محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
السلام علیکم و رحمت الله -
بات یہ ہے کہ نبی کریم صل علیہ و آ له وسلم کی احادیث سر آنکھوں پر - لیکن کے صحیح مفہوم کو جاننا بھی ضروری ہوتا ہے - زمینی قبر میں عذاب و راحت کے معاملے میں علماء میں اختلاف ہے - اگر ان احادیث سے یہ استدلال کر کہ زمینی قبروں میں مردہ انسانوں کو عذاب و ثواب سے نوازا جاتا ہے تو ان کا حکم صرف ان احادیث پر منطبق ہو گا - جن کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق نماز جنازہ کے بعد دفن کیا جاتا ہے - جب کے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں لوگوں کے مرنے اور دفن ہونے کی مختلف حالتیں رکھی گئی ہیں- کوئی جل کر مرتا ہے تو کوئی ڈوب کر مرتا ہے تو کسی کا جسم ہوائی حادثے میں فنا ہو جاتا ہے - تو کوئی کسی دھماکے میں مرتا ہے اور اس کے اعضاء ہر طرف بکھر جاتے ہیں - اس میں تو کوئی شک نہیں کہ الله چاہے تو ایسے لوگوں کے ا عضاء کو بھی عذاب دے دے جن کے جسم مختلف جگہوں پربکھر گئے ہوں -لیکن یہ قرانی متعدد اصول کے خلاف ہیں-
کچھ لوگ اس بات پر مصر ہوتے ہیں کہ انسان دنیا میں جسم اور روح کے ساتھ گناہ کرتے ہے تو قانون قدرت کے تحت روح کے ساتھ جسم کو بھی عذاب ہونا چاہیے- اور اس سے وہ ان احادیث کے ظاہری مفہوم سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ زمینی قبر کا عذاب برحق ہے کیوں کہ جسم قبر میں مدفون ہوتا ہے-
جب کہ اگر انسان کو اسی دنیاوی جسم کے ساتھ عذاب دیا جانا ضروری ہے جس کے ساتھ اس نے اس دنیا میں گناہ کیے تھے تو پھر قدرت قانون کے تحت انہی اجسام کے ساتھ ان کو دوزخ میں ڈالا جانا چاہیے -جو ان کے دنیا میں تھے- لیکن صحیح احادیث نبوی سے تو ثابت ہے کہ دوزخ میں ایک کافر کی داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہو گی- اور ان کی کھالیں آگ سے جلنے کے بعد دوبارہ ویسی ہی ہوجائیں گی جیسے پہلے تھیں - اور یہ سلسلہ جاری رہے گا -
یہاں فورم اکثر بھائی 'لولی صاحب' کو گمراہ کیہ رہے ہیں لیکن ان کی پیش کردہ صحیح احادیث نبوی کا جواب نہیں دے سکے - جن میں یہ بات واضح ہے کہ عذاب اور راحت عالم برزخ اور الله کی بنائی گئی جنّت میں ہوتا ہے -نہ کہ زمینی قبر میں - شہید تمنا کرتے ہیں واپس آنے کی لیکن ان کو بھی واپس نہیں کیا جاتا- کیوں کہ اگر زمینی قبر میں روح کی آمد و رفت کو مان لیا جائے تو گمراہ اور کلمہ گو مشرک کا یہ عقیدہ صحیح ثابت ہو جاتا ہے کہ ہمارے بزرگ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور زندہ انسان سے استعانت کرنا جائز فعل ہے-جب کہ قرآن میں تو واضح ہے کہ :
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ -أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢١-٢٢
اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں- وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے-
یہ آیت اپنے مفہوم کے لہٰذ سے واضح ہے-ظاہر ہے کہ مردہ انسان اس بات کا ادراک نہیں رکھتا کہ کہ اس دنیا میں کیا ہورہا ہے- تو پھر وہ عذاب و راحت کا ادراک کس طرح کرے گا - یہ ادراک صرف روح کو ہوتا ہے جو جنّت میں یا علیین یا سججین کے مقام پر موجود ہوتی ہیں- جیسا کہ قرآن سے بھی ثابت ہے :
إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ -قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ-بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ سوره یٰسین ٢٥-٢٧
(حبیب نجار نے کہا) بے شک میں تمہارے رب پر ایمان لایا پس میری بات سنو(اس کی قوم نے اس کو شہید کردیا)- -کہا گیا جنت میں داخل ہو جا- اس نے کہا اے کاش! میری قوم بھی جان لیتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں کر دیا-
حبیب نجار جنّت میں جانے کے بعد اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کے شہید ہونے کے بعد اس کی قوم کے ساتھ الله نے کیا سلوک کیا- توپھر مردہ کا مرنے کے بعد یہ کہنا کہ مجھے کہاں لئے جا رہے ہو- یا جنازے کے لئے جانے والوں کے جوتوں کی چاپ سننا -احادیث نبوی کے ظاہری مفہوم سے صحیح نہیں -کیوں کہ مرنے والا برا انسان ہو یا الله کی راہ میں شہید ہونے والا انسان ہو - مرنے کے بعد دنیا سے اس کا رابطہ منقطۂ ہو جاتا ہے اور وه دنیا والوں کے حال سے بے خبر ہوتا ہے- اس حدیث کہ جس میں مردہ کے بولنے اور سننے کا تعلق ہے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ مردہ کی روح فرشتوں سے کہتی ہے کہ یہ مجھے کہاں لیے جا رہے ہو ؟؟ اور اور جب اس کی روح سے عالم برزخ میں فرشتے سوال و جواب سے فارغ ہو کر واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے -(واللہ اعلم)-
افسوس ناک بات یہ کہ ہمارے اکثر مسلمان ہمارے علماء کی اندھی تقلید میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ احادیث نبوی کی اپنی من معنی تعبیر کرنا شروع کردیتے ہیں- اور صحیح احادیث کی آڑ میں قران کی صریح نص کا انکار کردیتے ہیں -جب کہ قرآن کی صریح نص سے ثابت ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی جزا و سزا کا تعلق روح سے رہتا ہے نا کہ روح اور دنیاوی جسم دونوں سے- قرآن کی آیات اس پر واضح دلالت کرتی ہیں -
فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ -النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ سوره غافر ٤٥-٤٦
پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا -وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ-
اب ظاہر ہے کہ فرعون اور آل فرعون کے اجسام مصر کے عجائب گھروں میں مقید ہیں اور وہی ان کی قبریں ہیں- اگر یہاں فرعون اور آل فرعون سے ان کے دنیاوی جسم اور روح کا مجموع مراد لیا جائے- توآخر وہ کون سی آگ ہے جس پر وہ روزانہ پیش کیے جاتے ہیں؟؟ اور ان کے اجسام پر آے دن سائنس دان تجربات بھی کرتے رہتے ہیں اوریہ اجسام اکثر اوقات ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کیے جاتے ہیں - ایسی صورت میں جسم کے عذاب کو کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے -
یہی معاملہ نوح علیہ سلام کی قوم کے ساتھ ہوا - ارشار ربّانی ہے :
مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا سوره نوح
وہ اپنے گناہوں کے سبب سے غرق کر دیئے گئے پھر آگ میں داخل کر دیے گئے- پس انہوں نے اپنے لیے سوائے الله کے کوئی مددگار نہ پایا-
یعنی نوح علیہ سلام کی قوم کے بدکار لوگوں کے اجسام تو طوفان نوح میں غرق ہو گئے - لیکن غرق ہونے کے بعد الله فرما رہا ہے کہ وہ آگ میں ڈال دیے گئے- تو ظاہر ہے یہ ان کی روح تھی جو آگ میں ڈالی گئی تھی - اب غرق ہونے کا فورا بعد آگ میں ڈالے جانے کا ذکر اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ یہ عذاب ان کی روحوں کو ہوا- ورنہ اجسام تو ان کے پانی میں غرق ہو چکے تھے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون قدرت میں بہت چیزیں انسانی عقل سے ماورا ہوتی ہیں اور ہمارا کام صرف ان پر ایمان لانا ہوتا ہے - جیسا کہ عذاب قبر بھی انسانی عقل سے ماورا ہے لیکن الله نے قرآن میں اس اصول کو واضح کردیا کہ زمینی قبروں میں کوئی زندگی نہیں- کیوں کہ پچھلی قوموں میں شرک کی وبا اسی گمراہ کن عقیدے سے پھیلی تھی کہ انبیاء و اولیاء و صالحین اپنی ان زمینی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کی روح اور ان کا جسم کا آپس میں ایک خاص تعلق ہے - مسلمانوں میں یہ بدعقیدہ ہندووں کے
باطل مذاہب سے ہمارے ہاں پھیلا -ان کے ہان یہ عقیدہ عام اور بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ روحیں اس دنیا میں آتی جاتی رہتی ہیں- اور اسی بدعقیدے سے متاثر ہو کر ہمارے کچھ علماء کرام نے جو سلف و صالحین کے عقیدے سے ہٹے ہوے تھے یا جو قرآن و احادیث کے صحیح مفہوم سے مغالطہ کھا گئے انہوں نے اس عقیدے کو کہ "روح کا اس کے دنیاوی جسم سے رابطہ ہوتا ہے" -دین اسلام کی اساس بنا لیا - اور آج اسی عقیدے کی بنیاد پر امّت مسلمہ کی اکثریت گمراہی گڑھے پر پہنچ چکی ہے -
مختصر یہ کہ عذاب قبر سے متعلق موجود تمام احادیث غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں.کہ اس کے لئے عالم برزخ کی اصطلاح رائج ہے. یعنی یہ ایک علیحدہ روحانی عالم ہے، یہ لفظ برزخ دراصل 'پردہ ' کا متبادل ہے اور اُس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔یہ گویا ایک روکاٹ ہے جو اُنہیں واپس آنے نہیں دیتی
من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون سوره المومنون ١٠٠
اُنکے آگے ایک پردہ ہے اُس دن تک کے لیے،جب وہ اُٹھائے جائیں گے-
الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
بات یہ ہے کہ نبی کریم صل علیہ و آ له وسلم کی احادیث سر آنکھوں پر - لیکن کے صحیح مفہوم کو جاننا بھی ضروری ہوتا ہے - زمینی قبر میں عذاب و راحت کے معاملے میں علماء میں اختلاف ہے - اگر ان احادیث سے یہ استدلال کر کہ زمینی قبروں میں مردہ انسانوں کو عذاب و ثواب سے نوازا جاتا ہے تو ان کا حکم صرف ان احادیث پر منطبق ہو گا - جن کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق نماز جنازہ کے بعد دفن کیا جاتا ہے - جب کے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں لوگوں کے مرنے اور دفن ہونے کی مختلف حالتیں رکھی گئی ہیں- کوئی جل کر مرتا ہے تو کوئی ڈوب کر مرتا ہے تو کسی کا جسم ہوائی حادثے میں فنا ہو جاتا ہے - تو کوئی کسی دھماکے میں مرتا ہے اور اس کے اعضاء ہر طرف بکھر جاتے ہیں - اس میں تو کوئی شک نہیں کہ الله چاہے تو ایسے لوگوں کے ا عضاء کو بھی عذاب دے دے جن کے جسم مختلف جگہوں پربکھر گئے ہوں -لیکن یہ قرانی متعدد اصول کے خلاف ہیں-
کچھ لوگ اس بات پر مصر ہوتے ہیں کہ انسان دنیا میں جسم اور روح کے ساتھ گناہ کرتے ہے تو قانون قدرت کے تحت روح کے ساتھ جسم کو بھی عذاب ہونا چاہیے- اور اس سے وہ ان احادیث کے ظاہری مفہوم سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ زمینی قبر کا عذاب برحق ہے کیوں کہ جسم قبر میں مدفون ہوتا ہے-
جب کہ اگر انسان کو اسی دنیاوی جسم کے ساتھ عذاب دیا جانا ضروری ہے جس کے ساتھ اس نے اس دنیا میں گناہ کیے تھے تو پھر قدرت قانون کے تحت انہی اجسام کے ساتھ ان کو دوزخ میں ڈالا جانا چاہیے -جو ان کے دنیا میں تھے- لیکن صحیح احادیث نبوی سے تو ثابت ہے کہ دوزخ میں ایک کافر کی داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہو گی- اور ان کی کھالیں آگ سے جلنے کے بعد دوبارہ ویسی ہی ہوجائیں گی جیسے پہلے تھیں - اور یہ سلسلہ جاری رہے گا -
یہاں فورم اکثر بھائی 'لولی صاحب' کو گمراہ کیہ رہے ہیں لیکن ان کی پیش کردہ صحیح احادیث نبوی کا جواب نہیں دے سکے - جن میں یہ بات واضح ہے کہ عذاب اور راحت عالم برزخ اور الله کی بنائی گئی جنّت میں ہوتا ہے -نہ کہ زمینی قبر میں - شہید تمنا کرتے ہیں واپس آنے کی لیکن ان کو بھی واپس نہیں کیا جاتا- کیوں کہ اگر زمینی قبر میں روح کی آمد و رفت کو مان لیا جائے تو گمراہ اور کلمہ گو مشرک کا یہ عقیدہ صحیح ثابت ہو جاتا ہے کہ ہمارے بزرگ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور زندہ انسان سے استعانت کرنا جائز فعل ہے-جب کہ قرآن میں تو واضح ہے کہ :
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ -أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢١-٢٢
اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں- وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے-
یہ آیت اپنے مفہوم کے لہٰذ سے واضح ہے-ظاہر ہے کہ مردہ انسان اس بات کا ادراک نہیں رکھتا کہ کہ اس دنیا میں کیا ہورہا ہے- تو پھر وہ عذاب و راحت کا ادراک کس طرح کرے گا - یہ ادراک صرف روح کو ہوتا ہے جو جنّت میں یا علیین یا سججین کے مقام پر موجود ہوتی ہیں- جیسا کہ قرآن سے بھی ثابت ہے :
إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ -قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ-بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ سوره یٰسین ٢٥-٢٧
(حبیب نجار نے کہا) بے شک میں تمہارے رب پر ایمان لایا پس میری بات سنو(اس کی قوم نے اس کو شہید کردیا)- -کہا گیا جنت میں داخل ہو جا- اس نے کہا اے کاش! میری قوم بھی جان لیتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں کر دیا-
حبیب نجار جنّت میں جانے کے بعد اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کے شہید ہونے کے بعد اس کی قوم کے ساتھ الله نے کیا سلوک کیا- توپھر مردہ کا مرنے کے بعد یہ کہنا کہ مجھے کہاں لئے جا رہے ہو- یا جنازے کے لئے جانے والوں کے جوتوں کی چاپ سننا -احادیث نبوی کے ظاہری مفہوم سے صحیح نہیں -کیوں کہ مرنے والا برا انسان ہو یا الله کی راہ میں شہید ہونے والا انسان ہو - مرنے کے بعد دنیا سے اس کا رابطہ منقطۂ ہو جاتا ہے اور وه دنیا والوں کے حال سے بے خبر ہوتا ہے- اس حدیث کہ جس میں مردہ کے بولنے اور سننے کا تعلق ہے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ مردہ کی روح فرشتوں سے کہتی ہے کہ یہ مجھے کہاں لیے جا رہے ہو ؟؟ اور اور جب اس کی روح سے عالم برزخ میں فرشتے سوال و جواب سے فارغ ہو کر واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے -(واللہ اعلم)-
افسوس ناک بات یہ کہ ہمارے اکثر مسلمان ہمارے علماء کی اندھی تقلید میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ احادیث نبوی کی اپنی من معنی تعبیر کرنا شروع کردیتے ہیں- اور صحیح احادیث کی آڑ میں قران کی صریح نص کا انکار کردیتے ہیں -جب کہ قرآن کی صریح نص سے ثابت ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی جزا و سزا کا تعلق روح سے رہتا ہے نا کہ روح اور دنیاوی جسم دونوں سے- قرآن کی آیات اس پر واضح دلالت کرتی ہیں -
فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ -النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ سوره غافر ٤٥-٤٦
پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا -وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ-
اب ظاہر ہے کہ فرعون اور آل فرعون کے اجسام مصر کے عجائب گھروں میں مقید ہیں اور وہی ان کی قبریں ہیں- اگر یہاں فرعون اور آل فرعون سے ان کے دنیاوی جسم اور روح کا مجموع مراد لیا جائے- توآخر وہ کون سی آگ ہے جس پر وہ روزانہ پیش کیے جاتے ہیں؟؟ اور ان کے اجسام پر آے دن سائنس دان تجربات بھی کرتے رہتے ہیں اوریہ اجسام اکثر اوقات ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کیے جاتے ہیں - ایسی صورت میں جسم کے عذاب کو کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے -
یہی معاملہ نوح علیہ سلام کی قوم کے ساتھ ہوا - ارشار ربّانی ہے :
مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا سوره نوح
وہ اپنے گناہوں کے سبب سے غرق کر دیئے گئے پھر آگ میں داخل کر دیے گئے- پس انہوں نے اپنے لیے سوائے الله کے کوئی مددگار نہ پایا-
یعنی نوح علیہ سلام کی قوم کے بدکار لوگوں کے اجسام تو طوفان نوح میں غرق ہو گئے - لیکن غرق ہونے کے بعد الله فرما رہا ہے کہ وہ آگ میں ڈال دیے گئے- تو ظاہر ہے یہ ان کی روح تھی جو آگ میں ڈالی گئی تھی - اب غرق ہونے کا فورا بعد آگ میں ڈالے جانے کا ذکر اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ یہ عذاب ان کی روحوں کو ہوا- ورنہ اجسام تو ان کے پانی میں غرق ہو چکے تھے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون قدرت میں بہت چیزیں انسانی عقل سے ماورا ہوتی ہیں اور ہمارا کام صرف ان پر ایمان لانا ہوتا ہے - جیسا کہ عذاب قبر بھی انسانی عقل سے ماورا ہے لیکن الله نے قرآن میں اس اصول کو واضح کردیا کہ زمینی قبروں میں کوئی زندگی نہیں- کیوں کہ پچھلی قوموں میں شرک کی وبا اسی گمراہ کن عقیدے سے پھیلی تھی کہ انبیاء و اولیاء و صالحین اپنی ان زمینی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کی روح اور ان کا جسم کا آپس میں ایک خاص تعلق ہے - مسلمانوں میں یہ بدعقیدہ ہندووں کے
باطل مذاہب سے ہمارے ہاں پھیلا -ان کے ہان یہ عقیدہ عام اور بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ روحیں اس دنیا میں آتی جاتی رہتی ہیں- اور اسی بدعقیدے سے متاثر ہو کر ہمارے کچھ علماء کرام نے جو سلف و صالحین کے عقیدے سے ہٹے ہوے تھے یا جو قرآن و احادیث کے صحیح مفہوم سے مغالطہ کھا گئے انہوں نے اس عقیدے کو کہ "روح کا اس کے دنیاوی جسم سے رابطہ ہوتا ہے" -دین اسلام کی اساس بنا لیا - اور آج اسی عقیدے کی بنیاد پر امّت مسلمہ کی اکثریت گمراہی گڑھے پر پہنچ چکی ہے -
مختصر یہ کہ عذاب قبر سے متعلق موجود تمام احادیث غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں.کہ اس کے لئے عالم برزخ کی اصطلاح رائج ہے. یعنی یہ ایک علیحدہ روحانی عالم ہے، یہ لفظ برزخ دراصل 'پردہ ' کا متبادل ہے اور اُس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔یہ گویا ایک روکاٹ ہے جو اُنہیں واپس آنے نہیں دیتی
من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون سوره المومنون ١٠٠
اُنکے آگے ایک پردہ ہے اُس دن تک کے لیے،جب وہ اُٹھائے جائیں گے-
الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
Last edited: