• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرنے کے بعد روحوں کا مسکن

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمت الله -

بات یہ ہے کہ نبی کریم صل علیہ و آ له وسلم کی احادیث سر آنکھوں پر - لیکن کے صحیح مفہوم کو جاننا بھی ضروری ہوتا ہے - زمینی قبر میں عذاب و راحت کے معاملے میں علماء میں اختلاف ہے - اگر ان احادیث سے یہ استدلال کر کہ زمینی قبروں میں مردہ انسانوں کو عذاب و ثواب سے نوازا جاتا ہے تو ان کا حکم صرف ان احادیث پر منطبق ہو گا - جن کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق نماز جنازہ کے بعد دفن کیا جاتا ہے - جب کے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں لوگوں کے مرنے اور دفن ہونے کی مختلف حالتیں رکھی گئی ہیں- کوئی جل کر مرتا ہے تو کوئی ڈوب کر مرتا ہے تو کسی کا جسم ہوائی حادثے میں فنا ہو جاتا ہے - تو کوئی کسی دھماکے میں مرتا ہے اور اس کے اعضاء ہر طرف بکھر جاتے ہیں - اس میں تو کوئی شک نہیں کہ الله چاہے تو ایسے لوگوں کے ا عضاء کو بھی عذاب دے دے جن کے جسم مختلف جگہوں پربکھر گئے ہوں -لیکن یہ قرانی متعدد اصول کے خلاف ہیں-

کچھ لوگ اس بات پر مصر ہوتے ہیں کہ انسان دنیا میں جسم اور روح کے ساتھ گناہ کرتے ہے تو قانون قدرت کے تحت روح کے ساتھ جسم کو بھی عذاب ہونا چاہیے- اور اس سے وہ ان احادیث کے ظاہری مفہوم سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ زمینی قبر کا عذاب برحق ہے کیوں کہ جسم قبر میں مدفون ہوتا ہے-

جب کہ اگر انسان کو اسی دنیاوی جسم کے ساتھ عذاب دیا جانا ضروری ہے جس کے ساتھ اس نے اس دنیا میں گناہ کیے تھے تو پھر قدرت قانون کے تحت انہی اجسام کے ساتھ ان کو دوزخ میں ڈالا جانا چاہیے -جو ان کے دنیا میں تھے- لیکن صحیح احادیث نبوی سے تو ثابت ہے کہ دوزخ میں ایک کافر کی داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہو گی- اور ان کی کھالیں آگ سے جلنے کے بعد دوبارہ ویسی ہی ہوجائیں گی جیسے پہلے تھیں - اور یہ سلسلہ جاری رہے گا -

یہاں فورم اکثر بھائی 'لولی صاحب' کو گمراہ کیہ رہے ہیں لیکن ان کی پیش کردہ صحیح احادیث نبوی کا جواب نہیں دے سکے - جن میں یہ بات واضح ہے کہ عذاب اور راحت عالم برزخ اور الله کی بنائی گئی جنّت میں ہوتا ہے -نہ کہ زمینی قبر میں - شہید تمنا کرتے ہیں واپس آنے کی لیکن ان کو بھی واپس نہیں کیا جاتا- کیوں کہ اگر زمینی قبر میں روح کی آمد و رفت کو مان لیا جائے تو گمراہ اور کلمہ گو مشرک کا یہ عقیدہ صحیح ثابت ہو جاتا ہے کہ ہمارے بزرگ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور زندہ انسان سے استعانت کرنا جائز فعل ہے-جب کہ قرآن میں تو واضح ہے کہ :

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ -أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢١-٢٢
اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں- وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے-

یہ آیت اپنے مفہوم کے لہٰذ سے واضح ہے-ظاہر ہے کہ مردہ انسان اس بات کا ادراک نہیں رکھتا کہ کہ اس دنیا میں کیا ہورہا ہے- تو پھر وہ عذاب و راحت کا ادراک کس طرح کرے گا - یہ ادراک صرف روح کو ہوتا ہے جو جنّت میں یا علیین یا سججین کے مقام پر موجود ہوتی ہیں- جیسا کہ قرآن سے بھی ثابت ہے :

إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ -قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ-بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ سوره یٰسین ٢٥-٢٧
(حبیب نجار نے کہا) بے شک میں تمہارے رب پر ایمان لایا پس میری بات سنو(اس کی قوم نے اس کو شہید کردیا)- -کہا گیا جنت میں داخل ہو جا- اس نے کہا اے کاش! میری قوم بھی جان لیتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں کر دیا-

حبیب نجار جنّت میں جانے کے بعد اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کے شہید ہونے کے بعد اس کی قوم کے ساتھ الله نے کیا سلوک کیا- توپھر مردہ کا مرنے کے بعد یہ کہنا کہ مجھے کہاں لئے جا رہے ہو- یا جنازے کے لئے جانے والوں کے جوتوں کی چاپ سننا -احادیث نبوی کے ظاہری مفہوم سے صحیح نہیں -کیوں کہ مرنے والا برا انسان ہو یا الله کی راہ میں شہید ہونے والا انسان ہو - مرنے کے بعد دنیا سے اس کا رابطہ منقطۂ ہو جاتا ہے اور وه دنیا والوں کے حال سے بے خبر ہوتا ہے- اس حدیث کہ جس میں مردہ کے بولنے اور سننے کا تعلق ہے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ مردہ کی روح فرشتوں سے کہتی ہے کہ یہ مجھے کہاں لیے جا رہے ہو ؟؟ اور اور جب اس کی روح سے عالم برزخ میں فرشتے سوال و جواب سے فارغ ہو کر واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے -(واللہ اعلم)-

افسوس ناک بات یہ کہ ہمارے اکثر مسلمان ہمارے علماء کی اندھی تقلید میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ احادیث نبوی کی اپنی من معنی تعبیر کرنا شروع کردیتے ہیں- اور صحیح احادیث کی آڑ میں قران کی صریح نص کا انکار کردیتے ہیں -جب کہ قرآن کی صریح نص سے ثابت ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی جزا و سزا کا تعلق روح سے رہتا ہے نا کہ روح اور دنیاوی جسم دونوں سے- قرآن کی آیات اس پر واضح دلالت کرتی ہیں -

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ -النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ سوره غافر ٤٥-٤٦
پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا -وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ-

اب ظاہر ہے کہ فرعون اور آل فرعون کے اجسام مصر کے عجائب گھروں میں مقید ہیں اور وہی ان کی قبریں ہیں- اگر یہاں فرعون اور آل فرعون سے ان کے دنیاوی جسم اور روح کا مجموع مراد لیا جائے- توآخر وہ کون سی آگ ہے جس پر وہ روزانہ پیش کیے جاتے ہیں؟؟ اور ان کے اجسام پر آے دن سائنس دان تجربات بھی کرتے رہتے ہیں اوریہ اجسام اکثر اوقات ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کیے جاتے ہیں - ایسی صورت میں جسم کے عذاب کو کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے -

یہی معاملہ نوح علیہ سلام کی قوم کے ساتھ ہوا - ارشار ربّانی ہے :

مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا سوره نوح
وہ اپنے گناہوں کے سبب سے غرق کر دیئے گئے پھر آگ میں داخل کر دیے گئے- پس انہوں نے اپنے لیے سوائے الله کے کوئی مددگار نہ پایا-

یعنی نوح علیہ سلام کی قوم کے بدکار لوگوں کے اجسام تو طوفان نوح میں غرق ہو گئے - لیکن غرق ہونے کے بعد الله فرما رہا ہے کہ وہ آگ میں ڈال دیے گئے- تو ظاہر ہے یہ ان کی روح تھی جو آگ میں ڈالی گئی تھی - اب غرق ہونے کا فورا بعد آگ میں ڈالے جانے کا ذکر اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ یہ عذاب ان کی روحوں کو ہوا- ورنہ اجسام تو ان کے پانی میں غرق ہو چکے تھے-

اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون قدرت میں بہت چیزیں انسانی عقل سے ماورا ہوتی ہیں اور ہمارا کام صرف ان پر ایمان لانا ہوتا ہے - جیسا کہ عذاب قبر بھی انسانی عقل سے ماورا ہے لیکن الله نے قرآن میں اس اصول کو واضح کردیا کہ زمینی قبروں میں کوئی زندگی نہیں- کیوں کہ پچھلی قوموں میں شرک کی وبا اسی گمراہ کن عقیدے سے پھیلی تھی کہ انبیاء و اولیاء و صالحین اپنی ان زمینی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کی روح اور ان کا جسم کا آپس میں ایک خاص تعلق ہے - مسلمانوں میں یہ بدعقیدہ ہندووں کے
باطل مذاہب سے ہمارے ہاں پھیلا -ان کے ہان یہ عقیدہ عام اور بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ روحیں اس دنیا میں آتی جاتی رہتی ہیں- اور اسی بدعقیدے سے متاثر ہو کر ہمارے کچھ علماء کرام نے جو سلف و صالحین کے عقیدے سے ہٹے ہوے تھے یا جو قرآن و احادیث کے صحیح مفہوم سے مغالطہ کھا گئے انہوں نے اس عقیدے کو کہ "روح کا اس کے دنیاوی جسم سے رابطہ ہوتا ہے" -دین اسلام کی اساس بنا لیا - اور آج اسی عقیدے کی بنیاد پر امّت مسلمہ کی اکثریت گمراہی گڑھے پر پہنچ چکی ہے -

مختصر یہ کہ عذاب قبر سے متعلق موجود تمام احادیث غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں.کہ اس کے لئے عالم برزخ کی اصطلاح رائج ہے. یعنی یہ ایک علیحدہ روحانی عالم ہے، یہ لفظ برزخ دراصل 'پردہ ' کا متبادل ہے اور اُس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔یہ گویا ایک روکاٹ ہے جو اُنہیں واپس آنے نہیں دیتی

من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون سوره المومنون ١٠٠
اُنکے آگے ایک پردہ ہے اُس دن تک کے لیے،جب وہ اُٹھائے جائیں گے-

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 
Last edited:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


یہاں فورم اکثر بھائی 'لولی صاحب' کو گمراہ کیہ رہے ہیں لیکن ان کی پیش کردہ صحیح احادیث نبوی کا جواب نہیں دے سکے -
جواد بھائی کیا پتا آپ پر بھی @اسحاق سلفی اور @حافظ طاہر اسلام عسکری فتویٰ لگا دیں - لیکن ابھی تک کوئی مضبوط دلیل دینے سے قاصر ہیں -

میں یہاں @اسحاق سلفی اور @حافظ طاہر اسلام عسکری سے پوچھتا ہوں کہ کیا جواد بھائی گمراہ ہیں - کیا جو فتویٰ مجھ پر لگتا ہے ان پر بھی لگتا ہے - یا نہیں -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
شہداء۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا ہے، اللہ رب العالمین فرما رہے ہیں :" أَحْيَاء "زندہ ہیں" عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ [آل عمران : 169] " اللہ کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔اور پھر فرمار ہے ہیں: " فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ "اللہ نے جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے یہ لوگ اس پر خوش بھی ہیں۔" وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ" ان کو خوشخبریاں بھی دی جاتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔لہٰذا ثابت ہوا کہ اس قبر کے اندر عذاب اور سزا نہیں بلکہ عذاب کےلیے آسمانوں سے اوپر کوئی برزخ ہے ، کوئی قبر ہے، جہاں پر اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔اور روح اس جسم کے اندر نہیں لوٹتی، بلکہ اس روح کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ساری کی ساری باتیں اور اعتراضات غلط ہیں"

محترم : جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اشکال ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں جو ارشاد فرمایا تھا اسے غور سے پڑھیں:

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ
أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا

حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا

صحیح مسلم:جلد سوم:امارت اور خلافت کا بیان :شہدا کی روحوں کے جنت میں ہونے اور شہدا کے زندہ ہونے اور اپنے رب سے رزق دیے جانے کے بیان میں حدیث قدسی مکررات 4 متفق علیہ 1 بدون مکرر

یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ
ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں

یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیتِ کریمہ کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے اور اس میں آپ ﷺ نے صاف صاف فرمایا کہ شھدا کی ارواح سبز رنگ کے پرندوں کے جوف میں رہ کر جنت میں سیر کرتی ہیں اورعرش کے نیچے لٹکی قندیلوں بسیرا کرتی ہیں اور جن اللہ رب العزت اُن سے پوچھتے ہیں

کہ کچھ مانگو تو وہ کہتے ہیں "يَا رَبِّ نُرِيدُأَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا"

اے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں

جناب کہتے ہیں کہ روحیں قبروں میں مدفون جسموں میں ہوتی ہیں اور امام الانبیاء ﷺفرماتے ہیں کہ شھدا کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں اور شھدا کہتے ہیں کہ ہماری روحیں جسموں میں لو ٹا دے ۔اگر شھدا کی روحیں اُن کے جسموں میں ہوتیں تو وہ یہ مطالبہ کیوں کرتے۔

ایک اور حدیث مبارکہ پڑھیں:

حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔

(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

ثابت ہوا کہ مرنے کے بعدمومنین کی روحوں کا ٹھکانہ جنت میں ہوتا ہے اور قیامت سے پہلے وہ اپنے جسموں میں نہیں لوٹائی جاتیں ۔

دلائل تو اور بھی بہت ہیں مگر ماننے والوں کے لئے یہی کافی ہیں


سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 2077 حدیث مرفوع مکررات 4

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ کَانَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ


قتیبہ، مالک، ابن شہاب، عبدالرحمن بن کعب، کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن کی جان جنت کے درختوں پر پرواز کرتی رہے گی یہاں تک کہ خداوند قدوس اس کو قیامت کے دن اس کے جسم کی طرف بھیج دے گا۔


سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1152 حدیث مرفوع مکررات 4

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ کَعْبٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ يَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ يُبْعَثُ
سوید بن سعید، مالک بن انس، ابن شہاب، عبدالرحمن حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں چگتی پھرتی ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اپنے اصلی بدن میں ڈالی جائے گی۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2724 حدیث قدسی مکررات 1 متفق علیہ 1 بدون مکرر

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَکَانِ يُصْعِدَانِهَا قَالَ حَمَّادٌ فَذَکَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَکَرَ الْمِسْکَ قَالَ وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْکِ وَعَلَی جَسَدٍ کُنْتِ تَعْمُرِينَهُ فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَی رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَقُولُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ قَالَ حَمَّادٌ وَذَکَرَ مِنْ نَتْنِهَا وَذَکَرَ لَعْنًا وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ قَالَ فَيُقَالُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً کَانَتْ عَلَيْهِ عَلَی أَنْفِهِ هَکَذَا

عبید اللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالی تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے سجن کی طرف لے چلو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

(کافر کی روح کی بدبو ظاہر کرنے کے لییے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:
فعذاب القبر ونعيمه ثابتان بنصوص الكتاب والسنة، ويجب الإيمان بهما، ويلحقان الروح والبدن معاً، وقد نُقل على ذلك اتفاق أهل السنة.

قال شيخ الإسلام ابن تيمية كما في مجموع الفتاوى( 4/282) بل العذاب والنعيم على النفس والبدن جميعاً باتفاق أهل السنة والجماعة، تنعم النفس وتعذب منفردة عن البدن وتعذب متصلة بالبدن، والبدن متصل بها، فيكون النعيم والعذاب عليهما في هذه الحال مجتمعين، كما يكون للروح مفردة عن البدن. وقال( 4/262 ): وإثبات الثواب والعقاب في البرزخ ما بين الموت إلى يوم القيامة: هذا قول السلف قاطبة وأهل السنة والجماعة، وإنما أنكر ذلك في البرزخ قليل من أهل البدع.
فقوله صلى الله عليه وسلم: (يسمع قرع نعالهم - فيقعدانه - ضربة بين أذنيه - فيصيح صيحة - حتى تختلف أضلاعه ) كل ذلك دليل واضح على شمول الأمر للروح والجسد.


3- وعند أحمد من حديث عائشة بسند حسن :" فإذا كان الرجل الصالح أجلس في قبره غير فزع، وإذا كان الرجل السوء أجلس في قبره فزعاً"

4- وفي حديث البراء بن عازب الطويل الذي رواه أحمد وأبو داود وابن خزيمة والحاكم وغيرهم بسند صحيح وأوله: "إن العبد المؤمن إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة، نزل إليه من السماء ملائكة بيض الوجوه " وفيه: " يحملونها (الروح) في ذلك الكفن وفي ذلك الحنوط… ويصعدون بها... فيقول الله عز وجل: اكتبوا كتاب عبدي في علين، وأعيدوا عبدي إلى الأرض، فإني منها خلقتهم وفيها أعيدهم ومنها أخرجهم تارة أخرى، فتعاد روحه، فيأتيه ملكان فيجلسانه…… وفيه: " فيفسح له في قبره مد بصره " . وفيه عند الحديث عن العبد الكافر وأن الملائكة تصعد بروحه فلا تفتح له أبواب السماء " فيقول الله: اكتبوا كتابه في سجين في الأرض السفلى، فتطرح روحه طرحاً، فتعاد روحه في جسده ويأتيه ملكان فيجلسانه ……" وفيه: " ويضيق عليه قبره حتى تختلف أضلاعه" ، وهذا صريح في أن الروح مع الجسد يلحقها النعيم أو العذاب. ويمكنك الوقوف على نص هذا الحديث العظيم كاملاً بالبحث عنه في موسوعة الحديث الشريف بهذا الموقع.

وأما الدليل على أن النعيم قد يلحق الروح منفردة عن البدن فهو في ما سبق من كون الروح تصعد إلى السماء وتفتح لها أبواب السماء ، وأيضاً: روى أحمد والنسائي وابن ماجه من حديث كعب بن مالك أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"إنما نسمة المؤمن طائر معلق في شجر الجنة، حتى يبعثه الله إلى جسده يوم يبعثه".

فمجموع النصوص يدل على أن الروح تنعم مع البدن الذي في القبر، أو تعذب، وأنها تنعم في الجنة وحدها.

ومما ينبغي التنبيه عليه أن عذاب القبر هو عذاب البرزخ، فكل من مات وهو مستحق للعذاب ناله نصيبه منه إن لم يتجاوز الله عنه، قبر أم لم يقبر ، فلو أكلته السباع، أو حرق حتى صار رماداً، أو نسف في الهواء، أو أغرق في البحر وصل إلى روحه وبدنه من العذاب ما يصل من المقبور، قاله ابن القيم رحمه الله ونقله عنه السفاريني في لوامع الأنوار.
والله أعلم.
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جواد بھائی کیا پتا آپ پر بھی @اسحاق سلفی اور @حافظ طاہر اسلام عسکری فتویٰ لگا دیں - لیکن ابھی تک کوئی مضبوط دلیل دینے سے قاصر ہیں -

میں یہاں @اسحاق سلفی اور @حافظ طاہر اسلام عسکری سے پوچھتا ہوں کہ کیا جواد بھائی گمراہ ہیں - کیا جو فتویٰ مجھ پر لگتا ہے ان پر بھی لگتا ہے - یا نہیں -

@حافظ طاہر اسلام عسکری

@اسحاق سلفی


کیا جواد بھائی گمراہ ہیں - کیا جو فتویٰ مجھ پر لگتا ہے ان پر بھی لگتا ہے - یا نہیں
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
@حافظ طاہر اسلام عسکری

@اسحاق سلفی


کیا جواد بھائی گمراہ ہیں - کیا جو فتویٰ مجھ پر لگتا ہے ان پر بھی لگتا ہے - یا نہیں
اگر یہ صاحب بھی عذاب و ثواب قبر کو موجودہ انسانی جسم اور روح دونوں سے متعلق نہیں مانتے اورقبر سے زمینی قبر مراد نہیں لیتے تو یقیناً گم رہی میں مبتلا ہیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
موجودہ جسم میں روح کا لوٹایا جانا اس طرح نہیں ہے جیسا موجودہ زندگی میں ہے؛اسی طرح موجودہ جسم کو عذاب و ثواب جو ہوتا ہے اس میں ایک تو یہ ضروری نہیں کہ اس میں روح موجود ہو کیوں احادیث میں صراحتاً اس کا ذکر نہیں اور نہ ہی تعلق بالجسد کے الفاظ حدیث میں آئے ہیں؛بالفرض تعلق روح بالجسد مانا بھی جائے تو اس کی کیفیت موجودہ دنیوی تعلق جیسی نہیں لہٰذا اس سے شرک کا دروازہ بالکل نہیں کھلتا اور نہ ہی وہ ہماری آوازوں کو مستقل طور پر سنتے ہیں الا یہ کہ خدا انھیں جب سنادے تو سن لیتے ہیں؛اسی طرح مردوں سے مافوق الاسباب طریقے سے التجا اور استغاثہ وغیرہ حرام ہے بل کہ زندوں سے بھی حرام ہے۔
الحاصل یہ کہ منکرین عذاب قبر دراصل شرک کے خطرے کے پیش نظر اس کا انکار کرتے ہیں لیکن یہ ان کی جہالت اور عقلی موشگافیوں کا شاخسانہ ہے؛ھداھم اللہ و ایانا
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
کیوں کہ پچھلی قوموں میں شرک کی وبا اسی گمراہ کن عقیدے سے پھیلی تھی کہ انبیاء و اولیاء و صالحین اپنی ان زمینی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کی روح اور ان کا جسم کا آپس میں ایک خاص تعلق ہے
یہ ہے وہ غلط فہمی جس کی بنا پرجسد عنصری کو زمینی قبر میں عذاب و ثواب کا انکار کیا جا رہا ہے حالاں کہ علماے اہل حدیث اس کو بھی مانتے ہیں اور شرک سے بھی محفوظ و مجتنب ہیں لیکن منکرین اس پر غور کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
موجودہ جسم میں روح کا لوٹایا جانا اس طرح نہیں ہے جیسا موجودہ زندگی میں ہے؛اسی طرح موجودہ جسم کو عذاب و ثواب جو ہوتا ہے اس میں ایک تو یہ ضروری نہیں کہ اس میں روح موجود ہو




کیا بغیر روح کے بھی جسم کو عذاب ہوتا ہے -کیا اس کا مطلب یہ لیا جا ے روح کا عذاب الگ ہے اور جسم کا عذاب الگ -


ایک حدیث پیش ہے -



سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ' ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ' عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ' لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ' یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی
اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔

صحیح بخاری ، کتاب الجنائز



اس حدیث کے ان الفاظ کی تشریح کر دیں -


ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔


ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔


یہاں جو عذاب ہو رہا ہے وہ روح پر ہے یا جسم پر بھی ہے - اگر جسم پر بھی ہے تو کون سے جسم پر دنیا والے جسم پر یا وہاں کوئی اور جسم دیا گیا -

ان لوگوں کی قبریں بھی اندر ہیں تندور کے- اکھٹی ہیں وہاں یا دنیا میں ایک کی کہاں دوسرے کی کہاں - وضاحت کر دیں -

 
Top