عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تشریع عام کفر اکبر ہے اس قول کی طرف شیخ محمد ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ اور شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ گئے ہیں۔
انکی دلیل :
قرآن و سنت میں ایسے حکمران کے کافر (کفر اکبر) ہونے کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے اور ان علماء نے بھی صرف تعلیل بیان کی ہے دلیل نہیں ۔ اسے لئے جب شیخ صالح الفوزان نے کتاب التوحید میں شیخ محمد بن ابراہیم کا قول نقل کیا اس کے ساتھ دلیل بیان نہیں کی ۔ نہ شیخ محمد ابراہیم ؒنے اور نہ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے دلیل بیان کی ۔
شیخ محمد ابراہیم اورشیخ صالح الفوزان کی تعلیل یہ ہے کہ ایسا حکمران جو پوری شریعت کے قوانین کو چھوڑ کر اپنے یا کسی اور کے قوانین کو نافذ کرتا ہے اور اپنے ما تحت سب پرلاگو کر دیتا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اس نے ان قوانین کو اللہ تعالی کے فیصلے سے افضل اور بہتر سمجھا ہے یا اس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ قوانین اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے اچھے ہیں ۔(اور جن عام آیات سےآپ نے استدلال کیا ہے ان کا جواب اس کے بعد ملاحظہ فرمائیں)
جواب:
ان جلیل القدر واجب الاحترام فاضل علماء کی یہ تعلیل درست نہیں ہے مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔تکفیر کے اہم ضوابط میں سے ایک ضابطہ یہ ہے کہ کافر صرف وہ ہے جس کے کفر پر کوئی دلیل موجود ہو قرآن سے یا سنت سے یا اجماع سے ۔ اور اس مسئلے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
۲۔ لازم سے کسی کے کافر ہونے کا استدلال کرنا بھی درست نہیں کیونکہ لازم کا بھی بعض اوقات ثبوت نہیں ہوتا ،یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حکمران ایسا کرنے کے باوجود بھی ان قوانین کو شریعت کے قوانین سے افضل نہ سمجھتا ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
‘‘یہ لازم نہیں ہے کہ اگر کوئی کہنے والا کچھ ایسا کہے جس سے اللہ تعالی کے اسماء و صفات کی تعطیل مقصود ہو، کہ اس کے عقیدہ میں تعطیل ہے، بلکہ ایسا شخص اسماء وصفات کو ثابت کرنے کاعقیدہ رکھتا ہے لیکن اسے اس لازم کا علم ہی نہیں۔’’(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر16 صفحہ نمبر461)
۳۔ اس لازم کے مسئلہ میں شک ہے کہ اس کا ایسا عقیدہ ہے کہ نہیں ؟ اور جب شک ہوتا ہے تو شک کی بنیاد پر دلیل قائم نہیں ہوسکتی اور شریعت کی حدیں بھی ساقط ہو جاتی ہیں اوریہ تو تکفیر کا مسئلہ ہے جو حدود و تعزیرات سے زیادہ سنگین ہے۔اور اس مشہور قاعدہ کے بھی خلاف ہے ۔ کہ جب احتمال وارد ہوتا ہے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے۔
۴۔یہ لازم مشہور شرعی قاعدہ کے خلاف ہے
’’جس کا اسلام یقین سے ثابت ہو جائے اسےمحض شک کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جا سکتا‘‘ ۔ (فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر12صفحہ نمبر466)
۵۔ عقیدہ کا تعلق دل سے ہوتا ہے یعنی کسی شخص کا یہ عقیدہ ہے کہ اس نے فلاں چیز کو فلاں سے بہتر سمجھا ہے تو اسکا دل سے تعلق ہے اور دل کے احوال تو صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے جب تک کہ وہ شخص اپنی زبان سے اقرار نہیں کرتا کہ اس نے غیر اللہ کے فیصلہ کو اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے افضل سمجھا ہے اس پر کفر اکبر کا فتوی لگانا درست نہیں۔ اور اس مسئلہ کی دلیل حضرت اسامہ بن زید(رضی اللہ عنہ) کا مشہور قصہ صحیح بخاری اور مسلم میں ضروری ہے ۔جب انہوں نے ایک کافر کو کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) پر شدید غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا :
کیا تو نے اس کا سینہ کھول کے دیکھا تھا کہ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا تھا؟۔۔۔۔۔۔(بخاری،ح6872، 4269،مسلم،273)
۶۔اس لازم کے طریقے سے ایسے حکمران پر کفر اکبر کا فتوی لگانے سے دوسری لازم بات نکلتی ہے جس کے کفراکبر نہ ہونے کا اهل السنة والجماعة کااجماع ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ،جو گھر کا سربراہ ہے اپنے گھر میں شراب خانہ کھول لیتا ہے اور اپنے ماتحت گھر والوں کو یہ کاروبار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور یہ شخص کسی کی نصیحت سننے کے لئے تیار بھی نہیں ہے تو ایسا شخص کافر (کفر اکبر) نہیں ہے بلکہ کافر (کفراصغر) اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔
علامہ ابن عبدالبر(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’اہل السنة والجماعة ، (اہل فقہ اوراہل اثر دونوں کا) اتفاق ہے کسی شخص کو اس کا گناہ اسلام سے خارج نہیں کرتا ہے چاہے یہ گناہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو۔‘‘
(التمہید جلد نمبر16صفحہ نمبر315)
(نوٹ: ظاہر ہے کفر اورشرک اکبر کے علاوہ گناہ مقصود ہیں)
۷۔ یہ لازم بات درست نہیں ہے اسی لیے علامہ محمد بن صالح العثیمین (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا۔
ملاحظہ فرمائیں:
ان کا پہلا قول ،وہ فرماتے ہیں :
’’کیونکہ جس نے ایسا قانون نافذ کیا ،جو اسلامی شریعت کے خلاف ہے تو اس شخص نے صرف اس لئے ایسا کیا کہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ قانون جو اس نے نافذ کیا ،اسلام سے بہتر ہے اور لوگوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے‘‘(فتاوی ابن العثیمین جلد نمبر 2صفحہ نمبر143)
ان کا دوسرا قول کہ جس میں انہوں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کیا ،وہ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی حکمران قانون نافذ کرے اور اسے دستور بنا دے جس پر لوگ چلتے رہیں اور اس کایہ عقیدہ ہے کہ وہ اس میں ظالم ہے اور حق تو قرآن وسنت میں ہے تو ہم ایسے شخص کو کافر نہیں کہہ سکتے کافر تو صرف وہ ہے جو غیر اللہ کے فیصلے کو بہتر سمجھے یا اللہ تعالی کے فیصلے کے برابر سمجھے۔‘‘
یہ فتوی( التحذیر فی مسئلہ التکفیر) کیسٹ میں موجود ہے اور اس فتوی کی تاریخ 22/03/1420ھ ہےجیسا کہ اس کیسٹ کےشروع میں بیان کیا گیاہے اورکتابی شکل میں بھی مارکیٹ میں موجود ہے
اقتباس:
از مسئلہ تحکیم اور تکفیریوں کی تلبیسات کا علمی محاکمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ علماء کا احترام ہر حال میں کرنا واجب ہے مگر یہ احترام جب تقلید کی شکل اختیار کرے تو اجتناب لازم ہے۔
الشیخ محمد رح اور الشیخ صالح الفوزان کے علماء سلف ہیں مگر بشر ہیں۔ اور الحمد اللہ مجتہد بھی ۔۔ تو ان کی اس اجتہادی خطا ، جو کہ سلف صالحین کے منہج سے مناسبت نہیں رکھتی، کو بطور منہج لینا اور اس کی ترویج کرنا جائز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی حال تو مقلدین کا ہے جو آجکل مسئلہ تکفیر کو لیکر اختیار کیا گیا اور سلفیوں کو ان شیوخ کے نام پر گمراہ کیا گیا ۔۔۔ (ذاتی تبصرہ)
ان ھذہ تذکرۃ فمن شاء اتخذ الی ربہ سبیلا