لگتاہے کہ کفایت اللہ صاحب نے خود یہ کتاب نہیں پڑھی ہے اس لئے اس کوجواب کے طورپر پیش کیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام رمضان نامی کتاب ناصرالدین الالبانی کی ہے جوانہوں نے لکھی تھی اس کے بعد شیخ اسماعیل الانصاری کی کتاب ائی ۔ انہوں نے قیام رمضان کے طبع ثانی کے مقدمہ میں تھوڑااورنہایت مختصر طورپر اس کتاب کا ذکر کیاہے اورکچھ اپنادفاع کیاہے۔
اس کتاب کو شیخ اسماعیل الانصاری کی کتاب کا جواب کہناغلط ہے۔والسلام
میرے خیال سے جمشید صاحب نے نہ تو علامہ البانی کی کتاب پڑھی ہے اورنہ ہی انصاری صاحب کی کتاب پڑھی بلکہ صرف ورق گردانی کرلیا ہوگا جیساکہ ان کے جامعات میں صحیحین اوردیگرکتب احادیث کی ورق گردانی ہوتی ہے۔
جمشیدصاحب کے مراسلہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے علم میں تراویح کے موضوع پر علامہ البانی کی صرف ایک ہی کتاب ہے اور وہ ہے ’’قیام رمضان ‘‘ اور انصاری صاحب نے اسی کتاب کا جواب دیا کیونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی یہ کتاب ’’قیام رمضان ‘‘ پہلے لکھی گئی اور
اس کے بعد شیخ اسماعیل الانصاری کی کتاب ائی۔
پھر جب علامہ البانی نے اپنی کتاب ’’قیام رمضان ‘‘ کا گلا ایڈیشن نکالا تو اس کتاب
کے مقدمہ میں تھوڑااورنہایت مختصر طورپر اس کتاب کا ذکر کیاہے اورکچھ اپنادفاع کیاہے۔
یہ ساری مصیبت اصل میں اس قیاس آرائی والی عادت کا نتیجہ ہے جو موصوف کی موروثی متاع ہے !!!
محترم ! کم ازکم حقائق کی دنیا میں قیاس آرائی نہ کیا کریں۔
دراصل تراویح کے موضوع پر علامہ البانی رحمہ اللہ کی دوکتابیں ہیں ۔
اول: صلاۃ التراویح
دوم: قیام رمضان
انصاری صاحب نے جس کتاب کا جواب دیا تھا وہ
’’صلاۃ التراویح ‘‘ ہے نہ کہ
’’قیام رمضان ‘‘۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ انصاری صاحب نے اپنی کتاب میں علامہ البانی کی جو عبارتیں نقل کی ہیں وہ صرف ’’صلاۃ التراویح ‘‘ ہی میں ملتی ہیں:
مثلا:
انصاری صاحب علامہ البانی سے نقل کرتے ہیں:
إن سلم ممن بينه وبين محمد بن يوسف فالعلة منه أعني عبد الرزاق لأنه وإن كان ثقة حافظا ومصنفاص مشهورا فقد كان عي في آخر عمره فتغير[تصحيح حديث صلاة التراويح عشرين ركعة والرد على الألباني في تضعيفه ص: ١٧]۔
یہ عبارت علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’قیام رمضان ‘‘ میں نہیں ہے بلکہ ’’صلاۃ التراویح ‘‘ میں ہے ملاحظہ ہو:
إن سلم ممن بينه وبين محمد بن يوسف فالعلة منه أعني عبد الرزاق لأنه وإن كان ثقة حافظا ومصنفاص مشهورا فقد كان عي في آخر عمره فتغير [صلاة التراويح - الألباني ص: 57]
اسی طرح انصاری صاحب علامہ البانی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لا يجوز أن يقال: عن إحداها تقوي الأخرى لأن الشرط في ذلك أن يكون شيوخ كل من الذين أرسلاها غير شيوخالآخر وهذ لم يثبت هنا لأ كلا من الراويين يزيد وابن سعيد مدني فالذي يغلب على الظن في هذه الحالة أنهما اشتركا في الرواية عن بعض الشيوخ وعليه فمن الجائز أن أن يكون شيخهما الذي تلقيا عنه هذه الرواية إنما هو شيخ واحد وهذا قد يكون مجهولا أو ضعيفا لا يحتج به ومن لجائز أنهما تلقياها عن شيخين متغايرين ولكنهما ضعيفان لا يعتبر بهما[تصحيح حديث صلاة التراويح عشرين ركعة والرد على الألباني في تضعيفه ص: ٢١،٢٢]۔
یہ عبارت علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’قیام رمضان ‘‘ میں نہیں ہے بلکہ ’’صلاۃ التراویح ‘‘ میں ہے ملاحظہ ہو:
لا يجوز أن يقال: عن إحداها تقوي الأخرى لأن الشرط في ذلك أن يكون شيوخ كل من الذين أرسلاها غير شيوخالآخر وهذ لم يثبت هنا لأ كلا من الراويين يزيد وابن سعيد مدني فالذي يغلب على الظن في هذه الحالة أنهما اشتركا في الرواية عن بعض الشيوخ وعليه فمن الجائز أن أن يكون شيخهما الذي تلقيا عنه هذه الرواية إنما هو شيخ واحد وهذا قد يكون مجهولا أو ضعيفا لا يحتج به ومن لجائز أنهما تلقياها عن شيخين متغايرين ولكنهما ضعيفان لا يعتبر بهما[صلاة التراويح - الألباني ص: 67]۔
بلکہ بعض مقامات پر تو انصاری صاحب نے صراحت کردی ہے کہ ان رد کا علامہ البانی کی کتاب ’’صلاۃ التراویح‘‘ پر ہے نہ کی ’’قیام رمضان‘‘ پر ، مثلا ص٣٠پر لکھتے ہیں:
قلت وفی نفس ھذا الخطا وقع الالبانی فی ’’رسالة التراویح ‘‘[تصحيح حديث صلاة التراويح عشرين ركعة والرد على الألباني في تضعيفه ص: ٣٠]۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ انصاری صاحب نے علامہ البانی کی کتاب ’’صلاۃ التراویح ‘‘ پر برائے نام رد کیا تھا جس کا جواب تو خود اصل کتاب ہی میں موجودہے اگر کوئی بھی شخص انصاری صاحب کی کتاب کوپڑھ کرعلامہ البانی کی اصل کتاب کی طرف مراجعہ کرے گا تو اصل کتاب ہی میں انصاری صاحب کی بات کا جواب مل جائے گا کیونکہ انصاری صاحب نے اپنی کتاب میں تلبیس و تدلیس سے کام لیا ہے بلکہ علامہ البانی کے بقول ان پر جھوٹ بھی بولاہے۔
جھوٹ اور تلبیسات کے سہارے جو رد کیا جاتاہے اس کے ازالہ کے لئے اصل کتاب کی طرف مراجعہ ہی کافی ہوتا ہے ، البتہ انصاری صاحب کے جومغالطات تھے تو ان کا مختصر مگر جامع جواب علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی دوسری کتاب ’’قیام رمضان ‘‘ میں دے دیا ہے، اس کتاب میں علامہ البانی کاجواب پڑھیں انصاری صاحب کی کتاب کی پوری حقیقت سامنے آجائے گی۔