مسئلہ خاص ہے اور دلائل عام۔
چاہئے تو یہ تھا کہ اشماریہ صاحب پیش فرماتے کہ پیشاب سے اور خون سے فاتحہ لکھنا فلاں فلاں دلیل سے ثابت ہے۔ تداوی بالمحرم کی غیرمتعلق بحث چھیڑ دی گئی ہے۔
اصل سوال اب بھی تشنہ طلب ہے کہ یہ کیونکر معلوم ہوگا کہ پیشاب سے ، خون سے قرآن لکھنے میں شفا ہے؟
فرماتے ہیں غالب ظن کی بنیاد پر۔ تو سوال وہیں رہا کہ یہ ظن غالب آئے گا کہاں سے؟
کل کو کوئی ظالم یہ کہے کہ توہین رسالت بھی جائز ہے اگر اس سے بیماری کے رفع ہونے کی امید ہو، تو معلوم نہیں ان کا کیا جواب ہوگا؟
میں یہاں اس خاص مسئلے پر بات کرتا ہوں۔ یہ مسئلہ احناف کا مفتی بہ نہیں ہے یعنی احناف کو خود یہ اجتہادی موقف تسلیم نہیں۔
سوال یہ ہے کہ بعض علماء نے یہ موقف کیوں اختیار کیا؟ (یاد رہے اس قسم کے مسائل میں موقف غلط بھی ہو تو ایک ثواب کی امید ہوتی ہے)
آپ ثواب کی امید کی بات کرتے ہیں؟ تف ہے۔ آپ اس غیر حقیقی، ناممکن الوقوع (جس کا آپ کو بھی اعتراف ہے) مسئلہ پر ان کے گناہ گنیں، بلکہ ایمان کی خیر منائیں۔
اہلحدیث احادیث کی بنا پر جنبی کے قرآن کو ہاتھ لگانے کو جائز قرار دیں تو توہین قرآن کے فتوے عائد ہو جاتے ہیں، اور آپ کے علماء پیشاب سے قرآن لکھنے جیسی غلیظ و کریہہ باتیں کریں، تو پھر مجتہد اور امید ثواب کے حق دار ٹھہریں۔کیا منصفی ہے جناب۔
"نہایہ میں ذخیرہ سے روایت کیا گیا ہے کہ (تداوی بالمحرم) جائز ہے اگر معلوم ہو کہ اس میں شفا ہے اور کوئی اور دوا معلوم نہ ہو۔"
یہ دو شرطیں ہیں:۔
شفا کا ہونا معلوم ہو۔
دوسری کوئی دوا معلوم نہ ہو۔
چنانچہ ان مذکورہ فقہاء نے (جنہوں نے یہ استدلال کیا ہے) اس حالت میں جب تین شرائط موجود ہوں: نکسیر رک نہ رہی ہو، شفا کا ہونا معلوم ہو اور کوئی دوسری دوا معلوم نہ ہو (اقول: یا مہیا نہ ہو) اسے خوف ہلاکت سمجھ کر اسے جائز قرار دیا ہے۔
ان تین شرطوں میں سے پہلی عقلا معلوم ہو جاتی ہے کہ نکسیر رک جائے تو ضرورت ہی کیا ہے علاج کی اور نکسیر جاری رہے تو ہلاکت یقینی ہوتی ہے اگرچہ وقت میں فرق ہوتا ہے۔
باقی دو اصولی شرائط ذخیرہ کے حوالے سے ذکر کردی گئی ہیں۔
اس مسئلے پر عمل حقیقتا تقریبا ناممکن ہے کیوں کہ شفا کا معلوم ہونا یہ ناممکن ہے۔
(علامہ شامی نے علم کی مراد غلبہ ظن کو قرار دیا ہے لیکن وہ تداوی بالمحرم کے عام مسئلے میں ہے اس جزئیے کے لیے نہیں۔ کیوں کہ یہ بحث کفر ہے اور اس کے لیے یقین شرط ہے ورنہ اظہار کفر کا فائدہ ہی نہیں۔ البتہ بسااوقات یقین کے خلاف بھی نتیجہ نکل آتا ہے جیسے کہ مکرِہ ادائے کفر کے باوجود قتل کردے۔)
ان نام نہاد مفتی حضرات کو کھلواڑ کے لئے قرآن کی توہین کرنا ہی رہ گیا ہے۔ کوئی کہے کہ اشماریہ صاحب نکسیر نہیں رک رہی، صاحب آپ کا نام ہی پیشاب سے لکھ دیتا ہوں یا آپ کے منہ پر پیشاب کر دیتا ہوں، شاید نکسیر رک جائے ۔ تو اشماریہ صاحب گھن گھرج بہت کریں گے لیکن مانیں گے نہیں۔
خود تسلیم فرما رہے ہیں کہ یہ مسئلہ ناممکن الوقوع ہے یعنی شفا کا معلوم ہونا پیشاب سے فاتحہ لکھنے میں۔
جب مسئلہ ناممکن الوقوع ہے تو بطور مثال بھی پیش کرنا کیا توہین قرآن کے زمرے میں نہیں آتا؟
کیا حرام سے علاج اور توہین رسالت، توہین قرآن میں کوئی فرق نہیں؟
یہاں تو اشماریہ صاحب اس مسئلے سے براءت کی کوشش میں ہیں۔ لیکن معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"فقد ثبت ذلک فی المشاھیر من غیر انکار والذی رعف فلا یرقا دمہ فارادان یکتب بدمہ علی جبھۃ شیئا من القرآن قال ابوبکر الاسکاف یجوز و کذا لو کتب علی جلد میتت اذاکان فیہ شفاء کذافی خزانہ المفتین"
پس یقینا مشاھیر میں بلا انکار کے یہ بات ثابت ہے کہ جس کسی کی نکسیر پھوٹی اور اس کا خون بند نہیں ہوتا پس ارادہ کیا کہ اس کے خون سے اس کی پیشانی پر کوئی آیت قرآن لکھے تو ابوبکر الاسکاف نے فرمایا جائز ہے ا اور اسی طرح اگر شفاء کیلئے مردار کی کھال پر آیت قرآن لکھے تو جائز ہےاسی طرح خزانۃ میں لکھا ہے۔
یاد رہے کہ فتاویٰ عالمگیری کے بارے میں اشماریہ صاحب کے ممدوح تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ اس کتاب میں "صرف وہی مسائل درج ہیں جن پر محقق علماء نے اعتماد کیا ہے"
لہٰذا یا تو اشماریہ صاحب ان احناف سے براءت کا اظہار کریں جننہوں نے اس توہین آمیز مثال کو ذکر کیا ہے، ورنہ یہ مانیں کہ پیشاب سے فاتحہ لکھنے والا یا اسے جائز قرار دینے والا دونوں درست ہیں۔ یہ کیا کہ جو شخص پیشاب سے فاتحہ لکھے کسی بیماری کی روک کے لئے وہ تو اپنے ایمان کی خیر منائے اور جو شخص اس غلیظ و توہین آمیز فعل کو جواز مہیا کرے وہ پھر مجتہد کا مجتہد اور ثواب کا حقدار رہے ؟
یہ تو مسئلہ رہا ایک رف۔ قرآن کی توہین کا معاملہ کچھ نیا نہیں اور نہ اتنا اہم ہے آپ کے نزدیک۔ مثلا آپ کے ممدوح اشرف علی تھانوی صاحب نے لکھ رکھا ہے کہ:
"یہ آیت ایک پرچے پر لکھ کر پاک کپڑے میں لپیٹ کر عورت کی بائیں ران میں باندھے یا شیرنی پر پڑھ کر اس کو کھلا دے ان شاءاللہ بچہ آسانی سے پیدا ہو۔" ـبہشتی زیور حصہ نہم ص 642 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی
اب پاک کپڑے میں لپیٹنے کو باطل تاویل کے لئے مت استعمال کر لیجئے گا۔ حال ہی میں آپ ایک دوسرے دھاگے میں فرما چکے ہیں کہ قرآن کا غلاف قرآن ہی کے حکم میں ہے۔