- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
مسئلہ تراویح اور سعودی علماء
ڈاکٹر حافظ محمد اسحق زاہد
1۔صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا :مکہ مکرمہ کی مسجد ِ حرام میں ۲۰ تراویح کے بارے میں اکثر وبیشتر سوال کیا جاتا ہے کہ جب نبی کریمﷺ کی سنت آٹھ سے زیادہ تراویح نہیں ہیں، تو پھر بیت اللہ میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف سعودی عرب کی تمام مساجد میں جواکثر وبیشتر حکومت کے ہی زیر نگرانی ہیں، آٹھ تراویح پڑھی جاتی ہیں، پھر بیت اللہ میں کیوں ۲۰ تراویح پڑھائی جاتی ہیں؟ تراویح کے بارے میں سعودی عرب کے جید علما کا موقف کیا ہے؟زیر نظر مضمون میں اسی مسئلہ کو زیر بحث بنایا گیا ہے۔ ح م
رمضان میں رسول اللہﷺ کی نماز کیسے تھی ؟تو اُنہوں نے جواباًکہا :
’’ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرۃ رکعۃ‘‘ (صحیح بخاری: ۲۰۱۳)
’’رسو ل اللہﷺ رمضان میں اوردیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ ‘‘
2۔ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے، اگلی رات آئی تو ہم جمع ہوگئے، اور ہمیں امید تھی کہ آپؐ گھر سے باہر نکلیں گے لیکن ہم صبح تک انتظار کرتے رہ گئے۔ پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں بات کی تو آپؐ نے فرمایا: مجھے خطرہ تھا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردیا جائے۔ ‘‘ (صحیح ابن خزیمہ :۱۰۷۰،ابن حبان۲۴۰۱، ابویعلی ۳؍۳۳۶، صحیح بخاری ۲۰۱۲ )
3۔امام مالک نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ’’حضرت عمر ؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم داری ؓ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔‘‘ (موطأ: ۱؍۷۳،مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۳۹۱)اس حدیث کی سند کو شیخ البانی ؒ نے تخریج صحیح ابن خزیمہ میں حسن قرار دیا ہے، اس کے راوی عیسیٰ بن جاریہ پر کچھ محدثین نے جرح کی ہے جو مبہم ہے، اور اس کے مقابلے میں ابوزرعہؒ اورابن حبان ؒنے اس کی تو ثیق کی ہے ،لہٰذا اسے جرحِ مبہم پر مقدم کیا جائے گا۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ
1۔رسول اللہﷺکی رمضان اوردیگر مہینوں میں رات کی نمازگیارہ رکعات تھی ۔
2۔یہی گیارہ رکعات آپﷺنے رمضان میں صحابہ کرامؓ کو بھی باجماعت پڑھائیں ۔
3۔پھر جب حضرت عمرؓ نے نمازِ تراویح کے لئے لوگوں کو جمع کیا، تو اُنہوں نے بھی دوصحابہ کرام اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓکو گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا ۔