• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرنے کے بعد روحوں کا مسکن

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
تو محترم - شرک تو وہ گناہ ہے کہ جس کی الله کے ہاں کوئی معافی نہیں ہے -یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عقیدہ کی بنیاد پر شرک پھیلنے کا اندیشہ ہو اور الله قرآن میں اس کی وضاحت ہی نہ کرے اور نہ احادیث سے ثابت ہو کہ حقیت کیا ہے -قرآن نے اس چیز کو بڑے واضح انداز میں پیش کردیا کہ :

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ -أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢١-٢٢

اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں- وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے-
بالکل درست، قبروں میں مدفون مردے ہیں، وہ زندہ نہیں ،انھیں پکارنے والوں کی کوئی خبر نہیں؛اس پر ہمارا ایمان ہے لیکن
یہ بھی تو سمجھیں کہ جس پیغمبر اعظم ﷺ پر یہ قرآنی آیات نازل ہوئیں اسی کا یہ بھی ارشاد ہے کہ سوال و جواب کے وقت روح مردہ کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اسی زمینی قبر میں اس پر عذاب ہوتا ہے تو کس کا فہم لیں ؟
آپ کا یا رسول اللہ ﷺ کا ؟
بس یہی اختلاف ہے ہمارااور آپ کا
آپ کہتے ہیں قرآن اور یہ حدیث آپس میں ٹکراتے ہیں
ہم کہتے ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں
دونوں کا محل الگ ہے
اور تمام اہل سنت والجماعت نے یہی سمجھا ہے
اب آج کے بے علم ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی تشریح کو لیں یا امت کے مسلمہ ائمہ مجتہدین ،محدثین اور علما کی تفہیم پر صاد کریں؟
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

موجودہ دنیوی جسم بھی عذاب و ثواب کا محل ہے؛اب روح اور جسم میں ایک تعلق کی نوعیت سے ہو یا روح سے بالکل علاحدہ طور پر،یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔

شاباش آپ نے بھی (محمد ارشد کمال نے جو انہوں نے اپنی کتاب عذابِ قبر میں کی) - اس سے ملتی جلتی بات کی -


rooh jism maian dakhil qiyamat kay dn.jpg



١ - جسم اور روح کی اسی جدائی کا نام موت ہے -

٢ - قیامت کے دن الله جب انسان کو دوبارہ زندہ کرے گا ، روح جسم میں داخل ہو جائے گی -

٣ - جب کہ قیامت سے پہلے صرف ارواح کو جنت یا جہنم میں داخل کیا گیا تھا ، اجسام قبروں میں راحت یا عذاب میں مبتلا تھے -

جسم اور روح کی جدائی کو یہ موت بھی مانتے ہیں ، اور یہ بھی مانتے ہیں کہ روح قیامت کے دن جسم میں داخل ہو گی پھر اس بات کا کیا مطلب ہوا کہ "جب کہ قیامت سے پہلے صرف ارواح کو جنت یا جہنم میں داخل کیا گیا تھا ، اجسام قبروں میں راحت یا عذاب میں مبتلا تھے" - جب انسان کے جسم میں روح موجود ہی نہیں ہے تو پھر اس کا عذاب یا راحت کو محسوس کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا بنا روح کے بھی جسم عذاب یا راحت کو محسوس کر سکتا ہے؟

کچھ مسلک پرست اس سے بچنے کے لئے الله کی قدرت کا سہارا لیتے ہیں کہتے ہیں کہ " ان الله على كل شيئ قدير" - جب کہ یہ تو الله کا قانون ہے کہ وہ ایسے جسم کو عذاب یا راحت نہیں دیتا جو مردہ ہو جس میں جان کی رمق تک باقی نہ ہو ، اس کے دلیل میں قرآن کی یہ آیت کافی ہے -

جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں -


(سورة النساء:٥٦)

تو کیا الله ان کو پرانی کھال پر عذاب نہیں دے سکتا؟ الله بیشک دے سکتا ہے لیکن یہ الله کا قانون نہیں بلکہ الله تو فرماتا ہے کہ جب ان کی کھال گل جائے گی تو ہم اس کی جگہ نئی کھال پیدا کر دیں گے ، تو ٹھیک اسی طرح یہ الله کا قانون نہیں کہ وہ بنا روح کے ہی جسم کو عذاب دے کیونکہ بنا روح کے جسم نہ عذاب کو محسوس کر سکتا ہے نہ راحت کو اسی لئے اسے "مردہ" کہتے ہیں -
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
شاباش آپ نے بھی (محمد ارشد کمال نے جو انہوں نے اپنی کتاب عذابِ قبر میں کی) - اس سے ملتی جلتی بات کی -





١ - جسم اور روح کی اسی جدائی کا نام موت ہے -

٢ - قیامت کے دن الله جب انسان کو دوبارہ زندہ کرے گا ، روح جسم میں داخل ہو جائے گی -

٣ - جب کہ قیامت سے پہلے صرف ارواح کو جنت یا جہنم میں داخل کیا گیا تھا ، اجسام قبروں میں راحت یا عذاب میں مبتلا تھے -

جسم اور روح کی جدائی کو یہ موت بھی مانتے ہیں ، اور یہ بھی مانتے ہیں کہ روح قیامت کے دن جسم میں داخل ہو گی پھر اس بات کا کیا مطلب ہوا کہ "جب کہ قیامت سے پہلے صرف ارواح کو جنت یا جہنم میں داخل کیا گیا تھا ، اجسام قبروں میں راحت یا عذاب میں مبتلا تھے" - جب انسان کے جسم میں روح موجود ہی نہیں ہے تو پھر اس کا عذاب یا راحت کو محسوس کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا بنا روح کے بھی جسم عذاب یا راحت کو محسوس کر سکتا ہے؟

کچھ مسلک پرست اس سے بچنے کے لئے الله کی قدرت کا سہارا لیتے ہیں کہتے ہیں کہ " ان الله على كل شيئ قدير" - جب کہ یہ تو الله کا قانون ہے کہ وہ ایسے جسم کو عذاب یا راحت نہیں دیتا جو مردہ ہو جس میں جان کی رمق تک باقی نہ ہو ، اس کے دلیل میں قرآن کی یہ آیت کافی ہے -

جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں -


(سورة النساء:٥٦)

تو کیا الله ان کو پرانی کھال پر عذاب نہیں دے سکتا؟ الله بیشک دے سکتا ہے لیکن یہ الله کا قانون نہیں بلکہ الله تو فرماتا ہے کہ جب ان کی کھال گل جائے گی تو ہم اس کی جگہ نئی کھال پیدا کر دیں گے ، تو ٹھیک اسی طرح یہ الله کا قانون نہیں کہ وہ بنا روح کے ہی جسم کو عذاب دے کیونکہ بنا روح کے جسم نہ عذاب کو محسوس کر سکتا ہے نہ راحت کو اسی لئے اسے "مردہ" کہتے ہیں -
یہی تو آپ کی جہالت ہے؛اللہ نے اپنا یہ قانون کہاں بیان فرمایا ہے کہ
وہ بنا روح کے صرف جسم کو عذاب نہیں دیتا؟؟؟
اگر آپ یہ کہیں کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ بنا روح کے صرف جسم کو عذاب ہوتا ہے تو ہم یہ عرض کریں گے کہ جسم کو عذاب کی دلیل تو حدیث شریف میں موجود ہے لیکن اس میں روح کی موجودگی کی صریح دلیل موجود نہیں او ر جس کا یہ دعویٰ ہو دلیل اس کے ذمہ ہے۔
پتا نہیں آپ میری بات کو سمجھ بھی پاتے ہو یا نہیں کیوں کہ اب تک کی بحث سے یہی لگتا ہے کہ آپ میں فہم و شعور کی افسوس ناک حد تک کمی ہے۔
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
بھائی مسئلے کی حقیقت کو سمجھیں پھر اس پر بات کریں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
شاباش آپ نے بھی (محمد ارشد کمال نے جو انہوں نے اپنی کتاب عذابِ قبر میں کی) - اس سے ملتی جلتی بات کی -
یہ تو ابن رجب حنبلیؒ نے بھی لکھا ہے جن کا حوالہ بڑے زوروشور سے آپ نے دیا تھا کہ آپ کو اس میں اپنے مطلب کی بات نظر آئی تھی حالاں کہ انھوں نے اس کا رد کیا تھا اور آپ نے وہ موقف ابن رجب کے ذمہ لگا دیا؛اب بتلائیں وہ جہالت تھی یا خیانت یا دونوں ہی؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
بھائی پہلے آپ مسئلہ سمجھ تو لیں:
فوت شدگان اب دنیوی زندگی کے ساتھ قبروں میں موجود نہیں بل کہ وہ برزخی زندگی ہے۔
حدیث صحیح میں جہاں روح لوٹانے کا ذکر ہے وہ بھی دنیا کی طرح نہیں۔
موجودہ دنیوی جسم بھی عذاب و ثواب کا محل ہے؛اب روح اور جسم میں ایک تعلق کی نوعیت سے ہو یا روح سے بالکل علاحدہ طور پر،یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔
احادیث میں قبر سے مراد یہی زمینی قبر ہے کوئی نام نہاد برزخی قبر نہیں۔
جو لوگ وفات پا چکے ہیں انھیں پکارنا اور اپنی حاجات کے لیے ان سے التجا کرنا شرک ہے۔
فوت شدگان اب دنیوی آوازیں سنتے نہیں الا یہ کہ اللہ انھیں سنوادیے اور رسول خدا ﷺ اس کی خبر دے دیں؛یہ ایک استثنائی معاملہ ہو گا۔
المختصر عذاب و ثواب قبر الگ معاملہ ہے اور استغاثہ و نداے غیراللہ ایک الگ بحث؛آپ دونوں کو خلط ملط کر رہے ہیں جو ۔۔۔۔۔۔۔ اب میں کیا کہوں؟؟
محترم -

معذرت کے ساتھ - ہمارے اہل سنّت کی اکثریت صرف اپنے علماء کے نظریات کو سچ ثابت کرنے کے لئے اس قسم کے بودے دلائل پیش کرتی ہے اور احادیث نبوی کی غلط تعبیر کرتے ہیں - حقیقت میں وہ خود عذاب قبر کی اصلی مفہوم سے نا آشنا ہوتے ہیں - اوراپنے آپ کو صحیح احادیث کا پیرو کار کہلانے اور دوسروں پر منکرین احادیث کا الزام لگانے کے چکر میں قرآن کی واضح آیات کہ جن سے عقیدہ ثابت ہو تا ہے اس کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں -

اب قبر کے عذاب سے متعلق آپ خود تذبذب کا شکار ہیں -کبھی کہتے ہے کہ صرف سوال و جواب کے وقت روح حاضر ہوتی ہے - کبھی کہتے ہیں کہ عذاب و راحت کے وقت روح حاضر نہیں ہوتی اور "اگر" ہوتی ہے تو اس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا -چلیں قرآن کے احکمات کو آپ صحیح احادیث پر مقدم نہیں رکھتے تو جو لولی صاحب نے اتنی ساری صحیح احادیث پیش کیں ہیں کہ `جن میں یہ بات واضح ہے `کہ اعادہ روح قیامت کے دن ہی ہوگا - اس کا بھی آپ نے ابھی تک جواب پیش نہیں کیا؟؟ -

آپ کہتے ہیں کہ مردہ قبر میں نہ سن سکتا ہے نہ بول سکتا ہے - تو پھر جن احادیث میں جوتوں کی چاپ سننے کا ذکر ہے اورجنازہ اٹھانے کے وقت اس بات کا ذکر ہے کہ مردہ کہتا ہے کہ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو - اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ مردہ دنیا کے معاملات کا ادراک رکھتا ہے -؟؟

ظاہر ہے کہ جب عقیدے کا یہ معامله اس حد تک تذبذب کا شکار ہو تو آپ کسی کو لاکھ سمجھائیں کہ قبر میں موجود مردہ انسان زندوں کی استعانت پر قادر نہیں پھر بھی - اس کے شرک میں ملوث ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہونگے -کیوں کہ آپ کے نظریے سے قبر میں اعادہ روح بھی ثابت ہو رہا ہے اور یہ بی ثابت ہو رہا ہے کہ مردہ انسان دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ادراک بھی رکھتا ہے- اسی بنا پر اکثر اہل سنّت اس حدیث کے صحیح ہونے پر بھی ایمان رکھتے ہیں جس میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا کہ "جب میرا امتی میری قبر پر آ کر درود پڑھتا ہے تو الله میری روح کو مجھ پر (یعنی میرے جسم پر) لوٹاتا ہے اور میں اس کو سن کر اس کا جواب دیتا ہوں" -

اور اس حدیث کی بنا پر کتنے ہی لوگ ہیں جو شرک کے گناہ میں ملوث ہو چکے= آپ کس طرح ان کو قائل کریں گے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم تو وفات پا چکے ہیں اور ان کا اب اپنی امّت سے قیامت تک کے لئے رابطه ختم ہو چکا - ؟؟؟` `
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
محترم -

معذرت کے ساتھ - ہمارے اہل سنّت کی اکثریت صرف اپنے علماء کے نظریات کو سچ ثابت کرنے کے لئے اس قسم کے بودے دلائل پیش کرتی ہے اور احادیث نبوی کی غلط تعبیر کرتے ہیں - حقیقت میں وہ خود عذاب قبر کی اصلی مفہوم سے نا آشنا ہوتے ہیں - اوراپنے آپ کو صحیح احادیث کا پیرو کار کہلانے اور دوسروں پر منکرین احادیث کا الزام لگانے کے چکر میں قرآن کی واضح آیات کہ جن سے عقیدہ ثابت ہو تا ہے اس کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں -

اب قبر کے عذاب سے متعلق آپ خود تذبذب کا شکار ہیں -کبھی کہتے ہے کہ صرف سوال و جواب کے وقت روح حاضر ہوتی ہے - کبھی کہتے ہیں کہ عذاب و راحت کے وقت روح حاضر نہیں ہوتی اور "اگر" ہوتی ہے تو اس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا -چلیں قرآن کے احکمات کو آپ صحیح احادیث پر مقدم نہیں رکھتے تو جو لولی صاحب نے اتنی ساری صحیح احادیث پیش کیں ہیں کہ `جن میں یہ بات واضح ہے `کہ اعادہ روح قیامت کے دن ہی ہوگا - اس کا بھی آپ نے ابھی تک جواب پیش نہیں کیا؟؟ -

آپ کہتے ہیں کہ مردہ قبر میں نہ سن سکتا ہے نہ بول سکتا ہے - تو پھر جن احادیث میں جوتوں کی چاپ سننے کا ذکر ہے اورجنازہ اٹھانے کے وقت اس بات کا ذکر ہے کہ مردہ کہتا ہے کہ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو - اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ مردہ دنیا کے معاملات کا ادراک رکھتا ہے -؟؟

ظاہر ہے کہ جب عقیدے کا یہ معامله اس حد تک تذبذب کا شکار ہو تو آپ کسی کو لاکھ سمجھائیں کہ قبر میں موجود مردہ انسان زندوں کی استعانت پر قادر نہیں پھر بھی - اس کے شرک میں ملوث ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہونگے -کیوں کہ آپ کے نظریے سے قبر میں اعادہ روح بھی ثابت ہو رہا ہے اور یہ بی ثابت ہو رہا ہے کہ مردہ انسان دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ادراک بھی رکھتا ہے- اسی بنا پر اکثر اہل سنّت اس حدیث کے صحیح ہونے پر بھی ایمان رکھتے ہیں جس میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا کہ "جب میرا امتی میری قبر پر آ کر درود پڑھتا ہے تو الله میری روح کو مجھ پر (یعنی میرے جسم پر) لوٹاتا ہے اور میں اس کو سن کر اس کا جواب دیتا ہوں" -

اور اس حدیث کی بنا پر کتنے ہی لوگ ہیں جو شرک کے گناہ میں ملوث ہو چکے= آپ کس طرح ان کو قائل کریں گے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم تو وفات پا چکے ہیں اور ان کا اب اپنی امّت سے قیامت تک کے لئے رابطه ختم ہو چکا - ؟؟؟` `
  • صحیح احادیث پر ایمان واجب ہے۔
  • مردہ بولتا ہے لیکن ہم اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتے اسی طرح سوال و جواب کے وقت روح لوٹائی جاتی ہے جس کا مشاہدہ ہمارے لیے ممکن نہیں۔
  • مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے لیکن لوگوں کی التجا کو نہیں کیوں کہ جتنا حدیث میں ہے ہم اتنا ہی ماننے کے پابند ہیں۔
  • نبی اکرم ﷺ کے سلام کا جواب دینے کی حدیث صحیح ثابت نہیں۔
  • میرے عقیدے میں کوئی تذبذب نہیں ؛آپ کی عقل میں ابھی تذبذب ہے اور وجہ لاعلمی ہے۔
  • اچھا آپ بتلائیں کہ بریلوی حضرات سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو مردے زندہ کرنے کی صلاحیت عطا فرما دیتا ہے تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ
  • اس سے کتنے ہی لوگ شرک کے گناہ میں ملوث ہو چکے؟؟
  • کچھ تو عقل کریں؛میرا ایمان ہے کہ جس طرح رسول اللہﷺ نے خبر دی ہے مرنے کے بعد قبر میں میت کے جسم میں روح لوٹائی جاتی ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے میں نے کبھی مردوں کو نہیں پکارا؛ان میں سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں؛یہ آپ کی کم فہمی ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
@محمد علی جواد آپ کوئی ایسی حدیث یا آیت پیش کریں کہ قیامت سے پہلے کسی بھی صورت میں روح جسم میں واپس نہیں آئے گی۔
یہ بھی بتلائیں کہ مسند احمد میں مروی حدیث براءؓ کو آپ مانتے ہیں یا نہیں؟؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اسی بنا پر اکثر اہل سنّت اس حدیث کے صحیح ہونے پر بھی ایمان رکھتے ہیں جس میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا کہ "جب میرا امتی میری قبر پر آ کر درود پڑھتا ہے تو الله میری روح کو مجھ پر (یعنی میرے جسم پر) لوٹاتا ہے اور میں اس کو سن کر اس کا جواب دیتا ہوں" -
اور اس حدیث کی بنا پر کتنے ہی لوگ ہیں جو شرک کے گناہ میں ملوث ہو چکے= آپ کس طرح ان کو قائل کریں گے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم تو وفات پا چکے ہیں اور ان کا اب اپنی امّت سے قیامت تک کے لئے رابطه ختم ہو چکا - ؟؟؟` `
اولاً تو یہ حدیث ہی صحیح ثابت نہیں لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں۔
ثانیاً بر سبیل تنزل اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سلام کا جواب دیتے ہیں اور اس کے لیے آپ کی روح مبارک لوٹائی جاتی ہے؛اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ آپ ہر انسان کی ہر بات ہروقت سن لیتے ہیں؟؟؟
جو امور عقل،تجربے اور مشاہدے کے دائرے میں نہ آتے ہوں ان سے عام استدلال نہیں ہو سکتہ بل کہ وہ اپنے مورد پر بند رہتے ہیں؛ان پر مزید چیزون کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اہل سنت والجماعت روح اور جسم دونوں کے راحت اور عذاب کے قائل ہیں جبکہ باطل فرقے عذاب قبر کے قائل نہیں ہیں ۔موصوف بھی صرف روح کی راحت یا عذاب کے قائل ہیں ۔ان کا نظریہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد روح کو ایک برزخی جسم ملتا ہے اور اسی برزخی جسم کو قیامت تک راحت یا عذاب سے گزارا جائے گا اور عذاب قبر کا مطلب یہ ہے کہ ان برزخی جسموں کو جنت یا جہنم میں رکھا جائے گا وہی مقامات ان کی قبریں ہیں۔گویا بالفاظ دیگر جنت اور جہنم قبرستان کا دوسرا نام ہے؟ ویا للعجب اگر روح برزخی جسم میں داخل ہو جائے اور یہ انسان جنت یا جہنم ہی برزخی جسم کے ساتھ مکمل زندگی گزارے تو اس زندگی کے باوجود موصوف کے نزدیک قرآن وحدیث کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی حالانکہ جس نیا ہو یا پرانا ۔اگر جسم کے ساتھ روح کو زندگی عطا کرائی جائے تو پھر وہ مکمل زندگی ہو گی اور اس فلسفہ کو مان کر موصوف خود اپنے ہی فتویٰ کی رو سے کافر ہوئے۔اس لئے کہ دوزندگیوں اور دو موتوں کے علاوہ یہ تیسری زندگی اور قبر موت کہاں سے آ گئی کیونکہ جب قیامت برپا ہو گی تو یہ نیا برزخی جسم مر جائے گا اور پرانا جسم عنصری دوبارہ زندہ ہو جائے گا ۔اس طرح قبر کی زندگی کی وجہ سے موصوف نے جو سب ہی کو کافر قرار دے دیا تھا اب فتویٰ کی مشین گن کا رخ خود موصوف کی طرف ہو گیا اور وہ خود اپنے ہی فتویٰ کی رو سے کافر ہو گئے ۔اسے کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے ۔جب کہ علماء اسلام میت کو میت ہی مانتے ہیں اور میت قبر میں جو راحت و عذاب کو محسوس کرتی ہے تو یہ زندگی خواب کی طرح کی زندگی ہے جسے کوئی سونے والا دیکھتا ہے اور اسے نوع من الحیاۃ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ موت روح اور بدن کی مفارقت اور جلالی کا نام ہے اور روح اس وقت جنت یا جہنم میں ہوتی ہے جبکہ جسم قبر میں راحت یا عذاب میں مبتلا ہوتا ہے ۔قرآن و حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر اسی طرح ایمان رکھنا چاہئے جس طرح کہ وہ بیان ہوا ہے اور اس میں اپنی طرف سے کوئی مین میکھ نہیں نکالنی چاہئے۔عذاب قبر پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔البتہ اس کی تفصیلی کیفیت تو اللہ کے علم کی طرف تفویض کر دینا چاہئے اور اسی میں ایمان کی حفاظت ہے۔
(بہ شکریہ ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ صاحب دامانوی دامت برکاتہم)
 
Top