال و جواب ہوے ؟؟
جہاں تک مردہ کی فرشتوں کے جوتوں کی آواز سننے کا تعلق ہے تو خود حدیث کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ ضمیر "فرشتوں " کی طرف ہے - نا کہ جنازہ میں شریک لوگوں کے جوتوں کا ذکر ہو رہا ہے -
حدیث کی اس تشریح کو ابن ہجر عسقلانی نے بخاری کی شرح فتح الباری میں سب سے پہلے ذکر کیا - الفاظ حدیث بھی اس کی تائید کرتے ہیں کیونکہ دفن کرنے والے دفن کر کے جا چکے ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ وقت آجاتا ہے کہ بندہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے الفاظ یہ ہیں: یہ معاملہ عالم برزخ کا ہے -
العبد إذا وضع في قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان
بندہ جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ البتہ سنتا ہے جوتوں کی چاپ کہ دو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں-
اگر اس حدیث کو عام فہم کے طور پر لیا جائے تو صرف اس کا حکم ان لوگوں پر لاگو ہو گا جو اسلامی طریقہ کار کے مطابق دفن ہوتے ہیں - جب کہ دنیا میں مرنے اور دفن ہونے کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں-
جیسے فرعون اور آل فرعون یا نوح علیہ سلام کی قوم کے بدکار لوگ - جن کے جسم تو پانی میں غرق ہوے لیکن وہ اس وقت آگ کے عذاب میں ہیں -