@اسحاق سلفی بھائی
آپ نے یہ کہا -
اصل بات یہ ہے کہ یہ روح کا لوٹایا جانا ایسا نہیں جس سے دنیوی زندگی لازم آئے؛اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں اور اس پر ایمان بہ ہر حال ضروری ہے؛ابن حزمؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن محدثین کے ہاں یہ درست ہے اور اس پر جو اشکالات ابن حزمؒ نے پیش کیے ہیں ان کا جواب ابن قیمؒ نے دیا ہے کتاب الروح میں۔
ابن قیم رحم الله کی کتاب کے بارے میں زبیر علی زئی رحم الله کیا کہ رہے ہیں -
ابن قیم رحم الله نے اپنی کتاب الروح میں جو لکھا ہے - کیا آپ وہ سب مانتے ہیں یا نہیں - آپ نے کہا -
ابن حزمؒ نے پیش کیے ہیں ان کا جواب ابن قیمؒ نے دیا ہے کتاب الروح میں۔
کیا میں یہ کتاب پوری پڑھ سکتا ہوں یا اس میں صرف آپ کا دیا گیا حوالہ پڑھوں -
ذرا ابن قیم رحم الله کی ان باتوں کی وضاحت بھی کر دیں - آپ ماشاءاللہ علم والے ہیں - آپ کی وضاحتوں سے یہاں سب کو فائدہ ہو گا - شکریہ
ابن قیم رحم الله کتاب الروح میں لکھتے ہیں کہ :
فصل وَأما قَول من قَالَ إِن أَرْوَاح الْمُؤمنِينَ فِي عليين فِي السَّمَاء السَّابِعَة وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين فِي الأَرْض السَّابِعَة فَهَذَا قَول قد قَالَه جمَاعَة من السّلف وَالْخلف وَيدل عَلَيْهِ قَول النَّبِي اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى وَقد تقدم حَدِيث أَبى هُرَيْرَة أَن الْمَيِّت إِذا خرجت روحه عر ج بهَا إِلَى السَّمَاء حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل وَتقدم قَول أَبى مُوسَى أَنَّهَا تصعد حَتَّى تَنْتَهِي إِلَى الْعَرْش وَقَول حُذَيْفَة أَنَّهَا مَوْقُوفَة عِنْد الرَّحْمَن وَقَول عبد الله بن عمر إِن هَذِه الْأَرْوَاح عِنْد الله وَتقدم قَول النَّبِي أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء تأوي إِلَى قناديل تَحت الْعَرْش وَتقدم حَدِيث الْبَراء بن عَازِب أَنَّهَا تصعد من سَمَاء إِلَى سَمَاء ويشيعها من كل سَمَاء مقربوها حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة وَفِي لفظ إِلَى السَّمَاء الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل
وَلَكِن هَذَا لَا يدل على استقرارها هُنَاكَ بل يصعد بهَا إِلَى هُنَاكَ للعرض على رَبهَا فَيقْضى فِيهَا أمره وَيكْتب كِتَابه من أهل عليين أَو من أهل سِجِّين ثمَّ تعود إِلَى الْقَبْر للمسألة ثمَّ ترجع إِلَى مقرها الَّتِي أودعت فِيهِ فأرواح الْمُؤمنِينَ فِي عليين بِحَسب مَنَازِلهمْ وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين بِحَسب مَنَازِلهمْ
بیان کہ کہنے والے کا قول بے شک ارواح المومنین عليين میں ساتویں آسمان پر ہیں اور کفّار کی اورح سجین میں ساتویں زمین میں ہیں پس یہ قول ہے جو سلف و خلف نے کہا ہے اور اس پر دلالت کرتا ہے نبی کا قول کہ اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى اور پیش کی ہے ابو ھریرہ کی حدیث کہ جب میت کی روح نکلتی ہے تو وہ آسمان پر چڑھتی ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتی ہے جس پر الله عز وَجل ہے اور پیش کرتے ہیں ابو موسیٰ کا قول کہ وہ اوپر جاتی ہے یہاں تک کہ عرش تک اور حذیفہ کا قول کہ وہ رحمان کے پاس رکی ہوئی ہے اور عبد الله ابن عمر کا قول کہ بے شک یہ ارواح الله کے پاس ہیں اور نبی کا قول ہے کہ شہداء کی ارواح قندیلوں میں عرش رحمان کے نیچے ہیں اور الْبَراء بن عَازِب کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ یہ ارواح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک جاتی ہیں .. یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچتی ہیں جس پر الله عز وَجل ہے
لیکن یہ اس پر دلالت نہیں کرتیں کہ ارواح وہاں روکتی بھی ہیں بلکہ وہ تو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے چڑھتی ہیں پس ان کا فیصلہ ہوتا ہے اور ان کی کتاب اہل عليين یا اہل سجیں میں لکھی جاتی ہے پھر قبر میں لوٹایا جاتا ہے سوال کے لئے پھر لوٹایا جاتا ہے اور انکی جگہ جمع کیا جاتا ہے ، پس ارواح المومنین عليين میں حسب منازل ہوتی ہیں اور کفار کی ارواح سجین میں حسب منازل ہوتی ہیں
روح کا ٹھکانہ کیا ہوتا ہے ابن قیم رحم الله کے نزدیک یہ اہم نہیں بلکہ ابن قیم رحم الله کے مطابق روحیں قبروں میں اتی جاتی رہتی ہیں ، نہ صرف یہ بلکہ نیک لوگوں کی روحیں تو بہت پاور فل ہیں کتاب الروح میں لکھتے ہیں
وَقد رأى رَسُول الله مُوسَى قَائِما يصلى فِي قبر وَرَآهُ فِي السَّمَاء السَّادِسَة وَالسَّابِعَة فإمَّا أَن تكون سريعة الْحَرَكَة والانتقال كلمح الْبَصَر وَإِمَّا أَن يكون الْمُتَّصِل مِنْهَا بالقبر وفنائه بِمَنْزِلَة شُعَاع الشَّمْس وجرمها فِي السَّمَاء وَقد ثَبت أَن روح النَّائِم تصعد حَتَّى تخترق السَّبع الطباق وتسجد لله بَين يَدي الْعَرْش ثمَّ ترد إِلَى جسده فِي أيسر زمَان وَكَذَلِكَ روح الْمَيِّت تصعد بهَا الْمَلَائِكَة حَتَّى تجَاوز السَّمَوَات السَّبع وتقف بَين يَدي الله فتسجد لَهُ وَيقْضى فِيهَا قَضَاء ويريها الْملك مَا أعد الله لَهَا فِي الْجنَّة ثمَّ تهبط فَتشهد غسله وَحمله وَدَفنه وَقد تقدم فِي حَدِيث الْبَراء بن عَازِب أَن النَّفس يصعد بهَا حَتَّى توقف بَين يَدي الله فَيَقُول تَعَالَى اكتبوا كتاب عبدى فِي عليين ثمَّ أعيدوه إِلَى الأَرْض فيعاد إِلَى الْقَبْر وَذَلِكَ فِي مِقْدَار تَجْهِيزه وتكفينه فقد صرح بِهِ فِي حَدِيث ابْن عَبَّاس حَيْثُ قَالَ فيهبطون على قدر فَرَاغه من غسله وأكفانه فَيدْخلُونَ ذَلِك الرّوح بَين جسده وأكفانه
اور بے شک رسول الله نے موسیٰ کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور ان کوچھٹے اور ساتویں آسمان پر بھی دیکھا پس یہ روح سریع الحرکت اور ٹرانسفر ہوتی ہے جیسا کہ پلک جھپکتے میں ہوتا ہے اور یا پھر یہ قبر سے متصل ہوتی ہے جس طرح سورج کی کرن (کہ زمین پر بھی پڑتی ہے) اور آسمان میں بھی ہوتی ہے اور بے شک یہ ثابت ہے کہ سونے والے کی روح آسمان میں چڑھتی ہے اور ساتوں طبق میں جاتی ہے اور الله کو عرش کے سامنے سجدہ کرتی ہے پھر اسکو جسد میں لوٹایا جاتا ہے آسان اوقات میں (یعنی صبح ہونے پر) اور اسی طرح میت کی روح کہ فرشتے اس کو آسمان پر چڑھاتے ہیں حتی کہ سات آسمان پار کر جاتی ہے اور الله کے سامنے رکتی ہے اور سجدہ کرتی ہے اور اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے بادشاہ نے جو مقرر کیا ہوتا اس کے مطابق جنت کی سیر کرتی ہے پھر یہ اترتی ہے اور اپنا غسل اور (جنازہ) اٹھانا اور دفنانا دیکھتی ہے … اور یہ روح جسد اور کفن کے درمیان داخل کی جاتی ہے
ابن قیم کہتے ہیں کہ میت سنتی ہے اور روح کا جسد سے اتصال اس سے ثابت ہوتا ہے کہ
وَلها اتِّصَال بِالْبدنِ بِحَيْثُ إِذا سلم الْمُسلم على الْمَيِّت رد الله عَلَيْهِ روحه فَيرد عَلَيْهِ السَّلَام
اور اس کا بدن سے اتصال اس طور سے کہ جب کوئی مسلم میت کو سلام کرے تو روح پلٹتی ہے تاکہ سلام کا جواب دے
یہ بھی کہتے ہیں
قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت
اور امام مالک اور دیگر کہتے ہیں کہ روح مر سلہ جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے
ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں
وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ
اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے
کیا کہیں گے آپ یہاں ابن قیم رحم الله کی کتاب میں کی گئی باتوں پر -