موجودہ جسم میں روح کا لوٹایا جانا اس طرح نہیں ہے جیسا موجودہ زندگی میں ہے؛اسی طرح موجودہ جسم کو عذاب و ثواب جو ہوتا ہے اس میں ایک تو یہ ضروری نہیں کہ اس میں روح موجود ہو کیوں احادیث میں صراحتاً اس کا ذکر نہیں اور نہ ہی تعلق بالجسد کے الفاظ حدیث میں آئے ہیں؛بالفرض تعلق روح بالجسد مانا بھی جائے تو اس کی کیفیت موجودہ دنیوی تعلق جیسی نہیں لہٰذا اس سے شرک کا دروازہ بالکل نہیں کھلتا اور نہ ہی وہ ہماری آوازوں کو مستقل طور پر سنتے ہیں الا یہ کہ خدا انھیں جب سنادے تو سن لیتے ہیں؛اسی طرح مردوں سے مافوق الاسباب طریقے سے التجا اور استغاثہ وغیرہ حرام ہے بل کہ زندوں سے بھی حرام ہے۔
الحاصل یہ کہ منکرین عذاب قبر دراصل شرک کے خطرے کے پیش نظر اس کا انکار کرتے ہیں لیکن یہ ان کی جہالت اور عقلی موشگافیوں کا شاخسانہ ہے؛ھداھم اللہ و ایانا
السلام و علیکم -
محترم - ایک طرف آپ وہ احادیث نبوی بڑی زور و شور سے پیش کرتے ہیں جن میں الفاظ ہیں کہ فرشتوں کے سوال و جواب کے وقت مردے کی روح کو اسس جسم میں لوٹایا جاتا ہےاور وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے- اور اب اس سے انکار کررہے ہیں کہ
جسم کو عذاب و ثواب جو ہوتا ہے اس میں ایک تو یہ ضروری نہیں کہ اس میں روح موجود ہو کیوں احادیث میں صراحتاً اس کا ذکر نہیں اور نہ ہی تعلق بالجسد کے الفاظ حدیث میں آئے ہیں
اور ساتھ یہ بھی که رہے ہیں کہ
اس سے شرک کا دروازہ نہیں کھلتا اور شرک کے خوف کے پیش نظر زمینی قبر کے عذاب و ثواب کا انکار کرنا جہالت ہے ؟؟؟
تو محترم - شرک تو وہ گناہ ہے کہ جس کی الله کے ہاں کوئی معافی نہیں ہے -یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عقیدہ کی بنیاد پر شرک پھیلنے کا اندیشہ ہو اور الله قرآن میں اس کی وضاحت ہی نہ کرے اور نہ احادیث سے ثابت ہو کہ حقیت کیا ہے -قرآن نے اس چیز کو بڑے واضح انداز میں پیش کردیا کہ :
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ -أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢١-٢٢
اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں-
وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے-